اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا(حصہ دوم)

حسین میراحسین تیراحسین رب کاحسین سب کا(حصہ دوم)

دنیا کے عیش و آرام و مالو دولت کی محبت تمام سازشوں اور فتناو فساد کی جڑہے۔ میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیںکیا، ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد وعمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔
لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہا یا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑآئے انھوںنے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زیانوں تک رہ گیا ہے۔
خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ چونکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابربھی محبت نہیں تھی ،اس لئے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آجانا۔


دوسری محرم سے نویں محرم تک کے مختصر واقعات

دوسری محرم 61 ء ہجری

دوسری محرم الحرام 61 ء ھجری کو آپ کا کربلا میں ورود ہوا۔آپ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھا۔آپ کے نام ابن زیاد کاخط آیا،اسی تاریخ کو آپ کے حکم سے برلبِ فرات خیمے نصب کئے گئے۔ حرنے مزاحمت کی اور کہا کہ فرات سے دور خیمے نصب کیجئے۔ عباس ابن علی کو غصہ آگیا ۔ امام حسین (ع) نے غصہ کوفروکیا۔اور بقول علامہ اسفر ائنی 3یا5 میل کے فاصلہ پر خیمے نصب کئے گئے نصبِ خیام کے بعد ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوئے تھے۔کہ چند اشعار آپ کی زبان پر جاری ہوئے۔جنابِ زینب نے جونہی اشعار کو سنا اس درجہ روئیں کہ بے ہوش ہوگئیں۔امام نے رخسار پر پانی چھڑک کر باہوش کیا پھر آلِ محمد داخل خیمہ ہوئے۔اس کے بعد ساٹھ ہزار درہم پر 1مربع میل زمین خرید کر چند شرائط کے ساتھ انھیں کو ہبہ کر دی۔


تیسری محرم الحرام یوم جمعہ

تیسری محرم الحرام یوم جمعہ کو عمر ابن سعد بقول علامہ اربلی 22 ہزار سوار و پیادے لے کر کربلا پہنچا اور اس نے امام حسین (ع) سے تبادلہ خیالات کی خواہش کی۔حضرت نے ارادہ کوفہ کا سبب بیان فرمایا۔اس نے ابن زیاد کوگفتگو کی تفصیل لکھ دی اور یہ بھی لکھا کہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ اگر اب اہل کوفہ مجھے نہیں چاہتے تو میں واپس جانے کوتیارہوں ۔
ابن زیاد نے عمر بن سعد کے جواب میں لکھا کہ اب جب کہ ہم نے حسین (ع) کو چنگل میں لے لیا ہے تو وہ چھٹکارا چاہتے ہیں۔لات حین مناص۔یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ان سے کہہ دو کہ یہ اپنے تمام اعزاواقرباسمیت بیعت یزید کریں یاقتل ہونے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔میں بیعت سے پہلے ان کی کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں اسی تیسری تاریخ کی شام کو حبیب ابن مظاہر قبیلہ ابنی اسد میں گئے ا ور ان میں سے جانبازامداد حسینی کے لیے تیار کئے وہ انھیں لارہے تھے کہ کسی نے ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔اس نے 400 سوکالشکر بھیج کر اس کمک کو روکوا دیا۔


چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ۔ہفتہ

چوتھی محرم الحرام یوم شنبہ کوابن زیاد نے مسجد جامع میں ایک خطبہ دیا جس میں اس نے امام حسین (ع) کے خلاف لوگوں کو بھڑکایااور کہا کہ حکم یزید سے تمھارے لیے خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ہیں تم اس کے دشمن حسین (ع) سے لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاؤ۔اس کے کہنے سے بے شمار لوگ آمادہ کر بلا ہو گئے اور سب سے پہلے شمر نے روانگی کی درخواست کی ۔چنانچہ شمر کو چارہزار،ابن رکاب کو دوہزار،ابن نمیر کو چار ہزار ،ابن رھینہ کوتین ہزار،ابن خرشہ کو دو ہزار سواردے کر روانہ کر بلا کردیا گیا۔


پانچویں محرم الحرم یوم یک شنبہ۔ اتوار

پانچویں محرم الحرام یوم یک شنبہ اتوار کو شیث ابن ربعی کو چار ہزار،عروہ ابن قیس کو چار ہزار سنان ابن انس کو دس ہزار،محمد ابن اشعث کو ایک ہزار ۔عبداللہ ابن حصین کو ایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔


چھٹی محرم الحرام بروز پیر

چھٹی محرم الحرام بروز پیر کو خولی ابن یزید اصبحی کو دس ہزار کعب ابن الحروکوتین ہزار،حجاج ابن حرکوایک ہزار کا لشکر دے کر روانہ کر دیا گیا۔ان کے علاوہ چھوٹے بڑے اور کئی لشکر ارسال کر نے کے بعد ابن زیاد نے عمر ابن سعد کو لکھا کہ اب تک تجھے اسی ہزار کا کوفی لشکر بھیج چکا ہوں،ان میں حجازی اور شامی شامل نہیں ہیں۔تجھے چاہئے کہ بلاحیلہ حوالہ حسین کو قتل کر دے۔
اسی تاریخ کو خوبی ابن یزید نے ابن زیاد کے نام ایک خط ارسال کیا جس میں عمر ابن سعد کے لیے لکھا کہ یہ امام حسین(ع) سے رات کو چھپ کر ملتا ہے۔اور ان سے بات چیت کیاکرتا ہے۔ابن زیاد نے اس خط کو پاتے ہی عمر سعدکے نام ایک خط لکھا کہ مجھے تیری تمام حرکتوں کی اطلاع ہے تو چھپ کر باتیں کرتا ہے۔دیکھ میرا خط پاتے ہی امام حسین (ع) پر پانی بند کر دے اور انھیں جلد سے جلد موت کے گھاٹ اتار نے کی کوشش کر۔


ساتویں محرم الحرام بروز منگل

ساتویں محرم الحرام بروزمنگل عمر ابن حجاج کو پانچ سوسواروں سمیت نہرفرات پر اس لیے مقرر کر دیا گیا کہ امام حسین (ع) کے خیمہ تک پانی نہ پہنچنے پائے پھر مزید احتیاط کے لیے چار ہزار کا لشکر دے کر حجر کو ایک ہزار کا لشکر دے کر شیث ابن ربعی کو روانہ کیا گیا۔ اور پانی کی بندش کر دی گئی۔پانی بند ہو جانے کے بعد عبداللہ ابن حصین نے نہایت کر یہہ لفظوں میں طعنہ زنی کی جس سے امام حسین (ع) کو سخت صدمہ پہنچا پھر ابن حوشب نے طعنہ زنی کی جس کا جواب حضرت عباس نے دیا۔ آپ نے غالباََ طعنہ زنی کے جواب میں خیمہ سے 19قدم کے فاصلہ پر جانب قبلہ ایک ضرب تیشہ سے چشمہ جاری کر دیا۔ اور یہ بتادیا کہ ہمارے لیے پانی کی کمی نہیں ہے۔لیکن ہم اس مقام پرمعجزہ دکھانے نہیں آئے بلکہ امتحان دینے آئے ہیں۔


آٹھویں محرم الحرام بروز بدھ

آٹھویں محرم الحرام بروزبدھ کی شب کو خیمہ آلِ محمد سے پانی بالکل غائب ہو گیا۔اس پیاس کی شدت نے بچوں کو بے چین کر دیا ہے۔امام حسین (ع) نے حالات کو دیکھ کر حضرت عباس کو پانی لانے کا حکم دیا آپ چند سواروں کو لے کر تشریف لے گئے اور بڑی مشکلوں سے پانی لائے۔وَلِذَالِکَ سُمِیَ العَبَّاسُ السقَاء اسی سقائی کی وجہ سے عباس(ع) کو سقاء کہا جاتا ہے۔

رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو یزید ابن حصین صحرائی نے باجازت امام حسین (ع)،ابن سعد کو فہمائش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔اس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں حسین (ع) کو پانی دے کر حکومت چھوڑدوں۔ امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ابن حصین اور ابن سعد کی گفتگو کے بعد امام حسین(ع) نے اپنے خیموں کے گرو خندق کھودنے کاحکم دیا۔ اس کے بعد حضرت عباس(ع) کو حکم دیا کہ کنواں کھود کر پانی برآمد کرو۔آپ نے کنواں تو کھودا۔لیکن پانی نہ نکلا۔


