شیعوں کے عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں میں بعض کو اپنے اور گناہگاروں کے درمیان شفیع قرارد یا ہے راہنمائے بہشت صفحہ ۳۵۰ پراس بارے میں مفصل بحث کی گئی ہے ان میں سے ایک شفیع کہ جس کی شفاعت سب سے وسیع ہے فاطمہ زہرا*ہیں ۔ حضرت فاطمہ * کی شفاعت کی تفصیل رہنمائے بہشت صفحہ ۳۰۶پر بیان کی گئی ہے۔
زہرا*کو امت کی فکر
(ج لا ۹۴) معتبر سند سے امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ ایک دن فاطمہؑ نے رسول خدا ﷺ سے پوچھا کہ اے بابا میں قیامت کے دن آپ سے کہاں ملاقات کروں گی؟ آپ نے فرمایا فاطمہ تم مجھے بہشت کے قریب دیکھو گی میرے ہاتھوں میں لوائے حمد ہوگا اور میں اپنے پروردگار سے اپنی امت کی شفاعت کروں گا انہوں نے کہا بابا اگر میں نے آپ کو وہاں نہ پایا تو کہا ں تلاش کروں؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا : صراط کے پاس، انہوں نے کہا اگر وہاں بھی نہ ملے تو پھر میں کیا کروں؟ آنحضرت ﷺنے فرمایا : تو پھر مجھے میزان کے پاس ملنا جہاں میں کھڑا ہوں گا اور کہوں گا خدا یا میری امت کومحفوظ رکھ۔ انہوں نے کہا اگر وہاں بھی آپ کو نہ پایا تو؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: پھر مجھے جہنم کے کنارے ملنا جہاں میں کھڑا ہوں گا اور اس کے شعلوں اور آگ کی لپٹوں سے اپنی امت کو بچا رہا ہوں گا۔ فاطمہ * یہ بات سن کر خوش ہوگئیں ۔ (پس معلوم ہوا کہ فاطمہ *امت کو گمراہی اور دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر میں ہیں۔ فاطمہ *کی شادی کے جوڑے اور شفاعت کا خط لینے کا واقعہ سرمایۂ سعادت و نجات ص ۱۱۴ پر بیان کیا گیا ہے۔
فاطمہ *کی شفاعت کے اسباب
ایف عصمت کبریٰ خدا رحمت داور
یکتا گہر درج شف دُخت پیمبر
بانوی نخست آنکہ شدہ عرش مزین
از خلقت تور تو جہان گشتہ منور
ای مظہر لطف احدیت مہ عفت
ام النجباء خیر النساء ہمسر حیدر
میخواند ترا ختم رسل ام ابیھا
زیرا کہ بُدی بہرِ نبی تحفۂ داور
ہمچوں شب قدریکہ شدہ قدر تو پنہان
در وصف تو آمد بیقین سورۂ کوثر
درہر دل پاکیکہ زحب تو کند جا
در روز اول گشتہ بتوحید مخمر
مہر تو مفید است بصد موقف پر ہول
از سختی جاندادن و از پرسش منکر
مبہوت ازآنم کہ چسان وصف توگویم
از نور تو آوردہ خد یازدہ اختر
تادر وصف محشر بشفاعت ننہی پا
دیوان کسیرا نگشاینہ سراسر
اسباب شفاعت ومہ دردست تو باش
از محسنِ مظلوم و علی اکبر و اصغر
و زپیگر صد چاک و جوانان دل آرا
وز عابد غم دیدہ از زینب مضطر
از بہر تو بخشد ہمہ را خالق یکتا
جز خصم تو از ظالم و بدسیرت و کافر
افسوس کہ از بعدِ پدر آن ہمہ آزار
دیدی ز جفا کاری آن قوم ستمگر
آتش بدرِ خانہ ات از کینہ عدو زد
شد تیرہ چو شب صبح امید تو سراسر
ہموارہ ز ہجرانِ پدر گریہ نمودی
با پہلوی شکستہ و باقلب پر آذر
افتاد زپا نخ امیدت بجوانی
با جسم نحیف و تن مجروح بہ بستر
ما چشم شفاعت بتو یا فاطمہ ؑ داریم
از بارِ گنہ جملہ شدہ زار و مکدر
زان ماتم جانسوز غم انگیز (مقدم)
گریان شدہ دوست مصیبت زدہ بر سر
دلیکہ نیست در آن مہر فاطمہ سنگ است
چرا کہ نور وی و نور حق ہم آہنگ است
اگر قدم نہ نہد او بعرصہ ی محشر
کمیتِ جملہ شفاعت کنان یقین لنگ است
شفاعت زہرا *
(۴۳ بحار ۲۲۵)ابن عباس کہتے ہیں : میں نے سنا امیر المؤمنین ۔فرما رہے تھے ایک دن پیغمبر اکرم ﷺ فاطمہ * کے پاس آئے تو انہیں محزون و مغموم دیکھا۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: بیٹی کس وجہ سے محزون و مغموم ہو؟ فاطمہ *نے کہا بابا مجھے محشر اور لوگوں کا برہنہ کھڑا ہونا یاد آگیا۔ آپ ؐ نے فرمایا: بیٹی یقیناً وہ دن بڑا اور عظیم ہے لیکن جبرئیل نے مجھے خدائے عزّ وجل کی جانب سے خبر دی ہے کہ سب سے پہلے جو قبر سے اٹھے گا وہ میں ہوں گا اس کے بعد میرے والد ابراہیمؑ پھر تمہارے شوہر علی بن ابی طالب 228۔ اس کے بعد خدائے عزوجل جبرئیل کو سترہزارفرشتوں کے ساتھ تمہارے پاس بھیجے گا پس وہ تمہاری قبر کے اوپر نور کے ساتھ گنبد بنائیں گے۔ اس کے بعد اسرافیل نور کے تین زیور لے کر تمہارے پاس آئے گا۔ وہ تمہارے سر کے پاس کھڑا ہوکر آواز دے گا
یَافَاطِمَۃُبِنْتِ مُحَمَّدٍ قُومِی اِلیٰ مَحْشَرِکِ فَتَقُومِیْنَ آمِنَۃً رَوْعَتُکِ مَسْتُورَۃً عَوْرَتَکِ فَیُنَاوِلُکِ اِسْرَافِیلُ الْحُلَلَ فَتُلْبِسِینَھَا وَیأتَیْکِ زُوقَائیِلُ بِنَجِیْبۃٍ منْ نُورٍ زَمَانُھَا مِنْ لُؤلُؤ رَطْبٍ عَلَیْھَا مَحْفَۃٌ مِنْ ذَھَبٍ فَتُرْکَبِیْنَھَا۔
اے فاطمہ دختر محمد ؐ اپنے محشر کی طرف اٹھو پس تم اٹھوگی جبکہ تمہارا حسن وجمال محفوظ ہوگا تمہاری شرمگاہ پردے میں ہوگی پس اسرافیل وہ زیور تمہیں دے گا اور تم وہ پہن لوگی اور تمہارے پاس زوقائیل نور کا اچھا اونٹ لے کر آئے گا جس کی لگام لؤلؤ کی ہوگی اور اس پر سونے کی زین ہوگی تم اس پر سوار ہو جاؤگی اور زوقائیل کے ہاتھ میں اس کی لگام ہوگی اور تمہارے آگے ستر ہزار فرشتے ہوں گے جن کے ہاتھوں میں تسبیح کے پرچم ہوں گے۔
چار افراد سوار ہیں: ابن عباس نے آنحضر ت سے روایت کی ہے کہ آنحضر�أ نے فرمایا قیامت کے دن چارا فراد کے سوا کوئی بھی کسی سواری پر سوار نہیں ہوگا وہ چار افراد یہ ہیں : میں علی فاطمہ اور صالح پیغمبر۔ میں براق پر سوار ہوں گا اور میری بیٹی غضباء اونٹنی پر سوار ہوگی۔۔۔۔
زہرا*کی بے پناہ شفاعت
فرات بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں حضرت امیر المؤمنین ۔سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضرت رسالت مآب ﷺحضرت فاطمہ *کے گھر تشریف لائے تو انہیں محزون پایا۔ فرمایاکہ تمہارے حزن کا سبب کیا ہے۔ حضرت فاطمہ * نے فرمایا کہ مجھے محشر اوروہاں لوگوں کا عریاں کھڑا ہونا یاد آگیا ۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: اے دختر وہ دن عظیم دن ہے لیکن جبرئیل نے مجھے خداوند عالم کی جانب سے خبر دی ہے کہ قبر سے جو پہلا شخص اٹھے گا وہ میں ہوں گا میرے بعد ابراہیم خلیل ہوں گے اس کے بعد تمہارے شوہر علی بن ابی طالب۔ پس خداوند عالم جبرئیل کو تمہاری قبرکی طرف بھیجے گا ۔وہ ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری قبر پر نور کے تین زیور تمہارے لئے لائیں گے اورتمہارے سر کے پاس کھڑے ہوں گے اور تجھے آواز دیں گے کہ اے فاطمہ دختر محمد باہر آؤ محشر کی طرف۔ پس تم قبر سے باہر آؤگی تم پردے میں چھپی ہوگی اور اس دن کے خوف سے محفوظ ہوگی پس اسرافیل وہ زیور تمہیں دیں گے اور تم وہ پہن لوگی۔ زوقائیل نامی فرشتہ تمہارے لئے اونٹنی لے کر آئے گا جس کی مہارمروارید کی ہوگی اس کی پیٹھ پر سونے کی زین رکھی ہوگی پس تم اس پر سوار ہوگی اور زوقائیل اس کی مہار تھام لے گا تمہارے آگے آگے ستر ہزار فرشتے ہوں گے جن کے ہاتھ میں تسبیح کے پرچم ہوں گے۔
