اردو
Thursday 26th of December 2024
0
نفر 0

حضرت زھرا علمائے اھل سنت کی نطر میں

 

ریاض حیدر::

جگرگوشہ رسول ، شہزادی دو عالم ، فخر نسواں ،سردار خواتین دو جہاں ،بنت سردار انبیاء بتول ،عذرا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عظیم المرتبت بی بی کے بار ے میں جہاں علمائے تشیع نے اپنے اپنے قلم سے اپنی کتابوں میں قلم فرسائی کی ہے وہیں علمائے اہل سنت نے بھی حقیقت گوئی سے کام لیا ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ افراد جو 'صم بکم عمی 'کے مصداق ہیں انہوں نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ خیر ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں اس لیے کہ سورج کے سامنے پردہ حائل کرنے سے اس کی روشنی نہیں چھپتی ۔

ہم یہاں انہیں علمائے اہل سنت کی کتابوں سے کچھ اقتباس حضرت زہرا کے سلسلہ سے قارئین کی خدمت میں اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

 احمد ابن حنبل

اہلِ سنت کے چار مشہور ترین اہلِ مذاہب میں سے ایک اور حدیث کے بہت بڑے امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی تیسری جلد میں اپنی خاص اسناد کے ذریعے سے خادم رسول ۖ مالک بن انس سے روایت کی ہے: رسول اسلام ۖ چھ ماہ تک ہر روز نماز صبح کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرتے اور فرماتے: نماز! نماز!اے اہلِ بیت! اس کے بعد آپ پھر اس آیت کی تلاوت فرماتے: (اِنما یرِید اﷲ لِیذھِب عَنکم الرِجسَ اھل البیت و یطھرکم تطھِیرا) 

(اے اہلبیت!اللہ کا تو بس یہی ارادہ ہے کہ تمھیں ہر ناپاکی سے دور رکھے اور تمھیں خوب پاک و پاکیزہ رکھے۔)

بخاری

حدیث کے معروف امام ابو عبداللہ محمد اسماعیل بخاری اپنی صحیح کے باب فضائل صحابہ میں اپنی اسناد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اسلام نے فرمایا: فاطمہ میرا پارۂ تن ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

امام بخاری نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (ج٦) پانچویں جلد میں انھوں نے آنحضرت کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے:الفاطمة سیدة نساء اھلِ الجنة'جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

مسلم  بن حجاج 

صحاح ستہ میں سے دوسری اہم کتاب صحیح مسلم سمجھی جاتی ہے۔ امام مسلم بن حجاج اپنی اس صحیح میں کہتے ہیں:

فاطمہ رسول کے جسم کا ٹکڑا ہے ،جو انھیں رنجیدہ کرتا ہے وہ رسول اللہۖ کو رنجیدہ کرتا ہے اور جو انھیں خوش کرتا ہے وہ رسول اللہ کو خوش کرتا ہے۔

ترمذی

امام ترمذی کی سنن بھی صحاح ستہ میں شامل ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں: حضرت عائشہ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سے رسول اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ انھوں نے جواب دیا: فاطمہ۔  پھرپوچھا گیا: مردوں میں سے؟ کہنے لگیں: ان کے شوہر علی۔

خطیب بغدادی

احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی پانچویں صدی کے مورخ اور محقق ہیں۔ تاریخ بغداد اور مدینةالاسلام ان کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں وہ حسین بن معاذ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی اسناد کے ذریعے حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا: روز محشر برپا ہوگا کہ ایک آواز آئے گی: اے لوگو!اپنی نظریں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔ ایک اور روایت میں وہ نقل کرتے ہیں: ایک پکارنے والا روز محشر ندا دے گا: اپنی آنکھوں کو بند لو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔

علامہ قندوزی

علامہ سلیمان قندوزی اپنی کتاب ینا بیع المودة میں اپنی اسناد سے انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں: نماز فجر کے وقت ہر روز رسول اللہ حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے پر آتے اور گھروالوں کو نماز کے لئے پکارتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے:

(اِنمایریداللہ لِیذھِب عنکم الرجس اھل البیِتِ ویطھِر کم تطھِیرا)

