اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے خلاف جدوجہد

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (1) 

آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن، (2) 

اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔ (3) 

اور آپ (ع) کو ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے۔ (4) جبکہ امیرالمؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں۔ 

آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔ (5) امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ (٭٭) 

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کردیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا (6) اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔ (7) 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دس برسوں ـ کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔ (8) گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرةالخواص میں لکھا ہے کہ امام علیہ السلام 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سنہ 254 کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔ (9) 

آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کئے گئے۔ (10) 

امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوكل عباسی، منتصر عباسی، مستعين عباسی اور معتز عباسی۔ (11) 

معاشرے کے ہادی و راہنما 

چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام پر عائد کی گئی ہے چنانچہ ائمہ علیہم السلام نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبھا دی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہيں کیا۔ ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی علیہ السلام کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کئے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہيں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خدا سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سرزد ہوجائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جاسکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذاللہ خدا کے ہاتھ باندھ لئے۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی علیہ السلام کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام علیہ السلام نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔ 

جبر و تفویض 

علم عقائد میں افراط و تفریط کے دو سروں پر دو عقائد "جبر و تفویض" کے نام سے مشہور ہیں جو حقیقت میں باطل عقائد ہيں۔ 

شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (جلد 1 صفحہ 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: 

برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کيا ہے وہ درحقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کئے ہيں اور ہم مجبور ہيں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق گردانے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے؛ جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔ 

راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟ 

فرمایا: یابن رسول اللہ (ص(! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟ 

فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یہی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔ 

میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی منہیات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟

فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا ہی ان کا حکم دیاتا ہے اور ان سے راضي اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہوجاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ہے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔  

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی علیہ السلام

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دارالحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی علیہ السلام کے نام ایک خط میں اپنے لئے درپیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔ 

امام ہادی علیہ السلام نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔ 

امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کئے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت (ع)) سے تمسک ہے جس کو امام علیہ السلام نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اوراس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کرکے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔ (12) 

شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے؟"؛ چنانچہ امام علیہ السلام وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہيں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کئے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔ (13)

شايد امام ہادی علیہ السلام نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔ 

امام ہادی علیہ السلام اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام کے قول شریف "لا جَبْرَ وَلا تَفْويضَ ولكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن"؛ (14) کا حوالہ دیتے ہيں اور فرماتے ہیں: 

"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هَلْ اَجْبَرَ اللّه ُ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى؟ فَقالَ الصّادِقُ عليه السلام هُوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقيلَ لَهُ: فَهَلْ فَوَّضَ اِلَيْهِمْ؟ فَقالَ عليه السلام : هُوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهُمْ مِنْ ذلِكَ"؛ (15) 

امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟

امام علیہ السلام نے جواب دیا: خداوند اس سے کہیں زيادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ (16)

پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پہ چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟

فرمایا: خداوند اس سے کہیں زيادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔ 

امام ہادی علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: 

"النّاسُ فِى القَدَرِ عَلى ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاَْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهَنَ اللّه َ فى سُلْطانِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه َ جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وَكَلَّفَهُمْ ما لا يُطيقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه َ فى حُكْمِهِ فَهُوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه َ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطيقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطيقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه َ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه َ؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"؛ (17) 

لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:

٭ کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کئے گئے ہيں؛ ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہوگیا ہے۔

٭ کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔ اور

٭ تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہيں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پاچکے ہیں۔ 

اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہيں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔ 

فرماتے ہیں: 

"َاَمّا الْجَبْرُ الَّذى يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه َ جَلَّ وَعَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَى الْمَعاصى وعاقَبَهُمْ عَلَيْها وَمَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه َ فى حُكْمِهِ وَكَذَّبَهُ وَرَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ «وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا» (18) وَقَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَاَنَّ اللّه َ لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبيد"۔ (19) ۔۔۔؛ (20) 

ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہوگا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد گار کسی پر بھی ظلم نہيں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہا تھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔  

امام علیہ السلام تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں: 

