اردو
Wednesday 17th of July 2024
0
نفر 0

عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا

 

انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا 

اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حضرت زھرا علیھا السلام طاہرہ اور معصومہ ہیں ہر قسم کے گناہ اور لغزش سے پاک ہیں ، ہم اس نوشتہ میں حضرت زھرا علیہا السلام کی عصمت کو فریقین کی کتابوں سے ثابت کریں گے لیکن ضروری نہیں کہ ہر انسان ہماری تحریر سے متفق ہو لیکن بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انصاف اور تعصب سے دور رہتے ہوئے ہماری تحریر کا ملاحظہ کیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر نیک اختر حضرت زھرا ۖ جناب مریم اور دیگر معصوم خواتین کی طرح درجہ عصمت پر فائز ہیں ، اور جنت کی خواتین کی سرداری کا شرف بھی اسی بی بی طاہرہ معصومہ زکیہ راضیہ ، مرضیہ ، بتول کو حاصل ہے ۔ 

ہمارے نزدیک متواتر احادیث سے حضرت زھرا ۖ کی عصمت ثابت ہے اور متعدد روایات میں حضرت زھرا ۖ کی فضیلت اور عظمت کوبیان کیا گیا ہے اور دوسرے فریق کے بزرگ اور جید علماء کا اتفاق ہے کہ آیہ تطھیر حضرت زھرا ۖ اور اہل بیت کی عصمت اور طہارت پر دلالت کرتی ہے ۔ ہم آئندہ کی سطور میں انہیں مسائل پر گفتگو ، اور دلائل ذکر کرینگے دور اندیش ، موحد ، حکماء ، محققین اور بر جستہ فقہا ء کے بقول؛ اس دنیا اور آخرت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اس دنیا میں ظاہری شکل و صورت اور ظاہری حسن ، سیرت اور کردار کے مقابلہ میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے ، ممکن ہے کہ ایک انسان ظاھراً عام انسان کی طرح ہو لیکن باطن میں درندہ صفت ہو ، لہذا ظاھری شکل و صورت کے اعتبار سے عام انسانوں میں کوئی فرق نہیں ۔ ( ہاں بعض خوبصورت اور بعض بد صورت لیکن ظاھرا ً سب انسان ہیں ۔ )

لیکن آخرت کا نظام دنیا کے نظام کے بالکل بر عکس ہے بعض افراد کے بارے میں خدا وند متعال فرماتا ہے ۔و غشرھم یوم القیامة علی وجوھھم عمیا بکما و صما ۔ یعنی قیامت کے دن ہم انہیں اوندھے منہ ، اندھے گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے ۔ 

اور بعض افراد کے متعلق فرماتا ہے ۔ وجوہ یو مئذ ٍ ناضرة الی ربھا ناظرة ۔ بہت سے چہرے اس روز شاداب ہونگے وہ اپنے رب ( کی رحمت ) کی طرف دیکھ رہے ہونگے ۔ 

اور اسی طرح ان ہستیوں کے چہرے شاداب ہونگے جنہوں نے فرمایا : انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نریدمنکم جزاء ولا شکورا ۔ (اہل بیت علیہم السلام فقراء سے فرماتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے خاطر کھلا رہے ہیں ۔ ہم تم سے نہ کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکر گذاری کے خواہاں ہیں ۔ 

ذلک الیوم الحق ۔ قیامت کا دن بر حق ہے ۔ الملک یو مئذ للہ ۔ اس دن فقط اللہ کی بادشاہی ہوگی ۔ 

عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صادق ، مصدق ، اور امین ہیں ، یعنی نہ تو کبھی جھوٹ بولا ، اور نہ ہی کبھی اللہ کے اوپر جھوٹی تہمت باندھی ، اور ان کی صداقت و امامت ، کی گواہی قرآن نے بڑے واضح الفاظ میں بیان فرمادی ۔ ارشاد رب العزت ہے ۔ 

وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ وہ وہی بولتے ہیں جو وحی بولتی ہے ۔ 

اسی طرح قرآن کی دیگر آیات بھی ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پیروی کا حکم بھی دیتی ہیں ۔ 

اب ہم ان مقدمات کی روشنی میں حضرت محمد مصطفی ۖ کی ایک حدیث کو نقل کرتے ہیں اور پھر یہ بیان کرینگے کہ یہ حدیث کیسے ہمارے دعوی کی دلیل بن سکتی ہے ۔ 

تحشر ا بنتی فاطمة و علیھا حلة الکرامة قد عجنت بماء العیوان ، فینظر الیہا الخلائق فیتعجبون منھا ، ثم تکسی ایضا من حلل الجنة الف حلة ، مکتوب علی کل حلة بخط اخضر ، ادخلو ا بنت محمد الجنة علی احسن الصورة و احسن الکرامة ، و احسن فنظر ……(١) 

میری بیٹی فاطمہ ۖ قیامت کے دن با وقار لباس میں ملبوس وارد محشر ہونگی ، ایسا لباس جو آب حیات سے بنا ہوا ہو گا ۔ تمام لوگ اس منظر کو دیکھ کر تعجب میں پڑ جائینگے ، پھر حضرت زھرا ۖ کو ہزاروں بہشتی حلوں سے مزین کیا جائے گا ، ہر حلہ پر سبز رنگ سے یہ عبارت مرقوم ہوگی اے محمد بن عربی کی دختر نیک اختر ، بہترین صورت ، باوقار انداز اور خوش نما منظر کے ساتھ بہشت میں داخل ہو جائیں ۔

