اردو
Friday 26th of July 2024
0
نفر 0

ولآيت کا بنيادي مفہوم

ماري گفتگو ولآيت کے موضوع پر ہے ۔ہم ولآيت کے موضوع کوجس طرح قرآن مجيد سے اخذکرتے ہيں‘اس طرح اِسے بہت ہي کم بيان کيا جاتا ہے ۔البتہ ايک شيعہ کي سماعتيں ولآيت کے لفظ سے خوب اچھي طرح مانوس ہيں۔ہماري دعاؤں‘خداوندِعالم سے ہماري مناجاتوں‘ ہماري روآيت اور ہمارے يہاں رائج اور عمومي افکار ميں ولآيت کا موضوع انتہائي تقدس اور احترام کے ساتھ موجودہے ۔ہم ايک شيعہ کے طورپراپنے پ کو ہميشہ حاملِ ولآيت سمجھتے ہيںاور دعا کرتے ہيں کہ خدا ہميں ولآيت پرقائم رکھے اور ہماري موت ولآيت پر رہتے ہوئے واقع ہو۔
ہم ولآيت کے بنيادي مفہوم کے بارے ميں گفتگو کرنا چاہتے ہيں ۔اس گفتگو ميں ہم يقيناً علي ابن ابي طالب ٴکي ولآيت پر بھي پہنچيں گے ‘ليکن في الحال ہماري گفتگو اس سے پہلے کے مراحل کے بارے ميں ہے ۔
ہم چاہتے ہيں کہ ولآيت کامفہوم قرآن مجيد کي آيت ِکريمہ سے اخذکريں ۔تاکہ پ ديکھيں کہ ولآيت کا اصول کس قدروسيع اور دل کش اصول ہے‘اورکس طرح اگر ايک قوم ‘ ايک گروہ ‘ ايک عقيدے کے پيروکار افراد ولآيت کے حامل نہ ہوں ‘توافراتفري اور انتشار کاشکار ہوجائيں گے ۔
اس گفتگو کي روشني ميں يہ بات بھي پ کے سامنے جائے گي اور اسے پ اچھي طرح سمجھ ليں گے کہ کيوں ولآيت نہ رکھنے والے شخص کي نماز ‘ نماز نہيں ہوتي‘روزہ ‘ روزہ نہيںہوتااور عبادات ‘ عبادات نہيں ہوتيں۔
اس گفتگو سے يہ بات بھي بخوبي سمجھ ميں سکتي ہے کہ ايک ايسا معاشرہ اور ايک ايسي قوم ‘جو ولآيت نہيں رکھتي‘ اگر وہ اپني تمام عمر نماز‘ روزے ميں گزاردے اور اپنے تمام اموال کو صدقہ کر دے‘ تب بھي لطف ِ خدا کے لائق نہيںہوتي ۔
خلاصہ يہ کہ اس بحث کي روشني ميں ولآيت کے بارے ميں موجوداحاديث کے معني سمجھے جاسکتے ہيں ‘ ان ہي ميں سے يہ معروف حديث بھي ہے ‘ جس کے بعض جملات اور کلمات کو ہم بارہا دُھرايا کرتے ہيں :
’’لَوْاَنَّ رَجُلاً قٰامَ لَيْلَہُ وَصٰامَ نَہٰارَہُ وَتَصَدَّقَ بِجَمِيِع مٰالِہِ وَحَجَّ جَميعَ دَھْرِہِ وَلَمْ يَعْرِفْ وِلاٰيَۃَ وَلِّيِ ا فَيُواليہِ وَيَکُونُ جميعُ اَعْمٰالِہِ بِدَلاٰلَتِہِ اِلَيْہِ‘ مٰاکٰانَ لَہُ عَلَي اِ عَزَّوجلَّ حَقُ في ثَوٰابِہِ۔‘‘(١)
اگر کوئي انسان رات بھر قيام کي حالت ميں گزارے ‘ صرف ماہِ رمضان ہي ميں نہيں بلکہ پوري عمرسارے سال روزے رکھے ‘ اپنا تمام مال واسباب راہِ خدا ميں صدقہ کردے اور پوري زندگي ہر سال حج پرحج کئے جائے‘ ليکن وہ خدا کے ولي کي ولآيت سے شنا نہ ہو‘ تاکہ اس شناسائي کے بعد اسکي پيروي کرے اوراسکے نتيجے ميں اسکے تمام اعمال خدا کے اس ولي کي رہنمائي کے تحت انجام پائيں‘تو ايسے شخص نے جو کچھ انجام ديا ہے ‘ وہ فضول ‘ بے ثمر اور ناکارہ ہے ۔
اگر پ اس گفتگو پر خوب اچھي طرح غور کريں ‘ اور آيت قرآني سے جو نتائج اخذ کئے جائيں ان پر خوب توجہ ديں ‘ تو يہ بات جان ليں گے کہ ولآيت نبوت کا تسلسل ہے ‘ نبوت سے جداکوئي چيز نہيں‘بلکہ دراصل نبوت کا تتمہ ‘ضميمہ اور اختتاميہ ہے۔

