اردو
Wednesday 24th of July 2024
0
نفر 0

خطبہ ٴ غدیر کی اھمیت کے پھلو

پیغمبر اسلا م(ص) کی پوری تا ریخ بعثت میں صرف ایک حکم ایسا ھے جو اتنے تفصیلی مقد مات، ایک خاص مقام اور مسلمانوں کے جم غفیر میں ایک طولانی خطبہ کے ذیل میں بیان هو ا ھے دیگر تمام احکام الٰھی مسجد النبی یا آپ کے بیت الشرف میں بیان هو تے تھے اور اس کے بعد ان کی اطلاع سب کو دیدی جا تی تھی ، اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ھے کہ اسلا م کا یہ الٰھی حکم دوسرے تمام الٰھی احکام سے ممتاز اور اھم ھے ۔حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام فر ما تے ھیں : 

”غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نھیں هوا “ 

ھم ذیل میں فھر ست وار خطبہٴ غدیر کی اھمیت کے اسباب بیان کر رھے ھیں: 

جغرافیائی اعتبار سے غدیرکی جگہ جحفہ میںاس مقام سے پھلے ھے جھاں سے تمام راستے الگ الگ هوتے تھے اورتمام قبائل اپنے اپنے راستہ کی طرف جانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا هوتے تھے۔اسی طرح اس گرم و ریگستانی علاقہ میں تین دن قیام کرنااور وقت کے لحاظ سے حجة الوداع کے بعد کا زمانہ اوریہ اس دن تک مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔ 

خطیب کی جگہ،مخاطبین یعنی حا جیوں کی خاص کیفیت وہ بھی اتمام حج کے بعداور واپسی کے وقت نیزمخاطبین کے سامنے پیغمبر اسلام (ص)کی وفات کے نزدیک هو نے کااعلان اس لئے کہ آنحضرت (ص)اس خطبہ کے ستّر دن بعد اس دنیا سے رحلت فر ما گئے ۔ 

خدا وند عالم کا یہ فرمان ”اے پیغمبر اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر خدا وند عالم کی طرف سے نا زل هوا ھے اگر آپ نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ھی انجام نھیں دیا “یعنی فرامین الٰھی میں سے کسی ایک فرمان کے لئے بھی ایسا حکم نھیں هوا ۔

پیغمبر اکرم (ص)کو خوف اورمسلمانوں کے مستقبل کی خاطر ولایت اور امامت کے حکم کو جاری کر نے کےلئے خدا کاقطعی فیصلہ ، اس حکم الٰھی کو پہنچا نے کی خصوصیات میں سے ھے کہ پیغمبر کسی بھی حکم کو پہنچا نے کےلئے اس طرح فکرمند نہ هو ئے ۔ 

خدا وند عالم کا دشمنوں کے شر سے پیغمبر اکرم(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری لینا اس پیغام اور اس اعلان کی خصوصیت ھے اور احکام الٰھی میں سے کسی کے لئے بھی ایسی ضما نت نھیں دی گئی ۔ 

آنحضرت (ص)کا غدیر خم میں لوگوں سے اقرار لینا ۔ 

اس دستور الٰھی کو بیان کر نے کےلئے خاص اسباب کا اہتمام، اتنا بڑا مجمع ،بیان کر نے کا خاص انداز اور منبر صرف اسی حکم الٰھی کےلئے تھا ۔خاص طور سے پیغمبر اکرم (ص)کا لوگوں کو الوداع کہنا جبکہ بیرونی دشمنوں کی طرف سے اب اسلام کونقصان پہنچانانا ممکن هو گیا تھا۔ 

مسئلہٴ امامت صرف ایک پیغام اور ایک ھی خطبہ کی صورت میں نھیں پہنچایا گیا بلکہ خدا وند عالم کے حکم وفر مان اور عام مسلمانوں کی بیعت اور ان سے عھد کے ذریعہ سے عمل میںآیا ۔ 

وہ عظیم ا ور حساس مطالب جو ولایت کوبیان کر تے وقت خطبہ میںذکرکئے گئے ھیں۔ 

خطبہ سے پھلے اور بعد واقع هو نے والے خاص رسم و رسومات مانند بیعت ،عمامہٴ سحاب اور مبارکباد جو اس واقعہ کی خاص اھمیت پر دلالت کر تے ھیں ۔ 

