اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

بحث امامت کي شروعات

واضح رھے کہ پيغمبر اکرم (ص)کے فوراً بعد ھي آپ کي خلافت کے سلسلہ ميں گفتگو شروع ھوگئي تھي، چنانچہ ايک گروہ کا کھنا تھا کہ آنحضرت (ص) نے اپنے بعد کے لئے کسي کو خليفہ يا جانشين نھيں بنايا ھے، بلکہ اس چيز کو امت پر چھوڑ ديا ھے لہ?ذا امت خود اپنے لئے کسي رھبر اور خليفہ کا انتخاب کرے گي ، جو اسلامي حکومت کي باگ ڈور اپنے ھاتھوں ميں لے اور لوگوں کي نمائندگي ميں ان پر حکومت کرے، ليکن وفات رسول کے بعد نمائندگي کي صورت پيدا ھي نھيں ھوئي بلکہ چند اصحاب نے بيٹھ کر پھلے مرحلہ ميں خليفہ معين کرليا اوردوسرے مرحلہ ميں خلافت انتصابي ھو گئي، اور تيسرے مرحلہ ميں انتخاب کا مسئلہ چھ لوگوں پر مشتمل ايک کميٹي کے سپر د کيا گيا تا کہ وہ آئندہ خلافت کے مسئلہ کو حل کريں?

چنانچہ اس طرز فکر رکھنے والوں کو ”اھل سنت“ کھا جاتا ھے?

ليکن اس کے مقابل دوسرے گروہ کا کھنا تھا کہ پيغمبر (ص)کے جانشين کو خدا کي طرف سے معين ھونا چاہئے، اور وہ خود پيغمبر اکرم (ص)کي طرح ھر خطا اور گناہ سے معصوم اور غير معمولي علم کا مالک ھونا چاہئے، تاکہ مادي اور معنوي رھبري کي ذمہ داري کو نبھاسکے، اسلامي اصول  کي حفاظت کرے، احکام کي مشکلات کو برطرف کرے ، قرآن مجيد کے دقيق مطالب کي تشريح فرمائے اور اسلام کو داوم بخشے?

 اس گروہ کو ”اماميہ“ يا ”شيعہ“ کہتے ھيں اور يہ لفظ پيغمبر اکرم (ص)کي مشھور و معروف حديث سے اقتباس کيا گيا ھے?

تفسير الدر المنثور (جس کا شمار اھل سنت کے مشھور منابع ميں ھوتا ھے) ميں آيہ? شريفہ <ِا?ُوْلَئِکَ ہُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ > کے ذيل ميں جابر بن عبد اللہ انصاري(رہ) سے اس طرح نقل کيا ھے:

”ھم پيغمبر اکرم (ص)کے پاس بيٹھے ھوئے تھے کہ حضرت علي عليہ السلام تشريف لائے، اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمايا: يہ اور ان کے شيعہ روز قيامت کامياب ھيں، اور اس موقع پر يہ آيہ? شريفہ نازل ھوئي:

<ا?ِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ا?ُوْلَئِکَ ہُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ >

حاکم نيشاپوري (يہ چوتھي صدي کے مشھور و معروف سني عالم ھيں)بھي اسي مضمون کو اپني مشھور کتاب ”شواھد التنزيل“ ميں پيغمبر اکرم (ص)سے مختلف طريقوں سے نقل کرتے ھيں جس کے راويوں کي تعداد ?? سے بھي زيادہ ھے?

منجملہ ابن عباس سے نقل کرتے ھيں کہ جس وقت يہ آيہ? شريفہ <ا?ِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ا?ُوْلَئِکَ ہُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ >نازل ھوئي تو پيغمبر اکرم (ص) نے حضرت علي عليہ السلام سے فرمايا: ”ہُوَ اَنْتَ وَ شِيْعَتُکَ“ ( اس آيت سے مراد آپ اور آپ کے شيعہ ھيں?)

ايک دوسري حديث ميں ابوبرزہ سے منقول ھے کہ جس وقت پيغمبر اکرم (ص) نے اس آيت کي تلاوت فرمائي تو فرمايا:”ہُوَ اَنْتَ وَ شِيْعَتُکَ يَاعَلِيّ“ (وہ تم اور تمھارے شيعہ ھيں

اس کے علاوہ بھي اھل سنت کے ديگرعلما اور دانشوروں نے بھي اس حديث کو ذکر کيا ھے جيسے صواعق محرقہ ميں ابن حجر اور نور الابصار ميں محمد شبلنجي نے?

لہ?ذا ان تمام روايات کے پيش نظر خود پيغمبر اکرم (ص) نے حضرت علي عليہ السلام کے پيروو?ں کا نام ”شيعہ“ رکھا ھے، ليکن اس کے باوجود بھي بعض لوگ اس نام سے خفا ھوتے ھيں اور اس کو بُرا سمجھتے ھيں نيز اس فرقہ کو رافضي کے نام سے ياد کرتے ھيں، کيا يہ تعجب کا مقام نھيں کہ پيغمبر اکرم تو حضرت علي عليہ السلام کے فرمانبرداروں کو ”شيعہ“ کھيں اور دوسرے لو گ اس فرقہ کو برے برے ناموں سے ياد کريں!!?

بھر حال يہ بات واضح ھوجاتي ھے کہ لفظ شيعہ کا و جود پيغمبر اکرم (ص)کي وفات کے بعد نھيں ھوابلکہ خود آنحضرت  (ص) کي زندگي ميں ھي ھو چکا تھا، اور آپ نے حضرت علي عليہ السلام کے دوستوں اور پيروو?ں پر اس نام کا اطلاق کيا ھے، جو لوگ پيغمبر اکرم (ص)کو ”خدا کا رسول“ مانتے ھيں اور يہ جانتے ھيں کہ پيغمبر اکرم (ص) اپني مرضي سے کلام نھيں کرتے بلکہ وھي کہتے ھيں جو وحي ھوتي ھے،

<وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھَوي?.ا?نْ ھُوَ ا?لاَّ وَحيٌ يُوحي?>

 لہ?ذا اگر آنحضرت (ص) فرمائيں کہ اے علي آپ اور آپ کے شيعہ روز قيامت، کامياب ھيں تو يہ ايک حقيقت ھے?


source : http://www.tebyan.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فاتح شام،حضرت زینب
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
دینِ میں “محبت“ کی اہمیت
امام جعفر صادق کے ہاں ادب کي تعريف
حضرت عباس(ع) کی زندگی کا جائزہ
'' قرآن کریم میں قَسَموں (OATHS)کی أنواع ''
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
اے انسان ! تجھے حوادث روزگار کي کيا خبر ؟
قراء سبعہ اور ان کی خصوصیات
تبدیلی اور نجات کیلئے لکھا گیا ایک خط

 
user comment