اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

جناب فاطمہ (ع) باپ كے بعد

پيغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجرى كو تمام مسلمانوں كو حج بجالانے كى دعوت دى اور آپ آخرى دفعہ مكہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں كو حج كے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسى پر جب آپ غدير خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں كو اكٹھا كيا اور اس كے بعد آپ منبر پر تشريف لے گئے اور على ابن ابيطالب (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ معين فرمايا اس كے بعد مسلمانوں نے حضرت على (ع) كى بيعت كى اور اپنے اپنے شہروں كو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھى مدينہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر كى مراجعت كے بعد مريض ہوگئے آپ كى حالت دگرگوںہوتى گئي، آپ كے احوال سے معلوم ہو رہا تھا كہ آپ كى وفات كا وقت آگيا ہے_ كبھى كبھار كسى مناسبت سے اپنے اہل بيت كى سفارش فرمايا كرتے تھے، كبھى جنت البقيع كے قبرستان جاتے اورمردوں كے لئے طلب مغفرت كرتے_

جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع كے بعد خواب ديكھا كہ ان كے ہاتھ ميں قرآن ہے اور اچانك وہ ان كے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگيا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھيں اور اپنے خواب كواپنے والد كے سامنے نقل كيا، جناب رسول خدا(ص)نے فرمايا،ميرى آنكھوں كى نور ہيں وہ قرآن ہوں كہ جس كو تم نے خواب ميںديكھا ہے، انہيں دنوں ميں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(1)_

آپ پر آہستہ آہستہ بيمارى كے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ايك لشكر جناب اسامہ كى سپہ سالارى ميں مرتب كيا اورفرمايا كہ تم روم كى طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدميوںكے خصوصيت سے نام لئے اورفرمايا كہ يہ لوگ اس جنگ ميں ضرور شريك ہوں آپ كى اس سے غرض يہ تھى كہ مدينہ ميں كوئي منافق نہ رہے اور خلافت اعلى كا مسئلہ كسى كى مدافعت اور مخالفت كے بغير حضرت على (ع) كے حق ميں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) كى بيمارى ميں شدت آگئي اور گھر ميں صاحب فراش ہوگئے_ پيغمبر(ص) كى بيمارى نے جناب فاطمہ (ع) كو وحشت اور اضطراب ميں ڈال ديا، كبھى آپ باپ كے زرد چہرے اور ان كے اڑے ہوئے رنگ كو ديكھتيں اور روديتيں اور كبھى باپ كى صحت اور سلامتى كے لئے دعا كرتيں اور كہتيں خدايا ميرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام كے درخت كا پودا لگايا ہے اور ابھى ثمر آور ہوا ہى ہے اور فتح و نصرت كے آثار ظاہر ہوئے ہيں_

مجھے اميد ہوگئي تھى كہ ميرے والد كے واسطے سے دين اسلام غالب ہوجائے گا اور كفر اور بت پرستي، ظلم اور ستم ختم ہوجائيں گے ليكن صد افسوس كے ميرے باپ كى حالت اچھى نہيں_ خدايا تجھ سے ان كى شفا اور صحت چاہتى ہوں_

پيغمبر(ص) كى حالت شديدتر ہوگئي اور بيمارى كى شدت سے بيہوش ہوگئے

1) رياحين الشريعة، ج 1 ص 239_

جب ہوش ميں آئے اور ديكھا جناب ابوبكر اور عمر اور ايك گروہ كہ جن كو اسامہ كے لشكر ميں شريك ہوتا تھا شريك نہيں ہوئے اور مدينہ ميں رہ گئے ہيں آپ نے ان سے فرمايا كہ كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ اسامہ كے لشكر ميں شريك ہوجاؤ؟ ہر ايك نے اپنے جواب ميں كوئي عذر اور بہانہ تراشا، ليكن پيغمبر(ص) كو ان كے خطرناك عزائم اور ہدف كا علم ہوچكا تھا اور جانتے تھے كہ يہ حضرات خلافت كے حاصل كرنے كى غرض سے مدينہ ميں رہ گئے ہيں_

اس وقت پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں وصيت لكھ دوں حاضرين ميں سے بعض نے چاہا كہ آپ كے حكم پر عمل كيا جائے ليكن حضرت عمر نے كہا_ كہ آپ پر بيمارى كا غلبہ ہے، ہذيان كہہ رہے ہيں لہذا قلم و قرطاس دينے كى ضرورت نہيں ہے(1)_

جناب زہراء (ع) يہ واقعات ديكھ رہى تھيں آور آپ كا غم اور اندوہ زيادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے كہتى تھيں كہ ابھى سے لوگوں ميں اختلاف اور دوروئي كے آثار ظاہر ہونے لگے ہيں_ ميرے باپ كے كام اور حكم اللہ كى وحى سے سرچشمہ ليتے ہيں اور آپ ملت كے مصالح اور منافع كو مد نظر ركھتے ہيں پس كيوں لوگ آپ كے فرمان سے روگرانى كرنے لگے ہيں، گويا مستقبل بہت خطرناك نظر آرہا ہے گويا لوگوں نے مصمّم ارادہ كرليا ہے كہ ميرے والد كى زحمات كو پائمال كرديں_

تعجب اور تبسم

پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حالت سخت ہوگئي آپ نے اپنا سر مبارك حضرت على (ع) كے زانو پر ركھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ كے نازنين چہرے كو ديكھتيں اور رونے لگتيں اور فرماتيں_ آہ، ميرے باپ كى بركت سے رحمت كى بارش ہوا كرتى تھى آپ يتيموں كى خبر لينے والے اور بيواؤں كے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ كے رونے كى آواز پيغمبر(ص) كے كانوں تك پہنچى آپ نے آنكھيں كھوليں اور نحيف آواز ميں فرمايا بيٹى يہ آيت پڑھو_

''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم على اعقابكم'' (1)

موت سے گريز نہيں جيسے سابقہ پيغمبر(ص) مرگئے ہيں ميں بھى مروں گا كيوں ملت اسلامى ميرے ہدف كا پيچھا نہيں كرتى اور اس كے ختم كرنے اور لوٹ جانے كا قصد ركھتى ہے_

1) الكامل فى التاريخ، ج 2 ص 217 و صحيح بخاري، ج 3 ص 1259_

 اس گفتگو كے سننے سے حضرت زہراء (ع) كے رونے ميں شدت پيدا ہوگئي رسول خدا كى حالت اپنى بيٹى كو روتے اور پريشان ديكھ دگرگوں ہوگئي_ آپ نے انہيں تسلى دينا چاہى مگر كيا آپ كو آسانى سے آرام ميں لايا جاسكتا تھا؟ اچانك آپ كى فكر ميں ايك چيز آئي، جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا ميرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ كے نزديك لے گئيں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) كے كان ميں كچھ كہا_ حاضرين نے ديكھا كہ جناب فاطمہ (ع) كا چہرہ روشن ہوگيا اور آپ مسكرانے لگيں، اس بے جا ہنسى اور تبسم پر حاضرين نے تعجب كيا تبسم كى علت آپ سے دريافت كى تو آپ نے فرمايا كہ جب تك ميرے باپ

1) سورہ آل عمران، آيت ص 144

زندہ ہيں ميں يہ راز فاش نہيں كروں گى آپ نے آن جناب كے فوت ہونے كے بعد اس راز سے پردہ اٹھايا اور فرمايا كہ ميرے باپ نے ميرے كان ميں يہ فرمايا تھا كہ فاطمہ (ع) تمہارى موت نزديك ہے تو پہلى فرد ہوگى جو مجھ سے ملحق ہوگى (1)_

انس نے كہا ہے كہ اس زمانے ميں جب پيغمبر(ص) بيمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ہاتھ پكڑا اور باپ كے گھر آئيں اپنے آپ كو پيغمبر(ص) كے جسم مبارك پر گراديا اور پيغمبر(ص) كے سينے سے لگ كر رونے لگيں_ پيغمبر(ص) نے فرمايا، فاطمہ (ع) روو مت، ميرى موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں كو پريشان نہ كرنا، ميرے لئے رونے اور نوحہ سرائي كى مجلس منعقد كرنا اس كے بعد پيغمبر خدا(ص) كے آنسو جارى ہوگئے اور فرمايا اے ميرے خدا ميں اپنے اہلبيت كو تيرے اور مومنين كے سپرد كرتا ہوں (2)_

راز كى پرستش

امام موسى كاظم عليہ السلام فرماتے ہے كہ پيغمبر(ص) نے اپنى زندگى كى آخرى رات حضرات علي، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام كى دعوت كى اور گھر كا دروازہ بند كرديا اور انہيں كے ساتھ تنہائي ميں رہے جناب فاطمہ (ع) كو اپنے پاس بلايا اور كافى وقت تك آپ كے كان ميں كچھ فرماتے رہے چونكہ آپ كي

1) الكامل فى التاريخ، ج 2 ص 219 و بحار الانوار، ج 22 ص 470_ ارشاد مفيد، ص 88 طبقات ابن سعد، ج 2 قسمت دوم ص 39، 40_ صحيح مسلم، ج 4 ص 1095_

2_ بحار الانوار، ص 22 ص 460_

گفتگو طويل ہوگئي تھى اس لئے حضرت على (ع) اور حضرت حسن (ع) اور حضرت حسين (ع) وہاں سے چلے آئے تھے اور دروازے پر آكھڑے ہوئے تھے اور لوگ دروازے كے پيچھے كھڑے ہوئے تھے_ پيغمبر(ص) كى ازواج حضرت على (ع) كو ديكھ رہى تھيں_ جناب عائشےہ نے حضرت على (ع) سے كہا كہ كيوں پيغمبر(ص) نے آپ كو اس وقت وہاں سے باہر نكال ديا ہے اور فاطمہ (ع) كے ساتھ تنہائي ميں ہيں آپ نے جواب ديا ميں جانتا ہوں كس غرض كے لئے اپنى بيٹى سے خلوت فرمائي ہے اور كون سے راز انہيں بتلا رہے ہيں؟ تمہارے والد اور ان كے ساتھيوں كے كاموں كے متعلق گفتگو فرما رہے ہيں_ جناب عائشےہ ساكت ہوگئيں_

حضرت على (ع) نے فرمايا بہت زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھے بلايا جب ميں اندر گيا تو ديكھا كہ پيغمبر(ص) كى حالت خطرناك ہے تو ميں اپنے آنسؤں پر قابو نہ ركھا سكا_ جناب پيغمبر(ص) نے فرمايا يا على (ع) كيوں روتے ہو فراق اور جدائي كا وقت آپہنچا ہے تمہيں خدا كے سپرد كرتا ہوں اور پروردگار كى طرف جا رہا ہوں، ميرا غم اور اندوہ تمہارے اور زہراء (ع) كے واسطے ہے اس لئے كہ لوگوں نے ارادہ كيا ہے كہ تمہارے حقوق كو پائمال كريں اور تم پر ظلم ڈھائيں، تمہيں خدا كے سپرد كرتا ہوں خدا ميرى امانت قبول فرمائے گا_

يا على (ع) چند ايك اسرار ميں نے فاطمہ (ع) كو بتلائے ہيں وہ تمہيں بتلائيں گى ميرے دستورات پر عمل كرنا اور يہ جان لو كہ فاطمہ (ع) سچى ہے اس كے بعد پيغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو بغل ميں ليا آپ كے سر كا بوسہ ليا اور فرمايا، بيٹى فاطمہ (ع) تيرا باپ قربان جائے اس وقت زہراء (ع) كے رونے كى صدا بلند ہوگئي_ پيغمبر (ص) نے فرمايا خدا ظالموں سے تمہارا انتقام لے گا_ واى ہو ظالموں پر_ اس كے بعد آپ نے رونا شروع كرديا_

حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ پيغمبر(ص) كے آنسو بارش كى طرح جارى تھے آپ كى ريش مبارك تر ہوگئي اور آپ اس حالت ميں فاطمہ (ع) سے جدا نہ ہوئے تھے، اور آپ نے سر مبارك ميرے سينے پر ركھے ہوئے تھے اور حسن (ع) اور حسين (ع) آپ كے پاؤں كا بوسہ لے رہے تھے اور چيخ چيخ كر رو رہے تھے، ميں ملائكہ كے رونے كى آوازيں سنى رہا تھا_ يقينا اس قسم كے اہم موقع پر جناب جبرئيل نے بھى آپ كو تنہا نہيں چھوڑا ہوگا_ جناب فاطمہ (ع) اس طرح رو رہى تھيں كہ زمين اور آسمان آپ كے لئے گريہ كر رہے تھے پيغمبر(ص) نے اس كے بعد فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) ، خدا تمہارا ميرى جگہ خليفہ ہے اور وہ بہترين خليفہ ہے_ عزيزم مت رو كيونكہ تمہارے رونے سے عرش خدا اور ملائكہ اور زمين اور آسمان گريا كناں ہيں_ خدا كى قسم ، جب تك ميں بہشت ميں داخل نہ ہوں گا كوئي بھى بہشت ميں داخل نہ ہوگا اور تم پہلى شخصيت ہوگى جو ميرے بعد بہترين لباس كے ساتھ، بہشت ميں داخل ہوگى اللہ تعالى كى تكريم تمہيں مبارك ہو، خدا كى قسم تم بہشتى عورتوں ميں سے بزرگ ہو_ خدا كى قسم دوزخ اس طرح فرياد كرے گى كہ جس كى آواز سے ملائكہ اور انبياء آواز ديں گے، پروردگار كى طرف سے خطاب ہوگا كہ چپ ہوجاؤ، جب تك فاطمہ (ع) جناب محمد(ص) كى دختر بہشت كى طرف جارہى ہے، بخدا يہ اس حالت ميں ہوگا كہ حسن (ع) تيرے دائيں جانب چل رہے ہوں گے اور حسين (ع) بائيں جانب اور تم بہشت ميں داخل ہوگي، بہشت كے اوپر والے طبقے سے محشر كا نظارہ كروگي، جب كہ محمد(ص) كا پرچم حضرت على (ع) كے ہاتھ ميں ہوگا_ خدا كى قسم اس وقت اللہ تعالى تمہارے حق كا دشمن سے مطالبہ كرے گا اس وقت جن لوگوں نے تمہارا حق غصب كيا ہوگا اور تمہارى دوستى كو چھوڑ ديا ہوگا_ پشيمان ہوں گے ميں جتنا بھى كہتا رہوں گا خدايا ميرى امت كى داد كو پہنچو، ميرے جواب ميں كہا جائے گا تمہارے بعد انہوں نے دستورات اور قوانين كو تبديل كيا ہے اس لئے وہ دوزخ كے مستحق ٹھہرے ہيں (1)_

