امامت
رسول اسلام کی وفات کے بعد امت کے درمیان پیدا ھونے والا پھلا اختلاف، مسئلہ امامت و خلافت تھا جس نے امت مسلمہ کو دوحصوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک گروہ حضرت علی کو خلیفہٴ رسول خدا تسلیم کرتا تھا جب کہ دوسرا گروہ دوسرے خلفاء کا حامی اور انھیں کی خلافت کو قبول کرنے ولا تھا۔ یھیں سے مسلمان دو حصوں شیعہ اور سنی میں تقسیم ھوگئے تھے۔
اختلاف شیعہ و سنی کی غلط تصویرکشی
اکثرافراد یہ سمجھتے ھیں کہ مسئلہ امامت میں شیعہ سنی اختلاف اس وجہ سے ھے کہ شیعوں کے نظریے اوراعتقاد کے مطابق پیامبراکرم نے امور جامعہ کی انجام دھی کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو بطور خلیفہ اپنا جانشین مقررفرما دیا تھا جب کہ اھل سنت کے نظریے وعقیدے کے مطابق رسول اکرم نے کسی کو بھی اپنا خلیفہ نصب و مقرر نھیں کیا تھا بلکہ امت رسول نے اپنی صوابدید اور تشخیص کے مطابق اپنے خلیفہ وحاکم کا انتخاب کر لیا تھا۔ انھوں نے اپنا جانشین خود ھی مقرر کیا تھا او تیسرے مرحلے میں یہ انتخاب چھ نفری شوریٰ کے حوالے کردیا گیا تھا۔ خلیفہٴ چھارم ایک بار پھر عوامی انتخاب کے ذریعہ منتخب ھوئے۔
اس مذکورہ نقطہٴ نگاہ سے شیعہ سنی اختلاف فقط اور فقط ایک تاریخی مسئلہ ھے کہ آیا رسول گرامی نے واقعی حضرت علی علیہ السلام کو بطور خلیفہ وجانشین مقرر فرمایا تھا یا نھیں۔ شیعہ کھتے ھیں : ھاں اور اھل سنت کھتے ھیں: نھیں۔ بھرحال، اس بات پر سب متفق ھیں کہ تاریخ اسلام میں جو کچھ واقع ھوا، وہ یہ تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان، علی علیہ السلام نے بالترتیب خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔
پس اگر واقعاً رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کو امامت وخلافت کے لئے نصب ومقرر فرمایا تھا تو آپ کے حکم کی تعمیل نھیں ھوئی اوردیگر افراد غاصبانہ طورپراس عھدے پر قابض ھوگئے۔
حقیقت یہ ھے کہ شیعہ سنی اختلاف مذکورہ نظریے سے کھیں زیادہ عمیق، وسیع اوردقیق ھے۔ کسی دوسری شئی سے زیادہ شیعہ سنی اختلاف اس میں ہے کہ آیا امامت ایک منصب دینی اور تابع تشریع و نصب الٰھی ھے؟ یا ایک سلطنت دنیاوی اور اجتماعی عوامل و اسباب کا تابع؟
امامت: اھل سنت کے نقطہٴ نظرسے
اھل سنت حضرات اس بات کے معتقد ھیں کہ امامت وخلافت یعنی مسلمانوں پر حکومت کرنا۔ امام کا وظیفہ و ذمہ داری بھی وھی ھوتی ھے جو معاشرے سے متعلق ایک عام حاکم کی ذمہ داری ھوتی ھے۔ ان حضرات کے مطابق اسلام میں تعیین خلیفہ و امام کے لئے کوئی خاص روش موجود نھیں ھے۔ یعنی ممکن ھے کہ خلیفہ، گذشتہ خلیفہ کی وصیت کے ذریعہ معین ھوجائے یا انتخاب شوریٰ کے ذریعے حتی عام بغاوت اور فوجی غلبہ کی بنیاد پر بھی خلیفہ معین کیا جاسکتا ھے۔
امامت: شیعی نقطہٴ نظر سے
شیعی نظریے کے مطابق امامت یعنی اسلامی معاشرے کے تمام دینی ودنیوی امورمیں مکمل اور وسیع وعریض حاکمیت ۔ یہ حاکمیت فقط اس صورت میں شرعی اور قابل قبول ھے جب خداوند عالم کی طرف سے معین شدہ ھو۔ حتی رسول خدا نے بھی اپنے جانشین کا تعین اپنی ذاتی حیثیت و مقام کی وجہ سے نھیں بلکہ حکم خدا کے مطابق کیا ھو۔
