وہ جو اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت کی جستجو میں مصروف ہیں وہ حدیث ثقلین ہی کو کیوں نہیں لیتے؟ کیا اس حدیث کو پڑھنے کے بعد بھی ایک حق شناس انسان کو کوئی شک رہ سکتا ہے کہ اسلام اصیل صرف اہل بیت علیہم السلام سے ملتا ہے۔ اسلام خالص اسی گھرانے کے پاس ہے۔ دلائل بہت ہیں اس بات کے لیکن اس سے بڑی بھی کیا کوئی دلیل ہوسکتی ہے؟
اس مضمون کو آسانی سے سمجھنے کی خاطر سے ہم نے مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
١- ابتدائیہ۔
٢- حدیث و سنت کی شریعت میں اہمیت،
٣- حدیث ثقلین کا منطقی پس منظر
٤- حدیث ثقلین اور اسکی شرح
٥- اسناد و ماخذات
ابتدائیہ؛ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث الثقلین کے نام سے مشہور ہے اور ملت کے سبھی معتبر منابع حدیث بمع صحاح ستہ میں بطور حدیث حسن یعنی کہ متفق علیہ اورقابل وثوق حدیث کے طور پر مذکور ہے۔ آج ہم اس حدیث کے منطقی و تشریحی زاویوں پر قرآن و سنت کی سند کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ اس سے پہلے کہ میں حدیث کا متن و ترجمہ پیش کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ حدیث کی کی شریعت میں اہمیت اور اس حدیث کا منطقی پس منظر پیش کردوں۔
٢- حدیث و سنت کی شریعت میں اہمیت
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدائے پاک نے محض ایک پیغام بر بنا کر نہیں بھیجا تھا بلکہ آپ کو شریعت کے امور میں شارع کی حیثیت بھی حاصل تھی، اور آپ کے کہے، کئے اور قبول کئے گئے قول و عمل کو قرآن کے ذریعے اصول شریعت کا درجہ حاصل ہے۔ جیسا کہ سورہ حجرات میں فرمایا کہ يَا ايُّھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّہ وَرَسُولِہ وَاتَّقُوا اللَّہ انَّ اللَّہ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الحجرات آیت ١) کہ اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) سے آگے مت بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ (جو تم سرگوشی کرتے ہو وہ بھی) سنتا بھی ہے اور ( جو تم سوچتے ہو) وہ جانتا بھی ہے۔ یعنی جو اللہ اور اسکارسول کہ دیں وہی حرف آخر ہے۔ پھر بار بار جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں انکے عمل (سنت) کے اتباع کا حکم بھی دیا ہے، جیسا کہ آلِ عمران میں فرمایا کہ قُلْ ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّہ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّہ غَفُورٌ رَّحِيمٌ کہ اے میرے رسول (یہ لوگ جو اللہ سے محبت کے دعوے کرتے ہیں) ان سے کہیئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو (اسکا معیار یہی ہے کہ) تم پھر میری پیروی کرو، اللہ خود تم سے محبت کرے گا اور وہ (خود ہی) تمہاری خطائیں معاف فرما دے گا کہ وہ بخشن ہار اور حد سے زیادہ مہربان ہے
اسی طرح سے سورہ الحشر کی آیت نمبر سات میں فرمایا کہ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَمَا نَھاكُمْ عَنْہ فَانتَھوا کہ جو رسول دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤ۔ یہ اسی آیہ شریف ہی کی عملی تفسیر ہے کہ سوائے چند ایک حلال و حرام کے، باقی سبھی حلال و حرام قرآن میں بالتصریح مذکور نہیں ہیں، اور انکی حدود حدیثِ رسول مقبول میں معین کی گئی ہیں۔