حضرت حجت(ع) کی باطنی ولایت اس معنی میں ہے کہ آنحضرت (ع)انسانوں کی باطنی ہدایت کے ذمہ دار ہیں جو ظاہری ہدایت اور امر تشریعی(قانون گزاری) کی نوعیت میں سے نہیں ہے ۔
یہ مقام اللہ تعالیٰ کی طرف سے متنخب افراد کو عطا کیا جاتا ہے اور ہدایت الٰہی امر تکوینی (تخلیقی ) کے ذریعہ ان پاکیزہ انسانوں کے وسیلے سے انجام پاتی ہے اور تمام انسان ایک ہی شخص سے روحانی ہدایت کے ذریعہ ، ہدایت پاتے ہیں ۔ امام انسانوں کی رفتار و اعمال سے آگاہی رکھنے کی بناپر ان کے باطنی افکار و نفوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور لوگوں کے قلوب کو مختلف اقسام کے درجات رکھنے کی بناپر معارف کے انوار سے جلا اور روشنی بخشتا ہے اور ان کے باطن سازی نیز تہذیب نفس میں معاون و مددگار ہوتا ہے ، انبیاء و ائمہ علیہم السلام کے ارادے اور قدرت کو جب حوادث کے مقابل میں آزمالیا اور ان کی روحانی و معنوی قدرت ، مقام امامت اور باطنی ولایت ، یقین کے مرحلہ تک پہونچ گئی تو اس وقت وہ انسانوں کی باطنی ہدایت کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔
انسانوں کی باطنی ہدایت کےلئے ہمیشہ انبیاء کرام میں سے کوئی نہ کوئی موجود تھا جیسے حضرت نوح (ع)، ابراہیم(ع) ، موسی(ع) ، عیسی (ع)، محمد(ص) اور بھی دوسرے انبیاء جن کا تعارف امامت کے حوالہ سے قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ، یہ افراد دو منصب پر فائز ہیں ۔
پہلا منصب نبوت ہے ، جس کا مقصد وحی اخذ کرکے لوگوں تک پہنچانا ہے اور دوسرا منصب امامت ہے ، جس کا مقصد لوگوں کی سعادت حقیقی کی راہ میں باطنی رہبری کرنی ہے ،وہ لوگ کہ جو کبھی منصب نبوت کے حامل نہیں تھے اور وہ صرف مقام ولایت اور باطنی امامت کے حامل ہوتے تھے کہ جس کے مصداق حضرت ولی عصر (ع) کی ذات گرامی ہے اور وہی انسانوں کی باطنی ہدایت انجام دیتے ہیں نیز انہیں حقیقی سعادت کی طرف ہدایت فرماتے ہیں ۔
اس بنیاد پر امام (عمومی طور پر) جیسا کہ لوگوں کے ظاہری اعمال کا پیشوا اور رہنما ہے ،وہ امامت و ہدایت اور ظاہری ولایت بھی رکھتا ہے اس کے علاوہ باطنی پیشوائی بھی انجام دیتا ہے نیز باطنی راستے سے انسانوں کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ کاروان انسانیت کا ایسا قافلہ سالار ہے جو خدا کی طرف رواں دواں ہے ، امام در واقع اسلامی امت کا ہادی و رہبر ہے ،خواہ جسمانی طور پر حاضر ہو جیسے حضرت امام علی(ع)کے زمانے سے امام حسن عسکری(ع)کے زمانے تک ایسا ہی تھا یا ظاہری طور پر حاضر نہ ہو پھر بھی لوگوں کی (باطنی) ہدایت کا ذمہ دار ہوتا ہے ، جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے امام حسن و امام حسین(ع) کے لئے ارشاد فرمایا :"الحسن و الحسین امامن قاما اوقعدا"امام حسن و حسین علیہما السلام قیام فرمائیں یا قیام نہ فرمائیں ہر حال میں یہی امام ہیں ، جس وقت سے امام زمانہ (ع)؛حضرت حجت بن الحسن ولایت رکھتے ہیں اور امام ہیں اسی وقت سے باطنی ہدایت کی زمہ داری بھی رکھتے ہیں اس لئے کہ غیبت اور جسمانی طور پر حاضر رہنا امام کے لئے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا یعنی امام کا فیزیکی و جسمانی وجود (ہدایت کے لئے) معیار نہیں ہے ۔
امام جیسا کہ لوگوں کی ظاہری رہنمائی کی ذمہ داری رکھتا ہے اسی طرح لوگوں کی ولایت اور باطنی ہدایت بھی اس کے دوش پر ہوتی ہے ، یہ واضح ہے کہ لوگوں کے اعمال پر نظر رکھنا ایک ملکوتی اور روحانی امر ہے ، اس کا ربط مسئلہ غیبت اور امام کے جسمانی طور پر حاضر رہنے سے نہیں ہے ۔
اگر امام وسیع قدرت اور سیاسی سرپرستی و غیرہ رکھتا ہو تو وہ ظاہری طور لوگوں اور امت اسلامیہ کی ہدایت کا بھی ذمہ دار ہے ، لیکن اگر امام وسیع قدرت اور سیاسی سرپرستی نہ رکھتا ہو (جیسے آج کا زمانہ) اور ظاہری طور پر ہدایت نہ کرتا ہو تو وہ باطنی طور پر امت اسلامیہ کی ہدایت کا ذمہ دار ہے اور لوگوں کو باطنی طور پر ہدایت کرتا ہے ۔[1]
علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ ولایت کو باطنی نبوت جانتے ہیں اور امام کو حامل ولایت بیان کرتے ہیں ، اگر چہ امامت و ولایت میں سے ہر ایک کا مفہوم ائمہ علیہم السلام پر صادق آتا ہے لیکن جو کچھ اہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت امام و ولایت کے مصداق حضرت ابن الحسن صاحب الزمان (ع) ہیں اور ان کی ولایت باطنی ہے جو باطنی طور سے اسلامی معاشرہ اور امت اسلامی کی ہدایت کے ذمہ دار ہیں ، مزید آقای طبا طبائی فرماتے ہیں:
"نبوت و ولایت کے درمیان نسبت ، ظاہری و باطنی نسبت ہے اور جو دین ہے وہ سرمایہ نبوت ہے ، جو ظاہر ولایت اور باطن ولایت ہے،وہ باطن نبوت پر مشتمل ہے"[2]
[1]محمد حسین طباطبائی، بررسی ہای اسلامی ، ج۳، ص۷۸۔ سالنامۂ مکتب تشیع شمار ۲ ، ص۷۵،شیعہ در اسلام ، ص۳۱۲
[2] محمد حسین طباطبائی ، بررسی ہای اسلامی ، ج ۳، ص۷۸، سالنامۂ مکتب تشیع شمار ۲ ، ص۷۵، شیعہ در اسلام ، ص۱۸۶
source : http://www.shiastudies.com