اب ہم ديکھيں گے کہ اگر ولآيت نہ ہو ‘ تو نبوت بھي ناقص رہ جائے گي۔ لہٰذا ضروري محسوس ہوتا ہے کہ ہم نبوت کے بارے ميںايک مختصر سي گفتگو کريں‘ اسکے کلآيت بيان کريں ‘تاکہ ضمني گفتگوکرتے ہوئے بتدريج ولآيت کے موضوع ميں داخل ہوں۔البتہ يہ بات بتادينا بھي ضروري ہے کہ اس موضوع پر گفتگوکرناانتہائي دشوارکام ہے‘ اور اسے تفصيل کے ساتھ بيان کرنا اس سے بھي زيادہ کٹھن‘ کيونکہ ولآيت کے موضوع پر عام افراد کے اذہان ميںاس قدر کمزور ‘کھوکھلے اور غير منطقي مسائل جگہ بنا چکے ہيں‘ کہ جب پ قرآن اور حديث کے متن سے مطابقت رکھنے والي درست بات بيان کريںگے‘ تو ان دو ميں سے کوئي ايک صورت پيش ئے گي ۔يا تو يہ کہ جوباتيں پ بيان کريں گے وہ لوگوں کے اذہان ميں موجودباتوں سے گڈ مڈ ہوجائيںگي ‘اور يا يہ کہ جو کچھ ولآيت کے عنوان سے بيان کيا جائے گا‘لوگ اس سے بيگانگي محسوس کريں گے ۔لہٰذا يہ بحث انتہائي مشکل اور دشوارہے ۔ليکن ہم خدا کے فضل سے توفيق طلب کرتے ہيں ‘ اور کوشش کرتے ہيں کہ اس گفتگو کو چند دنوں ميںمکمل کرديںانشائ اللہ ۔

رسول اللہ صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي مد کا مقصد کيا تھا؟

پيغمبر۰ انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے ئے ہيں ‘ لوگوں کو اخلاقِ الٰہي سے مزين کرنے کے لئے ئے ہيں ‘ مکارمِ اخلاق کو کامل کرنے اور اتمام تک پہنچانے کے لئے ئے ہيں‘ اور احاديث کے مضمون کے مطابق :اِنِّي بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکٰارِمَ الْاَخْلاٰقِ۔پيغمبر انسان ساز ي کے لئے ئے ہيں ‘انسان نامي اس خمير کوسنوارنے اور اسے راستہ وپيراستہ کرنے کے لئے ئے ہيں ۔
اب ديکھنا يہ چاہئے کہ پيغمبر۰انسان سازي کے لئے کون سے راستے اختيار کرتے ہيں؟ کن ذرائع سے استفادہ کرتے ہيں؟ اور کس طريقے سے انسان بناتے ہيں؟
کيا کوئي مدرسہ قائم کرتے ہيں ؟
کياکوئي فلسفي مکتب بناتے ہيں ؟
صومعہ اور عبادت خانہ تعمير کرتے ہيں ؟
پيغمبر۰انسان بنانے کے لئے انسان سازي کا کارخانہ قائم کرتے ہيں ۔پيغمبر۰ اس بات کو ترجيح دآيتے ہيں کہ چاہے انہيںدس سال ‘ بيس سال تاخير سے کاميابي نصيب ہو ‘ ليکن جو چيز وہ تيار کريں وہ ايک انسان ‘ دو انسان‘ بيس انسان نہ ہوں‘ بلکہ اُن کي خواہش ہوتي ہے کہ انسان سازي کا ايساکارخانہ قائم کريںجوخودکار(automatic) انداز ميں پيغمبر کي پسند کے انسانِ کامل تيار کرے۔
پس پيغمبر۰ انسان بنانے کے لئے ‘انسان سازي کے کارخانے سے کام لآيتے ہيںاوريہ کارخانہ اسلامي معاشرہ اوراسلامي نظام ہے ۔يہ وہ بنيادي نقطہ ہے جو ہماري گفتگوميں توجہ کا مرکز رہے گا ۔
سب يہي کہتے ہيں کہ پيغمبر۰ انسان بنانا چاہتے ہيں ‘ تمام ہي لوگوں کا يہ کہناہے کہ پيغمبر تعليم و تربآيت کے لئے ئے ہيںاور سب يہ بات سمجھتے ہيں‘(ليکن) جس بات کو توجہ کے ساتھ سمجھنا ضروري ہے ‘ وہ يہ ہے کہ پيغمبر ايک ايک انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے تنہائي ميں لے جاکر اسکے کان ميں خداکي محبت کے نغمے نہيں گنگناتے تھے ۔ انبيا ٴ نے ايسے علمي اور فلسفي مدارس (بھي)قائم نہيں کئے جن ميں چند شاگرد وں کي تربآيت کي ہواور اُنہيں لوگوں کي ہدآيت ورہنمائي کے لئے گوشہ و کنارِ عالم ميں روانہ کياہو۔پيغمبر کا کام ان امور سے زيادہ محکم ‘ مضبوط اور گہرا ہے ‘ (وہ) ايک ايسا کارخانہ قائم کرتے ہيں ‘ جو صرف انسان پيدا کرتاہے ‘ اور وہ کارخانہ ’’ اسلامي معاشرہ ‘‘ہے ۔

