جوبچہ اپنے ماں باپ کے ساتھ براسلوک کرتاہے اس کی اولاد اس کے ساتھ بھی ویساہی سلوک کرتی ہے اوراس کے بڑھاپے میں اسے اہمیت نہیں دیتی ۔ والدین کی بددعا اولاد کو فقر و فاقے سے دوچار کردیتی ہے
گذشتہ سطروں میں ہم نے والدین کی نافرمانی کے بعض اخروی اثرات ذکر کئے ہیں اورشایدان میں سے خاص خاص یہ تھے خدا تعالی کی ناراضگی،طاعات وعبادات کاقبول نہ ہوناوغیرہ اور اس بارے میں میں اہلبیت کی کثیر احادیث موجودہیں۔ اب اس کے دنیاوی منفی اثرات ذکرکرتے ہیں انہیں مندرجہ ذیل صورت میں بیان کیاجاسکتاہے ۔
اول : فقروفاقہ کاشکار ہوجانا
امام صادق فرماتے ہیں :
ایما رجلدعاعلی ولدہ اورثہ الفقر
والدین کی بددعا اولاد کوفقروفاقے سے دوچار کردیتی ہے [35]۔
دوم : برائی کابدلہ برائی سے ملنا
جوبچہ اپنے ماں باپ کے ساتھ براسلوک کرتاہے اس کی اولاد اس کے ساتھ بھی ویساہی سلوک کرتی ہے اوراس کے بڑھاپے میں اسے اہمیت نہیں دیتی ۔
امام صادق اس حقیقت پرزوردیتے ہوئے فرماتے ہیں :
برواآبائکم ،یبرکم ابناؤکم [36]۔
”اپنے والدین کے ساتھ نیکی کروتاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے“۔
اورعملی تجربات بھی اس حقیقت کوثابت کرتے ہیں اوراس بارے میں گذشتہ نسلوں کے کئی ایک عبرت ناک واقعات بھی نگاہوں سے گذرے ہیں۔
سوم : نافرمانی ذلت اورپستی کاسبب ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جوشخص والدین کانافرمان ہوتاہے اسے معاشرہ ناپسندیدگی اورذلت کی نگاہ سے دیکھتاہے اوراس طرح وہ معاشرتی سطح پرقابل تنفر اورمزموم خیال کیاجاتاہے جس قدروہ عذرخواہی کے ذریعے سے اپنے عیوب پرپردہ ڈالنے کی کوشش کرتاہے لوگ اس کی بدبختی کواورزیادہ اچھالتے ہیں۔
امام ہادی فرماتے ہیں :
العقوق یعقب القلة ویودی الی الذلة۔
”والدین کی نافرمانی انسان کوقلت اورذلت میں مبتلاکردیتی ہے“۔
ہوسکتاہے قلت سے مراد فقط مالی قلت نہ ہوبلکہ معنوی اورمعاشرتی قلت بھی ہویعنی دوستوں کاکم ہوجاناکیونکہ جوشخص اپنے قریب ترین یعنی والدین کانافرمان ہوناہے تولوگ اس پراعتماد نہیں کرتے اوردوست اس سے محبت کرناچھوڑدیتے ہیں۔
تیسری بحث: بہترین نمونہ
لوگوں کے قلوب میں جگہ بنانا اوران کے دلوں میں گھرکرناتنگ سوراخ میں داخل ہونے سے کہیں زیادہ مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ فکری،مزاجی اورثقافتی لحاظ سے بہت زیادہ مختلف ہیں لہذا ان پرمؤثرہونابہت دشوارہے اوراس کے لئے ان خاص عنایات کی ضرورت ہے جوصبرکے ساتھ متمسک اورحقائق سے آگاہ لوگوں کوحاصل ہوتی ہیں
اہل بیت اپنے بہترین کردارکی وجہ سے لوگوں کوجذب کرنے اوران پرحکمرانی کرنے میں سب سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اوران کی عقول کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ عام طورپرلوگ زبان کی بجائے کردارسے زیادہ متاثرہوتے ہیں اورحقوق والدین کے سلسلے میں آئمہ کے عمدہ کردار اورلوگوں کے اس سے متاثرہونے کی دلیل کے طورپریہی کافی ہے کہ امام سجاد اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کرکھانانہیں کھاتے تھے اوراس چیزنے آپ کے اصحاب کی نظروں کوخاص طورسے اپنی طرف متوجہ کرلیا اورانہوں نے بڑے تعجب سے پوچھاکہ باوجود اس کے کہ آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی اورحسن سلوک کرنے والے ہیں آپ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کرکھانے نہیں کھاتے؟ توآپ نے فرمایا:
انی اکرہان تسبق یدی الی ماسبقت الیہ عینھا فاکون قد عققتھا۔
”مجھے پسند نہیں ہے کہ جس چیزکی طرف میری ماں کی نظرسبقت کرچکی ہواس کی طرف میراہاتھ بڑھ جائے اوریوں میں اپنی ماں کانافرمان بن جاؤں [37]۔
واقعایہ بات قابل قدر ہے اورمکتب اہل بیت کے پیروکاروں کے لئے بہت ہی دقیق اورناقابل فراموش درس ہے اورآپ والدین کی عظمت کوبیان کرتے ہوئے ان کے حق میں دعافرمایاکرتے تھے :
یاالھی این طول شغلھما بتربیتی؟ واین شدة تعبھافی حراستی؟ واین اقتارھما علی انفسھماللتوسعة علی؟ ھیھات مایستوفیان منی حقھما ولاادرک مایجب علی لھما، ولا انا بقاض وظیفتہ خدمتھما [38]۔
”خدایاانہوں نے کتنے لمبے عرصے تک میری تربیت کی ہے اورمیری حفاظت کے لئے کس قدر سختیاں برداشت کی ہیں اورمیرے آرام کے لئے کس قدر تکلیفیں جھیلیں ہیں میں میں زندگی بھران کا حق ادانہیں کرسکتا اوران کے حقوق کاتصوربھی نہیں کرسکتا اورنہ ان کی خدمت کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتاہوں“۔
صحیفہ سجادیہ کی ایک اوردعامیں فرمایاہے :
اللھم اجعلنی اھابھما ھیبة السلطان العسوف وابرھما برالام الرؤوف، اجعل طاعتی لوالدی وبری بھما اقرلعینی من رقدة الوسنان، واثلج لصدری من شربة الظمآن حتی اوثرعلی ھوای ھواھما۔
”میرے اللہ میرے دل میں والدین کی ایسی ہیبت پیداکردے جیسی ظالم بادشاہ کی ہوتی ہے، ان سے نرم دل ماں جیسا حسن سلوک کروں اور ان کی اطاعت اوران کے ساتھ حسن سلوک کومیری آنکھ کے لئے نیندسے زیادہ شیرین اورسوزش جگرکے لئے شربت سے زیادہ ٹھنڈاقراردے تاکہ میں اپنی خواہشات پران کی خواہشات کی ترجیح دوں“ [39]۔
اوردوسرے اماموں نے بھی یہی روش اپنائی اورہراس کام سے پرہیز کیاجس میں والدین کی ہتک حرمت کاپہلونکلتاہو۔
ابراہیم بن مہزم سے روایت ہے وہ کہے ہیں ”امام صادق سے ملنے کے بعد میں شام کومدینہ میں اپنے گھرآیااورمیری ماں بھی میرے ساتھ تھی میرے اوراس کے درمیان توتومیں میں شروع ہوگئی اورمیرے لہجے میں سختی آگئی اگلی صبح نمازادا کرنے کے بعد جب میں امام کی خدمت میں پہنچاتوآپ نے فورا کہا:
یاابامھزم، مالک ولخالدة اغلظت فی کلامھا البارحة؟اما علمت ان بطنھامنزل قدسکنتہ، وان حجرھا مھدقدغمزتہ، ثدیھا وعاو قدشربتہ؟ قال: قلت: بلی قال: فلاتغلظ لھا۔
”ابومہزم تمہارے اوروالدہ کے مابین کیاہواتھا کہ گذشتہ شب تواس سے سخت لہجے میں گفتگوکررہاتھا کیاتجھے نہیں معلوم کہ اس کاشکم تیراگھررہاہے، اس کی آغوش تیرے لئے گہوراہ رہ چکی ہے اوراس کاپستان تیرے پینے کابرتن رہاہے۔ ابن مہزم کہتے ہیں میں نے عرض کیاہاں مولاایساہی ہے توامام نے فرمایا پِ اس کے ساتھ سخت لہجہ میں باتیں مت کرو“ [40]۔
