پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا : جعلت لی الارض مسجداً وطھوراً (١)خداوند عالم نے میرے لئے زمین کو سجدہ گاہ (سجدہ کرنے کی جگہ ) اور پاکی کا وسیلہ قرار دیاہے ۔ یعنی سجدہ زمین اور ہر اس چیز کے اوپر جس پر کلمہ ''زمین '' لغت ،عرف اورشرع میں صادق آجائے ،انجام پانا چاہئے مثلاً مٹی ، روڑی ، پتھر ،کیچڑ، اس بنأپر ،سجدہ کرنا اس چیز پرجس پر زمین صادق نہ آجائے ،جائز نہیں ہے مثلاً روئی پر ،بالوں پر
اورریچھ کے بالوں پر ، لفافہ (پلاسٹک ) اون کے فرش پرپنبہ اور ان جیسی چیزوں پرمثلاً جنس زمین شمار نہ ہونے والے پلاسٹک پر سجدہ کرنا ،پس مذکورہ اورصحاح اور وغیرہ وغیرہ کی احادیث کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ وہ سجدہ کرنا صرف زمین پر جائز جانتی ہیں ، سجدہ کرنا اس پر جائز نہیں ہے ۔
اہل سنت کے منابع کی احادیث:
ابن عباس کہتے ہیں : رسول خدا(ص) نے فرمایا: اُمرت ُ اَنْ اسجد علی سبعۃ لا اکف الشعر ولا الثیاب ولا الجبھۃ ولانف والیدین والرکبتین والقد مین (٢)مجھے سات چیزوں پرسجدہ کرنے کا حکم دیا گیااورمیں اپنے لباسوں کو چھوڑدوں تاکہ وہ زمین سے لگ جائیں :ماتھا ،ناک ، ہاتھوں ، کی د وہتھیلیاں ، دو گھٹنے اوردوپاؤں ۔
جابر ابن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں :ہم پیغمبرکے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے میں نے ریت کی ایک مٹھی اٹھائی اور اس کو میں اپنے ہاتھ میں سرد کررہا تھا اس کے بعد اپنے دوسرے ہاتھ میں لیتاتھا اورجب میں سجدہ کرنے نیچے جاتا تھا تو اس کو میں زمین پر رکھ دیتا تھا تاکہ اپنا ماتھا اس کے اوپر رکھوں ۔ (٣)
ہم اس روایت سے استفادہ کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) کے اس جلیل القدر صحابی '' جابر ابن عبداللہ انصاری '' کا کام رسول خدا(ص) کے حضور میں تھا ، پس پیغمبرکی سکوت اورتائید سجدہ کے جائز ہونے پر بہترین گواہ ہے ،بلکہ زمین کے اوپر اور ہر اس چیز کے اوپرجس پر زمین صادق آجائے ،واجب ہو نے پر گواہ ہے اور اگر زمین کے علاوہ دوسری چیز پر سجدہ کرنا جائز ہوتا، تو یہ صحابی اس پر سجدہ کرنے یا کم ازکم پیغمبر(ص) اس کو زمین کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ کرنے کا حکم دیتااور اس کو سجدہ کرنے کے لئے ریت سرد کرنے کی ضرورت نہ پڑتی ۔
بعض احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہےں کہ لباس پر سجدہ کرنا، صرف ضرورت کی حالت میں (مثلاً گرمی سے محفوظ رہنے کی حالت میں )جائز ہے انس کہتاہے: جب ہم پیغمبر(ص) کی اقتداء میں نماز ظہر پڑھتے تھے، تو ہم گرمی سے محفوظ رہنے کے لئے ، اپنے لباسوں پر سجدہ کرتے تھے ۔ (٤)رفاعۃ ابن مالک کہتاہے : ر سول خدا(ص) نے ایک شخص کو اپنی پیشانی زمین پررکھنے اور اپنے بدن کے اعضاء قرار پکڑنے اور اس کے بعد تکبیر کہنے اپناسر اونچا کرنے اور دوبارہ تکبیر کہنے اور بیٹھے ،اور اپنے پاؤں کو برابر کرنے اور ان کوایک دوسرے کے ساتھ ملانے یہاں تک کہ اس کی کمر آرام پکڑے اوردوبارہ سجدہ میں جانے یہاں تک کہ اس کی پیشانی زمین تک پہنچ جائے اور اس کے بدن کے اعضاء آرام پکڑیں کا حکم دیا۔ اگر تم میں سے کوئی یہ کام انجام نہ دے ، تو اس کی نماز کامل نہیںہوگی۔(٥)ابو سعید کہتاہے : پیغمبراعتکاف میں جاتے تھے وغیرہ وغیرہ وہ حدیث کی تعقیب میں کہتاہے : پیغمبرنے فرمایا مجھ کو آج رات تم نے دیکھا ؟ کیا تم نے بھول دیا کہ میں صبح کو مٹی پر سجدہ کررہاتھا؟ ابو سعید کہتاہے :میں نے اکیسویں کی صبح کو حضرت کی پیشانی مبارک اوران کی ناک اور ان کی آنکھوں میں پانی اور مٹی کااثر دیکھا ۔ (٦)
بخاری نے ایک صحیح روایت میں اسماعیل سے ، اس نے ابن ابی اویس سے ، اوراس نے مالک سے اور مسلم نے بھی ابن الھاد سے د وسری دوراہوں کے ذریعے یہی روایت نقل کی ہے ۔عکرمہ کہتاہے : ایک دن پیغمبر(ص) نے ایک مردکودیکھا کہ جب وہ سجدہ کرتا ہے تو وہ اپنی ناک زمین کے اوپر نہیں رکھتاتھا ، حضرت نے فرمایا: جس شخص کی ناک اس کی پیشانی کی طرح زمین کو نہ لگ جائے ، تواس کی نماز قبول نہیںہے ۔ جابر ابن عبداللہ انصاری نے دوراویوں سے نقل کیاہے : کہ میں رسول اللہ کے ساتھ نماز ظہر پڑھ رہا تھا ۔ اور شدید گرمی کی وجہ سے میں اپنے ہاتھ میں ریت لیتا تھا تاکہ وہ سرد ہوجائے اور سجدہ کے وقت می اس پریشانی رکھ دیتا تھا ۔ بیہقی کہتاہے : اگر سجدہ کرنا اس لباس پرجو بدن پر ہے نصف جائز ہوتا، تو اس پر سجدہ کرنا زیادہ آسان اور ہاتھ میں ریت سرد کرنے سے بہتر تھا ۔ (٧)
معاویہ ابن صالح نے عیاض ابن عبداللہ قرشی سے نقل کیا ہے کہ ایک دن پیغمبر(ص)نے ایک آدمی کو اپنے عمامہ کے گرہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ، تو حضرت نے اشارہ سے ا سکو عمامہ اٹھانا سمجھایا اوراس کے بعد اس کی پیشانی کی طرف اشارہ کیا ۔ (٨) حدیث میں آیاہے :
فَمن لم یمکن شیاً من الارض احرقہ اللہ باالنار ؛ :جو کوئی اپنے بدن میں سے ایک حصہ کو سجدہ میں زمین تک نہ پہنچائے ، تو خدا وند عالم اس کو آگ میں جلائے گا ۔(٩)
مَنْ لم یلذق أنفہ مع جبھتہ باالارض اذا سجد لم تجز صلواتہ(١٠)جو کوئی سجدہ میں اپنے ماتھے کے ساتھ اپنی ناک زمین تک نہ پہنچائے ، تو اسکی نماز صحیح نہیں ہے ۔ابن عباس کہتاہے : پیغمبرنے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیااور بالوں اورلباسوں کو آگے سے نہ پکڑا جائے تاکہ وہ زمین تک پہنچیں :پیشانی ،دوہاتھ دو زانو اوردو پیر(١١) احمد نے وائل سے نقل کیاہے :میں نے پیغمبر(ص)کو زمین پر سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی پیشانی مبارک اور ناک سجدہ میں زمین پر ہونے کی حالت میں دیکھا ۔ (١٢)
