اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

ادب و سنت

رسول اسلام (ص) كے آداب و سنن كو پيش كرنے سے قبل مناسب ہے كہ ادب اور سنت كى حقيقت كے بارے ميں گفتگو ہوجائے _

ادب: علمائے علم لغت نے لفظ ادب كے چند معانى بيان كئے ہيں ، اٹھنے بيٹھنے ميں تہذيب اور حسن اخلاق كى رعايت اور پسنديدہ خصال كا اجتماع ادب ہے(1)

مندرجہ بالا معنى كے پيش نظر در حقيقت ادب ايسا بہترين طريقہ ہے جسے كوئي شخص اپنے معمول كے مطابق اعمال كى انجام دہى ميں اس طرح اختيار كرے كہ عقل مندوں كى نظرميں داد و تحسين كا مستحق قرار پائے ، يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ ” ادب وہ ظرافت عمل اور خوبصورت چال چلن ہے جسكا سرچشمہ لطافت روح اور پاكيزگى طينت ہے ” مندرجہ ذيل دو نكتوں پر غور كرنے سے اسلامى ثقافت ميں ادب كا مفہوم بہت واضح ہوجاتاہے_

پہلا نكتہ :

عمل اسوقت ظريف اور بہترين قرار پاتاہے جب شريعت سے اس كى اجازت ہو اور حرمت كے عنوان سے اس سے منع نہ كيا گيا ہو_

لہذا ظلم ، جھوٹ، خيانت ، بر ے اور ناپسنديدہ كام كيلئے لفظ ادب كا استعمال نہيں ہو سكتا دوسرى بات يہ ہے كہ عمل اختيارى ہو يعنى اسكو كئي صورتوں ميں اپنے اختيار سے انجام دينا ممكن ہو پھر انسان اسے اسى طرح انجام دے كہ مصداق ادب بن جائے_ (۲)

دوسرا نكتہ :

حسن كے اس معنى ميں كہ عمل زندگى كى آبرو كے مطابق ہو، كوئي اختلاف نہيں ہے ليكن اس معنى كے اپنے حقاءق سے مطابقت ميں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، اديان اور مذاہب كى نظر ميں اسى طرح چھوٹے معاشروں جيسے خاندانوں كى نظر ميں بہت ہى مختلف ہے _چونكہ نيك كام كو اچھے كام سے جدا كرنے كے سلسلہ ميں لوگوں ميں مختلف نظريات ہيں مثلاً بہت سى چيزيں جو ايك قوم كے درميان آداب ميں سے شمار كى جاتى ہيں، جبكہ دوسرى اقوام كے نزديك ان كو ادب نہيں كہا جاتا اور بہت سے كام ايسے ہيں جو ايك قوم كى نظر ميں پسنديدہ ہيں ليكن دوسرى قوموں كى نظر ميں برے ہيں(۳)

اس دوسرے نكتہ كو نگاہ ميں ركھنے كى بعد آداب رسول اكرم (ص) كى قدر و قيمت اس وجہ سے ہے كہ آپ كى تربيت خدا نے كى ہے اور خدا ہى نے آپ كو ادب كى دولت سے نوازا ہے نيز آپ كے آداب ، زندگى كے حقيقى مقاصد سے ہم آہنگ ہيں اور حسن كے واقعى اور حقيقى مصداق ہيں _

امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا:

”ان اللہ عزوجل ادب نبيہ (ص) على محبتہ فقال : انك لعلى خلق عظيم”

خدا نے اپنى محبت و عنايت سے اپنے پيغمبر(ص) كى تربيت كى ہے اس كے بعد فرماياہے كہ: آپ(ص) خلق عظيم پر فاءز ہيں (۴)

آنحضرت (ص) كے جو آداب بطور يادگار موجود ہيں ان كى رعايت كرنا در حقيقت خدا كے بتائے ہوئے راستے ” صراط مستقيم ” كو طے كرنا اور كاءنات كى سنت جاريہ اور قوانين سے ہم آہنگى ہے_

ادب اور اخلاق ميں فرق

باوجودى كہ بادى النظر ميں دونوں لفظوں كے معنى ميں فرق نظر نہيں آتاہے ليكن تحقيق كے اعتبار سے ادب اور اخلاق كے معنى ميں فرق ہے _

علامہ طباطبائي ان دونوں لفظوں كے فرق كو اجاگر كرتے ہوئے فرماتے ہيں :

