اردو
Tuesday 30th of April 2024
0
نفر 0

تربیت اولاد اور فاطمہ

[یا فاطمۃ الزھرا س] اسلام کی ایک بنیاد بچوں کی تربیت ہے کہ ان کی سعادت میں عوامل خمسہ گہرا اثر رکھتے ہیں جیسا کہ خشک جڑ کی دیکھ بھال اسے پھل دار درخت میں بدل دیتی ہے یہ ہر انسان میں ہزار درجہ زیادہ موثر ہے

تربیت کی بحث دستورات زندگی میں ۲۷ کے بعد کی گئی ہے تلقینات اولیہ اذان واقامت اور حسن تکلم سے لے کر قرآن مجید اور فرائض زندگی کی تعلیم دینے تک تمام چیزیں بچوں کی خوش بختی میں اہم اثر رکھتی ہیں زہرا کے بچے اس کے باوجود کہ ذاتاً اللہ کی طرف سے تربیت شدہ ہیں پھر بھی ماں باپ اور نانا کے کمالات حسن معرفت اور اخلاق کے تحت کمالات اور مقام ومرتبے کی مزید بلندیوں کے طے کرتے ہیں

ولایت اور معرفت ؛۲؛معرفوں میں

حضرت زہرا اپنے بیٹے حسن امیر  کو جب پیار کرتی تھیں اور یہ جملے ارشاد فرماتی تھیں ا شبہ اباک یا حسن واخلع عن الحق الرسن واعبد الھا ذالمین

ولا توال ذا الاحن فضائل الزہرا منابع بحار الانوار ج۴۳ ص۲۸۶ دسواں باب تربیت اولاد وفاطمہ س

۱۔اے حسن اپنے والد کی طرح بنو اور حق کی گردن سے رسی اتار پھینکو اور نعمت عطا کرنے والے خدا کی عبادت کر اور کینہ پرستوں کو دوست نہ رکھ

اس کے ظاہر کی تفسیر

چونکہ حضرت علی  قدرت حق اور صفات الہی کے مظہر ہیں لذا فرماتی ہیں جناب زہرا اپنے والد کی شبیہ بنو البتہ شباہت علم انصاف شجاعت اور تقوی وغیرہ ہے جنہیں علی ؑ کی ترویج میں بہت دوست رکھتے ہیں یعنی اپنے والد کے نقش قدم پر چلو اور یہ اپنے بیٹے حسن سے حضرت سیدہ کی پہلی خواہش

۲۔ حق سے رسی اتار پھینکنا یہ ہے کہ انسان حق کو پاک وخالص کرے۔

اس سے دو معنی سمجھے جاتے ہیں

۱۔توحید حقیقی میں سب سے پہلے موحد عقائد افعال سے کفر وشرک اور معصیت دریا کی جڑوں کو کاٹ ڈالے

۲۔ان کی جڑوں کو دلیل وبرہان کے ذریعے لوگوں کے عقائد وافعال سے کاٹ ڈالے

۳۔صاحب نعمت اور نعمت بخشش معبود کی عبادت کرو کہ تمام آشکار وبہتان نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں

۴۔جو چیز بھی باطل ہے اسے اپنے دل سے نکال دو اس سے دل نہ لگاؤاپنے دل میں صرف خدا اور اولیاء خدا کی ولایت ومحبت رکھو باقی سب کچھ نکال دو بحار الانوار ج۲۳ ص۲۸۶

اولاد کو حقائق کی تعلیم

تکبیرات اختتامیہ یا تکبیرۃ الاحرام کے اسرار کےبارے میں امام جعفر صادق  فرماتے ہیں ایک دن رسول خدا  نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوئے تو امام حسین  بھی ان پہلو مبارک میں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے جب پیغمبر نے تکبیرۃ الاحرام کہی تو امام حسین  ادا نہ کر سکے رسول خدا  نے سات بار تکبیرۃ الاحرام کو دہرایا یہاں تک امام حسین دہرانے میں کامیاب ہو گئے لذا یہ مستحب ہے