فاطمہ (ع) باپ كے بعد

اس حالت ميں كہ پيغمبر(ص) كا سر مبارك حضرت على (ع) كے زانو پر تھا اور جناب فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) ، پيغمبر(ص) كے نازنين چہرے كو ديكھ رہے تھے اور رو رہے تھے كہ آپ كى حق بين آنكھ بند ہوگئي اور حق گو زبان خاموش ہوگئي اور آپ كى روح عالم ابدى كى طرف پرواز كرگئي، پيغمبر(ص) كى اچانك اور غيرمنتظرہ موت سے جہان كا غم اور اندوہ حضرت فاطمہ (ع) پر آپڑا وہ فاطمہ (ع) كہ جس نے اپنى عمر غم اور غصّہ اور گرفتارى ميں كاٹى تھى صرف ايك چيز سے دل خوش تھيں اور وہ تھا ان كے والد كا وجود مبارك_ اس جانگداز حادثہ كے پيش آنے سے آپ كى اميدوں اور آرزؤں كا محل يكدم زميں پر آگرا_ اسى حالت ميں آپ باپ كى كمرشكن موت ميں گريہ و زارى اور نوحہ سرائي كر رہى تھيں، اور حضرت على (ع) آپ كے دفن كے مقدمات كفن اور دفن ميں مشغول تھے اچانك يہ خبر ملى كہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں اجتماع كيا ہے تا كہ پيغمبر(ص) كے جانشين كو مقرر كريں زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ دوسرى خبر آملى كہ انہوں نے جناب ابوبكر كو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا جانشين اور خليفہ منتخب كرليا ہے_

1) بحار الانوار، ج 22 ص 490_

گريہ و بكا اور غم و غصہ كے اس بحرانى وقت ميں اتنى بڑى خبر نے حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت على (ع) كے مغز كو تكان دى اور ان كے تھكے ماندے اعصاب كو دوبارہ كوٹ كر ركھ ديا_ سبحان اللہ _ كيا ميرے باپ نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ مقرر نہيں كيا؟ كيا دعوت ذوالعشيرہ سے لے كر زندگى كے آخرى لمحات تك كئي مرتبہ حضرت على (ع) كى خدمت كى سفارش نہيں كرتے رہے؟ كيا چند مہينہ پہلے ايك بہت بڑے اجتماع ميں غدير خم كے مقام پر انہيں خليفہ معين نہيں فرمايا تھا؟ كيا ميرے شوہر على (ع) كے جہاد اور فداكارى كا انكار كيا جاسكتا ہے؟ كيا على (ع) كى علمى منزلت كا كوئي شخص انكار كرسكتا ہے؟ مگر ميرے باپ نے على (ع) كو بچپن سے اپنى تربيت اور تعليم ميں نہيں ركھا تھا؟ خدايا اسلام كا انجام كيا ہوگا؟ اسلام كو ايسے رہبر كى ضرورت ہے جو مقام عصمت پر فائز ہو اور لغزش اور انحراف سے دوچار نہ ہو_ آہ_ مسلمان كس خطرناك راستے پر چل پڑے ہيں؟

اے ميرے خدا ميرے باپ نے اسلام كے لئے كتنى زحمت برداشت كى ہے، ميرے شوہر نے كتنى فداكارى اور قربانى دى ہے؟ ميدان جنگ ميں سخت ترين اور خطرناك ترين حالت ميں اپنى جان كو خطرے ميں نہيں ڈالا؟ ميں ان كى زخمى بدن اور خون آلودہ لباس سے باخبر ہوں_ خدايا ہم نے كتنى مصيبتيں اور زحمات ديكھى ہيں_ فاقہ كاٹے ہيں وطن سے بے وطن ہوئے_ يہ سب كچھ توحيد اور خداپرستى كے لئے تھا، مظلوموں كے دفاع كے لئے تھا اور ظالموں كے ظلم كا مبارزہ اور مقابلہ تھا_ مگر ان مسلمانوں كو علم نہيں كہ اگر على (ع) مسلمانوں كا خليفہ ہو تو وہ اپنى عصمت اور علوم كے مقام سے جو انہيں ميرے باپ كے ورثہ ميں ملے ہيں مسلمانوں كے اجتماع اور معاشرے كى بہترين طريقے سے رہبرى كرے گا اور ميرے باپ كے مقدس ہدف اور غرض كو آگے بڑھائے گا اور جو اسلام كو سعادت اور كمال كي طرف لے جائے گا_

جى ہاں يہ اور اس قسم كے دوسرے افكار جناب زہراء (ع) كے ذہن اور اعصاب پر فشار وارد كرتے تھے اور اس بہادر اور شجاع بى بى كے صبر اور تحمل كى طاقت كو ختم كرديا تھا_

حضرت زہراء (ع) كے تين مبارزے

اگر ہم سقيفہ كى طولانى اور وسيع كہانى اور جناب ابوبكر كے انتخاب كے بارے ميں بحث شروع كرديں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائيں گے اور بات بہت طويل ہوجائے گي، ليكن مختصر روداديوں ہے كہ جب حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے دفن اور كفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ايك تمام شدہ كام كے روبرو ہوئے انہوں نے ديكھا كہ جناب ابوبكر خلافت كے لئے منصوب كئے جاچكے ہيں اور مسلمانوں كے ايك گروہ نے ان كى بيعت بھى كرلى ہے_

اس حالت ميں حضرت على عليہ السلام كے لئے ان طريقوں ميں سے كوئي ايك طريقہ اختيار كرنا چاہيئے تھا_

پہلا: يہ كہ حضرت على (ع) ايك سخت قدم اٹھائيں اور رسماً جناب ابوبكر كى حكومت كے خلاف اقدام كريں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑ كائيں اور برانگيختہ كريں_

دوسرا: جب وہ ديكھ چكے كہ كام ختم ہوچكا ہے تو اپنے شخصى مفاد اور مستقبل كى زندگى كے لئے جناب ابوبكر كى بيعت كرليں اس صورت ميں آپ كے شخصى منافع

بھى محفوظ ہوجائيں گے اور حكومت كے نزديك قابل احترام ميں قرار پائيں گے، ليكن دونوں طريقوں ميں سے كوئي بھى طريقہ حضرت على كے لئے ممكن نہ تھا كيونكہ اگر چاہتے كہ كھلم كھلا حكومت سے ٹكر ليں اور ميدان مبارزہ ميں وارد ہوجائيں تو ان كا يہ اقدام اسلام كے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام كے وہ دشمن جو كمين گاہ ميں بيٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممكن تھا كہ ''اسلام جو ابھى جوان ہوا ہے'' كلى طور پر ختم كرديا جاتا اسى لئے حضرت على (ع) نے اسلام كے اعلى اور ارفع منافع كو ترجيح دى اور سخت كاروائي كرنے سے گريز گيا_

آپ كے دوسرے طريقے پر عمل كرنے ميں بھى مصلحت نہ تھى كيونكہ جانتے تھے كہ اگر ابتداء ہى سے جناب ابوبكر كى بيعت كرليں تو اس كى وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبكر كى كاروائي جو انجام پاچكى تھى اس كا تائيد ہوجائے گى اور پيغمبر(ص) كى خلافت اور امامت كا مسئلہ اپنے حقيقى محور سے منحرف ہو جائے اور پيغمبر(ص) اور ان كى اپنى تمام تر زحمات اور فداكارياں بالكل ختم ہوكر رہ جائيں گي_ اس كے علاوہ جو كام بھى جناب ابوبكر اور عمر اپنے دور خلافت ميں انجام ديں گے وہ پيغمبر(ص) اور دين كے حساب ميں شمار كئے جائيں گے حالانكہ وہ دونوں معصوم نہيں ہيں اور ان سے خلاف شرع اعمال كا صادر ہونا بعيد نہيں_

تيسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طريقے ميں مصلحت نہ ديكھى تو سوائے ايك معتدل روش كے انتخاب كے اور كوئي چارہ كار نہ تھا_ حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ كيا كہ ايك وسيع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام كيا جائے تا كہ اسلام كو ختم ہونے اور متغير ہونے سے نجات دلاسكيں گرچہ اس عاقلانہ اقدام كا نتيجہ مستقبل بعيد ميں ہى ظاہر ہوگا آپ كے اس اقدام اور مبارزے كو تين مرحلوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_

پہلا مرحلہ:

حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ہاتھ پكڑتے اور رات كے وقت مدينہ كے بڑے لوگوں كے گھر جاتے اور انہيں اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے_ پيغمبر اكرم(ص) كے وصايا اور سفارشات كا تذكرہ كرتے (1)_

جناب فاطمہ (ع) فرماتيں، لوگو كيا ميرے باپ نے حضرت على (ع) كو خلافت كے لئے معين نہيں فرمايا؟ كيا ان كى فداكاريوں كو فراموش كرگئے ہو؟ اگر ميرے والد كے دستورات پر عمل كرو اور على (ع) كو رہبرى كے لئے معين كردو تو تم ميرے والد كے ہدف پر عمل كروگے اور وہ تمہيں اچھى طرح ہدايت كريں گے_ لوگو مگر ميرے باپ نے نہيں فرمايا تھا كہ ميں تم سے رخصت ہو رہا ہوں ليكن دو چيزيں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسك ركھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ايك اللہ كى كتاب دوسرے ميرے اہلبيت (ع) _ لوگو كيا يہ مناسب ہے كہ ہميں تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ كھينچ لو حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طريقوں سے مسلمانوں كو اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے تھے كہ شايد وہ اپنے كرتوت پر پشيمان ہوجائيں اور خلافت كو اس كے اصلى مركز طرف لوٹا ديں_

اس رويے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبليغ سے متاثر ہوا اور مدد كرنے كا وعدہ كيا، ليكن ان تھوڑے سے آدميوں نے بھى اپنے وعدہ پر عمل نہيں كيا اور انہوں نے حكومت كى مخالفت كى جرات نہيں كي_

1) الامامہ والسياستہ، ج 1 ص 12 _

حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) بغير شور و غل اور تظاہر كے جناب ابوبكر_ سے اپنى مخالفت ظاہر كرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامى كو ايك حد تك بيدار بھى كيا اور اسى رويے سے مسلمانوں كا ايك گروہ باطنى طور سے ان كا ہم عقيدہ ہوگيا_ ليكن صرف يہى نتيجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زيادہ كوئي اور نتيجہ نہ نكل سكا_

دوسرا مرحلہ:

حضرت على (ع) نے مصمم ارادہ كرليا كہ وہ جناب ابوبكر كى بيعت نہيں كريں گے تا كہ اس رويہ سے جناب ابوبكر كى انتخابى حكومت سے اپنى مخالفت ظاہر كرسكيں اور عملى طور سے تمام جہاں كو سمجھا ديں كہ على (ع) ابن ابيطالب اور ان كا خاندان جو پيغمبر اسلام كے نزديكى ہيں جناب ابوبكر كى خلافت سے ناراض ہيں تو معلوم ہوجائے گا كہ اس خلافت كى بنياد اسلام كے مذاق كے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھى حضرت على كے اس نظريئےى تائيد كى اور ارادہ كرليا كہ احتمالى خطرات اور حوادث كے ظاہر ہونے ميں اپنے شوہر كى حتمى مدد كريں گى اور عملى لحاظ سے جہان كو سمجھائيں گى كہ ميں پيغمبر اسلام(ص) كى دختر جناب ابوبكر كى خلافت كے موافق نہيں ہوں، لہذا حضرت على (ع) اس غرض كى تكميل كے لئے گھر ميں گوشہ نشين ہوگئے اور قرآن مجيد كے جمع كرنے ميں مشغول ہوگئے اور يہ ايك قسم كا منفى مبارزہ تھا جو آپ نے شروع كيا تھا_

چند دن اسى حالت ميں گزر گئے، ايك دن جناب عمر نے جناب ابوبكر سے اظہار كيا كہ تم لوگوں نے سوائے على (ع) اور ان كے رشتہ داروں كے تمہاري بيعت كرلى ہے، ليكن تمہارى حكومت كا استحكام بغير على (ع) كى بيعت كے ممكن نہيں ہے، على (ع) كو حاضر كيا جائے اور انہيں بيعت پر مجبور كيا جائے، حضرات ابوبكر نے جناب عمر كى اس رائے كو پسند كيا اور قنفذ سے كہا كہ على (ع) كے پاس جاؤ اور ان سے كہو كہ رسول (ص) كے خليفہ چاہتے ہيں كہ تم بيعت كے لئے مسجد ميں حاضر ہوجاؤ_

قنفذ كئي بار حضرت على (ع) كے پاس آئے اور گئے ليكن حضرت على (ع) نے جناب ابوبكر كے پاس آنے سے انكار كرديا_ جناب عمر خشمناك ہوئے اور خالد بن وليد اور قنفذ اور ايك گروہ كے ساتھ حضرت زہراء (ع) كے گھر كى طرف روانہ ہوئے دروازہ كھٹكھٹايا اور كہا يا على (ع) دروازہ كھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹى باندھے اور بيمارى كى حالت ميں دروازے كے پيچھے آئيں اور فرمايا_ اے عمر ہم سے تمہيں كيا كام ہے؟ تم ہميں اپنى حالت پر كيوں نہيں رہنے ديتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دى كہ دروازہ كھولو ورنہ گھر ميں آگ لگا دوں گا (1)_

جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا اے عمر خدا سے نہيں ڈرتے، ميرے گھر ميں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ كى گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے ديكھا كہ دروازہ نہيں كھولتے تو حكم ديا كہ لكڑياں لے آؤتا كہ ميں گھر كو آگ لگادوں (2)_

