اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

حضرت زہرا و حضرت مہدي عليہما السلام

 

 

 

اشارہ: 

 

آيات، روايات و مکاشفات سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور امام مہدي عليہ السلام کے درميان بہت گہرا اور نزديکي تعلق پايا جاتا ہے، گويا کہ ان دو شخصيات کے درميان کوئي اہم راز پوشيدہ ہے۔ 

درجِ ذيل تحرير، اسي بنيادي رابطے اور ان دو نوراني شخصيات کے درميان شباہت کو بيان کرنے کي کوشش کرے گي۔ 

امام مہديٴ بي بي زہراٴ ہي کا تسلسل اور انہي کا آئينہ ہیں۔ امامٴ کے اہداف، بي بي فاطمہٴ کے مقاصد، ان کا راستہ فاطمہٴ کا راستہ اور ان کا سلوک بي بي فاطمہٴ کا سلوک ہے۔ 

جناب فاطمہٴ مہديٴ کا نام سُن کر خوش ہو جاتي تھيں اور ان کو ياد کر کے خود کو تسلي ديا کرتي تھيں۔ امام مہديٴ نہ ہوتے شہادتِ امام حسينٴ کو برداشت کرنا آپٴ کے لئے بہت دشوار ہو جاتا۔ کيونکہ اس کے بغير آپٴ کے بابا اور دوسرے تمام انبيائ کي نبوت کا کام نامکمل رہ جاتا۔ 

مہديٴ پر اعتقاد، فاطمہٴ کي معرفت کے بغير ممکن نہيں ہے۔ بي بي فاطمہٴ ايسے بيٹے پر فخر کرتي ہيں اور امامٴ بھي ايسي ماں پر افتخار کرتے ہيں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آيات و روايات ميں اس رابطے اور مشابہت اور بعض قابلِ اعتبار مکاشفات کا تذکرہ کيا جائے۔ 

امام مہديٴ بي بي فاطمہٴ کے بيٹے 

امام مہديٴ فاطمہٴ کا تسلسل اور آپٴ ہي کے فرزند ہيں۔ اس حوالے سے بعض شيعہ و سني روايات کي جانب اشارہ کرتے ہيں:(کمال الدين، منتخب الاثر)

 

شيعہ روايات: 

الف: 

قال رسول اللّٰہ: المہدي من عترتي من ولد فاطمہ۔ يقاتل عليٰ سنتي کما قاتلتُ علي الوحي۔ (عيون اخبار الرضا ج٢) 

رسول اللہ ۰ نے فرمايا: مہدي ميري عترت اور فاطمہٴ کي اولاد سے ہے، جو ميري سنت کي بنياد پر جنگ کرے گا جيسا کہ ميں نے وحي کے مطابق جنگ کي تھي۔ 

ياد رہے کہ نبي اکرم ۰ نے پہلے کلي طور پر يہي فرمايا ہے کہ مہدي ميري عترت سے ہيں اس کے بعد ''مِنْ‘‘ سے دائرہ کو تنگ کرتے ہوئے انہيں اولادِ فاطمہ زہراٴ سے بتايا ہے۔ 

ب: 

ايک اور روايت حديثِ لوح کا ايک حصہ ہے جس ميں خدا نے فرمايا: 

۔۔ و اعطي لک يا محمد! من اُخرجُ من صلبہ (يعني عليا) احد عشر مہديا، کلہم من ذريتک من البکر البتول؛ آخر رجلٍ منھم ان جيَ بہ من الہلکۃ۔۔۔ (روزگارِ رہائي ج١) 

يعني اے محمد! ميں نے تمہيں وہ ذات (علي) عطا کي ہے جس کي نسل سے گيارہ مہدي (رہنما) آئيں گے، جو سب آپ کي نسل اور زہرائے بتول سے ہوںگے۔ ان کا آخري وہ شخص ہوگا جس کے ذريعے ميں ہلاکت سے نجات عطا کروں گا۔۔۔

 

روايات اہلسنت: 

الف: 

عن ام سلمہ: قالت سمعت رسولَ اللّٰہ يقول: المہدي من عترتي من ولد فاطمہ۔ (سنن ابن ماجہ ج٤) 

امِ سلمہ فرماتي ہيں: ميں نے نبي اکرم ۰ سے سنا کہ آپ۰نے فرمايا: مہديٴ ميرے خاندان سے اور فاطمہٴ کي اولاد سے ہے۔ 

ب: 

عن الحسينٴ قال: قال رسول اللّٰہ لفاطمۃ: ابشري يافاطمہ، فانّ المہدي منکِ۔ (من ہو المہدي ) 

امام حسينٴ فرماتے ہيں کہ نبي اکرم ۰ نے حضرت زہراٴ سے فرمايا: بشارت ہو تمہيں اے فاطمہ! بے شک مہدي تم سے ہے۔

ج: 

قتادہ کہتا ہے: ميں نے سعيد سے پوچھا: کيا مہدي برحق ہے؟ کہنے لگا: ہاں، وہ حق ہے۔ ميں نے پوچھا: اس کا تعلق کس طائفے اور قبيلے سے ہوگا؟ کہنے گا: قريش سے۔ ميں نے پوچھا: قريش کے کس خاندان سے؟ بولا: بني ہاشم سے۔ ميں نے پھر سوال کيا: بنوہاشم کے کس گروہ سے؟ کہنے لگا: عبد المطلب کي اولاد سے۔ ميں نے ايک بار پھر سوال کيا: ان کے کس بيٹے سے؟ بولا: اولادِ فاطمہٴ سے۔

 

مہديٴ۔۔ فاطمہٴ کے بيان ميں 

محمود بن وليد کہتا ہے: جب نبي اکرم۰ دنيا سے رخصت ہوگئے تو بي بي فاطمہٴ شہدائے احد کي قبور کي زيارت کے لئے جايا کرتيں اور جناب حمزہ کي قبر کے پاس گريہ فرماتيں۔ ايک دن ميں نے عرض کيا: اے سيدۃ النسائ العالمين! آپ کي آہ و زاري نے ميرے دل کو پارہ پارہ کر ديا ہے۔ 

بي بي نے جواب ديا: اے ابوعمرو! مجھے گريہ کرنا چاہئے، کيونکہ بہترين باپ کے غم کا شکار ہوئي ہوں۔ آہ! ميں اپنے بابا سے ملاقات کي کس قدر مشتاق ہوں! 

ميں نے عرض کيا: کيا آنحضور۰ نے وفات سے پہلے حضرت عليٴ کي امامت کي صراحت فرمائي تھي۔ 

فرمايا: کس قدر عجيب بات ہے! کيا تم نے روزِ غدير خم کو بھلا ديا ہے؟ ! 

عرض کيا: ہاں، غدير کا دن تھا، ليکن ميں کسي ايسي بات کے انتظار ميں ہوں جو نبي اکرم ۰ نے آپ سے فرمائي ہو۔ 

بي بي فاطمہٴ نے چند بار تاکيد کے ساتھ بتايا: ميں خدا کو گواہ بنا تي ہوں کہ ميں نے سنا کہ آپ۰ نے فرمايا: علي وہ بہترين شخص ہے جسے ميں تمہارے درميان اپنے جانشيں کے طور پر چھوڑ کے جارہا ہوں۔ وہ ميرے بعد امام اور خليفہ ہے اور ميرے دو نواسے اور حسين کي اولاد ميں سے نو فرزند نيک رہنما ہيں کہ اگر تم ان کي پيروي کرو گے تو ديکھو گے کہ وہ ہدايت کرنے والے اور ہدايت يافتہ ہيں۔ اور گر تم نے ان کي مخالفت کي تو روزِ قيامت تمہارے درميان اختلاف ہوگا۔ 

ميں نے عرض کيا: اے بانوئے من! پھر عليٴ نے اپنے حق سے کنارہ گيري کيوں کرلي؟ فرمايا: اے ابوعمرو! نبي اکرم ۰ نے فرمايا: امام کي مثال کعبے کي مانند ہے، کہ لوگوں کو اس کي جانب آنا چاہئے نہ کہ وہ لوگوں کي جانب جائے گا۔ 

پھر بي بي فاطمہٴ نے فرمايا: اگر حق کو اہلِ حق کے سپرد کرديا ہوتا اور خاندان رسول۰ کي پيروي کرتے تو دو افراد بھي ايک دوسرے کي مخالفت نہ کرتے اور خلافت رسول کے ايک ايک جانشيں تک پہنچ جاتي تاآنکہ ہمارا قائم، حسينٴ کا نواں بيٹا، قيام کرتا۔ (بحار الانوار جلد ٣٦)

 

صحيفہ فاطمہ اور مہديٴ 

حديث لوح اور صحيفہ ايک طويل حديث ہے جو مختلف انداز سے روايت ہوئي ہے۔ (کمال الدين ج١، بحار الانوار جلد ٣٦) يہاں پر ہم اس کا ايک حصہ پيش کرتے ہيں: 

فقال جابر: اشہد باللّٰہ اني دخلت علي امّک فاطمہ في حياۃ الرسول۰ اھننھا بولادۃ الحسين؛ فرآيت في يدھا لوحا اخضر، ظننت انہ زمرد؛ و رآيت فيہ کتابا ابيض، شبہ نور الشمس؛ فقلت لھا: بابي و امي يا بنت رسول اللّٰہ! ما ھٰذا اللّوح؟ فقالت: ھٰذا اللّوح اھداہ اللّٰہ جل جلالہ الي رسول اللّٰہ؛ فيہ اسم ابي و اسم بعلي و اسم ابنَيّ و اسمائ الاوصيائ من ولدي؛ فاعطانيہ ابي ليبشرني بذلک۔۔۔ (از کتاب: من ھو المہدي ) 