خداوند عالم کا یہ خطاب ”آج میں نے تمھارا دین کا مل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں“جو اس دن تک کسی بھی مو قع پر نھیں فر مایا گیا ۔ 

ائمہ علیھم السلام کا پیغمبر کے خطبہ غدیر کو اپنی توجہ کا مر کز قرار دینا ،خاص طور پر حضرت امیرالمو منین اور حضرت زھرا علیھما السلام کا یہ فر مان ”پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر میں کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نھیں چھو ڑا “[1]نیز علماء کا ائمہ ٴ ھدیٰ علیھم السلام کی اتباع میں غدیر سے متعلق موضوعات کا تفصیل سے بیان کر نا کہ یھی ولایت و امامت کی بنیاد ھے ۔ 

تاریخی ،حدیثی ،کلا می اور ادبی اعتبار سے اس حدیث کی سند اور نقل کر نے کا اندازاسی طرح اس کلام کا لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جا ناجو روایات ولایت میںممتاز اوربے مثال ھے محققین اس روایت کے تواتر کو ثابت کرچکے ھیں اور تمام مسلمان چا ھے وہ کسی بھی فرقہ اور مسلک کے هوں اس حدیث کے صحیح هو نے کااعتراف کرتے ھیں 

خطبہٴ غدیر میں آنحضرت (ص)کے بلند و بالا مقاصد 

۱۔ اپنی تیئس سال کی زحمتوں کانتیجہ اخذکرنے کےلئے اپنا جا نشین معین کر نا جس کے ذریعہ اس راہ کوبرقرار رکھے گا۔ 

۲۔اسلام کو کفار و منافقین سے ھمیشہ کےلئے محفوظ کرنے کی خاطر ایسے جا نشینوں کا معین فر مانا جو اس ذمہ داری کو نبھا سکیں ۔ 

۳۔ خلیفہ معین کرنے کےلئے قانونی طور پر اقدام کرنا جوھرقوم کے قوانین کے اعتبار سے ھمیشہ رائج رھاھے اور تاریخ میںبطورسندثابت ھے ۔ 

۴۔اپنے تیئس سالہ پروگرام میں گذشتہ اور مسلمانوں کے ماضی اورحال کا بیان کرنا۔ 

۵۔دنیا کے اختتام تک مسلمانوں کے مستقبل کا راستہ ھموار کر نا ۔ 

۶۔لوگوں پر حجت تمام کرناجو انبیاء علیھم السلام کی بعثت کاایک اصلی مقصد ھے۔ 

پیغمبر اکرم(ص) کے اس عملی اقدام کا نتیجہ جو اھل بیت علیھم السلام کے حق کو پہچاننے والوںاور اس کا اعتراف کر نے والوں کی کثرت، اور تاریخ میں اربوں شیعوں کا وجود خاص طور سے اس دور میں اس کی اھمیت کا بہترین گواہ ھے۔ 

______________________

[1] بحا ر الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶۔عوالم جلد ۱۱ صفحہ ۵۹۵ حدیث ۵۹۔

غدیر خم میں رو نما هو نے والے واقعات ایک ھی مقام پر اور ایک ھی شخص سے نقل نھیںهو ئے ھیں حاضرین میں سے ھر ایک نے اس باعظمت پروگرام کے بعض پھلوؤں پر روشنی ڈالی ھے اور کچھ مطالب ائمہ معصومین علیھم السلام نے نقل کئے ھیں ۔ 

ھم نے اخبار و احا دیث کے مطالعہ اور جائزہ سے واقعہ غدیر کی منظر کشی کی ھے جس کو مندرجہ ذیل تین حصوں میں بیان کیا جاتا ھے : 

ابتدا میںخطبہ سے پھلے کے واقعات جوخطبہ کےلئے ماحول کوسازگار بنانے کے لئے رونماهوئے ، اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص)کے خطبہ کی کیفیت اور وہ عملی اقدامات جو آپ نے منبر پر انجام دئے ،اور تیسرے حصہ میں وہ چیزیں بیان کی جا ئینگی جو خطبہ ٴ غدیر کے بعد انجام دی گئیں۔ 