انس کہتاہے :ہم پیغمبر(ص) کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ہوا بہت گرم تھی اورہم میں سے ہر ایک اپنی پیشانی زمین پر نہیں رکھ سکتا تھا ، ہم اپنالباس بچھاتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔ (١٣)محدثین میں سے ایک گروہ نے یہ روایت نقل کی ہے ۔یہ حدیث گرمی سے بچنے کے لئے لباس پر سجدہ کرنے کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اوریہ کہ لباس پر سجدہ کرنا صرف گرمی کے برداشت کرنے کی صورت میں وارد ہوئی ہے، اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ سجدہ میں اصل ، ز مین تک پیشانی پہنچانی ہے ۔ان متواتر احادیث سے کہ جوصحاح اوروغیرہ وغیرہ میں نقل ہوئی ہےں ، سمجھا جاتاہے کہ: زمین پر ضروری سجدہ کیا جانا چاہئے ،پس شیعہ اثنا عشری کا مٹی کے ایک مقدار پر سجدہ کرنا وہی پیغمبر(ص) اکرم اور اس کے معزز اہلبیت کی احادیث شریفہ پرعمل وتمسک کرنا ہے ۔
بعض کہتے ہیں : جس طرح کہ صحاح میں آیاہے ،پیغمبر اپنے عمامہ کے گرہ پر سجدہ کرتے تھے یہ نظریہ ابو حنیفہ ،مالک اوراحمد (ان دو نظریوں میں سے ایک نظریہ میں جو اس سے نقل ہوئے ہیں ) نے قبول کیاہے ۔ لیکن شیعہ ایسا سجدہ کرنا جائز نہ ہونے کے قائل ہیں شافعی اوراحمد (اس د وسرے نظریہ میں کہ جو اس سے نقل ہوا ہے ) شیعوں کے ساتھ ہم عقیدہ ہیں ؛ کیونکہ پیغمبر(ص)کا عمامہ کے گرہ پر سجدہ کرنا ثابت نہیں ہواہے بلکہ پیغمبر(ص) اس کام سے نہی بھی کرتے تھے ۔
عبد اللہ ابن عمر نے ابوھریرہ سے نقل کیاہے کہ پیغمبر(ص)نے اپنے عمامہ کے گرہ پر سجدہ کیاہے ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ، کیونکہ جس طرح کہ ابن حجر ، ابوحاتم اوردار قطنی نے کہا ہے عبداللہ کی احادیث پرعمل نہیں کی جاسکتی ہے۔بخاری کہتا ہے : عبداللہ کی احادیث پر عمل نہیں کی جائے گی ؛وہ دربار کے قضاۃ میں سے ایک قاضی تھا اور علماء رجال نے، ابو ھریرہ سے اس کے کے لئے حدیث سننا ذکر نہیں کیاہے ۔(١٤)
حافظ ابن حجر کہتاہے : کسی بھی صحیح یا حسن حدیث میں ثابت نہیںہوا ہے کہ پیغمبر (ص) نے اپنے عمامہ کے گرہ پر سجدہ کیاہو ۔ شیعوں نے ، سجدہ کی جگہ کے پاک اورمباح ہونے کے علاوہ ،شرط کیاہے : جس چیز پر سجدہ کیا جاتاہے ، وہ زمین اورنہ کھانے والے اور نہ پہننے والے گھاس میں سے ، ہونی چاہئے ،سجدہ روئی اورکتان کے لباسوں یا ان لباسوں پر جو د وسرے گھاسوں سے بنائے جاتے ہیں ، صحیح نہیں ہے ۔اسی طرح ان چیزوں پر سجدہ کرنا جن پر زمین کا نام صادق نہیں آتاہے اورمعادن کے جزء شمار ہوتے ہیں ،جائز نہیں ہے ، مثلاً سونا اورچاندی ۔زمین پر سجدہ کرنا افضل اوربہتر ہے ؛کیونکہ زمین پر سجدہ کرنے سے ، ہم خداوند عالم کے سامنے اپنی طرف سے زیادہ تواضع وفروتنی کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ (١٥)
وہ روایات جو ائمہ اطہار نے نقل کی ہیں :
بصری کہتاہے : میں نے امام صادق سے پوچھا : اس آدمی کا حکم جس کے سر پر عمامہ ہے اور اس کی پیشانی سجدہ کرنے کے وقت زمین ،پر نہیں پہنچتی ہے ، کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا :لا یجزیہ ذالک حتی تصل جبھتہ الی الارض : جب تک کہ اسکی پیشانی تک نہ پہنچے ،کافی نہیں ہے (١٦)ہشام ابن حکم نے ایک صحیح روایت میں امام صادق سے پوچھا : سجدہ کرنا کن چیزوں پر صحیح اورکن چیزوں پر باطل ہے ؟ حضرت نے فرمایا :لا یجوز السجود الا علی الارض او علی ما انبتت الارض الا ما اُکل اَوْلبس ؛سجدہ صرف زمین اور نہ کھانے اورنہ پہننے والی چیزوں پر جائز ہے ۔ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں !کیوں تو انہوں نے فرمایا :