ان کلمات نے بیٹے پرجادوکاسااثرکیا اوراس نے فورا جاکرماں سے معافی مانگی لیکن افسوس کہ آج کے جوان غلط تربیت، منحرف روش یانام نہاد ترقی یافتہ ثقافت کی وجہ سے والدین کوگندی ترین گالیاں دیتے ہیں، ان پرلعن طعن کرتے ہیں اوران پراپنا جام غضب انڈیلتے ہیں جب کہ والدین انہیں مخلصانہ نصیحت کرتے ہیں اس چیزکاوالدین پربہت برااثرہوتاہے اوروہ تلخ ناکامی کاشکارہوجاتے ہیں لیکن آئمہ والدین کے ساتھ ان کے مقام ومرتبہ کے مطابق شیرین اورمہذہب عبارات کے ساتھ بات کرنے کاحکم دیتے ہیں اوریہ کہ ان کے سامنے آوازبلند نہ کی جائے۔
حکم سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیامیرے والدنے مجھے ایک گھرصدقہ میں دیاتھا پھراس کی رای تبدیل ہوگئی اوراس نے وہ گھرمجھ سے واپس لے لیا، اب قاضی میرے حق میں فیصلہ دیتے ہیں توآپ نے فرمایا:
نعم ما قضت بہ قضاتکم، وبئس ماصنع والدک انماالصدقة للہ عزوجل فماجعل للہ عزوجل فلارجعة لہ فیہ، فان انت خاصمتہ فلاترفع علیہ صوتک، وان رفع صوتہ فاخفض انت صوتک۔
”قاضیوں کافیصلہ صحیح ہے اورتیراباپ اس معاملے میں غلطی پرہے کیونکہ صدقہ اللہ تعالی کے لئے مخصوص ہے اورجوچیزاللہ کے لئے مخصوص ہوجائے وہ واپس نہیں ہوتی لیکن تجھے چاہئے کہ اس معاملے میں اپنے باپ کی آوازپراپنی آوازبلندنہ کرے اوراگروہ اپنی آوازبلندبھی کرے تب بھی تواس سے نرم وآہستہ لہجے میں گفتگوکر“ [41]۔
خلاصہ یہ کہ والدین کے حقوق بہت عظیم اوربلندہیں اوراللہ تعالی نے ان کے حق کواپنے حق کے ساتھ ذکرکیاہے اگرچہ دونوں کے مرتبے مختلف وجداگانہ ہیں حق خدااس کی عبادت ہے حق والدین ان کے ساتھ حسن سلوک ہے اورقرآن کریم نے ماں کی بیشتر قربانیوں کی وجہ سے اسے اوربڑاحق دیاہے اورسیرت نبویہ میں اس مسئلے کوخاص اہمیت حاصل ہے اوروالدین کی نافرمانی کوایک عظیم گناہ تصورکیاگیاہے اورآئمہ نے امت کی رہبری کرتے ہوئے والدین کے مقام کومحفوظ کرنے کے لئے کئی ایک نہج سے کام کیاہے چنانچہ اس سلسلے میں وارد ہونے والی آیات کی تفسیرکی، اخلاقی اوروجدانی ماحول میں اس کوپرکھا اس کے لئے حکم شرعی کومعین کیاپھروالدین کے حقوق کوتفصیل کے ساتھ بیان کیااوران کی نافرمانی کے اثرات کودنیوی واخروی لحاظ سے پیش کیااوروالدین کے ساتھ اپنی روش کوآئندہ نسلوں کے لئے بہترین نمونے کی حیثیت دی۔
اولاد کے حقوق
اسلام نے اولاد کوباپ کی صلب اورماںکے رحم میں بھی ایک بنیادی حق کی ضمانت دی ہے اوروہ حق وجودہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات نے نسل بڑھانے اوراولادحاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کی حوصلہ افزائی کی ہے نیز کثرت اولاد کے لئے اس کی طبیعت کوبرانگیختہ کیاہے اوراس کی محدودیت کوناپسند جاناہے حتی کہ قرآن کریم اولاد کودنیاوی زندگی کی زینت شمارکرتے ہوئے فرماتاہے :
المال والبنون زینة الحیاة الدنیا… [42]۔
”مال اوراولاد دنیاوی زندگی کے لئے زینت ہیں“۔
اورہماری رہنمائی کے لئے انبیاء، کے واقعات نقل کرتاہے کہ وہ اپنی دعاؤں میں صالح اولاد کی تمناکرتے تھے۔ مثلا حضرت ابراہیم کی دعا اوراس کی قبولیت کویوں بیان کرتاہے :
رب ھب لی من الصالحین فبشرناہ بغلام حلیم …۔
”اے میرے رب، صالح اولادعطافرماپس ہم نے اسے ایک بردبارلڑکے کی بشارت دی“ [43]۔
اورجب حضرت زکریانے نے حضرت مریم کے پاس معجزاتی طورپررزق کے سلسلے میں خداتعالی کی قدرت کاکرشمہ دیکھا توانہوں نے بھی اولاد کی خوہش اوردعاکی جسے قرآن نے یوں نقل کیا:
ھنالک دعازکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعاء
”وہاں پرزکریانے اپنے رب سے دعاکی اورعرض کی کہ اے میرے پالنے والے مجھے اپنی طرف سے پاک وپاکیزہ اولاد عطافرما بیشک تودعاکوسب سے زیاہ سننے والاہے“ [44]۔
جب زکریاکے دل میں شوق اولادنے کروٹ لی اورانہیں تنہارہ جانے کاخوف محسوس ہونے لگاکہ جس کے متعلق قرآن نے اپنے فصیح وبلیغ انداز میں یوں ذکر کیاہے:
وزکریااذ نادی ربہ رب لاتذرنی فردا وانت خیرالوارثین۔
”اس وقت کویاد کروجب زکریانے اپنے رب کوندادی اے میرے پروردگار مجھے تنہا نہ چھوڑنا اورتو بہترین وارث ہے“ [45]۔
اوراللہ تعالی نے بھی اہلبیت کی بناپرآپ کی دعاکوشرف قبولیت عطاکیاان الفاظ میں کہ :
فاستجبنا لہ ووھبنالہ یحیی واصلحنا لہ زوجہ انھم کانوا یسارعون فی الخیرات ویدعوننا رغبا ورھبا وکانوا لناخاشعین [46]۔
”ہم نے اس کی دعاقبول کرلی اوراسے یحیی جیسابیٹا عطاکیا اورہم نے اس کے لئے اس کی بیوی میں اہلیت پیداکردی بیشک یہ سب لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اورہم کو بڑی رغبت اورخوف کے ساتھ پکاراکرتے تھے اورہمارے آگے گڑاگڑاتے تھے“۔
اس کے ذریعے ہمیں اشارہ کیاجارہے ہے کہ ہم بھی صالح اولاد کے لئے دعاکیاکریں مزید برآن سنت نبوی قولی اورعملی اعتبارسے ہمیں عقدکرنے پربہت زور دیتی ہے کہ جوباپ بننے کاشرعی اورعرفی ذریعہ ہے اورغیرشادی شدہ رہنے اورتارک الدنیا بننے کوسخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
چنانچہ پیغمبر فرماتے ہیں :شرارموتاکم العزاب [47]۔
”تم میں سے سب سے زیادہ برے مردوہ ہیں جوغیرشادی شدہ ہوں“۔
اورپیغمبر قیامت کے دن اپنی امت کے سب سے زیادہ ہونے کی خواہش کایوں اظہار کرتے ہیں :
تناکحوا تکثروا،فانی اباھی بکم الامم یوم القیامة حتی بالسقط
”نکاح کرواورزیادہ ہوجاؤروزقیامت میں تمہارے ذریعے دوسری امتوں پرفخرومباہات کروں گاحتی کہ سقط شدہ بچے کے ذریعے بھی“ [48]۔
اوراہل بیت کی احادیث کامطالعہ کرنے سے پتاچلتاہے کہ الہی مکتب نے اولاد کے حقوق کوبڑا مقام دیاہے اورحقوق اولاد کے سلسلے میں ایسی احادیث ملتی ہیں کہ جوباپ بننے کی طرف رغبت دلاتی ہیں۔
امیرالمومنین فرماتے ہیں :
الولد احد العددین [49]۔
”بیٹا دوعددوں میں سے ایک ہے“۔