حجة الوداع کی اھمیت[1]

پیغمبر اسلام (ص)کی ھجرت اور آپ کا مکہ معظمہ سے تشریف لیجانا تاریخ اسلام کا ایک حساس موڑ شمار کیا جا تا ھے اور ھجرت کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مکہ معظمہ کے تین سفر فر ما ئے ۔ 

پھلی مر تبہ آٹھویں ھجری میں صلح حدیبیہ کے بعدعمرہ کے عنوان سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور مشرکین کے ساتھ معاھدہ کے مطابق فوراً واپس پلٹ آئے ۔ 

دوسری مر تبہ نویں ھجری میں فتح مکہ کے عنوان سے اس شھر میں داخل هو ئے ،اور تمام امور کی تکمیل اور کفر و شرک اور بت پرستی کا جا ئزہ لینے کے بعد آپ طائف تشریف لے گئے لوٹتے وقت مکہ تشریف لا ئے اور عمرہ بجالانے کے بعد مدینہ واپس لوٹ آئے ۔ 

تیسری اور آخری مرتبہ پیغمبر اسلام(ص) ھجرت کے بعد دس ھجری میں حجة الوداع کے عنوان سے مکہ تشریف لا ئے آنحضرت (ص) نے پھلی مر تبہ رسمی طور پر حج کا اعلان فر مایا تاکہ جھاں تک ممکن هوسب لوگ اپنے تئیں حا ضر هوں۔ 

اس سفر میں آنحضرت (ص) کے دو بنیادی مقصد اسلام کے دو اھم احکام بیان کرنا تھا جن کو آ نحضرت(ص) نے ابھی تک لوگوں کے لئے مکمل اور رسمی طور پر بیان نھیں فر مایا تھا :ایک حج اور دوسرے پیغمبر اسلام(ص) کے بعد خلافت و ولایت اور جا نشینی کا مسئلہ تھا ۔ 

سفر حج کا اعلان[2]

خدا وند عالم کے حکم کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے مدینہ اور اس کے اطراف میں منا دی دینے والوں کو روانہ فر مایا تاکہ آنحضرت (ص) کے اس سفر کی اطلاع سب تک پہنچا دیںاور یہ اعلان کردیںکہ جو چا ھے وہ آپ(ع) کے ساتھ سفر کر سکتا ھے ۔ 

عام اعلان کے بعد مدینہ کے اطراف سے متعدد افراد آنحضرت (ص)،مھا جرین اور انصار کے ساتھ مکہ جا نے کےلئے شھر مدینہ آئے ۔مدینہ سے مکہ کے درمیان راستہ میں مختلف قبیلوں کے متعدد افراد آ نحضرت(ص) کے ساتھ شامل هوتے گئے دور دراز علاقوں میں بھی اس اھم خبر کے پہنچتے ھی مکہ کے اطراف اور یمن وغیرہ شھر وںکے متعدد افراد نے بھی مکہ کےلئے رخت سفر باندھا تاکہ حج کے جز ئی احکام ذاتی طور پر خود پیغمبر اکر م(ص) سے سیکھیں اور آنحضرت (ص)کے ساتھ اس پھلے رسمی سفر حج میں شریک هوسکیں ۔مزید یہ کہ آنحضرت (ص) نے یہ اشارہ فر ما دیا تھا کہ یہ میری زندگی کا آخری سفر ھے جس کے نتیجہ میں چا روں طرف سے لوگوں کے اضافہ هو نے کابا عث بنا ۔ 

تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار افراد[3]حج میںشریک هو ئے جن میں سے صرف ستّرہزار افراد مدینہ سے آنحضرت(ع) کے ساتھ آئے تھے یوں لبیک کہنے والوں کا سلسلہ مکہ سے مدینہ تک جڑاهوا تھا ۔ 

مدینہ سے مکہ تک سفر کا راستہ

آنحضرت (ص) نے ھفتہ کے دن ۲۵ ذیقعدہ کو غسل انجام دیااور احرام کے دو لباس اپنے ھمراہ لیکر مدینہ سے با ھر تشریف لا ئے ، آپ(ع) کے اھل بیت جن میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اما م حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام شامل تھے نیز آ پ کی ازواج سب کے سب اونٹوں کے کجا ووں اور محملوں میں سوار تھے ”مسجد شجرہ “ ”جو مدینہ کے نزدیک ھے “سے احرام با ندھنے کے بعد آپ نے مکہ کی راہ لی اور سوار و پیادہ لوگ آ پ کے ھمراہ چل رھے تھے ۔ 