"وَاَمَّا التَّفْويضُ الَّذى اَبْطَلَهُ الصّادِقُ عليه السلام وَاَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَتَقَلَّدَهُ فَهُوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه َ جَلَّ ذِكْرُهُ فَوَّضَ إِلَى الْعِبادِ اخْتِيارَ أَمْرِهِ وَنَهْيِهِ وَأَهْمَلَهُمْ"؛ (21) 

ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق علیہ السلام نے باطل کردیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔  

فرماتے ہیں: 

"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه َ تَعالى فَوَّضَ اَمْرَهُ وَنَهْيَهُ إلى عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَأَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَشَرٍّ وَأَبْطَلَ أَمْرَ اللّه ِ وَنَهْيَهُ وَوَعْدَهُ وَوَعيدَهُ، لِعِلَّةِ مازَعَمَ اَنَّ اللّه َ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاَِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشيئَتِهِ، فَاِنْ شاءَ الْكفْرَ أَوِ الاْيمانَ كانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَلاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"؛ (22) 

ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلاکر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کہ وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کئے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کئے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئي رد ہے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی رکاوٹ ہے۔ 

امام ہادی علیہ السلام یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے؛ فرماتے ہیں: 

"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه َ جَلَّ وَعَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَمَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهِمْ بِها، فَاَمَرَهُمْ وَنَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِهِ وَرَضِىَ بِذلِكَ لَهُمْ، وَنَهاهُمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَذَمّ مَنْ عَصاهُ وَعاقَبَهُ عَلَيْها"؛ (23) 

ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔ 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جاسکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہيں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لئے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہيں ہے جو ان ہی مقاصد کے لئے وضع کی گئی ہیں۔

لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہيں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔ 

غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو ائمہ معصومین علیہم السلام کو معاذاللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی علیہ السلام کے زمانے میں نئی نہيں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔ 

غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آرہے ہيں۔ حتی کہ امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے اعتقادی مسائل پیدا کررہے تھے۔ 

نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے

امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں: 

"إنَّ قَوْما مِنْ شيعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّى يَقُولُوا فينا ما قالَتِ الْيَهُودُ فى عُزَيْرٍ وَقالَتِ النَّصارى فى عيسَى ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا هُمْ مِنّا وَلا نَحْنُ مِنْهُمْ"۔ (24) 

ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظہار کریں گے جس طرح کہ یہودی عزیز (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔ 

امام سجاد علیہ السلام کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہيں کرنے دیتے تھے۔ 

امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

 

"أَحِبُّونا حُبَّ الاِْسْلامِ فَوَاللّه ِ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّى بَغَّضْتُمُونا إلَى النّاسِ"۔ (25)

 

ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔

یہاں اس بات کی یادآوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہوسکتا ہے۔ مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی بحارالانوار میں لکھتے ہيں: "نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہوجائے؛

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام ائمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے؛ کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہيں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال ائمہ رسول اللہ (ص) یا ائمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے۔ یا وہ شخص

٭ اس بات کا قائل ہوجائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الہام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہيں؛

٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ ائمہ انبیاء ہی ہیں؟ 

٭ یا کہا جائے کہ بعض ائمہ کی روح بعض دوسرے ائمہ میں حلول کرچکی ہے۔ 

٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کردیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہوگا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (26) 

جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہوجائے اس کو غالی بھی کہتے ہيں اور بعض لوگ انہيں نصیری بھی کہتے ہیں۔ 

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہوگا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہوچکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات امو مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔ (27) 

امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کررہے تھے چنانچہ امام علیہ السلام نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: على بن حسكہ قمى، قاسم يقطينى، حسن بن محمد بن باباى قمى، محمد بن نُصير فهرى اور فارِس بن حاكم تھے۔ (28) 

احمد بن محمد بن عيسى اور ابراہيم بن شيبہ، امام ہادی علیہ السلام کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں على بن حسكہ اور قاسم يقطينى کی شکایت کرتے ہیں اور امام علیہ السلام واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ: 

"لَيْسَ هذا دينُنا فَاعْتَزِلْهُ"؛ (29) 

ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔ 

اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی:

محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی علیہ السلام نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لئے لکھا: 