نویں محرم الحرام بروز جمعرات

نویں محرم الحرام بروز جمعرات کی شب کو امام حسین اور عمر بن سعد میں آخری گفتگو ہوئی۔آپ کے ہمراہ حضرت عباس اور علی اکبر بھی تھے۔آپ نے گفتگو میں ہر قسم کی حجت تمام کر لی۔
نویں کی صبح کو آپ نے حضرت عباس کو پھر کنواں کھودنے کا حکم دیا لیکن پانی بر آمد نہ ہوا۔
تھوڑی دیر کے بعد امام حسین نے بچوں کی حالت کے پیشِ نظر پھر عباس سے کنواں کھودنے کی فرمائش کی آپ نے سعی بلیغ شروع کردی جب بچوں نے کنواں کھدتا ہوا دیکھا تو سب کوزے لے کر آپہنچے۔ابھی پانی نکلنے نہ پایا تھا کہ دشمنوں نے آکر اسے بند کر دیا۔ دشمنوں کو دیکھ کر بچے خیموں میں جا چھپے۔پھر تھوڑی دیر کے بعد حضرت عباس (ع) نے کنواں کھودا وہ بھی بند کر دیا گیا حتی حفراربعا۔یہاں تک کہ چار کنویں کھودے اور پانی حاصل نہ کر سکے۔ اس کے بعد امام حسین (ع) ایک ناقہ پر سوار ہوکر دشمن کے قریب گئے اور اپنا تعارف کرایا لیکن کچھ نہ بنا.
مورخین لکھتے ہیں کہ نویں تاریخ کو شمر کو فہ واپس گیااور اس نے عمر ابن سعد کی شکایت کرکے ابن زیاد سے ایک سخت حکم حاصل کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگرحسین (ع) بیعت نہیں کرتے تو انھیں قتل کرکے ان کی لاش پرگھوڑے دوڑادے اور اگر تجھ سے یہ نہ ہو سکے تو شمر کو چار ج دے دے ہم نے اسے حکم تعمیل حکم یزید دے دیا ہے۔
ابن زیاد کا حکم پاتے ہی ابن سعد تعمیل پر تیار ہو گیا۔اسی نویں تاریخ کو شمر نے حضرت عباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو امان کی پیش کش کی انھوں نے بڑی دلیری سے اسے ٹھکرادیا ( تفصیل کے لیے ملاخطہ ہوذکر العباس از180تا182)
اسی نویں کی شام آنے سے پہلے شمر کی تحریک سے ابن سعد نے حملہ کاحکم دے دیا۔امام حسین (ع) خیمہ میں تشریف فرما تھے۔آپ کو حضرت زینب(ع) پھر حضرت عباس (ع) نے دشمن کے آنے کی اطلاع دی۔حضرت نے فرمایا کہ مجھ پر ابھی غنودگی طاری ہو گئی تھی۔میں نے آنحضرت کو خواب میں دیکھا۔انھوں نے فرمایا کہ انک تروح غدا حسین (ع) تم کل میرے پا س پہنچ جاؤ گے .
جناب زینب رونے لگیں اور امام حسین (ع) نے حضرت عباس (ع) سے فرمایا کہ بھیا تم جاکر ان دشمنوں سے ایک شب کی مہلت لے لو۔حضرت عباس(ع) تشریف لے گئے اور لڑائی ایک شب کے لیے ملتوی ہو گئی۔


دسوییں محرم الحرام بروز جمعہ (یومٍ عاشور )

10 محرم سنہ 61 ھ۔ کو میدان کربلا میں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے بہتّر جاں نثاروں کے ہمراہ دین مقدس اسلام آزادی اور حریت کی پاسداری کے لئے بے مثال شجاعت و دلیری اور ایثار وفداکاری کا عظیم الشان مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی اور اسلام کو زندۂ جاوید بنادیا ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں ایسے ذلّت آمیز ماحول میں موت کو سعادت و خوش نصیبی سمجھتا ہوں اور ستمگروں کے ساتھ زندگی گزارنے کو ذلت وبدبختی ۔

مطلومیت کا کیسا یہ سکہ جما دیا
چشمٍ بشر کو اشک بہانا سکھا دیا

اعجاز ھے حسین علیہ السلام کا
کٹوا کے سر یزید کے سر کو جھکا دیا
(صفدر ھمدانی)

جاری ہے

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انبياء كرام (ع) سے مربوط قرآني آيات كے بعض صفات
مسلمانوں کو قرآن کي روشني ميں زندگي بسر کرني ...
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا
حقيقت شيعه شعيت کي حقيقت اور اس کي نشو و ...
دنیا کی سخت ترین مشکل کے حل کے لیے امام رضا علیہ ...
دنیا ظہور سے قبل
ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں
اموی حکومت کا حقیقی چہرہ، امام سجاد(ع
۹؍ربیع الاول
قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام

 
user comment