اتباع رسول کی نسبت سے قرآن میں متعدد احکامات موجود ہیں، لیکن ہم انہی متذکرہ بالا پر اکتفاء کرتے ہوئے یہ کہنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہمیت دین میں اصول ہائے شریعت کی ہے اور ان سے انکار دین سے اخراج کے مساوی ہے۔ اسی لئے اکابرین ملت نے شروع سے ہی احادیث کو جمع کرنے اور انکی تدوین و تحقیق کا کام شروع کردیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے قرآن کے بعد سنت رسول کو ہی سامنے رکھ کر اپنی زندگیوں کے فیصلے کئے اور اسی بناء پر فقہاء ملت نے تمام تر تفریقات کے باوجود قرآن کے ساتھ حدیث و سنت کو متفقہ طور پرمآخذات ِ شریعت تسلیم کر رکھا ہے اور اس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
٣- حدیث ثقلین کا منطقی پس منظر۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطمع نظر محض پیغام رسانی ہی نہیں رہا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امت کو مستقبل کی اخبار بھی دیتے رہے جیسا کہ متواتر احادیث میں قرب قیامت کی علامات، مھدی موعود (ع) کے تذکرے اور سچے دعویدار کی پہچان بتائی اور ساتھ ساتھ فتنہ ء دجال کے متعلق امت کو انتباہ کیا اور صحیح راستوں کی نشانیاں بھی بتائیں۔ ان سب باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ نبیء کریم محض اپنے زمانے سے متعلق فکر مند نہیں تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسلمانان عالم کے مستقبل کی فکر بھی لاحق تھی اور صرف یہی نہیں، بلکہ امت کی نجات اور روز حشر تک متعلقہ اپنی فکر مندی کو آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیشمار مقامات پر ظاہر کیا۔
جسطرح کوئی بھی فرد عاقل اور ذمہ دار قائد کسی بھی مسئلے کی نشاندہی کر دینے کو کافی نہیں جانتا، اسی طرح پیمبر (ص) کی نظر میں بھی محض فتن اور انکی علامات کا ذکر کافی نہ تھا جب تک کہ فلاح و نجات کے اسباب بھی فراہم نہ کر دیتے۔ منطقی طور پر امت کی فلاح اسی میں تھی اور ہے کہ اس پیغام ِ خداوندی کے ساتھ جڑے رہیں جسے خداوند متعال نے سر چشمہء ہدایت بنا کر نازل کیا ہے۔ لیکن رسول مقبول جانتے تھے کہ محض پیغام کا محفوظ رہ جانا اس پر عمل کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔ اس کے لئے کسی ایسے فرد کی امت کو ضرورت تھی جو مثل رسول بن کر اس پیغام کی نگہبانی بھی کرتا اور کردار و عمل میں امت کے لئے امام بن کر مشعل راہ بن سکتا۔ امت کے لئے اس نظریہء ضرورت ِامامت کو ان افراد نے بھی تسلیم کیا ہے جن کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعد کے ہادی کی نشاندہی نہیں کی تھی، اور اسی ضرورت کے احساس کےتحت وصال رسول (ص) کے بعد امت کی ایک بڑی جماعت آنحضور کے کفن دفن سے پہلے ملت کیلئےراہنما کے تعین میں مصروف ہو گئی تھی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ء مبارک میں ہی ملت تمام امور پر متفق نہیں ہوتی تھی اور کئی مقامات پر صحابہء کرام اپنے تشریحی و تشریعی نزاعات کے حل کے لئے آنحضور (ص) کے پاس حاضر ہوتے رہتےتھے۔ جیسا کہ سورہ حجرات کی آیت يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْھَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ كَجَھرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ان تَحْبَطَ اعْمَالُكُمْ وَانتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات آیت ٢) کی تفسیر کے سلسلہ میں کتاب فتح الباری فی شرح الصحیح البخاری کے باب تفسیر میں الامام العلامہ الحافظ شيخ الاسلام ابو الفضل احمد بن علاء الدين المعروف: ابن حجر العسقلاني المصري نے لکھا ہے بنی تمیم کےایک قافلے کی آمد کے موقع پر حضرات ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنھما کے مابین اختلاف ہو گیا اور ایک دوسرے سے بحث میں انکی آوازیں اسقدر بلند ہوگئیں اور حضورِ رسالتمآب (ص) سے بے خبری واقع ہوگئی اور خود رسول پاک کی سمجھانے بجھانے کی آواز انکی آوازوں میں دب کر رہ گئی، جسے انہوں نے بہت جلد محسوس کر کے آپس میں بھی معذرت کی اور رسول اللہ (ص) سے بھی معذرت کی۔ اسی طرح بیسیوں مقامات کتب سیر و حدیث میں مرقوم ہیں جہاں صحابہ کے درمیان اختلاف شدید نزاع کی صورت اختیار کر جاتا رہا اور حضور نبیء کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انکے مابین صلح کروانا پڑی۔ متعدد مقامات پر اختلاف سے بیزاری کی ہدایت حدیثِ رسول میں بھی ملتی ہے اور قرآن کریم میں بھی۔ جیسا کہ صحیح المسلم اور مسند احمد میں حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آنحضور (ص) نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی ہلاکت کا سبب انکا اختلاف اور حد سے بڑھے ہوئے سوالات تھے اور تم اس حرکت سے خود کو بچاؤ تاکہ ہلاکت سے بچ سکو۔
گو کہ اختلاف رائے ایک فطری و بشری تقاضا ہے، لیکن شریعت کے احکامات کے معاملہ میں خداوند متعال ہمیں اختلاف سے دور رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی تنبیہہ فرمائی کہ امت کے تہتر فرقوں میں سے صرف ایک ناجی ہے، تاکہ امت اختلافی امور ایجاد کرنے کی بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے لئے راہ عمل معین کرتی رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے مابین خود تفسیر قرآن پر اختلاف رائے ہوتا رہا ہے، اس لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی جماعت تشکیل دے سکیں جو کہ اختلافات سے خالی امت کہلا سکے اوروہ نجاتِ ملت کا کارنامہ انجام دے سکیں۔ جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ امَّت وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُھدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَھيدًا (البقرہ آیت٢) کے ضمن میں عبداللہ ابن عباس سے فرمایا کہ میں اس آیت سے مطلب یہی سمجھتا تھا کہ رسول پاک ہمیشہ گواہ بن کر اس دنیا میں زندہ رہیں گے اور کبھی فوت نہ ہونگے، اس لئے میں نے آپ (ص) کے وصال کے وقت آپ (ص) کی وفات کا پہلے انکار کیا، جب تک کہ صدیق اکبر (رض) نے مجھے سورہ آل عمران کی آیات تلاوت کر کے حقیقت سمجھا نہ دی۔ ( ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام، جلد ٢ ، اسلام میں اختلاف کے اصول و آداب از ڈاکٹر طہ جابر فیاض العلوانی ص ٥٠)۔ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ رسول پاک کسی ایسے گروہ یا فرد کی تربیت فرماتے جو قرآن کی تفسیر ویسے ہی جانتے جیسا کہ رسول اللہ خود جانتے تھے اور جو قرآن کے مزاج سے اسی طرح آشنا ہوں جیسا کہ اللہ چاہتا ہے۔