اور یہ سلسلہ نو ماہ تک جاری رہا۔ (سطور بالا میں مذکور ایک روایت میں چھ ماہ آیا ہے)۔ علامہ قندوزی یہ روایت درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ خبر تین سو صحابہ سے روایت ہوئی ہے۔

ابو داود

ابو داؤد سلیمان بن طیالسی کی کتاب حدیث کی قدیم اور اہم ترین کتابوںمیں سے شمار ہوتی ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں: علی ابن ابی طالب نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ میں اپنے بارے میں اور فاطمہ بنتِ رسول کے بارے میں کچھ کہوں؟پھر حضرت علی فرمانے لگے:وہ اگرچہ رسول اللہ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں تاہم میرے گھر میں چکی زیادہ پیسنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا ، پانی زیادہ اٹھانے کی وجہ سے آپ کے کندھے پر بھی ورم آگیا تھا اور جھاڑو دینے اور گھر کی صفائی کی وجہ سے ان کا لباس بوسیدہ ہوگیا تھا۔ ہم نے سنا کہ رسول اللہ ۖکے پاس کچھ خادمائیں ہیں۔ فاطمہ اپنے بابا جان کے پاس گئیں تاکہ ان سے کچھ مدد طلب کریں اورآنحضرت سے گھرمیں مدد کے لئے کوئی خادمہ مانگ لیں لیکن جب اپنے بابا جان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے وہاں چند جوانوں کو دیکھا۔ انھیں بہت حیا آئی کہ اپنی درخواست بیان کریں۔ وہ کچھ کہے بغیر لوٹ آئیں۔(سنن ابی داد ، ج  ٢)

حاکم نیشاپوری

مستدرک علی الصحیحین امام حاکم نیشاپوری کی مشہور کتاب ہے۔ وہ اس میں نقل کرتے ہیں: رسول اللہ نے اپنے مرض موت میں حضرت فاطمہ سے فرمایا: بیٹی!کیا تم نہیں چاہتی کہ امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنو؟

فخررازی

امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیرکبیر میں سورہ کوثر کے ذیل میں اس سورہ مبارکہ کے بارے میں متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوثر سے مراد آل رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ سورت رسول اسلام کے دشمنوں کے طعن وعیب جوئی کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی۔ وہ آپ کو ابتر یعنی بے اولاد، جس کی یاد باقی نہ رہے اور مقطوع النسل کوکہتے تھے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت کو ایسی بابرکت نسل عطا کرے گا کہ زمانے گزر جائیں گے لیکن وہ باقی رہے گی۔ دیکھیں کہ خاندان اہل بیت میں سے کس قدر افراد قتل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دنیا خاندانِ رسالت اورآپ کی اولاد سے بھری ہوئی ہے جبکہ بنی امیہ کی تعداد کتنی زیادہ تھی لیکن آج ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص وجود نہیں رکھتا۔ ادھر ان (اولاد رسول)کی طرف دیکھیں باقر، صادق، کاظم، رضا وغیرہ جیسے کیسے کیسے اہل علم ودانش خاندان رسالت میں باقی ہیں ۔ (تفسیر فخرالدین رازی، ج ٢٣،ص ٤٤١مطبعہ بہیہ، مصر)

ابن ابی الحدید

عبدالحمید ابن ابی الحدید معروف معتزلی عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ہیں ، وہ لکھتے ہیں: رسول اللہ لوگوں کے گمان سے زیادہ اور لوگ اپنی بیٹیوں کا جتنا احترام کرتے تھے اس سے زیادہ حضرت فاطمہ کی عزت کرتے تھے، یہاں تک کہ آباکو اپنی اولاد سے جو محبت ہوتی ہے رسول اللہ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار، مختلف مقامات پر اور مختلف الفاظ میں، عام و خاص کی موجودگی میں فرمایا:

اِنھاسیدة نِسائِ العالمِین و اِنھا عدیل مریم بنت عمران وانھا اذامرت فی الموقف نادی مناد من جھِة العرش: یا اھل الموقف غضوا ابصارکم لتعبر فاطمة بنت محمد.

