اسلامی قوموں کی بیداری علماء اور مصلحین کی انتھک کوششوں کا مبارک ثمرہ ہے۔ آج جس اسلامی بیداری کا مشاہدہ کیاجارہا ہے وہ عراق اور ایران کے بزرگ علماء مصلحین اور اسلامی تحریکوں کے جہاد کا نتیجہ ہے۔ اسی موضوع پر ہم نے عالمی مجلس برائے تقریب مذاہب اسلامی کے ثقافتی شعبے کےسربراہ حجت الاسلام والمسلمین علی اصغر اوحدی سے انٹرویو کیا ہے جو نذر قارئين ہے۔
عالمی مجلس: آج تیونس اور مصر سمیت خلیج فارس کے بعض ممالک میں عوامی تحریکیں شروع ہوچکی ہیں ان تحریکوں کو وجود بخشنے میں علماء اسلام نے کیسا کردار ادا کیا ہے؟
جناب اوحدی : علاقے کے موجودہ حالات کو ہم اسلامی بیداری کے بہم پیوستہ حلقے قراردےسکتےہیں۔ یعنی اسلامی بیداری جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل اسلامی تحریک کی صورت میں شروع ہوچکی تھی اور انقلاب کی کامیابی سے اپنے عروج پرپہنچی علاقے کے آج کے حالات کی اساس ہے۔
اسلامی بیداری سب پہلے علماء کی کوششوں کی مرھون منت ہے جنہوں نے گھٹن کے ماحول میں اور جبکہ عالمی سامراج اسلامی ممالک پرمسلط تھا اسلام کوبچانے اور اسکی تبلیغ کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ انہوں نےکبھی بھی ظالموں ستمگروں اور سامراج اور اس کے ایجنٹوں کا دباو قبول کرکے گھنٹنے ٹیکنے پررضا مندی ظاہرنہیں کی بلکہ طرح طرح کے ظلم سہے، ملک بدر ہوئے اور نہ جانے کیسے کیسے ستم اٹھائےلیکن اپنے عزم محکم کے ساتھ اسلام کی خدمت کرتےرہے۔ بنابریں یہ علماء ہی تھے جنہوں نے امر بالمعروف اور نہی از منکر کے اصول پرعمل کرتےہوئے اسلام کے حیات بخش پیغام کو عام کیا اور دشمنوں کی سازشیں ناکام بناتےہوئے دین کو تحریف و انحراف سے محفوظ رکھا۔ علماء کے اسی جہاد کی بناپر گذشتہ سوبرسوں میں علماء دین کو شدید ترین حملوں اور سازشوں کا نشانہ بنایا گيا، اسکی ایک اہم وجہ یہ بھی ہےکہ دشمن علماء کو ہی اپنے اھداف کی راہ میں سب سےبڑی روکاٹ سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہے۔
لھذا اس نے اپنی وسیع پروپگينڈا مشینری اور بکے ہوئےقلموں کے سہارے مختلف میدانوں اور مختلف روشوں سے علماء کے خلاف زہر گھولنا اور پروپگينڈا شروع کیا۔ اس طرح کے زہریلے پروپگينڈوں کا مقصد علماء اور قوموں کے درمیاں فاصلہ پیدا کرنا ہے۔ سامراج نے مختلف طریقوں سے علماء کے خلاف پروپگینڈے کئےہیں جنمیں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ دشمنوں نے اسلام، بغیر علما کے نظریے کی ترویج کرنے کی کوشش کی۔سامراج نے یہ پروپگينڈا کیا کہ اسلام کو سمجھنے کے لئے علما کی ضرورت نہیں ہے پڑھے لکھے لوگوں اور جوانوں میں اس انحرافی نظريے کو رائج کرنے کےلئے بڑی کوششیں کی ہیں، سامراج کے پٹھو اور وابستہ عناصر نے یہ بھی پروپگينڈا کرنا شروع کردیا کہ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہیں اور سب لوگ انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں لھذا علماکی کوئي ضرورت نہیں ہے ۔بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح نے اس سازش کو بخوبی درک کرلیاتھا اور اس کو مسترد کرتےہوئے فرمایا تھاکہ سامراج کی یہ بات اسی طرح سے ہے جیسے ہم کہیں کہ معاشرے کے لوگ بغیر طبیب کے اپنی طبی ضرورتیں پوری کرسکتےہیں۔سامراج علماء کے خلاف پروپگينڈے کرکے عوام کے نزدیک علماء کی پوزیشن کمزور بنانا چاہتاتھا۔