سورہ انفال کی آیت نمبر ٨٦ میں فرمایا کہ وَاطِيعُواْ اللّہ وَرَسُولہ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْھبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ انَّ اللّہ مَعَ الصَّابِرِينَ (انفال آیت ٨٦) کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں تنازعات (و اختلاف) مت کرو، ورنہ ناکام ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور ہاں صبر کرتے رہو کہ اللہ صابرین کے ساتھ ہے۔ اس آیت کریمہ کو اگر بغور پڑھیں تو حکم یہی ہو رہا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور اس اطاعت میں اختلاف مت کرو، ورنہ جنت پانے کی کامیابی تمہیں نہیں ملے گی، اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ ایسے میں اگر اس طرح کی صورت حال آ جائے تو صبر سے کام لو اور ہاں دیکھو اگر یہ جاننا ہو کہ اللہ کس طرف ہے تو جہاں صبر ہوگا سمجھو اللہ اسی طرف ہے اور وہی راستہ صحیح ہے۔ اس آیہ مجیدہ سے یہ بھی صاف پتہ چل رہا ہے کہ صحابہ کرام کے مابین احکام رسول کی پیروی اور تفسیر قرآن پر عہد رسول ہی میں اختلاف و نزاع کی صورت موجود تھی، تبھی تو یہ آیت نازل ہوئی کہ بلا سبب اختلاف پیدا کرنے کی بجائے سیدھے سادھے طریقے سے اطاعت کرو اور اگر دوسرا گروہ تمہیں غلط کہے تو صبر سے کام لو، کیونکہ یہ فساد پھیلانے سے بہتر ہے۔ مزید برآں اگر غلط نکتہء نظر والا گروہ بھی صبر کر لے گا تو ان کو اپنی ہی بات پر غور و خوض کا موقع مل جائے گا اور یوں صبر کے سبب جو اللہ کی معیت نصیب ہوگی وہ انہیں صحیح راستے پر ڈال دے گی۔
ان آیات و احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مابین اختلاف و نزاع پیدا ہوجاتا تھا، اور جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مابین اسقدر اختلاف موجود تھا تو یہ ایک یقینی امر تھا کہ انکی پیروی امت کو فرقوں میں منقسم کر دے گی، اور اس خوف سے رسول کریم آگاہ تھے۔ اسی لئے یہ ممکن نہ تھا کہ آپ ہدایت کا کچھ ایسا سامان نہ فرمادیتے کہ جسے امت وصیت جان کر اس پر عمل کرتی اور اختلاف کی کمی کا سبب بن جاتا۔
٤۔ حدیث ثقلین ۔۔۔۔متن، ترجمہ اور تشریح۔
اس حدیث شریف کے بارے میں چند روایات میں یہ آیا ہے کہ حجت الوداع کے موقع پر یا غدیر خم کے مقام پر حجت الوداع کے بعد سفر واپسی پر حضور نے یہ فرمان جاری کیا، جبکہ دیگر روایات میں اسکا ذکر پہلے سے بھی ثابت ہوتا ہے، جس سے لگتا ہے کہ اس مضمون کو نبیء پاک نے بار بار امت مسلمہ کو یاد کرایا تھا۔
١- صحیح ترمذی الشریف میں روایت ہے کہ زید بن ارقم نے روایت کیا کہ قال رسول اللہ انِّي تارِكٌ فِيكُمْ ما انْ تَمَسَّكْتُمْ بِہ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدي، احَدُھما اَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتابُ اللہ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّماءِ الَى الارْضِ، وَعِتْرَتِي اھْلُبَيْتِي، وَلَنْ يَفْتَرِقَا حَتّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُوني فِيھِما۔( صحیح الترمذی الشریف جلد ٥، حدیث نمبر ٣٧٨٦، طبع بیروت۔)
ترجمہ؛ زید ابن ارقم نے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا کہ میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ان میں ایک چیز اللہ کتاب ہے جو اسکی رسی کی مانند آسمان تا زمین ممدود ہے اور دوسرے میرے اہل بیت عترت(خاندان) ہیں، اور دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتّی کہ حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے، اب میں دیکھتا ہوں کہ کہ (بھلا) تم ان کے بارے میں میری مخالفت کیسے کرو گے۔
٢- کنز العمال جلد جلد ١، صفحہ ٤٤ باب الاعتصام بالکتاب و السنہ میں یہی حدیث تھوڑے مختصر الفاظ کے ساتھ یوں مرقوم ہے