فاطمہ عالمین کی عورتوںکی سردار ہیں۔ وہ مریم بنت عمران کا درجہ رکھتی ہیں، وہ جب میدان حشرمیں سے گزریں گی تو عرش سے ایک منادی کی آواز بلند ہوگی: اے اہل محشر! اپنی آنکھیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔

ابن صباغ مالکی

نامور عالم ابن صباغ مالکی کہتے ہیں:ہم آپ کی چند اہم خصوصیات ، نسبی شرافت اور ذاتی خوبیاں بیان کرتے ہیں: فاطمہ زہرا اس ہستی کی بیٹی ہیں جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (سبحان الذی اسری بعبدہ)پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی۔ آپ بہترین انسان کی بیٹی ہیں اور پاک زاد ہیں ۔عمیق نظر رکھنے والے علماکا اس پراجماع اور اتفاق ہے کہ آپ عظیم خاتون ہیں۔ ( الفصول المہمہ، طبع بیروت ،ص٣٤١٢)

حافظ ابونعیم اصفہانی

حلیةالاولیاکے مصنف معروف عالم حافظ ابونعیم اصفہانی لکھتے ہیں: حضرت فاطمہ برگزیدہ نیکوکاروں اور منتخب پرہیزگاروں میں سے ہیں۔ آپ سیدہ بتول، بضعتِ رسول اور اولاد میں سے آنحضرت کو سب سے زیادہ محبوب اور آنحضرت کی رحلت کے بعد آپ کے خاندان میں سے آپ سے جاملنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ دنیا اور اس کی چیزوں سے بے نیاز تھیں۔ آپ دنیا کی پیچیدہ آفات وبلایا کے اسرارور موز سے آگاہ تھیں۔ (حلیة الاولیاطبع بیروت ج٢ ،ص٩٣١)

توفیق ابوعلم

استاد توفیق ابو علم مصر کے معاصر علمامحققین میں سے ہیں۔ انھوں نے الفاطمةالزہرا کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:

فاطمہ اسلام کی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ہیں۔ ان کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ پیغمبراعظمۖ  کی تنہا دختر ،امام علی ابن ابی طالب کی شریک حیات اور حسن وحسین کی والدہ ہیں۔ درحقیقت رسول اللہۖ کے لئے راحت جاں اور دل کا سرور تھیں۔ زہرا وہی خاتون ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے دل جن کی طرف جھکتے ہیں اور جن کا نام گرامی زبان پر رہتا ہے۔ آپ وہی خاتون ہیں جنھیں آپ کے والد نے ام ابیہا کہا۔ عظمت واحترام کا جو تاج آپ کے والد نے اپنی بیٹی کے سرپررکھا ، ہم پر آپ کی تکریم کو واجب کردیتا ہے۔

آلوسی

آلوسی نے اپنی تفسیرروح المعانی جلد ٣ صفحہ١٣٨ پر سورہ آل عمران کی آیت ٤٢ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ 'اس آیت سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ اس آیت میں 'نسا العالمین' سے مراد تمام زمانوں اور تمام ادوار کی خواتین مراد ہوں مگر چونکہ کہا گیا ہے کہ اس ایت میں مراد حضرت مریم کے زمانے کی عورتیں ہیں لہٰذا ثابت ہے کہ مریم علیہا السلام سیدہ فاطمہ صلواة اﷲ علیہاپر فضیلت نہیں رکھتیں'۔

آلوسی لکھتے ہیں: رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا ہے: "اِن فاطمة البتول ا فضل النسا المتقدمات و المتخرات؛ فاطمہ بتول صلواة اﷲ علیہا پرتمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں"۔

آلوسی کے بقول "اس حدیث سے تمام عورتوں پر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیدہ (صلواة اﷲ علیہاپر) رسول اللہۖکی روح و جان ہیں، چنانچہ سیدہ فاطمہ (صلواة اﷲ علیہاپر) عائشہ ام المومنین پر بھی برتری رکھتی ہیں"