ہر معاشرہ كے آداب و رسوم اس معاشرہ كے افكار اور اخلاقى خصوصيات كے آئينہ دار ہوتے ہيں اس لئے كہ معاشرتى آداب كا سرچشمہ مقاصد ہيں اور مقاصد اجتماعي، فطرى اور تاريخى عوامل سے وجود ميں آتے ہيں ممكن ہے بعض لوگ يہ خيال كريں كہ آداب و اخلاق ايك ہى چيز كے دو نام ہيں ليكن ايسا نہيں ہے اسلئے كہ روح كے راسخ ملكہ كا نام اخلاق ہے در حقيقت روح كے اوصاف كا نام اخلاق ہے ليكن ادب وہ بہترين اور حسين صورتيں ہيں كہ جس سے انسان كے انجام پانے والے اعمال متصف ہوتے ہيں (۵)

ادب اور اخلاق كے درميان اس فرق پر غور كرنے كے بعد كہا جاسكتاہے كہ خلق ميں اچھى اور برى صفت ہوتى ہے ليكن ادب ميں فعل و عمل كى خوبى كى علاوہ اور كچھ نہيں ہوتا، دوسرے لفظوں ميں يوں كہاجائے كہ اخلاق اچھا يا برا ہوسكتاہے ليكن ادب اچھا يا برا نہيں ہوسكتا_

رسول اكرم (ص) كے ادب كى خصوصيت

روزمرہ كى زندگى كے اعمال ميں رسول خدا (ص) نے جن آداب سے كام لياہے ان سے آپ نے اعمال كو خوبصورت و لطيف اور خوشنما بناديا اور ان كو اخلاقى قدر وقيمت بخش دى _

آپ كى سيرت كا يہ حسن و زيبائي آپ كى روح لطيف ، قلب ناز ك ا5ور طبع ظريف كى دين تھى جن كو بيان كرنے سے ذوق سليم اورحسن پرست روح كو نشاط حاصل ہوتى ہے اور اس بيان كو سن كر طبع عالى كو مزيد بلندى ملتى ہے _ رسول خدا (ص) كى سيرت كے مجموعہ ميں مندرجہ ذيل اوصاف نماياں طور پر نظر آتے ہيں _

الف: حسن وزيبائي ب: نرمى و لطافت ج: وقار و متانت

ان آداب اور پسنديدہ اوصاف كے سبب آپ(ص) نے جاہل عرب كى بدخوئي ، سخت كلامى و بدزبانى اور سنگدلى كو نرمى ، حسن اور عطوفت و مہربانى ميں بدل ديا، آپ (ص) نے ان كے دل ميں برادرى كا بيچ بويا اور امت مسلمہ كے درميان آپ (ص) نے اتحاد كى داغ بيل ڈالي_

رسول خدا (ص) كے آداب

اپنے مدمقابل كے ساتھ آپ (ص) كا جو سلوك تھا اس كے اعتبار سے آپ (ص) كے آداب تين حصوں ميں تقسيم ہوتے ہيں _

1_ خداوند عالم كے روبرو آپ (ص) كے آداب

2_ لوگوں كے ساتھ معاشرت كے آداب

3 _ انفرادى اور ذاتى آداب

انہيں سے ہر ايك كى مختلف قسميں ہيں جن كو آءندہ بيان كيا جائے گا _

خدا كے حضور ميں بارگاہ خداوندى ميں رسول خدا (ص) كى دعائيں بڑے ہى مخصوص آداب كے ساتھ ہوتى تھيں يہ دعائيں خدا سے آپ (ص) كے عميق ربط كا پتہ ديتى ہيں_

وقت نماز

نماز آپ (ص) كى آنكھوں كا نور تھى ،آپ (ص) نماز كو بہت عزيز ركھتے تھے چنانچہ آپ (ص) ہر نماز كو وقت پر ادا كرنے كا اہتمام كرتے تھے ، بہت زيادہ نمازيں پڑھتے اور نماز كے وقت اپنے آپ (ص) كو مكمل طور پر خدا كے سامنے محسوس كرتے تھے_

نماز كے وقت آنحضرت (ص) كے اہتمام كے متعلق آپ (ص) كى ايك زوجہ كا بيان ہے كہ ”رسول خدا (ص) ہم سے باتيں كرتے اور ہم ان سے محو گفتگو ہوتے ، ليكن جب نماز كا وقت آتا تو آپ (ص) كى ايسى حالت ہوجاتى تھى گويا كہ آپ (ص) نہ ہم كو پہچان رہے ہيں اور نہ ہم