یا ایھا الناس انی ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی کہ اے لوگو میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک رکھو گے تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرے عترت اہل البیت۔
٣- امام احمد بن حنبل نے کتاب مسند احمد میں روایت یوں لکھی ہے عن ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى اللہ عليہ وآلہ قال : اني اوشك ان ادعى فاجيب ، واني تارك فيكم الثقلين : كتاب اللہ عز وجل ، وعترتي ، كتاب اللہ حبل ممدود من السماء الى الارض ، وعترتي اھل بيتي ، وان اللطيف الخبير اخبرني بھما انھما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض ، فانظروا كيف تخلفوني فيھما۔ (مسند حنبل ج٣، ص ١٧)۔
ابو سعید خدری (رضٰ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ لگتا ہے کہ میرا وقت رحلت آن پہنچا ہے اور میں اللہ کے بلاوے کو جواب دینے کو ہوں، پس اسی لئے میں تمہارے مابین دو ایک جیسی گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہاں، اللہ کی کتاب اور میری عترت، اللہ کی کتاب آسمان سے زمین کی طرف کھنچی ہوئی اسکی رسی ہے اور میری عترت، اللہ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہونگے حتیٰ کہ مجھے حوض کوثر پر آن ملیں گے، اب دیکھتا ہوں کہ تم لوگ ان کے معاملے میں مجھ سے کیسے اختلاف کرتے ہو؟
٤- امام فخر الدین رازی نے آیہ مجیدہ و اعتصموا بحبل اللہ و لا تفرقوا ( آل عمران آیت ١٠٣) کی تفسیر میں یہی حدیث شریف بیان کی ہے۔
الغرض کم و بیش پچاس سے زائد کتب و مقامات پر یہ حدیث تواتر کے ساتھ وارد ہوئی ہے اور اس میں رسول کریم نے اپنی وصیت کے طور پر فرمایا ہے کہ اب جبکہ مجھے نظر آرہا ہے کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں تو تمہاری ہدایت کے لئے بتاتا چلوں کہ قرآن اور اہل البیت کا دامن پکڑے رکھنا، تا کہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ یہاں دلچسپ امر یہی ہے کہ پیامبر اکرم نے فرمایا کہ یہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے، یعنی کہ انکے مابین معانی و مدعا کا فرق نہیں ہوگا۔
جبکہ اوپر ہم دیکھ آئے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مابین قرآن کے معانی و تفایسر پر اختلاف اور ابہام موجود تھا۔ اسی سبب سے کم و پیش تیئیس سالہ تبلیغی زندگی میں ساتھ رہ کر بھی کچھ افراد قرآن کے بعض مفاہیم سے آگاہ نہ تھے اور خود حضرت عمر فاروق نے(رض) فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ رسالتمآب سدا زندہ رہیں گے۔ جب صدیق اکبر نے سورہ آل عمران کی آیات تلاوت کیں کہ وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہ الرُّسُلُ اَفَاِن مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى اعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْہ فَلَن يَضُرَّ اللّہ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللّہ الشَّاكِرِينَ (آل عمران آیت ١٤٤) کہ اگر محمد (ص) قتل کر دئیے جائیں یا فوت ہوجائیں تو کیا تم پچھلے قدم ہٹ جاؤ گے؟، تو حضرت عمر فاروق کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کا یقین آ گیا اور فرمایا کہ یہ آیات جو آپ نے پڑھی ہیں میں نے تو پہلے سنی پڑھی ہی نہیں تھیں (تفسیر ابن کثیر جلد ٤، در تفسیر آیہء مجیدہ مذکورہ صفحہ ٥٢، سیرت ابن ہشام جلد ٢، صفحہ ٦٥٥)۔