لِاَنَّ السجود خضوع للہ عز وجل ،فلاینبغی اَنْ یکون علی ما یوکل ویلبس لانَّ ابناء الدنیا عبید ما یاکلون ،ویلبسون والساجد فی سجود فی عبادۃ اللہ عزوجلّ فلا ینبغی ان یضع جبھتہ فی سجود ہ علی معبود ابناء الدنیا الذین اغتروا ، بغرورھا ؛کیونکہ سجدہ کرنا خداوند عالم کے سامنے خضوع اورخشوع ہے ؛پس اچھانہیں ہے کہ وہ کھانے اورپہننے والی چیزوں پر ہو ، کیونکہ دنیا پر ست لوگ کھانے اور پہنے کی چیزوںکے بندے ہیں سجدہ کرنے والا سجدہ کرنے کی حالت میں ، خداوند عالم کی بندگی کرتاہے ، بس اچھا نہیں ہے کہ نماز پڑھنے والا ، اپنی پیشانی سجدہ میں ان دنیا پرستوں کے معبود پر جن دنیا پرست کو دنیا نے دھوکہ دیا، قراردے ۔فضل ابن عبدالملک نے ایک صحیح روایت میں نقل کیاہے کہ :حضرت امام صادق نے فرمایا : لایجد الا علی الارض اوما
انبتت الارض الاالقطن والکتان ، (١٧)سجدہ کرناروئی اور کتان کے علاوہ صرف زمین اورگھاس پر صحیح ہے ۔
شیعوں کی نظر میں کاغذ پر سجدہ کرنا صحیح ہے :
صفوان جمال کہتاہے : میں نے حضرت امام صادق کو کجاومیں کاغذپر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔(١٨)علی ابن مھر یار نے ایک صحیح روایت میں ذکرکیاہے : داؤد ابن فرقہ نے امام موسیٰ کا ظم سے پوچھا کیا لکھئے ہوئے کاغذوں پر سجدہ کرنا صحیح ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں لکھا : صحیح ہے۔(١٩)امامیہ کا اجماع ، اس پر ہے کہ سجدہ کی جگہ پاک ہونی چاہئے اورسجدہ زمین اور نہ کھانے اورنہ پہننے والی (جیسے کاغذ)گھاس پرانجام پانا چاہئے۔اسی بنأ پر ، ان چیزوں پر سجدہ کرنا جن کو زمین نہیں کہی جاتی ہے اورمعادن میں سے شمارہوتی ہیں ،صحیح نہیں ہے جیسے سونا ، چاندی ،عقیق،فروزہ ،(٢٠)
تارکول اور اسی طرح ان چیزوں پر سجدہ کرنا کہ جن کو گھاس نہیں کہتے ہیں جیسے راکھ ،کوئلہ اوران جیسے چیزوں پر کھانے اورپینے والی چیزوں پر بھی سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ۔ جیسے روٹی ، رو ئی اورکتان ۔ تمام پتھروں پرسجدہ کرنا صحیح ہے ،کیونکہ پتھرات جیسے مٹی ، روٹی اورریت زمین شمار ہوتی ہیں اس بنأپر شیعہ اثناعشری مذہب میں زمین سے مراد نہ وہ ہے جو آسمان کے مقابل میں ہے ؛ بلکہ وہ زمین ہے جس پر تیمم کرنا صحیح اور اس طہارت کے مقابل میں ہو جو پانی سے حاصل ہوتاہے ۔اختیار کی حالت میں مٹی کے برتن ،اینٹ پختہ آھک اورپختہ چونے پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ، لیکن پکانے سے اور پختہ ہونے سے پہلے کو ئی اشکال نہیں ہے اگر فقہا کوو اس مسئلہ میں اختلاف ہے کیونکہ کہ بعض ان پر سجدہ کرنا حتٰی پختہ ہونے کے بعد جائز ہونے کے قائل ہیں ؛ پس ہر ایک کو اپنے مرجع کے حکم پر عمل کرنا چاہئے (٢١)