اورضرورت کے وقت اس سے مددلی جاتی ہے امام زین العابدین فرماتے ہیں :
من سعادة الرجل ان یکون لہ ولد یستعین بھم
”مردکی سعادت یہ ہےکہ اس کی اولاد ہوجوضرورت کے وقت اس کے کام آئے“ [50]۔
بیٹاوالدین کے طبیعی سلسلے کانام ہے اسی کے ذریعہ سے وہ اپنی ان عادات، افکاراوراخلاق کومنتقل کرتے ہیں جوان کے معنوی وجود کاباقی رکھتی ہیں اوراولاد کا ایک اوربڑافائدہ یہ ہے کہ اس کی دعاؤں اورصدقات وعبادات کاثواب والدین کوبھی ملتاہے۔
بہرحال اولاد والدین کی دنیوی اوراخروی سعادت کاباعث ہے۔
امام باقر فرماتے ہیں :
من سعادة الرجل ان یکون لہ الولد، یعرف فیہ شبھہ : خلقہ، وخلقہ وشمائلہ
”مرد کی سعادت ہے کہ اس کابیٹاہوجواس کی جسمانی وضع قطع، اخلاق اور عادات وشمائل کاحامل ہو“ [51]۔
علاوہ ازاین بیٹا والدین کانام زندہ رکھتاہے اوریوں والدین کانام صفحہ ہستی پرباقی رہتاہے حضرت علی فرماتے ہیں :
الولد الصالح اجمل الذکرین
”ولد صالح دوباقیماندہ چیزوں میں سے بہتر ہے“۔
اورمکتب اہل بیت نے الک تھلگ رہنے اوررہبانیت اختیارکرکے معاشرے سے دور بھاگنے والے کے خلاف ہمیشہ جنگ کی ہے اورخاندان کی تشکیل اورجائز ذریعے سے بات سننے پرزوردیاہے بحارالانوار میں ہے کہ ایک عورت نے امام باقر سے عرض کیااللہ تعالی آپ کے معاملات کی اصلاح کرے میں تبتل کاشکارہوں امام نے پوچھا :
وماالتبتل عندک
”تبتل سے تیری مراد کیاہے ؟ اس نے جواب دیامجھ مسں کبھی بھی شادی کی خواہش نہیں ہوئی امام نے پوچھا ایساکیوں ہے؟ تواس عورت نے کہامیں اسے فضیلت سمجھتی ہوں اس پرآپ نے فرمایا:
انصرفی فلوکان فی ذلک فضل لکانت فاطمة احق بہ منک، انہ لیس احد یسبقھا الی الفضل۔
”اس ارادہ سے منصرف ہوجا اگریہ کوئی فضیلت کی بات ہوتی توحضرت فاطمة تجھ سے پہلے حاصل کرلیتیں اوریقینا فضیلت میں ان پرکوئی سبقت نہیں کرسکتا“ [52]۔
نتیجہ یہ کہ اسلام جوقرآن وسنت یعنی معصوم کے قول،فعل اورتقریرکانام ہے کبھی واضح طورپراورکبھی اشارے کے ساتھ طلب اولاد پربہت زوردیتاہے اوراسی ضمن میں اولاد کوحق وجود سے نوازتاہے اورعدم کے اندھیرے سے نکل کروجود کی روشنی میں آنے کواس کاحق قراردیتاہے تاکہ زندگی نسل درنسل مستمررہے۔
اول : بچے کے لئے والدہ کے انتخاب کا حق
بیٹے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کاباپ پریہ حق ہے کہ وہ اس کے لئے ایسی صالح ماں کاانتخاب کرے جواس کے نطفے کوامانت کے طور پررکھ سکے کیونکہ جسمانی اورروحانی صفات کاوراثت میں منتقل ہونااب پایہ ثبوت کوپہنچ چکاہے اورسائنس سے پہلے وحی نے اس ابہام سے پردہ اٹھایاہے اوراس کے منفی اثرات کے تدارک پرزوردیاہے۔
چنانچہ ناطق وحی پیغمبر فرماتے ہیں :
تزوجوا فی الحجر الصالح فان العرق دساس [53]۔
”پاک دامن خاندام میں شادی کرو کیونکہ باپ داداکی عادتیں بچے میں منتقل ہوتی ہیں “۔
نیز فرماتے ہیں :
تخیروا لنطفکم فان النساء یلدن اشباہ اخوانھن واخواتھن
”اپنے بچوں کے لئے اچھی عورت کاانتخاب کروکیونکہ عورتیں اپنے بہن بھائیوں جیسی اولاد پیداکرتی ہیں “ [54]۔
لہذا خاندانی عورت کاانتخاب بہت اہمیت کاحامل ہے تاکہ بچے میں ایسی جسمانی اورروحی صفات منتقل ہوسکیں جواسے انحراف اورگمراہی سے بچنے کے لئے زرہ کاکام دیں۔
نیز اسلام دیندار وایماندار بیوی کے انتخاب کاحکم دیتاہے تاکہ بچے حق وحقیقت کے راستے سے بھٹکنے نہ پائیں۔
اللہ تعالی نے ہمارے لئے حضرت نوح کی بیوی کی مثال بیان کی ہے کہ جس نے کفرکوایمان پرترجیح دی اوررسالت میں آپنے شوہرسے خیانت کی اورآپ نے ملاحظہ فرمایاکہ رسالت پرایمان لانے کے بارے میں اس نے بیٹے پرکیسا برااثرڈالا کہ جس نے اسے ہلاکت کے گڑھے میں جاگرایااوراس کانتیجہ یہ ہوا کہ دینامیں بربادی اورآخرت میں عذاب اس کامقدر بنا۔ محبت پدری نے حضرت نوح کومجبورکیاکہ وہ اپنے بیٹے کوبھی دیگراہل خانہ کے ساتھ کشتی نجات میں سوار ہونے کی دعوت دیں لیکن وہ توماں کی غلط تربیت کے سامنے خاضع اوراس کی کافرانہ روش کاشیدائی تھا لذا کفرکی حالت پرڈٹارہا اورشفیق باپ کی دعوت کوٹھکرا کر معمولی مادی وسائل کاسہارالیناکافی سمجھا اسے یقین تھا کہ پہاڑی کی چوٹی اسے ہونے سے بچالے گی لیکن نہ توپہاڑ نے بچایااورنہ ہی باپ کی سفارش کام آئی اورآخرکار غرق ہوگیا۔
ان آیات کریمہ کاغورسے مطالعہ کیجئے :
ونادی نوح ربہ فقال رب ان ابنی من اھلی وان وعدک الحق وانت احکم الحاکمین۔
قال یانوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیرصالح فلاتسالن مالیس لک بہ علم انی اعظک ان تکون من الجاھلین۔
”اس وقت کویاد کرو جب نوح نے اپنے رب کوندا دی پس کہااے میرے پروردگار بیشک میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اوربیشک تیرا وعدہ سچاہے اورتوسب سے بڑاحاکم ہے خد نے فرمایااے نوح ہرگز یہ تیرے اہل سے نہیں ہے وہ بیشک بد چلن ہے پس مجھ سے اس چیزکی درخواست نہ کرجس بارے میں تمہیں علم نہیں ہے میںتمہین سمجھائے دیتاہوں کہ نادانوں کی سی باتیں نہ کرو [55]۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایاکہ حضرت نوح کی کافرہ بیوی نے اپنے بیتے کے ایمان کے سامنے کیسے بند باندھ دیا اوراسے باپ کی بات سننے اوراس کی اطاعت کرنے سے باز رکھا اورنوح کے اس نافرمان اورسرکشی کے پیکربیٹے کے مقابلے میں حضرت ابراہیم کے فرزند حضرت اسماعیل کودیکھیں جواپنے باپ کے حکم کی پیروی میں بے مثال نمونہ ہیں جب حضرت ابراہیم کوخواب کی حالت میں حضرت اسماعیل کوذبح کرنے کاحکم ملاتوقرآن نے کہا اسماعیل نے وئی پس وپیش نہیں کیا۔
فلمابلغ معہ السعی قال یابنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری قال یاابت افعل ماتؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین۔
”جب اسماعیل اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے لائق ہوگئے توابراہیم نے کہا اے میرے پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھاہے کہ تجھے ذبح کررہا ہوں بتاتیری کیارای ہے جناب اسماعیل نے جواب دیا اے بابا جوآپ کاحکم ہواہے اس پرعمل کیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے [56]۔