دروازہ كھل گيا جناب عمر نے گھر كے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع) نے جب دروازہ كھلا ديكھا اور خطرے كو نزديك پايا تو مردانہ وار جناب عمر كے سامنے آكر مانع ہوئيں (1)_

1) شرح ابن ابى الحديد، الحديد، ج 2 ص 56 اور، ج 6 ص 48_

2) اثبات الوصيتہ، ص 110_ بحار الانوار، ج 43 ص 197_ الامامہ السياسہ، ج 1 ص 12_

1) سنى شيعہ تاريخ اور مدارك اس پر متفق ہيں كہ جناب ابوبكر كے سپاہيوں نے حضرت زہراء (ع) كے گھر پر حملہ كرديا اور جناب عمر نے لكڑياں طلب كى اور گھرواروں كو گھر جلادينے كى دھمكى دى بلكہ يہاں تك لكھا ہے كہ جناب عمر سے كہا گيا كہ اس گھر ميں فاطمہ (ع) موجود ہيں آپ نے جواب ديا كہ اگر بيعت كے لئے حاضر نہ ہوں گے تو ميں اس گھر كو آگ لگادوں گا گرچہ اس ميں فاطمہ (ع) ہى موجود ہوں_ جيسے كہ يہ مطلب ابوالفداء ابن ابى الحديد ابن قيتبہ نے امامہ و السياسہ ميں، انساب الاشرف يعقوبى اور دوسروں نے گھر پر حملہ كرنے اور جلانے كى دھمكى كو تحرير كيا ہے، خود حضرت ابوبكر نے اپنى موت كے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت كا اظہار كيا ہے_ چنانچہ ابن ابى الحديد جلد 2 ص 46 پر اور ج 12 ص 194 پر لكھتے ہيں كہ جس وقت جناب زينب پيغمبر كى (1) لڑكى مكّہ سے مدينہ آرہى تھيں تو راستے ميں دشمنوں نے اس پر حملہ كرديا اور حصار بن الود نے آك كے كجا دے پر حملہ كرديا اور نيزے سے آپ كو تحديد كرديا اور حصار بن الود نے آپ كے كجا دے پر حملہ كرديا اور نيزے سے آپ كو تحديد كى اس وجہ سے جناب زينب كا بچہ سقط ہوگيا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے كہ آپ نے فتح مكہ كے دن ہبار كے خون كو مباح قرار دے ديا_ اس كے بعد ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ ميں نے يہ واقعہ نقيب ابى جعفر كے سامنے پڑھا تو اس نے كہ كہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار كے خون مباح كرديا تھا تو معلوم اور يہ آواز بلند گريہ و بكا اور شيون كرنا شروع كرديا تا كہ لوگ خواب غفلت سے بيدار ہوجائيں اور حضرت على (ع) كا دفاع كريں_ زہراء (ع) كے استغاثے اور گريہ و بكا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہيں كيا بلكہ انہوں نے تلوار كا دستہ _ آپ كے پہلو پر مارا اور تازيانے سے آپ كے بازو كو بھى سياہ كرديا تا كہ آپ اپنا ہاتھ على (ع) كے ہاتھ سے م ہٹاليں (1)_

1) ضعيف روايات كى بناء پر مولّف نے حاشيہ لگايا ہے ورنہ رسول (ص) كى بيٹى فقط جناب فاطمہ (ع) ہيں كے علاوہ كوئي بيٹى تاريخ سے اگر ثابت ہے تو ضعيف روايات كى رو ہے_

آخر الامر حضرت على (ع) كو گرفتار كرليا گيا اور آپ كو مسجد كى طرف لے گئے جناب زہراء (ع) على (ع) كى جان كو خطرے ميںديكھ رہى تھيں، مردانہ اور اٹھيں اور حضرت على (ع) كے دامن كو مضبوطى سے پكڑليا اور كہا كہ ميں اپنے شوہر كو نہ جانے دوں گى _ قنفذ نے ديكھا كہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے على (ع) كو نہيں چھوڑتيں تو اس نے اتنے تازيانے آپ كے ہاتھ پر مارے كہ آپ كا بازو ورم كرگيا (2)_

حضرت زہرا (ع) سلام اللہ عليہا اس جميعت ميں ديوار اور دروازے كے درميان ہوگئيں اور آپ پر دروازے كے ذريعہ اتنا زور پڑا كہ آپ كے پہلو كى ہڈى ٹوٹ گئي اور وہ بچہ جو آپ كے شكم مبارك ہوتا ہے كہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص كے خون كو جس نے فاطمہ (ع) كو تحديد كى تھى كہ جس سے فاطمہ (ع) كا بچہ ساقط ہوگيا تھا مباح كرديتے_ اہلسنت كى كتابيں تہديد كے بعد كے واقعات كے بيان كرنے ميں ساكت ہيں، ليكن شيعوں كى تواريخ اور احاديث نے بيان كيا ہے كہ بالاخر آپ كے گھر كے دروازے كو آگ لگادى گئي اور پيغمبر(ص) كى دختر كو اتنا زد و كوب كيا گيا كہ بچہ ساكت ہوگيا ميں تھا ساقط ہوگيا (1)_

''مولف''

1) بحار الانوار ج 43 ص 197_

2) بحار الانوار، ج 43 ص 198_

حضرت على (ع) كو پكڑا اور مسجد كى طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھليں تو ديكھا كہ على (ع) كو مسجد لے گئے ہيں فوراً اپنى جگہ سے ا ٹھيں چونكہ حضرت على (ع) كى جان كو خطرے ميں ديكھ رہى تھيں اور ان كا دفاع كرنا چاہتى تھيں لہذا نحيف جسم پہلو شكستہ كے باوجود گھر سے باہر نكليں اور بنى ہاشم كى مستورات كے ساتھ مسجد كى طرف روانہ ہوگئيں ديكھا كہ على (ع) كو پكڑے ہوئے ہيں آپ لوگوں كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا ميرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا كى قسم اپنے سر كے بال پريشان كردوں گى اور پيغمبر اسلام(ص) كا پيراہن سر پر ركھ كر اللہ تعالى كى درگاہ ميں نالہ كروں گى اور تم پر نفرين اور بدعا كروں گي_ اس كے بعد جناب ابوبكر كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا كيا تم نے ميرے شوہر كو قتل كرنے كا ارادہ كرليا ہے اور ميرے بچوں كو يتيم كرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہيں نہ چھوڑا تو اپنے بال پريشان كردوں گى اور پيغمبر(ص) كى قبر پر اللہ كى درگاہ ميں استغاثہ كروں گى يہ كہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسين (ع) كا ہاتھ پكڑا اور رسول خدا(ص) كى قبر كى طرف روانہ ہوگئيں آپ نے ارادہ كرليا تھا كہ اس جمعيت پر نفرين كريں اور اپنے دل ہلادينے والے گريہ سے حكومت كو الٹ كر ركھ ديں_

حضرت على (ع) نے ديكھا كہ وضع بہت خطرناك ہے اور كسى صورت ميں ممكن نہيں كہ حضرت زہرا (ع) كو اپنے ارادے سے روكا جائے تو آپ نے سلمان فارسى سے فرمايا كہ پيغمبر(ص) كى دختر كے پاس جاؤ اور انہيں بددعا كرنے سے منع كردو_

1) بحار الانوار، ج 43 ص 198

جناب سلمان جناب زہرا (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى اے پيغمبر(ص) كى دختر آپ كے والد دنيا كے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرين نہ كيجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمايا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو ميں ان متجاوزين سے دادخواہى كروں_ سلمان نے عرض كيا كہ مجھے حضرت على (ع) نے آپ كى خدمت ميں بھيجا ہے اور حكم ديا ہے كہ آپ اپنے گھر لوٹ جائيں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت على (ع) كا حكم دريافت كيا تو آپ نے كہا جب انہوں نے حكم ديا ہے تو ميں اپنے گھر لوٹ جاتى ہوں اور صبر كا آغاز كروں گي_ ايك اور روايت ميں آيا ہے كہ آپ نے حضرت على (ع) كا ہاتھ پكڑ اور گھر لوٹ آئيں (1)_

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) كے زمانہ جہاد اور مبارزہ كى مدت گرچہ تھوڑى اور آپ كى حيات كا زمانہ بہت ہى مختصر تھا، ليكن آپ كى حيات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھي_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے ديكھا كہ حكومت كے حاميوں نے حضرت على (ع) كو گرفتار كرنے كے لئے ان كے گھر كا محاصرہ كرليا ہے تو آپ عام عورتوں كى روش سے ہٹ كر جو معمولاً ايسے مواقع ميں كنارہ گيرى كرليتى ہيں گھر كے دروازے كے پيچھے آگئيں اور استقامت كا مظاہرہ كيا_

دوسرے: جب دروازہ كھول ليا گيا تب بھى جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹيں بلكہ اپنے آپ كو ميدان كارزار ميں بر قرار ركھا اور دشمن كے مقابلے ميں ڈٹ گئيں اتنى مضبوطى سے كھڑى رہيں كہ تلوار كے نيام سے آپ كے پہلو كو مارا گيا اور تازيانے سے آپ كے بازو سياہ كرديئےئے_

1) بحار الانوار، ج 43 ص 47 و روضہ كافي، ص 199_

تيسرے: جب على (ع) گرفتار كرلئے گئے اور چاہتے تھے كہ آپ كو وہاں سے لے جائيں تب بھى آپ ميدان ميں آگئيں اور على (ع) كے دامن كو پكڑليا اور وہاں سے لے جانے ميں مانع ہوئيں اور جب تك آپ كا بازو تازيانے سے سياہ نہ كرديا گيا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخرى مورچہ گھر كو بنايا اور گھر ميں آكر على (ع) كو باہر لے جانے سے ممانعت كي، اس مورچہ ميں اتنى پائيدارى سے كام ليا كہ دروازے اور ديوار كے درميان آپ كا پہلو ٹوٹ گيا اور بچہ ساقط ہوگيا_

اس مرحلہ كے بعد آپ نے سوچا كہ چونكہ ميرا يہ مبارزہ گھر كے اندر واقع ہوا ہے شايد اس كى خبر باہر نہ ہوئي ہو لہذا ضرورى ہوگيا ہے كہ مجمع عام گريہ و بكا اور آہ و زارى شروع كردى اور جب تمام طريقوں سے نا اميد ہوگئيں تو مصمم ارادہ كرليا كہ ان لوگوں پر نفرين اور بد دعا كريں، ليكن حضرت على (ع) كے پيغام پہنچنے پر ہى آپ كے حكم كى اطاعت كى اور واپس گھر لوٹ آئيں_

جى ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ كرليا تھا كہ آخرى لحظہ اور قدرت تك على (ع) سے دفاع كرتى رہوں گى اور يہ سوچا تھا كہ جب ميدان مبارزہ ميں وارد ہوگئي ہوں تو مجھے اس سے كامياب اور فتحياب ہوكر نكلنا ہوگا اور حضرت على (ع) كو بيعت كے لئے لے جانے ميں ممانعت كرنى ہوگي، اس طرح عمل كر كےاپنے شوہر كے نظريئے اور عمل اور رفتار كى تائيد كروں گى اور جناب ابوبكر كى خلافت سے اپنى ناراضگى كا اظہار كروں گى اور اگر مجھے مارا پيٹا گيا تب بھى شكستہ پہلو اور سياہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے كے باوجود جناب ابوبكر كى خلافت كو بدنام اور رسوا كردوں ى اور اپنے عمل سے جہان كو سمجھاؤں گى كہ حق كى حكومت سے روگردانى كا ايك نتيجہ يہ ہے كہ اپنى حكومت كو دوام دينے كے لئے پيغمبر (ص) كى دختر كا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) كے فرزند كو ماں كے پيٹ ميں شہيد كرنے پر بھى تيار ہوجاتے ہيں اور ابھى سے تمام عالم كے مسلمانوں كى بتلا دينا چاہتى ہوں كہ بيدارى اور ہوش ميں آجاؤ كہ انتخابى حكومت كا ايك زندہ اور واضح فاسد نمونہ يہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولايت كے مكتب كى تربيت شدہ تھيں، فداكارى اور شجاعت كا درس ان دو گھروں ميں پڑھا تھا اپنے پہلو كے شكستہ ہونے اور مار پيٹ كھانے سے نہ ڈريں اور اپنے ہدف كے دفاع كے معاملے ميں كسى بھى طاقت كے استعمال كى پرواہ نہ كي_

تيسرا مرحلہ فدك (1)

جب سے جناب ابوبكر نے مسلمانوں كى حكومت كو اپنے ہاتھ ميں ليا اور تخت خلافت پر بيٹھے اسى وقت سے ارادہ كرليا تھا كہ فدك كو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدك ايك علاقہ ہے جو مدينے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس ميں كئي ايك باغ اور بستان ہيں اور علاقہ قديم زمانے ميں بہت زيادہ آباد تھا اور يہوديوں كے ہاتھ ميں تھا، جب اس علاقے كے مالكوں نے اسلام كى طاقت اور پيشرفت كو جنگ خيبر ميں مشاہدہ كيا تو ايك آدمى كو رسول خدا(ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ سے صلح كى پيش كش كى پيغمبر اسلام(ص) نے ان كى صلح كو قبول كرليا اور بغير لڑائي كے صلح كا عہدنامہ پايہ تكميل تك پہنچ گيا اس قرار داد كى روسے فدك آدھى زمين جناب رسول خدا(ص) كے اختيار ميں دے دى گئي اور يہ خالص رسول(ص) كا مال ہوگيا (1)_

1) فدك كا موضوع اور اس ميں حضرت فاطمہ (ع) كا ادعا مفصل اور عميق اس كتاب كے آخر ميں بيان كيا گيا ہے_

كيونكہ اسلامى قانون كى رو سے جو زمين بغير جنگ كے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) كى ہوا كرتى ہے اور باقى مسلمانوں كا اس ميں كوئي حق نہيں ہوا كرتا_