"لَعَنَ اللّه ُ الْقاسِمَ الْيَقْطينى وَلَعَنَ اللّه عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائى لِلْقاسِمِ فَيُوحى اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"؛ (30) 

ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکمہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔ 

نصر بن صبّاح کہتے ہیں: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصير نميرى اور فارس بن حاتم قزوينى پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے لعنت بھیجی۔ (31) 

ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی علیہ السلام کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔ 

محمد بن عیسی کہتے ہیں: 

"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِى عليه السلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوينىّ وَضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"؛ (32) 

ترجمہ: امام ہادی علیہ السلام نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کردیا۔ 

تجسیم اور تشبیہ 

بعض فرقے آج بھی خدا کے لئے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ بندہ اسی کے عشرے میں حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا تو کافی چیزیں بلاد الحرمین میں نظر آئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے اور نہ سنی مکاتب کے ہاں ان کی مثال ملتی اور نہ ہی شیعہ دنیا میں لیکن سب سے اہم بات ہمارے اس موضوع سے متعلق تھی۔

وہاں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی ونگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ درحقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کرکے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلادالحرمین سے رخصت کردیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لئے محبت کے پھول نچھاور کئے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہيں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے۔

بہر حال ہم میدان عرفات میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں جنوب ایشیا کے بعض باشندے ـ جو بظاہر کسی وہابی مدرسے یا پھر کسی تبلیغی مرکز سے وابستہ تھے ـ کتابوں کے بڑے بڑے بستے لے کر عرفات میں پہنچے جہاں انسان احرام کی حالت میں شرعی لحاظ سے مختلف پابندیوں کا سامنا کررہا ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر حاجی کو کئی کئی کتابیں دیں جن میں وہابی اسلام کی تعلیمات ہمیں سکھانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ ان ہی دنوں مکہ معظمہ میں ال سعود کے سپاہیوں نے فائرنگ کرکے چھ سو کے قریب نہتے حاجیوں کا قتل عام کیا ہوا تھا۔ بہرحال ان میں سے ایک کتاب میں نے کھولی تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہاں عرفات اور اے حاجیو! خوشخبری ہو تمہیں کہ آج کے دن خدا عرفات کے اوپرپہلے آسمان پر آکر بیٹھا ہوا ہے اور وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تمہارے اعمال کی نگرانی کررہا ہے۔ میں نے کئی بار یہ جملہ پڑھا حتی کہ میری غلط فہمی دور ہوگئی اور معلوم ہوا کہ وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگھوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذاللہ 

بہرحال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کرگیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ 

ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃالعلم (رسول اللہ (ص)) اور باب مدینۃالعلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علی سرچشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لئے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لئے ای مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تہمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نہيں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہيں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں درآمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اور ائمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔

یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماۂء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کااوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لئے لکھا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کردی جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔ (33) 

چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام اس کو نظرانداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد درحقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔

صقر بن ابی دلف امام ہادی علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی علیہ السلام کا جواب دیتے ہیں:

"إنَّهُ لَيسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه َ عَزَّوَجَلَّ جِسْمٌ وَنَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِى الدُّنْيا وَالاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبى] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ واللّه مُحدِثُهُ وَمُجَسِّمُهُ" (34) 

ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔ 

نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں: میں نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔ 

امام علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے لکھا: 

"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَلا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَى ءٌ وَهُوَ السَّميعُ الْعَليم"؛ (35) 

ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہيں کیا جاسکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جاسکتیں، کوئی شیئے بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔ 

کیا خدا کو دیکھا جاسکتا ہے؟

بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ گویا ان کہ عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔ 

ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: 

"جاءَ حِبْرٌ إلى أميرِ الْمُؤْمِنينَ عليه السلام فَقالَ: يا أَميرَ الُؤْمِنينَ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حينَ عَبَدْتَهُ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَهُ۔ قالَ: وَكَيْفَ رَأَيْتَهُ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فى مُشاهِدَةِ الاَْبْصارِ وَلكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْيمانِ"۔ (36) 

ترجمہ: ایک حبر (یہودی عالم) امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟

امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔

حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا؛ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام: وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہيں کرسکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔ 

احمد بن اسحق نے امام ہادی علیہ السلام کے لئے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا: 