اگلے دن صبح ” عِرْق ُ الظَّبْیَہ “ پہنچے اور اس کے بعدمقام ” روحا ء “ پر کچھ دیر کےلئے توقف فر مایا 

وھاں سے نماز عصر کےلئے مقام ”مُنصرَف “پہنچے ۔نماز مغرب و عشا ء کے وقت مقام ”مُتَعَشّیٰ“ پر قیام فر مایارات کا کھانا وھیں نوش فرمایا ، نماز صبح کے لئے مقام ”اٴ ثَا یَةً“ ،پهونچے منگل کی صبح مقام ”عرج “ پر تھے اور بدھ کے روز ” سقیاء “ کی منزل پر قدم رکھا ۔ 

راستے کے دوران پیدل چلنے والوںنے راستہ کی مشکلات کا تذکرہ کیاآنحضرت (ص)سے سواری کی درخواست کی گئی تو آپ(ع) نے فر مایا ابھی سواری مھیانھیں ھے آپ نے حکم دیا کہ آسانی کےلئے سب اپنی کمریں باندھ لیں اورتیز رفتاراور دوڑ دوڑ کر سفر طے کریں ۔اس حکم پر عمل پیرا هو ئے تو کچھ راحت و آرام ملا ۔ 

جمعرات کے دن مقام” ابواء“پهونچے ،جھاں پر آنحضرت (ص)کی مادر گرامی جناب آمنہ کی قبر ھے ،آپ(ع) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت فر ما ئی ۔ جمعہ کے دن مقام ” جحفہ “ اور” غدیر خم “سے گذر نے کے بعد مقام ” قُدَیْد “ کےلئے عا زم هو ئے اور ھفتہ کے دن وھاں پہنچے۔اتوار کے دن مقام ” عسفان “ پہنچے اور ”پیر کے دن مقام ” مرّالظھران “پر پہنچے اور رات تک وھیں پر قیام فر مایا ۔رات کے وقت مقام ” سیرف “ کی طرف حرکت کی اور وھاں پهونچے اوراس کے بعد کی منزل مکہ ٴ معظمہ تھی ۔دس دن کا سفر طے کر نے کے بعد منگل کے روز پانچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔ 

حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا مدینہ سے یمن اور یمن سے مکہ کا سفر 

دو سری طرف حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کی طرف سے ایک لشکر کے ھمراہ نجران اور اس کے بعد یمن تشریف لے گئے اس سفر میں آپ کا مقصد خمس زکوٰة اور جزیہ وصول کرنا اور نیز اسلام کی دعوت دینا تھا ۔ 

پیغمبر اسلام(ص) نے مدینہ سے چلتے وقت حضرت علی علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر فر مایا اورآپ (ع) کو حکم دیا کہ وہ بھی یمن سے مکہ چلے آئیں ۔نجران اور یمن کے امور انجام دینے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا لشکر نیز اھل یمن کے کچھ افراد (جن کی تعداد بارہ ہزار تھی) کے ساتھ میقات سے احرام با ندھنے کے بعد عازم مکہ هو ئے ۔پیغمبر اسلام (ص)مدینہ کی طرف سے مکہ کے نز دیک پہنچے توادھرسے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام بھی یمن سے مکہ کے نزدیک پہنچے ۔آپ (ع) نے لشکرمیںاپنا جا نشین مقرر فر مایا اور خود آنحضرت (ص) کی ملا قات کےلئے تشریف لے گئے اور مکہ کے نزدیک آنحضرت (ص) کی خد مت میں پہنچے اور روداد سفر سنا ئی 

پیغمبر اکرم(ص) مسرور هوئے اور حکم دیا کہ جتنا جلدی ممکن هو آپ(ع) کے لشکر کو مکہ لا یا جا ئے ۔ 