جب تم روانہ ہوگی تو سترہزار حوریں تمہارے استقبا ل کے لئے آئیں گی اور تجھے دیکھ کر خوش ہوں گی۔ ہر ایک کے ہاتھ میں نور کی انگیٹھی ہوگی جن میں سے بغیر آگ کے عود اور عنبر کی خشبو آرہی ہوگی۔ ان میں سے ہر ایک کے سرپر سبز زبرجد اور مختلف جواہرات کاتاج ہوگا وہ تمہاری دائیں جانب چلیں گی جب تم تھوڑا سا چلوگی تو مریم بنت عمران ستر ہزار حوروں کے ساتھ تمہارا استقبال کریں گی اور تمہیں سلام کہیں گی اور ان حوروں کے ساتھ تمہاری بائیں طرف چلیں گی پھر تمہاری والدہ خدیجہ بنت خویلد تمہارا استقبال کریں گی جو عورتوں میں سے پہلے خدا اور رسول پر ایمان لائیں ان کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں پرچمِ تکبیر ہوں گے جب تم محشر کے قریب پہنچوگی تو حضرت حوا ستر ہزار حوروں کے ساتھ استقبال کریں گی اور فرعون کی بیوی آسیہ ان کے ہمراہ ہوں گی۔ وہ بھی تمہارے ساتھ چلیں گی جب تم میدانِ محشر کے درمیان پہنچوگی تو منادی عرش کے نیچے سے آواز دے گا کہ لوگواپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ فاطمہ ع بنت محمد ؐگزرجائے اور وہ عورتیں بھی جو ان کے ساتھ ہیں اس دن صرف دوافراد تیری طرف دیکھیں گے ایک تیرے والد ابراہیم اور دوسرے تیرے شوہر علی بن ابی طالب پس آدمؑ حوا کو بلائیں گے اور وہ تیری والدہ خدیجہ کے ساتھ تیرے سامنے آئیں گی اور تیرے لئے نور کا منبر بنایا جائے گا جس کے سات پائے ہوں گے ان پایوں کے درمیان فرشتوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں نور کے پرچم ہوں گے اور تیرے بائیں جانب عورتوں میں سے سب سے نزدیک حواؑ اور آسیہ ؑ ہوں گی۔
محشر میں فاطمہ * کامنبر
جب تم منبر کے اوپر جاؤگی تو جبریل خداوند متعال کی جانب سے تمہارے پاس آئے گا اور کہے گا اے فاطمہ اپنی حاجت بیان کرو پس تم کہوگی پروردگار ا حسن اور حسین میرے سامنے آجائیں پس وہ دونوں تمہارے پاس آجائیں گے۔ حسین ؑ کی گردن کی رگوں سے خون جاری ہوگا اوروہ کہے گا پرودگار ا آج میرا ان لوگوں سے حق لے لو جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے اس وقت حق تعالیٰ کے غضب کا سمندر جوش میں آئے گا اور اس کے غضب کو دیکھ کر فرشتے اور جہنم بھی غصے میں آجائیں گے ۔ جنہم کے شعلے بلند ہو کر میدان محشر میں آئیں گے اور امامِ مظلوم ؑ کے نہ صرف قاتلوں کو نگل لیں گے بلکہ انکی اولاد اور اولاد کی اولاد کو بھی نگل لیں گے۔ پس ان کی اولاد کہے گی پروردگار ا ہم تو حسین کے قتل کے وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ حق تعالیٰ جنہم کے شعلوں سے کہے گا کہ انکو نگل لو کہ ان کی علامت آنکھوں کی سرخی اور چہروں کی سیاہی ہے۔ ان کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پھینک دو۔ بیشک یہ حسین کے دوستداروں پر حسین سے جنگ کرکے انہیں شہید کرنے والے اپنے آباء و اجداد سے زیادہ سخت تھے۔ پس جبریل کہیں گے اے فاطمہ اپنی حاجت بیان کرو تم کہو گی خدایا میں اپنے شیعوں کو چاہتی ہوں ۔ حق تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جو بھی تمہارے دامن میں پناہ لے اسے جنت میں لے جاؤ۔پس اس وقت ہر کوئی آرزو کرے گا کہ وہ فاطمہ *کے دوست داروں اور شیعوں میں ہو جائے ۔ پس تم اپنے شیعوں، اپنے بیٹوں کے دوستداروں اور امیرالمؤمنین ۔کے شیعوں کیساتھ روانہ ہو جاؤگی ۔ ان کا خوف زائل ہوجائیگا اور ان کی شرم گاہیں ڈھکی ہوئی ہوں گی۔ دوسرے لوگ ڈر یں گے لیکن انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا۔دوسرے لوگ پیاسے ہوں گے لیکن یہ سیراب ہوں گے۔
بہشت میں فاطمہ *کے محل
جب تم بہشت کے دروازے پر پہنچوگی تو بارہ ہزار حوریں تمہارے استقبال کے لئے آئیں گی جنہوں نے اس سے قبل کسی کا استقبال نہ کیا ہوگا۔ وہ نور کے اونٹوں پرسوار ہوں گی کہ جن کے محمل سونے اور یاقوت کے بنے ہوں گے ۔ ان کی مہاریں مروارید کی اور ر کابیں زبرجد کی ہوں گی۔ ہرمحمل کے اندر سندس کا ایک تکیہ ہوگاجب تم بہشت میں داخل ہوگی تو سب اہل بہشت خوشی و مسرت کا اظہار کریں گے اورایک دوسرے کو بشارت دیں گے اور تیرے شیعوں کے لئے جواہرات کے برتنوں سے مزین دسترخوان لگا ہوگا اور وہ اس سے کھانا کھائیں گے جب لوگ حساب کتاب میں مشغول ہوں گے تو یہ بہشت کی نعمتوں سے بہرمند ہوں گے کیونکہ خدا اور ائمہ 222کے دوستداروں کی جگہ بہشت میں ہے آدم ؑ سے لے کر خاتم ؐتک تمام پیغمبر تمہاری زیارت کے لئے آئیں گے بہشت کے درمیان میں ابھرے ہوئے دومروارید ہیں جن میں سے ایک سفید ہے اور دوسرا زرد۔ ان میں سے ہر ایک میں ستر ہزار محل ہیں اور ہر محل میں ستر ہزار گھر ہیں۔پس وہ سفید محل ہمارے اور ہمارے شیعوں کے لئے ہیں اور زرد محل ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیم کے گھر ہیں ۔ فاطمہ ؑ نے کہا بابا جان میں آپ کی موت دیکھنا نہیں چاہتی اور نہ ہی آپ کے بعد زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: جبریل نے مجھے حق تعالیٰ کی جانب سے خبر دی ہے کہ میرے اہل بیت میں سے جو مجھے سب سے پہلے آکرملے گا وہ تم ہو پس۔ وائے ہو اس پر جو تجھ پر ظلم کرے اور عظیم کامیابی اس کے لئے ہے جو تیری مدد و حمایت کرے ۔(۲۶۴ جلا)
زہرا*کا انصاف مانگنا
(۱۰ بحار ۲۳۹) جابر بن عبد اللہ انصاری نے پیغمبر اکرم ﷺسے روایت کی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو میری دختر فاطمہ ایسی حالت میں آئے گی کہ وہ ایک بہشتی اونٹنی پر سوار ہوگی اس اونٹنی کے دونوں طرف بہشتی ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے ۔ اس کی مہار مروارید کی ، اس کے پاؤں سبز زمرد کے، اس کی دم خالص مشک کی اور اس کی آنکھیں سرخ یاقوت اور در کی ہوں گی۔ اس اونٹنی کی پشت پر نور کاگنبد نصب ہوگا جس کا اندرونی حصہ بیرونی حصے سے زیادہ آشکار ہوگا اس کا وسط پروردگار کی عفو و بخشش اور اس کا باہری حصہ خدائے رحیم کی رحمت کا حامل ہوگا۔
فاطمہ *کے سر پر نور کا تاج ہوگا جس کے ستر پائے ہوں گے ۔ اس کے پائے پرایک مرصع مروارید درخشاں ستارے کی مانند چمک رہا ہوگا فاطمہ *کے دائیں اور بائیں طرف ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جبرئیل نے حضرت فاطمہ *کی اونٹنی کی مہار تھام رکھی ہوگی اور وہ بلند آوازسے کہیں گے لوگوں اپنی آنکھیں بند کرلو تاکہ فاطمہ دختر محمد ﷺگزر جائے اس دن کوئی ایسا پیغمبر رسول صدیق اور شہید نہیں ہوگا جو اپنی آنکھیں بند نہ کرے یہاں تک کہ فاطمہ زہرا *میدان محشر سے گزر جائیں۔
زہرا *عرش کے نیچے
جب وہ پروردگار کے عرش کے نیچے پہنچ جائیں گی تو اونٹنی سے نیچے اتریں گی اور کہیں گی اے میرے پروردگار میرے اور ان کے درمیان انصاف کر،جنہوں نے مجھ پر ظلم اور میرے بچوں کو شہید کیا ہے پھر خد اکی طرف سے آواز آئے گی اے میری حبیبہ اور میرے رسول کی دختر مجھ سے مانگو تاکہ میں تمہیں عطا کروں، تم شفاعت کرو تاکہ میں قبول کروں۔ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم کہ آج کسی بھی ظالم کا ظلم میری آنکھوں سے محو نہیں ہوگا۔ اس وقت حضرت زہرا*کہیں گی: خدا یا میرے بچو ں کے شیعوں کے بچوں ، دوستوں اور دوستوں کے دوستوں کو بخش دے ۔ پھر پروردگار عالم کی طرف سے منادی ندا دے گا کہ فاطمہ کی ذریت کے شیعوں کے بچے ، دوست اور دوستوں کے دوست کہاں ہیں؟ وہ سب ایسی حالت میں کہ جب فرشتے ان کا احاطہ کئے ہوئے ہوں گے آئیں گے اس کے بعد فاطمہ *آگے بڑھیں گی تاکہ انہیں جنت میں داخل کریں۔
محشر میں زہرا * کی شفاعت کے اسباب