"لا يجوز الرؤية ما لم يكن بين والمرئي هواء ينفذه البصر، فإذا انقطع الهواء وعدم الضياء بين الرائي والمرئي لم تصح الرؤية وكان في ذلك الاشتباه لان الرائي متى ساوى المرئي في السبب الموجب بينهما في الرؤية وجب الاشتباه وكان في ذلك التشبيه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔ (37) 

ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہئے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پاسکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لئے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔ 

یہاں امام ہادی علیہ السلام کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لئے ـ قیاس استنثنائی (Exceptive  Syllogism) ہے اور یوں کہ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہوگی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہيں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسا ئل اور شرائط کے بغیر بھی ناممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ ناممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لئے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔

اللہ کی عظمت و معرفت 

"إلهى تاهَتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهِّمينَ وَقَصُرَ طُرَفُ الطّارِفينَ وَتَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفينَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاويلُ الْمُبْطِلينَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجيبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلى عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَكانِ الَّذى لا يَتَناهى وَلَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَلا عِبارَةٍ هَيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ يا اَوَّلىُّ، يا وَحدانىُّ، يا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِى الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَنَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛ (38) 

ترجمہ: بار پروردگارا! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہوچکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لئے کوشاں لوگوں] کے دغوے نیست و نابود ہوگئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالاتر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کرسکے۔ 

تو جہاں ہے اس کی کوئی انتہا نہيں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کرسکتی اور تجھ کو نہیں پاسکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہيں ہے؛ کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سرچشمہ! ای واحد و یکتا! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔ (39) 

۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

٭۔ اس مجموعۂ موضوعات میں بعض اضافات کئے گئے اور اس کے بیشتر موضوعات کے بارے میں تحقیق کی گئی اور انہيں Authentic اور قابل استناد بنایا گیا۔ / مترجم

1. ارشاد، مفيد، بيروت، دارالمفيد، 211 من سلسله مؤلفات الشيخ المفيد، ص297. 

2. مناقب آل ابى طالب، ابن شهر آشوب، انتشارات ذوى القربى، ج1، 1379، ج4، ص432. 

3. جلاء العيون، ملامحمدباقر مجلسى، انتشارات علميه اسلاميه، ص568. 

4. مناقب، ص432. 

5. ارشاد شیخ مفید، ص432. 

٭٭۔ شیخ مفید، ارشاد، ص327.

6. مناقب، ص433. 

7. مناقب، ص433.

8. مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297. 

9. ارشاد، ص297. 

10. اعلام الورى، طبرسى، دارالمعرفه، ص339. 

11. مناقب، ص433. 

12. تحف العقول، ابن شعبه حرّانى، مؤسسة الاعلمى للمطبوعات، صص339 ـ 338. 

13. تحف العقول ، ص340. 

14. تحف العقول. انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔ 

15. تحف العقول. 

16. معنى اين كلام، اين است كه اگر قائل به جبر شويم، بايد بگوييم كه ـ العياذ باللّه ـ خداوند، ظالم است، در حالى كه خود قرآن مى فرمايد: «وَلا يَظْلِمْ رَبُّكَ اَحَدا» (كهف/49). 

17. تحف العقول صفحه 371.

18. كهف/49. 

19. حج/10. 

20. تحف العقول صفحه 461. اما الجبر الذي

21. تحف العقول صفحه 463. 

22. تحف العقول صفحه 464. 

23. تحف العقول صفحه 465۔

24. اختيار معرفة الرجال، طوسى، تصحيح و تعليق حسن مصطفوى، ص102. 

25. الطبقات الكبرى، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214. امام سجاد علیہ السلام سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے: أحبونا حب الإسلام ولا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبكم حتى صار علينا شيناً )! (تاريخ دمشق:41/392) ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لئے شرم کا باعث ہوگئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔ 

26. بحار الانوار، ج25، ص346. 

27. بحار الانوار، ج25، ص346. 

28. پيشوايى، سيره پيشوايان، ص603. 

29. اختيار معرفة الرجال (رجال كشى)، صص518 ـ 516. 

30. رجال كشى ، ص518. 

31. رجال كشى ، ص520. 

32. رجال كشى ، ص524. 

33. رجال كشى ، صص18 ـ 17. 