حضرت اسماعیل کایہ اعلی موقف بغیروجہ کے نہیں تھا بلکہ یہ نتیجہ تھا حضرت ابراہیم کی اس پاکیزہ تربیت کاکہ جس نے آپ کے اکلوتے فرزند کوانحراف سے بچائے رکھا اورشاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل کی والدہ ایک نیک اورمؤمنہ خاتون تھیں، انہوں نے آپ کے والد کے ہمراہ ہجرت کی اوربھوک، پیاس اورغربت جیسی تکلیفیں برداشت کیں اوربے آب وگیاہ صحرا میں رہ کرصبراورقناعت کامظاہرہ کیا انہوں نے اپنے بیٹے کے دل میں باپ اور اس کی رسالت سے محبت والفت کی شجر کاری کی۔
قرآن کی ہدایت کی روشنی میں مکتب اہل بیت بھی تربیتی اوراجتماعی حوالے سے بیوی کے بارے میں تحقیق اورجستجو کرنے کولازم قراردیتاہے تاکہ باپ اپنی دور اندیشی اورگہری سوچ وفکر کے ذریعے سے اولاد کے صالحہ ماں کی طرف منسوب ہونے کاحق محفوظ کرے اورایک لمحے کے لئے بھی اپنی توجہ کامرکز اس کے مال وجمال یاخاندان کوقرار نہ دے خلاصہ یہ کہ مرد کے لئے اپنے نطفے کے لئے ایک دیانتدار خاتون کاانتخاب بہت ضروری ہے اورامام صادق اس پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
تجب للولد علی والدہ، ثلاث خصال : اختیار والدتہ، وتحسین اسمہ، والمبالغة فی تادیبہ [57]۔
”باپ پربچے کے تین حق ہیں اس کی والدہ کاانتخاب، اچھے نام کاانتخاب اوراس کی تربیت میں انتہائی کوشش کرنا“۔
اورسنت شریفہ نے بھی ظاہری حسن سے دھوکہ کھانے کے بجائے باطنی حسن اورطہارت وایمان پرنظررکھنے کی تاکید کی ہے جب پیغمبر نے فرمایا:
ایاکم وخضراء الدمن
”گھورے کی سبزی سے بچو توآپ سے پوچھاگیایہ گھورے کی سبزی کیاہے توفرمایا:
المراة الحسناء فی منبت السوئ
توفرمایا : ”برائی میں ملوث خوبصورت عورت“ [58]۔
اسی طرح سنت مطہرہ نے اس بیوقوف عورت سے بھی بچنے کی تلقین کی ہے جوکم عقلی کی وجہ سے معاملات کوخوش اسلوبی سے نہیں نمٹاسکتی اور احمق عورت کی صحبت کی وجہ سے اولاد پرپڑنے والے اثرات کوبھی بیان کیاہے۔
پیغمبر فرماتے ہیں :
ایاکم وتزوج الحمقاء فان صحبتھا بلاء، وولدھا ضیاع ۔
”بیوقوف عورت سے شادی مت کرو کیونکہ اس کے ہاتھ زندگی گزارناایک مصیبت اوراس کی اولاد بے فائدہ ہے“ [59]۔
اوراس نکتے کابیان کرنابھی ضروری ہے کہ اسلام نے کئی وجوہات کی بناپرزناکو حرام قراردیاہے، ایک اولادکاحق یہ ہے کہ وہ اپنے جائز باپ کی طرف منسوب ہو دوسرے ایسے پاکیزہ خاندانی ماحول کاتشکیل دیناہے جوصحیح تربیت میںبچے کاحق اداکرسکے۔
اسلام نے وہ حقوق بھی بیان کردئیے ہیں جوبنیادی طور پرماں کے ذمے ہیں پس اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پنے بیٹے کی آنکھ کی ٹھنڈک کی خاطر اپنے آپ کواوراپنی اولاد کوہرقسم کے عیب سے محفوظ رکھے تاکہ اس کادل اپنی پاکیزہ طہارت پرمطمئن رہے اورا س پرولدالزناہونے کا دھبہ نہ لگنے پائے آج بھی مغربی ثقافت کی مثال ہماری نگاہوں کے سامنے ہے کہ جہاں دوسروں کے لئے بناؤسنگارکرنے پرعورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے شہوت کے سرکش گھوڑے کی لگام چھوڑ دی گئی ہے اورناجائز جنسی تعلقات کاایک ماحول بنادیاگیاہے اس کاایک نتیجہ یہ ہے کہ ناجائز بچوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے بچے سڑکوں پرپڑے ملتے ہیں اورجرائم اورآبروریزی کی واردتوں میں روزانہ اضافہ ہورہاہے۔
اس صورتحال نے معاشرے کے تارپود الگ الگ کردئیے ہیں آورغربی معاشرے کوآج اس کے خطرناک نتائج کاسامناہے اورمکتب اہل بیت نے زمانہ قدیم سے ان نتائج سے خبردارکیاہے امیرالمومنین فرماتے ہی :
ضالااخبرکم باکبرالزنا؟ …ھی امراة توطی ء فراش زوجھا، فتاتی بولدمن غیرہ فتلزمہ زوجھا فتلک التی لایکلمھا اللہ ولاینظرالیھا یوم القیامة، ولایزکیھا، ولھا عذاب عظیم [60]۔
”کیامیں تمہیں سب سے بڑے زناکی خبردوں؟ شادی شدہ عورت زناکے ذریعہ بچہ پیداکرے اورپھراپنے شوہرکے سرتھوپ دے، یہ ایسی عورت ہے کہ جس کے ساتھ خدا تعالی بات نہیں کرے گا، قیامت کے دن اس کی طرف نگاہ نہیں کرے گانیز اسے پاک نہیں کرے گا اورقیامت کے روزاس کے لئے دردناک عذاب ہے“۔
اس حدیث میں انساب کے اختلاط اوران کے خراب ہونے کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ زنا اولاد سے اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کے حق کو چھین لیتا ہے اورآٹھویں امام رضا حرمت زناکی علت یوں بیان فرماتے ہیں :
حرم الزنا لمافیہ من الفساد من قتل النفس، وذھاب الانساب، وترک التربیة للاطفال، وفساد المواریث، ومااشبہ ذلک من وجوہ الفساد ۔
”زناکواس لئے حرام کیاگیاہے کہ اس میں قتل، انساب کاضیاع، اوربچوں کی وراثت تربیت کے فقدان جیسے مفاسد ہیں“ [61]۔
اوربلاشک وشبہ یہ بچے ک ےنسب، اورتربیت جیسے حقوق پرکاری ضرب ہے۔ ایک زندیق نے امام صادق سے پوچھاکہ اللہ تعالی نے زناکوکیوں حرام کیاہے؟ توآپ نے اسے نہایت خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
لمافیہ من الفساد، وذھاب المواریث، وانقطاع الانساب، لاتعلم المراة فی الزنامن احبلھا، ولاالمولود یعلم من ابوہ [62]۔
”اس لئے کہ اس میں فتنہ وفساد، وراثت کاضیاع اورنسب کاانقطاع ہے اورزنامیں معلوم نہیں کہ عورت کوحاملہ کس نے کیاہے اوربچے کاباپ کون ہے۔
توامام نے اس حقیقت کوآشکارکریاکہ زنابچے سے اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے کاحق چھین لیتاہے۔
اورامام صادق ناجائز بچے کی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ان لولد الزنا علامات : احدھا بغضنا اھل البیت، وثانیھا انہ یحن الی الحرام الذی خلق منہ، وثالثھا الاستخفاف بالدین، ورابعھا سوء المحضر للناس، ولایسیء محضر اخوانہ الامن ولد علی غیرفراش ابیہ، اوحملت بہ امہ فی حیضھا [63]-”ولدالزنا کی کئی علامتیں ہیں اول یہ کہ اہل بیت سے بغض رکھتاہوگا دوم اسی حرام کی طرف مائل ہوناجس سے وہ خود پیدا ہواہے سوم دین کواہمیت نہ دینا چہارم لوگوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش آنااورلوگوں کے ساتھ ترش روئی سے وہ شخص پیش آتاہے جس کانطفہ حیض کی حالت میں یازناکے ذریعہ ٹھراہوا“۔
