اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

سیرہ اھل بیت علیھم السلام کے تناظر میں اتحاد

 

زیر نظر مضمون میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے اہلبیت علیہم السلام کی سیرت میں اتحاد کی اہمیت کا جائیزہ لیا گيا ہے ۔ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی جانب سے اتحاد پر پرزور تاکید کی گئی ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ہدایت بخش ارشادات اور عمل سے امت کو اتحاد اور یکجہتی کی تعلیم دی ہے اور تفرقہ اور پراکندگي سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ آپ نے کبھی بھی مسلمانوں کو اختلافات اور تفرقے کا شکار ہونے کا موقع نہیں دیا۔اسلام اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی فکری، سیاسی، اعتقادی اور طبقاتی درجہ بندی کی اجازت نہیں دیتا بنابراین قرآن کے اس فرمان اور سیرہ نبوی (ص) کے مطابق اہل بیت علیہم السلام نے بھی ہمیشہ امت میں اتحاد برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اہل بیت علیہم السلام اتحاد و یگانگت کے سب سے بڑے منادی تھے ۔ انہوں نے قرآن اور سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو بنیاد بناکر دین کے تحفظ ، معارف دین کی تعلیم ، تحریف و بدعت اور فکری و عملی انحرافات کا سدباب کرکے امت کو راہ قرآن اور سیرت رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔زیر نظر مضمون میں اتحاد کی ضرورت اور اسکے معقول و مطلوب مفہوم پر روشنی ڈالی گئي ہے ،اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں اتحاد کی اہمیت اور دین کے تحفظ اور مسلمانوں کوفکری اور عملی اتحاد کی منزل پر پہونچانے میں اہل بیت علیہم السلام کے کردار کا جائیزہ لیا گیا ہے ۔

۱۔ قرآن کریم کی نگاہ میں اتحاد کی ضرورت و اہمیت 

اتحاد مسلمانوں کی تاریخی ، سماجی اور سیاسی ضرورت رہی ہے تا کہ وہ اپنے اتحاد کے سہارے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی کے مراحل طے کرسکیں۔ اتحاد مسلمانوں کے اسلامی تشخص اور ان کی سربلندی اور کامیابی کے بنیادی اسباب میں سے ہے ۔ اتحاد کے مقابل تفرقہ اور تشتت ہے جو ذلت و پراکندگی اور امت اسلامی کی توانائیوں کے ناکارہ ہونے کا سبب ہے ۔ 

قرآن کریم، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ائمہ دین نے مسلمانوں کے اتحاد پر بے حد تاکید کی ہے قرآن کریم تمام مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے: 

" واعتصموا بحبل اللہ جمعیا" و لاتفرّقوا" ( آل عمران / ۱۰۳ )۔ 

سب ملک کر قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ 

اس حکم قرآن کے مطابق اتحاد و یکجہتی ایک ضرورت ہے قرآن تفرقے اور اختلافات کو ایک غلط عمل، فساد کا سبب اور دین و عقل کی رو سے نقصان دہ قرار دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے: 

" ولاتنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم" ( انفال/ ۴۶) 

نزاع نہ کرو کہ ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔( انفال /۴۶) 

اتحاد و برادری کی کوشش کرنا خدا کے احکام پر عمل اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ دین کی پیروی کرنا ہے۔ 

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عقل اور شریعت کے قطعی حکم کے مطابق اتحاد ایک ضرورت ہے اور اصول دین میں توحید و نبوت و معاد کے بعد آنے والے بعض مسائل پربحث و تحقیق ہرگز اختلاف کا سبب نہيں بن سکتا۔ 

پیروان شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ایک بنیادی اقدام مسلمانوں کے درمیان اتحاد اخوت اور برادری پیدا کرنا تھا۔ 

ارشاد رب العزت ہے : " واذکرو نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا" ( آل عمران/ ۱۰۳)۔ 

اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائي بھائی بن گئے ۔ 

صدر اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مسلمانوں کو سماجی اور فکری لحاظ سے اختلافات کا شکار ہونے کا موقع نہیں دیا۔آپ کے بعد امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے بھی قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو محور بناکر امت کو تشتت اور افتراق سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اپنے مسلّمہ حق پر خاموشی اختیارکرکے اسلامی معاشرے کو متحد رکھنے کی سعی فرمائی ۔آپ کا یہ کارنامہ امت کے لئے ہمیشہ سبق آموز اور عبرت رہے گا۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ امت میں اتحاد برقرار رہے اور امت تفرقے اور تشتت سے دور رہے۔ 