آنحضرت نے فرمایا میری بیٹی فاطمہ ایسی حالت میں بہشت میں داخل ہوگی کہ اس کے ہاتھوں میں خون آلود کپڑے ہوں گے وہ عرشِ خدا کے پائے کو پکڑ کر کہیں گی اے خدائے عادل و دانا میرے اور میرے بچوں کے قاتلوں کے درمیان انصاف کر۔ خدائے کعبہ کی قسم اس دن پروردگار عادل میری دختر کے لئے قضاوت کرے گا کیونکہ خدا فاطمہ ؑ کے غضب سے غضب ناک ہوگا اور اس کی رضا سے راضی ہوگا۔
تما م ہستی عالم زہست فاطمہ است
بروی کرسی قدر نشت فاطمہ است
بگو بہ عاصی دلبند او چہ غم داری
کہ امر روز قیامت بدست فاطمہ است
محشر میں زہرا *کا نورانی گنبد
امام جعفر صادق ۔نے رسول اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن فاطمہ زہرا *کے لئے نور کا گنبد تیار ہوگا۔ امام حسین ایسے عالم میں آئیں گے کہ ان کا بریدہ سر ان کے ہاتھ میں ہوگا جب فاطمہ *کی نظر حسین ۔پر پڑے گی تو وہ گریہ و زاری کریں گی جسے سن کر محشر میں موجود ہرنبی اورفرشتہ اشک بار ہوگا اس وقت خداوند متعال ایک خوبصورت مرد کو امام حسین ۔کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لئے بھیجے گا ۔ پھر خدا امام حسین ۔کے قاتلوں ،ان کی مدد کرنے والوں اور ان کے قتل میں شریک افرادکو حاضر کرے گا وہ شخص ان تمام افراد کو قتل کرے گا پھر انہیں زندہ کرے گا ۔ حضرت امیر المؤمنین ۔دوسری بار انہیں قتل کریں گے اور زندہ کریں گے۔ اس کے بعد امام حسین ۔انہیں تیسری بار قتل کریں گے اس کے بعد ہمارا اور ہمارے شیعوں کا غصہ ٹھنڈا ہوگا ۔ پھر امام جعفر صادق ۔نے فرمایا: خدا ہمارے شیعوں پر رحمت کرے کیونکہ یہ ہمارے طویل غم و اندوہ میں شریک ہیں۔
ایک اور حدیث : حضرت زہرا *اُس جاہ و جلال کے ساتھ میدان محشر میں آنے کے بعد اپنے بیٹے امام حسین ؑ کو دیکھیں گی تو ان کا خون آلودپھٹا ہوا پیراہن ہاتھ میں لیں گی اور کہیں گی خدا یایہ میرے بیٹے حسین کا پیراہن ہے تو جانتا ہے کہ اس کے ساتھ لوگوں نے کیا کیا۔ اس کے بعد پروردگار عالم کی طرف سے آواز آئے گی جو بھی تیری خوشنودی ہو میں انجام دوں گا۔ حضرت فاطمہ *کہیں گی: میرے بیٹے کے قاتلوں سے میرا انتقام لو۔ خدا حکم دے گا اور جہنم سے ایک گروہ باہر آئے گا اور امام حسین ۔کے قاتلوں کو میدان محشر سے چن چن کر ایسے اٹھائے گا جیسے مرغی دانہ چنتی ہے اور پھر وہ واپس دوزخ میں چلا جائے گا اور انہیں مختلف عذاب دے گا ۔ اس کے بعد فاطمہ اپنی اونٹنی پر بہشت میں داخل ہوں گی۔ فرشتے ان کے ساتھ ساتھ چلیں گے اور ان کے دوستدار ان کی دائیں اور بائیں طرف ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زہرا *کی ذریت کی حفاظت کی ہے۔ ابن عباس یہ آیت ان کے بارے میں پڑھتے تھے:
وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَھُمْ ذُرِیَّتُھُمْ بِاِیْمَانِ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِیَّتَھُمْ ۔
فاطمہ* کی شفاعت
علامہ مجلسی نے تفسیر فرات بن ابراہیم سے نقل کیاہے کہ امام جعفر صادق ۔نے حدیث بیان فرمائی کہ جابر نے امام محمد باقر ۔ سے عرض کیا یابن رسول اللہ مجھے اپنی جدہ فاطمہ *کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث سکھائیے جو میں آپ کے شیعوں کی محفل میں بیان کروں تو سب خوش ہوجائیں ۔ حضرت ؑ نے فرمایا میرے والد نے میرے دادا سے اور انہوں نے رسول خد ا ﷺسے حدیث نقل کی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو پیغمبروں ؑ کے لئے نور کے منبر نصب کئے جائیں گے پس میرا منبر ان کے منبروں کے اوپر ہوگا۔ اس کے بعد خدا فرمائے گا اے علی خطبہ پڑھو پس علی ۔ایسا خطبہ پڑھیں گے کہ ویسا خطبہ کسی وصی نے نہیں سنا ہوگا۔ اس کے بعد پیغمبروں ؑ اور رسولوں ؑ کے بیٹوں کے لئے نور کے منبر نصب ہوں گے۔ پس میرے دو بیٹوں کے لئے نور کے منبر نصب ہوں گے اور ان سے کہاجائے گا کہ خطبہ پڑھو وہ بھی ایسا خطبہ پڑھیں گے کہ پیغمبروں ؑ اوررسولوں کے بیٹوں میں سے کسی نے ویسا خطبہ نہیں سنا ہوگا۔
ملک�ۂ محشر کی شان
پس منادی ندا دے گا اور وہ جبرئیل ہوگا :
اَینَ فَاطِمَۃُ بِنْتِ مُحَمَّدٍ اَینَ خدِیْجَۃُ بِنْتِ خُوَیْلَدِ ۔ فاطمہ بنت محمد ؑ کہاں ہیں؟ مریم دختر عمران کہاں ہیں؟ آسیہ دختر مزاحم کہاں ہیں۔ مادر یحیٰی ، فرزند زکریا کہاں ہیں۔ پس وہ سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور خدا وندمتعال فرمائے گا۔
یَااَھْلَ الْجَمْعِ لِمَنِ الْکَرَمُ الْیَومَ فَیَقُولُ مُحَمَّدٌ وَ عَلِیٌّ وَ الْحَسَنُ وَالْحُسَینُِ ﷲِالْوَاحِدِ الْقَھَّارِ فَیَقُولُ اﷲُتَعَالیٰ یَا اَھْلَ الْجَمْعِ اِنِّی قَدْ جَعَلْتُ الْکَرَمَ لِمُحَمَّدٍ وَعَلِیٍّ وَ الْحَسَنِ وَالْحُسَینِ وَفَاطِمَۃَ طَأطَأُوا الرُّؤسَ وَغُضُّوا الْاَبْصَارَ فَاِنَّ ھٰذِہٖ فَاطِمَۃُ تُسِیْرُ اِلَی الْجَنَّۃِ۔
اے لوگو آج عزت و کرامت کس کے لئے ہے پس محمد علی فاطمہ حسن اور حسین 222کہیں گے خدائے یکتا قہار کے لئے۔ پس خداوند متعال فرمائے گا : اے لوگوں میں نے عزت و کرامت کو محمد علی حسن اور حسین کے لئے قراردیا ہے۔ اے اہل محشر اپنے سروں کو جھکالو اور اپنی آنکھیں بند کر لو ا س لئے کہ فاطمہ بہشت کی طرف جا رہی ہے۔
فاطمہ کس طرح عبور کریں گی
جبرئیل ایک بہشتی اونٹنی کے ساتھ آئیں گے جس کے دونوں پہلو سجے ہوئے ہوں گے اس کی مہار درخشندہ لؤلؤ کی ہوگی اور اس پر مرجان کا محمل ہوگا ۔ ملک�ۂ محشر اس اونٹنی پر سوار ہوں گی اور ایک لاکھ فرشتے ان کیطرف بھیجے جائیں گے جو ان کی دائیں طرف چلیں گے اور ایک لاکھ فرشتے ان کی بائیں طرف۔ پھر ایک لاکھ فرشتے آئیں گے اور انہیں اپنے پروں پر سوار کرکے بہشت کے دروازے پر اتاریں گے جب وہ دروازے پر پہنچیں گی تو محشر کی طرف نظر کریں گی پس خداوند متعال فرمائے گا اے میرے حبیب کی دختر تیرے اس التفات کا سبب کیا ہے میں نے تجھے بہشت میں لے جانے کا حکم دیا ہے
فَتَقُولُ یَارَبِّ اَحْبَبْتُ اَنْ یُعْرَفَ قَدْرِیْ فِی مِثْلِ ھٰذَالْیَومِ فَیَقُولُ اﷲِ یَابِنْتَ حَبِیْبِی اِرْجِعِی فَانْظُرِیْ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ حُبٌّ لَکِ اَوْلِاَحْدٍمںْ ذُرِّیَّتِکِ خُذِی بِیَدِہِ فاَدْخِلِیْہِ الْجَنَّۃَ۔
پس وہ کہیں گی پروردگار ا میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن میری قدر پہچانی جائے پس خدا فرمائے گا اے میرے حبیب کی دختر محشر واپس چلی جاؤ اور دیکھو جس کے د ل میں تمہاری یا تمہاری ذریت میں سے کسی کی محبت ہوگی اسے ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں لے جانا ۔
زہرا *کے دوستدار اس دن راضی و خوش ہوں گے
امام محمد باقر ۔نے فرمایا خدا کی قسم اے جابر اس دن فاطمہ زہرا *اپنے شیعوں اور ان کے دوستوں کو اس طرح چن کر الگ کرلیں گی جس طرح پرندہ برے دانوں میں سے اچھے دانے چگتا ہے۔ پس ان کے شیعہ جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو خداوند عالم ان کے دلوں میں ڈال دے گا کہ وہ توجہ کریں پس خدا فرمائے گا:
یَا احِبَّاءِی مَااِلْتِفِاءُکُمْ وَقَدْ شَفَعَتْ فِیکُمْ فَاطِمَۃُ بِنتُ حَبِیبِی۔ اے میرے دوستو تمہارے التفات کا سبب کیا ہے بے شک میں نے تمہارے بارے میں اپنے حبیب کی بیٹی فاطمہ کو شفیع قراردیا ہے۔ وہ کہیں گے پروردگارا!