فدك كى زمينيں پيغمبر(ص) كى ملكيت اور اختيار ميں آگئي تھيں آپ اس كے منافع كو بنى ہاشم اور مدينہ كے فقراء اور مساكين ميں تقسيم كيا كرتے تھے اس كے بعد يہ آيت نازل ہوئي_ ''وات ذا القربى حقہ'' (2)_ اور جب يہ آيت نازل ہوئي تو پيغمبر(ص) نے اللہ تعالى كے دستور اور حكم كے مطابق فدك جناب فاطمہ (ع) كو بخش ديا اس باب ميں پيغمبر(ص) سے كافى روايات وارد ہوئي ہيں نمونے كے طور پر چند _ يہ ہيں_

ابوسعيد خدرى فرماتے ہيں كہ جب يہ آيت ''وات ذاالقربى حقہ'' نازل

1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 210_

2) سورہ اسراء آيت ص 26_

ہوئي تو پيغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمايا كہ فدك تمہارا مال ہے (1)_

عطيّہ كہتے ہيں كہ جب آيت ''و آت ذاالقربى حقہ'' نازل ہوئي تو پيغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو بلايا اور فدك انہيں بخش ديا(2)_

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى ميں فدك فاطمہ (ع) كو بخش ديا تھا (3)_

فدك كا علاقہ معمولى اور كم قيمت نہ تھا بلكہ آباد علاقہ تھا اور اس كى كافى آمدنى تھى ہر سال تقريباً چوبيس ہزار يا ستر ہزار دينار اس سے آمدنى ہوا كرتى تھى (4)_

اس كے ثبوت كے لئے دو چيزوں كو ذكر كيا جاسكتا ہے يعنى فدك كا علاقہ وسيع اور بيش قيمت تھا اسے دو چيزوں سے ثابت كيا جاسكتا ہے_

پہلي: جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) كے جواب ہيں، جب آپ نے فدك كا مطالبہ كيا تھا تو فرمايا تھا كہ فدك رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا مال نہ تھا بلكہ يہ عام مسلمانوں كے اموال ميں سے ايك مال تھا كہ پيغمبر اسلام(ص) اس كے ذريعے جنگى آدميوں كو جنگ كے لئے روانہ كرتے تھے اور اس آمدنى كو خدا كى راہ ميں خرچ كرتے تھے (5)_

1) كشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور تفسير در منثور، ج 4 ص 177_

2) كشف الغمہ، ج 2 ص 102

3) كشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور كتاب در منثور، ج 4 ص 177 ور غاية المرام ص 323 ميں اس موضوع كى احاديث كا مطالعہ كيجئے_

4) سفينة البحار، ج 2 ص 251_

5) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 216_

دوسرے: جب معاويہ خليفہ ہوا تو اس نے فدك مروان ابن حكم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند يزيد كے درميان مستقيم كرديا (1)_

ان دونوں سے يہ نتيجہ نكالا جاسكتا ہے كہ فدك ايك پر قيمت اور زرخيز علاقہ تھا كہ جس كے متعلق جناب ابوبكر نے فرمايا كہ رسول خدا اس كى آمدنى سے لوگوں كو جنگ كے لئے روانہ كرتے تھے، اور خدا كى راہ ميںخرچ كيا كرتے تھے_

اگر فدك معمولى ملكيت ہوتا تو معاويہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدميوں كے درميا تقسيم نہ كرتا_

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فدك كبوں فاطمہ (ع) كو بخشا

پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زندگى كے مطالعے سے يہ امر بخوبى معلوم كيا جاسكتا ہے كہ آپ ثروت اور مال كے شيدائي نہ تھے اور مال كو ذخيرہ كرنا اور جمع ركھنے كى كوشش نہيں كيا كرتھے اپنے مال كو اپنے ہدف يعنى خداپرستى كے لئے خرچ كرديا كرتے تھے، مگر يہى پيغمبر(ص) نہ تھے كہ جناب خديجہ كى بے حد اور بے حساب دولت كو اسى ہدف اور راستے ميں خرچ كر رہے تھے اور خود اور آپ كے داماد اور لڑكى كمال سختى اور مضيقہ ميں زندگى بسر كرتے تھے كبھى بھوك كى شدت كى وجہ سے اپنے شكم مبارك پر پتھر باندھا كرتے تھے_ پيغمبر(ص) ان آدميوں ميں نہ تھے كہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنى اولاد كے لئے مال، دولت حاصل كرتے مگر يہى پيغمبر(ص) نہ تھے كہ جو نہيں چاہتے تھے كہ ان كى لڑكى اپنے گھر كے لئے ايك پشمى پردہ لٹكائے ركھے اور حسن (ع) اور حسين (ع) كو چاندى كا دستبند پہنائيں_ اور خود گردن ميں ہار پہنے ركھے_

1) شرح ابن ابى الحديد، ج16 ص 216_

سوچنے كى بات ہے اپنى زندگى اور بيٹى كى داخلى زندگى ميں اتنا سخت گير ہونے كے باوجود كس علت كى بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقيمت مال كو فاطمہ (ع) كے لئے بخش ديا تھا؟ آپ كا يہ غير معمولى كام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ كى يوں علت بيان كى جاسكتى ہے كہ پيغمبر(ص) اللہ تعالى كى طرف سے مامور تھے كہ على (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ معين كريں اور يہ بھى جانتے تھے كہ لوگ اتنى آسانى سے آپ كى رہبرى اور حكومت كو قبول نہيں كريں گے اور آپ كى خلافت كے لئے ركاوٹيں ڈاليں گے اور يہ بھى جانتے تھے كہ عرب كے بہت زيادہ گھرانے اور خاندان حضرت على (ع) كى طرف سے بغض و كدورت ركھتے ہيں كيوں كہ على (ع) شمشير زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ايسے تھے كہ جن ميں كا ايك يا ايك سے زائد آدمى زمانہ كفر ميں على (ع) كے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پيغمبر(ص) كو علم تھا كہ خلافت اور مملكت كے چلانے كے لئے مال اور دولت كى ضرورت ہوتى ہے ان حالات اور شرائط ميں قورى كا جمع ہوجانا مشكل كام ہوگا_ پيغمبر(ص) جانتے تھے كہ اگر على (ع) فقراء اور بيچاروں كى مدد اور اعانت كرسكے اور ان كى معاشى احتياجات برطرف كرسكے تو دلوں كا بغض اور كدورت ايك حد تك كم ہوجائے گا اور آپ كى طرف دل مائل ہوجائيں گے_

يہى وجہ تھى كہ آنحضرت نے فدك جناب فاطمہ (ع) كو بخش ديا_ در حقيقت يہ مستقبل كے حقيقى خليفہ كے اختيار ميں دے ديا تھا تا كہ اس كى زيادہ آمدنى فقراء اور مساكين كے درميان تقسيم كريں شايد كينے اور پرانى كدروتيں لوگ بھول جائيں اور حضرت على (ع) كى طرف متوجہ ہوجائيں، خلافت كے آغاز ميں اس كى بحرانى حالت ميں اس مال سے استفادہ كريں اور خدا اور رسول (ص) كے ہدف كى ترقى اور پيشرفت ميں اس سے بہرہ بردارى كريں_ در حقيقت پيغمبر اسلام(ص) نے اس ذريعے سے خلافت كى اقتصادى مدد كى تھي_

فدك جناب رسول خدا(ص) كى زندگى ميں جناب زہرا(ع) كے تصرف اور قبضے ميں تھا آپ قوت لايموت يعنى معمولى مقدار اپنے لئے ليتيں اور باقى كو خدا كى راہ ميں خرچ كرديتيں اور فقراء كے درميان تقسيم كرديتيں_

جب جناب ابوبكر نے مسلمانوں كى حكوت پر قبضہ كيا اور تخت خلافت پر متمكن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ كرليا كہ فدك آنجناب سے واپس لے ليں، چنانچہ انہوں نے حكم د يا كہ جناب فاطمہ (ع) كے كاركنوں اور عمال اور مزارعين كو نكال ديا جائے اور ان كى جگہ حكومت كے كاركن نصب كرديئے جائيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا(1)_

فدك لينے كے اسباب

فدك لينے كے لئے دو اصلى عوامل قرار ديئے جاسكتے ہيں كہ جن كے بعد جناب ابوبكر نے مصمم ارادہ كرليا تھا كہ فدك جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے ليا جائے_

1) تفسير نورالثقلين، ج 4 ص 272_

پہلا عامل: تاريخ كے مطالعے سے يہ مطلب روز روشن كى طرح واضح ہے كہ جناب عائشےہ دو چيزوں سے ہميشہ رنجيدہ خاطر رہتى تھي_ پہلي: چونكہ پيغمبر اسلام(ص) جناب خديجہ سے بہت زيادہ محبت ركھتے تھے اور ان كا كبھى كبھار نيكى سے ذكر كيا كرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ كے دل ميں ايك خاص كيفيت پيدا ہوجاتى تھى اور بسا اوقات اعتراض بھى كرديتى تھيں اور كہتى تھيں خديجہ ايك بوڑھى عورت سے زيادہ كچھ نہ تھيں آپ ان كى اتنى تعريف كيوں كرتے ہيں_ پيغمبر(ص) جواب ديا كرتے تھے، خديجہ جيسا كون ہوسكتا ہے؟ پہلى عورت تھيں جو مجھ پر ايمان لائيں اور اپنا تمام مال ميرے اختيار ميں دے ديا، ميرے تمام كاموں ميں ميرى يار و مددگار تھيں خداوند عالم نے ميرى نسل كو اس كى اولاد سے قرار ديا ہے(1)_

جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ ميں نے خديجہ جتنا كسى عورت سے بھى رشك نہيں كيا حالانكہ آپ ميرى شادى سے تين سال پہلے فوت ہوچكى تھيں كيونكہ رسول خدا(ص) ان كى بہت زيادہ تعريف كرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) كو حكم دے ركھا تھا كہ خديجہ كو بشارت دے ديں كہ بہشت ميں ان كے لئے ايك قصر تيار كيا جاچكا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) كوئي گوسفند ذبح كرتے تو اس كا گوشت جناب خديجہ كے سہيليوں كے گھر بھى بھيج ديتے تھے (2)_

1) تذكرة الخواص، ص 303 و مجمع الزوائد، ج 9 ص 224_

2) صحيح مسلم ج 2 ص 1888_

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ ايك دن جناب رسول خدا(ص) گھر ميں آئے تو ديكھا كہ جناب عائشےہ حضرت زہراء كے سامنے كھڑى قيل و قال كر رہى ہيں اور كہہ رہى ہيں اے خديجہ كى بيٹى تو گمان كرتى ہے كہ تيرى ماں مجھ سے افضل تھي، اسے مجھ پر كيا فضيلت تھي؟ وہ بھى ميرى طرح كى ايك عورت تھى جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ كى گفتگو سن لى اور جب جناب فاطمہ (ع) كى نگاہ باپ پر پڑى تو آپ نے رونا شروع كرديا_ پيغمبر نے فرمايا فاطمہ (ع) كيوں روتى ہو؟ عرض كيا كہ جناب عائشےہ نے ميرى ماں كى توہين كى ہے رسول خد ا(ص) خشمناك ہوئے اور فرمايا: عائشےہ ساكت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت كرنے والى بچہ دار عورتوں كو مبارك قرار ديا ہے_ جناب خديجہ سے ميرى نسل چلي، ليكن خداوند عالم نے تمہيں بانجھ قرار ديا (1)_

دوسرا عامل: پيغمبر اكرم(ص) حد سے زيادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت كا اظہار فرمايا كرتے تھے آپ كے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ كے دل ميں ايك خاص كيفيت پيدا كر ركھى تھى كہ جس كى وجہ سے وہ عذاب ميں مبتلا رہتى تھيں كيونكہ عورت كى فطرت ميں ہے كہ اسے اپنى سوكن كى اولاد پسند نہيں آتى اور عائشےہ كبھى اتنى سخت ناراحت ہوتيں كہ پيغمبر(ص) پر بھى اعتراض فرما ديتيں اور كہتيں كہ اب جب كہ فاطمہ (ع) كى شادى ہوچكى ہے آپ پھر بھى اس كا بوسہ ليتے ہيں_ پيغمبر(ص) اس كے جواب ميں فرماتے ہيں تم فاطمہ (ع) كے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ايسى بات نہ كرتيں (2)_

1) بحار الانوار، ج 16 ص 3_

2) كشف الغمہ، ج 2 ص 85_

آپ جناب فاطمہ (ع) كى جتنى زيادہ تعرى كرتے اتناہى جناب عائشےہ كى اندرونى كيفيت دگرگوں ہوتى اور اعتراض كرنا شروع كرديتيں_

ايك دن جناب ابوبكر پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہونا چاہتے تھے كہ آپ نے جناب عائشےہ كى آواز اور چيخنے كو سنا كہ رسول خدا(ص) سے كہہ رہى ہيں كہ خدا كى قسم مجھے علم ہے كہ آپ على (ع) اور فاطمہ (ع) كو ميرے اور ميرے باپ سے زيادہ دوست ركھتے ہيں، جناب ابوبكر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے كہا كيوں پيغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات كر رہى ہو (1)_

ان دو باتوں كے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھى تھيں اور پيغمبر(ص) كى نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود ميں آئي يہ مطلب بھى جناب عائشےہ كو رنج پہنچاتا تھا، بنابرايں جناب عائشےہ كے دل ميں كدورت اور خاص زنانہ كيفيت كا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ كبھى اپنے والد جناب ابوبكر كے پاس جاتيں اور جناب عائشےہ كے دل ميں كدورت اور خاص زنانہ كيفيت كا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ كبھى اپنے والد جناب ابوبكر كے پاس جاتيں اور جناب فاطمہ (ع) كى شكايت كرتيں ہوسكتا ہے كہ جناب ابوبكر بھى دل سے جناب فاطمہ (ع) كے حق ميں بہت زيادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں كہ كبھى اپنى اس كيفيت كو بجھانے كے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام ليں_

جب پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم وفات پاچكے تو جناب فاطمہ (ع) رويا كرتيں اور فرماتيں كتنے برے دن آگئے ہيں جناب ابوبكر فرماتے كہ ابھى برے دن اور آگے ہيں (2)_