اور قیامت جیسے برحق دن ممکن نہیں کہ خدا کی عدالت کے نظام میں ذرا برابر تبدیلی واقع ہو ، اور انسان کو جو صورت عطا ہو گی وہ اس کے دنیاوی اعمال کا نتیجہ ہو گی ۔ پس اس شخص کو انتہائی خوبصورت ، کامل ترین ، اور مثالی صورتسے نوازا جائے گا ، جو پاکیزہ ، کامل ، اور مثالی سیرت اور نیک کردار کا مالک  اس دنیا میں )رہا ہو ۔ 

پس اگر انسان عملی اعتبار سے سب سے بہتر اخلاق سے آراستہ افراد میں سب سے بر تر اور عملی میدان میں سب سے بڑھ کر نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اسے قیامت کے دن سب سے بہترین صورت میں لایا جائے ۔ 

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میں یہ فرمانا کہ فاطمة بضعة منی ۲) فاطمہ میرا ٹکڑا ہے 

و فاطمة روحی التی بین جنبی ، مبالغہ آرائی نہیں ہے ۔ ( حضرت زھرا ۖ کی عظمت ہمارے ناقص اذھان میں سما ہی نہیں سکتی ۔

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عائشہ اس حیرت انگیز تشبیہ جو حضرت زھرا ۖ اور رسول خدا ۖ میں پائی جاتی تھی ، کی طرف متوجہ ہوئیں تو بت ساختہ کہہ دیا ، میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، جو سیرت ، صورت ، گفتارر ،کردار میں حضرت زھرا ۖ سے زیادہ رسول پاک سے مشابہ ہو (٣)

اور جب حضرت عائشہ کو اندازہ ہوا کہ حضرت زھرا ۖ کی رسول پاک کے نزدیک کیا قدر و منزلت ہے تو روایت کی کہ جب حضرت زھرا تشریف لاتیں ، پیغمبر ۖ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے ،بیبی حضرت زھرا کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے ۔اور اپنی مسند پر بٹھاتے (۴) 

جب اکثر اوقات حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کے حق میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وطیرہ تھا تو یہ احترام اس شخصیت کے لئے سزاوار ہے جو ایک لحظہ بھی حق سے جدا نہ ہو ، اور یہ رتبہ عصمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔

اب ہم کچھ ایسے دلائل ذکر کرتے ہیں جن سے حضرت زھرا علیہا السلام کی عصمت ثابت ہوتی ہے ۔

(۴) آیت تطہیر : انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ترجمہ :

اس آیت مبارکہ میں اہل بیت سے کیا مراد ہے ، اسکو واضح کرنا ضروری ہے ، چنانچہ اس میں چند احتمال پائے جاتے ہیں ۔ 

(١) اہل بیت سے مراد فقط ازواج مطہرات ہوں کیونکہ آیت کے تمام خطابات انھیں کے متعلق ہیں 

(٢) ازواج مطہرات اور حضرت محمد ۖ حضرت علی حضرت فاطہ ۖ اور امام حسن و امام حسین مراد ہوں 

(٣) فقط پنجتن مراد ہوں 

قرطبی کہتا ہے آیت کریمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اہل بیت جس میں ازواج اور غیر ازواج تمام شامل ہیں اور ( ویطہرکم ) اس لئے استعمال ہوا کہ افراد کی تعداد غالب ہے اور جب مذکر و مؤنث جمع ہو جائیں تو مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے (۴) 

اور فخر الدین رازی بھی اسی قول پر متفق ہے (۵) 

مگر ہمارا فریضہ یہ ہے کہ آیت کریمہ کے متعلق جستجو کریں تاکہ معلوم ہو جائے کہ آیات کے الفاظ اور معانی کس حد تک ان کے دعوی کو ثابت کرتے ہیں آیت کے شروع میں کلمہ ٫٫ انما ،، ذکر ہوا ہے ، جو اپنے بعد والے کلام کو ثابت اور غیر کی نفی کرتا ہے ، اور اس انداز سے کلام میں استحکام اور پختگی پیدا ہو جاتی ۔

ہے جیسا کہ کلمہ توحید ہے ۔ لا الہ (نفی ) الا اللہ اثبات ہے ۔ پس آیہ کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ، تطہیر ( پاک کرنا ) اور پلیدی سے دور ی میں منحصر ہے ۔ اور کلمہ اہل بیت ،کو جس معنی میں بھی استعمال کیا جائے ، وہ مخاطبین سے پلیدی کی دوری اور (ان کی ) باطنی طہارت پر دلالت کرتا ہے ۔ 

 

(۱)تاریخ دمشق ابن عسا کر ج١٢ ص ٨٦ ۔ مقتل الحسین والخوازمی ج١ ص ٥٢

(۲) المستدرک احمد بن حنبل ج ٤ ٥ ص ٣٣٣ و صحیح البخاری ج٥ ص٩٢۔ ١٥٠ و صحیح مسلم ج٤ ص ١٩٠٢ و سنن ترمذی ج٥ ص ٦٩٥ و المستدرک ج ٣ ص ١٥٤ ، ١٥٨ (٢) بحار الانوار ج٢٧ ص ٦٣ کتاب الامامة ٢٨ ، ٣٨ ۔ اکتاب الفتن والمحن 

(٣) البخاری ج٥ ص ٢٦ ج٧ ص ٤٧ و مسلم ج٧ ص ١٤١ و مسند احمد ج٤ ص ٣٢٣ ، ٣٢٨ ، 

(۴) سنن الترمذی ج٥ ص ٧٠٠ والمستدرک ج٣ ص ١٦٠ (٢) الجامع لاحکام القرآن قرطبی ج١٣ ص ١٨٣ 

(۵) التفسیر الکبیر البرازی ج٢٥ ص 

 

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 
user comment