جابر بن عبد اللہ انصاري کہتے ہيں: خدا کو گواہ قرار ديتا ہوں کہ رسول اللہ کي حيات کے دوران ايک بار ميں آپ کي والدہ بي بي فاطمہٴ کي خدمت ميں امام حسينٴ کي ولادت کي مبارکباد پيش کرنے گيا۔ ان کے ہاتھ ميں ميں نے ايک سبز رنگ کي لوح ديکھي جس کے اندر ايک سورج کي روشني جيسا سفيد اور نوراني نوشتہ ديکھا۔ ميں نے عرض کيا: اے دختر رسول اللہ! ميرے ماں باپ آپ پر فدا! يہ لوح کيسي ہے؟ فرمايا: يہ لوح خدا نے اپنے رسول۰ کو ہديہ کي ہے اور اس ميں ميرے بابا، شوہر، ميرے دو بچوں اور ميري اولاد ميں سے اوصيائ کے نام مرقوم ہيں۔ ميرے بابا نے يہ مجھے عطا کي ہے تاکہ اس سے خوش ہو جاوں۔

جابر کہتے ہيں: بي بي نے مجھے دکھائي تو ميں نے اسے پڑھا اور اس سے نسخہ بھي حاصل کيا۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحيم يہ کتاب خدائے عزيز و حکيم کي جانب سے محمد کے لئے جو کہ اُس کا نور، سفير اور حجاب ہے۔۔۔ ميں نے کسي پيغمبر کو مبعوث نہيں کيا مگر يہ کہ جب اس کا وقت پورا ہوگيا تو اس کے لئے ايک وصي قرار ديا۔ اور ميں نے تمہيں انبيائ پر فضيلت دي ہے اور تمہارے وصي کو اوصيائ ميں افضل قرار ديا ہے اور تمہيں تمہارے دو بيٹوں، تمہارے دو نواسوں، حسن و حسين کے وسيلے سے عزت دي ہے۔ حسن کو ان کے باپ کے بعد اپنے علم کا معدن اور حسين کو خازنِ وحي قرار ديا ہے اور اسے شہادت کے ذريعے کرامت دي ہے۔۔ اسي کي عترت کے واسطے سے ثواب دوں گا اور عقاب کروں گا۔ اس کا سب سے پہلا بيٹا علي‘ عابدوں کا سردار ۔۔۔ اور پھر اس کا بيٹا جو کہ اپنے جدِ محمود کے نام پر ہے؛ يعني محمد، جو کہ ميرے علم کو شگافتہ کرنے والا ہے۔۔۔ جعفر ميں شک کرنے والے ہلاک ہوجائيں گے۔ اس کے بعد اس کے بيٹے موسيٰ کو برگزيدہ کيا ہے۔۔ بے شک آٹھويں امام کو جھٹلانے والا ميرے تمام اوليائ کي تکذيب کرنے والا ہے۔۔۔ مجھ پر لازم ہے کہ ميں اس کي آنکھوں کو ايک بيٹے اور جانشين محمد سے ٹھنڈي کروں۔۔۔ اور اس کي سعادت کو اس کے بيٹے علي جو کہ ميرا ولي و ناصر ہے، پورا کروں۔۔ اس کے صلب سے حسن کو لاوں گا جو کہ ميرے راستے کي جانب بلانے والا اور ميرے علم کا خزانے دار ہے۔ اس کے بعد عالمين پر رحمت کے لئے اوصيائ کے سلسلے کو ان کے بيٹے پر مکمل کر دوں گا جو کہ کمالِ موسيٰ، جمالِ عيسيٰ اور صبرِ ايوب کا مالک ہوگا۔

 

يادِ مہديٴ ۔۔ زہراٴ کے لئے تسلي 

الف: نبي اکرم ۰ بستر مرگ پر تھے کہ جناب زہراٴ تشريف لائيں۔ بابا کي حالت ديکھ کر گريہ کرنے لگيں۔ رفتہ رفتہ ان کے رونے کي آواز بلند ہوئي تو آنحضور۰ نے سر اٹھايا اور رونے کا سبب پوچھا۔ بي بي نے عرض کيا: آپ کے جانے کے بعد دين کي تباہي اور عترت کے ضياع سے ڈرتي ہوں۔ 

اس موقع پر آپ۰ نے انہيں تسلي دي کہ تمہاري نسل سے امت کا مہدي ظہور کرے گا جو گمراہي و ضلالت کي جڑو ںکو اکھاڑ پھينکے گا۔ 

بے شمار روايات اس موضوع پر وارد ہوئي ہيں (منتخب الاثر ج٢، بحار الانوار جلد ٣٦) کہ نمونے کے طور پر ان ميں سے ايک کي جانب اشارہ کرتے ہيں: 

راوي کہتا ہے: نبي اکرم ۰ بستر وفات پر تھے اور بي بي فاطمہٴ ان کے سرہانے گريہ فرما رہي تھيں۔ اچانک رونے کي آواز بلند ہوئي تو آپ۰ نے سر کو اٹھايا اور فرمايا: اے بيٹي فاطمہ! کيوں گريہ کر رہي ہو؟ کہنے لگيں: آپ کے بعد ہمارا خيال نہ رکھے جانے اور ستم روا رکھے جانے سے خوفزدہ ہوں۔ آپ۰ نے فرمايا: 

اے پياري بيٹي! کيا تم نہيں جانتي کہ خدائے عز و جل نے اہلِ زمين پر نظر ڈالي اور ان ميں سے ميرا انتخاب کيا اور مجھے مبعوث (برسالت) کيا۔ دوسري مرتبہ نظر ڈالي، اور ان کے درميان سے تمہارے شوہر کو برگزيدہ کيا اور مجھے وحي کي کہ تمہاري شادي اس کے ساتھ کردوں۔ ہم وہ اہلبيتٴ ہيں کہ خدا نے سات ايسي خصلتيں ہميں عطا کي ہيں جو ہم سے پہلے اور ہمارے بعد کسي کو نہيں ديں۔ ميں خاتم الانبيائ، کريم ترين پيغمبر اور خدا کے نزديک مخلوق ميں سب سے محبوب ہوں۔ اور ميں تمہارا بابا ہوں اور ميرا وصي اوصيائ ميں بہترين اور خدا کے نزديک محبوب ترين ہے اور وہ تمہارا شوہر ہے۔ ہمارے شہيد شہدائ ميں بہترين اور خدا کے نزديک محبوب ترين ہيں اور وہ تمہارے بابا اور تمہارے شوہر کے چچا حمزہ ہيں۔ اور ہم ہي ميں وہ شخص بھي ہے جس کو جنت ميں دو پر عطا ہوئے ہيں اور وہ فرشتوں کے 

ساتھ پرواز کرتے ہيں۔ اور وہ تمہارے بابا کے چچازاد اور تمہارے شوہر کے بھائي (جعفر) ہيں۔ اور ہمارے خاندان سے ہيں اس امت کے سبطين اور وہ تمہارے دو بيٹے حسنٴ اور حسينٴ ہيں جو جوانانِ جنت کے سردار ہيں اور ان کا باپ ان دونوں سے بہتر ہے۔ اے فاطمہ! اس ذات کي قسم جس نے مجھے مبعوث بہ رسالت کيا، انہي دونوں سے اس امت کا مہدي بھي ہے۔ جب دنيا پر افراتفري چھا جائے گي اور فتنے آشکار ہو جائيں گے، راستے بند کر ديئے جائيں گے، اور بعض لوگ بعض لوگوں کو برباد کر ديں گے، نہ بڑا چھوٹے پر رحم کرے گا اور نہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے گا ، اس وقت خدائے متعال کسي کو بھيجے گا جو گمراہي کے قلعوں اور بلنديوں کو نيز بند ہو جانے والے دلوں کو فتح کرے گا۔۔ (کشف الغمہ ج ٣، بحار الانوار ج ٥١) 

ب: امام حسينٴ کي ولادت کے موقع پر ہي بي بي زہرا ٴکو اطلاع دي جاتي ہے کہ حسينٴ کو شہيد کر ديا جائے گا ۔ جناب زہراٴ دل گرفتہ ہو جاتي ہيں اور رونے لگتي ہيں۔ ليکن بعد ميں خبر آتي ہے کہ اس امت کا مہدي ٴآپٴ ہي کي ذريت سے ہوگا۔ 

اس حوالے سے متعدد روايات ہيں (کامل الزيارات، بحار الانوار ج٤٣ و٤٤) جن ميں سے نمونے کے طور پر دو روايات پيش کي جارہي ہيں۔ 

امام جعفر صادقٴ نے فرمايا:بي بي فاطمہٴ رسول اللہ ۰ کے پاس تشريف لائيں؛ ديکھا کہ آپ۰ کي آنکھوں سے اشک جاري ہيں۔ پوچھا: گريہ کا سبب کيا ہے؟ فرمايا: جبرئيلٴ نے مجھے اطلاع دي ہے کہ ميري امت حسينٴ کو قتل کردے گي۔ جناب زہراٴ بھي گريہ و زاري کرنے لگيں اور يہ بات ان پر بہت گراں گزري يہاں تک کہ نبي اکرم ۰ نے انہيںبتايا کہ ان کا ايک بيٹا اقتدار حاصل کرے گا؛ اس کے بعد وہ خوش اور خاموش ہوگئيں۔ (کامل الزيارات، بحار الانوار ج ٤٤) 

ايک اور روايت ميں امام جعفر صادقٴ فرماتے ہيں: جبرئيلٴ نبي۰ پر نازل ہوئے اور عرض کيا: خدا آپ کو سلام پہنچاتا ہے اور بشارت ديتا ہے کہ فاطمہ ٴسے آپ کا ايک بيٹا ہوگا، ليکن آپ کي امت آپ کے بعد اسے قتل کردے گي۔۔ اور آپ کو يہ بشارت ديتا ہے کہ اس کي اولاد ميں امامت، ولايت اور وصايت قرار دوں گا۔ اس کے بعد آپ۰ نے کسي کو فاطمہٴ کے پاس بھيجا کہ خدا نے مجھے ايک بچے کي بشارت دي ہے جو تجھ سے ہوگا، ليکن ميري امت ميرے بعد اسے قتل کردے گي۔۔ اور خدا اس کي اولاد ميں امامت، ولايت اور وصايت قرار دے گا۔۔۔ (کامل الزيارات، بحار الانوار ج ٤٤)

 

مہديٴ کے لئے اسوہ حسنہ۔۔۔ فاطمہٴ 

امام مہديٴ نے فرمايا: 

۔۔ في ابنۃ رسول اللّٰہ لي اسوۃ حسنۃ۔ 

رسول اللہ کي دختر ميں ميرے لئے اسوہ حسنہ ہے۔۔ (بحار الانوار ج ٥٣) 