اسلامي معاشرہ کيا ہے ؟اور اس کي کياماہآيت ہے ؟

البتہ يہ ايک عليحدہ بحث ہے ‘جو ہماري اس گفتگو کا حصہ نہيں۔ ليکن اس مفہوم کي کچھ وضاحت کے لئے ہم اس پر مختصراً روشني ڈالناضروري سمجھتے ہيں۔
اسلامي معاشرہ ‘ يعني وہ معاشرہ اورسماج جس کي حکمراني کا سب سے بلند مقام خداکے پاس ہو۔اس معاشرے کے قوانين ‘الٰہي قوانين ہوں‘اس معاشرے ميں حدودِالٰہي جاري ہوں ‘اس معاشرے ميں عہدہ اور منصب الٰہي تعليمات کي روشني ميں تفويض کيا جاتا ہو اور انہي تعليمات اور اصولوں کي روشني ميں عہدے اور منصب سے معزول کياجاتا ہو۔
جس طرح بعض معاشرہ شناسوں ميں معمول اور مروج ہے‘اسي طرح اگر ہم معاشرے کي تصوير کشي ايک مثلث(triangle)کي صورت ميں کريں ‘ تو(اسلامي معاشرے کي)مثلث کي چوٹي top) (پر خدا ہوتاہے ‘ اورتمام انسان اسکے نيچے ہوتے ہيں ۔اس معاشرے کے ادارے ديني بنياد پر قائم ہوتے ہيں‘صلح اور جنگ کے قانون احکامِ الٰہي کي بنياد پربنائے جاتے ہيں ‘اجتماعي روابط ‘ اقتصاد ‘ حکومت ‘ حقوق ‘ تمام چيزوں کا تعين خد اکا دين کرتا ہے ‘ دين الٰہي کي روشني ميں ان کا نفاذ ہوتا ہے‘ اور ان تمام قوانين کي پشت پر خدا کا دين ہوتا ہے ۔
اسے کہتے ہيں اسلامي معاشرہ ۔
اسي طرح جيسے پيغمبر اسلام صلي ا عليہ ولہ وسلم نے مدينہ تشريف وري کے بعد وہاں ايک معاشرہ تشکيل ديا ۔اس معاشرے پر خدا کي حکمراني تھي‘اور عملاً حکومت کا کنٹرول خدا کے نمائندے رسول ا ۰کے ہاتھوں ميں تھا ۔پ ہي قوانين و احکام وضع کرتے اور اُن کا اجرا کيا کرتے تھے۔ معاشرے کي ہدآيت و رہبري اور اس کا نظم ونسق نحضرت ۰کے ذمے تھا۔
ايک ايسے معاشرے ميں جس کا سب کچھ خدا کے ہاتھ ميں ہے ‘ نمازِ جماعت‘ نماز کے بعد خطبہ اور ميدانِ جنگ ميں پڑھے جانے والے ترانے ‘سب ايک ہي رنگ لئے ہوتے ہيں۔ اسي مسجد ميں جہاںرسول اللہ ۰نماز ِجماعت قائم کياکرتے تھے‘ لوگوں سے خطاب کے لئے منبر پر جاياکرتے تھے ‘درس دآيتے اور تزکيہ و تعليم کا کام انجام دياکرتے تھے ‘ وہيںجہادکا پرچم لايا جاتا تھا‘ پيغمبر۰ اسے باندھتے اور اسامہ بن زيد ‘ يا کسي دوسرے مومن سپہ سالار کے سپرد کرتے اور فرماتے کہ جاؤ : اِنْطَلِقُوا عَلَي اسْمِ اللّٰہ(اللہ کا نام لے کر گے بڑھو)اور اس موقع پر دشمن پر کاميابي کے حصول کے لئے ضروري ہدآيت دياکرتے تھے۔ اسي مسجد ميں رسول اللہ ۰ خدا کاحکم جاري فرماتے تھے ‘ اسي مسجد ميں پيغمبر کي عدالت سجتي ‘ اسي مسجد سے پيغمبر۰ معاشرے کا نظم و نسق اور اقتصاد چلاتے ‘ اسي مسجد ميں زکات جمع ہوتي اوريہيں سے تقسيم کي جاتي ‘ اسي ميں درس ہوتا ‘ نماز ہوتي‘دعا ہوتي اور جنگي ترانے ہوتے ‘مالي اور اقتصادي مسائل حل ہوتے ‘ مختصر يہ کہ خانہ خدا ميںدنيا اور خرت کے امور ايک ساتھ پيغمبر کي رہنمائي ميں انجام پاتے۔ يہ ہے اسلامي معاشرہ ۔