گذشتہ بحث سے یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کے نیک عورت کے انتخاب پرزوردیتاہے اوراسے بیٹے کاباپ پرایک حق شمارکرتاہے اسی طرح پیدائش سے پہلے بچے کاماں پرایک عظیم حق بنتاہے کہ وہ اپنے آپ کوپاکدامن رکھے اورزناکی طرف مائل نہ ہوکہ جس کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کی طرف منسوب ہونے اور وراثت اوراچھی شہرت جیسے حقوق سے محروم ہوجاتاہے۔
دوم پیدائش کے بعد کے حقوق:۱:حق زندگی:
بچے کوزندہ رہنے کاحق ہے چاہے مذکرہویامونث اورشریعت اسلامی اسے زندہ درگورکرنے یاحمل گراکر اس کی شمع حیات کوگل کرنے کی اجازت نہیں دیتی چنانچہ اسلام نے جاہلیت میں رائج زندہ درگورکرنے والے عمل کی مذمت کی ہے اورقرآن کریم تحدید آمیز لہجے میں کہتاہے :
واذا المؤدة سئلت بای ذنب قتلت [64]۔
”اورزندہ درگورلڑکی سے پوچھاجائے گااسے کس جرم میں قتل کیاگیاہے“۔
اوراس عظیم جرم کوکسی حالت میں بھی جائزقرارنہیں دیاجاسکتا حتی کہ بھوک جیسی مجبوری میں بھی جیسا کہ لوک فقرکے خوف سے اپنی اولاد کوقتل کردیاکرتے تھے چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے :
ولاتقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم وایاھم
”اپنی اولاد کومفلسی وتنگ دستی کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں آورانہیں بھی “ [65]۔
اوردوسری آیت میں ہے :
ولاتقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقھم وایاکم [66]۔
”اپنی اولاد کومفلسی کے خوف کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہین بھی “۔
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ پہلی آیت میں پہلے ماں باپ کے رزق کاذکرہے پھر اولاد کے رزق کالیکن دوسری آیت میں اس کے برعکس پہلے اولاد کے رزق کاذکر ہے پھرماں باپ کے رزق کا۔
اس کاراز کیاہے ؟ کیایہ فقط تعبیرکافرق ہے نہیں ایساہرگزنہیں کیو ں کہ قرآن کی ہرتعبیر دقیق اورمعنی خیز اوراس میں کسی لفظ کاتقدم یاتاخرحکمت سے خالی نہیں ہوتی دقت کرنے سے پتاچلتاہے کہ یہ فقرہ کہ مفلسی کی وجہ سے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو(سورة انعام ۶: ۱۵۱) کامطلب یہ ہے کہ مفلسی اورتنگ دستی سے اس زمانہ کاانسان دوچارتھا اورچونکہ اس زمانے میں آنسان سب سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کودیتاتھا لذا اس کی ہلاکت سے ڈرتاتھا اورخدا تعالی ایسی حالت میں اسے اطمینان دلارہاہے کہ پہلے وہ اس کے رزق کاضامن ہے اوردوسرے درجے میں اس کی اولاد کے رزق کالذا فرماتاہے :
نحن نرزقکم وایاھم
”اے مفلس ونادار انسان ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اورانہیں (تمہاری اولاد) کو بھی رزق عطاکریں گے۔
لیکن دوسری آیت میں فرماتاہے
ولاتقتلوا اولادکم خشیة املاق
”اپنی اولاد کوافلاس کے ڈرسے قتل نہ کرو“۔
تواس سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والے فقرکے خوف سے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو لہذا خداتعالی پہلے ان کی اولاد کے رزق کی ضانت اٹھاکر انہیں مطمئن کرنا چاہتاہے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ ان کی اولاد آئیگی تواپنے ساتھ فقربھی لائے گی لہذا خداوندکریم نے فرمایاہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی یعنی اس آیت میں خدا اولاد کے رزق کے ذمہ داری لے رہاہے۔
پس دونوں آیتوں کامعنی ایک نہیں ہے بلکہ ہرآیت والدین کوخاص حالت میں مخاطب قراردے رہی ہے لیکن دونوں آیتوں کاہدف ایک ہے اوروہ ہے اولاد کی زندگی پر ظلم کرنے سے روکنا۔
پھرزمانہ جاہلیت میں لڑکے اورلڑکی کے درمیان امتیاز برتاجاتاتھا اورلڑکیوں کوزندہ درگورکرکے انتہائی قساوت قلبی اورسفاکانہ انداز میں ان کی زندگی کاخاتمہ کردیاجاتاتھا اورذرہ بھرانسانی جذبات واحساسات متاثرنہیں ہوتے تھے۔
”المختار من طرائف الامثال والاخبار “ کے مولف نقل کرتے ہیں کہ ”حضرت عمر سے زندگی کے عجیب ترین واقعات کے بارے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے کہا دو واقعے ایسے ہیں ایک کویاد کرتاہوں ہنس پڑتاہوں اوردوسرے کویاد کرتاہوں تورودیتاہوں۔ پوچھاگیاہنسانے والاواقعہ کونسا ہے توانہوں نے جواب دیا میں زمانہ جاہلیت میں کھجور کے بنے ہوئے ایک بت کی عبادت کیاکرتاتھا جب سال ختم ہوجاتاتھا تومیں وہ بت کھالیا کرتاتھا اوراس کی جگہ کچی کھجوروں کادوسرا بت بنا کے رکھ دیتاتھا پوچھاگیادوسرا رلانے والا واقعہ کونسا ہے توکہنے لگے جب میں اپنی بیٹی زندہ درگورکرنے کے لئے گڑھا کھود رہاتھا تومیری داڑھی گرد وغبار سے اٹ گئی تھی اورمیری بیٹی میری داڑھی سے گردوغبار جھاڑرہی تھی اس کے باوجود میں نے اسے زندہ دفن کردیا“ [67]۔
اس وحشی، بہیمانہ اورانسانیت سوز رسم کے مقابلے میں اسلام نے حیات انسانی کے لئے ایک نئی فکر تشکیل دینے کابیڑا اٹھایاکہ زندگی فقط ایک حق نہیں ہے بلکہ یہ ایک الہی امانت ہے جسے خدائے تعالی نے انسان کے پاس ودیعت رکھاہے۔
لہذا بغیرشرعی جواز کے اس پرہرقسم کاتجاوز ایک ناقابل بخشش ظلم شمارکیاجائے گا اوراللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کواس مقدس امانت کے چھیننے کاحق نہیں ہے وہی زندگی عطاکرتاہے اورصرف وہی اسے لینے کاحقدار ہے۔
نیز اسلام نے لڑکیوں کے لئے خصوصی طورپرایک نئی اجتماعی فضاقائم کرنے کے لئے کام کیا کیونکہ زمانہ جاہلیت کے لوگ لڑکی کی پیدائش سے خوش نہیں ہوتے تھے چنانچہ قرآن فرماتاہے :
واذا بشراحدھم بالانثی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء مابشربہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب الاساء مایحکمون