34. بحارالانوار جلد 3 صفحه 291.

35۔ اصول كافى جلد 1 صفحه: 136 رواية: 5

36. توحيد، شیخ صدوق ص109، ح6. 

37. التوحيد ص109، ح7. اصول كافى جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5)

38. التوحيد ، ص66، ح19. 

39. ترجمه از كتاب زندگانى امام على الهادى عليه السلام ، باقر شريف قرشى، دفتر انتشارات اسلامى، ص112۔

امام هادی (علیه السلام) کا کتاب نامہ

1۔ آمال الواعظین(ج2) بقلم ابراهیم حسینی لیلابی

2۔ آینه کمال بقلم اکبر دهقان

3۔ ائمتنا بقلم علی محمد علی دخیل

4. الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد(ج2) بقلم شیخ مفید

5. اسرار دلبران بقلم سیداحمد سجادی

6. اعلام الهدایه (الامام علی بن محمد الهادی) باہتمام مجمع الجهانی اهل بیت

7.  الامام العاشر الامام علی بن محمد الهادی باہتمام لجنه التحریر فی طریق الحق

8. الامام الهادی أضواء من سیرته بقلم محمود السیف

9. الامام الهادی القیادة العاشرة للحرکة الرسالیة بقلم ضیاء الفاتح

10. الامام الهادی قدوة الثائرین بقلم محمد وصفی

11.  الامام علی الهادی بقلم عبدالله الیوسف

12.  الامام علی الهادی مع مروق القصر و قضاه العصر بقلم کامل سلیمان

13. امام هادی از نگاه اهل سنت بقلم محمدحسن طبسی

14. امام هادی در مصاف با انحراف عقیدتی بقلم حسین مطهری محب

15. امام هادی را بهتر بشناسیم بقلم محمود مهدی پور

16. امام هادی مشعلدار هدایت بقلم جعفر انواری

17. امام هادی و اتحاد پیروان اهل بیت (ع) بقلم عبدالکریم پاک نیا

18. امام هادی و جلوه های غدیر بقلم عباس کوثری

19. امام هادی و حوزه حدیثی قم بقلم غلامعلی عباسی

20. امام هادی و دفاع از مرزهای توحید بقلم سیدعباس رضوی

21. امام هادی و نهضت علویان بقلم محمدرسول دریایی

22. امامان اهل بیت در گفتار اهل سنت بقلم داوود الهامی

23. امامان عسکریین (امام علی النقی) بقلم فضل الله کمپانی

24. امنیت اخلاقی از نگاه امام هادی بقلم مهدی احمدی

25. الانوار البهیة فی تواریخ الحجج الالهیة بقلم شیخ عباس قمی

26. بحارالانوار (ج 50) بقلم محمد باقر المجلسی

27. بدر ذی الحجه بقلم ابراهیم اخوی

28. برگزیدگان (ج2) بقلم مهدی رحیمی

29. پرچمداران هدایت بقلم سیداحمد سجادی

30. تاج الموالید: خلاصه زندگانی چهارده معصوم بقلم علامه طبرسی

31. تاریخ انبیاء و چهارده معصوم بقلم فرخ رصدی

32. تاریخ چهارده معصوم بقلم محمد جواد مولوی نیا

33. تاریخ زندگی ائمه معصومین حضرت امام علی النقی بقلم آموزش عقیدتی جهاد سازندگی

34. تحلیلی از زندگانی امام هادی بقلم باقر شریف قرشی

35. تراتیل فی زمن الذئاب بقلم کمال السید

36. تعریف احوال ساده الانام النبی والاثنی عشر امام بقلم راشد بن ابراهیم البحرانی

37. تفسیر قرآن در کلام امام هادی بقلم مهدی سلطانی وفایی

38. تلاش ها و مبارزات امام هادی بقلم ابوالفضل هادی منش

39. جرعه نوشان اقیانوس بی کران امام هادی (1-2) بقلم عسکری اسلامپور کریمی

40. جزاء الاعداء الامام الهادی فی دار الدنیا بقلم السید هاشم الناجی الموسوی

41. جلاء العیون بقلم علامه مجلسی

42 جلوات ربانی در شناخت دوازده امام به مقام نورانیت(ج2) بقلم محمد رضا ربانی

43. جنات ثمانیة بقلم محمدباقر بن مرتضی حسینی خلخالی

44. چگونگی مواجهه امام هادی با خلفای عباسی بقلم عباس جمشیدی

