الله سبحانہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں سے اس امانت کے ادا کرنے کا مطالبہ کیا جو اُن کے پاس رکھی گئی تھی اور چاہا کہ اس عہد پر عمل کریں جو انھوں نے الله سے آدم(علیه السلام) کے لئے سجدہ اور ان کی عظمت کے سامنے
خشوع وخضوع کے سلسلے میں کیا تھا اور فرمایا: آدم کے لئے سجدہ کریں، سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جس پر غضب، حمیّت، غرور اور تکبّر نے قابو پالیا تھا، شقاوت اور بدبختی اس پر غالب آگئی تھی، اس نے اپنی خلقت پر فخر کیا اور سوکھے ہوئے گارے سے آدم کی تخلیق کو سبک شمار کیا ۔ خداوندعالم نے اس کے مطالبہ کو قبول کیا چونکہ وہ غضب الٰہی کا مستحق تھا، نیز خداوندعالم بندوں پر امتحان کو مکمل اور ان کو دیئے گئے وعدے کو پورا کرنا چاہتا تھا ، فرمایا: تجھے (قیامت تک نہیں بلکہ) معین دن اور وقتِ معلوم کی مہلت دیدی گئی ۔
ابلیس کے گمراہ ہونے کا آغاز
اس خطبہ کے گذشتہ ارشادات میں تخلیق آدم کے سلسلے میں گفتگو ہوئی تھی، یہاں پر بھی اسی موضوع پر دوسری بحث بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو مختلف رخوں سے سبق آموز اور عبرت آمیز ہے ۔
سب سے پہلے فرماتے ہیں: ”پاک ومنزّہ خداوندعالم نے فرشتوں سے اس امانت کو ادا کرنے کا مطالبہ کیا جو اُن کے پاس رکھی گئی تھی اور چاہا کہ اس عہد پر عمل کریں جو انھوں نے آدم(علیه السلام) کے لئے سجدہ اور ان کی عظمت کے سامنے خشوع وخضوع کے سلسلہ میں، الله سے کیا تھا اور ارشاد فرمایا: ”آدم کے لئے سجدہ کرو ! سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے!“ (وَاٴسْتَادَی اللهُ سُبْحَانَہُ الْمَلَائِکَةَ وَدِیْعَتَہُ لَدَیْھِمْ وَعَھْدَ وَصِیَّتِہِ اِلَیھِمْ فِی الْاِذْعَانِ بِالسُّجُودِ لَہ وَالْخُنُوعِ(۱) لِتَکْرِمَتِہِ فَقَالَ سُبْحَانَہُ اُسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ) ۔
اس تعبیر سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ خداوندعالم نے پہے ہی فرشتوں سے عہد لیا تھا کہ جس وقت آدم کی تخلیق ہو اور نمکمل ہوجائے تو اُن کے لئے سجدہ کریں اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف قرآن مجید کے سورہٴ ”ص“ میں اشارہ ہوا ہے: ”إِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِینٍ، فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ ؛(یاد کریں) اس وقت کو کہ جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا: میں ایک بشر کو مٹی (آب وگِل) سے پیدا کروں گا، جس وقت میں اُسے منظم اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لئے سجدے میں گرجانا“۔(۲)
۱۔ ”خنوع“ ”مقاییس اللغة“ کے بیان کے مطابق اصل میں خضوع اور تواضع کے معنی میں ہے اور دیگر اہل لغت نے بھی اسی معنی کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں ۔
۲۔ سورہٴ ص: آیت۷۱ و۷۲․
فرشتوں کو یہ بات یاد تھی یہاں تک کہ آدم(علیه السلام) پیدا ہوئے اور ایک مکمل انسان کی صورت اختیار کی اسی موقع پرفرشتوں سے عہد کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور ارشاد فرمایا: آدم کے لئے سجدہ کرو! سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے (اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ ) ۔(۱)