مَااَحْبَبْنَا اَنْ یُعْرَفَ قَدْرُنَافِی مِثْلِ ھٰذَ الْیَومِ فَیَقُولُ اﷲُ یَااَحِبَّاءِی اِرْجِعُوا وَانْظُرُوا مَنْ اَحَبَّکُمْ لِحُبِّ فَاطِمَۃَ اُنْظُرُوا مَنْ اَطَعَمَکُمْ لِحُبِّ فَاطِمَۃَ اُنْظُرُوا مَنْ کَسَاکُمْ لِحُبِّ فَاطِمَۃَ اُنْظُرُوا منْ سَقَاکُمْ فِی حُبِّ فَاطِمَۃَ اُنْظُرُوا منْ رَدَّ عَنْکُمْ غَیْبَۃً فِی حُبِّ فَاطِمَۃَ خُذُوا بِیَدِہِ وَاَدْخِلُوہُ الْجَنَّۃَ۔
بعض لوگوں کو فاطمہ *کی شفاعت نصیب نہیں ہوگی
قَالَ اَبُو جَعفَرِ وَاﷲِ لاَ یبْقٰی فِی النَّاسِ اِلاَّ شاکٌ اَوْ کَافِرٌ اَوْ مُنَافِقٌ۔
امام محمدباقر ۔نے فرمایا خد اکی قسم لوگوں میں کوئی باقی نہیں رہے گا مگر شک کرنے والا یا کافر یا منافق۔
وہ لوگوں کے درمیان فریاد کریں گے کہ ہمارا کوئی شفیع ،حامی اور دوست نہیں ہے اور وہ کہیں گے اگر ہم دوبارہ دنیا میں جائیں گے تو مؤمنین میں سے ہوں گے۔ امام ۔نے فرمایا : ہیہات ! جو کچھ وہ مانگ رہے ہیں وہ ممنوع ہے اگر یہ دوبارہ دنیا میں جائیں تو پھر وہی برے کام انجام دیں گے اور یہ جھوٹے لوگ ہیں۔
زیارتِ حسین دوزخ سے رہائی ہے
(طریحی ۱۴۱) سلیمان اعمش نے کہا میں کوفہ گیا وہاں میرا دوست تھا جس کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ شبِ جمعہ میں اس کے پاس گیا اور کہا تم زیارت حسین ۔کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا : ھِیَ بِدْعَۃٌ وَکُلُّ بِدْعَۃٌ ضَلاَلَۃٌ وَکُلُّ ضَلاَ لَۃٍ فِی النَّارِ ۔ یہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی والا دوزخ میں ہے۔ یہ سن کر میں غصے سے اٹھا اور اپنے آپ سے کہا کہ میں سحر کے وقت آؤں گا اور اس کے سامنے حسین ۔کے کچھ فضائل بیان کروں گا اگر اس نے اپنی دشمنی اور عناد پر اصرار کیا تو میں اسے قتل کردوں گا ۔ جب میں سحر کے وقت اس کے گھر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کا نام لے کر آواز دی تو اس کی بیوی نے کہا وہ تو حسین ۔کی زیارت کے لئے گیا ہو ا ہے سلیمان نے کہا کہ میں بھی زیارتِ حسین ۔کے لئے روانہ ہوگیا جب میں امام کے روضہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہ سجدے میں گرا ہوا ہے اور بخشش طلب کر رہا ہے کافی دیر کے بعد اس نے سر اٹھایا تو مجھے اپنے قریب دیکھا میں نے کہا اے شیخ تو کل تو کہہ رہا تھا کہ زیارت حسین بدعت ہے اور آج تو خود زیارت کر رہاہے ؟
خواب میں فاطمہ *کو دیکھا
اس نے کہا اے سلیمان مجھے ملامت مت کرو کیونکہ میں اہل بیت 222کی امامت کا قائل نہیں تھا یہاں تک کہ میں نے گزشتہ رات خواب دیکھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے کہا تو نے خواب میں کیا دیکھا؟ اس نے کہا میں نے دیکھا: ایک خوبصورت اور باوقار شخص کو دیکھاجس کی عظمت و جلالت اور ہیبت وکمال کو میں لفظو ں میں بیان نہیں کرسکتا ۔لوگوں کے ایک گروہ نے انہیں چار وں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ ان کے آگے ایک سوار تھا جس کے سر پر تاج تھا۔ اس تاج کے چار رکن تھے اور ہر رکن پر ایک جواہر نصب تھا جو نور کی تین روز کی مسافت پر پھیلا ہوا تھا ۔میں نے ان کے بعض خادموں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ محمد مصطفی ﷺہیں۔ میں نے پوچھا دوسرے شخص کون ہیں؟ کہا علی مرتضی ٰ ۔وصی رسول اللہ ۔ پھر اچانک میں نے نور کا یک ناقہ دیکھا جس کے اوپر نور کا ہودج تھا جس میں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اورناقہ زمین اور آسمان کے درمیان پرواز کر رہاتھا۔
آپ بھی امان نامہ لے سکتے ہیں
میں نے پوچھا یہ ناقہ کس کا ہے؟ کہا خدیجہ کبریٰ اور فاطمہ زہرا 228کا ہے ۔ میں نے پوچھا یہ جوان کون ہے کہا کہ حسن بن علی ہیں۔ پوچھا کہاں جا رہے ہیں کہا شہید کربلا حسین ۔کی زیارت کے لئے ۔ اس کے بعد میں نے ہودج کا قصد کیا اچانک دیکھا کہ آسمان سے کاغذ گر رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کاغذ کیسے ہیں۔ جواب ملا یہ شبِ جمعہ میں حسین ۔کی زیارت کرنے والے کے لئے دوزخ سے بچنے کا امان نامہ ہے پس میں نے بھی وہ امان نامہ مانگا تو جواب ملا کہ تو کہتا ہے کہ زیارت بدعت ہے یہ تمہیں تب تک نہیں ملے گا جب تک تم حسین ۔ کی زیارت نہیں کرلیتے اور ان کے فضل وشرف پر عقیدہ نہیں رکھتے ۔ یہ خواب دیکھ کر میں بیدار ہوا اور اسی وقت اپنے آقا حسین ۔کی زیارت کے لئے چل پڑا اور خد اسے توبہ و استغفار کی ہے : فَوَاللہِ یَا سُلَیْمَانُ لاَ اُفَارِقُ قَبرَالْحُسَیْنِ حَتّٰی تُفَارِقَ رُوحِی جَسَدیِ۔ خدا کی قسم اے سلیمان میں قبر حسین ۔ سے الگ نہیں ہوں گا یہاں تک کہ میری روح میرے بدن سے نکل جائے۔ پس اے علی ۔ کے دوستدارو شبِ جمعہ کو قبر حسین ۔کی زیارت کو ترک نہ کیجئے تاکہ آپ کو بھی امان نامہ مل جائے ۔ امام جعفر صادق ۔ نے فرمایا : فاطمہ زہرا *کربلامیں حاضر ہوتی ہیں اور حسین کے زوار کے لئے بخشش طلب کرتی ہیں۔
انسیہ حوراء کے مناقب
مناقب منقبت کی جمع ہے اور یہ اعلی وا رفع ان چیزوں کے معنی میں ہے کہ جن پر لوگ ناز کرتے ہیں اور ان سے شرافت پاتے ہیں ۔ کیونکہ نقب مادہ کے بہت سے معانی ہیں جیسے پھر نا ، بحث کرنا تلاش و جستجو کرنا،گواہ ہونا سوراخ کرنا، صدارت کا حامل ہونا جیسے نقیب اور نقباء بنی اسرائیل یہاں پردوسروں پر افضلیت اور شرافت رکھنے کے معنی میں ہے ۔ جب میں نے کتاب فضائل الزّہرا *مکمل کرلی تو میرے پاس علامہ امینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب فاطمہ * آئی میں نے دیکھا کہ انہوں نے فاطمہ زہرا * کے چالیس مناقب ذکر کئے ہیں۔ علامہ امینی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کہ جنہوں نے کتاب الغدیر تحریر کی اور ان کا حق ادا نہیں ہوا ہے ، ان چالیس مناقب کو دیگر گیارہ مناقب کے ساتھ روز و شب کی نماز وں کی تعداد کے مطابق اکاون مناقب کی صورت میں یہاں ذکر کر رہا ہوں۔
پہلی منقبت : زہرا *کی خلقت آدم ؑ سے پہلے ہوئی اپنے والد شوہر اور بیٹوں کی مانند وہ انوار تھے جو خدا وند متعال کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے : خِلْقَتُھَا قَبْلَ النَّاسِ شَأنُ اَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا وَھُمْ اَنْوَارٌ یُسَبِّحُونَ اﷲَ وَیُقَدِّسُونَہُ وَیُھَلِّلُونَ وَیُکَبِّرُونَہُ۔ پہلے باب میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
دوسری منقبت: خَلْقُھَا مںْ نُورِ عَظَمَۃِ اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ وَھِیَ ثُلْثُ النُّورِ الْمَقْسُومِ بَیْنَھَا وَبَینَ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وھُوَ نُورٌ مُخْزُنٌ مَکْنُونٌ فِی عِلْمِ اﷲِ ۔
ان کی خلقت خداوند متعال کی عظمت کے نور سے ہے اور اپنے اور اپنے والد اور شوہر کے درمیان تقسیم ہونے والے نور کا تیسرا حصہ ہیں اور یہ نور خد اکے علم کے خزانے میں چھپا ہواہے۔
تیسری منقبت: عِلَّتُھَا فِی خَلْقِہِ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَالْعَرْشِ وَالْکُرْسِیِّ وَالْمَلآءِکَۃِ وَالاِنْسِ وَالْجِنِّ شَأنُ اَبِیْھَا وَبَعَلِھَا وَبَنِیھَا۔ان کا آسمان زمین جنت دوزخ عرش کرسی فرشتوں اور جن و انس کی خلقت کی وجہ ہونا اپنے والد شوہر اور بیٹوں کی شان میں شریک ہونا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو آسمان و زمین اور جنت ودوزخ کی مخلوق اور دوسری کوئی بھی مخلوق نہ ہوتی نہ ہی اسلام اور توحید کی کوئی خبرہوتی۔ ان تینوں مناقب کی تفصیل پہلے باب میں بیان کی گئی ہے۔