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ماضی کی قوموں میں جب تک اتحاد باقی تھا ان کا ترقی اور بالندگی کا عمل جاری تھا اور انہیں عزت، اقتدار اور سربلندی حاصل تھی اور وہی زمین پر خلیفہ اور اسکی وارث تھیں اور دنیا کی قیادت کرتی تھیں ۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۵) 

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کا جائیزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا ہدف محض اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں میں اتحاد برقرار رکھنا تھا ۔ مسئلہ خلافت میں جو کہ امت اسلام میں سب سے پہلا اختلاف تھا آپ نے صبر و تحمل سے کام لیکر امت کو تفرقے سے بچایااور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی کہ یہ اختلاف امت میں تفرقہ کا سبب بن سکے۔ 

حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ " انّی ادعوکم الی کتاب اللہ و سنّۃ نبیہ و حقن دماء ہذہ الامۃ ۔۔۔ و ان ابیتم الّا الفرقۃ و شقّ عصا ہذہ الامۃ فلن تزدادوا من اللہ الّا بعدا و لن یزداد الرّب علیکم الّا سخطا" ( نہج البلاغہ) 

آپ فرماتے ہیں میں تمہیں کتاب خدا اور اس کے نبی کی سنت کی طرف بلاتا ہوں اور اس امت کو قتل و غارت سے بچانے کی تاکید کرتا ہوں ۔۔۔ اگر تم نے میری بات قبول نہیں کی توتمہاری قسمت میں افتراق اور امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا لکھا ہے ، اس سے خدا سے دور ہوتے جاؤگے اور خدا تم پر غضبناک ہوجائے گا۔ 

معانی الاخبار میں آیا ہے کہ ایک شخص نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے سنت اور بدعت کے بارے میں سوال کیا۔آپ نے فرمایا:" السنۃ ما سنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والبدعۃ مااحدث من بعدہ، و الجماعۃ اہل الحق و ان کانوا قلیلا" و الفرقۃ اہل الباطل و ان کانوا کثیرا" ( مجلسی ، ۱۴۰۳، ج ۷۸ ، ص ۴۸) 

آپ فرماتے ہیں سنت وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی سیرت ہے اور بدعت وہ ہے جو آپ کے بعد دین میں رائج کی گئی ہو، اہل جماعت اہل حق ہیں گرچہ ان کی تعداد کم ہو اور تفرقہ کا شکار اھل باطل ہیں گرچہ ان کی تعداد زیادہ ہیں کیوں نہ ہوں؟ 

حضرت علی علیہ السلام کتنی خوبصورتی سے امت کے اختلاف اور تفرقے کے اسباب بیان فرماتے ہیں : " الھھم واحد و نبیّھم واحد، و کتابھم واحد، افامرھم اللہ تعالی بالاختلاف فاطاعوہ؟ ام نھاھم عنہ فعصوہ!؟ ، ام انزل اللہ دینا" ناقصا" فاستعان بہم علی اتمامہ۔۔۔، ام انزل اللہ سبحانہ دینا" تامّا فقصّر الرّسول صلّی اللہ علیہ و آلہ عن تبلیغہ و ادائہ و اللہ سبحانہ یقول: " ما فرّطنا فی الکتاب من شیء" " فیہ تبیان کلّ شیء " ( نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸ ) 

ان کا خدا پیغمبر اورکتاب ایک ہی ہے کیا خدا نے اختلاف کا حکم دیاہے جسکی وہ اطاعت کررہے ہیں ؟ یا خدا نے اختلاف سے بچنے کو کہا ہے اور یہ لوگ اسکی نافرمانی کررہے ہیں ؟ یا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے اور ان سے اس کو مکمل کرنے کی درخواست کی ہے؟ یا وہ خدا کے شریک ہیں اور جو جی چاہتا ہے کہتے ہیں اورخدا کو ان کی باتوں پر راضی رہنا ہوگا؟ یا خدا نے کامل دین بھیجا ہے اور رسول (ص) نے اسکی تبلیغ میں کوتاہی کی ہے جبکہ خدا اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ " ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے بلکہ ہر چیز بیان کردی ہے ۔ 