آپ (ص) كو پہچان رہے ہيں(۶)

منقول ہے كہ آپ (ص) پورے ا شتياق كے ساتھ نماز كے وقت كا انتظار كرتے اور اسى كى طرف متوجہ رہتے تھے اور جيسے ہى نماز كا وقت آجاتا آپ (ص) مؤذن سے فرماتے ”اے بلال مجھے اذان نماز كے ذريعہ شاد كردو” (۷)

امام جعفر صاد ق (ع) سے روايت ہے ” نماز مغرب كے وقت آپ (ص) كسى بھى كام كو نماز پر مقدم نہيں كرتے تھے اوراول وقت ، نماز مغرب ادا كرتے تھے (۸) منقول ہے كہ ”رسول خدا (ص) نماز واجب سے دو گنا زيادہ مستحب نمازيں پڑھا كرتے تھے اور واجب روزے سے دوگنے مستحب روزے ركھتے تھے_(۹)

روحانى عروج ميں آپ (ص) كو ايسا حضور قلب حاصل تھا كہ جس كو بيان نہيں كيا جاسكتا، منقول ہے كہ جب رسول خدا (ص) نماز كيلئے كھڑے ہوتے تھے تو خوف خدا سے آپ (ص) كا رنگ متغير ہوجاتا تھا اور آپ (ص) كى بڑى دردناك آواز سنى جاتى تھي(۱۰)

جب آپ (ص) نماز زپڑھتے تھے تو ايسا لگتا تھا كہ جيسے كوئي كپڑا ہے جو زمين پر پڑا ہوا ہے(۱۱) حضرت امام جعفر صادق (ع) نے رسول خدا (ص) كى نماز شب كى تصوير كشى كرتے ہوئے فرماياہے :

”رات كو جب آپ (ص) سونا چاہتے تھے تو ، ايك برتن ميں اپنے سرہانے پانى ركھ ديتے تھے آپ (ص) مسواك بھى بستر كے نيچے ركھ كر سوتے تھے،آپ (ص) اتنا سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا، جب بيدار ہوتے تو بيٹھ جاتے اور آسمان كى طرف نظر كركے سورہ آل عمران كى آيات” ان فى خلق السموات والارض الخ” پڑھتے اس كے بعد مسواك كرتے ، وضو فرماتے اور مقام نماز پر پہونچ كر نماز شب ميں سے چار ركعت نماز ادا كرتے، ہر ركعت ميں قراءت كے بقدر ، ركوع اور ركوع كے بقدر ، سجدہ فرماتے تھے اس قدر ركوع طولانى كرتے كہ كہا جاتا كہ كب ركوع كو تمام كريں گے اور سجدہ ميں جائيں گے اسى طرح انكا سجدہ اتنا طويل ہوتا كہ كہا جاتا كب سر اٹھائيں گے اس كے بعد آپ (ص) پھر بستر پر تشريف لے جاتے اوراتنا ہى سوتے تھے جتنا خدا چاہتا تھا_اس كے بعد پھر بيدار ہوتے اور بيٹھ جاتے ، نگاہيں اسمان كى طرف اٹھاكر انہيں آيتوں كى تلاوت فرماتے پھر مسواك كرتے ، وضو فرماتے ، مسجد ميں تشريف لے جاتے اور نماز شب ميں سے پھر چار ركعت نماز پڑھتے يہ نماز بھى اسى انداز سے ادا ہوتى جس انداز سے اس سے پہلے چار ركعت ادا ہوئي تھى ، پھرتھوڑى دير سونے كے بعد بيدار ہوتے اور آسمان كى طرف نگاہ كركے انہيں آيتوں كى تلاوت فرماتے ، مسواك اور وضو سے فارغ ہوكر تين ركعت نماز شفع و وتر اور دو ركعت نماز نافلہ صبح پڑھتے پھر نماز صبح ادا كرنے كيلئے مسجد ميں تشريف لے جاتے”(۱۲)