 السہیلی

السہیلی رسول اللہ ۖکی معروف حدیث "فاطمة بضعة منی" کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب روض الانف صفحہ٢٧٩ (مکتب الکلیات الازہری مصر) میں اس طرح رقم طراز ہیںلکھتے ہیں: "میری رائے میں کوئی بھی "بضعةا لرسولۖسے افضل و برتر نہیں ہو سکتا"۔

 الزرقانی

الزرقانی لکھتے ہیں: "جو رائے امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی نے واضح دلیلوں کی روشنی میں منتخب کی ہے یہ ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت مریم (س)سمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔  (روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨(

السفراینی

 تحریر کیا ہے: "فاطمہ ام المومنین خدیجہ (صلواة اﷲ علیہاپر)سے افضل ہیں، لفظ سیادت کی خاطر اور اسی طرح مریم (صلواة اﷲ علیہاپر)سے افضل و برتر ہیں"۔  (روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨(

 ابن الجکنی

ابن الجکنی لکھتے ہیں: "صحیح تر قول کے مطابق فاطمہ سلام اللہ علیہا افضل النسا ہیں"۔(روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨)

 شیخ الرفاعی

الرفاعی کے اس قول کواسی کتاب میں ، اس طرح نقل کیا گیا ہے  "کہ اسی قول کے مطابق متقدم اکابرین اور دنیا کے علما و دانشوروں نے صحیح قرار دیا ہے، فاطمہ تمام خواتین سے افضل ہیں"۔

ڈاکٹر محمد سلیمان فرج

معروف عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں کہ فضیلت فاطمہ سید ة النساء العالمین کی فضیلت کو کوئی درک نہیں کر سکتا اس لئے کہ ان کا مقام بہت بلند اور انکی منزلت بہت عظیم ہے ،وہ رسول اسلام کا جز ء ہیں ،اسی وجہ سے بخاری نے آپ کے لئے روایت کی ہے کہ :پیامبر ۖ نے فرمایا فاطمہ میرا جزء ہے جس نے فاطمہ کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضب ناک کیا ۔

(الاضواء فی مناقب الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا سید احمد سایح حسینی مقدمہ ص١)

ابوبکر جابرجزایری

حضرت زہرا  کے فضائل بہت زیادہ ہیں ،انہیں میں سے ایک علم حضرت زہرا ہے ،اور وہ کیوں عالمہ نہ ہوں جبکہ وہ اس رسول کی بیٹی ہیں جو شہر علم ہے،اور وہ رسول کا جزء ہیں ۔(العلم ولعلماء ،ابو بکر جابر جزائری ص٢٣٧)

 ڈاکٹر محمدطاہر القادری

مشہور و معروف سنی عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب 'الدر البیضاء فی مناقب فاطمة الزہرا'میں چار خواتین کی فضلیت سے متعلق احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: 'احادیث میں کسی قسم کا تعارض (تصادم) نہیں ہے کیونکہ دیگر خواتین یعنی: مریم، آسیہ اور خدیجہ (صلواة اﷲ علیہاپر)، کی افضلیت کا تعلق ان کے اپنے زمانوں سے ہے یعنی وہ اپنے زمانوں کی عورتوں سے بہتر و برتر تھیں لیکن حضرت سیدہ عالمین (صلواة اﷲ علیہاپر)کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور پورے عالم اور تمام زمانوں پر مشتمل (یعنی جہان شمول اور زمان شمول) ہے"

شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

مریم از یک نسبت عیسی عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

مریم عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہرا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔

نور چشم رحم للعالمین

آن امام اولین و آخرین

سیدہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں؛ جو اولین و آخرینِ عالم کے امام و رہبر ہیں۔

آن کہ جان در پیکر گیتی رسید

روزگار تازہ آیین آفرید

وہی جنہوں نے گیتی (کائنات)کے پیکر میں روح پھونک دی؛ اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی۔

بانوی آن تاجدار ہل اتی

مرتضی مشکل گشا شیر خدا

وہ "ہل اتی" کے تاجدار، مرتضی مشکل گشا، شیرخدا علیہ السلام کی زوج مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں ۔