سامراج نے اس کےعلاوہ علماء پر طرح طرح کی تہمتیں بھی لگانے کی کوشش کی۔ان تہمتوں میں پسماندہ ہونا، ماڈرن ازم کے خلاف ہونا، ترقی و پیشرفت کا مخالف ہوناشامل ہے۔ ان پروپگينڈوں کےزیر اثر بعض سادہ لوح افراد ان باتوں کا یقین بھی کربیٹھے ۔ ان باتوں کا ان لوگوں پربھی خاص طورسے اثر ہوا جو اسلام کے تمدن ساز کردار سے ناآشناتھے۔ حضرت امام خمینی رح نے بارہا فرمایا ہےکہ اسلام علمی اور سائنسی ترقی اور تہذیب و تمدن میں فروغ کا ہرگز مخالف نہيں ہے بلکہ بے راہ روی اورسامراجی ملکوں سے وابستگي کا مخالف ہے اور اسلام میں ہرطرح کی آزادی پائي جاتی ہے۔ آپ نے فرمایاکہ اسلام ترقی و پیشرفت اور جدت طرازی کا مخالف نہیں ہے اور نہ ہم مغرب کی علمی وسائنسی ترقی کے مخالف ہیں بلکہ مغرب سےدرآمد کی جانےوالی اس ثقافت کے مخالف ہیں جس سے ہمارے عقائد اور ثفافت کو نشانہ بناکرختم کیا جارہا ہے۔
علما کو زورزبردستی معاشروں سے دور کرنے کی کوششیں کوئي نئي نہیں ہیں۔ انہیں جلاوطن کرکے، قید میں ڈال کراور شہید کرکےعوام سے دورکرنے کی کوشش کی گئيں بالخصوص عالم اسلام کے مرکزی علاقوں جیسے عراق، ایران، ترکی ، افغانستان میں یہ کوئي نئي بات نہیں ہے ۔ ایران میں بزرگ علماء جیسے آيت اللہ شہید مدرس، مصر میں سید قطب اور حسن البناء اور عراق میں آیت اللہ سید محمد باقرالصدر جیسی بزرگ ہستی کو پٹھو حکومتوں نے شہید کیا ہے۔ البتہ یہ نام ہم نے نمونے کے طورپر ذکرکئےہیں ورنہ اسلام کی راہ میں قربانی دینےوالے علماء کی تعداد بے شمار ہے۔ تاريخ میں تین بڑے واقعات ایسے ہیں جس سے سامراج کو علماءکی عظمت اور عوام میں ان کے اثر ورسوخ کااندازہ ہوا۔ سب سے پہلے مصر پرنپیولین کے حملے کے موقع پر علماء نے عوام کی قیادت کی جس سے فرانس کے اس سامراجی بادشاہ کو شکست ہوئي دوسرا واقعہ انیس سوبیس میں عراق میں عوامی انقلاب کا ہے جسمیں علماء کی مجاھدت سے بوڑھے سامراج کو عراق سے نکلنا پڑا اور تیسرا بڑا واقعہ ایران میں تحریک تنباکو کا ہے جس کی بناپر ایران میں برطانیہ کی سامراجی کمپنیوں کو منہ کی کھانی پڑی جو عوام کی دولت وثروت لوٹنے آئيں تھیں۔دراصل دشمن نے عثمانی سلطنت کے سقوط کے بعد یہ تصور کرلیاتھا کہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت ختم ہوگئي ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد اسے دوبارہ امت اسلامی کی مزاحمت کا سامناکرنا پڑا۔ سامراجی دشمن نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے سیاسی ہتھکنڈوں کے علاوہ دوطرح سے ثفاقتی سطح پر کام کرنا شروع کیا۔ ایک طرف تو اس نے مغربی اقدار کو رائج کرنا شروع کیا تو دوسری طرف اسلامی اصول و موازین میں شکوک وشبہات پیدا کرنا اور اسلامی تعلیمات میں تحریف کرنا شروع کیا۔ علماء نے دشمن کے ان اسلام مخالف اقدامات کا بھرپور طرح سے مقابلہ کیا۔ علماء نے دشمن کے سیاسی اثر ورسوخ، اور تسلط کے خلاف جدوجہدکی، اسلامی تشخص کو مٹانے کی اس کی کوششوں اور مغربی اقدار رائج کرنے کی سازشوں کا مقابلہ کیا شاید اسی بناپر دشمن اور اس کے پٹھوسب سے پہلے علماء کو نشانہ بناتاہے۔