شیشہ پر بھی سجدہ کرنا جائز نہیں ہے بعض فقہا جڑی بوٹی دواؤں اورمحلی ادوایات جیسے گاوزبان کے پھول ،پودینہ اوروغیرہ وغیرہ چےزوں پر سجدہ کرنا جائز جانتے ہیں اوربعض دوسرے اس صورت میں کہ اگر ان کا کھانا اور پینا متعارف ہوگا ان پر سجدہ کرنے پر اشکال کرتے ہیں حیوانی خوراکیوںپر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیںہے جیسے گندم کا گھاس اور سبز گھاس ، لیکن چائے اور قھوہ کے پتوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ دو عرف میںخوراک میں شمار ہوتے ہیں اخروٹ اور بادام پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن ان کے چھلکے پر سجدہ کرنا صحیح ہے ۔خرما کی گھٹلی ،پتے درختوں کے چھلکو ںاورخرما کے درخت کی ٹہنی پر سجدہ کرنا صحیح ہے ۔ زمین پر سجدہ کرنا گھاس اورکاغذ پر سجدہ کرنے سے بہتر ہے اوربعید نہیں ہے کہ مٹی پر سجدہ کرنا پتھر سے افضل ہوگا شیعہ امامیہ قائل ہیں کہ سجدہ کے لئے بہترین چیز ، تربت امام حسین ہے ۔کیونکہ امام حسین کی مٹی سات حجابوں سے گزرتی ہے اورسات زمینوں کو نورانی کرتی ہے ۔
اس بارے میں اہلبیت کی طرف سے ہم تک کچھ روایات پہنچی ہیں :
معاویہ ابن عمار کہتاہے : امام صادق کے پاس زردرنگ اور ابراشم (زربافت ) کا ایک کپڑا تھا کہ جس میں تربت امام حسین تھی وہ نماز کے وقت اس کو جائے نماز میں رکھ دیتے تھے اور اسی پر سجدہ کرتے تھے اورفرماتے تھے : ان السجود علی تربۃ ابی عبداللہ بخرق الحجب السیع:امام حسین کی مٹی پر سجدہ کرنا سات پردوں سے گزرتاہے ۔(٢٢)
امام صادق نے فرمایا : السجود علی طین قبر الحسین ینور الی الارضین السبع ؛امام حسین کی مٹی پر سجدہ کرنا سات زمینوں کو نورانی کرتاہے ۔ (٢٣)یہ بات بعید نہیں ہے ؛کیونکہ یہ پاک مٹی ،کلمہ توحید اور اہلبیت پیغمبر کے اشعار کو بلند کرنے کی راہ میں رسالت ونبوت کی حفاظت ہے ؛ کیونکہ محمد (ص) نے اسلام لایا اور حسین اس کے بقاء کا ضامن ہوا ۔ (اسلام ،محمدی الوجود اورحسینی البقاء ہے ) وہ محمدی خاندان کے فخر کی علامت ،خدا کے دین اورخیانت کرنے والوں کے ہاتھوں سے انسانی امور کی رہائی کی راہ میں ایثار وقربانی ہے ۔جس طرح امام حسین نے فرمایا :
ان کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیا سیوف خذ ینی ! ؛اگر محمد کا دین میرے قتل کے بغیر پائیدار نہیں رہے گا تو اے تلوارو آؤ !مجھ پر ٹوٹ پڑو ۔اس کے علاوہ نقل ہوا ہے کہ کربلا دوسو پیغمبر وں دوسو پیغمبروں کے وصیوں (٢٤)کا مدفن جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ،(٢٥)فرشتوں کے آنے جانے کی جگہ اور ہر پندر ہویں شعبان کی رات میں پیغمبروں کی ارواح کے جمع ہونے کی جگہ ہے ۔(٢٦)