اسی لئے نبیء کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس صورت حال کو پہلے ہی بھانپتے ہوئے امت کو وصیت فرما دی کہ ان کو ہدایت کے لئے کس طرف رجوع کرنا ہے۔ اس کے لئے یقینی طور پر انہی افراد کا دامن پکڑا جا سکتا ہے جن کے بارے رسول سند دے کہ وہ قرآن سے الگ نہیں ہیں۔ ابن حجر مکی نے الصواعق المحرقہ فصل ٢، باب ٩ کے اندر اسی روایت یہ بھی نقل کیا ہے کہ ھذا علی مع القرآن و القرآن مع علی لایفترقان حتی یردا علی الحوض۔۔۔ کہ یہ علی (اب ابیطالب) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے، ان کے مابین کوئی تفریق نہیں ہے، حتیٰ کہ دونوں حوض کوثر پر مجھ سے آن ملیں گے۔
٥- صاحب الصواعق لمحرقہ نے باب وصایا النبی میں اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا: کتاب اللہ و عترتی. فلا تقدموھما فتھلکوا و لا تقصروا عنھما فتھلکوا و لا تعلموھم فانھم اعلم منکم کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان وہ چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم اس سے جڑے رہے گو تو کبھی ہر گز گمراہ نہ ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب اور میری عترت، اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ہلاک ہو جاؤ گے، اور ان کے فضائل میں کمی کرنا کہ ہلاک ہوجاؤ گے اور ان کو پڑھانے کی کوشش مت کرنا کہ یہ تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اسی طرح المستدرک الحاکم میں ایک حدیث شریف ہے کہ اٴولکم واردا عليَّ الحوض، اٴولکم اسلاماً، علی بن ابی طالب۔ یعنی کہ تم میں سے سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وہ پھنچے گا جو تم میں سب سے پھلے اسلام لایا ھو اور وہ حضرت علی ابن ابی طالب ھیں۔( المستدرک ج٣، صفحہ ١٣٦)۔ یہ حدیث، حدیث ثقلین کو تقویت دیتی ہے کہ جہاں امام علی (ع) کو حوض کوثر پر سب سے پہلے پہنچنا ایک سند ہے اس امر کی کہ آپ ہی ان ہستیوں میں سے اول ہیں جو ہمرکاب قرآن ہیں اور جن کے مابین تفریق نہیں ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں لا تقدموھما (کہ ان سے آگے مت بڑھو) کے الفاظ سے مجھے پھر سورہ آل حجرات کی پہلی آیت یاد آ رہی ہے جہاں فرمایا کہ اے مؤمنین اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔
ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم امت کی فلاح اور اپنے بعد راہنمائی کے لئے فکر مند تھے اسی لئے امت کو جا بجا جہاں اختلافات میں پڑنے سے منع فرمایا وہیں اپنی وصیت بھی فرمادی تا کہ امت گمراہی کے راستے سے بچ سکے اور قرآن و حدیث کی غلط تاءویلات و خود ساختہ حکمت سے بچ کر اسی حکمت کو پا سکے جس کے لئے انہیں مبعوث کیا گیا ہے۔
اس موقع پر حدیث غدیر کا ذکر بے جا نہ ہوگا جہاں فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اسکا علی مولا ہے۔ (الصحیح الترمذی، جلد ٥، ص ٦٣٣، حدیث نمبر ٣٧١٣، المعجم الکبیر جلد ٥ از امام طبرانی حدیث نمبر ٥٠٧١، مسند امام احمد بن حنبل جلد ٤، صفحہ ٣٧٢ علاوہ ازیں یہ حدیث کم بیش بیس اور اسناد رکھتی ہے)۔ اسی لئے خلافت راشدہ کے عہد میں بھی جب کبھی شرعی امور کی تشریح میں مشکل پیش آتی تھی تو صحابہ کبار رضوان اللہ علیھم اجمعین امام علی علیہ السلام سے رجوع کرتے تھے اور آپ سے ہدایت طلب فرماتے تھے۔ اس امر کو با وجود اختلافات کے، خلفاء راشدین نے ہمیشہ مقدم رکھا، جیسا کہ دو بدو ایک جھگڑا لیکر جناب حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں آئے تو انہوں نے امام علی علیہ السلام سے کہا کہ انکا فیصلہ کر دیں۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ کیا ہمارے درمیان یہی فیصلہ کرنے والےرہ گئے ہیں تو حضرت عمر (رض) نے جلال سے اسکا گریبان پکڑ لیا اور کہا کہ اے بد بخت یہ میرے اور ہر بندہ ء مؤمن کے مولیٰ ہیں، اور جو انکا انکار کرے وہ مؤمن نہیں ہے۔ ( کتاب ریاض النظرہ ج٣ صفحہ ١٢٨، تاریخ دمشق از ابن عساکر)۔ یہی نہیں بلکہ کئی شرعی حدود کے نفاذ اور ان میں تغیر تبدل تک کا حق صحابہ کرام (رض) نے امام علی علیہ السلام کے لئے اسی طرح مان رکھا تھا جیسے کہ رسول اللہ (ص) کا کہا ہو۔ جیسا کہ حضرت عمر ابن خطاب (رض) نے شراب خور کی سزا ٤٠ درے سے بڑھا کر اسی درے امام علی (ع) کی مشاورت کے بعد کی۔
ایسی بیسیوں روایات موجود ہیں جہاں عترت اہل البیت علیہم السلام کا حق تشریعی صحابہ کرام نے تسلیم کیا، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ صحابہ اس قول رسول کو جانتے اور دل و جان سے مانتے تھے کہ قرآن کی معیت حضور (ص) کے اہل بیت کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہے۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے رسول کے فرامین سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں قرآن و عترت کا سد ادامن گیر رکھے کہ جب وہ حوض کوثر پر پہنچیں تو ہم بھی ان کے ساتھ سچے موالیان بن کر حضور رسالتمآب میں سرفراز ہوں آمین بجاہ محمد و عترتہ العالین۔
٥۔ حدیث ثقلین کی اسناد و ماخذات۔
اس حدیث شریف کے ثقہ راویان صحابہ کی فہرس یوں ہے۔
سلمان فارسى، ابوذرّ غفارى، جابر بن عبداللہ انصارى،ابوالھيثم بن تيھان، حذيفہ بن اليمان، حذيفہ بن اُسَيْد، ابو سعيد خُدْرى، خزيمت بن ثابت، زيد بن ثابت، عبدالرّحمن بن عوف، طلحہ، ابوھريرہ، سعد بن ابى وقّاص، ابو ايّوب انصارى، عمرو بن العاص، امّ سلمہ امّ المؤمنين ، عدی بن حاتم، قیس بن ثابت، عقبہ بن عامر، سھل بن سعد، عمار یاسر، عبد اللہ ابن عباس عبد اللہ ابن عمر اور حضرت عمر ابن خطاب (رضوان اللہ علیھم)۔ علاوہ ازیں یہ حدیث خود امام علی (ع)، امام حسن المجتبیٰ (ع) اور سیدہ فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا سے بھی مروی ہے۔
ماخذات و مراجع۔
مندرجہ ذیل موثق محدثین اور انکی کتب نے اس حدیث کو تواتر کے ساتھ با سند صحیحہ نقل کیا ہے۔ ان کتب و محدثین میں گو کہ بخاری شریف شامل نہیں ہے، لیکن اس کے سوا باقی صحاح شامل ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
١- محدث سعيد بن مسروق ثورى۔
٢- راوی الاحادیث سليمان بن مھران اعمش۔
٣۔ محمّد بن اسحاق، صاحب سيرت ابن اسحاق۔
٤۔ محمّد بن سعد، الطّبقات الكبرى۔
٥۔ ابوبكر ابن ابى شيبہ المصنَّف۔
٦۔ابن راھويہ، المسندہ۔
٧۔احمد بن حنبل، المسندامام حنبل۔
٨۔ عبد بن حُميد، صاحب المسند۔
٩۔ مسلم بن حجّاج قُشيرى، الصّحيح المسلم ۔ ( مسلم نے اس روایت کو مخلتف انداز سے بیان کیا ہے، ج ٧,ص١٢٢حدیث ثقلین کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے,ابن عبدریہ)۔
١٠۔ ابن ماجہ قزوينى،سنن المصطفى( المعرعف سنن ابن ماجہ)۔
١١۔ ابوداود سجستانى، السّنن ابو داؤد شریف۔
١٢۔ ترمذى،الصّحيحالترمذی الشریف۔
١٣۔ ابن ابى عاصم، كتاب السّنّہ۔
١٤۔ ابوبكر بزّار، المسند۔
١٥۔ نسائى، السُّنن۔
١٦۔ ابو يعلى موصلى، المسند۔
١٧۔ محمّد بن جرير طبرى، تفسير و تاريخ۔.