1) مجمع الزوايد، ج 9 ص 201_

2) ارشاد شيخ مفيد، ص 90_

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبكر سوچتے تھے كہ حضرت على (ع) كے ذاتى كمالات اور فضائل اور علم و دانش كا مقام قابل انكار نہيں اور پھر پيغمبر(ص) كى سفارشات بھى ان كى نسبت بہت معروف اور مشہور ہيں پيغمبر (ص) كے داماد اور چچازاد بھائي ہيں اگر ان كى مالى اور اقتصادى حالت اچھى ہوئي اور ان كے ہاتھوں ميں دوپيہ بھى ہوا تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت كے لئے خطرے كا موجب بن جائے يہ ايك نكتہ تھا كہ جس كا ذكر جناب عمر نے جناب ابوبكر سے كيا اور جناب ابوبكر سے كہا كہ لوگ دنيا كے بندے ہوا كرتے ہيں اور دنيا كے سوا ان كا كوئي ہدف نہيں ہوتا تم خمس اور غنائم كو على (ع) سے لے لو اور فدك بھى ان كے ہاتھ سے نكال لو جب ان كے چاہنے والے انہيں خالى ہاتھ ديكھيں گے تو انہيں چھوڑ ديں گے اور تيرى طرف مائل ہوجائيں گے (1)_

جى ہاں يہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے كہ جناب ابوبكر نے مصمم ارادہ كرليا كہ فدك كو مصادرہ كر كے واپس لے ليں اور حكم ديا كہ فاطمہ (ع) كے عمال اور كاركنوں كا باہر كيا جائے اور اسے اپنے عمال كے تصرف ميں دے ديا_

جناب زہراء (ع) كا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) كو اطلاع ملى كہ آپ كے كاركنوں كو فدك سے نكال دياگيا ہے تو آپ بہت غمگين ہوئيں اوراپنے آپ كو ايك نئي مشكل اور مصيبت ميں ديكھا كيونكہ حكومت كا نقشہ حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفى نہ تھا اور ان كے اصلى اقدام كى غرض و غايت سے بھى بے خبر نہ تھے_

1) ناسخ التواريخ جلد زہرائ، ص 123_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) كو ان دو راستوں ميں سے ايك راستہ اختيار كرنا تھے_

پہلاراستہ يہ تھا كہ جناب ابوبكر كے سامنے ساكت ہوجائيں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشى كرليں اور كہيں كہ ہميں تو دنيا كے مال و متاع سے كوئي محبت اور علاقہ نہيں چھوڑو فدك بھى جناب ابوبكر لے جائيں اس كے ساتھ يہ بھى اس كے لئے ہوسكتا ہے كہ وہ جناب خليفہ كو خوش كرنے كى غرض سے پيغام دالواتيں كہ تم ميرے ولى امر ہو ميں ناچيز فدك كو آپ كى خدمت ميں پيش كرتى ہوں_

دوسرا راستہ يہ تھا كہ اپنى پورى قدرت سے ركھتى ہيں اپنے حق كا دفاع كريں_

پہلا راستہ اختيار كرنا حضرت زہراء (ع) كے لئے ممكن نہ تھا كيونكہ وہ حكومت كے پوشيدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھيں جانتى تھيں كہ وہ اقتصادى دباؤ اور آمدنى كے ذريعے قطع كردينے سے اسلام كے حقيقى خليفہ حضرت على (ع) كے اثر كو ختم كرنا چاہتے ہيں تا كہ ہميشہ كے لئے حضرت على (ع) كا ہاتھ حكومت سے كوتاہ ہوجائے اور وہ كسى قسم كا خلافت كے خلاف اقدام كرنے سے مايوس ہوجائيں اور يہ بھى جانتى تھيں كہ فدك كو زور سے لے لينے سے على (ع) كے گھر كا دروازہ بند كرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا كہ اب بہت اچھى فرصت اور مدرك ہاتھ آگيا ہے اس وسيلہ سے جناب ابوبكر كى انتخابى خلافت سے مبارزہ كر كےاسے بدنام اور رسوا كيا جائے اور عمومى افكار كو بيدار كيا جائے اور اس قسم كى فرصت ہميشہ ہاتھ نہيں آيا كرتي_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا كہ اگر ميں جناب ابوبكر كے دباؤ ميں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ كروں تو جناب ابوبكر كى حكومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے كى عادى ہوجائے گى اور پھر لوگوں كے حقوق كى مراعات نہ ہوسكے گي_

جناب فاطمہ (ع) نے فكر كى كہ اگر ميں نے اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ خيال كريں گے اپنے حق سے صرف نظر كرنا اور ظلم و ستم كے زير بار ہونا اچھا كام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر ميں نے ابوبكر كو بدنام نہ كيا تو دوسرے خلفاء كے درميان عوام فريبى رواج پاجائے گي_

حضرت فاطمہ (ع) نے فكر كى كہ پيغمبر(ص) كى دختر ہوكر اپنے صحيح حق سے صرف نظر كرلوں تو مسلمانوں خيال كريں گے كہ عورت تمام اجتماعى حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہيں پہنچتا كہ وہ اپنے حق كے احقاق كے لئے مبارزہ كرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا كہ ميں جو وحى كے دامن اور ولايت كے گھر كى تربيت يافتہ ہوں اور ميں اسلام كى خواتين كے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ايك اسلام كى تربيت يافتہ سمجھا جاتا ہے ميرے اعمال اور رفتار كو ايك اسلام كى نمونہ عورت كى رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر ميں اس مقام ميں سستى كروں اور اپنے حق كے لينے ميں عاجزى كا اظہار كروں تو پھر اسلام ميں عورت عضو معطل سمجھى جائے گي_

جى ہاں يہ اور اس قسم كے ديگر عمدہ افكار تھے جو جناب فاطمہ (ع) كو اجازت نہيں ديتے تھے كہ وہ پہلا راستہ اختيار كرتيں يہى وجہ تھى كہ آپ نے ارادہ كرليا تھا كہ توانائي اور قدرت كى حد تك اپنے حق سے دفاع كريں گي_

البتہ يہ كام بہت زيادہ سہل اور آسان نہ تھا كيوں كہ ايك عورت كا مقابلہ جناب خليفہ ابوبكر سے بہت زيادہ خطرناك تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) ناى عورت كا كہ جو پہلے سے پہلو شكستہ بازو سياہ شدہ اور جنين ساقط شدہ تھيں، ان ميں سے ہر ايك حادثہ اور واقعہ عورت كے لئے كافى تھا كہ وہ ہميشہ كے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

ليكن فاطمہ (ع) نے فداكارى اور شجاعت اور بردبارى اور استقامت كى عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خديجہ كبرى سے وراثت ميں پائي تھى اور انہوں نے مبارزت اسلامى كے مركز ميں تربيت پائي تھى انہوں نے ان فداكاروں اور قربانى دينے والوں كے گھر ميں زندگى گزارى تھى كہ جہاں كئي دفعہ وہ شوہر كے خون آلود كپڑے دھوچكى تھيں اور ان كے زخمى بدن كى مرہم پٹى كرچكى تھيں وہ ان جزئي حوادث سے خوف نہيں كھاتى تھيں اور جناب ابوبكر كى حكومت سے مرعوب نہيں ہوتى تھيں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے كو كئي ايك مراحل ميں انجام ديا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور فرمايا كہ تم نے كيوں ميرے كاركنوں كو ميرى ملكيت سے باہرنكال ديا ہے؟ ميرے باپ نے اپنى زندگى ميں فدك مجھے ہبہ كرديا تھا جناب ابوبكر نے جواب ديا اگر چہ ميں جانتا ہوں كہ تم جھوٹ نہيں بولتيں ليكن پھر بھى اپنے دعوے كے ثبوت كے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ايمن اور حضرت على (ع) كو گواہ كے طور پر لے گئيں، جناب ام ايمن نے جناب ابوبكر سے كہ تجھ خدا كى قسم ديتى ہوں كہ كيا تم جانتے ہو كہ رسول خدا(ص) نے ميرے بارے ميںفرمايا ہے كہ ام ايمن بہشتى ہيں، جناب ابوبكر نے جواب ديا، يہ ميں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ايمن نے فرمايا ميں گواہى ديتى ہوں كہ جب يہ آيت ''و آت ذى القربى حقہ'' نازل ہوئي تو رسول خدا(ص) نے فدك فاطمہ (ع) كو دے ديا تھا_

حضرت على عليہ السلام نے بھى اس قسم كى گواہى دى جناب ابوبكر مجبور ہوگئے كہ فدك جناب فاطمہ (ع) كو لوٹا ديں لہذا ايك تحرير ايك كے متعلق لكھى اور وہ حضرت زہراء (ع) كو دے دي_

اچانك اسى وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دريافت كيا جناب ابوبكر نے جواب ديا كہ چونكہ جناب فاطمہ (ع) فدك كا دعوى كر رہى تھيں اور اس پر گواہ بھى پيش كرديئےيں لہذا ميں نے فدك انہيں واپس كرديا ہے جناب عمر نے وہ تحرير زہراء كے ہاتھ سے لى اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبكر نے بھى جناب عمر كى تائيد كرتے ہوئے كہا كہ آپ على (ع) كے علاوہ كوئي اور آدمى گواہ لے آئيں يا ايم ايمن كے علاوہ كوئي دوسرى عورت بھى گواہى دے جناب فاطمہ (ع) روتى ہوئي جناب ابوبكر كے گھر سے باہر چلے گئيں_

ايك اور روايت كى بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہى ديكہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فدك كى آمدنى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كرديتے تھے (1)_

ايك دن حضرت على (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئے اور فرمايا كہ كيوں فدك كو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو دياتھا ان سے لے ليا ہے؟ آپ نے جواب دياانہيں اپنے دعوى پر گواہ لے آنے چاہئيں اور چونكہ ان كے گواہ ناقص تھے جو قبول نہيں كئے گئے_ حضرت على (ع) نے فرمايا اے ابوبكر، كيا تم ہمارے بارے ميں اس كے خلاف حكم كرتے ہو جو تمام مسلمانوں كے لئے ہوا كرتا ہے_ جناب ابوبكر نے كہا كہ نہيں_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اب ميں تم سے سوال كرتا ہوں كہ اگر كچھ مال كسى كے ہاتھ ميں ہو اور ميں دعوى كروں كہ وہ ميرا مال ہے اور فيصلہ كرانے كے لئے جناب كے پاس آئيں تو آپ كس سے گواہ كا مطالبہ كريں گے؟ جناب ابوبكر نے كہا كہ آپ سے گواہ طلب كروں گا كيوں كہ مال كسى دوسرے كے تصرف ميں موجود ہے، آپ نے فرمايا پھر تم نے كيوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے كا مطالبہ كيا ہے در انحاليكہ فدك آپ(ص) كى ملكيت اور تصرف ميں موجود ہے، جناب ابوبكر نے سوكت كے سوا كوئي چارہ نہ ديكھا ليكن جناب عمر نے كہايا على ايسى باتين چھوڑو (2)_

اگر انصاف سے ديكھا جائے تو اس فيصلے مين حق حضرت زہراء كے

1) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 121، اور كشف الغمہ ج 2 ص 104_ اور شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 274_

2) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 121_ كشف الغمہ ج 2 ص 104_

ساتھ ہے كيونكہ فدك آپ كے قبضے ميں تھا اسى لئے تو حضرت على (ع) نے اپنے ايك خط ميں لكھا ہے_ جى ہاں دنيا كے اموال سے فدك ہمارے اختيار ميں تھا ليكن ايك جماعت نے اس پر بھى بخل كيا اور ايك دوسرا گروہ اس پر راضى تھا (1) _

قضاوت كے قواعد اور قانون كے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں كا مطالبہ نہيں كرنا چاہيئے تھا بلكہ دوسرى طرف جو ابوبكر تھے انہيں گواہ لانے چاہيئے تھے، ليكن جناب ابوبكر نے فيصلے كے اس مسلم قانون كى مخالفت كي، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے ميں كامياب ہوگوئيں اور اپنى حقانيت كو مضبوط دليل و برہان اور منطق سے ثابت كرديا اور حضرت ابوبكر مجبور ہوگئے كہ وہ فدك كے واپس كردينے كا دستور بھى لكھ ديں يہ اور بات ہے كہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت كى منطق كو ميدان ميں لائے اور لكھى ہوئي تحرير كو پھاڑ ديا اور گواہوں كے ناقص ہونے كا اس ميں بہانا بنايا_

پھر بھى استدلال

ايك دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور باپ كى وراثت كے متعلق بحث اور احتجاج كيا آپ نے فرمايا اے ابوبكر، ميرے باپ كا ارث مجھے كيوں نہيں ديتے ہو؟ جناب ابوبكر نے جواب ديا كہ پيغمبر(ص) ارث نہيں چھوڑتے_

1) نہج البلاغہ، ج 3 ص 45_

آپ نے فرمايا مگر خداوند عالم قرآن ميں نہيں فرماتا:

''و ورث سليمان داؤد'' (1)

كيا جناب سليمان جناب داؤد كے وارث نہيں بنے؟ جناب ابوبكر غضبناك ہوئے اور كہا تم سے كہا كہ پيغمبر ميراث نہيں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كيا زكريا نبى نے خدا سے عرض نہيں كيا تھا_

''فہب لى من لدنك وَلياً يرثنى وَ يرث من آل يعقوب'' (2)

جناب ابوبكر نے پھر بھى وہى جواب ديا كہ پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا:

''يوصيكم اللہ فى اولادكم للذكر حظ الانثيين'' (3)

كيا ميں رسول اللہ (ص) كى اولاد نہيں ہوں؟ چونكہ جناب ابوبكر حضرت زہراء (ع) كے محكم دلائل كا سامنا كر رہے تھے اور اس كے سوا اور كوئي چارہ نہ تھا كہ اسى سابقہ كلام كى تكرار كريں اور كہيں كہ كيا ميں نے نہيں كہا كہ پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے_

جناب ابوبكر نے اپنى روش اور غير شرعى عمل كے لئے ايك حديث نقل كى كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ہم پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھى جناب ابوبكر كى اس حديث كى تائيد كردى ((ص) )_