چوتھی منقبت: تَسمِیَتُھَا مِنْ عِنْدِ رَبِّ الْعِزَّۃِ شَأنُ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا۔ خداوند تبارک تعالیٰ کے نزدیک ان کانام رکھنا بھی ان کے والد ،شوہراوربیٹوں کی شان ہے اور یہ دو مناقب ہیں ۔ نام رکھنا اور نام خدا سے جد اہونا اور یہ امر دلالت کرتا ہے کہ پنجتن پاک کا خود سے کوئی اختیار نہیں ہے اور ان کے تمام امور حتی ان کے ناموں کا انتخاب بھی خداوند سے مربوط ہے اور اس نے کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی ۔ رسول اکرم ﷺکو بھی اجازت نہیں تھی کہ وہ خود سے فاطمہ اور حسنین 222 کے نام رکھیں۔اور اسی طرح مولود کعبہ علی بن ابی طالب کا نام رکھنے کی پیغمبر ﷺاور ابو طالب کو اجازت نہیں تھی اور درحقیقت یہ دو مناقب ہیں ایک خدا کے نام سے مشتق ہونا اور دوسرا حق تعالیٰ نے نام رکھا۔
پانچویں منقبت: اِشتِقَاقُ اِسْمِھاَ مِنْ اَسْمَاءِ اﷲِ تَبَارَکَ وَ تَعالٰی شَانُ اَبِیْھَا وَ بَعْلِھَا وَبَنِیْھَا۔ ان کا نام خدا وند تبارک و تعالیٰ کے ناموں سے مشتق ہونا، اس میں وہ اپنے والد شوہر اور بیٹوں کی شا ن میں شریک ہیں کہ کسی کو بھی یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے اور اس منقبت کی تفصیل دوسرے باب میں بیان کی گئی ہے۔
چھٹی منقبت: تَوَسُّلُ الْاَنْبِیَاءِ بِھَا وَبِاِسْمِھَا شَانُ اَبِیْھَا وَ بَعْلِھَا وَبَنِیھَا۔ ابنیاء ۔کا ان کی ذات اور نام سے توسل کرنا اس شان میں وہ اپنے والد شوہر اور بیٹو ں کے ساتھ شریک ہیں ۔ اور ان سے تمسک کرنا انبیاء ۔اوصیاء اور دیگر افراد کی مشکلات سے نجات کا وسیلہ ہے۔ ان کے بارے میں آیا ہے : مَنْ آمَنَ بِھَا فَقَدْ نَجیٰ وَمَنْ لَمْ یُؤمِنْ بِھَا فَقَدْ ھَلَکَ۔ جو ان پر ایمان لایا وہ نجات پاگیا اور جو ایمان نہیں لایا وہ ہلاک ہوگیا۔
ساتویں منقبت: کِتَابۃُ اِسْمِھَا عَلیٰ سَاقِ الْعَرْشِ وَاَبْوَابِ الْجَنَّۃِ لِدَۃُ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا۔ اپنے والد شوہر اور بیٹوں کے ساتھ ان کے نام کا عرش کے پائے اور جنت کے دروازوں پر لکھا جانا انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ کسی بھی پیغمبر ؑ فرشتے وصی اور مخلص بندے کو یہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔ پہلے باب میں اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔
آٹھویں منقبت: فاطمہ ان کلمات میں سے ہے جو حضرت آدم ؑ نے اپنے پرودرگار سے سیکھے اور حضرت ابراہم ؑ کا بھی انہی کلمات سے امتحان لیا گیا یعنی محمد علی فاطمہ حسن اور حسین 222جیسا کہ سولھویں باب میں گزر چکاہے۔
نویں منقبت: کُونُھَا شَبَحاً عَنْ یُمْنَۃِ الْعَرْشِ وَصُورَۃُ فِی الْجَنَّۃِ رَدِفَ اَشْبَاحِ اَبِیھَا وَبَعْلِھَا وَ بَنِیْھَا وَصُورھُمْ۔ زہرا * کا عکس عرشِ الہی کے دائیں جانب اور ان کی تصویربہشت میں اپنے والد ،شوہر اور بیٹوں کی تصویروں کے ساتھ ہے۔ خداوند عالم نے نہ صرف پنجتن پاک کے مقدس ناموں کو عالم بالا کی زینت قرار دیا ہے بلکہ ان کی نورانی تصویروں سے اپنے عظیم عرش اور بہشت کو مزین فرمایا ہے اور عرش بریں کی دائیں جانب کو زینت بخشی ہے۔ لہذا آدم ۔جب عرش کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کو پنجتن کی تصاویر اور عکس نظر آتے ہیں اور جب وہ بہشت کی طر ف رخ کرتے ہیں تو وہ ان کی خوبصورت تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ جدھر دیکھتے ہیں انہیں ان کے جلال و جمال کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
دسویں منقبت: زہرا *پروردگارکا ہدیہ اور تحفہ ہیں اپنے حبیب خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺکے لئے ،جیسا کہ چوتھے باب میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
گیارہویں منقبت: خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺجیسی ہستی کو ان کا باپ اور خدیجۃ الکبریٰ *جیسی خاتون کوان کی ماں قرار دیا۔ کائنات نے کسی کا ایساباپ دیکھا ہے اور نہ ہی دیکھے گا۔
بارہویں منقبت: کَانَتْ یُحَدِّثُ اُمَّھَا فِی بَطْنِھَا وَتَعبرھَا۔ رحمِ مادر میں ماں سے باتیں کرنا، اُن کی مونس و ہمدم ہونا اور انہیں بشارت دینا ان سب کی تفصیل چوتھے بابمیں بیان کی گئی ہے ۔
تیرہویں منقبت: رسول خدا ﷺکو اس بات کی بشار ت ان کی پاک نسل ان کی دختر سے چلے گی۔
چودہویں منقبت: بہشتی عورتیں بہشتی حوروں کے ساتھ ان کے ہاں ولادت کے وقت ان کی مدد کے لئے آئیں اس فضیلت میں وہ ممتاز ہیں۔
پندرہویں منقبت: وِلاَدَتُھَا طَاہِرَۃٌ وَ مُطَھَّرَۃٌ زَکِیَّۃٌ مَیْمُونَۃٌ نَقِیَّۃٌ کَمَا یَعْتَقِدُ فِی الْاَءِمَّۃِ الْاَطْھَارِ۔ ان کی ولادت ائمہ اطہار 222کی مانند پاک و پاکیزہ تھی۔
سولہویں منقبت: دُخُولُ نُورِھَا حِینَ وُلِدَتْ بُیُوتَاتِ مَکَّۃَ کَوِلاَ دَۃِ اَبِیْھَا۔ زہرا*کی ولادت کے وقت ان کا نور اپنے والد کی ولادت کی مانند پورے مکہ کے گھر وں میں اور مشرق و مغرب میں پھیل گیا۔ گویا اس نور افشانی سے خداوند عالم نے پوری دنیا کو بتادیا کہ دنیا کی ہدایت ورہنمائی کے لئے ایک ہستی تشریف لائی ہے۔
سترہویں منقبت: ولادت کے وقت فاطمہ زہرا * کا پروردگار ،خاتم الانبیا ء ﷺاور ائمہ معصومین222کو پہچاننا اور ان کے ناموں سے انہیں سلام کرنا: عِرْفَانُھَا رُسُلَ رَبِّھَا اِلَیْھَا عِندَ وَلادَتِھَا وَالتَّسْلِیْمِ عَلَیْھَا بِاَسْماءِھَا۔ یہ بالا ترین معجزہ ہے اور بہشتی عورتوں کو مخاطب کیا : یَاسَارَۃُ اَلسَّلاَمُ عَلَیکِ، یَامَرْیَمُ اَلسَّلاَمُ عَلَیکِ۔
اٹھارہویں منقبت: تَکَلُّمُھَا الشَّھَادَتَیْنَِ حِیْنَ الْوِلاَدَۃِ وَبِذِکْرِالْمُؤمِنِینَ وَاَوْلَادہِِ الْاَسْبَاطِ کَالْاَءِمَّۃِ۔امیر المؤمنین اور ائمہ اطہار 222کی مانند ولادت کے وقت ان کاشہادتین کہنا۔
انیسویں منقبت: فاطمہ زہرا*کا ائمہ اطہار 222کی مانند ہر روز ایک ماہ کے برابر اور ہر ماہ ایک سال کے برابر رشد ونمو کرنا۔
بیسوہویں منقبت: تُبَشِّرُ اَھْلُ السَّمَاءِ بَعْضُھُمْ بَعضًا کَمَا فِی رَسُولِ اﷲِ وَالْاِءِمَّۃِ۔ اہل آسمان کا ان کی ولادت کے وقت ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جیسا کہ رسول اللہ ﷺا ور ائمہ 222کی ولادت پر انہوں نے مبارکباد دی تھی۔
اکیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَا مَعَ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا فِی الْعِلمِ بِمَا کَانَ اَوْ یَکُونُ وَ مَالَمْ یَکُنْ اِلیٰ یَومِ الْقِیَامَۃِ۔گزشہ اور آئندہ قیامت تک کے واقعات کا علم رکھنے میں اپنے والد شوہر اور بیٹوں کے ساتھ شریک ہونا۔
بائیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَافِی الْعِصْمَۃِ وَدُخُولُھَا فِی آیَۃِ التَّطْھِیْرِ ۔عصمت میں ان کا شریک ہونا اور آیت تطہیر میں داخل ہونا۔
تئیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَافِی الْاِھْتِدَاءِ وَالْاِقْتِداءِ وَالتَّمَسُّکِ بِھَارَدِفِ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا۔ تمام افراد چاہے وہ لوگ جو خاتم الانیاء ؐپر ایمان لائے ہیں اور ان کی بیعت کی ہے یا وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت ﷺکی اطاعت میں سرتسلیم خم کیا ہے اور ان کے فرمان کے مطابق علی ۔اور انؑ کی اولادؑ کی امامت کو قبول کیا ہے، ناگزیر ہیں کہ حضرت فاطمہ *کو ہدایت و اقتداء کے مرجع کے طور پر قبول کریں اور مشکلات میں (انؑ کے والد،شوہر اور بیٹوں 222کی مانند) ان کی پناہ میں آئیں اور ان سے تمسک و توسل کریں۔
چوبیسویں منقبت: فِی وُجُوبِ حُبِّھَاکَحُبِّ بَعِلِھَا وَاَبِیْھَا وَبَنِیھَا اَجْرِ الرِّسَالَۃِ الْخَاتِمَۃِ۔زہرا*کی مودت ان کے شوہر ؑ اور بیٹوں ؑ کی مودت کی مانند (کہ جو خاتم الانیاء ؐ کی رسالت کا اجر ہے)تمام لوگوں پر واجب ہے رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں: خد انے مجھے ان چاروں سے دوستی اور محبت کاحکم دیا ہے ۔ علی فاطمہ حسن اور حسین 222سے دوستی اور محبت اس لئے واجب ہے کہ ان چاروں میں سے ایک رسول ﷺکے داماد دوسری بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ بلکہ رسول خدا ﷺکو بھی دوسرے تمام لوگوں کی مانند فاطمہ *کی ولایت کا معتقد اور معترف ہونا چاہئے۔ اور اس کی گواہی دینی چاہئے۔