حضرت علی علیہ السلام پھر اپنے لشکر کے پاس آئے اور آنحضرت (ص) کے قافلہ کے ساتھ منگل کے دن پا نچ ذی الحجہ کو مکہ پہنچے ۔ 

ایام حج آنے کے بعد آنحضرت (ص) نویں ذی الحجہ کے دن عرفات تشریف لے گئے اس کے بعد مشعر اور منٰی پہنچے ۔اس کے بعدیکے بعد دیگرے اعمال حج انجام دئے اورحج کے واجب و مستحب اعمال لو گوں کےلئے بیان فر مائے۔ 

غدیر سے پھلے خطبے[4]

آنحضرت (ص) نے مقام غدیر سے پھلے دو حساس مقامات پر دو خطبے دئے جن کا مقصد حقیقت میں خطبہٴ غدیر کےلئے ماحول فراھم کر نا تھا ۔ 

آپ (ص)نے پھلا خطبہ منیٰ میں دیا تھا ۔ اس خطبہ کے آغاز میںآپ(ع) نے معاشرہ میں مسلمانوں اور عوام الناس کی جان ،مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت ،اس کے بعددور جا ھلیت میں نا حق خون ریزی اور نا حق لئے گئے اموال کو رسمی طور پر معاف فرمایا تاکہ لوگوں کے مابین ایک دوسرے سے کینہ ختم هو جائے تاکہ معاشرے میں پوری طرح امنیت کا ماحول پیدا هو جا ئے اور اس کے بعد لوگوں کو اپنے بعد اختلاف کر نے اور ایک دوسرے پر تلواراٹھانے سے خوف دلایا ۔ 

اس مقام پر آ پ نے واضح طورپر فر مایا: 

”اگر میں نہ رهوں تو علی ابن ابی طالب (ع) خلاف ورزی کر نے والوں کے سا منے اٹھ کھڑے هو ں گے “ 

اس کے بعد آپ(ع) نے اپنی زبان مبارک سے حدیث ثقلین بیان کی اور فرمایا: 

”میں تمھا رے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑکر جا رھا هوں اگر ان دونوں سے متمسک رهوگے تو ھر گز گمراہ نہ هو گے :کتاب خدا اور میری عترت یعنی میرے اھل بیت (ع) “ 

آپ(ص) نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فر مایا کہ میرے ان اصحاب میں سے بعض کوقیامت کے دن جہنم کی آگ میں جھونک دیا جا ئیگا ۔ 

اھم بات یہ ھے کہ اس خطبہ میں حضرت امیر المو منین (ع) آنحضرت (ص)کے کلام کی لوگوں کےلئے تکرار فر ما رھے تھے تا کہ دور بیٹھنے والے افراد بھی سن لیں۔ 

منیٰ کی مسجد خیف میںدوسرا خطبہ[5]

آنحضرت (ص) نے دوسرا خطبہ منیٰ کی مسجد خیف میں ارشاد فر مایا ۔منیٰ میں قیام کے تیسر ے روز آپ(ع) نے لوگوں کے مسجد خیف میں جمع هو نے کا حکم صادر فر مایا۔وھاں پر بھی آپ نے خطبہ دیا جس میں صاف صاف یہ اعلان فر مایاکہ اس خطبہ کو یاد رکھیں اور حا ضرین غا ئبین تک پہنچائیں۔ 

اس خطبہ میں آ پ(ع) نے اخلاص عمل ،مسلمانوں کے امام سے متعلق ھمدردی اور تفرقہ نہ ڈالنے پر زور دیااور تمام مسلمانوں کے حقوق اور قوانین الٰھی میں برابرهو نے کا اعلان فر مایا اس کے بعد مسئلہٴ خلافت بیان فر مایا پھرآپ(ع) کی زبان مبارک پر حدیث ثقلین جا ری هو ئی اور دوسری مرتبہ غدیر کے لئے زمینہ فراھم کیا ۔ 

اس موقع پر منافقوں نے مکمل طور پر خطرہ کا احساس کیا اور واقعہ کوسنجیدگی سے لیا انھوں نے عھد نا مہ لکھا اور قسمیں کھا ئیں اور اپنے پروگرا موں کا آغاز کیا ۔[6] 

غدیر سے پھلے انبیاء علیھم السلام کی میراث کا حوالہ کرنا[7]