لیکن یہ کہ حضرت نے فرمایا: '' تخرق الحجب السبع؛وہ سات پردوں سے گزرتی ہے '' ۔ تو اس کا معنی نماز قبول ہونا ہے بغیر اس کے کہ وہ چیزیں کہ جو نماز قبول ہونے سے جلوگیری کرتی ہیں اور انسان کی نیت کے خالص ہونے پر عارض ہوتی ہےں مانع ہوجائیں اوریہ کہ انہوں نے فرمایا: '' ینورا الی ارضین السبع ؛وہ سات زمینوں کو نورانی کرتاہے '' قرآن اورروایات میں اس جیسا نوربہت زیادہ استعمال ہواہے ۔ خداوندعالم فرماتاہے (یَوْمَ تَرَی الْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ یَسْعٰی نُورُھُمْ بَیْنَ اَیْدِھِمْ )(٢٧) اس دن تم با ایمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اورداہنی طرف چل رہا ہوگااوردوسری جگہیں جو قرآن میں آئیں ہیں یا وہ روایت جو شیعوں اورسنیوں نے حضرت رسول (ص) سے نقل کی ہے : اِتَّقُوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظربنوراللہ ، مؤمن کی چالاکی سے بچو، کیونکہ وہ خدا کے نور سے دیکھتاہے ۔ (٢٨)
یا د وسری جگہ فرماتاہے : نوّروا بیوتکم تلاوۃ القرآن ۔۔۔۔۔۔فانّ البیت اذا کثر فیہ تلاوۃ القرآن کثرخیرُہُ وتضئی لاھل السماء کماتضئی نجوم السماء لاھل الدنیا؛اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سے منورونورانی کرو ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ جب گھر وںمیں تلاوت زیادہ ہوتی ہے تو خیر وبرکت ان میں زیادہ ہوتی ہے اورجس طرح آسمان کے تارے زمین پر رہنے والوں کے لئے نوردیتے ہیں ، اسی طرح یہ گھر بھی آسمان پر رہنے والوں کے لئے روشنی دیتے ہیں۔(٢٩)
اوردوسری بہت ساری روایات کہ جو قابل شمار نہیں ہیں یہ نور اس چیز سے زیادہ اونچا ہے کہ جس کو جسمانی حواس سے کہ جو صرف مادی اجسام کودرک کرتے ہیں درک کیا جاسکتاہے اس بنأپر تربت امام حسین پر سجدہ کرنا شیعہ واجب نہیں جانتے ہیں ؛بلکہ جس طرح کہ گیا شیعہ مٹی ،لکڑی خرما کے درخت کے پتے اور دوسرے درخت کے پتے پر سجدہ کرسکتے ہیں ، لیکن زمینوں کی فضیلت وامتیاز میں اختلاف ہے جس طرح کہ خداوند عالم فرماتاہے :وفی الارض قطع متجاوراتٌ۔۔۔۔۔۔(٣٠) اور زمین کے متعدد ٹکڑے آپس میں ایک د وسرے سے ملے ہوئے ہیں یہاں سے ہے کہ بعض زمینوں میں زمینداری کی زیادہ قابلیت وصلاحیت ہے اور بعض دوسروں میں یہ صلاحیت بہت کم ہے ، اس بنأ پر ،مساجد کی فضیلت میں بھی ایساہی ہے ، مثلاً مسجد الحرام میں نماز پڑھنا مسجد النبی میں نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت کے حامل ہے اورجامع مسجد میں نماز پڑھنا محلہ اور بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے ۔
سمھودی نے کتاب '' وفا ء الوفاء (٣١)میں نقل کیاہے کہ مدینہ کی زمین کی مکہ کی زمین سے زیادہ فضیلت ہے ۔رافع ابن خدیجہ کہتاہے : میں گواہی دیتاہوں (میں قسم کھاتا) کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا:( المدینۃ خیرمن مکۃ )مدینہ مکہ سے بہتر ہے ۔اجماع اس پر ہے کہ اس زمین کی جس میںپیغمبر(ص) (دفن ہیں حتٰی کہ کعبہ سے زیادہ فضیلت ہے یہ اجماع ابوالولید الناجی (یا الباجی ) نے نقل کیاہے قاضی عیاض اور ابوالیمن عساکر نے بھی یہ اجماع نقل کیاہے اور کعبہ پر اس کی فضیلت ہونے کے بارے میں تصریح کی ہے ۔