انبيا ٴايسے ہي معاشرے کے قيام کے لئے تے ہيں‘اس معاشرے ميںرہنے والا ہر فرد انسان بن جاتا ہے۔ اگر انسانِ کامل نہ بھي بن سکے(تب بھي)مجبور ہوتا ہے کہ انسانوں کا سا طرزِ عمل اختيار کرے۔ جوکوئي اچھا بننا چاہے ‘وہ پيغمبر۰ کے قائم کردہ معاشرے ميںاچھا بن سکتا ہے۔ جبکہ غير الٰہي معاشروں ميں ايساممکن نہيں ہے ۔
غير اسلامي اور غيرالٰہي معاشروں ميں انسان اچھا بننا چاہتے ہيں‘ليکن نہيںبن سکتے۔ ديندار بننا چاہتے ہيں ‘ليکن نہيں بن سکتے۔ چاہتے ہيںکہ نہ سود ديں اور نہ سودليں‘ليکن پ ديکھتے ہيں کہ ايسا نہيں کر سکتے۔
ايسے معاشرے ميں عورت چاہتي ہے کہ اسلام اُس سے جس پاکدامني کا تقاضا کرتا ہے ‘وہ اُس کي حفاظت کرے ‘ليکن ماحول اُسے ايسانہيں کرنے دآيتا۔اس معاشرے ميں پائے جانے والے عوامل اوراسباب انسان کو خدا کي ياد سے دور کرتے ہيں ۔ تصاوير‘سنيماگھر‘زادانہ ميل جول اور گفتگو‘يہ سب باتيں انسان کو خدا سے دور کرتي ہيں اور انسان کے دل کو ذکر ِ خدا سے بيگانہ کرتي ہيں۔ ليکن اسلامي معاشرے ميں معاملہ اسکے برعکس ہوتاہے ۔
اسلامي معاشرے ميں بازار ‘مسجد‘ حکومتي ادارے ‘دوست ‘رشتے دار‘ گھرانے کاسربراہ‘ گھر کا جوان ‘سب کے سب انسان کو خدا کي ياد دلاتے ہيں‘خدا کي طرف کھينچتے ہيں ‘ خدا کے ساتھ ہم ہنگ کرتے ہيں ‘خداکے ساتھ اس کاربط و تعلق ايجاد کرتے ہيں ‘ اُسے خدا کا بندہ بناتے اور غيرخدا کي بندگي سے دور کرتے ہيں ۔
اگر پيغمبر۰ کے زمانے کا اسلامي معاشرہ پچاس سال قائم رہتا‘اور انہي کي قيادت برسرِ کار ہوتي‘يا پيغمبر۰ کے بعد علي ابن ابي طالب ٴ ‘ وہي رہبر ورہنما جنہيں پيغمبر۰ نے معين فرمايا تھا‘ پيغمبر کے جانشين بنتے ‘تو يقين جانئے پچاس سال بعداس معاشرے ميں کوئي منافق نہ رہتا ‘تمام افرادِ معاشرہ حقيقي مومن بن جاتے ۔ اگر حکومت ِ نبوي کے فوراً بعد حکومت ِ علوي قائم ہوجاتي‘ تو يہ انسان ساز معاشرہ لازمي طور پر تمام دھوکے بازوں کو پاک دل بنادآيتا‘ تمام منافق دلوں کو بھي مومن کر دآيتا ‘ وہ تمام افراد جن کي روح ايمان سے شنا نہ تھي ‘وہ بھي خدا اور ايمان شنا ہوجاتے۔ اسلامي معاشرہ ان خصوصآيت کاحامل ہوا کرتا ہے ۔
انبيا ٴ ايساہي معاشرہ قائم کرنے کے لئے تے ہيں ۔جب يہ معاشرہ بن جاتا ہے ‘ تو جس طرح کارخانے سے بڑي مقدار ميں پيداوار نکلتي ہے‘ اسي طرح انسان سازي کے اس کارخانے سے لوگ گروہ در گروہ مسلمان بن کر نکلتے ہيں ۔ ظاہري مسلمان بھي اور قلبي‘واقعي اورباطني مسلمان اورمومن بھي ۔پس پيغمبر۰ اس کام کے لئے تے ہيں ۔
ہم نے عرض کيا تھا کہ ہم ولآيت کي گفتگو کو اسکي جڑ سے شروع کريں گے۔
ابتداميںجب پيغمبراسلامي فکر لے کر تے ہيں اور اُن کي دعوت شروع ہوتي ہے ‘ تو کيا وہ تن تنہا معاشرے کا نظم و نسق چلاسکتے ہيں ؟ کيا معاشرے کو اداروں کي ضرورت نہيں ہوتي؟ کيا اِن اداروں کو چلانے کے لئے کچھ لوگ درکار نہيں ہوتے ؟ کيا اس معاشرے کے دفاع اور تحفظ اور اسکے دشمنوں کي سرکوبي کے لئے ايک فوج کي ضرورت نہيںہوتي؟کيا ايسے لوگوں کي ضرورت نہيں ہوتي جو پيغمبر کا ساتھ ديں اور اُن کي دعوت کو عام کريں ؟ يقينا ايسے لوگوں کي ضرورت ہوتي ہے ‘ اور يہ تمام کا م معمول کے مطابق اسباب و وسائل کے ذريعے انجام پاتے ہيں۔انبيا ٴاپني زيادہ تر سرگرميوں ميں عام اور معمول کے مطابق اسباب و وسائل ہي سے کام لآيتے تھے ۔