پادشاہ و کلبہ ای ایوان او

یک حسام و یک زرہ سامان او

علی علیہ السلام بادشاہ ہیں جن کا ایوان ایک جھونپڑی ہے اور ان کا پورا سامان ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔

مادر آن مرکز پرگار عشق

مادر آن کاروان سالار عشق

ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار ۔

آن یکی شمع شبستان حرم

حافظ جمعیت خیر الامم

وہ دوسرے (امام حسن مجتبی علیہ السلام)شبستان حرم کی شمع اور بہترین امت (امت مسلمہ)کے اجتماع و اتحاد کے حافظ ۔

تا نشینند آتش پیکار و کین

پشت پا زد بر سر تاج و نگین

اس لئے کہ جنگ اور دشمنی کی آگ بجھ جائے آپ (امام حسن) (ع) نے حکومت کو لات مار کر ترک کردیا۔

و آن دگر مولای ابرار جہان

قوت بازوی احرار جہان

اور وہ دوسرے (امام حسین علیہ السلام) ؛ دنیا کے نیک سیرت لوگوں کے مولا؛ اور دنیا کے حریت پسندوں کی قوت بازو ۔

در نوای زندگی سوز از حسین

اہل حق حریت آموز از حسین

زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین سے سیکھی ہے

سیرت فرزندہا از امہات

جوہر صدق و صفا از امہات

فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماں سے ملتا ہے۔

بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت

با یہودی چادر خود را فروخت

ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی۔

مزرع تسلیم را حاصل بتول

مادران را اسو ہ کامل بتول

تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول سلام اللہ ہیں اور ماں کے لئے نمون کاملہ حضرت بتول (صلواة اﷲ علیہاپر)   (کلیات اقبال)

مریمۖ پر سیدہ فاطمہۖ کی افضلیت سنی محدثین کی نگاہ میں:

اس صحیح روایت کی مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:

"یا فاطمة لا ترضین  تکونی سیدة نساء العالمین و سیدة نساء ہذہ الامة و سیدة نسا المومنین؛ اے فاطمہ (س) !کیا آپ خوشنود نہیں ہونگی کہ دنیا کی خواتین کی سردار قرار پائیں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ قرار پائیں اور با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟(المستدرک، ج٣ ، ص١٥٦)

 

حاکم اور ذہبی دونوں اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ یہ روایت حضرت حوا ، ام البشر سے لے کر قیامت تک، دنیا کی تمام عورتوں پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت کی واضح ترین اور منھ بولتی دلیل ہے اور اس روایت نے ہر قسم کی نادرست تصورات کا امکان ختم کرکے رکھ دیا ہے۔

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدہ (صلوٰة اﷲ علیہا)سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: "لا ترضین نک سید نسا العالمین"؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہیں آپ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؟"

سیدہ (صلوٰة اﷲ علیہا)نے عرض کیا: مریم ۖکا کیا ہوگا؟

فرمایا: 'تلک سیدة نسا عالمہا"؛ وہ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔(محمد شوکانی، فتح القدیر،) بیروت: دار المعروف، ١٩٩٦م، ج١، ص٤٣٩۔

عبداللہ ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں رسول اللہ ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ( صلوٰة اﷲ علیہا) بے شک اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔ ( ابراہیم جوینی، فرائد السمطین، ج٢، ص٣٥)

نیز ایک طولانی حدیث کے ضمن میں پیغمبر خدا ۖنے فرمایا: '...چوتھی مرتبہ خدا نے نظر ڈالی اور فاطمہ (صلوٰة اﷲ علیہا)کو پورے عالم کی خواتین پر پسندیدہ اور افضل قرار دیا۔ (سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، ص٢٤٧، باب٥٦۔ )

ابن عباس پیغمبر خدا ۖسے روایت کرتے ہیں: "اربع نسوة سیدات عالمہن۔ مریم بنت عمران، و آسیہ بنت مزاحم، و خدیجہ بنت خویلد، و فاطمة بنت محمد و افضلہن عالِما فاطمة؛ چار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم (زوجہ فرعون) ، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ۖ، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ عالِم حضرت فاطمہ (صلوٰة اﷲ علیہا)ہیں"۔ (الدر المنثور، ج٢، ص١٩٤)