آنحضرت نے ابوذر سے ايك گفتگو كے ذيل ميں نماز كى اس كوشش اور ادائيگى كے فلسفہ كو بيان كرتے ہوئے فرمايا:” اے ابوذر ميرى آنكھوں كا نور خدا نے نماز ميں ركھاہے اوراس نے جس طرح كھانے كو بھوكے كيلئے اور پانى كو پياسے كيلئے محبوب قرار ديا ہے اسى طرح نماز كو ميرے لئے محبوب قرار ديا ہے، بھوكا كھانا كھانے كے بعد سير اور پياساپانى پينے كے بعد سيراب ہوجاتاہے ليكن ميں نماز پڑھنے سے سيراب نہيں ہوتا” (۱۳)

دعا كے وقت تسبيح و تقديس

آپ كے شب و روز كا زيادہ تر حصہ دعا و مناجات ميں گذرجاتا تھا آپ سے بہت سارى دعائيں نقل ہوئي ہيں آپ كى دعائيں خداوند عالم كى تسبيح و تقديس سے مزين ہيں ، آپ نے توحيد كا سبق، معارف الہى كى گہرائي، خود شناسى اور خودسازى كے تعميرى اور تخليقي علوم ان دعاؤں ميں بيان فرماديئے ہيں ان دعاؤں ميں سے ايك دعا وہ بھى ہے كہ جب آپ (ص) كى خدمت ميں كھانا لايا جاتا تھا تو آپ (ص) پڑھا كرتے تھے:

”سبحانك اللہم ما احسن ما تبتلينا سبحانك اللہم ما اكثر ما تعطينا سبحانك اللہم ما اكثر ما تعافينا اللہم اوسع علينا و على فقراء المومنين”(۱۴)

خدايا تو منزہ ہے تو كتنى اچھى طرح ہم كو آزماتاہے، خدايا تو پاكيزہ ہے تو ہم پر كتنى زيادہ بخشش كرتاہے، خدا يا تو پاكيزہ ہے تو ہم سے كس قدر درگذر كرتاہے، پالنے والے ہم كو اور حاجتمند مؤمنين كو فراخى عطا فرما_

بارگاہ الہى ميں تضرع اور نيازمندى كا اظہار

آنحضرت (ص) خدا كى عظمت و جلالت سے واقف تھے لہذا جب تك دعا كرتے رہتے تھے اسوقت تك اپنے اوپر تضرع اور نيازمندى كى حالت طارى ركھتے تھے، سيدالشہداء امام حسين (ع) رسول خدا (ص) كى دعا كے آداب كے سلسلہ ميں فرماتے ہيں :

”كان رسول اللہ (ص) يرفع يديہ اذ ابتہل و دعا كما يستطعم المسكين ” (۱۵)

رسول (ص) بارگاہ خدا ميں تضرع اور دعا كے وقت اپنے ہاتھوں كو اس طرح بلند كرتے تھے جيسے كوئي نادار كھانا مانگ رہاہو_

لوگوں كے ساتھ حسن معاشرت

رسول اكر م (ص) كى نماياں خصوصيتوں ميں سے ايك خصوصيت لوگوں كے ساتھ حسن معاشرت ہے ، آپ تربيت الہى سے مالامال تھے اس بناپر معاشرت ، نشست و برخاست ميں لوگوں كےساتھ ايسے ادب سے پيش آتے تھے كہ سخت مخالف كو بھى شرمندہ كرديتے تھے اور نصيحت حاصل كرنے والے مؤمنين كى فضيلت ميں اضافہ ہوجاتا تھا_

آپ كى معاشرت كے آداب، اخلاق كى كتابوں ميں تفصيلى طور پر مرقوم ہيں _ہم اس مختصر وقت ميں چند آداب كو بيان كررہے ہيں اميد ہے كہ ہمارے لئے رسول خدا (ص) كے ا دب سے آراستہ ہونے كا باعث ہو:

گفتگو

بات كرتے وقت كشادہ روئي اور مہربانى كو ظاہر كرنے والا تبسم آپ كے كلام كو شيريں اور دل نشيں بناديتا تھا روايت ميں ہے كہ :

”كان رسول اللہ اذا حدث بحديث تبسم فى حديثہ” (۱۶)

بات كرتے وقت رسول اكرم (ص) تبسم فرماتے تھے_

ظاہر ہے كہ كشادہ روئي سے باتيں كرنے سے ہر ايك كو اس بات كا موقع ملتا تھا كہ وہ آپ (ص) كى عظمت و منزلت سے مرعوب ہوئے بغير نہايت اطمينان كے ساتھ آپ(ص) سے گفتگو كرے، اپنے ضمير كى آواز كو كھل كر بيان كرے اور اپنى حاجت و دل كى بات آپ (ص) كے سامنے پيش كرے_