مکہ میں پیغمبر اکرم (ص)پر الٰھی قانون اس طرح نا زل هوا :”آپ کی نبوت مکمل هو گئی اورآپ کا زمانہ ختم هو کیا ۔اسم اعظم اور آثار علم و میراث انبیاء علیھم السلام، علی ابن ابی طالب (ع) کے حوالہ کر دیجئے جو سب سے پھلے ایمان لا ئے ھیں ۔میں زمین کو اس عالم کے بغیر ایسے ھی نھیں چھوڑ دوں گا کہ جس کے ذریعہ میری اطاعت اور ولایت سے لوگ متعارف هوں اور وہ میرے پیغمبر کے بعد لوگوں کےلئے حجت هو “ 

انبیاء علیھم السلام کی یا دگاریں حضرت آدم و نوح و ابراھیم علیھم السلام کے صحیفے،توریت و انجیل، حضرت مو سیٰ علیہ السلام کا عصا ،حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری اور دوسری تمام میراث صرف اور صرف حجج الٰھی کے ھا تھوں میںرہتی ھیں ۔اس دن خاتم الانبیاء (ص) اس پوری میراث کے محافظ تھے اور اب حکم الٰھی حضرت امیر المومنین کےلئے آگیا ۔یہ تمام چیزیں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب سے یکے بعد دیگرے ائمہ علیھم السلام تک منتقل هو تی رھیںاور اب یہ تمام چیزیں خدا وند عالم کی آخری حجت پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو طلب فر مایا اور ایک مخصوص میٹینگ کی جس میں خداوند عالم کی اما نتیں حضرت علی علیہ السلام کے حوالہ کر نے میں ایک رات دن لگ گیا ۔ 

لقب امیر المو منین(ع) [8] مکہ میں جبرئیل (ع) خدا وند عالم کی طرف سے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کےلئے خاص طور سے لقب ( امیر المو منین )لیکر نا زل هو ئے اگر چہ اس سے پھلے بھی یہ لقب آپ ھی کےلئے معین هو چکاتھا ۔ 

پیغمبر اکرم (ص)نے تمام اصحاب کو حکم دیا کہ ایک ایک صحابی حضرت علی علیہ السلام کے پاس جا ئے اور آپ (ع) کو ”السلام علیک یا امیر المومنین “ کھکر سلام کرے ۔اس طرح پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے دور حیات میں ھی اصحاب سے حضرت علی علیہ السلام کے امیر هو نے کا اقرار کرا لیا تھا ۔ 

اس مقام پر ابو بکر اور عمر نے پیغمبر اکرم(ص) پر اعتراض کرتے هوئے کھا: کیا یہ حق خدا وند عالم اور ان کے رسول کی طرف سے ھے ؟آنحضرت (ص) غضبناک هو ئے اور فرمایا:”یہ حق خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ھے ،خدا وند عالم نے مجھ کو یہ حکم دیا ھے “ 

غدیرمیں حاضرهونے کےلئے قانونی اعلان[9]

لوگ اس چیز کے منتظر تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) ا پنے اس آخری سفرحج میں کچھ ایام مکہ میں قیا م فر ما ئیں،لیکن اعمال حج تمام هو نے کے فوراً بعد آپ نے اپنے منادی بلال کولوگوں کے لئے اس بات کا اعلان کر نے کا حکم دیا :کل محتاجو ں کے علاوہ سب کو چلنا ھے کو ئی بھی مکہ میں نہ رہنے پائے تاکہ وقت معین پر ”غدیر خم “میں حا ضر هو سکیں ۔ 

”غدیر “ کے علاقہ کا انتخاب جو خاص حکم الٰھی کی وجہ سے تھا کئی اعتبار سے قابل غور ھے : 

ایک یہ کہ مکہ سے واپس آتے وقت غدیراس جگہ سے پھلے ھے جھاں پر لوگوں کے راستے ایک دو سرے سے جدا هو تے ھیں۔ 

دوسرے یہ کہ مستقبل میں مسلمانوں کے حج کرنے والے قافلے مکہ آتے اور جا تے وقت جب اس مقام سے گذریں تووادی غدیر اور مسجد النبی(ص) میں نماز پڑھیں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تجدید بیعت کریں تاکہ اس واقعہ کی یاد دلوں میں دوبارہ زندہ هو جائے ۔[10] 