نہج البلاغہ کے بعض شارحین کے قول کے مطابق شاید یہ بات اس وجہ سے تھی کہ اگر کسی تمہید کے بغیر فرشتوں کو اس قسم کا حکم دیا جاتا تو وہ تعجب کرتے اور شاید اس حکم کی تعمیل میں سستی سے کام لیتے، لیکن خداوندعالم نے اُنھیں پہلے ہی سے اس کام کے لئے تیار کیا تاکہ اس بات کی نشاندہی کرے کہ اہم حکم، ضروری تمہید کے ساتھ انجام پانا چاہیے، پھر ابلیس کی مخالفت کے اسباب کو اس طرح بیان فرمایا:
”اُس پر غضب، حمِیّت، غرور وتکبّر نے قابو پالیا، شقاوت اور بدبختی اس پر غالب آگئی تھی، اس نے آگ سے اپنی خلقت پر فخر کیا اور سوکھے ہوئے گارے سے آدم کی تخلیق کو سبک اور ہلکا شمار کیا“ (اعْتَرَتْہُ الْحَمِیَّةُ(2) وَغَلَبَتْ عَلَیہِ الشِّقْوَةُ وَتَعَزَّزَ بِخِلْقَةِ النَّارِ وَاسْتَوھَنَ خَلْقَ الْصَلْصَالِ) ۔
حقیقت میں ایک لحاظ سے اصلی سبب، اُس کی باطنی خباثت تھی جسے شقوت سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسری نظر سے تکبّر، غرور، خود پسندی اور تعصّب جو اس باطنی خباثت کی پیداوار تھی، اس کی سوچ پر غالب آگئی اور یہی باعث ہوا کہ حقیقتوں کو نہ دیکھ سکے، آگ کو مٹی سے افضل سمجھے؛ وہی خاک جو تمام برکتوں اور فائدوں کا منبع ومنشاء ہے، اصل میں اس نے اپنے علم ودانش کو خداوندعالم کی حکمت سے برتر اور افضل شمار کیا، البتہ اس طرح کی قضاوت، اُن لوگوں کے لئے جو اس طرح کے حجابات میں گرفتار ہوجاتے ہیں، کوئی تعجب کی بات نہیں ہے؛ کبھی کبھی خود پسند اور غرور کے پردے میں مستور انسان کو کوئی پہاڑ، رائی اور رائی پہاڑ دکھائی دیتا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے مفکر غرور اور خود پسندی کے پنجہ میں گرفتار ہونے کے موقعہ پر بڑی بڑی غلطیوں اور خطاوٴں میں گرفتارہوجاتے ہیں ۔
۱۔ سورہٴ بقرہ: آیت۳۴․
۲۔ ”حمیّة“ حمیٰ (بروزن ”نہیٰ“ )سے مشتق ہے ، اصل میں اس گرمی کے معنی میں ہے جو سورج، آگ اور دیگر چیزوں یا انسان کے بدن کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی کبھی ”قوت غضبیہ“ کو حمیّت سے تعبیر کرتے ہیں چونکہ اس حالت میں انسان غضبناک اور گرم مزاجی کا شکار ہوجاتا ہے نیز بخار کی حالت کو جو بدن کے گرم ہونے کا باعث ہوتا ہے ”حمیٰ“ (بخار) کہا جاتا ہے ۔
یہاں پر شقاوت سے مراد وہی اندرونی اور باطنی اسباب، موانع اور صفات رذیلہ ہیں جو شیطان کے اندر موجود تھیں، وہی صفات اور موانع جو اختیاری تھے اور اُس کے پہلے اعمال سے پیدا ہوئے تھے ذاتی اور غیر اختیاری شقاوت نہیں؛ چونکہ شقاوت کی صفت، سعادت کے بالکل مقابلہ میں آتی ہے، سعادت، اصلاح کی جانب قدم بڑھانے کے لئے امکانات فراہم ہونے کے معنی میں ہے جبکہ شقاوت اس راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے معنی میں ہے؛ البتہ یہ سب امور انسان یا دیگر مختار مخلوق کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں، جبری اسباب کے نتیجہ میں نہیں ۔
بہرحال اس عظیم گناہ اور بڑی خطاء کی وجہ سے ابلیس مقام سے بالکل گِرگیا، قربِ پروردگار کے جوار سے باہر نکال دیا گیا اور اپنے عظیم گناہ کی خاطر مخلوق خدا میں سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق لعنت بن گیا لیکن یہ نفرت اور الٰہی لعنت اس کی بیداری کا باعث نہیں ہوئی وہ اُسی طرح غرور وتکبّر کے مرکب پر سوار رہا اور جیسا کہ مغرور اور متعصّب لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اس نے مزید ایک غیر معقول کام کیا اور وہ یہ تھا کہ آدم اور اُن کی اولاد کو بہکانے اور گمراہ کرنے پر کمر بستہ ہوگیا اور اپنے غیض وغضب اور حسد کو زیادہ گہرا کرنے کے لئے اپنے گناہوں کے بوجھ کو مزید بڑھالیا اور خداوندعالم سے تقاضا کیا کہ اس کو قیامت تک کے لئے زندہ رکھے اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے: ”قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُونَ“(۱)