۲۔ ایمان و اتحاد کا ربط باہمی 

اتحاد کاسرچشمہ راسخ عقائد اور سچا ایمان ہے جب بھی کسی جماعت کو کسی چیز کے بارے میں یقین حاصل ہوجائے اس میں اختلاف و تفرقہ نہیں دیکھا جا سکتا۔ مثال کے طور پر امور بدیہات میں جیسے سورج چمک رہا ہے، دوعدد زوج ہے، ان امور میں کوئی عاقل انسان شک نہیں کرے گا ۔ عقیدتی مسائل میں بھی ایسا ہی ہے وہ افراد جو ازراہ عقل و برہان یا کشف و ایمان کے سہارے اپنے دین کے قطعی ہونے پر یقین رکھتے ہیں وہ کبھی بھی شک و شبہے اور اختلافات کا شکار نہیں ہوتے۔ 

اتحاد صرف سچے اور گہرے ایمان ، تہذیب و تزکیہ نفس اور نفسانی خواہشات کے چنگل سے رہائی حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے ۔ جو لوگ جہل ، تعصب ، حسب و نسب اور دنیوی امتیازات، شیطانی حد بندیوں اور منافقین اور دشمنان دین سے متاثر ہوتے ہیں وہ کسطرح راہ توحید اور مؤمنین کے ساتھ مشترکہ عقائدکے راستے پر گامزن ہوسکتے ہیں؟ ایسے لوگ اس صلح و مودت و اخوت تک نہیں پہونچ سکتے جو ایمان کا لازمہ ہے اور حق تعالی اسی کی طرف دعوت دے رہا ہے ۔ یہ لوگ بھلا کس طرح ایثار الفت اور اتحاد پر اس معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جس میں شریعت اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی اقدار پر عمل کیا جانا ضروری ہے ؟ صرف اور صرف خدا پر ایمان صادق اور حقیقی اعتقاد اور تعلیمات وحی پر یقین سے ہی اتحاداور بھائي چارہ حاصل ہوسکتا ہے ۔ اتحاد ہدیہ الہی ہے جسے خدا نے ان مؤمنین کے لئے مخصوص کررکھا ہے جو تمام مادی قیود سے آزاد ہیں ۔ارشاد رب العزت ہے : " لو انفقت ما فی الارض جمیعا والّفت بین قلوبہم " اگر تم میں موجود ساری چیزیں انقاق کردوگے تب بھی ان کے دلوں کو آپس میں نزدیک نہيں لاسکتے ۔ اگراختلاف امور دین میں فکری انشعابات اور فرقہ وارانہ رجحانات کا سبب بنتا ہے تواسلام نے اسطرح کے اختلافات کی شدت سے نہی کی ہے قرآن کریم کی نظر میں دین میں اختلافات کا بنیادی سبب بغاوت اور حق سے تجاوز ہے قرآن کا کہنا ہے کہ : " و ما تفرّقوا الّا من بعد ما جاء ھم العلم بغیا" بینہم " ( شوری/ ۱۴) ۔ 

اور ان لوگوں نے آپس میں اسی وقت تفرقہ پیدا کیا ہے جب ان کے پاس علم آچکا تھا اور یہ صرف آپس کی دشمنی کی بنا پر تھا۔ 

آیت میں جس تفرقے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ علم کے بعد حق سے روگردانی کرنے کے معنی میں ہے۔بیان حقیقت کے بعد گمراہی ہے قرآن کی زبان میں اسے " بغی " کہا جاتاہے کیونکہ جب حق آشکار ہوجائے تو اس کے مقابل دشمنی اور کٹ حجتی کرنا حق کو نہ دیکھنے اور نظر انداز کرنے اور قرآن کے واضح حکم کی مخالفت اور دشمنی ہے۔ 

قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے : " والذین یحاجّون فی اللہ من بعد ما استجیب لہ حجّتہم داحضۃ عند ربّہم و علیہم غضب و لہم عذاب شدید ( شوری/۱۶ ) 