پيغمبراس لئے تے ہيںتاکہ اپنا مطلوب معاشرہ تعمير کريں ‘ ايسامعاشرہ جو انسان سازي کا کارخانہ ہو۔ اس کام کے لئے ايک متحد اور يکسو گروہ کي ضرورت ہے ‘ جو دل کي گہرائيوں سے اس مکتب پر ايمان اور عقيدہ رکھتا ہو اور ثابت قدمي اور جوش وخروش کے ساتھ اس مقصد کي جانب گامزن ہو۔پيغمبر‘ ابتدائے کار ہي ميں ايسے گروہ کي موجودگي ضروري سمجھتے ہيں۔ لہٰذا پيغمبر کا پہلا کام اس متحد اور باہم متفق گروہ کي فراہمي اور تياري ہے۔لہٰذا وہ آيت قرآني پر عمل کرتے ہوئے مواعظِ حسنہ کے ذريعے ايک ايسا گروہ وجود ميںلاتے ہيں :اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔ (2)
پيغمبر مواعظ ِحسنہ‘آيت قرآني اوراپنے کلام کي تاثير کے ذريعے لوگوں کے دل خدا کے دين کي جانب جذب کرتے ہيںاور پہلے مرحلے ميں اُنہيں اپنے گرد جمع کرتے ہيں ۔ پيغمبر کے گرد جمع ہوجانے والے ان لوگوںکے ذريعے ايک گروہ وجود ميں تا ہے۔ پس سب سے پہلے پيغمبراپني دعوت پيش کرکے ايک گروہ اور ايک صف وجود ميں لاتے ہيں۔ کفر کے محاذ کے با لمقابل ايک محاذايجاد کرتے ہيں۔

يہ محاذ کن لوگوں سے مل کر بنتا ہے ؟

صاحب ِايمان‘صاحب ِعقيدہ ‘مضبوط دل اور ثابت قدم مسلمانوں کے ملنے سے بنتا ہے‘ اُن لوگوں کے اکھٹا ہونے سے تشکيل پاتا ہے جنہيںلاٰ تَاْخُذُ ھُمْ فِي اِ لَوْمَۃُ لاٰئِمٍ(کسي ملامت کرنے والے کي ملامت راہِ خدا سے نہيں ہٹا سکتي ۔نہج البلاغہ۔ خطبہ١٩٠)
يہ وہ اوّلين مسلمان ہيں جو جاہلي معاشرے ميں ايک محاذ تشکيل دآيتے ہيں۔ يعني يہ مکہ کے جاہلي معاشرے ميں رہنے والے صدرِاسلام کے مسلمان ہيں۔ اب اگر اسلام اور مسلمين کے نام سے وجود ميں نے والے اس کمزور اور لاغرمحاذکو اس جاہلي اور مزاحمتوں اور مشکلات سے بھرے معاشرے ميں باقي رکھنا چاہيں‘ اگريہ چاہيں کہ يہ گروہ ‘ يہ صف اور يہ محاذ ختم نہ ہوجائے ‘ تحليل نہ ہوجائے‘تو لازم ہے کہ مسلمانوں کا يہ گروہ سيسہ پلائي ديوار کي مانند ايک دوسرے کے ساتھ پيوست رہے‘ ان مسلمانوں کو اس طرح ايک دوسرے سے متصل اور منسلک کيا جائے کہ کوئي چيز اُنہيںايک دوسرے سے جدا نہ کرسکے ۔ج کي زبان ميں اور ج کي ادبآيت ميں ‘ ايک انتہائي شديد جماعتي نظم (party discipline)ان مسلمانوں کے درميان قائم کيا جائے ۔انہيں ايک دوسرے کے ساتھ زيادہ سے زيادہ پيوست کيا جائے ۔ انہيں مضبوطي سے ايک دوسرے کے ساتھ باندھا جائے اور دوسرے محاذوں ‘دوسري تحريکوںاور مخالف عوامل سے انہيںزيادہ سے زيادہ دور رکھا جائے ۔کيوں‘اس لئے کہ يہ اقلآيت ميں ہيں ۔
ايک ايسا گروہ جو اقلآيت ميں ہے‘ ممکن ہے اسکي فکر اکثرآيت کي فکر سے متاثر ہوجائے ‘اِن کا عمل‘ اِن کي حيثآيت ‘ اِن کي شخصآيت ‘ ممکن ہے ان کي مخالف بقيہ اکثرآيت کي حيشآيتوں ‘ شخصآيتوں اور اعمال ميں گم يا نابود اور حل ہو کر ختم ہوجائے ۔