نیز ابن عباس ہے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص)نے فرمایا: ' افضل العالمین مِن النساء الاولین و الآخرین فاطمة' اولین اور آخرین کی خواتین میں سب سے افضل خاتون فاطمہ (س) ہیں"۔ (المناقب المرتضوی، ص١١٣، بحوال غلام رضا کسائی، مناقب الزہرا، (قم: مطبع مہر، ١٣٩٨ ، ص٦٢

فدک حق زہرا سلام اللہ علیہا

فدک وراثت تھا یا رسول کی جانب سے شہزادی فاطمہ زہرا سلام اللہ کے لیے ہدیہ اور ہبہ تھا ، خودعلماء اہل سنت نے اس کو اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ باغ فدک کو رسول اکرم نے شہزادی کو عنایت کیا تھا ۔

صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید الخدری اور حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی ہی میں فدک حضرت فاطمہ کو اس وقت ہبہ کر دیا جب سورہ حشر کی ساتوین آیت نازل ہوئی۔ (درالمنثور از جلال الدین سیوطی جلد ٤صفحہ١٧٧) دیگر تفاسیر میں سورہ حشر کی آیت ٧کی ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک حضرت فاطمہ الزہرا کو ہبہ کردیا۔ (معراج النبوة از عبدالحق دہلوی متوفی ١٦٤٢ صفحہ ٢٢٨ جلد ٤ باب ١٠،حبیب السیار از غیاث الدین محمد خواندامیر)

 شاہ عبدالعزیز نے فتاوی عزیزیہ میں اس بات کا اقرار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ الزھرا کو فدک سے محروم کرنا درست نہیں ہے۔)فتاوی عزیزیہ از شاہ عبدالعزیز)

صحیح البخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد فدک کی ملکیت پر حضرت فاطمہ الزہرا اور حضرت ابوبکر                                                                                                                                                                                              میں اختلافات پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ نے فدک پر اپنا حقِ ملکیت سمجھا جبکہ حضرت ابوبکر نے فیصلہ دیا کہ چونکہ انبیا کی وراثت نہیں ہوتی اس لیے فدک حکومت کی ملکیت میں جائے گا۔

 اس پر حضرت فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے کلام نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعد رات کو جنازہ پڑھایا گیا جس کے بارے میں حضرت ابوبکر کو خبر نہ کی گئی۔

(صحیح بخاری اردو ترجمہ از مولانا داود مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند جلد ٥ حدیث٤٢٤٠۔٤٢٤١)

گھر کا جلایا جانا اور حضرت محسن کی شھادت

علماء اور  محدثان کی ایک بڑی تعداد نے اس قضیہ کو نقل کیا ہے جس میں آپ کے گھر کے دروازہ پر آگ کا لگانا ،دروازہ کو دھکا دینا جس   کی وجہ سے آپ کا زخمی ہوجانا اور آپ کے بطن مبارک میں حضرت محسن کی شھادت واقع ہونا ،ہم یہاں صرف چند علماء کے اقوال کو بیان کر رہے ہیں ۔

شہرستانی

شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں اس طرح نقل کیا ہے کہ 'بیعت کے دن (ثقیفہ)عمر نے حضرت فاطمہ  کو اس طرح مارا کہ کہ آپ کے بطن میں بچہ سقط ہو گیا ،اور اسکے بعد عمر  نے حکم دیا کہ گھر کو آگ لگا دی جائے چاہے گھر میں کوئی بھی ہو جبکہ گھر میں علی اور حسنین  کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا ۔(الملل والنحل ،ج ١،ص٥٧۔)