اسی طرح تاج السبکی نے ابن عقیل سے نقل کیاہے کہ وہ مقدس جگہ ، عرش سے زیادہ فضیلت کے حامل ہے تاج فاکھی کہتاہے : بلکہ یہ زمین آسمان کے حصوں میں سے ایک بہترین حصہ بھی ہے ۔ (٣٢)بے گمان حسین رسول خدا(ص) کا نواسہ اورپیغمبر کی خوشبو کا پھول ہے جس طرح کہ پیغمبر(ص)نے فرمایا : الحسین منی وانا من حسین ، حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔
اسی طرح فرمایا: احب اللہ من احب حسیناً ؛جو بھی حسین کو د وست رکھے، اس نے خدا کود وست رکھا ہے ۔ پس کا حسین گوشت ، پیغمبر کا گوشت اور حسین کا خون ،پیغمبرکا خون ہے پہلا شخص جس نے کربلا کی مٹی کو چوما اور اس کو اپنے ہاتھوں سے مس کیا اور اس پر گریہ کیا، سید الانبیا ،حضرت محمد مصطفی (ص) تھے حاکم نیشاپوری نے کتاب '' مستدرک علی الصحین '' میں ام مسلمہ سے نقل کیا ہے : ایک رات پیغمبر سوئے ہوئے تھے تو وہ اچانک حیران وپریشان کی حالت میں بیدار ہوئے ،پھر دوبارہ سوئے اوردوبارہ حیرانگی کی حالت میں بیدار ہوئے لیکن اس دفعہ ان کا اضطرات تھوڑا کم تھا اس کے بعد دوبارہ سو ئے جب وہ تیسری دفعہ بیدار ہوئے ، تو سرخ رنگ کی ایک مٹی اس کے ہاتھوں میں تھی ، اوروہ اس کو چوم رہے تھے میں نے پوچھا : اے رسول خدا !یہ مٹی کیاہے؟ انہوںنے فرمایا:
اخبرنی جبرئیل ان ھذا یقتل بأرض العراق للحسین ؛جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ یہ مٹی حسین کے لئے ہے کہ وہ عراق کی سرزمین پر مارا جائے گا میں نے عرض کیا : اس زمین کی مٹی جس پر حسین شھید کئے جائیں گے ،مجھے دکھاؤ! انہوں نے فرمایا: فھٰذہ تربتھا، یہ اس کی مٹی ہے ۔حاکم نیشاپوری کہتاہے : یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ؛لیکن انہوں نے یہ ر و ایت نہیں نقل کی ہے۔(٣٣)
اس بنأپر مٹی اور ز مین پر سجدہ صحیح کرنے پر، مسلمانوں کا اجماع ہے ؛پس اب کوئی بھی اشکال موجود نہیں ہے ۔ لیکن تربت امام حسین کے بارے میں مجھے کہنا چاہئے : اس پر سجدہ کرنا،مٹی کے ایک مٹھی پر سجدہ کرنا ہے کہ اس کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ پیغمبر(ص) اس مٹی کی فضیلت کے قائل ہوئے ہیںاور اس کو چوما ہے اس بارے میں ،تم اہلسنت کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہو سید عبد اللہ الغریفی البحرانی نے کتاب '' التشیع '' میں اہلسنت کی کتابوں سے بہت سارے منابع نقل کئے ہیں ۔ (٣٤)شیعہ امامیہ ،جب نماز میں اپنی پیشانی تربت امام حسین پررکھتے ہیں ، تو وہ اس مٹی کے مقابل میں سجدہ نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اس مٹی پر سجدہ کرتے ہیں اور ان سجدے ایک خدا کے لئے مخصوص اورخالص اسی کے لئے ہیں شیعہ سجدہ میں ذکر '' سبحان ربی الاعلیٰ وبحمدہ ؛خداوند عالم منزہ و پاک ہے اور اس کے لئے حمد وشکر مخصوص ہے '' کہتے ہیں ۔شیعہ اثنا عشری علماء کی نظر بھی خداوند عالم کے علاوہ کسی دوسرے کے مقابلے میں سجدہ کرنے کے حرام ہونے پر ہے۔
١)۔ صحیح بخاری، ج ١ ص ٢٠٩ صحیح مسلم ،ج ١ ،ص ٣٧١اور وسائل الشیعہ ج ٣ ، ص ٤٢٣.