لہٰذا اُنہيں تحليل ہونے سے بچانے کے لئے‘انہيں نابودي سے محفوظ رکھنے کے لئے ‘انہيں ايک گروہ کي صورت ميں باقي رکھنے کے لئے‘ انہيں زيادہ سے زيادہ ايک دوسرے کے ساتھ متصل کيا جاتا ہے‘اور انہيں ہر ممکن طريقے سے دوسرے محاذوں ‘دوسري صفوں سے جدا کيا جاتا ہے‘ تاکہ مستقبل ميں ان کے مضبوط ہاتھوں سے اسلامي معاشرے کي تعمير ہو‘ يہ اس کانظم و نسق سنبھاليں اوراسے گے بڑھائيں ‘پيغمبر کے مددگاربنيں ‘ اُن کوہ پيماؤںکے گروہ کي مانند جو ايک دشوار گزار پہاڑي راستہ عبور کررہا ہوتا ہے‘دس افرادلاٹھياں(sticks) ہاتھ ميں لئے برف کے درميان ايک تنگ اورپرُ خطر راستہ طے کررہے ہوتے ہيں‘ اورپہاڑ کي چوٹي پر پہنچنے کے لئے پيچ وخم کھاتي واديوں سے گزرتے ہيں۔ ان لوگوںسے کہا جاتا ہے کہ ايک دوسرے سے متصل ہوجائيں ‘ اپنے پ کو ايک دوسرے کے ساتھ باندھ ليں‘ عليحدہ عليحدہ اور انفرادي طور پر گے نہ بڑھيں ۔کيونکہ اگر وہ اکيلے رہ جائيںگے ‘تو ان کے لڑکھڑانے کا خطرہ ہے ‘ انہيں مضبوطي کے ساتھ ايک دوسرے سے منسلک کردآيتے ہيں‘ اور ايک دوسرے سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان سے کہتے ہيں کہ وہ اپنے ساتھ بہت زيادہ وزن نہ ليں ‘ اِدھر ُادھر نہ ديکھيں‘ بلکہ صرف اپنے راستے پر نظر رکھيں‘ اور حواس فقط اپنے کام کي طرف متوجہ رکھيں ۔يہ لوگ ايک دوسرے کي کمر اور ہاتھوں کو مضبوطي سے ايک ساتھ باندھ لآيتے ہيں‘ تاکہ اگر ان ميں سے کوئي گرنے لگے ‘ تو بقيہ لوگ اسے بچا سکيں ۔
کوہ پيماؤں کا اس طرح ايک دوسرے کے ساتھ سختي سے جڑا ہوا ہونا‘ صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے ايک دوسرے کے ساتھ شديد متصل اور پيوست ہونے کي عکاسي کرتا ہے ۔
کيا قرآن و حديث نے اس اتصال اور پيوستگي کو کوئي نام دياہے ؟
اسلام کے ابتدائي دور سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کي يہ پيوستگي‘ جو انہيں پس ميں اس طرح جوڑتي ہے جس کا توڑنا ممکن نہيں‘جو معاشرے ميں موجوددوسري صفوں سے يکسر جدا ہوتے ہيں ‘سختي کے ساتھ ايک دوسرے کے ہاتھ ميں ہاتھ ديئے اور ايک دوسرے سے بندھے ہوئے ہوتے ہيں ‘ کيا قرآن اور حديث ميں انہيں کوئي نام دياگياہے ؟
جي ہاں‘ اس باہم پيوستگي اور اتصال کا نام ولآيت ہے ۔
پس قرآن کي اوّلي اصطلاح ميں ‘ولآيت يعني باہم پيوستگي اور ايک صف کي صورت ميں يکجہت ہونا‘ ايک فکررکھنے والے ‘ايک مقصد کي جستجو ميں سرگرداں اورايک ہي راہ پر گامزن لوگوں کے ايک گروہ کاسختي کے ساتھ پس ميںمتصل ہونا ۔يہ لوگ ايک ہي منزل کي جانب گامزن ہوتے ہيں اور ايک ہي فکر اور ايک ہي عقيدے کو ماننے والے ہوتے ہيں۔
اس صف سے تعلق رکھنے والے افراد کو ايک دوسرے کے ساتھ زيادہ سے زيادہ متصل ہونا چاہئے ۔انہيں چاہئے کہ دوسري صف بنديوں‘ دوسرے مراکز اور دوسرے عناصرسے اپنے پ کو جدا اور عليحدہ رکھيں ۔
کيوں؟
اس لئے ‘تاکہ ان کا خاتمہ نہ ہو جائے‘وہ دوسروںميں تحليل نہ ہوجائيں۔
اس چيز کوقرآن کريم ميں ولآيت کہتے ہيں۔
پيغمبر اسلام حضرت محمد صلي اللہ عليہ ولہ وسلم مسلمانوں کے اوّلين گروہ کو اس طرح پيوستہ اور متصل کرتے ہيں‘انہيں ايک دوسرے سے جوڑتے ہيں‘ انہيں ايک دوسرے کابھائي بناتے ہيں‘ انہيں ايک جسمِ واحد کي صورت ميں ڈھالتے ہيں ‘ ان کے ذريعے امت ِاسلامي تشکيل دآيتے ہيںاور اسلامي معاشرہ وجود ميں لاتے ہيں ۔