نمونہ عمل بنانا اور مناسب نمونہ عمل کا تعارف کروانا، اندازِ زندگي طے کرنے اور کمالات و مقاماتِ معنوي کي جانب رہنمائي کرنے کے لئے اسلام کا ايک طريقہ ہے ۔ خداوند متعال قرآن ميں نمونہ عمل کے حوالے سے سورہ احزاب آيت ٢١ ميں ارشاد فرماتا ہے: لقد کان لکم في رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ۔ نيز سورہ ممتحنہ کي آيت ٦ ميں ارشاد ہوتا ہے: قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ في ابراہيم و الذين معہ۔۔لقد کان فيہم اسوۃ حسنۃ۔ ان آيات ميں حضرت ابراہيمٴ، حضرت محمد۰ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں، انہيں اسوہ حسنہ قرار ديا گيا ہے۔ 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسوہ حسنہ صرف نبي اکرم ۰ اور حضرت ابراہيم عليہ السلام کي ذات ميں محدود نہيں ہے بلکہ جو بھي پورے طور پر ان کے راستے پر ہو وہ اسوہ حسنہ بن سکتا ہے۔ 

لہذا امام زمانہٴ کا جناب فاطمہٴ کو اسوہ حسنہ قرار دينا اس حوالے سے ہے کہ آپٴ و الّذين معہ ميں شامل ہيں۔ آپٴ وہ ذات ہيں جو سيرت و صورت ميں حتيٰ کہ گفتار و رفتار ميں بھي نبي اکرم ۰ کي شبيہ ہيں۔ اس کي دليل وہ متعدد آيات و روايات ہيں جسے شيعہ و سني تمام مسلمانوں نے نقل کيا ہے۔ ہم ذيل ميں دو کا ذکر کرتے ہيں: 

الف: 

عن عائشہ: مارآيت احداً اشبہ سمتا و دلاً و ہدياً و حديثاً برسول اللّٰہ في قيامہ و قعودہ من فاطمہ۔ ميں نے چلنے ميں، سکون و وقار ميں، سيرت ميں، بولنے ميں، کھڑے ہونے اور بيٹھنے ميں فاطمہ سے زيادہ کسي کو رسول اللہ سے مشابہ نہيں پايا۔ (فاطمہ بہجۃ قلب المصطفيٰ) 

ب: 

وہ روايات کہ جن ميں آپ۰ نے بي بي زہرا سے وہ مشہور جملہ فرمايا کہ بے شک اللہ تيرے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور تيري خوشي پر خوش۔ جس نے اسے اذيت دي اس نے مجھے اذيت دي اور جس نے اسے تکليف پہنچائي اس نے مجھے تکليف پہنچائي۔ (فاطمہ بہجۃ قلب المصطفيٰ) 

آپٴ نبي اکرم ۰ کا مکمل آئينہ ہيں اور آپٴ کا ايمان کمال کي انتہائ پر ہے۔ 

نبي اکرم ۰ نے جناب سلمان۱ سے فرمايا: اے سلمان اللہ نے ميري بيٹي فاطمہ کے دل اور اعضائ کو ہڈيوں کے نرم حصوں تک ايمان سے لبريز کر ديا ہے کہ وہ خدا کي عبادت کے لئے ہر چيز سے فراغت حاصل کرليتي ہے۔ (فاطمہ بہجۃ قلب المصطفيٰ)

 

سورہ قدر ميں بي بي فاطمہٴ اور حضرت مہديٴ 

امام صادقٴ نے فرمايا: ''انا انزلنٰہ في ليلۃ القدر‘‘ ميں ''ليلۃ‘‘ سے مراد فاطمہ ہيں اور قدر سے مراد خدا۔ لہذا جو شخص جناب زہراٴ کو کماحقہ پہچان لے تو اس نے ليلۃ القدر (کے فضائل) کو درک کرليا۔ اور ان کا نام فاطمہ رکھا گيا کيونکہ لوگ انہيں پہچان نہيں سکتے۔ (بحار الانوار جلد ٤٣) 

اسي حديث ميں آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے: 

امام صادقٴ فرماتے ہيں: ''ليلۃ القدر خير من الف شہر ‘‘ يعني وہ ہزار مومنوں سے بہتر ہيں۔ وہ مومنوں کي ماں ہيں۔ ''تنزل الملٰئکۃ ‘‘ يہاں ملائکہ سے مراد مومنين ہيں جو علوم آلِ محمد کو سيکھتے ہيں اور ''روح القدس‘‘ سے مراد جناب فاطمہٴ ہيں۔ اور ''حتيٰ مطلع الفجر ‘‘ يعني اس وقت تک جب ''قائم‘‘ ظہور فرمائيں۔ (تفسير فرات) 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان روايات ميں جناب زہرا سلام اللہ عليہا کي جو تشبيہ ليلۃ القدر سے دي گئي ہے اس کي مختصر وضاحت کر دي جائے۔ 

يہ شباہت چند پہلووں سے ہے: 

١۔ لوگوں نے شبِ قدر کي منزلت، عظمت اور مقام کو نہيں پہچانا ہے اسي طرح سے جناب فاطمہٴ کي قدر و منزلت بھي لوگوں سے پوشيدہ ہے۔ نيز آپٴ کي قبر کے مقام سے بھي کوئي واقف نہيں ہے۔ 

٢۔ جس طرح سے شبِ قدر ميں امور کو جدا جدا کيا جاتا ہے، اسي طرح سے فاطمہٴ کے وسيلے سے بھي حق و باطل اور مومن و کافر کے درميان جدائي ڈالي جاتي ہے۔ 

٣۔ جس طرح سے شبِ قدر ميں آيات اور سورتيں نازل ہوئي ہيں اسي طرح جناب زہرا امامت و مصحف کا ظرف ہيں۔ 

٤۔ شبِ قدر انبيائ و اوليائ کي معراج ہے؛ اسي طرح سے ولايتِ جنابِ زہراٴ انبيائ کے نبوت، رسالت و عظمت تک پہنچنے کا مقام ہے ''ما تکاملت النبوۃ لنبي حتي اقر بفضلھا و محبتھا ‘‘ 

٥۔ جس طرح سے شبِ قدر فيض و کمالات کا سرچشمہ ہے؛ اسي طرح سے جناب فاطمہ زہراٴ خيرات و برکات و دفعِ بليات کا وسيلہ ہیں۔ 

٦۔ شبِ قدر ايک ہزار راتوں سے بہتر ہے اور جناب زہراٴ اولين و آخرين کي عورتوں ميں برترين ہيں؛ بلکہ وہ اہلِ زمين ميں شرافت و کرامت کے اعتبار سے بہترين ہيں۔ 

ان ميں سے بعض پہلووں کي تائيد کے طور پر ايک تفصيلي روايت کو اختصار کے ساتھ پيش کرتے ہيں۔ مرحوم کليني۲ نقل کرتے ہيں: 

ايک نصراني جو کہ حقيقت کا متلاشي تھا، امام موسيٰ کاظمٴ کي خدمت ميں شرفياب ہوا اور بعض سوالات پيش کئے۔ ان ميں سے ايک بات يہ بھي تھي: 

مجھے اس کتاب کي خبر ديجئے جو محمد ۰ پر نازل ہوئي اور آپ۰نے اسے پڑھا اور اس کے بارے ميں بعض صفات بيان فرمائيں۔ ان ميں سے ايک صفت يہ بھي ہے کہ ''حٰم۔ روشن اور واضح کتاب کي قسم! بے شک ہم نے اس کو ايک مبارک رات ميں نازل کيا۔ بے شک ہم ہي ڈرانے والے ہيں؛ اس دن ميں ہر مستحکم امر جدا ہو جائے گا‘‘۔ اس کي باطن ميں حقيقي تفسير کيا ہے؟ 

امام نے فرمايا: ''حٰم ‘‘ سے مراد حضرت محمد ۰ ہیں (پہلا ميم اور آخري دال حذف ہوگيا ہے)۔ اور ''کتاب مبين‘‘ سے مراد امير المومنين عليٴ ہيں اور '' ليلہ‘‘ سے مرادبي بي فاطمہٴ ہيں۔ اور يہ جو فرمايا کہ ''اس رات ميں ہر مستحکم امر جدا ہو جاتا ہے‘‘ يعني جناب فاطمہٴ سے بہت سي خبريں اٹھيں گي اور پھر مردِ حکيم اور پھر مردِ حکيم۔ (سوگند بہ نورِ شب تاب) 

جناب زہراٴ و امام مہدي کے درميان مشابہت 

ان دو عظيم ہستيوں کے درميان اسمائ و صفات کے حوالے سے متعدد مشابہتيں پائي جاتي ہيں۔ 

١۔ جناب زہرا سلام اللہ عليہا بقيۃ النبوۃ اور امام مہديٴ بقيۃ الانبيائ، بقيۃ الصفوۃ، سلالۃ النبوۃ اور بقيۃ اللّٰہ ہيں۔ 

الف: جناب زہراٴ بقيۃ النبوۃ ہيں: 

بي بي زہراٴ نے خطبہ فدک دينے کے بعد گھر آکر گفتگو فرمائي۔ اس وقت امير المومنين نے آپ کو اس لقب سے ياد فرمايا: ياابنۃ الصفوۃ و بقيۃ النبوۃ ۔ (بحار الانوار جلد ٨) 

ب: امام مہديٴ بقيۃ الانبيائ ہيں: 

جناب حکيمہ خاتون امام زمانہٴ کے تولد کي حديث بيان کرتے ہوئے فرماتي ہيں: ''ميں انہيں لے کر امام عسکريٴ کي خدمت ميں پہنچي؛ فرمايا: ''بولو اے حجۃ اللّٰہ اور بقيۃ الانبيائ اور نور الاصفيائ اور غوث الفقرائ اور نور الاتقيائ۔۔۔ چنانچہ وہ بولے: اشہد ان لاالہ الا اللّٰہ و ۔۔۔ (نجم الثاقب) 

اس روايت کے مطابق امام عسکريٴ نے آپٴ کو بقيۃ الانبيائ کے لقب سے ياد کيا ہے۔ 

ج: امام مہديٴ بقيۃ الاصفيائ اور عترت رسول۰ ہيں: 