ذہبی

ذہبی ،احمد بن محمد بن سری بن یحییٰ بن ابی دارم کے حالات بیان کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں کہ حافظ محمد بن احمد بن حماد کوفی کی تاریخ وفات کو ذکر کرنے کے بعد اس طرح لکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ  سیدھے راستے پر چلتے تھے لیکن آخری عمرمیں سب سے زیادہ جو چیز اس کے سامنے پڑھی جاتی تھی مطاعن تھے ، میں ایک دن اس کے پاس تھا کہ ایک فرد نے اس کے سامنے اس طرح روایت بیان کی :عمر نے حضرت فاطمہ کے سینے پر ایسی لات ماری کہ آپ کے بطن میں محسن سقط ہو گئے ۔  (میزان الاعتدال،ج١،ص١٣٩،لسان المیزان ،ج١،ص٢٦٨،سیر اعلام النبلاء،ج١٥،ص٥٧٨)

مقاتل بن عطیہ

نقل کیا ہے کہ کہ جیسے ہی حضرت زہرا دروازہ کے پیچھے آئیںتاکہ عمر اور اس کے ساتھیوں کو واپس کر سکیں ،عمر نے دروازہ کو اس طرح دھکّا دیا کہ آپ کا حمل سقط ہو گیا اوردروازہ کی کیل آپ کے سینہ میں داخل ہو گئی .(موتمر علماء بغداد، ص٦٣) 

مسعودی

بیان کیاہے کہ سیدة النساء کو دروازہ کے پیچھے اس طرح دبایا گیا کہ آپ کا بچہ محسن شھید ہو گیا ۔

(اثبات الوصیہ ،ص١٤٣)

شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

آپ کی شہادت کو جہاں علما ء تشیع نے بیان کیا ہے وہیں علماء اہل سنت من جملہ ابن قتیبہ، صاحب صحاح ستہ اور دیگر علما نے بیان کیا ہے   شہادت کاسبب بھی تمام علما نے ایک ہی بیان کیا ہے اور وہ دروازہ کا گرایا جانا اور گھر کو آگ لگانا ہے اس کے لیے آپ مراجعہ کریں :

١)تاریخ طبری ، ابن جریر الطبری

٢) مصنف ابن ابی شیبہ

٣)، مروج الذہب، علامہ مسعودی

٤)الاستیعاب ، ابن عبد البر صفحہ ٣٤٥  ذکر ابوبکر بن ابی قحافہ میں

٥)، ازالة الخفا ، شاہ ولی اللہ

٦)منتخب کنز العمال ،حاشیہ مسند احمد بن حنبل جلد ٢ صفحہ ١٧٤ مطبوعہ مصر

٧)مدارج النبوة رکن ٤باب ٣صفحہ ٤٢ ، عبدالحق دہلوی

٨)تاریخ یعقوبی جلد ٢ صفحہ ١١٦

٩)الامامت والسیاست ، ابو محمد عبد اللہ بن مسلم قیتبہ متوفی ٢٧٦ھ جلد ١ صفحہ ١٢

١٠)تاریخ ابوالفدا ، امام اہل سنت عماد الدین اسماعیل بن علی ابوالفدا ۔ اردو ترجمہ از مولوی کریم الدین حنفی صفحہ ١٧٧۔١٧٩

١١)عقد الفرید ،امام شہاب الدین احمد معروف بہ ابن عبدربہ اندلسی۔ جلد ٢ صفحہ ١٧٦ مطبوعمصر

١٢)تاریخ بلاذری ،تذکرہ  بیعت حضرت ابوبکر

١٣)معجم الکبیر ،ج ١،ص ٦٢،طبرانی

١٤)فرائد السمطین،ج٢،ص٣٢۔٣٥ ،حموینی

 ١٥)موتمر علماء بغداد،ص٦٣.،مقاتل بن عطیہ

ان کتابوں کے علاوہ دیگر علما نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں حقیقت بیانی سے کام لیا ہے ہم یہاں اختصار کے ساتھ صرف  یہی چند کتب  بیان کر رہے ہیں۔

 


source : http://www.abp-ashura.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مہدویت
امام حسن(ع) کی شہادت کے وقت کے اہم واقعات
امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
خوشبوئے حیات حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ(ص) سے ...
امام باقر علیہ السلام کی شخصیت اور انکے علمی ...
حضرات آئمہ معصومین [ع]
امامت ائمۂ اطہار علیھم السلام کی نگاہ میں
حضرت علی کی شہادت اورامام حسن کی بیعت
حضرت امام حسن علیہ السلام

 
user comment