پچیسویں منقبت: کُونُھَا مِنَ الْاَمَانَۃِ الْمَعْرُفَۃِ عَلَی السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ۔ وہ امانت جو خدا وند متعال کی جانب سے آسمانوں زمین اور پہاڑوں کے سامنے رکھی گئی لیکن وہ اس امانت کا بوجھ نہ اٹھاسکے اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا لیکن بشر نے اسے قبول کرلیا یہ پنجتن پاک کی ولایت تھی اور فاطمہ زہرا *اس امانت کا ایک جزء ہیں۔ سولہویں باب میں اس کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اس امانت کی تفصیل سرمایہ ۂ سعادت و نجات صفحہ ۱۴۰ تا ۱۴۶بیان کی گئی ہے۔
چھبیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَامَع رَسُولِ اﷲِ فِی الرُّکْنِیَّۃِ لَعَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ۔ فاطمہ زہرا * مقامِ رکنیت میں پیغمبر اکرم ﷺاور امیر المؤمنین ۔کے ساتھ شریک تھیں۔ اس کی تفصیل ساتویں باب میں بیانکی گئی ہے۔
ستائیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَا فِی تَطْھِیْرِ مَسْجِدِ رَسُولِ ا ﷲِ لَھَا نَظِیرَِّ بَعِلِھَا وَاَبِیْھَا وَبَنِیْھَا انہیں اپنے والد ؐشوہرؑ اور بیٹوں ؑ کی مانند مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت تھی اور وہ ہرزمانے میں اور ہر حال میں پاک تھیں جوعصمت و طہارت اور ولایت کا ثمرہ ہے۔
اٹھائیسویں منقبت: کُونُھَا مُحَدِّثَۃٌ کالْاَءِمَّۃِ اَمِیرِ الْمُؤمِنِینَ وَاَوْلاَدِہِ ۔ وہ ائمہ ؑ کی مانند محدثہ تھیں ۔ فرشتے ان سے باتیں کرتے تھے اس کے باوجود کہ وہ منصبِ امامت پر فائز نہ تھیں۔
انتیسویں منقبت: اِشتِرَاکُھَا مَع اَمِیْرِ الْمُؤمِنِینَ وَاَوْلاَدِہِ فِی التَبْشِیرِ بِشِیْعَتِھَا وَمحِبِّیْھَا۔ جس طرح رسول اکرم ﷺنے علی اور گیارہ ائمہ 222کے شیعوں اور دوستداروں کو فلاح و کامیابی کی بشارت دی ہے اسی طرح بہت سے مقامات پر فاطمہ *کے محبوں کو بھی عذاب سے نجات و رہائی کی بشارت دی ہے۔
تیسویں منقبت: اِطِّلاعُ اللّٰہِ عَلی الَارض وَ اختیارُ ھَا عَلَی النِّسَاءِ الْعَالِمِیْنَ کاِطْلاَعِہِ عَلَی الْاَرْضِ وَاخْتِیَارِاَبِیْھَا وَ بَعِلِھَاوَبَنِیْھَاوَوُلْدِھَاالْاَءِمَّۃِ۔ پیغمبر اکرم ﷺواضح طور پر فرماتے ہیں کہ خداوند تبارک وتعالیٰ نے ایک بار زمین پر نظر ڈالی تو اولین اور آخرین میں سے مجھے چن لیا۔ دوسری دفعہ علی کو اور تیسری نظر میں ان کی معصوم اولاد کو اور چوتھی بار نظر کی تو تمام عالمین کی عورتوں میں سے فاطمہ زہرا کا انتخاب کیا۔ پس جس طر ح محمد علی حسن اور حسین 222خدا کی برگزیدہ ہستیاں ہیں اسی طرح فاطمہ زہرا * بھی خدا کی برگزیدہ ہستی ہیں۔
اکتیسویں منقبت: فِی کُفُوِیَّتِھَا مَعَ عَلی فِی الْمَلکَاتِ وَ والنّفَانیَاتِ وَاِ نْ لَمْ یُخْلَقْ عَلِیّ لَمْ یَکنْ لَھَاکُفوٌ مِنْ آدَمِ وِمِنْ دُونَہَ۔ معنوی اقدار اور صفات میں فاطمہ *کا علی ۔کاکفو اور ہمسر ہونا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : اگر فاطمہ پیدا نہ ہوتیں تو علی کا کوئی ہمسر نہ ہوتا اسی طرح اگر علی پیدا نہ ہوتے تو فاطمہ کا نہ صرف موجودہ زمانے میں بلکہ آدمؑ اور اولاد آدم ؑ میں سے کوئی بھی زہرا *کا ہمسر نہیں ہے اور صرف علی ہی زہرا کے کفو اور ہمسر ہیں۔ (اور یہ دونوں ہستیاں مقامات عالیہ اور ملکاتِ فاضلہ میں برابر ہیں اور یہی حدیث اپنے والدؐ کے علاوہ تمام انبیاء 222پر فاطمہ زہرا*کی فضیلت و برتری کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے ۔
بتیسویں منقبت: ان کا عقد آسمان پرہواپوری کائنات میں فاطمہ زہرا * کے سوا کسی اور کاعقد آسمان پر نہیں ہوا ۔
تینتیسیویں منقبت: دُخُولُھَا فِی فَضْلِ سُورَۃِ ھَلْ اَتٰی مَعََ بَعِلِھَاوَبَنِیْھَا۔ فاطمہ زہرا*علی ،حسن ؑ اور حسین 222کے ساتھ سورہ ہل اتیٰ کی فضیلت میں شریک ہیں۔
چونتیسویں منقبت: دُخُولُھَا فِی آیَۃِ الْمُبَارِکَۃِ بَیْنَ اَبْنَاءَنَا وَ اَنْفُسَنَا فاطمہ زہرا* ان افرادمیں شامل ہیں جن کی شان میں آیتِ مباہلہ نازل ہوئی یعنی انفسنا محمد اور علی، ابنائنا حسن او ر حسین 222 اور نسائنافاطمہ *ہیں۔
پینتیسویں منقبت: فِی اَفْضَلِیَّتِھَا عَلَی الْمَلاَءِکَۃِ وَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ کَاَبِیْھَا وَبَعْلِھَا وَبَنِیْھَا۔ وہ اپنے والدؐ شوہر ؑ اوربیٹوں ؑ کی مانند فرشتوں اور جن وانس پر فضیلت اور افضلیت رکھتی ہیں۔
چھتیسویں منقبت: یعرف اﷲُ قَدْرَھَا کَمَا یعرفُ قَدْرَ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَا۔ خدا نے ان کی قدر سے آگا ہ کیا ہے جیسا کہ ان کے والد شوہر اور بیٹوں کی قدرکو قیامت کے دن بیان کیا ہے۔
سینتیسویں منقبت: سنی اورشیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام میں جوا حکام پیغمبر اکرم ﷺسے محبت و دشمنی ، جنگ و دشنام اور انہیں آزار و اذیت دینے کے بارے میں ہیں وہ فاطمہ *کے باے میں بھی جاری ہیں۔
اڑتیسویں منقبت: کفر مَنْ اَبْغَضَ فَاطمَۃَ کَاَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَا علماء نے فتوی دیا ہے کہ جو بھی پیغمبر اکرم ﷺ یا علی ۔سے دشمنی رکھتا ہے وہ کافر ہے اس حکم میں فاطمہ * اپنے والد ؐ اور شوہر علی کے ساتھ شریک ہیں یہ کیسے ہوسکتاہے جوہستی مقامِ ولایت کی مالک ہو اس سے دشمنی کفر نہ ہو۔
انتالیسویں منقبت: اِشْتِرَاکُھَا معَ کَاَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَا فِی دَرَجَۃِ الوَسِیلَۃِ فِی الْجَنَّۃِ۔ جنت میں داخل ہونے کے وسیلے کے درجے میں وہ اپنے والد اور شوہر کے ساتھ شریک ہیں ۔ پنجتن پاک کے سوا انبیاء اولیاء مرسلین صالحین اور مقرب فرشتوں میں سے کسی کو یہ اعلیٰ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔
چالیسویں منقبت: رُکُوبُھَا کَاَبِیْھَِا یَومَ الْقِیَامَۃِ اَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَا۔ ا پنے والد شوہر اور بیٹوں کی مانند قیامت کے دن سواری پر سوار ہونا۔
اکتالیسویں منقبت: رسول اکرم ﷺنے فرمایا (اے فاطمہ ) قیامت کے دن میں جبرئیل کا دامن تھاموں گا۔ میری بیٹی میرا دامن اور علی فاطمہ کا دامن اور ان کے گیارہ فرزند علی ؑ کا دامن تھامیں گے۔
بیالیسویں منقبت: کونُھَا شَفِیعَۃُ کُبْریٰ یَومَ الْقِیَامَۃِ لِشِیْعَتِھَا وَمُحِبِّیْھَا کاَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَا۔
تینتالیسویں منقبت: فاطمہ زہرا *کی محبت محشر کے سو مقامات پر فائدہ دے گی اور یہ منقبت صرف انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
چوالیسویں منقبت: اشْتِرَاکُھَا مَعَ اَبِیْھَا بَعِلِھَاوَبَنِیْھَا یَومَ الْقِیَامۃِ فِی قُبَّۃٍ تَحْتَ الْعَرَشِ ان کی ایک او رمنقبت یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے باباؐ شوہر ؑ اور بیٹوں ؑ کے ساتھ عرش کے نیچے قبۂ لاہوتی میں ہوں گی کہ جہاں پنجتن پاک اور ان کے معصوم بیٹوں کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا۔
پینتالیسویں منقبت: زہرا *کی ایک ممتاز ترین منقبت کہ جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے، ان کااُمُّ الائمہ ہونا ہے وہ گیارہ معصوم اماموں کی والدہ گرامی ہیں۔ جوزمین کے ستاروں کی مانند ہیں اور ان کے مزار لوگوں کی شفا اور درمان کا مقام ہیں۔