تیسرے یہ کہ ”غدیر “ جحفہ سے پھلے وہ وسیع و عریض میدان تھا جھاں پر سیلاب اور شمال مغرب کی طرف سے بہنے والے چشمہ کا پانی آکرجمع هوتا تھا اور اس میدان میںکچھ پرانے اور مضبوط درخت بھی تھے لہٰذا یہ میدان پیغمبر اسلام(ص) کے تین دن کے پرو گرام اورخطبہ ارشاد فرمانے کےلئے بہت ھی منا سب تھا لوگوں کےلئے بھی یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ پیغمبر (دس سال مکہ سے دور رہنے کے با وجود ) مکہ میں قیام نھیں فر ماتے تاکہ ان کی خدمت با برکت میں لوگ حا ضر هوں اور ان سے اپنے مسائل بیان کر یںبلکہ اعمال حج تمام هو نے کے بعد فور اً وھاں سے رخت سفر با ندھ لیتے ھیںاور لوگوں کو بھی مکہ سے چلنے اور ” غدیر خم “میں حاضر هو نے کا حکم فر ما تے ھیں۔ 

جس صبح کو آنحضرت (ص) نے مکہ سے کوچ فرمایا آپ کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار[11]سے زیادہ افراد تھے یھاں تک کہ مکہ کے پانچ ہزارافراد اور یمن کے تقریبابارہ ہزار افراد”جن کا ادھر سے راستہ بھی نھیں تھا “بھی غدیر کے پروگرام میں شریک هونے کےلئے آنحضرت (ص) کے ساتھ آئے تھے ۔ 

__________________

[1] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ۲۰۱۔ 

[2] عوالم العلوم جلد۱۵/۳صفحہ۱۶۷،۲۹۷۔الغدیرجلد۱صفحہ۹،۱۰۔بحارالانوارجلد ۱صفحہ۳۶۰،۳ ۳۸،۳۸۴ ، ۳۹۰ جلد ۲۸ صفحہ ۹۵ ۔ 

[3] بعض روایات میں ایک لاکھ اسّی ہزار افراد نقل هوئے ھیں ۔ 

[4] بحارالانواتر جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۳،جلد ۲۱صفحہ ۳۸۰۔ 

[5] بحارالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۴۔ 

[6] منافقین کے اقدامات کی تفصیل کااس کتاب کے تیسرے حصہ میں تذکرہ هو گا ۔ 

[7] بحار الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۹۶،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۳،جلد ۴۰ صفحہ ۲۱۶۔ 

حضرت بقیة اللہ الاعظم علیہ السلام کے پاس ھیں ۔ 

[8] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۱۱،۱۲۰جلد ۳۷صفحہ۱۱۳،جلد ۴۰ صفحہ ۲۱۶۔عوالم ۱۵/۳صفحہ ۳۹،کتاب سلیم بن قیس صفحہ۷۳۰۔ 

[9] بحارالانوارجلد۲۱صفحہ۳۸۵،جلد۳۷صفحہ ۱۱۱۔۱۵۸۔اثبات الھدات:جلد ۲ صفحہ ۱۳۶حدیث ۵۹۳۔الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۰،۲۶۸۔ 

[10] غدیر میں مسجد نبی (ع) ”جو اس تاریخی واقعہ کی یادگار ھے “نے دوست و دشمن کی طرف سے عجیب دن دیکھے ھیںھم اس کتاب میں اس بات کی طرف اشارہ کریں گے ۔ 

[11] ایک قول کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار اور دوسرے قول کے مطابق ایک لاکھ اسّی ہزارافراد تھے ۔ 


source : ttp://ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کيا خواتين کے لئے بھي بہشتي حور العين ہيں؟
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
اول یار رسول(ص) حضرت امیر المومنین علی ابن ابی ...
قرآن کی فصاحت و بلاغت
امام صادق ؑ کی علمی عظمت
اسلام کے سیاسی نظریہ کی بحث کی اھمیت اور ضرورت
حدیث قرطاس
نبی(ص) کی احادیث میں تناقض
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
مسجد کے نور نے میری زندگی کو منور کر دیا

 
user comment