استغاثہ امام مہديٴ کي دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ہم کہتے ہيں: سلام اللّٰہ الکامل التامّ الشامل العامّ۔۔۔ علي ۔۔۔۔۔ سلالۃ النبوۃ و بقيۃ العترۃ و الصفوۃ صاحب الزمان (مفاتيح الجنان) يعني درودِ خدا ہو اس ذات پر جو عترت اور برگزيدہ افراد کا بقيہ ہيں۔ 

د: امام مہديٴ سلالۃ النبوۃ ہيں: 

گذشتہ دعا ميں آپ نے ملاحظہ کيا کہ امامٴ سے استغاثہ کرنے کے بعد سلالۃ النبوۃ پر درود بھيجا گيا ہے۔ 

ھ: امام مہديٴ بقيۃ اللہ ہيں: 

متعدد روايات کے مطابق امام مہديٴ بقيۃ اللہ ہيں۔ ذيل ميں ہم بعض روايات کي جانب اشارہ کريں گے: 

١۔ عمران بن داہر کہتے ہيں: ايک شخص نے امام صادقٴ سے عرض کيا: کيا ہم امام قائمٴ کو امير المومنين کہہ کر درود بھيج سکتے ہيں اور يہ کہہ سکتے ہيں کہ السلام عليک ياامير المومنين۔ امام نے فرمايا: نہيں! يہ صرف امير المومنين عليٴ کے لئے مخصوص ہے؛ کہ خدا نے آپٴ کو يہ نام ديا ہے۔ کسي اور کو ہرگز يہ نام نہيں دياجاسکتا۔ 

اس نے پوچھا: پھر ہم ان پر کس طرح سلام بھيجيں؟ تو فرمايا: السلام عليک يا بقيۃ اللّٰہ۔ اس کے بعد امامٴ نے سورہ ہود کي آيت ٨٦ کي تلاوت فرمائي کہ: بقيت اللّٰہ خير لکم ان کنتم مومنين۔ (بحار الانوار جلد٥٢) 

٢۔ قم کي مشہور شخصيت، احمد بن اسحق، جو کہ گيارہويں امام‘ حسن عسکريٴ کے وکيل بھي تھے، کہتے ہيں: ميں امام عسکريٴ کي خدمت ميں پہنچا تاکہ ان سے ان کے جانشين اور اگلے امام کے بارے ميں پوچھوں۔ ميرے سوال کرنے سے پہلے ہي امامٴ نے فرمايا: اے احمد بن اسحق! خدا نے جس دن سے آدمٴ کو خلق کيا، اس دن سے روزِ قيامت تک زمين کو حجت سے خالي نہيں چھوڑا ہے اور نہ چھوڑے گا؛ بلکہ ہميشہ خدا کي حجت زمين پر رہے گي؛ کہ اللہ تعاليٰ اس کے وسيلے سے اہلِ زمين پر سے بلاوں کو دور کرے گا اور اسي کي برکت سے بارش برسائے گا اور اسي کي خاطر زمين کي برکتيں باہر نکالے گا۔ 

ميں نے عرض کيا: تو آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ 

امامٴ (جواب ديئے بغير) تيزي سے اٹھے اور ايک کمرے ميں چلے گئے۔ جب آپٴ تشريف لائے تو ايک بچے کو لئے ہوئے تھے جس کي صورت چودھويں کے چاند کي مانند تھي اور عمر تقريباً تين سال تھي۔ امامٴ نے مجھ سے فرمايا: اگر خدا کي بارگاہ اور اس کي حجتوں کے سامنے تمہاري منزلت نہ ہوتي تو تمہيں اپنے بيٹے کي زيارت نہ کراتا۔ 

ميں نے عرض کيا: کيا کوئي ايسي علامت ہے جس سے مزيد مطمئن ہو جاوں اور ميرا دل پُرسکون ہو جائے؟ 

ناگہاں حجتِ خدا نے بازبانِ فصيح فرمايا: انا بقيۃ اللّٰہ في ارضہ و المنتقم من اعدائہ و لاتطلب اثراً بعد عين يا احمد بن اسحق۔۔۔ ميں زمين پر بقيۃ اللہ ہوں، دشمنان خدا سے انتقام لينے والا ہوں۔ اور اے احمد بن اسحق! ديکھنے کے بعد نشاني طلب نہ کرو۔ (روزگارِ رہائي) 

٣۔ امام جعفر صادقٴ سے منقول ہے کہ سب سے پہلي بات جو امام زمانہٴ اپني زبان پر لائيں گے وہ يہ آيت ہوگي ''بقيت اللّٰہ خير لکم ان کنتم مومنين‘‘ پھر فرمائيں گے: ميں بقيۃ اللہ ہوں، ميں تم پر اللہ کي حجت اور اللہ کا خليفہ ہوں۔ پھر زمين پر رہنے والا کوئي مسلمان انہيں سلام نہيں کرے گا مگر اس عبارت کے ساتھ کہ السلام عليک يا بقيۃ اللّٰہ في ارضہ۔(نجم الثاقب) 

٤۔ امام علي نقيٴ امام مہديٴ کے اوصاف بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: وہ اتحاد پيدا کرے گا، نعمتوںکو کامل کرے گا۔ اللہ تعاليٰ اس کے ہاتھوں سے حق کو پابرجا اور باطل کو نابود کرے گا۔ وہ تمہارا مہدي منتظر ہے۔ پھر اس آيت کي تلاوت فرمائي: ''بقيت اللّٰہ خير لکم ان کنتم مومنين‘‘ پھر فرمايا: خدا کي قسم بقيۃ اللہ (يعني واحد حجت خدا جو اب تک باقي ہے) وہي ہيں۔ (الزام الناصب) 

٢: جناب زہراٴ سيدۃ النسائ اور امام مہديٴ سيد الخلق ہيں: 

الف: جناب زہراٴ سيد ۃالنسائ ہيں: 

نبي اکرم ۰ نے متعدد مقامات پر اپني دختر کو يہ لقب ديا ہے؛ چنانچہ ابن عباس نقل کرتے ہيں کہ حضور۰ نے فرمايا: ميري بيٹي فاطمہ، اولين و آخرين ميں تمام جہانوں کي عورتوں کي سردار ہيں۔ (بحار الانوار جلد ٣٨) 

ب: امام مہديٴ سيد الخلق ہيں: 

سيد الخلق کا لقب امام علي رضاٴ نے اپنے اس بيٹے (امام مہديٴ) کو عطا کيا ہے۔ حسن بن شاذان کہتا ہے: ميں نے امام رضاٴ کو ايک خط لکھا جس ميں اہلِ واسط (جو کہ عثماني تھے) کي جانب سے اپنے اوپر تکليف و اذيت کي شکايت کي۔ امامٴ نے اپنے دستِ مبارک سے جواب تحرير فرمايا: خدا نے ہمارے دوستوں سے يہ عہد ليا ہے کہ حکومت باطل پر صبر کريں۔ تم بھي صبر کرو (اور پريشان نہ ہو) جب سيد الخلق قيام فرمائيں گے تو دشمن کہيں گے: ''وائے ہو ہم پر! کس نے ہميں ہماري قبروں سے نکالا ہے؟ يہ وہي ہے جس کا خدا نے وعدہ ديا تھا۔ اور اللہ کے بھيجے ہوئے افراد درست کہتے تھے۔‘‘ (سورہ يٰس ) (فروعِ کافي) 

علامہ مجلسي مرحوم کہتے ہيں: سيد الخلق سے مراد قائم (عليہ السلام) ہيں۔ پس دشمنانِ اہلبيتٴ اس زمانے ميں رجعت کريں گے اور مومنينٴ ا ن سے انتقام ليں گے۔ پس دشمن کہيں گے: ''يا ويلنا۔۔۔‘‘ (مرآۃ العقول) 

٣: جناب زہراٴ طاہرہ اور امام مہديٴ طاہر ہيں: 

الف: جناب زہراٴ طاہرہ ہيں: 

يہ بات آيتِ تطہير سے بھي معلوم ہوتي ہے اور آنحضرت۰ نے بھي بي بي کو يہ لقب ديا ہے۔ اسمائ بنت عميس سے منقول ہے کہ آپ۰ نے فرمايا: اما علمتِ ان ابنتي طاہرۃ مطہرۃ۔ کيا تم نہيں جانتي ہو کہ ميري بيٹي پاک و پاکيزہ (طاہرہ و مطہرہ) ہے۔ (ذخائر العقبيٰ) 

آيت تطہير بھي آپٴ کے رجس سے پاک ہونے پر ايک اور دليل ہے۔ انما يريد اللّٰہ ليذہب عنکم الرجس اہل البيت و يطہرکم تطہيراً۔ (سورہ احزاب) 

اہلسنت و اہل تشيع کے اجماع کے مطابق يہ آيت پنجتن پاک کي شان ميں نازل ہوئي ہے۔ (فاطمۃ من المہد الي اللحد) 

ب: امام مہديٴ طاہر ہيں: 

امام مہديٴ کو طاہر کا لقب رسولِ اکرم ۰ نے ديا ہے۔ چنانچہ ايک حديث ميں ارشاد ہوتا ہے: اللہ تعاليٰ نے امام حسن (عسکري) کے صلب ميں ايک مبارک اور پاک و پاکيزہ نطفہ قرار ديا ہے کہ ہر مومن کہ جس سے خدا نے ولايت کا عہد ليا ہے، وہ اس سے خوش ہوگا اور منکر اس کا انکار کرے گا۔ وہ ايسا امام ہے جو پرہيزگار بھي ہے، پاکيزہ بھي ہے، ہادي بھي ہے اور مہدي بھي ہے۔۔۔ (بحار الانوار جلد ٥٢) 

ايک اور روايت ميں امام صادقٴ فرماتے ہيں: جب آخر الزمان آجائے اور فتنے کھڑے ہو جائيں، تو تم اپنے گھروں کے فرش بن جاو؛ يہاں تک کہ صاحبِ غيبت طاہر بن مطہر ظاہر ہو جائيں۔۔ (بحار الانوار جلد ٥٢) 