اور لوگ اللہ کے مان لئے جانے کے بعد اس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں ان کی دلیل بالکل مہمل اور لغو ہے اور ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے شدید قسم کا عذاب ہے بلاشبہ نفاق اور تفرقہ ضعف ایمان اور حضور شیطان کا اثر ہے کیونکہ مؤمنین کا معاشرہ جو ایمان و مودت و اخوت اور آیات الہی کی پیروی اور رسول رحمت و ہدایت کی اتباع پر استوار ہے اس کے سارے کام اتحاد و اخوت اور آپسی بھائی چارے اور محبت کی اساس پر انجام پانے چاہیں اور اس معاشرے کو خدا کا یہ حکم دل و جان سے تسلیم کرلینا چاہئے کہ " محمد رسول اللہ و الذین معہ اشدّاء و علی الکفّار رحماء بینہم (فتح ۲۹) 

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم خدا کے رسول میں جو لوگ ان کے ساتھ میں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں ۔ 

مضمون کی تفصیلات میں جانے سے قبل اتحاد کی اصطلاحی اور اسلامی تعریف کرنا ضروری ہے ۔ 

۳۔ وحدت معقول و مطلوب : 

لغت میں اتحاد کے معنی ایک ہونے کے ہیں یعنی ایسی اشیاء کے ایک ہونے کے ہیں جو ماہیت کے لحاظ سے ایک ہونے کی قابلیت رکھتی ہیں۔ 

فلسفے اور منطق کے لحاظ دو بسیط اشیاء میں اتحاد محال ہے کیونکہ دو الگ الگ ماہیتیں جو دو الگ الگ جوہروں کی حامل ہیں اتحاد کے بعد ہرگز اپنی ماہیت اور جوہر ذاتی کو نہیں کھوتیں بنا بریں حکماء کے نزدیک حقیقی اتحاد اجتماع مثلین یا انقلاب در ذات سے عبارت ہے لہذا فلسفہ کے مطابق اتحاد میں دوگانگی ختم نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ ایک شی پوری طرح معدوم ہوجائے اسی بنا پر فلاسفہ اتحاد کو ترکیب و تقارن اجزاء کے معنی میں لیتے ہیں ان کے نزدیک دو چیزوں کا ایک ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اجتماعی اور سماجی لحاظ سے اتحاد کے معنی ایک معاشرے افراد کا یا کسی دین کے پیرووں کا اپنے مشترکات پر عمل کرتے ہوئے اپنے مشترکہ اہداف و مقاصد کی طرف بڑھنے اور اس سے بڑھ کر فرعی امور میں اختلافات اور تعصبات سے پرہیز کرنے کے معنی میں ہے ۔ 

بنابراین اتحاد مذاہب اور اتحاد امت اسلامی سے یہ مراد ہے کہ سارے اسلامی مذاہب اپنے اپنے اختلافات کو کنارے لگادیں اور جن امور پر اتفاق نظر پایا جاتا ہے ان پر ایک ہوجائیں۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام مذاہب میں سے صرف ایک مذہب کا انتخاب کرلیا جائے اور سب لوگ اپنے عقائد و نظریات کو چھوڑ کر ایک مذہب پر متفق ہوجائیں اور یہ بھی مراد نہیں ہے کہ سب لوگ اپنے مذہبی اعتقادات کو ایک نئے مذہب کے پیرائے میں ڈھال لیں جو موجودہ مذہبوں کے اصولوں کو شامل ہو۔ یاد رہے اتحاد اسلامی پر بحث کرتے ہوئے اتحاد مذاہب اور اتحاد امت اسلامی کے مابین فرق رکھنا چاہئے اور ان دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے ۔ 

شہید مطہری کہتے ہیں کہ واضح ہے کہ امت کا درد رکھنے والے علماء اور اسلامی اتحاد کا دفاع کرنے والے مختلف مذاہب کو ایک مذہب میں حصر کرنے ، مذاہب کے مشترکات کو اپنانے ، اور متفرقات کو چھوڑنے کی بات ہرگز نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ بات نہ معقول ہے اور نہ منطقی ہے نہ مطلوب ہے اور نہ اس پر عمل کیاجا سکتا ہے ، بلکہ اتحاد سے مراد چھوٹے چھوٹے بے بنیاد اختلافات سے دستبردار ہوکر دشمنان اسلام کے مقابل صف آرا ہوجانا ہے اتحاد امت اسلامی کے خواہان علماء اور دانشور یہ کہتے ہیں کہ تمام مسلمان خدائے وحدہ لاشریک لہ پر ایمان رکھتے ہیں ، سب مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں سب کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور کعبہ ، سب کا قبلہ ہے اور سارے مسلمان ایک ہی دن حرم الہی میں حج بجالاتے ہیں ایک ہی طرف نماز ادا کرتے ہیں ایک ہی مہینے میں روزہ رکھتے ہیں اور دراصل سارے مسلمانوں کا فلسفہ کائنات ایک ہی ہے ان کی ثقافت مشترک ہے جو ایک عظيم اور درخشان ثقافت ہے ۔ 