1) سورہ نحل آيت 16_

2) سورہ مريم آيت 6_

3) سورہ نساء آيت 11_

جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں كہ اس مباحثے ميں بھى حضرت زہراء (ع) غالب آئيں اور دلائي و برہان سے ثابت كرديا كہ وہ حديث جس كا تم دعوى كر رہے ہو وہ صريح قرآنى نصوص كے خلاف ہے اور جو حديث بھى قرآن كى صريح نص كے خلاف ہو وہ معتبر نہيں ہوا كرتى جناب ابوبكر مغلوب ہوئے اور آپ كے پاس اس كے سوا كوئي علاج نہ تھا كہ جناب فاطمہ (ع) كے جواب ميں اسى سابقہ جواب كى تكرار كريں_

يہاں پر قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ يہى جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ كى بيان كردہ وضعى حديث كى تائيد كى ہے جناب عثمان كى خلافت كے زمانے ميں ان كے پاس گئيں اور پيغمبر (ص) كى وراثت كا ادعا كيا_ جناب عثمان نے جواب ديا كيا تم نے گواہى نہيں دى تھى كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ ہم پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے؟ اور اسى سے تم نے جناب فاطمہ (ع) كو وراثت سے محروم كرديا تھا، اب كيسے آپ خود رسول (ص) كى وراثت كا مطالبہ كر رہى ہيں (2)_

خليفہ سے وضاحت كا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ ميں كامياب ہوئيں اور اپنى منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل كو محكوم

1) كشف الغمہ، ج 2 س 104_

2) كشف الغمہ، ج 2 ص 105_

كرديا قرآن مجيد كى آيات سے اپنى حقانيت كو ثابت كيا اور اپنے مد مقابل كو اپنے استدلال سے ناتواں بناديا، آپ نے ديكھا كہ _ مد مقابل اپنى روش كو صحيح ثابت كرنے كے لئے ہر قسم كے عمل كو بجالانے كے لئے حتى كہ حديث بناكر پيش كرنے كى بھى پرواہ نہيں كرتا اور دليل و برہان كے مقابلے ميں قوت اور طاقت كا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب كيا اور كہا عجيب انہوں نے ميرے شوہر كى خلافت پر قبضہ كرليا ہے_ يہ آيات قرآن كے مقابل كيوں سر تسليم خم نہيں كرتے؟ كيوں اسلام كے خلاف فيصلہ ديتے ہيں؟ كيوں جناب ابوبكر تو مجھے تحرير لكھ كر ديتے ہيں ليكن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہيں؟ اے ميرے خدا يہ كسى قسم كى حكومت ہے اور يہ كسى قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبكر رسول خدا(ص) كى جگہ بيٹھتے ہيں، ليكن حديث از خود بناتے ہيں تا كہ ميرے حق كو پائمال كريں؟ ايسے افراد دين اور قرآن كے حامى ہوسكتے ہيں؟ مجھے فدك اور غير فدك سے دلچسپى نہيں ليكن اس قسم كے اعمال كو بھى تحمل نہيں كرسكتى بالكل چپ نہ رہوں گى اور مجھے چاہيئے كہ تما لوگوں كے سامنے خليفہ سے وضاحت طلب كروں اور اپنى حقانيت كو ثابت كروں اور لوگوں كو بتلادوں كہ جس خليفہ كا تم نے انتخاب كيا ہے اس ميں صلاحيت نہيں كہ قرآن اور اسلام كے دستور پر عمل كرے اپنى مرضى سے جو كام چاہتا ہے انجام ديتا ہے_ جى ہان مسجد جاؤں گى اور لوگوں كے سامنے تقرير كروں گي_

يہ خبر بجلى كى طرح مدينہ ميں پھيل گئي اور ايك بم كى طرح پورے شہر كو ہلاك ركھ ديا، فاطمہ (ع) جو كہ پيغمبر(ص) كى نشانى ہيں چاہتى ہيں كہ تقرير كريں؟ ليكن كس موضوع پر تقرير ہوگي؟ اور خليفہ اس پر كيا رد عمل ظاہر كرے گا؟ چليں آپ كى تاريخى تقرير كو سنيں_

مہاجر اور انصار كى جمعيت كا مسجد ميں ہجوم ہوگيا، بنى ہاشم كى عورتيں جناب زہراء (ع) كے گھر گئيں اور اسلام كى بزرگ خاتون كو گھر سے باہر لائيں، بنى ہاشم كى عورتيں آپ كو گھيرے ميں لئے ہوئے تھيں، بہت عظمت اور جلال كے ساتھ آپ چليں، پيغمبر(ص) كى طرح قدم اٹھا رہى تھيں، جب مسجد ميں داخل ہوئيں تو پردہ آپ كے سامنے لٹكا دياگيا، باپ كى جدائي اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) كو منقلب كرديا كہ آپ كے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دينے والى آواز نے مجمع پر بھى اثر كيا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑى دير كے لئے ساكت رہيں تا كہ لوگ آرام ميں آجائيں اس كے بعد آپ نے گفتگو شروع كي، اس كے بعد پھر ايك دفعہ لوگوں كے رونے كى آوازيں بلند ہوئيں آپ پھر خاموش ہوگئيں يہاں تك كہ لوگ اچھى طرح ساكت ہوگئے اس وقت آپ نے كلام كا آغاز كيا اور فرمايا:جناب فاطمہ (ع) كى دہلا اور جلادينے والى تقرير

ميں خدا كى اس كى نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتى ہوں اور اس كى توفيقات پر شكر ادا كرتى ہوں اس كى بے شمار نعمتوں پر اس كى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتيں كہ جن كى كوئي انتہانہيں اور نہيں ہوسكتا كہ ان كى تلافى اور تدارك كيا جاسكے ان كى انتہا كاتصور كرنا ممكن نہيں، خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكريہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكرہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا كو طلب كيا ہے تا كہ وہ اپنى نعمتوں كو ہمارے لئے زيادہ كرے_

ميں خدا كى توحيد اور يگانگى گواہى ديتى ہوں توحيد كا وہ كلمہ كہ اخلاص كو اس كى روح اور حقيقت قرار ديا گيا ہے اور دل ميں اس كى گواہى دے تا كہ اس سے نظر و فكر روشن ہو، وہ خدا كہ جس كو آنكھ كے ذريعے ديكھا نہيں جاسكتا اور زبان كے ذريعے اس كى وصف اور توصيف نہيں كى جاسكتى وہ كس طرح كا ہے يہ وہم نہيں آسكتا_ عالم كو عدم سے پيدا كيا ہے اور اس كے پيدا كرنے ميں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشيئت كے مطابق خلق كيا ہے_ جہان كے پيا كرنے ميں اسے اپنے كسى فائدے كے حاصل كرنے كا قصد نہ تھا_ جہان كو پيدا كيا تا كہ اپنى حكمت اور علم كو ثابت كرے اور اپنى اطاعت كى ياد دہانى كرے، اور اپنى قدرت كا اظہار كرے، اور بندوں كو عبادت كے لئے برانگيختہ كرے، اور اپنى دعوت كو وسعت دے، اپنى اطاعت كے لئے جزاء مقرر كى اور نافرمانى كے لئے سزا معين فرمائي_ تا كہ اپنے بندوں كو عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے_

ميں گواہى ديتى ہوں كہ ميرے والد محمد(ص) اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہيں، پيغمبرى كے لئے بھيجنے سے پہلے اللہ نے ان كو چنا اور قبل اس كے كہ اسے پيدا كرے ان كا نام محمّد(ص) ركھا اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب اس وقت كيا جب كہ مخلوقات عالم غيب ميں پنہاں اور چھپى ہوئي تھى اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئي تھي، چونكہ اللہ تعالى ہر شئي كے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان كے مقدرات كے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) كو مبعوث كيا تا كہ اپنے امر كو آخر تك پہنچائے اور اپنے حكم كو جارى كردے، اور اپنے مقصد كو عملى قرار دے_ لوگ دين ميں تفرق تھے اور كفر و جہالت كى آگ ميں جل رہے تھے، بتوں كى پرستش كرتے تھے اور خداوند عالم كے دستورات كى طرف توجہ نہيں كرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) كے وجود مبارك سے تاريكياں چھٹ گئيں اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور ہوگئي، سرگردانى اور تحير كے پردے آنكھوں سے ہٹا ديئے گئے ميرے باپ لوگوں كى ہدايت كے لئے كھڑے ہوئے اور ان كو گمراہى سے نجات دلائي اور نابينا كو بينا كيا اور دين اسلام كى طرف راہنمائي فرمائي اور سيدھے راستے كى طرف دعوت دي، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پيغمبر كى مہربانى اور اس كے اختيار اور رغبت سے اس كى روح قبض فرمائي_ اب ميرے باپ اس دنيا كى سختيوں سے آرام ميں ہيں اور آخرت كے عالم ميں اللہ تعالى كے فرشتوں اور پروردگار كى رضايت كے ساتھ اللہ تعالى كے قرب ميں زندگى بسر كر رہے ہيں، امين اور وحى كے لئے چتے ہوئے پيغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس كے بعد مجمع كو خطاب كيا اور فرمايا لوگو تم اللہ تعالى كے امر اور نہى كے نمائندے اور نبوت كے دين اور علوم كے حامل تمہيں اپنے اوپر امين ہونا چاہيئےم ہو جن كو باقى اقوام تك دين كى تبليغ كرنى ہے تم ميں پيغمبر(ص) كا حقيقى جانشين موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پيمان اور چمكنے والانور ہے اس كى چشم بصيرت روش اور رتبے كے آرزومند ہيں اس كى پيروى كرنا انسان كو بہشت رضوان كى طرف ہدايت كرتا ہے اس كى باتوں كو سننا نجات كا سبب ہوتا ہے اس كے وجود كى بركت سے اللہ تعالى كے نورانى دلائل اور حجت كو دريافت كيا جاسكتا ہے اس كے وسيلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شريعت كے قوانين كو حاصل كيا جاسكتا ہے_

اللہ تعالى نے ايمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسيلہ قرار ديا ہے___ اللہ نے نماز واجب كى تا كہ تكبر سے روكاجائے_ زكوة كو وسعت رزق اور تہذيب نفس كے لئے واجب قرار ديا_ روزے كو بندے كے اخلاص كے اثبات كے لئے واجب كيا_ حج كو واجب كرنے سے دين كى بنياد كو استوار كيا، عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزديكى كے لئے ضرورى قرار ديا، اہلبيت كى اطاعت كو ملت اسلامى كے نظم كے لئے واجب قرار ديا اور امامت كے ذريعے اختلاف و افتراق كا سد باب كيا_ امر بالمعروف كو عمومى مصلحت كے ماتحت واجب قرار ديا، ماں باپ كے ساتھ نيكى كو ان كے غضب سے مانع قرار ديا، اجل كے موخر ہونے اور نفوس كى زيادتى كے لئے صلہ رحمى كا دستور ديا_

قتل نفس كو روكنے كے لئے قصاص كو واجب قرار ديا_ نذر كے پورا كرنے كو گناہوں گا آمرزش كا سبب بنايا_ پليدى سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائي، بہتان اور زنا كى نسبت دينے كى لغت سے روكا، چورى نہ كرنے كو پاكى اور عفت كا سبب بتايا_ اللہ تعالى كے ساتھ شرك، كو اخلاص كے ماتحت ممنوع قرار ديا_

لوگو تقوى اور پرہيزگارى كو اپناؤ اور اسلام كى حفاظت كرو اور اللہ تعالى كے اوامر و نواحى كى اطاعت كرو، صرف علماء اور دانشمندى خدا سے ڈرتے ہيں_

اس كے بعد آپ نے فرمايا، لوگو ميرے باپ محمد(ص) تھے اب ميں تمہيں ابتداء سے آخر تك كے واقعات اور امور سے آگاہ كرتى ہوں تمہيں علم ہونا چاہيئےہ ميں جھوٹ نہيں بولتى اور گناہ كا ارتكاب نہيں كرتي_

لوگو اللہ تعالى نے تمہارے لئے پيغمبر(ص) جو تم ميں سے تھا بھيجا ہے تمہارى تكليف سے اسے تكليف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت كرتے تھے اور مومنين كے حق ميں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پيغمبر ميرے باپ تھے نہ تمہارى عورت كے باپ، ميرے شوہر كے چچازاد بھائي تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائي، كتنى عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنى رسالت كو انجام ديا اور مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر سخت ضرب وارد كى ان كا گلا پكڑا اور دانائي اور نصيحت سے خدا كى طرف دعوت دي، بتوں كو توڑا اور ان كے سروں كو سرنگوں كيا كفار نے شكست كھائي اور شكست كھا كر بھاگے تاريكياں دور ہوگئيں اور حق واضح ہوگيا، دين كے رہبر كى زبان گويا ہوئي اور شياطين خاموش ہوگئے، نفاق كے پيروكار ہلاك ہوئے كفر اور اختلاف كے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبيت كى وجہ سے شہادت كا كلمہ جارى كيا، جب كہ تم دوزخ كے كنارے كھڑے تھے اور وہ ظالموں كا تر اور لذيذ لقمہ بن چكے تھے اور آگ كى تلاش كرنے والوں كے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل كے پاؤں كے نيچے ذليل تھے گندا پانى پيتے تھے اور حيوانات كے چمڑوں اور درختوں كے پتوں سے غذا كھاتے تھے دوسروں كے ہميشہ ذليل و خوار تھے اور اردگرد كے قبائل سے خوف و ہراس ميں زندگى بسر كرتے تھے_

ان تمام بدبختيوں كے بعد خدا نے محمد(ص) كے وجود كى بركت سے تمہيں نجات دى حالانكہ ميرے باپ كو عربوں ميں سے بہادر اور عرب كے بھيڑيوں اور اہل كتاب كے سركشوں سے واسطہ تھا ليكن جتنا وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے خدا سے خاموش كرديتا تھا، جب كوئي شياطين ميں سے سر اٹھاتا يا مشركوں ميں سے كوئي بھى كھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائي على (ع) كو ان كے گلے ميں اتار ديتے اور حضرت على (ع) ان كے سر اور مغز كو اپنى طاقت سے پائمال كرديتے اور جب تك ان كى روشن كى ہوئي آگ كو اپنى تلوار سے خاموش نہ كرديتے جنگ كے ميدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ كى رضا كے لئے ان تمام سختيوں كا تحمل كرتے تھے اور خدا كى راہ ميں جہاد كرتے تھے، اللہ كے رسول كے نزديك تھے_ على (ع) خدا دوست تھے، ہميشہ جہاد كے لئے آمادہ تھے، وہ تبليغ اور جہاد كرتے تھے اور تم اس حالت ميں آرام اور خوشى ميں خوش و خرم زندگى گزار رہے تھے اور كسى خبر كے منتظر اور فرصت ميں رہتے تھے دشمن كے ساتھ لڑائي لڑنے سے ا جتناب كرتے تھے اور جنگ كے وقت فرار كرجاتے تھے