”اورجب ان میں سے کسی کے یہاں اس کی لڑکی کے پیدا ہونے کی خبردی جاتی تھی توغصہ کے مارے اس کامنہ کالاہوجاتاتھا اورو ہ زہرکاساگھونٹ پی کر رہ جاتاہے (بیٹی کی) عار اوراس کی وجہ سے کہ جس کی اس کوخبردی گئی ہے اپنی قوم کے لوگوں سے چھپاتاپھرتاہے (اورسوچتارہتاہے) آیااسے ذلت اٹھانے کے لئے اسی طرح زندہ رہنے دے یا (زندہ ہی) اس کوزمین میں گاڑدے دیکھویہ لوگ کس قدر براحکم لگاتے ہیں“ [68]۔
اوردوسری طرف سے ان کے اندر اس فکرکواجاگرکیاکہ رزق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے وہ لڑکیوں کوبھی اس طرح رزق دیتاہے جیسے لڑکوں کواوراس طریقے سے زندگی کے بارے میں اطمینان کی فضاقائم کی اورپیغمبر نے بڑی صاف وشفاف اورالماسی زبان لڑکیوں کے لئے استعمال کی چنانچہ کبھی تولڑکی کوپھول کہا اورکبھی بیٹیوں کوباعث برکت، انس رکھنے والی،شفقت کرنے والی اورگران قیمت قراردیاہے، حمزہ بن حمران روایت کرتے ہیں کہ ”ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اورمیں بھی وہیں تھا جب اسے اپنے بچے کی خبردی گئی تواس کے چہرے کارنگ متغیرہوگیا پیغمبر نے پوچھاکیاہواہے ؟ تواس نے جواب دیا اچھا ہی ہواہے آپ نے فرمایا تھا توپھرتیرے چہرے کارنگ کیوں متغیرہوگیا؟ کہنے لگا جب میں گھرسے نکلاتھا تومیری بیوی دردزہ میں مبتلاتھی اب مجھے خبرملی ہے کہ اس نے لڑکی کوجنم دیاہے توآپ نے فرمایا :
الارض تقلھا، والسماء تظلھا، واللہ یرزقھا وھی ریحانة تشمھا۔
”زمین اسے اٹھائے گی، آسمان اس پرسایہ کرے گا، اللہ تعالی اسے رزق دے گا اوریہ پھول کی طرح تجھے خوشبو فراہم کرے گی“ [69]۔
حضرت علی نے اسی بات کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاہے :
جب پیغمبر کولڑکی کی خوشخبری دی جاتی تھی توآپ فرماتے : یہ پھول ہے اوراس کے رزق کاضامن خداہے [70]۔
اورپیغمبر کاحضرت فاطمة کے ساتھ عملی سلوک ہمارے لئے ایک زندہ نمونہ ہے۔ حسنی سیرت آئمہ میں بنت شاطی سے نقل کرتے ہیں جب حضرت فاطمة زہرا پیداہوئیں توآپ کے والدین بہت خوش ہوئے اورایسی محفل منعقد کی کہ اس سے پہلے اہل مکہ نے لڑکی کی ولادت کے موقعے پراس طرح کی محفل برپا نہیں کی تھی [71]۔
اوریہ چیزان القاب وخطابات سے بھی ظاہرہوتی ہے جوپیغمبر نے حضرت فاطمة کوعطافرمائے تھے چنانچہ حسنی نے استاد توفیق ابوعلم کی کتاب ”اہل البیت“ سے نقل کیاہے ”سیدة فاطمة“ کے نواسماء مبارکہ ہیں فاطمة،صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ،زکیہ، محدثہ، زہراء، بتول، اورسیدة نساء اہل الجنة، ابوعلم مزید لکھتے ہیں کہ ”آپ کوپیغمبر کی ماں بھی کہاجاتاہے کیونکہ اپنی ماں کی وفات کے بعد پیغمبر کے گھرمیں آپ تنہاتھیں ان کاخیال رکھتیں اورراتوں کوجاگتیں [72]۔
نیز کتب سیرت میں ملتاہے کہ پیغمبر نے آپ سے بہت محبت کی اورآپ پربہت مہربان رہے جب کسی سفرپرجاتے توسب سے آخرمیں آپ سے ملتے اورجب واپس آتے توسب سے پہلے آپ سے ملاقات کرتے اورسفریاغزہ سے واپسی پرمسجدمیں دورکعت نمازپڑھتے پھر فورا حضرت زہرا کے پاس آتے تھے [73]۔
درست ہے کہ پیغمبر علم غیب کے ذریعہ ان رازہائے سربستہ کوجانتے تھے کہ آپ کی ذریت طاہرہ کاسلسلہ آپ کی پارہ جگرحضرت فاطمة زہراسے ہے اوریہ آپ کے نقش قدم پرچلتے رہیں گے اورکتاب خدا سے جدانہیں ہوں گے یہاں تک یہ دونوں ایک ساتھ حوض کوثرپرپیغمبر کے پاس حاضرہوں گے ۔
لیکن آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمارے لئے ایک زندہ اوردرخشندہ مثال چھوڑ جائیں کہ بیٹی کے ساتھ کیاسلوک کیاجاتاہے ایسا اجتماعی سلوک کہ جس سے جاہلیت کازمانہ محروم تھا اور آئمہ بھی اس فرق کودنیا سے ختم کرنے کے لئے کہ جوبیٹے اوربیٹی کے درمیان زمانہ جاہلیت سے چلاآرہاتھا اپنے اندر بزرگوار ہی کے نقش قدم پرچلتے رہے وہ فرق کہ جس نے لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کی اہمیت کوبالکل ختم کردیاتھا۔
حسن بن سعید لخمی سے روایت ہے جب ہمارے ایک دوست کے یہاں لڑکی پیداہوئی تووہ امام صادق کے پاس آیا جب امام نے اسے ناخوش دیکھا توفرمایا اگراللہ تعالی تیری طرف وحی بھیجتا کہ بجے کاانتخاب توخود کرے گایامیں تو توکیاجواب دیتا اس شخص نے کہا میں یہی کہتا پروردگار توہی انتخاب کرتوآپ نے فرمایا بیشک اللہ نے تیرے لئے انتخاب کرلیاہے [74]۔
توایسے حکیمانہ انداز کے ساتھ امام صادق نے جاہلیت کے باقی ماندہ اثرات کولوگوں کے دلوں سے زائل کیا اوراس سے بھی زیادہ موثرانداز یہ ہے کہ جب ایک شخص نے لڑکی جنم دینے پراپنی بیوی پرخیانت کاالزام لگایاتوامام صادق نے اس کی اس عقل وشرع کے خلاف مضمحل فکرکو رد کیا اورقرآن کی اعلی فکر کو بیان کیا۔
ابراہیم کرخی کی روایت میں ہے اس کہ ایک شخص کہتاہے میں نے مدینہ میں شادی کی توامام صادق نے پوچھا تونے اپنی زوجہ کوکیساپایا میں نے کہا کوئی مرد کسی عورت یمں کوئی بھلائی نہیں دیکھتا مگرمیں نے اس میں دیکھی ہے لیکن اس نے مجھ سے خیانت کی ہے آپ نے فرمایا کیسی خیانت تومیں نے عرض کیا اس نے لڑکی کوجنم دیاہے توآپ نے فرمایا شاید تم اسے ناپسند کرتے ہو لیکن یادر کھو خداوندعالم ارشاد فرماتاہے کہ تمہارے آباؤاجداد اورتمہاری اولاد تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لئے زیادہ فائدہ مند ہے [75]۔
بلغنی انہ ولد لک ابنة فتسخطھا! وماعلیک منھا؟ ریحانة تشمھا وقد کفیت رزقھا… [76]۔
”مجھے پتاچلاہے کہ تیرے ہاں لڑکی پیداہوئی ہے جس کی وجہ سے توکبیدہ خاطرہے توتوجان لے کہ وہ تیرے اوپرکوئی بوجھ نہیں ہے وہ توایک پھول ہے جس کی خوشبو تیرے مشام تک پہنچے گی اوراس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپرہے۔
اس سے بڑھ کرامام صادق نے لڑکے کولڑکی پرفوقیت دینے کی فکرکو برعکس کردیا اورفرمایا : الحسنات ویسال عن النعمة
”لڑکے نعمت ہیں اورلڑکیاں نیکیاں ہیں اوراللہ تعالی نعمتوں کاحساب لے گا اورنیکیوں پرثواب دے گا [77]۔