جب دین کے اصل اور بنیادی اصولوں پر اتفاق ہوتو تفرقہ نہ دین کی نظر میں صحیح ہے اور نہ ہی عقل اسے جائز سمجھتی ہے ۔ 

۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی سیرت اور کلام میں اتحاد 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حیات طیبہ کے دوران مسلمانوں میں کسی بھی طرح کا اختلاف نہیں تھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ہمیشہ امت کو متحد رکھنے کی سعی فرمائی ہے ۔لیکن آج مسلمان ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کے پابند ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود سنت کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم قرآن کریم کے حکم کے مطابق ہمیشہ اتحاد کے منادی رہے ہیں اور آپ نے امت اسلامی میں اتحاد قائم کرنے کےلئے سخت سے سخت مصائب برداشت کئے لیکن اختلاف اور تفرقے کو پنپنے نہ دیا ۔آپ نے دین کی حفاظت کے لئے ہر قدم پر جہاد کیا اور امت کو آئندہ آنے والے خطروں سے آگاہ فرمایا۔ 

تاریخ اسلام گواہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے کسطرح اختلاف و افتراق کا سدباب کرکے مسلمانوں کی صفوں کو بنیان مرصوص میں تبدیل کردیا تھا اور کسطرح سے مسلمانوں نے اپنے اتحاد کے سہارے اسلام کے حق میں قدم اٹھائے اور اسلامی امت کی بنیادیں سیاسی سماجی اور دفاعی لحاظ سے مستحکم کیں۔اتحاد نے امت اسلامی کو یدواحد بتادیا تھا جس کے سبب اسلامی امت نے ہر میدان میں خواہ محراب عبادت ہو، جنگ کا میدان ہو یا پھر سیاسی ، اقتصادی اور سماجی امور ہوں سب میں کامیابی حاصل کی اور تمام آزمائشوں سے سرخرو نکلی۔ امت اسلامی کو متحد کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اسٹراٹیجک کردار کو تین زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ 

۱ ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے الہی معیارات کے مطابق امت کو متحد کرنے کی کوشیش کیں۔آپ کی ان کوششوں میں ثقافت کو مرکزی کردار حاصل تھا کیونکہ ثقافت سماجی نظام کی بنیاد ہے جس میں عقیدتی نظام آئیڈیالوجی اور معنوی اور اخلاقی اقدار شامل ہوتی ہیں ۔ 

۲۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کرنے ، ایک دوسرے کے حق میں احساس ذمہ داری کرنے ایک دوسرے سے مشورے کرنے کے عمل کورائج فرمایا اور معنوی امور ، باہمی تعاون ، میں شراکت کی زمین ہموار کی اور ہر اس اقدام کا سدباب کیا جو امت میں افتراق کا باعث اور اتحاد کو مخدوش کرسکتا ہے ۔ 

۳۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فکری اور عملی سطح پر اختلافات کے اسباب کی بیخ کنی فرمادی۔ آپ نے دین مبین اسلام کی الہی تعلیمات کے سہارے فکری، سماجی، تاریخی سطحوں پر اختلافات اور نفاق کے اسباب کی بیخ کنی فرمادی ۔ آپ نے زمانہ جاہلیت کے معیارات کو مسترد کرتے ہوئے سماجی طبقاتی نظام، فکری، سماجی اور اقتصادی امتیازات کو باطل اور الہی اقدار کو اصل اور اساس قرار دیا ۔ اس ثقافت الہی کے اساس پر تمام نفسانی ، فردی اجتماعی اور سماجی اختلافات ختم ہوجاتے ہیں اور اگر پھر بھی اسلامی امّہ میں کوئی اختلاف سر اٹھاتا تھا تو اس کو خدا اور رسول کے حکم کے مطابق حل کردیا جاتا تھا۔ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے امت میں سیاسی اور سماجی لحاظ سے اتحاد پیدا کرنے کے لئے اہل کتاب کو بھی اتحاد کی دعوت دی۔ 