چھیالیسویں منقبت: زہرا *کی سنتیں ہیں جیسے تسبیحِ فاطمہ ؑ اور ان کی دعائیں۔ انمیں سے ہر ایک کی تشریح ہے ۔ بتیسویں اور تینتیسویں باب میں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔
سینتالیسویں منقبت: حضرت فاطمہ زہرا * کی زیارت ہے چاہے دور سے ہو یا نزدیک سے۔ اس کا ثواب ان کے والد کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے ۔ ۴۸ فرشتے زہرا* کے موکل ہیں قیامت میں بھی اور ان کی رحلت کے وقت بھی۔ وہ ان کی اور ان کے والد اور شوہر اوربیٹوں کی قبروں پر صلوات بھیجتے ہیں۔ انتالیسویں باب میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
اڑتالیسویں منقبت: ان کی زیارت کرنا اور ان پر صلوات بھیجنا خود رسول خدا ﷺکی زیارت کرنا اور ان پر صلوات بھیجنا ہے۔ آنحضرت 222 نے فرمایا: مَنْ صَلّٰی عَلَیکِ یَافَاطِمَۃُ غَفَرَاﷲُلَہُ وَاُلْحِقْہُ حَیْثُ کُنْتِ مِنَ الْجَنَّۃِ۔ روایت میں یہ بھی آیا ہے: وَمَنْ صَلّٰی عَلَیْھَا فَقَدْ صَلّٰٰی عَلیٰ اَبِیْھَا۔ جس نے ان پر درود بھیجا بے شک اس نے ان کے والد پر درود بھیجا۔ مصباح الانوار میں امیر المؤمنین ۔نے خود فاطمہ زہرا *سے روایت کی ہے کہ میرے والد رسول خدا ﷺنے مجھ سے فرمایا: جو شخص تجھ پر صلوات بھیجے خدا اس کے گناہ بخش دے گا اور میں جنت میں جہاں بھی ہوں گی وہ شخص مجھ سے آملے گا ۔
(بین ۳۶) زہرا * کے بغیر صلوات کا کوئی فائدہ نہیں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لاَ تُصَلُّوا عَلَیَّ صَلٰوۃً بَتَراءَ اَنْ تُصَلُّوا وَتَسْکُتُوا عَنْ آلِی۔ مجھ پر ناقص درود و صلوات مت بھیجو ایسا نہ کرو کہ مجھ پر تو درود بھیجو اور میری آل کے بارے میں چپ رہو ۔(فاطمہ ۱۰۴)
انچاسویں منقبت: فِی الْاَمْرِبِالتَّوسُّلِ اِلَیْھَا کَاَبِیْھَا وَبَعْلِھَاوَبَنِیْھَافِی الْحَوَاءِجِ وَعِنْدَ کُلِّ مَسْءَلَۃٍوَ الْاَمْرُ یُحِبّیْھَا وَ الصَّلٰواۃُ عَلَیْھَا وَزَِیَارَتُھَا۔ جس طرح پیغمبر اکرم ﷺامیر المؤمنین ۔اور ان کے معصوم بیٹے بے کسوں اور لاچاروں کی پناہ گاہ ہیں کہ لوگوں کو ان سے توسل کرنا چاہئے، صدیق�ۂ طاہرہ بھی توسل کرنیوالوں کی پناہ گاہ ہیں بلکہ غیاث مستغیثین ہیں۔ اس وقت سے ہی کہ جب آدم ۔نے زہرا *کی صورت دیکھی اور حکم ہوا کہ پنجتن پاک کے ناموں کو یاد کرو۔ حضرت فاطمہ *بے کسوں اور لاچاروں کی پناہ گاہ تھیں اور ہیں پس مشکل اور گرفتاری میں ۱۳۵ بار کہو یا مولاتی یا فاطمۃُ اَغِیثِینِی۔
پچاسویں منقبت: اَوَّلُ شَخْصٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ فَاطِمَۃُ بِنتُ مُحَمَّدْ ۔ حافظ سیوطی نے جمع الجوامع میں ذکر کیا ہے کہ رسول خد انے فرمایا: بہشت میں سب سے پہلے جو داخل ہوگا وہ فاطمہ بنت محمد ہے ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ: اِنَّ اَوَّلَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ اَنَا وَعَلِیٌ وَفَاطِمَۃُ وَالْحَسَنُ وَالْحَسَیْنُ۔ سب سے پہلے جو بہشت میں داخل ہوگا وہ میں ہوں اور علی فاطمہ حسن اور حسین ہیں بے شک پہلی خاتوں فاطمہ زہرا ہیں شاید احترام کی وجہ سے ان کو آگے رکھا ہے۔
زہرا *کی شان میں قصیدہ
در شب معراج ختم انبیاء 222
سیر بنمودہ بہ جنات عُلیٰ
دید بانوئی ہمہ غرور و وقار
بر سریر مکنت و عزت و قرار
در دوگشش گوشوارہ بس گران
ہر یکی بہ زین جہان و آن جہان
یک یدی از قدر ت حق سبز فام
واندگر یا قوت، زمرد در نظام
بر سر او تاج تکریم و کمال
آفرینش رانزیبد آن جلال
از شعاع نور آن تاج عظیم
وزصیاء آن دو آیز نظیم
در حقیقت گشتہ روشن ہر چہ ہست
ہشت خالد عالم بالا و پست
چون خدا ریزد دو دریائی زنور
زاند و آید لؤلؤ دمرجان ظہور
گفت آن پیغمبر عالی مقام
وصف آن دو گوہر و تاج کرام
دختر زہراست ناموس خدا
کائنات از بہر ما گشتہ بپا
تاج باشد ہمسر دختم علی
کز شعا عش ہر دو علام منجلی
گوہرسبز است فرزندم حسن
کز خدا باشد ولی ممتحن
اندگر باشد برایم نورعین
میوۂ قلب مرا آید حسین
از برای خاطر این پنجتن
آفریدہ ایزد این چرخ کہن
حب ایشان گشتہ ایمان برہمہ
بغض آنان کفر شد بی واہمہ
چون (مقدم ) گشہ مدا ح رسولؐ
روز و شب خواھد شفاعت از بتولؑ
ولادت سیدہ *
بردہ دلم را زِبرم دلبری
کز غم او گشتہ ام از غم بری
دیدہ ایاَّم ندارد نچان
مہر چنین در فلک مشتری
کس نشنیداست کہ جنسِبشر
بہ زِمَلک باشد و حورِ پری
شمس و قمر دادہ بہ رخسار او
خطِ کنیزی رقم مشتری
خدا گواہست کہ دارد بسی
دلبر من بر ہمہ کس برتری
در برم آمد شبی آن دلنواز
باقدچون سرو رخ انوری
گفت زجا خیز کہ امشب گرفت
عالم ایجاد زنور زیوری
خیز و بدہ مژدہ کہ بر روی خلق
باز شد از روض�ۂ رضوان دری
خیز و بدہ مژدہ کہ شد آشکار
از پس این پردہ مہ دیگری
داد خدا وند بختم رسلؐ
از کرم خویش یکی دختری
گوہر دریای نبوت کہ کرد
در صدف عصمت حق گوہری
داد خدا بر ہمۂ انبیاء
فاطمہ را رتبۂ والا تری
گر پدرش خاتم و او زن نبود
بود یقین لایق پیغمبری
دختری ہگز نشیندہ کسی
بر پدر خویش کند مادری
خواست خدا تاکہ تجلی کند
در بشری باصفت داوری
چون زنی اندر ہمہ عالم نبود
بہر علیؑ تاکندش شوہر ی
روح الامین باہمہ شان ومقام
نسبت خود دادہ باو چاکری
داد ظہور این گہر تابناک
تا کند او را بجہان مظہری
کرد خد اخلقت این نور پاک
تاکہ نماید بعلی ہمسری
نیست ترا اراہ بدرگاہ او
تا نکنی چاکری ای جوہری
گوہر عصمت
زِ سرا پردۂ عصمت گہری پیدا شد
کہ جہان روشن از آن گو ہر بی ہمتا شد
آفتابی ز شبستان رسالت بدمید
کہ چو خوشید جہان گیر و جہان آرا شد
در رحمت بگشودند وہ سرا پای وجود
روشن ازنور رخ فاطمۂ زہراؑ شد
کلشن عفت از او رونق و آرایش یافت
پائ عصمت از او محکم و پابر جا شد
زہرۂ برج حیا شمسۂ ایوان عفاف
کہ زانوار رخش چشم ہان بینا شد
مژدہ کاندر شب میلاد بتو عذراؑ
بر رخ خلق در لطف و عنایت وا شد
پردہ چون حق زجمال ملکوتیش گرفت
مریم پردہ نشین بررخ او شیدا شید
در قیامت نکشد منت طوبی و بہشت
ہر کہ در سایۂ آن سرو سہی بالا شد
طبع خاموش (رسا) باز چو مرغان چمن
از پی تنہیت مقدم گل گویا شد
مناقب سیدۃ النساء ؑ
وہ چہ بستانی کہ پوشد دیدہ از حور بہشت
ہر کہ در گلزار (زہراؑ ) مأمن و ماویٰ کند
بوئی از گلھای آن بستان اگر آرد نسیم
زندہ ہر دم مردگان را چوندم عیسیٰ ؑ کند
برفلک بنگر کہ ہمچون روشنائی آسمان
زہرہ کسب روشنی از زہرۂ زہرا ؑ کند
فاطمہؑ دخت محمد ؐ آنکہ نور عا رضش
خیرہ چشم اختران را کنید مینا کند
آفتاب برج عسمت گوہر درض عفاف
آنکہ توصیف کمالش ایزد یکتا کند
چون بگفتار آید آن سر چشمۂ فضل و کمال
چرخ گیر خامہ تا گفتار او انشا کند
مریم پاکیزہ دامن بین کہ تحصیل عفاف
در حریم عصمت صدیقہ کبری کند
گر غبار دامنش بر دل نشیند ذرہّ ئی
چنش نابیای دل را رشن و بینا کند
بر سر گردون اعلا پا نہد از برتری
ہمسری چون باعلیؑ عالی اعلا کند
سایۂ آن سرو رحمت گرفتد بر سر مرا
کی دگر دل آرزو سایۂ طوسی کند
روبخر با جان و دل مہر ش کہ باید سودھا
ہر کہ باز زہراء ؑ و فرزدندان او سودا کند
ایکہ میخواھی بضوئی بوی گل را از گلاب
عطر باغ مصطفی ؐ جو عقدہ از دل و اکند
چون ھوای آن گل افتد بر سرم دل جستجو
بوی آن گل از حریم زادۂ موسیؑ ؑ کند
زادۂ موسی بن جعفر ؑ آنکہ خاکش از صفا
ناز بر باغ بہشت و وادی سینا کند
زہرا * کے فراق میں مرثیہ
از ہجر تو خون شد جگر م فاطمہ جانم
بر خیز و ببین چشم ترم فاطمہ جانم
اانحالت جانسوز تو بین در و دیوار
ہرگز نرود از نظرم فاطمہ جانم
از ضربت قندفذ کہ تو خواندی پدر ترا
در سوز و گداز و خطرم فاطمہ جانم
از نالۂ پرشور تو زہرا بشب و روز
گویا کہ شکستہ کمرم فاطمہ جانم
زان سیلی بیداد کہ بر رویتو خوردہ
شرمندہ ام ای خوش سیرم فاطمہ جانم
زان پہلو ی بشکستہ و آن چہرہ نیلی
ہر لحظہ بحال دگرم فاطمہ جانم
از آن ورم بازو و آن جسم نحیفت
آتش زدہ پاتا بسرم فاطمہ جانم