جب خدا نے اپنے پيغمبر كو دوسرے پيغمبروں كى جگہ كى طرف منتقل كيا تو تمہارے اندرونى كينے اور دوروئي ظاہر ہوگئي دين كا لباس كہنہ ہوگيا اور گمراہ لوگ باتيں كرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھايا اور باطل كا اونٹ آواز ديتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شيطان نے اپنا سركمين گاہ سے باہر نكالا اور تمہيں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغير سوچے اس كى دعوت قبول كرلى اور اس كا احترام كيا تمہيں اس نے ابھارا اور تم حركت ميں آگئے اس نے تمہيں غضبناك ہونے كا حكم ديا اور تم غضبناك ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم ميں سے نہيں تھا تم نے اسے با علامت بناكر اس جگہ بيٹھايا جو اس كى جگہ نہيں تھي، حالانكہ ابھى پيغمبر(ص) كى موت كو زيادہ وقت نہيں گزرا ہے ابھى تك ہمارے دل كے زخم بھرے نہيں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پيغمبر(ص) كو دفن بھى نہيں كيا تھا كہ تم نے فتنے كے خوف كے بہانے سے خلافت پر قبضہ كرليا، ليكن خبردار رہو كہ تم فتنے ميں داخل ہوچكے ہو اور دوزخ نے كافروں كا احاطہ كر ركھا ہے_ افسوس تمہيں كيا ہوگيا ہے اور كہاں چلے جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درميان موجود ہے اور اس كے احكام واضح اور اس كے اوامر و نواہى ظاہر ہيں تم نے قرآن كى مخالفت كى اور اسے پس پشت ڈال ديا، كيا تمہارا ارادہ ہے كہ قرآن سے اعراض اور روگرداني

كرلو؟ يا قرآن كے علاوہ كسى اور ذريعے سے قضاوت اور فيصلے كرتا چاہتے تو؟ ليكن تم كو علم ہونا چاہيئے كہ جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے دين كو اختيار كرے گا وہ قبول نہيں كيا جائے گا اور آخرت ميں وہ خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہوگا، اتنا صبر بھى نہ كرسكے كہ وہ فتنے كى آگ كو خاموش كرے اور اس كى قيادت آسان ہوجائے بلكہ آگ كو تم نے روشن كيا اور شيطان كى دعوت كو قبول كرليا اور دين كے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) كے خاموش كرنے ميں مشغول ہوگئے ہو_ كام كو الٹا ظاہر كرتے ہو اور پيغمبر(ص) كے اہلبيت كے ساتھ مكر و فريب كرتے ہو، تمہارے كام اس چھرى كے زخم اور نيزے كے زخم كى مانند ہيں جو پيٹ كے اندر واقع ہوئے ہوں_

كيا تم يہ عقيدہ ركھتے ہو كہ ہم پيغمبر(ص) سے ميراث نہيں لے سكتے، كيا تم جاہليت كے قوانين كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانين سے بہتر ہيں، كيا تمہيں علم نہيں كہ ميں رسول خدا(ص) كى بيٹى ہوں كيوں نہيں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح يہ روشن ہے_ مسلمانوں كيا يہ درست ہے كہ ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبكر آيا خدا كى كتاب ميں تو لكھا ہے كہ تم اپنے باپ سے ميراث لو اور ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم رہوں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں كہتا كہ سليمان داود كے وارث ہوئے_

''ورث سليمان داؤد''

كيا قرآن ميں يحيى عليہ السلام كا قول نقل نہيں ہوا كہ خدا سے انہوں نے عرض كى پروردگار مجھے فرزند عنايت فرما تا كہ وہ ميرا وارث قرار پائے او آل يعقوب كا بھى وارث ہو_

كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں كے وارث ہوتے ہيں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ اللہ نے حكم ديا كہ لڑكے، لڑكيوں سے دوگنا ارث ليں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ تم پر مقرر كرديا كہ جب تمہارا كوئي موت كے نزديك ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصيت كرے كيونكہ پرہيزگاروں كے لئے ايسا كرنا عدالت كا مقتضى ہے_

كيا تم گمان كرتے ہو كہ ميں باپ سے نسبت نہيں ركھتي؟ كيا ارث والى آيات تمہارے لئے مخصوص ہيں اور ميرے والد ان سے خارج ہيں يا اس دليل سے مجھے ميراث سے محروم كرتے ہو جو دو مذہب كے ايك دوسرے سے ميراث نہيں لے سكتے؟ كيا ميں اور ميرا باپ ايك دين پر نہ تھے؟ آيا تم ميرے باپ اور ميرے چچازاد على (ع) سے قرآن كو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبكر فدك اور خلافت تسليم شدہ تمہيں مبارك ہو، ليكن قيامت كے دن تم سے ملاقات كروں گى كہ جب حكم اور قضاوت كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہوگا اور محمد(ص) بہترين پيشوا ہيں_

اے قحافہ كے بيٹھے، ميرا تيرے ساتھ وعدہ قيامت كا دن ہے كہ جس دن بيہودہ لوگوں كا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشيمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالى كے عذاب كو ديكھ لوگے آپ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا:

اے ملت كے مددگار جوانو اور اسلام كى مدد كرنے والو كيوں حق

كے ثابت كرنے ميں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت ميں ہو؟ كيا ميرے والد نے نہيں فرمايا كہ كسى كا احترام اس كى اولاد ميں بھى محفوظ ہوتا ہے يعنى اس كے احترام كى وجہ سے اس كى اولاد كا احترام كيا كرو؟ كتنا جلدى فتنہ برپا كيا ہے تم نے؟ اور كتنى جلدى ہوى اور ہوس ميں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم كے ہٹانے ميں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت ركھتے ہو اور ميرے مدعا اور خواستہ كے برلانے پر طاقت ركھتے ہو_ كيا كہتے ہو كہ محمد(ص) مرگئے؟ جى ہاں ليكن يہ ايك بہت بڑى مصيبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زيادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) كى غيبت سے زمين تاريك ہوگئي ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہيں آپ كى مصيبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہيں، اميديں ٹوٹ گئيں، پہاڑ متزلزل اور ريزہ ريزہ ہوگئے ہيں پيغمبر(ص) كے احترام كى رعايت نہيں كى گئي، قسم خدا كى يہ ايك بہت بڑى مصيبت تھى كہ جس كى مثال ابھى تگ ديكھى نہيں گئي اللہ كى كتاب جو صبح اور شام كو پڑھى جا رہى ہے آپ كى اس مصيبت كى خبر ديتى ہے كہ پيغمبر(ص) بھى عام لوگوں كى طرح مريں گے، قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے كہ محمد(ص) بھى گزشتہ پيغمبروں كى طرح ہيں، اگر آپ(ص) مرے يا قتل كئے گئے تو تم دين سے پھر جاوگے، جو بھى دين سے خارج ہوگا وہ اللہ پر كوئي نقصان وارد نہيں كرتا خدا شكر ادا كرنے والوں كو جزا عنايت كرتا ہے (1)_

اے فرزندان قبلہ: آيا يہ مناسب ہے كہ ميں باپ كى ميراث سے محروم

1) سورہ آل عمران_

رہوں جب كہ تم يہ ديكھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور يہاں موجود ہو ميرى پكار تم تك پہنچ چكى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زيادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، ميرے استغاثہ كى آواز تم تك پہنچتى ہے ليكن تم اس پر لبيك نہيں كہتے ميرى فرياد كو سنتے ہو ليكن ميرى فرياد رسى نہيں كرتے تم بہادرى ميں معروف اور نيكى اور خير سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ كى اولاد ہو تم ہم اہلبيت كے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں كے ساتھ تم نے جنگيں كيں سختيوں كو برداشت كيا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائي كى ہے جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ہم حكم ديتے تھے تم اطاعت كرتے تھے اسلام نے رونق پائي اور غنائم زيادہ ہوئے اور مشركين تسليم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگيا اور دين كا نظام مستحكم ہوگيا_

اے انصار متحير ہوكر كہاں جارہے ہو؟ حقائق كے معلوم ہو جانے كے بعد انہيں كيوں چھپانے ہو؟ كيوں ايمان لے آنے كے بعد مشرك ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں كا جنہوں نے اپنے ايمان اور عہد اور پيمان كو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ كيا ہو كہ رسول خدا(ص) كو شہر _ بدر كريں اور ان سے جنگ كا آغاز كريں كيا منافقين سے ڈرتے ہو؟ حالانكہ تمہيں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہيئے تھا_ لوگو ميں گويا ديكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ ميں بيٹھ كر عيش اور نوش

ميں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد كے وسيع ميدان سے قرار كر كے راحت طلبى كے چھوٹے محيط ميں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كرديا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل ديا ہے ليكن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمين كے لوگ كافر ہوجائيں تو خدا تمہارا محتاج نہيں ہے_

اے لوگو جو كچھ مجھے كہنا چاہيئے تھا ميں نے كہہ ديا ہے حالانكہ ميں جانتى ہوں كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہيں، ليكن كيا كروں دل ميں ايك درد تھا كہ جس كو ميں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كرديا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدك اور خلافت كو خوب مضبوطى سے پكڑے ركھو ليكن تمہيں يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ اس ميں مشكلات اور دشوارياں موجود ہيں اور اس كا ننگ و عار ہميشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى كا خشم اور غصہ اس پر مزيد ہوگا اور اس كى جزا جہنم كى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے كردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج ديكھ ليں گے_ لوگو ميں تمہارے اس نبى كى بيٹى ہوں كہ جو تمہيں اللہ كے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام ليں گے تم بھى انتظار كرو ہم بھى منتظر ہيں(1)_

1) احتجاج طبرسي، طبع نجف 1386 ھ ج 1 131_141 _ شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 211_ كتاب بلاغات النسائ، تاليف احمد بن طاہر، متولد 204 ہجرى ص 12_ كشف الغمہ، ج 2 ص 106_

خليفہ كا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشين بيان كو ہزاروں كے مجمع ميں جناب ابوبكر كے سامنے كمال شجاعت سے بيان كيا اور اپنى مدلل اور مضبوط تقرير ميں جناب ابوبكر سے فدك لينے كى وضاحت طلب كى اور ان كے ناجائز قبضے كو ظاہر كيا اور جو حقيقى خليفہ تھے ان كے كمالات اور فضائل كو بيان فرمايا_

لوگ بہت سخت پريشان ہوئے اور اكثر لوگوں كے افكار جناب زہراء (ع) كے حق ميں ہوگئے_ جناب ابوبكر بہت كشمكش__ _ ميں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں كے افكار كے مطابق فيصلہ ديں اور فدك جناب زہراء (ع) كو واپس لوٹا يں تو ان كے لئے دو مشكليں تھيں_

ايك: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے ميں كامياب ہوگئيں اور ان كى بات تسليم كرلى گئي تو ''انہيں اس كا ڈر ہوا كہ'' كل پھر آئيں گى اور خلافت اپنے شوہر كو دے دينے كا مطالبہ كريں گى اور پھر پر جوش تقرير سے اس كا آغاز كريں گے_

ابن ابى الحديد لكھتے ہيں كہ ميں نے على بن فاروقى سے جو مدرسہ غربيہ بغداد كے استاد تھے عرض كى آيا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے ميں سچى تھيں يا نہ، انہوں نے كہا كہ اس كے باوجود كہ جناب ابوبكر انہيں سچا جانتے تھے ان كو فدك واپس كيوں نہ كيا؟ استاد ہنسے اور ايك عمدہ جواب ديا اور كہا اگر اس دن فدك فاطمہ (ع) كو واپس كرديتے تو دوسرے دن وہ واپس آتيں اور خلافت كا اپنے شوہر كے لئے مطالبہ كرديتيں اور جناب ابوبكركو خلافت كے مقام سے معزول قرار دے ديتيں كيونكہ جب پہلے سچى قرار پاگئيں تو اب ان كے لئے كوئي عذر پيش كرنا ممكن نہ رہتا(1)_

دوسرے: اگر جناب ابوبكر جناب فاطمہ (ع) كى تصديق كرديتے تو انہيں اپنى غلطى كا اعتراف كرنا پڑتا اس طرح سے خلافت كے آغاز ميں ہى اعتراض كرنے والوں كا دروازہ كھل جاتا اور اس قسم كا خطرہ حكومت اور خلافت كے لئے قابل تحمل نہيں ہوا كرتا_

بہرحال جناب ابوبكر اس وقت ايسے نظر نہيں آرہے تھے كہ وہ اتنى جلدى ميدان چھوڑ جائيں گے البتہ انہوں نے اس قسم كے واقعات كے رونما ہونے كى پہلے سے پيشين گوئي كر ركھى تھى آپ نے سوچا اس وقت جب كہ موجودہ حالات ميں ملت كے عمومى افكار كو جناب زہراء (ع) نے اپنى تقرى سے مسخر كرليا ہے يہ مصلحت نہيں كہ اس كے ساتھ سختى سے پيش آيا جائے ليكن اس كے باوجود اس كا جواب ديا جانا چاہيئے اور عمومى افكار كو ٹھنڈا كيا جائے، بس كتنا___ اچھا ہے كہ وہى سابقہ پروگرام دھرايا جائے اور عوام كو غفلت ميں ركھا جائے اور دين اور قوانين كے اجراء كے نام سے جناب فاطمہ (ع) كو چپ كرايا جائے اور اپنى تقصير كو ثابت كيا جائے، جناب ابوبكر نے سوچا كہ دين كى حمايت اور ظاہرى دين سے دلسوزى كے اظہار سے لوگوں كے دلوں كو مسخر كيا جاسكتا ہے اور اس كے ذريعے ہر چيز كو يہاں تك كہ خود دين كو بھى نظرانداز كرايا جاسكتا ہے_ جى ہاں دين سے ہمدردى كے مظاہرے سے دين كے ساتھ دنيا ميں مقابلہ كيا جاتا ہے_