قرآن میں ارشاد ہورہا ہے : 

" قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم" ( آل عمران /۶۴) 

اے پیغمبر آپ کھ دیں اے اہل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں ۔ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے سیاسی اور سماجی سطح پر مسلمانوں اوراہل کتاب کے درمیان صلح و دوستی کے معاہدے کئے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم صراحتا" فرماتے ہیں : " المسلم اخ المسلم و المسلمون ھم ید واحد علی من سواھم تتکافوا دمائھم، یسعی بذنبھم ادناھم ۔" 

رسول اکرم (ص) کے ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ مسلمانوں میں مشترکہ دینی جذبات اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلق خاطر پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا ارشاد ہے کہ:" المؤمنون کنفس واحدۃ " 

مولای روم نے کیا اچھا کہا ہے : 

جان حیوانی ندارد اتحاد 

تو مجو این اتحاد از روح باد 

جان گرگان و سگان از ھم جداست 

متحد جان ھای شیران خداست 

( مثنوی مولوی، دفتر چھارم، بیت ۴۱۱ بہ بعد) 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے پیمان برادری کو پیغام الہی قرار دیا ہے ۔آپ نے فرمایا ہے:" المؤمنوں اخوۃ " زمرہ اہل ایمان میں آنے والا ہر شخص تمام مؤمنین کا بھائی اور ان کے برابر ہے ۔ یہ عہد و پیمان کوئی ظاہری اور نمائیشی عہد و پیمان نہیں تھا بلکہ اس نے دینی حقوقی اور سماجی اعتبار سے گہرے اثرات مرتب کئے تھے کیونکہ اس عہد وپیمان کے تحت ہر مؤمن اپنے مؤمن بھائی کی نسبت احساس ذمہ داری کرنا تھا تا کہ حق برادری انجام دے سکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےزمانہ جاہلیت سے چلی آرہی شدید دشمنیوں کو محبت الفت اور مودت و رحمت میں تبدیل کردیا تھا ۔ قرآن اس عہد و پیمان کے بارے میں فرمایا ہے : "والّف بین قلوبہم " یہ عہد و پیمان کوئی درہم و دینار سے حاصل ہونے والا نہیں تھا بلکہ یہ ایک الہی اور معنوی عہد وپیمان تھا قرآن کریم اس بارے میں وضاحت فرماتا ہے کہ : "لوانفقت مافی الارض جمیعا ماالّفت بین قلوبہم و لکنّ اللہ الّف بینہم انّہ عزيز حکیم ( انفال/۶۳ ) 

اگر آپ ساری دنیا خرچ کردیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت پیدا نہیں کرسکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبت پیدا کردی ہے کہ وہ ہر شی پر غالب اور صاحب حکمت ہے ۔ 

سورہ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے: " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرّقوا و اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذکنتم اعداء فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا" ( آل عمران ۱۰۳) 

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ۔ 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کے مطلوبہ معاشرے میں روح اخوت و برادری حکمفرما ہوئی ہے اور اس میں تفرقہ و اختلاف کا ذرہ سا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا ۔ 

جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم حیات تھے اسلامی معاشرے میں فکری اور اعتقادی اختلاف ، دوگانگی ، نہیں تھی اور خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اسوۃ حسنہ اور رہنما تھے اور دین کے حقائق بیان کرنے والے تھے ۔ سورۂ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے کہ : "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔۔۔ " ( احزاب ۲۱ ) 

 


source : www.taghribnews.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تربیت اولاد اور فاطمہ
شہادت حضرت فاطمہ زہرا(س)
جہاد کے وقت امام حسین (ع) کی دعائیں
اگر کسی دن کو یوم مادر کہا جا سکتا ہے تو وہ شہزادی ...
محمد صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم دوعالم کے لیۓ رحمت ...
امام حسین (ع) کو تشویش کس بات کی تھی
غير مسلم مفکرين کي نظر ميں حضرت امام علي عليہ ...
امام زین العابدین علیہ السلام اور عبادت
حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے بعض کرامات (1)
قرآن میں انبیاء کرام کے معنوی جلوے

 
user comment