45. چهارده آیینه بقلم محمدخرم فر

46. چهارده اختر تابناک بقلم احمد احمدی بیرجندی

47.  چهره های درخشان سامراء (امام هادی) بقلم علی ربانی خلخالی

48.  چهل داستان و چهل حدیث از امام علی هادی بقلم عبدالله صالحی

49. حجت محوری در نگاه امام هادی بقلم جواد محدثی

50. حدیث اهل بیت بقلم یدالله بهتاش

51. حدیقة الذاکرین بقلم یدالله بهتاش

52. حیات پاکان (امام هادی) بقلم مهدی محدثی

53. حياة الامام الهادی دراسه و تحلیل بقلم محمد جواد الطبسی

54. حياة الامام علی الهادی دراسه و تحلیل بقلم باقر شریف القرشی

55. حياة اولی النهی حياة الامام علی الهادی بقلم محمد رضا الحکیمی الحائری

56. خانه های ماذون در شرح حال چهارده معصوم (ع) بقلم محمدباقر مدرس

57. خورشید هدایت بقلم سمیه سوری

58. الدر النظیم فی مناقب الائمه اللهامیم بقلم جمال الدین یوسف بن حاتم الشامی

59. دل نوشته هایی در میلاد امام هادی بقلم روح الله حبیبیان

60. دلائل الامامة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری

61. راه راستان باہتمام دایرة المعارف تشیع 

62. رنج های امام هادی (1-2) بقلم ابوالفضل هادی منش

63. روشهای تربیتی از دیدگاه امام هادی (1-2) بقلم غلامرضا صالحی

64.  زندگانی امام علی الهادی بقلم باقر شریف القرشی

65.  بقلم زندگانی امام هادی بقلم علی رفیعی

66. زندگانی تحلیلی پیشوایان ما بقلم عادل ادیب

67. زندگانی چهارده معصوم بقلم حسین مظاهری

68. زندگانی عسکریین (امام علی النقی) بقلم عباس حاجیانی دشتی

69. زندگی دوازده امام(ج2) بقلم هاشم معروف الحسنی

70. زندگینامه چهارده معصوم بقلم محسن خرازی

71.  ستارگان درخشان (سرگذشت حضرت امام علی النقی) بقلم محمد جواد نجفی

72. سفرها و ارتباطات امام هادی (1-2) بقلم غلامرضا گلی زواره

73. سوار سبزپوش آرزوها بقلم کمال السید

74. سوگنامه آل محمد در ذکر مصائب جانسوز چهارده معصوم بقلم محمد محمدی اشتهاردی

75. سیره الائمه الاثنی عشر(ج2) بقلم هاشم معروف الحسنی

76. سیرة الائمة علی الهادی بقلم محمد رضا عباس محمد الدباغ

77. سیره معصومان بقلم سیدمحسن امین

78. سیره و زندگانی حضرت امام هادی (ع) بقلم لطیف راشدی

79. سیره و سخن پیشوایان بقلم محمد علی کوشا

80. شادنامه چهارده معصوم (ع) محمد صحتی سردرودی

81. شناخت مختصری از زندگانی امام هادی (1-3) بقلم مهدی پیشوایی

82. صحیفه امام هادی بقلم جواد قیومی اصفهانی

83. عجایب و معجزات شگفت انگیزی از چهارده معصوم باہتمام واحد تحقیقاتی گل نرگس

84۔ عوامل تبعید امام هادی بقلم عباس کوثری

85۔ فروغی از دانش امام هادی بقلم عباس کوثری

86۔ فرهنگ جامع سخنان امام هادی  باہتمام گروه پژوهشکده باقر العلوم (مترجم: علی مؤیدی)

87۔ الفصول المهمة فی معرفة الائمة علی بن محمد بن احمد المالکی المکی

88. فی رحاب ائمة هل البیت (ج3-5) بقلم السیدمحسن الامین

89. قصة الحوار الهادی السید محمد الحسینی القزوینی

90. قطره ای از دریای فضائل اهل بیت (ج2) بقلم سید احمد مستنبط

91. کتابشناسی اهل بیت بقلم ناصرالدین انصاری قمی

92.  کرامات و مقامات عرفانی امام هادی سید علی حسینی

93. کشف الغمة فی معرفة الائمة (ج2) بقلم ابوالحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح الاربلی