اور زمانِ غيبت ميں جس دعا کے پڑھنے کا حکم ہے، اس ميں آيا ہے: ۔۔۔ وَ زِدْ في کرامتک لہ۔ فانہ الھادي ۔۔۔ الطاہر التقي النقي الزکي الرضي المرضي الصابر المجتہد الشکور۔۔۔ (کمال الدين۔ مفاتيح الجنان) خدايا! ان کے لئے اپنے لطف و کرم ميں اضافہ فرما؛ کہ وہ ہادي ہيں ۔۔۔ پاک، باتقويٰ، پاکيزہ، منزہ، صاحبِ مقامِ رضا و خوشنوديِ خدا، صابر و شاکر ہيں۔۔۔ 

٤: جناب زہراٴ مبارکہ و امام مہديٴ مبارک ہيں: 

الف: جناب زہراٴ مبارکہ ہيں: 

مبارک کا لفظ برکت سے ليا گيا ہے جس کے معني رشد و زيادتي کے ہيں۔ مبارک يعني وہ چيز جس سے خوبياں زيادہ صادر ہوں۔ (لسان العرب) 

جناب زہراٴ کو اس لئے مبارک کہا جاتا ہے کہ وہ کوثر (انا اعطيناک الکوثر ) ہيں۔ جيسا کہ فخر رازي نے اپني تفسير ميں کہا ہے: اس سے مراد صديقہ طاہرہ فاطمہ زہراٴ ہيں۔ (تفسير کبير) اور صاحب مجمع البيان علامہ طبرسي فرماتے ہيں: کوثر نسل اور فرزند ميں زيادتي ہے؛ چنانچہ بي بي فاطمہ زہراٴ اور ان کي اولاد سے رسول اللہ ۰ کي نسل اتني بڑھي کہ ناقابلِ شمار ہوگئي۔ علامہ طباطبائي ۲ مرحوم فرماتے ہيں: جو کوثر اللہ تعاليٰ نے نبي اکرم ۰ کو عطا فرمايا ہے اس سے مراد صرف ذريت رسول۰ کي کثرت ہے، يا اس سے مراد خير کثير ہے اور کثرتِ ذريت خير کثير کے ضمن ميں مراد ہے۔ اور اگر اس کے علاوہ کوئي اور معني ليں گے تو ان شانئک ہو الابتر کے ذريعے کلام کو استحکام دينے کا معاملہ بے فائدہ ہو کر رہ جائے گا۔ (تفسير الميزان) 

ب: امام مہديٴ مبارک ہيں: 

جو القاب نبي اکرم ۰ نے امام مہديٴ کے لئے بتائے ہيں، ان ميں ايک لقب مبارک بھي ہے۔ نبي اکرم۰ ايک حديث ميں آخري زمانے کے حالات کي منظر کشي کرتے ہوئے فرماتے ہيں: يہ پريشانياں اس زمانے کے لوگوں کو ستاتي رہيں گي؛ يہاں تک کہ مايوس او رنااميد ہو جائيں گے اور يہ تصور کرنے لگيں گے کہ اب خدا ان سے پريشانيوں کو کبھي دور نہيں کرے گا۔ اس وقت خدا ميرے فرزندوں ميں سے ايک فرزند کو اور ميري عترت ميں سے پاک ترين شخص کو اٹھائے گا جو سراپا عدل، برکت (مبارک) اور پاکيزگي ہوگا۔(الملاحم و الفتن۔ روزگارِ رہائي) 

٥: جناب زہراٴ زکيہ اور امام مہديٴ زکي ہيں: 

زکوٰۃ کے معني زيادتي اور اضافہ يا خباثتِ نفس، کينہ، بخل، حسد اور ہر قسم کي ظاہري اور باطني کثافت سے پاکيزگي کے ہيں۔ (جنۃالعاصمۃ) 

الف: جناب زہراٴ زکيہ ہيں: 

مبارکہ کے ذيل ميں اس کا ذکر کيا جاچکا ہے۔ 

ب: امام مہديٴ زکي ہيں: 

جو القاب اللہ کے آخري رسول۰ نے امام مہديٴ کو ديئے ہيں، ان ميں سے ايک زکي بھي ہے۔ اس کي روايات کو ہم پہلے بيان کر چکے ہيں۔ 

اس کے علاوہ حضرت عليٴ نے معاويہ کو لکھے جانے والے ايک خط ميں امام مہديٴ کو يہ لقب ديا ہے۔ 

تيري نسل کا ايک مرد منحوس اور ملعون ہے ۔۔ جو مدينہ کي جانب ايک لشکر بھيجے گا۔۔ اور ميري نسل سے آنے والا ايک پاک و پاکيزہ (زکي) مرد ان سے دور ہوگا اور زمين کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔۔۔ (غيبت شيخ طوسي) 

٦۔ جناب زہراٴ طيبہ اور امام مہديٴ طيب ہيں: 

الف: جناب زہراٴ طيبہ ہيں: 

مرحوم سيد بن طاوس معصومين عليہم السلام کي خدمت ميں ہديہ نماز کي فضيلت کي روايت بيان کرنے کے بعد فرماتے ہيں: ہر معصوم کي خدمت ميں نمازِ ہديہ کے بعد يہ دعا پڑھے۔۔ جو نماز جناب زہراٴ کي خدمت ميں ہديہ کي جاتي ہے اس کے بعد کہتے ہيں کہ يہ دعاپڑھيں: 

اللھمَّ اِنَّ ھاتَينِ الرَّکْعَتَيْنِ ہَدِيّۃ¾ منّي الي الطاہرۃ المطھرۃ الطيّبۃ الزکيّۃ فاطمۃ۔ اللّھُمّ ۔۔۔ وَ اَثِبْنِي عَليھِما اَفْضَلَ اَمَلي وَ رَجائِي فِيْکَ وَ في نبيّکَ (صلوات اللّٰہ عليہ و آلہ) وصيّ نبيّک و الطيبۃ الطاہرۃ فاطمۃ۔۔۔ (جمال الاسبوع) 

ب: امام مہديٴ طيب ہيں: 

تيسري اور چوتھي مشابہت کے ذيل ميں اس کي روايات گذر چکي ہيں۔ 

٧۔جناب زہراٴ مطہرہ اور امام مہديٴ مطہر ہيں: 

اس پر دلالت کرنے والي روايات تيسري مشابہت کے ذيل ميں بيان ہوچکي ہيں۔ 

٨۔جناب زہراٴ تقيہ اور امام مہديٴ تقي ہيں: 

الف: جناب زہراٴ تقيہ ہيں: 

بي بي زہراٴ تقويٰ کي بلنديوں پرفائز ہيں۔ بي بي کي زيارت ميں آيا ہے کہ: السلام عليکِ ايتھا التقيۃ النقيۃ (مفاتيح الجنان) ايک اور زيارت ميں آيا ہے: اللھمَّ صلِّ علي البتول الطاہرۃ الصديقۃ المعصومۃ التقيۃ النقيۃ الرضيۃ المرضيۃ الزکيۃ الرشيدۃ المظلومۃ المقہورۃ۔ (مفاتيح الجنان) 

ب: امام مہديٴ تقي ہيں: 

تيسري مشابہت کے ذيل ميں اس حوالے سے روايت نقل ہوچکي ہے۔ 

٩۔ جناب زہرا نقيہ اور امام مہديٴ نقي ہيں: 

اس بات کي جانب اشارہ کرنے والي روايات تيسري، پانچويں اور آٹھويں مشابہت کے ذيل ميں بيان کي جاچکي ہيں۔ 

١٠۔ جناب زہراٴ محدثہ اور امام مہديٴ محدث ہيں: 

الف: جناب زہراٴ محدثہ ہيں: 

دس سے زائد روايات اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ فرشتے جناب زہراٴ پرنازل ہوتے تھے اور ان سے گفتگو کيا کرتے تھے ؛اسي لئے آپٴ کو محدثہ کہا جاتا تھا۔ ان ميں سے بعض روايات کو نقل کرتے ہيں: 

امام صادقٴ سے مصحف فاطمہٴ کے بارے ميں پوچھا گيا۔ امامٴ نے طويل سکوت کے بعد فرمايا: تم لوگ ہر چيز کے بارے ميں سوال کرتے ہو۔ زہراٴ جناب رسول۰ کے بعد ٧٥ دن سے زيادہ زندہ نہ رہيں۔ اپنے بابا کو کھو کر بہت پريشان اور افسردہ تھيں؛ اسي لئے جبرئيل ٴ ان کے پاس آتے، ان کو تسليت ديتے اور ان کي تسلي کا باعث بنتے، اس کے علاوہ انہيں آئندہ کے حالات بھي بتايا کرتے تھے اور حضرت عليٴ انہيں لکھ ليا کرتے تھے۔ يہي تحريريں مصحفِ فاطمہ ہے۔ (بحار الانوار جلد ٤٣) 

امام صادقٴ يہ بھي فرماتے ہيں: بے شک فاطمہٴ کو اس لئے محدثہ کہا گيا کہ آسمان سے ملائکہ ان پر نازل ہوتے تھے۔ پس جس طرح سے بي بي مريمٴ سے خطاب کرتے تھے، ان (بي بي فاطمہٴ) سے بھي بات کي اور بولے: اے فاطمہ! خدا نے آپ کو تمام عالم کي عورتوں پر برگزيدہ کيا اور پاکيزہ قرار ديا۔ (علل الشرائع) 

ب: امام مہديٴ محدث ہيں: 

اس حوالے سے دو قسم کي روايات ملتي ہيں: ايک قسم وہ ہے جس ميں بتايا گيا ہے کہ تمام ائمہ عليہم السلام محدث ہيں اور دوسري قسم ان روايات کي ہے جو اس بات پر دلالت کرتي ہيں کہ امام مہديٴ محدث ہيں۔ 

عام روايات: 

قال رسول اللّٰہ: من ولدي اثنا عشر نقيباً، نجبائ محدثون مفہمون آخرھم القائم بالحق۔ (اصول کافي) 

نبي اکرم ۰ نے فرمايا: ميري اولاد ميںسے بارہ نقيب ہيں۔ وہ سب نجيب، محدث، سمجھائے گئے ہيں۔ ان ميں سے آخري قائم بہ حق ہے۔ 

امام باقرٴ فرماتے ہيں: بارہ محدث ہم ميں سے ہيں؛ جن ميں سے ميرا ساتواں بيٹا قائم ہے۔ (کشف الغمہ) 