خداوندعالم نے بھی اس کے مطالبہ کو تین چیزوں کی وجہ سے قبول کیا: ”پہلی وجہ یہ کہ وہ غضبِ الٰہی کا مستحق تھا، دوسرے یہ کہ پروردگار بندوں پر امتحان کو مکمل کرنا چاہتا تھا اور تیسری چیز یہ تھی کہ اس کو جو وعدہ دیا گیا تھا خداوندعالم اُسے پورا کرنا چاہتا تھا“ (فَاَعْطَاہُ اللهُ النَّظِرَةَ اسْتِحْقَاقاً لِلسُّخْطَةِ وَاسْتِتْمَاماً لِلْبَلِیَّةِ وَاِنْجَازاً لِلْعِدَةِ) ۔
لیکن اُس طرح نہیں جس طرح وہ چاہتا تھا بلکہ معین مدت اور معلوم وقت کے لئے، لہٰذا ارشاد فرمایا: ”تجھے معین دن اور معلوم وقت تک کے لئے مہلت دیدی گئی ہے“۔(۲)
اب رہی یہ بات کہ ”یوم الوقت المعلوم “ سے کیا مراد ہے تو اس سلسلہ میں قران کریم کے مفسر حضرات اور نہج البلاغہ کی شرح لکھنے والوں کے درمیان گفتگو باقی ہے ۔
۱۔ سورہٴ حجر: آیت۳۶․
۲۔ سورہٴ حجر کی آیت ۳۷ اور ۳۸ کی طرف اشارہ ہے آیتیں یہ ہیں: <قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ، إِلیٰ یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ >
بعض نے کہا ہے: اس سے مراد دنیا کے خاتمہ تک موافقت ہوئی، دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص وقت ہے جو ابلیس کی زندگی کا آخر ہے اور اس وقت کو فقط خدا جانتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی شخص واقف نہیں ہے، چونکہ اگر خداوندعالم اس وقت کو آشکار کردیتا تو گناہ اور سرکشی پر ابلیس کی زیادہ تشویق ہوجاتی ۔
بعض حضرات نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس سے مراد روز قیامت ہے اس لئے کہ سورہٴ واقعہ میں یوم معلوم کی عبارت قیامت کے بارے میں ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے: <قُلْ إِنَّ الْاٴَوَّلِینَ وَالْآخِرِینَ، لَمَجْمُوعُونَ إِلَی مِیقَاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ>۔
لیکن یہ احتمال بہت ہی بعید نظر آتا ہے اس لئے کہ اس تفسیر کی بنا پر اُس کے تمام مطالبہ کی موافقت ہوجاتی ہے حالانکہ قرآن کی آیت سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اس کی درخواست کی مکمل طور پر موافقت نہیں ہوئی ہے، اس کے علاوہ مورد نظر آیت میں ”یوم الوقت المعلوم“ ہے جبکہ سورہٴ واقعہ کی آیت میں ”یوم معلوم“ آیا ہے اور ان دونوں میں فرق ہے لہٰذا اس بنا پر صحیح تفسیر پہلی اور دوسری تفسیروں میں سے کوئی ایک تفسیر ہے ۔
ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ”یوم الوقت المعلوم“ سے مراد حضرت مہدی (عج) کے قیام کا زمانہ ہے کہ جب ابلیس کی عمر کا خاتمہ ہوجائے گا ۔(۱)
البتہ یہ باعث نہیں ہوگا کہ دنیا سے گناہ کے اسباب کلی طور پر ختم ہوجائیں اور اطاعت اور الٰہی امتحان کا مسئلہ منتفی ہوجائے؛ چونکہ اصل سبب جو ہوائے نفس ہے اپنی حالت پر باقی رہے گا یہاں تک کہ شیطان کے گمراہ ہونے کا سبب بھی اس کی ہوائے نفس ہے ۔(۲)
۱۔ تفسیر نور الثقلین ، ج۳، ص۱۴، حدیث۴۶․
۲۔ انسان کی گمراہی میں خواہشات نفسانی کی تاثیر اور اسی طرح شیطان کے اثر انداز ہونے کی کیفیت، حضرت امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی مناجات خمسہ عشر (پندرہ مناجات) میں سے دوسری مناجات میں بہترین انداز میں بیان ہوئی ہے ۔
۳۔ سورہٴ بقرہ، آیت۳۴؛ سورہٴ اعراف، آیت۱۱؛سورہٴ اسراء، آیت۶۱؛ سورہٴ کہف، آیت۵۰ اور سورہٴ طٰہٰ آیت۱۱۶․
source : http://www.taghrib.ir