اس طرح امامت بھی نبوت کی طرح ایک منصب الٰھی ھے اور جس طرح نبی صرف اور صرف خدا کی جانب سے معین ھوتا ھے اسی طرح امام بھی منصب امامت کے لئے خدا ھی کی طرف سے منتخب ومعین ھوتا ھے۔
شیعی عقیدے کے مطابق امامت فقط ایک ظاھری حکومت نھیں ھے بلکہ ایک معنوی و روحانی اعلیٰ منصب ومقام ھے۔ امام امور جامعہ کی انجام دھی کے علاوہ دین و دنیا میں امت کی چھار جانبہ ھدایت کا بھی ذمہ دار ھے۔ امام لوگوں کی روح و فکر کو بالیدگی و ھدایت عطا کرتا ھے۔ ساتھ ھی شریعت پیامبر کو ھر طرح کی تحریف، تبدیلی اور تغیر سے محفوظ رکھتا ھے نیز ان اھداف کی پیروی و ترویج بھی کرتا ھے جن کے لئے رسول مبعوث ھوئے تھے۔
شیعی عقیدے کے مطابق اگر کوئی اصالتاً اور ذاتاً ( نہ بعنوان نیابت)اس منصب و مقام پر فائز ھو تووہ تمام حقائق ومعارف دینی پر تسلط رکھتا ھے۔ احکام و معارف دینی کے بیان و تفسیر میں ھرگز کسی بھی قسم کی غلطی یا اشتباہ نھیں کرتا نیز ھر طرح کے گناہ سے پاک و معصوم ھوتا ھے۔
شیعی نقطہٴ نگاہ سے، امام معصوم، نبوت کے علاوہ ان تمام عھدوں اور مناصب کا حقدار ھے جو پیغمبر اسلام کے پاس تھے۔ حقائق، قوانین واحکام اسلامی سے متعلق اس کا کلام حجت اور مختلف حکومتی امور میں اس کے فرمان وحکم کی اطاعت واجب ھے۔
تقابل منصب امامت و نبوت
اگر نبوت کو خداکی راھنمائی فرض کرلیں توامامت الٰھی رھبری ھے۔ نبی کی شان یہ ھوتی ھے کہ لوگو ں کے لئے راہ وروش معین کرے جب کہ امام لوگوں کو اس راہ پرچلنے کے لئے آمادہ کرتا ھے۔ اس لحاظ سے مقام ومنصب امامت، نبوت سے کھیں برتر واعلیٰ ھے اور یھی وجہ تھی کہ حضرت ابراھیم خلیل الله علیہ السلام نبوت کے حصول کے برسوں بعد نیز متعدد امتحانوں میں کامیاب ھونے کے بعد اس مقام تک پھونچ سکے تھے۔
واذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال و من ذریتی قال لاینال عھدی الظالمین بقره: 124
اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انھوں نے پورا کردیا تو اس نے کھا کہ ھم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رھے ھیں انھوں نے عرض کیا کہ میری ذریت؟ ارشاد ھوا کہ یہ عھدہ ظالمین تک نھیں جائے گا۔
اس آیہٴ کریمہ سے تین نکات واضح ھوتے ھیں:
۱) مقام امامت، مقام نبوت سے برتر ھے۔
۲) مقام امامت، ایک الٰھی منصب ھے۔
۳) یہ منصب کسی غیر معصوم تک نھیں پھونچ سکتا کیونکہ غیر معصوم مرتکب گناہ ھوتا ھے اور ارتکاب گناہ، ظلم اور مرتکب گناہ، ظالم ھوتا ھے۔
البتہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاھئے کہ مقام امامت کے مقام نبوت سے اعلیٰ ھونے سے مراد یہ نھیں ھے کہ ذات امام، ذات نبی سے برتر ھے کیونکہ بھت سے انبیاء ایسے گذرے ھیں جو نبی ھونے کے ساتھ امام بھی تھے جیسے رسول اسلام۔
مسئلہ امامت میں اختلاف کے اصلی اور حقیقی محور
اختصار کے ساتھ کھا جاسکتا ھے کہ مسئلہ امامت میں شیعہ و سنی نظریات میں اختلاف کے اسباب یہ ھیں کہ شیعہ نظریے کے مطابق:
۱) امام اور جانشین رسول، صرف خدا کی طرف سے نصب و معین ھوتا ھے۔
۲) امام،علم لدنی کا حامل اور ھرخطا و غلطی سے پاک ھوتا ھے۔
۳) امام گناہ سے مبرا و پاک ھوتا ھے۔
لیکن اھل سنت، امامت کے لئے مذکورہ تینوں شرائط کو لازم اور ضروری نھیں سمجھتے ھیں۔
source : tebyan