(٢)۔ سنن نسائی ،ج ٢ ،ص ٢٠٨،٢٠٩ اور ٢١٥.
(٣)۔ وہی منبع ۔
(٤)۔ وہی مبنع ،ص ٢١٦اور سنن دارمی ،ج ١ ،ص ٣٠٨.
(٥)۔ سنن بیہقی ،ج ٢، ص ١٠٤.
(٦)۔ وہی منبع .
(٧)۔ وہی منبع ،ج ٢،ص ١٠٥.
(٨)۔ وہی منبع
(٩)۔متقی ھندی ،کنزالعمال ،ج ٧،ص ٤٥٩،ج ٧٧٣ ١٩اور ١٩٧٨٩.
(١٠)۔ وہی منبع ،ص ٤٦٥،ح ٣۔ ٢ ١٩٨٠.
(١١)شوکانی ، نیل الاوطار ، ج ٢ ،ص ٢٥٨.
(١٢)۔ وہی مبنع ،ص ٢٦٠.
(١٣)۔وہی منبع .
(١٤)۔ اسد حیدر ، الامام الصادق والمذاہب الاربعہ ،ص /٢٨، ح ٥اور ٦کتاب شرح مسلم ،ج ٤ مؤلف نووی سے نقل کر کے .
(١٥)۔شیعوں کے مراجع تقلید کے رسالے ،مثلاً :منھاج الصالحین ، تحریر الوسیلہ ،عروۃ الوثقیٰ وغیرہ وغیرہ (کتاب الصلواۃ مسئلہ سجدہ کی جگہ .)
(١٦)۔ وسائل الشیعہ ، باب ١٤ ح١ .
(١٧)۔ وہی منبع .
(١٨)۔وہی منبع ، باب ، ح ٣۔ ١.
(١٩)۔ وہی منبع .
(٢٠)۔ البتہ بعض فقہا نے عقیق اورفیروزہ پرسجدہ کے صحیح ہونے کا فتوای دیاہے ۔ شاید اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کی نظر میں عقیق اورفیروزہ کودوسری پتھروں کی طرح، زمین کہی جاتی ہے ۔
(٢١)۔ بعض فقہا معتقدہیں کہ چونے اور پختہ آھک پر سجدہ کرنا جائز ہے شاید اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کی نظر میں چونااور پختہ آھک .صرف ان کی صفت بدل جاتی ہے ،نہ یہ کہ وہ زمین کے جزء نہیں رہتی ہے بعض بھی جائز نہیں جانتے ہیں ، مراجع تقلید کے سالوں جیسے منھاج الصالحین آیۃ اللہ خوئی ،تحریر الوسیلہ ،امام خمینی اورعروۃ الوثقی سید یزدی (کتاب الصلواۃ ،مسئلہ سجدہ کی جگہ ) کی طرف رجوع کریں ۔
(٢٢)۔ وسائل الشیعہ ،باب ١٦ ح ااور٢ .
(٢٣)۔ وہی منبع .
(٢٤)۔وہی منبع ، باب ١٦،ح ٦
(٢٥)۔ وہی منبع ،باب ٣٧،ح ١٤ اور ١٥.
(٢٦)۔ وہی منبع ،ح١٣ اورباب ١ ٥، ح١
(٢٧)۔ سورہ حدید آیہ ١٢ .
(٢٨)سورہ تحریم آیہ ٨
(٢٩)۔ شیخ حرعاملی ، وسائل الشیعہ باب ٢٠ح ١ اور ابن اثیر النھایہ ،ج ٣ ، ص ٤٢٨.
(٣٠)۔ شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، باب ١٦ ، ج ٤.
(٣١)۔سید عبداللہ الفریفی التشیع ،ص ٤ ۔ ٦٧١.
(٣٢)وہی منبع ،ص ٢٩.
(٣٣)۔ حاکم نیشاپوری ،مستدرک علی الصحیحین ،٤ ،ص ٣٩٨.
(٣٤)۔ سید عبداللہ الغریغی ، التشیع ،ص ٤ ،٦٧١
source : http://alfazail.com