از منظرۂ غسلو یتیمان و شب تار
عیشی ز زمانہ نہ برم فاطمہ جانم
نا کام شدی از ستم قوم ستمکار
در ماتم تو محتضرم فاطمہ جانم
جز درد و غم و رنج و مصیبت تو چہ دیدی
ای ہمسر والا گہرم فاطمہ جانم
یکبارہ زمان رشتہی پیوند بریدی
از حالت خود دہ خبرم فاطمہ جانم
ہر گز نرود مہر و وفایت زدل من
بعد از تو چہ آید بسرم فاطمہ جانم
شد مونس من اشک یتیمان و غم تو
رفتی بجوانی ز برم فاطمہ جانم
در خانہ یتمان تو گیرند بہانہ
بیتاب حسین آن پسرم فاطمہ جانم
تاریک شدہ خانہ ام از نور تو زہرا
ای کوکب شام و سحرم فاطمہ جانم
از مرگ تو و گریہ ی طفلان و غم خود
چون بلبل بی بال و پرم فاطمہ جانم
گریانم و بنشستہ یتیمان بہ بر من
ہم جای تو خالی نگرم فاطمہ جانم
گاہی بمزار تو کنم نالہ و گاہی
درخانہ ببین دربدرم فاطمہ جانم
شب تا بسحر بر سر قبر تو بمانم
بو دی تو تو ضیاء بصرم فاطمہ جانم
در سینہ تفسھا شدہمحبوس ز ہجرت
بی روی تو خونین جگرم فاطمہ جانم
خیری نبود بعد تو در زندگی من
از طول زمان بر حذرم فاطمہ جانم
فاطمہ *سے توسل
یا زہرا یا زہرا جانھای ما فدایت
میگرییم از برایت فریادما رس فریاد ما س
یا زہرا یا زہرا ما جملہ رو سیاہیم
مسکینو بی پناہیم پناہماندہ پناہماندہ
زہرا جان زہرا جان ماجملہ بی نوائیم
بر درگہت گدائیم لطفی بماکن از غم رہا کن
یا زہرا یا زہرا ای دختر پیمبرؐ
تو شافعی بمحشر شفاعتم کن شفاعتم کن
یا زہرا یا زہرا ما ذاکر حسینیم
دائم بشور شینیم از بہر زینبؑ ہر روز و ہر شب
یا زہرا ہرجمعہ این الحسن میگوئیم
این الحسین میگوئیم با آہ و زاری با غمگساری
یا زہرا ما از تو، کرب بلا میخواہیم
اگر چہ روسیاہیم، در قتلگاہش، گرییم برایش
یا زہرا یا زہرا، ماتشنہ ی فراتیم
محتاج یک برتیم بما عطا کن، حاجت روا کن
مدینہ بہر تو دلہای ما کبابست
چشمان ما پر آبست تو ایخدیا، کن قسمت ما
زہرا جان در بقیع، قبر تر میجوئیم
خاک ترا می بوئیم زہرای اطہر باونوی محشر
یا زہرا یا زہرا دشمنان پہلو ی ترا شکستند
جای علی نستند گشتی پریشان با قلب سوزان
ظالمان از کینہ سیلی زدہ بر رویت
آزردہ شد بازویت ، از تازیانہ اف بر زمانہ
یا زہرا یا زہرا ما جملہ درد مندیم
ما رو بتو آوردیم ، دوایمان دہ،شفا بماندہ
یا زہرا از لطفت، قرض ما را ادا کن
اسیران را رہا کن، فریاد مارس فریاد ما رس
یا زرہر در این شب توجہی بما کن
حاجت ما روا کن از ما شفاعت کن در قیامت
جنا ب سیدہ ؑ کے مصائب
الہی من دلی پر خون زجور دشمنان دارم
چو بلبل در نوا آہ و فغان و روز وشبان دارم
مرا باخلق کاری نیست کز من شکوہ سرکردند
دلم تنگست میگریم بدل غم ھا نہان دارم
ہمی مینالم و میگریم و میسوزم و سازم
گہ از درد وگہ از داغ و گہ از ہجران فغان دارم
الہی پہویم بشکستہ از در محسنم کشتند
بدل این داغ تا محشر زظلم دشمنان دارم
منم زہرا عزیز قلب پیغمبر چنین خوارم
پر یشان روزگاری از جفای امتان دارم
زعمرم سپرم و دل پر کنم چون از عزیز انم
کشم آہ از جگر مردم نظر بر کودکان دارم
الہی ہر جوان در زندگانی حسرتی دارد
ولی من آرزوی مرگ درد ار جہان دارم
نہ تنہا از مصیبتھا نمایم شیون اندر روز
بشب از درد پہلو تا شحر گہ الامان دارم
شبی در خواب دیدم باب خود فرمودیا زہرا
مخور غم نور دیدہ انتظارت در جنان دارم
مدینہ کے لوگوں سے
مرا بمردم شہر مدینہ کاری نیست
دلم گرفتہ و این گریہ اختیاری نیست
بگو بخلق کہ زہرا گذشت از دنیا
ہمین دو روز دگر ہست مہیمان شما
نوحہ
باباببین کز فرقتت خونشد دل زہرا آہ از دل زہرا
گردیدہ از ہجر رخت غم حاصل زہرا آہ از دل زہرا
مشکل بود بی روی تو بابا حیات من خوشتر ممات من
حل کن تو ای جان پدر این مشکل زہرا آہ از دل زہرا
آرم شب و روزم برنالہ و افغان با سینۂ سوزان
گویا سرشتہ شد بغم آب و گل زہرا آہ از دل زہرا
از ضربت در جان پدر بشکست پہلویم آزردہ بازویم
منما ترحم ایخدا بر قاتل زہرا آہ از دل زہرا
بر صورت زارم نگر بابا شدہ نیلی از ضربت سیلی
تا چند باشد ماتم و غم شامل زہرا آہ از دل زہرا
بنگر چگونہ شد روان اشک از دو چشمانم از بہر طفلانم
بیت الحزن از ہجر تو شد منزل زہرا آہ از دل زہرا
گریم بحال زینب غمدیۂ نالان کومیشود گریان
یا بر حسن یا بر حسین آن نوگل زہرا آہ از دل زہرا
زہرا*کی قبر پر
بر احوالم ببار ای ابر اشک از آسمان امشب
کہ من در قبر بسپردم عزیزم رانہان امشب
مکن ایدیدہ منعم گربجای اشک خو نبارم
کہ میگریم من از ہجران زہرای جوان امشت
حسن نالان حسین گریان پریشان زینبین از غم
چسان آرم یتیمانم من این بیداد ران امشب
نشینم تا سحرگہ بر سر قبرت من دلخون
بریزم از فراقت اشک با آہ فغان امشب
گرفتم آنکہ برخیزم بسوی خانہ برگردم
چگویم گر زمن خواہند مادر کودکان ا مشب
زمین با پکر آزردۂ زرا مدارا کن
کہ این پہلو شکستہ بر تو باشد میہمان امشب
ماں کی جدائی کی رات
چود شد خاموش خورشید رسالت
شدہ تاریک عالم زین مصیبت
فتادہ ناگہانی زہرہ از نور
از این ماتم زمین گردیدہ پر شور
تو گوئی شد ہمہ عالم پر از غم
نشست بر روی مردم خاک ماتم
صلای تعزیہ از عرش اعلا
بر آمد بر ہمہ از پست و بالا
کہ ای جنّ و ملَک وقت عزا شد
بہ دنیا ماتم زہرا بپا شد
بہ جنت مصطفی صاحب عزا شد
یزا خانہ علو عرش علاشد
زپاافتادہ گویا نخل طاہا
کہ ناموس خد ارفتہ ز دنیا
ملایک جملہ زین غم مات و حیران
برای فاطمہ سردگر گریبان
نشست از غم ولیّ اللہ بخانہ
یتیمان اشک ریزان از بہانہ
چراغ قلب مولا گشتہ خاموش
یتیمانش از ین غم رفتہ از ہوش
چو انجم دررِ مہ طفلان زہرا
نشستہ در برِ آن جسم رعنا
زِ سوزِ دل نمودہ آہ و زاری
ہرای مادر خود سوگواری
حَسن گفت ای شہدہ مادرِ من
زجا خیز و ببین کشمِ ترِ من
زجا خیز مادرا وقتِ نماز است
زمان طاعت و راز نیاز است
سخن گو بایتم دل شکستہ
بہ آہ نالہ نزد تو نشستہ
حسین گفتا منم مادر حسینت
سخن گو مادرا با نور عینت
زِجا خیز از دلِ من عقدہ بگشا
کہ از داغ تو بیزارم زِ دنیا
بغل بگشا یتیمانرا بہ بر گیر
زِ رَأفت زندگانی زِ سر گیر
شدی ناکام در فصلِ جوانی
ندیدی راحتی در زندگانی
تنت آزردہ شد از ضربتِ در
زِ ضربِ دشمنان قلبت مکُدَّر
زآہ و نالہ ی کلثوم و زینب
خدا داند چہ ماتم شد در آن شب
مدینہ رفتہ رفتہ گشتہ آرام
یتیمان علی بیدار و ناکام
نمودہ دختران موہا پریشان
بروی پای مادر زار و نالان
نیامد خواب درچشم یتیمان
شب ہجران و اشک و قلب سوزان
چسان عنوان کند آن را (مقدم)
کہ عالم زد در آن شب عرقِ ماتم
بتاب ای مہ بر کاشانۂ من
کہ تاریک است مشب خانۂ من
بتاب ای مہ بہ پہلوی شکستہ
دہم غسل این تن رنجور خستہ
بتاب ای مہ کہ تا کلثوم وزینب
بہ بینند روی مادر در دل شب
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْءَلُکَ بِحَقِّ فَاطِمَۃَ وَاَبِیھَا وَبعْلِھَا وَبَنِیْھَا وَ السِّرِّ الْمُسْتَوْدَعِ فِیْھَا وَبِحَقِّ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَعَلِیّ بْنِ الْحُسَینِ وَمُحَمَّدِبْنِ عَلِیٍّ وَ جَعْفَرِبْنَِ مُحَمَّدٍ وَمُوسٰی بْنِ جَعْفَرٍ وَعَلِیِّ بْنِ مُوسیٰ الرِّضَا وََمُحَمَّدِبْنِ عَلِیٍّ وَ عَلِیِّ بْنَِ مُحَمَّدٍوَالْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَالْحُجَّۃِ بْنِ الْحَسَنِ اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰیَمُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاَنْ تَعْجَلَ فَرَجَ وَلِیِّکَ وَاَنْ تَقْضِیَ حَوَاءِجَ الْمُؤمِنِینَ وَالْمُؤمِنَاتِ وَ اَنْ تَغْفِرَ لِجَمِیْعَ الْمُسْلِمِینَ وَ الْمُسْلِمَاتِ مِنْ اَھَلِ الْحَقِّ وَ اَنْ تَغْفِرَ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَ تَحْشُرَنِی مَعََ مُحَمَّدٍوَآلَِ مُحَمَّدٍ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔
source : http://aljavad.org