انشائ اپ گے چل کر آيت ِ قرآني ميںديکھيں گے کہ پيغمبر۰ صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے اس اتحاد اور يکجہتي کے ذريعے دشمنوں‘معاندوںاورمخالفوں کاراستہ روکتے ہيں‘ اپنے تيار کردہ اس گروہ کو معاشرے ميں موجود دوسرے گروہوں سے جدا کرتے ہيں۔ انہيں يہوديوں‘عيسائيوں اور مشرکين کے گروہ کے ساتھ مل جانے سے روکتے ہيں۔اور ان کي صفوں کو باہم منسلک اور متصل رکھنے کي بھرپور کوشش کرتے ہيں ۔اسلئے کہ اگر يہ مسلمان اس حالت ميں نہ ہوں‘ اگران کے درميان ولآيت نہ پائي جائے‘ اگريہ سو فيصد ايک دوسرے سے پيوست نہ ہوں اور ان کے درميان اختلاف وجود ميں جائے ‘ تويہ اپنے کاندھوں پر پڑنے والي امانت کے اس بوجھ کواٹھانے سے قاصر رہيں گے اور اس بارِ گراں کو منزلِ مقصود تک نہيں پہنچا سکيں گے ۔
بعد ميں بھي جب اسلامي معاشرہ ايک عظيم اُمت ميں تبديل ہوجاتا ہے ‘ تب بھي ولآيت کي ضرورت رہتي ہے ۔
ايک امت کے لئے کس طرح کي ولآيت ضروري ہے ‘ اور کس لئے يہ لازم ہے ‘ اسکي وضاحت ہم بعد ميںکريں گے ۔ليکن اگرہم يہيں ٹھہر کر کچھ غور کريں ‘ تو وہ ولآيت جس کا ذکر شيعہ کرتے ہيں اس کا کچھ مفہوم ہم پر واضح ہو جائے گا ۔
ظلمت سے بھري ايک دنيا ميں‘ ايک جاہل سماج ميں‘ايک چھوٹے سے گروہ کو اپني بقا کے لئے باہم مربوط اور متصل رہنے کي ضرورت ہے ۔ اگر وہ گروہ باہم پيوست اور جڑا ہوانہ ہو‘ تو اس کا باقي رہنا اور اپني زندگي جاري رکھنا محال ہے۔ ہم نے مثال کے طور پر مکہ کے جاہل معاشرے ميں اسلام کے ابتدائي دور کے مسلمانوںکے گروہ ‘يا پہلے پہل مدينہ ميں نے والے مسلمانوں کے گروہ کا ذکر کيا۔ اسکي دوسري مثال اسلامي تاريخ کے غاز ميں شيعہ مخالف اور اسلام مخالف خلافتوں کے زمانے ميں شيعوںکاچھوٹاسا گروہ ہے ۔
کيا شيعہ ساني کے ساتھ باقي رہ سکتے تھے ؟
کيا پروپيگنڈے کے حربے ‘ پابندياں ‘ قيد خانے ‘ اذآيتيں اور قتل و غارت اس بات کي اجازت دآيتے تھے کہ يہ گروہ باقي رہ سکے ؟
اور وہ بھي شيعوں کي مانند ايک فکري گروہ‘ جو اپنے زمانے کي حکومتوں کا بھرپور مخالف اور اُن کے لئے دردِ سرتھا ۔
ليکن اسکے باوجود يہ گروہ کيسے باقي رہ گيا ؟
اس لئے باقي رہ گيا کہ ولآيت نے شيعوں کے درميان ايک حيرت انگيز پيوستگي اورشيرازہ بندي پيدا کر دي تھي ‘تا کہ اس ولآيت کے زيرِ سايہ شيعي تحريک وہاںپائي جانے والي دوسري طرح طرح کي تحريکوں کے درميان محفوظ رہ سکے ۔
پ ايک بہت بڑے دريا کا تصور کريں ‘ جس ميں کئي اطراف سے مختلف پاني داخل ہو رہے ہيں۔ يہ پاني تيز رفتاري کے ساتھ حرکت ميں ہيں اور دريا کي سطح متلاطم ہے‘ اس پر گرداب وجود ميں رہے ہيں‘پاني پس ميں پيچ وخم کھارہے ہيں ‘ ايک دوسرے سے مختلف طرح طرح کے پاني اس دريا ميں ايک دوسرے ميں گڈ مڈ ہو رہے ہيں اور ايک دوسرے کو تحليل کر رہے ہيں ‘ايک دوسرے سے ٹکرا رہے ہيںاوردريا گے بڑھ رہا ہے۔