94. گزیده سیمای سامرا: سینای سه موسی بقلم محمد صحتی سردرودی

95. گزیده ناسخ التواریخ (ج6) بقلم محمد تقی خان سپهر-عباسقلی خان سپهر

96. گلچین حکمت بقلم محمد باقر مجلسی

97. گوشه ای از کرامات امام هادی بقلم حسین تربتی

98. لمحات من حیاة الامام الهادی بقلم محمدرضا سیبویه

99. مبارزات سیاسی امام هادی بقلم ابوالفضل هادی منش

100. المجالس السنیة (ج2) بقلم السید محسن الامین

101. مجموعه زندگانی چهارده معصوم(ج1-2) بقلم حسین عمادزاده

102. مسند الامام الهادی بقلم عزیز الله عطاردی

103. معارج الوصول الی معرفة فضل آل الرسول و البتول بقلم محمد بن عزالدین یوسف بن الحسن الزرندی

104. معصوم دوازدهم (علی بن محمد) بقلم جواد فاضل 

105. مناقب اهل بیت از دیدگاه اهل سنت بقلم سیدمحمدطاهر هاشمی شافعی

106. منتخب التواریخ در زندگانی چهارده معصوم بقلم محمدهاشم بن محمدعلی خراسانی

107. منتهی الامال(ج2) عباس قمی

108. منهاج التحرک عند الامام الهادی بقلم  ع- نجف

109. موسوعة الادعیة (الصحیفة النقویة) (ج 5) بقلم جواد القیومی الاصفهانی

110. موسوعه الامام الهادی (ج 1 و 2 و 3 و 4) باہتمام لجنة العلمیة فی موسسة ولی العصر

111. موسوعة المصطفی و العترة (الهادی علی) بقلم حسین الشاکری

112. نام های امام هادی بقلم ناصر بهرامی

113. نامه های امام هادی بقلم سیدجعفر ربانی

114. نقش امام هادی در اندیشه مهدویت (1-2) بقلم خلیل منصوری

115. نقش امام هادی در هدایت امت بقلم محمد جواد مروجی طبسی 

116. نکته های ناب از زندگانی چهارده معصوم بقلم محمد گلستانی

117. نگاهی بر زندگی امام هادی (ع) بقلم محمدی اشتهاردی 

118. نگاهی به زندگی دوازده امام بقلم علامه حلی

119. نگاهی به شیوه های رهبری امام هادی بقلم عبدالکریم پاک نیا

120. نگرش علم الحدیثی امام هادی بقلم نوروز امینی

121. نوادر المعجزات فی مناقب الائمه الهداة بقلم محمد بن جریر بن رستم الطبری 

122. النور الهادی الی اصحاب الامام الهادی بقلم عبدالحسین الشبستری

123. نورالابصار فی احوال الائمة التسعة الابرار بقلم محمدمهدی الحائری المازندرانی 

124. وسیله الخادم در شرح صلوات چهارده معصوم بقلم فضل الله روزبهان خنجی اصفهانی

125. وصایای چهارده معصوم بقلم فرشاد مومنی

126. ویژگی های اخلاقی امام هادی بقلم ابوالفضل هادی منش

127. هدایتگران راه نور (زندگانی حضرت امام علی هادی) بقلم محمد تقی مدرسی

128. هفت گفتار از امام هادی بقلم عبدالکریم تبریزی

129. همسر و فرزندان امام هادی بقلم علی احمدی

 


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا ميں حضرت امام حسين کے ورود سے لے کر نويں ...
امام جواد(ع) کی سیرت امت مصطفیٰ(ص) کے اسوہ حسنہ
مولا علی علیہ السلام
امام مہدی علیہ السلام کی مدت حکومت اورخاتمہ دنیا
چوتھے امام حضرت امام زين العابدين (ع)
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
بیعت عقبہ اولی
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی چند احادیث
امام سجاد (ع) اور رمضان کي آخري رات
فرزند رسول امام زین العابدینؑ کے یوم شہادت ...

 
user comment