امام محمد تقيٴ امير المومنين عليٴ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہيں: حضرت عليٴ نے ابنِ عباس سے فرمايا: شبِ قدر ہر سال ہوتي ہے (يعني صرف رسول اللہ کے زمانہ حيات سے اس کاتعلق نہيں ہے) اس رات ميں پورے سال کے امور نازل ہوتے ہيں۔ اس مقصد کے لئے رسول اللہ ۰ کے بعد بعض حضرات والي ہيں۔ ابنِ عباس نے پوچھا: وہ کون ہيں؟ حضرت عليٴ نے فرمايا: ميں اور ميرے گيار ہ بيٹے، کہ سب امام اور محدث ہيں۔(اصول کافي) 

ايک روايت ميں امام جعفر صادقٴ سورہ قدر کي آيت تنزل الملٰئکۃ والروح کي تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں: يعني ملائکہ اور روح پروردگار کي جانب سے محمد و آلِ محمد پر نازل ہوتے ہيں۔ (تفسير برہان) 

امام باقرٴسے سوال پوچھا گيا: کيا آپ شبِ قدر سے واقف ہيں؟ 

فرمايا: ہم کيسے اس کو نہ جانيں کہ ملائکہ اس رات ميں ہمارے گرد طواف کرتے رہتے ہيں۔ (تفسير قمي) فرشتے اور عظيم فرشتہ جو کہ روح ہے، ان کے ارد گرد منڈلاتے ہيں اور ان پر نازل ہوتے ہيں اور ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہيں۔ 

خصوصي روايات: 

امام علي رضاٴ امام زمانہ کي صفات بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں: وہ سب سے زيادہ صاحبِ علم، سب سے زيادہ صاحبِ حکمت، سب سے بڑھ کر صاحبِ تقويٰ، بردبارترين، سخاوت ميں سب سے آگے اور تمام لوگوں سے زيادہ عبادتگزار ہيں، کہ وہ پيچھے کي جانب بھي اسي طرح ديکھ سکتے ہيں جيسے آگے کي جانب ديکھتے ہيں۔ ان کا سايہ بھي نہيںہے۔ ان کي آنکھيں تو سو جاتي ہيں ليکن ان کا دل ہميشہ بيدار رہتا ہے اور فرشتے ان کے ساتھ باتيں کرتے ہيں۔ (الزام الناصب) 

اسي طرح امام محمد تقي عليہ السلام امام زمانہ کي سيرت کے حوالے سے فرماتے ہيں: وہ کوفہ ميں داخل ہوں گے اور وہاں کے جنگجووں کو قتل کريں گے يہاں تک کہ خدا راضي ہو جائے گا۔۔۔ راوي کہتا ہے کہ ميں نے پوچھا: انہيں کس طرح معلوم ہوگا کہ خدا ان سے راضي ہو گيا ہے؟ فرمايا: خدا نے حضرت موسيٰ کي والدہ کو وحي فرمائي تھي (سورہ قصص ۔٧) اور مہديٴ تو بہرحال مادرِ موسيٰ سے بہتر ہيں اور خدا نے شہد کي مکھي کو وحي کي (سورہ نحل۔ ٦٨) تو وہ تو شہد کي مکھي سے بہتر ہيں۔(حليۃ الابرار) 

نويں امام ان دو آيات سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہيں کہ خدا امام زمان پر وحي کرے گا۔ البتہ اس وحي سے مراد، وہ اصطلاحي وحي (يعني نبوت کا دعويٰ کرنے والے پر حضرت جبرئيل ٴ کا نازل ہونا) نہيں ہے۔ 

١١۔ جناب زہرا اور امام مہدي دونوں چمکتے ستارے ہيں: 

الف: جناب زہراٴ کوکب دري (چمکتا ستارہ) ہيں: 

ابوہاشم عسکري نے امام حسن عسکري سے سوال کيا: جناب فاطمہٴ کو زہرا کيوں گيا؟ 

امام نے فرمايا: بي بي فاطمہٴ کا چہرہ امير المومنينٴ کے لئے نور افشاني کرتا تھا؛ ابتدائے دن ميں چمکتے سورج کي مانند، ظہر کے وقت ماہِ منير کي طرح اور غروب کے وقت چمکتے ستارے کي مثل۔(بحار الانوار) 

حديثِ مفاخرہ (جس ميں امير المومنين عليٴ اور جناب فاطمہ زہراٴ اپنے اپنے فضائل بيان کرتے ہيں) ميں جناب زہراٴ نے اپنے آپ کو کوکب دري¾ (چمکتا ستارہ) کہا ہے۔ (جنۃ العاصمہ) 

امام صادقٴ فرماتے ہيں: سورہ نور کي آيت ٣٥ ميں کآنّھا کوکب¾ دري¾ گويا فاطمہٴ زمين کي عورتوں کے درميان کوکب دري (چمکتا ستارہ) ہیں۔(تفسير قمي) 

ب: امام مہدي کوکب دري ہيں: 

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: مہدي ميري اولاد ميں سے ہے، جس کا چہرہ گويا چمکتا ستارہ ہے۔ (کشف الغمہ) 

نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم معراج کے دوران اپنے مشاہدات کو بيان کرتے ہوئے کہتے ہيں: خدا نے بارہ ائمہ کے انوار مجھے دکھائے اور فرمايا: اے محمد! اپنا سر اٹھاو۔ ميں نے سر اٹھايا تو ائمہ کا نور ديکھا۔ ان کے درميان محمدبن حسنٴکا نور زيادہ منور تھا اور چہرہ گويا چمکتے ستارے کي مانند نور افشاني کر رہا تھا۔ ميں نے عرض کيا: خدايا! يہ کون ہيں اور يہ نور کس کا ہے؟ خطاب ہوا: يہ تمہارے بعد امام ہيں، تمہارے صلب سے ہيں، پاک ہيں۔ اور يہ شخص جو چمک رہا ہے، يہ وہ حجت ہے جو زمين کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور مومنين کے دل کو شفا دے گا۔ (بحار الانوار جلد ٣٦) 

١٢۔ جناب زہراٴ منصورہ اور امام مہديٴ منصور ہيں: 

الف: جناب زہراٴ منصورہ ہيں:

 

بي بي فاطمہ زہراٴ کي توصيف ميں آيا ہے کہ وہ ميمونہ، منصورہ، جميلہ، جليلہ اور معظمہ ہيں۔ (جنۃ العاصمہ) 

جو آيات جناب زہراٴ و امام مہديٴ کے لئے تاويل ہوئي ہيں ان ميں سے ايک سورہ روم کي چوتھي آيت ہے: يومئذ يفرح المومنون بنصر اللّٰہ ينصر من يشائ و ھو العزيز الرحيم۔ امام صادقٴ نبي اکرم سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت جبرئيل ٴ اللہ تعاليٰ کي جانب سے ايک سيب بطورِ ہديہ لے کر آئے اور کہا کہ اس سيب کو کھا ليں۔ پھر اس کے دو حصے کئے، اس ميں سے ايک نور بلند ہوا۔ نبي اکرم۰ نے پوچھا: يہ نور کيسا ہے؟ جبرئيلٴ نے بتايا: يہ نور آسمان ميں منصورہ اور زمين ميں فاطمہ ہے۔ ميں نے کہا: ميرے حبيب! اسے آسمانوں پر منصورہ اور زمين پر فاطمہ کيوں کہا جاتا ہے؟ کہنے لگے: اسے زمين ميں فاطمہ اس لئے کہتے ہيں کہ وہ اور اس کے شيعہ آگ سے اور اس کے دشمن اس سے محبت کرنے سے روک ديئے گئے ہيں۔ 

اور آگے چل کر عرض کيا :اور وہ آسمان پر منصورہ ہے۔ چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: و يومئذ يفرح المومنون بنصر اللّٰہ۔ يعني جب اللہ تعاليٰ فاطمہ کے چاہنے والوں کي مدد کرے گا۔ اس دن اور ظہور کے دن وہ اور ان کے شيعہ خوش ہوں گے۔ 

امام صادقٴ ابوبصير کے سوال کے جواب ميں کہ جس نے آلم غلبت الروم کي تفسير پوچھي تھي، فرمايا: وہ بنو اميہ ہيں۔ اورمومنين حضرت مہدي کے قيام کے وقت اللہ کي مدد سے خوش اور مسرور ہوں گے۔ (تفسير برہان) 

قابلِ ذکر ہے کہ اس دنيا سے گزر جانے والے مومنين بھي اس قيام سے خوش ہوں گے۔ امام صادقٴ نے فرمايا: يومئذ يفرح المومنون بنصر اللّٰہ۔ يعني جو صاحبانِ ايمان قبر ميں ہوں گے وہ قائمٴ کے قيام سے خوش ہوں گے۔ پس جو دن مومنين کي نجات اور ان کي کاميابي کا ہوگا اور خدا کي نصرت ان کے شامل حال ہوگي، وہ مومنين کے لئے خوشي و سرور کا ہوگا۔ (بحار الانوار) 

ب: امام مہديٴ منصور ہيں: 

خدا نے امام مہديٴ کو منصور کہا ہے۔ و من قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليہ سلطانا فلا يسرف في القتل انہ کان منصوراً۔ (سورہ بني اسرائيل ۔ ٣٣) 

روايات ميں يہ آيت امام حسينٴ اور امام مہديٴ کے بارے ميں تاويل ہوئي ہے۔ چنانچہ امام باقرٴ نے فرمايا: حسينٴ مقتول و مظلوم ہيں۔ خدا نے مہدي کو منصور کا نام ديا ہے جيسا کہ(نبي کو) احمد و محمد و محمود اور عيسيٰ (عليہ السلام) کو مسيح کا نام دياہے۔ (بحار الانوار جلد ٥١) 

زيارتِ عاشورائ ميں آيا ہے: ميں خدا سے چاہتا ہوں کہ ہميں توفيق دے کہ ہم منصور امام (يعني امام مہديٴ) کے ساتھ حسينٴ کا انتقام لے سکيں۔ (مفاتيح الجنان) 