اِن لودہ اورگدلے پانيوں کے درميان ميٹھے ‘صاف‘ لطيف اورشفاف پاني کا ايک دھارا بھي رواں دواں ہے ‘جواس بہاؤميںايک عجيب انداز سے گے بڑھ رہا ہے ۔يہ پاني محفوظ اور سلامت ہے ‘اورحيرت انگيز بات يہ ہے کہ کسي صورت اس کا رنگ خراب نہيں ہوتا ‘يہ کسي صورت دوسرے پانيوں کي تلخي اور کھاراپن اختيار نہيں کرتا‘اپنے اُسي ميٹھے ذائقے ‘اُسي شفاف رنگت اوراُسي خالص پن کو محفوظ رکھتے ہوئے گے بڑھتا رہتاہے ۔
پ اُموي اور عباسي دور کے عالمِ اسلام کو اس دريا سے تشبيہ ديں جس ميں طرح طرح کي فکري ‘ سياسي اور عملي تحريکيں ايک دوسرے کے دوش بدوش چل رہي تھيں۔پ اوّل سے خر تک نگاہ ڈال ليجئے‘پ تشيع کي تحريک کو ديکھيں گے کہ وہ اس عجيب طوفان کے درميان پاني کي ايک باريک لکير کي مانندايک ناچيز اور معمولي شئے نظر ئے گي ‘ليکن اِس طرح کہ اُس نے اپنے پ کو محفوظ رکھا ہوا ہے‘کسي صورت لودہ نہيں ہوئي ہے‘کسي صورت اُس کا ذائقہ خراب نہيں ہوا ہے ‘ ہر گز وہ اپني شفافآيت سے محروم نہيں ہوئي ہے ‘ ہر گزاُس نے دوسرے پانيوں کے رنگ ‘بو اور ذائقے کو اختيار نہيں کيا ہے‘وہ باقي رہي اورمسلسل گے بڑھي ہے۔
ليکن وہ کيا چيز ہے جس نے اسکي حفاظت کي ہے ؟
وہ کيا شئے ہے جواس شيعي تحريک کي بقا کا سبب بني ہے ؟
وہ اس ولي کا وجودہے جو لوگوں اور اپنے پيروکاروں کو ولآيت کي تلقين کرتا ہے‘ انہيں ايک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے ‘ انہيں ايک دوسرے کے لئے مہربان کرتا ہے ‘ اُن کے درميان ولآيت کي ترويج کرتا ہے اور اس صف ميں موجودافراد کے اتحاد و اتفاق اوريکجہتي کي حفاظت کرتا ہے ۔
شيعي ولآيت کا ايک پہلو يہ ہے‘ جس پر بہت زيادہ زور ديا گيا ہے۔ اسکے اور بھي پہلو ہيں‘ ہم اُن کا بھي جائزہ ليں گے ۔
پس ولآيت ‘ يعني باہم پيوستگي‘ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہونا۔
قرآن مجيد مومنين کو ايک دوسرے کا ولي قرار دآيتا ہے‘اور سچے صاحبانِ ايمان کو ايک دوسرے سے متصل اور باہم پيوست سمجھتا ہے ۔ہماري روآيت ميں شيعہ کو مومن کہا جاتا ہے۔ اس تصور کي رو سے ‘ايمان سے مراد‘ ولآيت پر مبني خاص شيعي طرزِ تفکر کا حامل ہونا ہے ۔يعني اسلام کو شيعي نکتہ نظر سے اپنانا اورجس منطق سے شيعہ اسے ثابت کرتے ہيں‘اُس منطق سے اس کا اثبات کرنا۔
ہم ديکھتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام کے زمانے ميں اس قسم کے شيعوں کو ايک دوسرے کے ساتھ مربوط‘متصل اورباہم پيوست کيا گيا‘انہيںايک دوسرے کا بھائي بنايا گيا‘تاکہ وہ تاريخ ميں شيعي تحريک کو محفوظ رکھيں۔اگر ايسا نہ کيا گيا ہوتا ‘تو شيعہ ختم ہوجاتے‘ ان کے افکارنابود ہوجاتے۔ جيسا کہ بعض دوسرے فرقوں کے ساتھ ايسا ہوا ہے ‘ کہ انہوں نے اپنا رنگ کھو ديا ہے ‘ ختم اور نا بود ہو گئے ہيں۔

١۔اصولِ کافي ۔باب دعائم الاسلام ۔حديث پنجم

2۔ لوگوں کو حکمت اور اچھي نصيحت کے ذريعے اپنے پروردگار کي طرف دعوت ديں۔(سورہ نحل ١٦۔آيت ١٢٥)


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شھریوں کی اتباع
آپ کی اہل بیت سے آخری رخصت
کربلا درس انسانیت
نہج البلاغہ کی شرح
چالیس حدیث والدین کےبارے میں
محرم الحرام اور وحدت مسلمین
انبیاء کی خصوصیات
انسان قرآن کی نظر میں
نزول وحی
مسئلہ امامت و خلافت

 
user comment