انت شبیہ بابی لست شبیھا بعلی

امام حسین  کے بارے میں حضرت فاطمہ زہرا فرماتی تھیں

تم میرے باپ حضرت محمد  پر گئے ہو علی  پر نہیں

امت سبق لے

کتاب راہنمائے بہشت کی جلد اول ص۱۶۳ پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت امام حسن مجتبی پانچ سال کی عمر میں ہر روز مسجد میں جاتے تھے اور پیغمبر اکرم  جو کچھ بیان کرتےح تھے وہ سب کچھ ذہن نشین کرتے تھےاور جب اپنے گھر واپس آتے تھے تو اپنی والدہ ماجدہ جناب سیدہ کو من وعن تقریر کر کے سناتے تھے اور جب حضرت امیر المومنین ؑ گھر تشریف لاتے تھے تو حضرت صدیقہ طاہرہ وہ سب باتیں انہیں بیان کیا کرتی تھیں

ایک دن حضرت امیر المومنین نے پوچھا اے فاطمہ تم تو مسجد میں نہیں گئیں یہ باتیں کہاں سے سیکھیں اسی وقت جناب سیدہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے حسن امیر سے وہ ہر روز مسجد میں جاتا ہے اور میرے جد حضرت محمد  منبر پر بیٹھ کر جو کچھ بیان فرماتے ہیں وہ گھر آکر اسی ترتیب سے تقریر کر کے مجھے سناتا ہے۔

حضرت نے فرمایا میں اس کی تقریر سننا چاہتا ہوں جناب صدیقہ طاہرہ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے آپ کے سامنے تقریر نہیں کر پائے گا حضرت نے فرمایا میں کسی جگہ پر چھپ کر اس کی باتیں سن لوں گا اگلے دن امام حسن  ہر روز کی طرح مسجد سے گھر آتے تو حضرت صدیقہ اے میرے نور چشم تمہارے نانا نے کیا فرمایا امام حسن ؑ ہر روز کی طرح ایک بلند جگہ پر بیٹھ کر تقریر کرنا چاہی تو ان کی زبان مبارک میں لکنت آگئی وہ بات شروع نہ کر سکے اور اپنی والدہ سے فرمای

یا اماہ قل بیانی وکل لسانی لعل سیداً تیرانی

اے اما جان میرا بیان کم ہو گیا ہے اور میری زبان گنگ ہو گئیشاید کوئی بزرگوار مجھے دیکھ رہا ہے حضرت امیر عجو دروازے کے پیچھے تھے بے اختیار اندر آئے اور انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا اور ان کے ہونٹوں کا بوسہ لیا اسلامی علم ودانش کے فروغ کے لئے بیٹے کا وہ عمل اور والدہ ماجدہ اور والد بزرگوار پہ حوصلہ افزائی

پیغمبر سے درخواست

جب فاطمہ الزہرا حسنین  کو رسول خدا صکی خدمت میں لاتیں اور عرض کی :ھذان ابناک مورثھما شیئا یہ آپ کے دو بیٹے ہیں انہیں کوئی چیز ارث میں دیجیئے فرمایا اما الحسن فلہ ھیبتی ووسودوی ،واما الحسین فان لہ جراء تی وجودی فرمایا حسن کے لئے میری ہیبت اور سیاوت ہے اور حسین کے لئے میری جرات و سخاوت ہے پھر جناب سیدہ نے فرمایا میں راضی ہو گئی میرے حسن حکیم یا حشمت تھے حسین سخی اور شجاع تھے

منابع فضائل الزہرا بحار الانوار دسواں باب ج۴۳ ص۶۸۶تربیت اولاد فاطمہ الزہرا بحار الانوار


source : http://www.aqaideshia.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے دادا
قرآن میں انبیاء کرام کے معنوی جلوے
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
امام مہدی(عج) کے فرمان اور دعوی ملاقات میں تضاد
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
محافظ کربلا ا مام سجاد عليہ السلام
حسین آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی

 
user comment