نيز امام محمد باقرٴ فرماتے ہيں: ہمارا قائم دشمنوں کے دل ميں رعب و دبدبے اور تائيد (الہي) سے منصور (جس کي مدد کي گئي ہو) ہے۔ (کشف الغمہ) 

دعائے ندبہ ميں ہم پڑھتے ہيں: اين المنصور علي من اعتديٰ عليہ و افتريٰ۔ (مفاتيح الجنان) کہاں ہے وہ جس کي مدد کي گئي ہے (يعني وہ منصور ہے) اس کے مقابلے ميں جس نے اس پر تجاوز کيا اور اس پر افترائ باندھا۔ 

١٣۔ جناب زہراٴ صديقہ اور امام مہديٴ صادق ہيں: 

الف: جناب زہراٴ صديقہ ہيں: 

نبي اکرم ۰ نے حضرت عليٴ سے فرمايا: ميں نے کچھ باتيں اپني بيٹي فاطمہ سے کہي ہيں اور حکم ديا ہے کہ تمہيں بتا ديں؛ انہيں نافذ سمجھنا۔ وہ بہت سچي ہے۔ (فھي الصادقۃ الصدوقۃ ) پھر بي بي زہراٴ کو اپنے سينے سے لگايا، سر کو بوسہ ديا اور فرمايا: تمہارا بابا تم پر قربان ہو، اے فاطمہ! (بحار الانوار جلد ٢٢) 

مفضل کہتا ہے: ميں نے امام صادقٴ سے عرض کيا: فاطمہٴ کو کس نے غسل ديا؟ فرمايا: عليٴ نے۔۔ 

پھر فرمايا: گويا تمہيں يہ سن کر پريشاني ہو رہي ہے! 

عرض کيا: ہاں! ميں آپ کے قربان جاوں۔ 

امام نے فرمايا: پريشان نہ ہو! وہ صديقہ ہيں۔ صديقہ کو صديق کے علاوہ کوئي غسل نہيں دے سکتا۔ کيا تم نہيں جانتے کہ مريمٴ کو سوائے عيسيٰ کے کسي نے غسل نہيں ديا۔ (وسائل الشيعہ) 

نبي اکرم ۰ نے حضرت عليٴ سے فرمايا: تمہيں تين چيزيں دي گئي ہيں جو مجھے بھي نہيں دي گئيں۔ ايک تو يہ کہ تمہاري زوجہ کا باپ مجھ جيسا ہے اور تمہاري زوجيت کے لئے ميري بيٹي جيسي صديقہ تمہيں دي گئي ہے۔۔۔ (فاطمہ بہجت قلب المصفطيٰ) 

قابلِ ذکر ہے کہ مخالفين بھي اعتراف کرتے ہيں کہ وہ صديقہ ہيں۔ چنانچہ جب بي بي نے خطبہ فدک ديا تو خليفہ اول نے کہا: ۔۔ اے بہترين خاتون اور اے بہترين نبي کي بيٹي آپ اپني بات ميں سچي ہيں۔۔۔ اور کوئي چيز ايسي نہيں ہے جو آپ کوسچائي سے روکے ۔۔۔ خدا اور اس کے رسول سچے ہيں اور دخترِ رسول۰ بھي سچي ہيں۔ (بحار الانوار جلد ٤٣) 

ب: امام مہديٴ صديق ہيں: 

وہ پرچمِ محمدي اور حکومت احمدي کو ظاہر کرے گا جب کہ اس کے ہاتھ ميں تلوار ہوگي، گفتار ميں سچا ہوگا، زمين کو زندگي کا گہوارہ بنائے گا اور احکامِ اسلامي (سنت ہوں يا فرض) کو زندہ کرے گا۔ (الزام الناصب) 

١٤۔ جناب زہراٴ صابرہ اور امام مہديٴ صابر ہيں: 

الف: جناب زہراٴ صابرہ ہيں: 

جنا ب زہراٴ کي زيارت ميں ہم پڑھتے ہيں: يا ممتحنۃ امتحنک اللّٰہ الذي خلقک قبل ان يخلقک؛ فوجدک لما امتحنک صابرۃ۔۔۔ (مفاتيح الجنان) اے وہ ذات جس کا خدا نے خلقت سے پہلے امتحان ليا؛ پس آپ کو امتحان ميں صابر پايا ۔۔۔ 

ب: امام مہديٴ صابر ہيں: 

غيبتِ امام زمانٴ کے دوران پڑھي جانے والي دعا ميں آيا ہے: فانہ الھادي۔۔ الصابر المجتہد الشکور۔۔۔ (مفاتيح الجنان) 

حديث لوح ميں آيا ہے کہ: عليہ کمال موسيٰ و بہائ عيسيٰ و صبر ايوب۔۔۔ (کمال الدين) 

اس بات کي تائيد ميں ايک فقيہ و مرجع بزرگوار نقل کرتے ہيں کہ ميرا موردِ اعتماد ايک شخص عالمِ خواب ميں امام مہديٴ کي خدمت ميں شرفياب ہوا ۔ ديکھا کہ ايک رقعہ آپٴ کے سينے پر ہے، جس پر مرقوم ہے: انا صابر علي ھٰذا الامر و لٰکن اندبوني، اندبوني، اندبوني۔ ميں اس معاملے ميں صبر کروں گا ليکن گريہ و زاري کے ساتھ۔ مجھ پر بلند آواز سے گريہ کرو، مجھ پر بلند آواز سے گريہ کرو، مجھ پر بلند آواز سے گريہ کرو۔ (راہي بسويِ نور) 

١٥۔ جناب زہراٴ معصومہ اور امام مہديٴ معصوم ہيں: 

الف: جناب زہراٴ معصومہ ہيں: 

حضرت فاطمہ زہراٴ کي عصمت آيت تطہير اورمتعدد روايات سے بخوبي معلوم ہوجاتي ہے (فاطمہ بہجت قلب المصطفيٰ) اور ان کي زيارت ميں بھي ہم پڑھتے ہيں: السلام عليکِ ايتھا المعصومۃ المظلومۃ۔ (اقبال سيد بن طاوس) اور يہ بھي پڑھتے ہيں کہ: اللھمّ صلِّ علي محمد و اھل بيتہ و صلِّ علي البتول الطاہرۃ الصديقۃ المعصومۃ۔۔۔ (مفاتيح الجنان) 

ب: امام مہديٴ معصوم ہيں: 

زيارت جامعہ کبيرہ ميں تمام ائمہٴ، منجملہ امام مہديٴ، سے خطاب کرتے ہوئے عرض کرتے ہيں: و اشھد انکم الائمۃ الراشدون المہديون المعصومون المکرمون المقربون۔۔۔ (مفاتيح الجنان) ميں گواہي ديتا ہوں کہ آپ سب امام ہيں، رشد يافتہ، ہدايت يافتہ، معصوم، صاحبانِ کرم اور مقرب بارگاہِ الہي ہيں۔۔۔ 

ائمہ طاہرين کي عصمت کي دليليں امام مہديٴ کي عصمت پر بھي دلالت کرتي ہيں۔ 

١٦۔ جناب زہراٴ مظہرِ آيتِ نور اور امام مہديٴ نورِ آلِ محمد ہيں: 

الف: جناب زہراٴ آيت نور ہيں: 

سورہ نور کي آيت ٣٥ کے لئے روايات ميں چند تاويليں بيان کي گئي ہيں۔ ان ميں سے ايک ميں جناب زہراٴ کو مشکوٰۃ (چراغدان) قرار ديا گيا ہے۔ امام صادقٴ نے فرمايا: اللّٰہ نور السمٰوات و الارض مثل نورہ کمشکوٰۃ۔ مشکوٰۃ فاطمہ ہيں۔ فيھا مصباح۔ مصباح حسن و حسين ہيں۔ في زجاجۃ۔ الزجاجۃ کانھا کوکب درّيّ¾۔ اہلِ زمين اور اہلِ دنيا کي عورتوں ميں بي بي فاطمہ کوکب دري (چمکتا ستارہ) ہيں۔۔ (اصول کافي) 

ب: امام مہديٴ نورِ آلِ محمد ہيں: 

سيد بن طاوس کہتے ہيں: نمازِ ظہر کي اہم باتوں ميں سے ايک يہ ہے کہ امام جعفر صادقٴ کي طرح امام مہديٴ کے لئے دعا کريں۔ راوي کہتا ہے: ميں نے امام صادقٴ کي دعا ختم ہونے کے بعد عرض کيا: کيا ايسا نہيںہے کہ آپ نے خود اپنے لئے دعا کي ہے؟ فرمايا: (نہيں!) ميں نے نورِ آلِ محمد (عليہم السلام) کے لئے دعا کي ہے جو ان کو آگے لے جانے والا اور حکمِ خدا سے ان کے دشمنوں سے انتقام لينے والا ہے۔۔ (فلاح المسائل) 

١٧۔ جناب زہراٴ اور امام مہديٴ دونوں فريادرسي کرنے والے ہيں: 

الف: جناب زہراٴ فريادرسي کرتي ہيں: 

علامہ مجلسي۲ روايت کرتے ہيں کہ اگر تمہيں کوئي حاجت پيش آجائے اور تمہارا دل اس کي وجہ سے سخت اضطراب ميں ہو تو دو رکعت نماز پڑھو اور سلامِ نماز کے بعد تين تکبير کہو اور تسبيحاتِ جناب زہراٴ پڑھو، پھرسجدے ميں جاو اور سو مرتبہ کہو: يَامَوْلاتِي يَافَاطِمۃُ اَغِيْثِيْني۔ پھر داياں رخسار زمين پر رکھو اور اسي جملے کو سو مرتبہ کہو۔ پھر سجدے ميں جاو اور اسي کو سو مرتبہ دہراو۔ اس کے بعد باياں رخسار زمين پر رکھ کر يہ جملہ سو مرتبہ بولو اور پھر سجدے ميں جاکر ايک سو دس مرتبہ اس جملے کي تکرار کرو اور اپني حاجت کو ياد کرو؛ بے شک خدا اس کو بر لائے گا انشائ اللہ! (بحار الانوار جلد ١٠٢) 

نوٹ: علامہ مجلسي۲ نے حضرت زہراٴ کي نمازِ استغاثہ کو ايک اور طرح سے بھي نقل کيا ہے۔ (بحار الانوار جلد ١٠٢) 