١٨۔ ابوالقاسم طبرانى، معجم كبير و اوسط و صغير۔
١٩۔ ابوالحسن دارقطنى بغدادى.
٢٠۔ حاكم نيشابورى، صاحبالمستدرك۔
٢١۔ ـ ابو نعيم اصفھانى، صاحب تأليفات معروف.
٢٢۔ ابوبكر بيھقى، صاحب السّنن الكبرى۔
٢٣۔ ابن عبدالبرّ، الاستيعاب۔
٢٤۔ خطيب بغدادى، تاريخ بغداد۔
٢٥۔ـ بغوى، مصابيح السّنّہ۔
٢٦۔ ـ رزين عبدرى، الجمع بين الصّحاح السّتّہ۔
٢٧۔ قاضى عياض،الشّفاء۔
٢٨۔ابن عساكر دمشقى، تاريخ مدينہ دمشق۔
٢٩۔ ابن اثير جزرى،اُسْد الغابہ۔
٣٠۔ ـ فخر الدین رازى، التّفسير الكبير۔
٣١۔ ضياء مَقْدِسى، المختارہ۔
٣٢۔ ابو زكريّا نَوَوى، شرح صحيح مسلم۔
٣٣۔ ـ ابوالحجّاج مِزّى، تھذيب الكمال۔
٣٤۔ ـ شمس الدّين ذھبى۔
٣٥۔ ـ ابن كثير دمشقى، تفسير و تاريخ۔
٣٦۔ نورالدّين ھيثمى، مجمع الزّوائد۔
٣٧۔ جلال الدّين سيوطى۔
٣٨۔ ـ شھاب الدّين قسطلانى، شارح صحيح بخارى۔
٣٩۔ شمس الدّين صالحى دمشقى، سبل الھدى والرَّشاد۔
٤٠۔ ابن حجر عسقلانى،۔
٤١۔ ابن طولون دمشقى۔
٤٢۔ شھاب الدّين ابن حجر مكّى، الصّواعق المحرقہ۔
٤٣۔ متّقى ھندى، كنز العمّال۔
٤٤۔ ـ ملاّ على قارى ھروى، مرقات المفاتيح فى شرح مشكات المصابيح۔
٤٥۔ ـ عبدالرّؤوف مناوى، فيض القدير فى شرح الجامع الصّغير۔
٤٦۔ ـ حلبى، السّيرت الحلبيّہ۔
٤٧۔ ـ زينى دَحْلان، السّيرت الدّحلانيّہ۔
٤٨۔ ـ منصور على ناصف، التّاج الجامع للاصول۔
٤٩۔ شيخ يوسف نبھانى، تاليفات معروف۔
٥٠۔ مبارك پورى ھندى، شارح صحيح ترمذى۔
اضافی حوالہ جات۔
١- مسند حنبل ج٣، ص ١٧
٢ صحیح المسلم - ص ٢٣٨
٣۔کنز العمال ج ٧ - ص ١١٢
٤۔صحیح ترمذی ج ٢ - ص ٣٠٨
٥۔الحاکم المستدرک ج٣، ص ١٠٩،
٦۔ینابیع المؤدت ص ٢٥۔
٧۔الصواعق المحرقہ ص ١٥٠، مکتبہ القاہرہ۔
٨۔ تاریخ یعقوبی جلد ٢، ص
source : http://www.abna.ir