عالمی مجلس: اسکی کیا وجہ ہےکہ مغربی ممالک اور ان سے وابستہ پٹھو ممالک کے ذرائع ابلاغ مشرق وسطی کے عوام کے قیاموں کو اسلامی ظاہر کرنے ڈرتےہیں اور اس خصوصیت کو چھپارہےہیں؟
جناب اوحدی: دراصل مسئلہ یہ ہےکہ مغربی ممالک کو سیاسی اسلام سے خوف لاحق ہے۔ اسی وجہ سے وہ مشرق وسطی میں جاری قیاموں کے تشخص کو ظاہرکرنے سے گھبراتےہیں انہیں یہ خوف ہے کہ ان قیاموں کا اثر دیگر قوموں پرنہ ہوجائے ۔ مغرب نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کےتیس برسوں تک یہی کوشش کی کہ وہ دنیا پریہ ظاہر کرسکے کہ اسلام حکومت نہیں چلاسکتا۔ مغرب نے اپنے اس ھدف کے حصول کےلئے تین محوروں پرکام کیا۔ پہلا محور اسلام کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کرنا اور اسلام کا نعرے لگانےوالے دہشتگردوں کو وجود بخشنا تھا۔ اس طرح ہم دیکھتےہیں کہ القاعدہ اور طالبان جیسی انتھا پسند تنظیموں نے سراٹھایا اور دل کھول کر اسلام کو بدنام کیا۔ ان انتھا پسند گروہوں کی مدد سے حقیقی اسلامی تحریکیں اور اسلام پسندی کو بدنام کیا گيااور اسلام اور مسلمان دہشتگرد کہلانے لگے۔
مغرب کی دوسری مہم دنیا کے اہم علاقوں میں دہشتگردانہ حملے کرکے اس کا الزام مسلمانوں پرڈالنا ہے۔اس کی مثال گيارہ ستمبر کے واقعات ہیں۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے گيارہ ستمبر اور مختلف موقعوں پردیگر ملکوں میں ہشتگردی کرواکر مسلمانوں اور اسلام کوخوب خوب بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔
مغرب کا اسلام کےخلاف تیسرا محور یہ تھا کہ اس نے سامراجی اھل قلم اور پٹھو مفکریں کے ذریعے اسلام کو ایک ناکام اور ناکارہ نظام فکر ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اس نظریے کا پروپگينڈا نہایت وسیع پیمانے پرکیا گیا۔ اس طرح کفر صیہونیزم اور صلیبیت نےدین اسلام اوراس کے نتیجےمیں اسلامی انقلاب کو ناکارہ اور ناکام ظاہر کرنے کی کوشش کی ۔ اسی وجہ سے سامراج علاقے کی تحریکوں کو اسلامی ظاہرکرنے سےگریز کررہا ہے اور علاقائي قوموں کے اسلامی مطالبات کو چھپانے کی کوشش کرتاہے۔
عالمی مجلس: موجودہ زمانہ اسلامی بیداری کا زمانہ قراردیا جاتاہے۔ اسلامی بیداری سے کیا مراد ہے؟
جناب اوحدی: اسلامی بیداری سے مراد وہ مرحلے ہیں جنمیں عوام نے اسلامی حاکمیت کی طرف لوٹنے کامطالبہ کیا ہے۔ ان مرحلوں میں عوام نے اپنی زندگي میں اسلام کے نفاد کا بھرپور مطالبہ کیا ہے۔ اسلامی بیداری یعنی مغرب اور مشرق کے نظاموں کی نفی، اور سامراج کے سیاسی اقتصادی اور میڈیا تسلط کی نفی کیونکہ قرآن مجید فرماتاہےکہ اللہ نے ہرگز مومنین پرکافروں کومسلط نہيں کیا ہے۔ اسلامی بیداری کے یہ معنی ہیں کہ مسلمان اپنی تہذیب وتمدن کو اسلامی اصولوں کے مطابق دوبارہ زندہ کرنا چاہتےہیں اور اسلامی تعلیمات کےمطابق عزت و سربلندی سے زندگي گذارنا چاہتےہیں، اور ایسے حکام و سربراہوں سے نجات حاصل کرناچاہتےہیں جنہوں نے انہیں عزت دلانے کےبجائے دشمنوں کا آلہ کار بننا پسند کیا۔ ایسے حالات کےخلاف ملت مسلمہ کے قیام کو اسلامی بیداری کہاجاتاہے اور یہ بیداری کی لہر اسلامی دنیا کے علاوہ مغربی ممالک کو بھی متاثر کرکے رہےگي۔
source : http://rizvia.net