ب: امام مہديٴ فرياد رسي کرتے ہيں: 

زيارت آلِ ياسين ميں آيا ہے: السلام عليک ايھا العَلَم المنصوب و العِلم المصبوب الغوث و الرحمۃ الواسعۃ۔۔ (مفاتيح الجنان) سلام ہو آپ پر اے لہراتے پرچم اور اے بہتے ہوئے (دريائے) علم اور اے فرياد رس اور اے رحمت واسعہ۔۔ 

اس کي تائيد يہ ہے کہ قطب الدين راوندي ابو الوفائ شيرازي سے نقل کرتے ہيں کہ ميں ابن الياس کے قيدخانے ميں گرفتار تھا۔ اس نے مجھے قتل کرنے کا فيصلہ کيا ہوا تھا۔ ميں نے امام زين العابدينٴ سے توسل کيا۔ مجھ پر نيند کا غلبہ ہوا اور ميں نے نبي اکرم ۰ کے پاک وجود کي زيارت کي۔ آپ۰ نے مجھے ائمہ طاہرين سے توسل کرنے کا عملي حکم ديا اور فرمايا: مجھ سے، ميري بيٹي سے اور ميرے دو بچوں سے دنياوي معاملات ميں توسل نہ کيا کرو۔ البتہ ميرا بھائي عليٴ تم پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے گا اور امام سجادٴ بادشاہوں اور شيطانوں کے شر سے نجات کے لئے اور امام باقرٴ و امام صادقٴ آخرت کے لئے اور امام کاظم ٴ طلبِ عافيت کے لئے اور امام رضاٴ بري و بحري سفر ميں نجات کے لئے اور امام محمد تقي ٴ خدا کي جانب سے نزولِ رزق کے لئے اور امام علي نقي ٴ نوافل کي قضا اور دوستوں کے ساتھ نيکي کے لئے اور امام عسکريٴ آخرت کے لئے اور اگر تلوار تيرے مقامِ ذبح تک پہنچ جائے (آنحضور۰ نے ہاتھ سے گلے کي جانب اشارہ کيا) تو امام مہديٴ کي پناہ لے لو؛ بے شک وہ تمہاري فرياد رسي کريں گے؛ کيونکہ وہ فرياد رس ہيں، جو ان سے استغاثہ کرے اس کے لئے پناہ ہيں۔ پس يوں کہو: يامولاي ياصاحب الزمان! اَنَا اَسْتَغِيْثُ بِکَ۔ (نجم الثاقب) اے ميرے مولا! اے زمانے کے والي! ميں آپ کي پناہ ميں آگيا ہوں اور آپ سے فرياد رسي چاہتا ہوں۔ 

شيرازي کہتے ہيں: پس ميں نے يہ کہا تو ناگہاں ايک شخص آسمان سے نازل ہوا جو گھوڑے پر سوار تھا اور اس کے ہاتھ ميں ايک نوراني اسلحہ تھا۔ ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! جو مجھے تکليف دے رہا ہے اس کے شر کو دور کردیں۔ فرمايا: اس کے شر کو برطرف کرديا ہے۔ تمہارا کام کرديا ہے۔ ميں نے تمہارے لئے خدا سے دعا کي تو خدا نے ميري دعا قبول کرلي۔ 

اگلي صبح ابن الياس نے مجھے بلوايا اور اپنے ہاتھوں سے ميري زنجيريں کھوليں اور مجھے آزاد کرتے ہوئے پوچھا: تم نے کس کي پناہ لي تھي اور کس سے مدد چاہي تھي؟ ميں نے عرض کيا: اس کي پناہ چاہي تھي جو فرياد کرنے والوں کا فرياد رس ہے۔ (الدعواتِ راوندي) 

نوٹ: رسول اللہ ۰ نے فرمايا کہ وہ ہر پناہ چاہنے والے کي پناہ گاہ ہيں اور ہر ايک کي فريادرسي کرتے ہيں۔ صرف شيعوں کے لئے پناہ گاہ اور فريادرس نہيں ہيں۔ کتنے ہي ايسے غير شيعہ ہيں جنہوں نے آپٴ سے استغاثہ کيا تو آپٴ نے فريادرسي کي۔ اس حوالے سے متعدد واقعات نقل ہوئے ہيں؛ ان ميں سے ايک ذکر کرتے ہيں: 

عالم فاضل و رباني ميرزا حسين نوري نقل کرتے ہيں کہ ميرزاي بزرگ شيرازي کے شاگرد شيخ علي رشتي نقل کرتے ہيں: ميں فرات کے راستے سے ايک بار امام حسينٴ کي زيارت سے نجف واپس آرہا تھا۔ کربلا اور طويرج کے درميان ايک چھوٹي سي کشتي ميں سوار ہوا۔ (کشتي کے) مسافر حلہ کے رہنے والے تھے اور مزاح ميں مصروف تھے۔ سوائے ايک شخص کے جو اگرچہ ان کے ساتھ کھاتا تھا اور ان کا ہمسفر تھا ليکن وہ لوگ اس کے مذہب پر اعتراض کرتے اور اس کي مذمت کرتے تھے، ليکن وہ پورے وقار کے ساتھ بيٹھا تھا اور کوئي مذاق نہيں کر رہا تھا۔ يہ صورتحال ديکھ کر ميں متعجب تھا، يہاں تک کہ ايک ايسے مقام پر پہنچے کہ جہاں پاني کم تھا اور ہم مجبوراً نيچے اتر گئے۔ نہر کے کنارے چلتے ہوئے ميں نے اس سے پوچھا: ان لوگوں سے دور کيوں رہتے ہو اور وہ تمہارے مذہب پر طنز کيوں کرتے ہيں؟ کہنے لگا: يہ لوگ شيعہ نہيں ہيں اور ميرے رشتہ دار ہيں۔ ميرے والد بھي انہي ميں سے ہيں ليکن ميري والدہ شيعہ ہيں۔ ميں امام مہديٴ کي برکت سے شيعہ ہو چکا ہوں۔ ميں نے اس کے شيعہ ہونے کا واقعہ دريافت کيا تو بولا: ميرا نام ياقوت ہے، ميں روغن فروش ہوں۔ ايک سال ميں صحرا نشينوں سے روغن خريدنے نکلا۔ واپسي پر ايک منزل پر ہمارے قافلے نے پڑاو ڈالا اور ميں سو گيا۔ جب بيدار ہوا تو ديکھا کہ سب جا چکے ہيں اور ميں بے آب و گياہ صحرا ميں اکيلا رہ گيا ہوں جہاں درندے بھي بہت ہيں۔ ميں چل پڑا ليکن راستہ بھول بيٹھا اور حيران و سرگرداں ہوگيا۔ دوسري جانب سے درندوں اور پياس سے بھي پريشان تھا۔ اس موقع پر ميں نے اپنے بزرگوں سے مدد طلب کي اور شفاعت چاہي تاکہ خدا ميرے لئے راستہ نکال دے؛ ليکن کوئي فائدہ نہ ہوا۔ ميں نے سوچا کہ ميري والدہ کہتي ہيں کہ ہمارا ايک زندہ امام ہے جس کي کنيت اباصالح ہے۔ وہ گمشدہ کو راستہ دکھاتا ہے، پريشان حال کي مدد کرتا ہے اور کمزوروں کا مددگار ہے۔ ميں نے خدا سے عہد کيا کہ اب ميں اس سے استغاثہ کروں گا۔ اگر اس نے مجھے نجات دے دي تو ميں والدہ کا مذہب قبول کرلوں گا۔ پس ميں نے اس کو آواز دي اور اس سے پناہ چاہي۔ ناگہاں ميں نے اپنے نزديک کسي کو پايا جس نے سبز عمامہ پہن رکھا تھا اور ميرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اس نے مجھے حکم ديا کہ والدہ کا مذہب قبول کرلوں؛ اس نے مجھ سے کہا کہ جلد ہي ايک آبادي تک پہنچ جاو گے جہاں سب ہمارے ماننے والے ہيں۔ ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! کيا آپ ميرے ساتھ آبادي ميں نہيں آئيں گے؟ فرمايا: نہيں! کيونکہ ايک ہزار لوگوں نے مجھ سے مدد طلب کي ہے، مجھے ان سب کي مدد کرني ہے۔ پھر اچانک وہ غائب ہوگئے۔ کچھ دير چلنے کے بعد ميں ايک آبادي ميں پہنچ گيا حالانکہ وہ اتني دور تھي کہ ميرے ہمسفر اگلے روز وہاں پہنچے۔ ميں حلہ پہنچتے ہي سيد الفقہائ سيد مہدي قزويني کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا انہيں سنايا۔ انہوں نے مجھے احکام اور مسائلِ ديني بتائے۔ ميں نے ان سے پوچھا: کونسا عمل انجام دو ںکہ دوبارہ امامٴ کي خدمت ميں پہنچ سکوں؟ کہا کہ چاليس شبِ جمعہ تک زيارت امام حسينٴ کے لئے جاو۔ ٣٩ ويں بار زيارت کے لئے جارہا تھا کہ شہر کربلا کے دروازے پر موجود سپاہي شناختي دستاويز مانگنے لگے۔ ميرے پاس کوئي شناختي کاغذات نہيں تھے۔ کئي مرتبہ لوگوں کے درميان سے چوري چھپے نکلنے کي کوشش کي ليکن کامياب نہيں ہوسکا۔ اچانک ميري نظر دروازے کے اندر کي جانب گئي تو ديکھا کہ شہر کے اندر امام زمانہٴ موجود ہيں۔ ميں نے ان سے مدد چاہي تو وہ باہر آئے اور مجھے لے کر اندر چلے گئے اور کسي نے مجھے ديکھا تک نہيں۔ شہر ميں داخل ہونے کے بعد ميں نے انہيں نہيں ديکھا اور اب تک ان کے فراق ميں حسرت و تاسف کرتا ہوں۔ (بحار الانوار جلد ٥٣) 

اس کے علاوہ بھي جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور امام مہدي عليہ السلام کے درميان متعدد مشابہتيں پائي جاتي ہيں، ليکن اختصار کي وجہ سے انہي پر اکتفائ کيا جارہا ہے۔


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 
user comment