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ مکتب اہل بیت نے لوگوں کے اذہان کوجاہلیت کے افکار سے پاک کیا اورانہیں آسلام کے ان ترقی یافتہ افکار سے پرکیا کہ جوعالم وجود میں آنسان کے لئے مقام ومنزلت کے قائل ہیں اس کی زندگی آزادی اورشرافت کے محافظ ہیں اوراس کے ناخن اگنے کے وقت سے اس کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں بالخصوص حق وجود کی اوربالخصوص لڑکیوں کے حق حیات کی ۔
۲۔بچے کا اچھے نام کاحق
بعض نام نہایت خوبصورت اوراعلی معانی اورحسین احساسات کے آئینہ دار ہوتے ہیں اورصاحب نام کی طرف ایسے جذب کرتے ہیں جیسے پھولوں کی تیز خوشبو شہدکی مکھی کوجذب کرتی ہے لیکن بعض نام اس قدر قبیح اوربے معنی ہوتے ہیں کہ ان کوسن کردل تنگ ہوتاہے اورکان اکتاجاتے ہے اورنام کابہت بڑا نفسیاتی اوراجتماعی اثرہوتاہے کتنے ایسے بچے ہیں کہ جن کے بدنماناموں نے ان کی راتوں کی نیند حرام اوران کے آرام وسکون کوخراب کردیاہے اوریہ نام جواس بچے کامقدربن چکاہے اس کے لئے معاشرے میں طنزومزاح اوراہانت کاموجب ہے جس کی وجہ سے اس پرہمیشہ مایوسی اوربدنصیبی سایہ فگن رہتی ہے اگرچہ بعض مضبوط لوگ نام کے اس سیاہ پردے کواپنی زندگی کی خوشیوں پرغالب آنے کی اجازت نہیں دیتے اوراسے تبدیل کرکے ایسے جڑسے اکھاڑ پھینکتے ہیں جیسے ماہرسرجن کینسر کے پھوڑے کونکال پھینکتاہے۔ اور اسلام کہ جس نے عظیم ثقافتی اورفکری انقلاب کابیڑا اٹھاررکھاہے نام کے معاملے میں بھی خاموش نہیں ہے۔
چنانچہ پیغمبر عقیدہ توحید کے منافی اوربرے ناموں کوتبدیل کردیاکرتے تھے اوربیٹے کا باپ پرحق سمجھتے تھے کہ وہ اس کے لئے اچھے نام کاانتخاب کرے فرماتے ہیں :
ان اول ماینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ
”باپ کابیٹے کے لئے پہلاتحفہ اچھانام رکھناہے لہذا بچے کے لئے اچھے نام کا انتخاب کرناچاہئے“ [78]۔
اورایک دوسری حدیث میں نام کے اخروی پہلوؤں کوبیان کرتے ہوئے فرمایاہے :
استحسنوا اسمائکم فانکم تدعون بھا یوم القیامة : قم یافلان بن فلان الی نورک، وقم یافلان بن فلان لانورلک۔
”اچھے ناموں کاانتخاب کرو کیونکہ روزقیامت انہیں کے ذریعے پکارے جاؤگے اورکہا جائے گا اٹھ اے فلان بن فلان تیرے ہمراہ نورہے اوراٹھ اے فلان بن فلان تونورسے خالی ہے“ [79]۔
۲۔ قابل ذکرہے کہ انبیا ورسل اورآئمہ کے نام بہترین نام ہیں۔ پیغمبر فرماتے ہیں : سموااولاکم اسماء الانبیاء [80]۔
”بچوں کے لئے انبیا کے ناموں کاانتخاب کرو“۔
امام باقر فرماتے ہیں :
اصدق الاسماء ماسمی بالعبودیة، وخیرھا اسماء الانبیاء صلوات اللہ علیھم [81]۔
”سب سے اچھانام وہ ہے جس میں عبودیت کااظہار ہو اوربہترین نام انبیا کے اسماء گرامی ہیں“۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ پیغمبر اشخاص اورشہروں کے قبیح ناموں کوتبدیل کرنے پرجس قدرحریص تھے اتنے ہی اہل بیت اوراصحاب کوخوبصورت نام عطا کرنے میں سخی تھے۔
سیرت کی کتابوں میں ملتاہے کہ جب آپ کوامام حسن کی ولادت کی خوشخبری دی گئی اور آپ کی پیاری اوراکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا سیدة نساء العالمین کی گود میں آپ کے نواسے کاپھول کھلا توآپ فورا حضرت زہرا کے گھرتشریف لائے مولود مبارک کوہاتھوں پے لیا، دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اورحضرت علی سے فرمایا :
ای شی سمیت ابنی؟ قال : ماکنت لاسبقک بذلک، فقال ولاانا سابق ربی بہ، فھبط جبرئیل : فقال : یامحمد، ان ربک یقرئک السلام، ویقول لک : علی منک بمنزلة ھارون من موسی ولکن لانبی بعدک، فسم ابنک ھذاباسم ولدھارون، فقال : وماکان اسم ابن ھارون یاجبرئیل ؟ قال : شبر، فقال ان لسانی عربی فقال : سمہ الحسن، فسماہ حسنا وکناہ ابامحمد ۔
”آپ نے میرے بیٹے کانام کیارکھاہے ؟ عرض کیامیری کیامجال آپ سے پہلے نام رکھوں توآپ نے فرمایا میں بھی اپنے پروردگار پرسبقت نہیں کرسکتا، پس جبرئیل نازل ہوئے اورکہا اے محمد تمہارپروردگار تمہیں سلام کہتاہے اورفرماتاہے کہ علی کوتم سے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے ہے مگریہ کہ تیرے بعد کوئی نبی نہیں ہے لذا اپنے بیٹے کاوہی نام رکھو جوہارون کے بیٹے کانام تھا پیغمبر نے پوچھا جبرئیل ہارون کے بیٹے کاکیانام تھا توجواب دیاشبر، پیغمبر نے فرمایا میری زبان توعربی ہے توجبرئیل نے کہاپس اس کانام حسن رکھئے چنانچہ آپ نے نام حسن اورکنیت ابومحمد رکھی [82]۔
اورجب امام حسین پیدا ہوئے توآپ کوپیغمبر کے پاس لایاگیا آپ بہت خوش ہوئے اوردائیں کان میں آذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اورجب ساتواں دن ہوا توآپ کانام حسین رکھااورحضرت فاطمہ کوبچے کاسرمنڈانے اوراس کے بالوں کے برابرچاندی صدقے میں دینے کاحکم دیا جس طرح ان کے بھائی امام حسن کی ولادت کے موقعے پرکیاجاچکاتھا اورحضرت فاطمة نے آپ کے حکم کی اطاعت کی [83]۔
پیغمبر کی ان تعلیمات میں بچے کے نام کوجواس قدر اہمیت دی گئی ہے یہ بغیر وجہ کے یاکسی عیاشی کا شاخصانہ نہیں ہے بلکہ اس کا سرچشمہ برے نام کے نتائج سے آگاہ ترقی یافتہ فکرہے اورآج کے جدید علوم بھی انہیں تعلیمات نبویہ کی تائیدکرتے ہیں آج علماء نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کا اپنے نام اورلقب کے ساتھ بہت گہراتعلق ہوتاہے اگرکسی کانام خراب اوربھدا ہے تواس کے کان کے ساتھ مسلسل ٹکراتے رہنا اوراس کے ذہن میں مسلسل پڑتے رہنااس کے باطن پربھی اثرکرتاہے اوراس کااخلاق ورفتاربھی اسی طرح خراب ہوجاتے ہیں
۔ اوربلاشک اسی وجہ سے پیغمبر بعض لوگوں کے نام تبدیل کر دیا کرتے تھے چنانچہ آپ نے حرب (جنگ) کا نام سمح (سخی) رکھا [84]۔
اورآئمہ نے بھی اس حق کی پاسداری پر زور دیا ہے امام موسی کاظم فرماتے ہیں:
اول مایبرالرجل ولدہ ان یسمیہ باسم حسن، فلیحسن احدکم اسم ولدہ[85]
”سب سے پہلا احسان جو کوئی شخص اپنے بچے پر کر سکتا ہے وہ اچھا نام ہے پس اپنے بچوں کے لئے اچھے ناموں کا انتخاب کرو“۔
اورامام صادق نے آئمہ کے ناموں کے بعض فوائد ذکرکئے ہیں جب کسی نے آپ سے عرض کیا آپ پرفدا ہو جاؤں اگر ہم اپنے بچوں کے لئے آپ کے اور آپ کے باپ دادا کے ناموں کا انتخاب کریں تو ہمیں کوئی فائدہ ہوگا توآپ نے فرمایا:
ای واللہ وھل الدین الاالحب؟ قال اللہ (ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ و یغفرلکم ذنوبکم۔
”ہاں قسم بخدا دین صرف محبت کا نام ہے اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخشدے گا“ [86]۔
توآپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نام ”ولادت نامہ“ birth certificateپر لکھاہوا محض ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ بچے کا ایک پیدائشی حق ہے جو اس کی شخصیت کو سنوارتا ہے اور اس کی پریشان روح اس کے دلکش معنی کی وجہ سے ایسے کھلکھلا اٹھتی ہے جیسے بہار کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر انسان کا دل شاد ہو جاتا ہے اور روح معطر ہوجاتی ہے۔
۳:تعلیم وتربیت کاحق :
بلاشک بچے کی عمر کے پہلے سال اس کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں اور اسی مرحلہ میں ماہرین تعلیم و تربیت بچے کا خاص خیال رکھنے اور اسے آداب حسنہ سکھانے پر زور دیتے ہیں سید الموحدین امام علی فرماتے ہیں :
خیر ما ورث الآباء الابناء الادب۔ ”والدین بہترین وراثت جو اولاد کو دے سکتے ہیں وہ ادب ہے“ اور نیز فرماتے ہیں ان الناس الی صالح الادب احوج منھم الی الفضة والذھب۔ والدین بہترین وراثت جو اولاد کو دے سکتے ہیں وہ ادب ہے نیز فرماتے ہیں لوگوں کو سونے یا چاندی کے بجائے اچھے آداب کی زیادہ ضرورت ہے“۔
اور آپ کے لخت جگر امام صادق تربیت کے مال سے افضل ہونے کی علت یوں بیان فرماتے ہیں : ان خیر ما ورث الآباء لابنائھم الادب لاالمال فان المال یذھب والادب یبقی“۔
”بہترین چیز جو والدین اپنی اولاد کو وراثت میں دے سکتے ہیں تربیت ہے نہ مال کیونکہ مال ختم ہو جاتا ہے اورتربیت باقی رہتی ہے“ [87]۔
بچوں کی تربیت کا موضوع اہل بیت کی احادیث کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اور آپ بچوں کے دلوں کے سخت اور ہڈیوں کے پختہ ہونے سے پہلے ان کی تربیت پر زور دیتے ہیں کیونکہ بچہ کورے کاغذ کی طرح اپنے پر نقش ہونے والے تمام خطوط اور تحریرات کو قبول کرتا ہے۔
حضرت علی اپنے فرزند امام حسن سے فرماتے ہیں :
انما قلب الحدث کالارض الخالیة، ماالقی فیھا من شیء قبلتہ فبادرتک بالادب قبل ان یقسو قلبک، ویشتغل لبک۔
”نو عمرکا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ اس میں جو ڈالا جائے اسے قبول کرتا ہے اس لئے میں نے تجھے ادب سکھانے میں جلدی کی ہے قبل اس کے کہ تیرا ذہن سخت ہو جائے اور تیرا ذہن دوسرے امور میں مشغول ہوجائے [88]۔
یہ آئمہ کی فکر ہے اورآپ معصوم ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے چنانچہ حضرت علی کی تربیت پیغمبر نے کی اورآپ اس طرح پیغمبر کے ساتھ ساتھ رہتے تھے جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے ہوتا ہے۔
اورآ پنے اپنی اولاد کے لئے یہی اعلی میراث چھوڑی کیونکہ دونوں چراغ وحی سے منور ہوئے تھے۔
امام صادق فرماتے ہیں :
ادبنی ابی بثلاث …قال لی یابنی من یصحب صاحب السوء لایسلم،ومن لایقید الفاظہ یندم، ومن یدخل مداخل السوء یتھم۔
”مجھے میرے والد گرامی نے تین چیزوں کا ادب سکھایا اور فرمایا میرے پیارے بیٹے برے کا ساتھی برائی سے بچ نہیں سکتا، زبان کو کھلا چھوڑنے والا پشیمان ہوتا ہے اور برائی کے مقامات پرجانے والا متھم ہوتا ہے“ [89]۔
[35] - البحار۱۰۴:۹۹۔
[36] - البحار ۷۴:۶۵۔
[37] - سیدمحسن امین کی فی رحاب آئمة اہل البیت ۲:۱۹۵۔
[38] - محمدجواد مغنیہ کی التفسیرالکاشف ۲:۳۲۱ دارالعلم للملایین طبع۳۔
[39] - الصحیفة السجادیة الکاملة ۱۳۲دعا۲۶مطبعة موسسة الامام المہدی طبع اول۔
[40] - بحارالانوار۷۴:۷۶۔
[41] وسائل الشیعہ از کتاب الوقوف والصدقات باب ۱۱،۱۹:۲۰۴/۱۔
[42] - سورة کہف ۱۸:۴۶۔
[43] - سورہ صافات ۳۷:۱۰۰۔۱۰۱۔
[44] - سورة آل عمران۳:۳۸۔
[45] - سورة انبیا/۲۱:۸۹۔
[46] - سورة انبیاء۲۱:۹۰۔
[47] - بحار ۱۰۳:۲۲۰۔
[48] المحجة البیضا ۳:۵۳۔
[49] - المعجم المفہرس لالفاظ غررالحکم ۳:۳۱۷۱/۱۶۶۸ اورغررالحکم ۷۳/۱۶۶۸میں ہے ”بیٹادودشمنوں میں سے ایک ہے“۔
[50] - فروع کافی باب فضل الولد ۶:۵/۲۔
[51] - فر وع کافی باب شبہ الولد ۶:۷/۲۔
[52] - البحار۱۰۳:۲۱۹۔
[53] - کنز العمال ۱۶،۲۹۶/۴۴۵۵۹۔
[54] - کنز العمال ۱۶:۲۹۵/۴۴۵۵۷۔
[55] - سورہ ھود ۱۱: ۴۵/۴۷۔
[56] - سوہ صافات ۳۷:۱۰۲۔
[57] - البحار ۷۸:۲۳۶۔
[58] - البحار۱۰۳:۲۳۲۔
[59] - فروع کافی باب ۳۰ از کتاب النکاح ۵:۳۵۴/۱۔
[60] - بحارالانوار ۷۹:۲۶۔
[61] - بحار۷۹: ۲۴۔
[62] - بحار۱۰۳ : ۳۶۸۔
[63] - بحار۷۵: ۲۷۹۔۲۸۰۔
[64] - سورہ تکویر۸۱ :۸۔۹
[65] - سورة انعام ۶: ۱۵۱۔
[66] - سورة اسراء ۱۷ : ۳۱۔
[67] - نبیہ الداموری کی المختار من طرائف الامثال والاخبار مطبع الشرکة العالمیة للکتاب طبع ۱۹۸۷۔
[68] - سورة نحل ۱۶ : ۵۸۔۵۹۔
[69] - فروع کافی ،کتاب العقیقة باب فضل البنات ۶:۵/۶۔
[70] - البحار ۱۰۴: ۹۸۔
[71] - ہاشم معروف الحسنی کی کتاب سیرة الائمة الاثنی عشرالقسم الاول ۶۵۔۶۷ مطبع دارالتعارف للمطبوعات طبع ۱۴۰۶ھجری ۔
[72] - سابقہ حوالہ ۔
[73] - سابقہ حوالہ ۶۸۔
[74] - فروع الکافی باب فضل البنات ۶: ۱۰/۱۰۔
[75] - سورة نساء ۴ : ۱۱ فروع کافی باب فضل البنات ۶ :۸/۱۔
[76] - فروع کافی باب فضل البنات ۶: ۹/۹۔
[77] - فروع کافی باب فضل البنات ۶: ۹/۸۔
[78] - البحار ۱۰۴: ۱۳۰۔
[79] - فروع کافی باب الاسماوالکنی ۶:۲۲/۱۰۔
[80] - بحار ۱۰۴ :۹۲۔
[81] - بحار ۱۰۴ :۱۲۹۔
[82] - محمدحسن آل یاسین کی کتاب الامام الحسن بن علی ،ص۱۶۱۔
[83] - فی رحاب آئمة اہل البیت ۲: ۴۷۔
[84] - خالدمحمدخالدکی کتاب مواطنون…لارعایا۲۲۔
[85] - فروع کافی باب الاسماء والکنی ۴:۲۱/۳۔
[86] - بحارالانوار۱۰۴:۱۳۰سورہ آل عمران ۳:۳۱۔
[87] - روضة کافی ۸:۲۰۷/۳۲اورراوی حدیث مسعدہ بن صدقہ کے بقول ادب سے مراد یہاں علم ہے
[88] - بحارالانوار ۷۷:۲۰۱۔
[89] - بحارالانوار ۷۸:۲۶۱۔
source : http://www.taghrib.ir/