سامنے والے كى بات كو آپ (ص) كبھى منقطع نہيں كرتے تھے ايسا كبھى نہيں ہوا كہ كوئي آپ (ص) سے گفتگو كا آغاز كرے تو آپ (ص) پہلے ہى اسكو خاموش كرديں (۱۷)

مزاح

مؤمنين كا دل خوش كرنے كيلئے آنحضرت (ص) كبھى مزاح بھى فرمايا كرتے تھے، ليكن تحقير و تمسخر آميز، ناحق اور ناپسنديدہ بات آپ (ص) كى كلام ميں نظر نہيں آتى تھي_

”عن الصادق (ع) قال ما من مؤمن الا وفيہ دعابة و كان رسول اللہ يدعب و لا يقول الاحقا” (۱۸)

امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے كہ : كوئي مؤمن ايسا نہيں ہے جس ميں حس مزاح نہ ہو، رسول خدا (ص) مزاح فرماتے تھے اور حق كے علاوہ كچھ نہيں كہتے تھے_

آپ كے مزاح كے كچھ نمونے يہاں نقل كئے جاتے ہيں :

”قال (ص) لاحد لا تنس يا ذالاذنين ” (۱۹)

پيغمبر خدا (ص) نے ايك شخص سے فرمايا: اے دو كان والے فراموش نہ كر_

انصار كى ايك بوڑھى عورت نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ آپ ميرے لئے دعا فرماديں كہ ميں بھى جتنى ہوجاؤں حضرت (ص) نے فرمايا: ” بوڑھى عورتيں جنت ميں داخل نہيں ہوں گي” وہ عورت رونے لگى آنحضرت (ص) مسكرائے اور فرمايا كيا تم نے خدا كا يہ قول نہيں سنا ;

”انا انشأناہن انشاءً فجعلنا ہن ابكاراً ” (۲۰)

ہم نے بہشتى عورتوں كو پيدا كيا اور ان كو باكرہ قرار ديا _

كلام كى تكرار

رسول خدا (ص) كى گفتگو كى خصوصيت يہ تھى كہ آپ (ص) بات كو اچھى طرح سمجھا ديتے تھے_

ابن عباس سے منقول ہے : جب رسول خدا (ص) كوئي بات كہتے يا آپ(ص) سے كوئي سوال ہوتا تھا تو تين مرتبہ تكرار فرماتے يہاں تك كہ سوال كرنے والا بخوبى سمجھ جائے اور دوسرے افرادآنحضرت (ص) كے قول كى طرف متوجہ ہوجائيں _

انس و محبت

پيغمبر خدا (ص) كو اپنے اصحاب و انصار سے بہت انس و محبت تھى ان كى نشستوں ميں شركت كرتے اور ان سے گفتگو فرماتے تھے آپ (ص) ان نشستوں ميں مخصوص ادب كى رعايت فرماتے تھے_

حضرت امير المؤمنين آپ كى شيرين بزم كو ياد كرتے ہوئے فرماتے ہيں ” : ايسا كبھى نہيں ديكھا گيا كہ پيغمبر خد ا (ص) كسى كے سامنے اپنا پاؤں پھيلاتے ہوں” (۲۱)

پيغمبر (ص) كى بزم كے بارے ميں آپ كے ايك صحابى بيان فرماتے ہيں ” جب ہم لوگ رسول خدا (ص) كے پاس آتے تھے تو داءرہ كى صورت ميں بيٹھتے تھے” (۲۲)

جليل القدر صحابى جناب ابوذر بيان كرتے ہيں ” رسول خدا (ص) جب اپنے اصحاب كے درميان بيٹھتے تھے تو كسى انجانے آدمى كو يہ نہيں معلوم ہوسكتا تھا كہ پيغمبر (ص) كون ہيں آخركا ر اسے پوچھنا پڑتا تھا ہم لوگوں نے حضور(ص) سے يہ درخواست كى كہ آپ ايسى جگہ بيٹھيں كہ اگر كوئي اجنبى آدمى آجائے تو آپ (ص) كو پہچان لے ، اسكے بعد ہم لوگوں نے مٹى كا ايك چبوترہ بنايا آپ (ص) اس چبوترہ پر تشريف فرماہو تے تھے اور ہم لوگ آپ (ص) كے پاس بيٹھتے تھے_(۲۳)

امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں: رسول خدا (ص) جب كسى كے ساتھ بيٹھتے تو جب تك وہ موجود رہتا تھا حضرت (ص) اپنے لباس اور زينت والى چيزوں كو جسم سے جدا نہيں كرتے تھے (۲۴)

مجموعہ ورام ميں روايت كى گئي ہے ” پيغمبر (ص) كى سنت يہ ہے كہ جب لوگوں كے مجمع ميں بات كرو تو ان ميں سے ايك ہى فرد كو متوجہ نہ كرو بلكہ سارے افراد پر نظر ركھو(۲۵)

خلاصہ درس

1)علمائے علم لغت نے لفظ ادب كے جو معنى بيان كئے ہيں ان پر غور كرنے كے بعد يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ در حقيقت ظرافت عمل اور ايسے نيك چال چلن كا نام ادب ہے كہ جس كا سرچشمہ لطافت روح اور طينت كى پاكيزگى ہے _

2) آنحضرت (ص) كے ادب كى قدر و قيمت اس عنوان سے ہے كہ آپ خدا كى بارگاہ كے تربيت يافتہ اور اس كے سكھائے ہوئے ادب سے آراستہ و پيراستہ تھے_

3) اخلاق و آداب ، ميں فرق يہ ہے كہ اخلاق ميں اچھائي اور برائي دونوں ہوتى ہيں مگر ادب ميں حسن عمل كے سوا اور كچھ نہيں ہوتا_

4) رسول خدا (ص) نے روزمرہ كى زندگى كے اعمال ميں جن طريقوں اور آداب كو اپنايا، وہ ايسے تھے كہ جنہوں نے اعمال كو خوبصورتى لطافت اور حسن عطا كيا اور انہيں اخلاقى قدروں كا حامل بناديا_

5) رسول اللہ (ص) كى سيرت ميں مندرجہ ذيل اوصاف نماياں طور پر نظر آتے ہيں :

الف:حسن و زيبائي ب: نرمى اور لطافت ج: وقار و متانت

6 ) مدمقابل كے سامنے جو آپ (ص) كے آداب تھے ان كو تين حصوں ميں تقسيم كيا جاسكتاہے:

1_ خدا كے بالمقابل آپ (ص) كے آداب

2_ لوگوں كى ساتھ معاشرت كے آداب

3_فردى اور ذاتى آداب

——–

۱ (لغت نامہ دہخدا مادہ ادب)_

۲)(الميزان جلد 2 ص 105)_

۳)(الميزان جلد 2 ص 105)_

۴)( اصول كافى جلد 2 ص 2 ترجمہ سيد جواد مصطفوي)_

۵)الميزان جلد 12 ص 106_

۶) سنن النبى ص 251_

۷) سنن النبى ص 268_

۸) سنن النبى ص_

۹) سنن النبى ص 234_

۱۰) سنن النبى ص251_

۱۱) سنن النبى ص 268_

۱۲) سنن النبى ص 241_

۱۳)سنن النبى ص 269_

۱۴) اعيان الشيعہ ج1 ص306_

۱۵)سنن النبى ص 315_

۱۶) سنن النبى ص48 بحار ج6 ص 298_

۱۷)مكارم الاخلاق ص 23_

۱۸)سنن النبى ص 49_

۱۹)بحارالانوار ج16 ص 294_

۲۰)سورہ واقعہ آيت 35 و 36_

۲۱) مكارم الاخلاق ص 22_

۲۲) سنن النبى ص 70_

۲۳) سنن النبى ص63_

۲۴)سنن النبى ص48_

۲۵)سنن النبى ص47_


source : http://www.islaminurdu.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وہ احادیث جو حضرت معصومہ (س) سے منقول ہیں
جواں نسل اصلاح اور ہدایت کی روشن قندیل بنے
نہ اُنس و محبت ، نہ شوہر اور نہ
خدا کی معرفت اور پہچان
حضرت علی علیه السلام کی خلافت حدیث کی روشنی میں
خطبات امام حسین علیہ السلام ( شہادت یا واقعیت کا ...
نور عظمت حق
ا سلامی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی خصوصیات
بعثت رسول کیوں؟
والدین کی خدمت بہترین جہاد ہے

 
user comment