--------

1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 284_

جناب ابوبكر كا جواب

رسول اللہ (ص) كى بيٹى كے قوى اور منطقى اور مدلل دلائل كے مقابلے ميں جناب ابوبكر نے ايك خاص رويہ اختيار كيا اور كہا كہ اے رسول خدا(ص) كى دختر آپ كے باپ مومنين پر مہربان اور رحيم اور بلاشك محمّد(ص) آپ كے باپ ہيں اور كسى عورت كے باپ نہيں اور آپ كے شوہر كے بھائي ہيں اور على (ع) كو تمام لوگوں پر ترجيح ديا كرتے تھے، جو شخص آپ كو دوست ركھے گا وہى نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنى كرے گا وہ خسارے ميں رہے گا، آپ پيغمبر(ص) كى عترت ہيں، آپ نے ہميں خير و صلاح اور بہشت كى طرف ہدايت كى ہے، اے عورتوں ميں سے بہترين عورت اور بہتر پيغمبر(ص) كى دختر، آپ كى عظمت اور آپ كى صداقت اور فضيلت اور عقل كسى پر مخفى نہيں ہے_ كسى كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ آپ كو آپ كے حق سے محروم كرے، ليكن خدا كى قسم ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے فرمان سے تجاوز نہيں كرتا جو كام بھى انجام ديتا ہوں آپ كے والد كى اجازت سے انجام ديتا ہوں قافلہ كا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہيں بولتا خدا كى قسم ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ فرما رہے تھے كہ ہم پيغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت كے گھر اور جائيدار و وراثت ميں نہيں چھوڑتے جو مال ہمارا باقى رہ جائے وہ مسلمانوں كے خليفہ كے اختيار ميں ہوگا، ميں فدك كى آمدنى سے اسلحہ خريدتا ہوں اور كفار سے جنگ كرونگا، مبادا آپ كو خيال ہو كہ ميں نے تنہا فدك پر قبضہ كيا ہے بلكہ اس اقدام ميں تمام مسلمان ميرے موافق اور شريك ہيں، البتہ ميرا ذاتى مال آپ كے اختيار ميں ہے جتنا چاہيں لے ليں مجھے كوئي اعتراض نہيں، كيا يہ ہوسكتا ہے كہ ميں آپ كے والد كے دستورات كى مخالفت كروں؟

جناب فاطمہ (ع) كا جواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبكر كى اس تقرير كا جواب ديا_ سبحان اللہ، ميرے باپ قرآن مجيد سے روگردانى نہيں كرسكتے اور اسلام كے احكام كى مخالفت نہيں كرتے كيا تم نے اجماع كرليا ہے كہ خلاف واقع عمل كرو اور پھر اسے ميرے باپ كى طرف نسبت دو؟ تمہارا يہ كام اس كام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے ميرے والد كى زندگى ميں انجام ديا_ كيا خدا نے جناب زكريا كا قول قرآن ميں نقل نہيں كيا جو خدا سے عرض كر رہے تھے، فہب لى يرثنى و يرث من آل يعقوب (1)_

خدايا مجھے ايسا فرزند دے جو ميرا وارث ہو اور آل يعقوب كا وارث ہو_ كيا قرآن ميں يہ نہيں ہے_

ورث سليمان داؤد (2)_

سليمان داؤد كے وارث ہوئے_ كيا قرآن ميں وراثت كے احكام موجود نہيں ہيں؟ كيوں نہيں، يہ تمام مطالب قرآن ميں موجود ہيں اور تمہيں بھى اس كى اطلاع ہے ليكن تمہارا ارادہ عمل نہ كرنے كا ہے اور ميرے لئے بھى سواے صبر كے اور كوئي چارہ نہيں_

1) سورہ مريم آيت6_

2) سورہ نمل آيت 16_

جناب ابوبكر نے اس كا جواب ديا كہ خدا رسول (ص) اور تم سچ كہتى ہو، ليكن يہ تمام مسلمان ميرے اور اپ كے درميان فيصلہ كريں گے كيونكہ انہوں نے مجھے خلافت كى كرسى پر بٹھايا ہے اور ميں نے ان كى رائے پر فدك ليا ہے (1)_

جناب ابوبكر نے ظاہرسازى اور عوام كو خوش كرنے والى تقرير كر كے ايك حد تك عوام كے احساسات اور افكار كو ٹھنڈا كرديا اور عمومى افكار كو اپنى طررف متوجہ كرليا_

جناب خليفہ كا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئي ليكن پھر بھى اس مطلب كى سر و صدا خاموش نہ ہوئي اور اصحاب كے درميان جناب زہراء (ع) كى تقرير كے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئي اور اس حد تك يہ مطلب موضوع بحث ہوگيا كہ جناب ابوبكر مجبور ہوگئے كہ ملت سے تہديد اور تطميع سے پيش آئيں_

لكھا ہے كہ جناب زہراء (ع) كى تقرير نے مدينہ كو جو سلطنت اسلامى كا دارالخلافة تك منقلب كرديا_ لوگوں كے اعتراض اور گريہ و بكا كى آوازيں بلند ہوئيں لوگ اتنا روئے كہ اس سے پہلے اتنا كبھى نہ روئے تھے_

1) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 141_

جناب ابوبكر نے جناب عمر سے كہا تم نے فدك فاطمہ (ع) كو دے دينے سے مجھے كيوں روكا اور مجھے اس قسم كى مشكل ميں ڈال ديا؟ اب بھى اچھا ہے كہ ہم فدك كو واپس كرديں اور اپنے آپ كو پريشانى ميں نہ ڈاليں_

جناب عمر نے جواب ديا _ فدك كے واپس كردينے ميں مصلحت نہيں اور يہ تم جان لو كہ ميں تيرا خيرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبكر نے كہا كہ لوگوں كے احساسات جو ابھرچكے ہيں ان سے كيسے نپٹا جائے انہوں نے جواب ديا كہ يہ احساسات وقتى اور عارضى ہيں اور يہ بادل كے ٹكڑے كے مانند ہيں_ تم نماز پڑھو، زكوة دو، امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كرو، مسلمانوں كے بيت المال ميں اضافہ كرو اور صلہ رحمى بجالاؤ تا كہ خدا تيرے گناہوں كو معاف كردے، اس واسطے كہ خدا قرآن ميں فرماتا ہے، نيكياں برائيوں كو ختم كرديتى ہيں_ حضرت ابوبكر نے اپنا ہاتھ جناب عمر كے كندھے پر ركھا اور كہا شاباش تم نے كتنى مشكل كو حل كرديا ہے_

اس كے بعد انہوں نے لوگوں كو مسجد ميں بلايا اور ممبر پر جاكر اللہ تعالى كى حمد و ثنا كے بعد كہا، لوگو يہ آوازيں اور كام كيا ہيں ہر كہنے والا آرزو ركھتا ہے، يہ خواہشيں رسول(ص) كے زمانے ميں كب تھيں؟ جس نے سنا ہو كہے اس طرح نہيں ہے بلكہ يہ اس كا مطالبہ اس لومڑى جيسے ہے كہ جس كى گواہ اس كى دم تھي_

اگر ميں كہنا چاہوں تو كہہ سكتا ہوں اور اگر كہوں تو بہت اسرار واضح كردوں، ليكن جب تك انہيں مجھ سے كوئي كام نہيں ميں ساكت رہوں گا، اب لڑى سے مدد لے رہے ہيں اور عورتوں كو ابھار رہے ہيں_

اے رسول خدا(ص) كے اصحاب مجھے بعض نادانوں كى داستان پہنچى ہے حالانكہ تم اس كے سزاوار ہو كہ رسول خدا(ص) كے دستور كى پيروى كرو تم نے رسول(ص) كو جگہ دى تھى اور مدد كى تھى اسى لئے سزاوار ہے كہ تم رسول خدا(ص) كے دستور سے انحراف نہ كرو_ اس كے باوجود كل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو كہ ميں كسى كے راز كو فاش نہيں كروں گا اور ہاتھ اور زبان سے كسى كو اذيت نہيں دوں گا مگر اسے جو سزا كا مستحق ہوگا (1)_

جناب ام سلمہ(ع) كى حمايت

اس وقت جناب امّ سلمہ (ع) نے اپنا سر گھر سے باہر نكالا اور كہا اے ابوبكر، آيا يہ گفتگو اس عورت كے متعلق كر رہے ہو جسے فاطمہ (ع) كہتے ہيں اور جو انسانوں كى شكل ميں حور ہے، اس نے پيغمبر(ص) كے دامن ميں پرورش پائي اور فرشتوں سے مصافحہ كرتى تھي، اور پاكيزہ گود ميں پرورش پائي ہے اور بہترين ماحول ميں ہوش سنبھالا ہے_ آيا گمان كرتے ہو كہ رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو ارث سے محروم كيا ہے، ليكن خود اس كو نہيں بتلايا؟ حالانكہ خدا پيغمبر(ص) كو حكم ديتا ہے كہ اپنے رشتہ داروں كو انذاز كرو اور ڈراؤ يا تم احتمال ديتے ہو كہ پيغمبر(ص) نے تو اسے بتلايا ہو ليكن وہ اس كے باوجود وراثت كا مطالبہ كر رہى ہو، حالانكہ وہ عالم كى عورتوں سے بہترہے اور بہترين جوانوں كى ماں ہے اور جناب مريم كے ہم پايہ ہے اور اس كا باپ خاتم پيغمبران ہے، خدا كى قسم رسول خدا(ص) فاطمہ (ع) كى گرمى اور سردى سے حفاظت كيا كرتے تھے اور سوتے وقت اپنا داياں ہاتھ فاطمہ (ع) كے نيچے اور باياں ہاتھ اس كے جسم پر ركھتے كرتے تھے، ذرا نرم ہوجاؤ اور آہستہ رونيؤ، ابھى تو رسول خدا(ص) تمہارى آنكھوں كے سامنے ہيں اور جلد ہى تم خدا كے حضور وارد ہوگے اور اپنے كئے كا نتيجہ ديكھو گے_ جناب امّ سلمہ نے جناب فاطمہ (ع) كى حمايت كى ليكن انہيں ايك سال تك حقوق سے محروم كرديا گيا (1)_

1) دلائل الامامہ، ص 38_

قطع كلامي

جناب زہراء (ع) نے ارادہ كرليا كہ اس كے باوجود بھى اپنے مبارزے كو باقى ركھيں، اپنے اس پروگرام كے لئے انہوں نے قطع كلام كرنے كا فيصلہ كرليا اور رسمى طور پر جناب ابوبكر كے متعلق اعلان كر ديا كہ اگر تم ميرا فدك واپس نہيں كروگے تو ميں تم سے جب تك زندہ ہوں گفتگو اور كلام نہيں كروں گي_ آپ كا جہاں كہيں بھى جناب ابوبكر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھير ليتيں اور ان سے كلام نہ كرتى تھيں(2)_

مگر جناب فاطمہ (ع) ايك عام فرد نہ تھيں كہ اگر انہوں نے اپنے خليفہ سے قطع كلامى كى تو وہ چندان اہميت نہ ركھتى ہو؟ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى عزيز بيٹى رسول خدا(ص) كى حد سے زيادہ محبت كسى پر پوشيدہ نہ تھى _ آپ وہ ہے كہ جس كے متعلق پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے _ جو اسى اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے _(ا)

اور آپ فرماتے ہيں كہ فاطمہ (ع) ان عورتوں ميں سے ہيں كہ جن كے ديدار كے لئے بہشت مشتاق ہے _(2)

1) دلائل الامامہ، ص 39_

2) كشف الغمہ، ج 2 ص 103_ شرح ابن ابى الحديد، ج 6 ص 46_

جى ہاں پيغمبر (ص) اور خدا كى محبوب خاتون نے جناب ابو بكر سے قطع كلامى كا مبارزہ كررہا ہے آپ ان سے بات نہيں كرتيں آہستہ آہستہ لوگوں ميں شائع اور مشہور ہوگيا كہ پيغمبر(ص) كى دختر جناب ابوبكر سے رتھى ہوئي ہے اور ان پر خشمناك ہے _ مدينہ كے باہر بھى لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچكے تھے تمام لوگ ايك دوسرے سے سؤال كرتے تھے كہ جنا ب فاطمہ (ع) كيوں خليفہ كے ساتھ بات نہيں كرتيں ؟ ضرور اس كى وجہ وہى فدك كا زبردستى لے لينا ہوگا _ فاطمہ (ع) جھوٹ نہيں بولتيں اور اللہ تعالى كى مرضى كے خلاف كسى پر غضبناك نہيں ہوتيں كيونكہ پيغمبر خدا (ص) نے ان كے بارے ميں فرمايا تھا كى اگر فاطمہ (ع) غضب كرے تو خدا غضب كرتا ہے _

---------

ا_ صحيح مسلم ، ج 3 ص 03ا_

2_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 92_

3_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 84_

اس طرح ملت اسلامى كے احساسات روزبروز وسيع سے وسيع تر ہو رہے تھے اور خلافت كے خلاف نفرت ميں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت كے كاركن يہ تو كرسكتے تھے كہ جناب فاطمہ (ع) كے قطع روابط سے چشم پوشى كرليتے جتنى انہوں نے كوشش كى كہ شايد وہ صلح كراديں ان كے لئے ممكن نہ ہوسكا_ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹى ہوئي تھيں اور اپنے منفى مبارزے كو ترك كرنے پر راضى نہ ہوتى تھيں_

جب جناب فاطمہ (ع) بيمار ہوئيں تو جناب ابوبكر نے كئي دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات كى خواہش ظاہر كى ليكن اسے رد كرديا گيا، ايك دن جناب ابوبكر نے اس موضوع كو حضرت على (ع) كے سامنے پيش كيا اور آپ سے خواہش كى آپ جناب فاطمہ (ع) كى عيادت كا وسيلہ فراہم كريں اور آپ سے ملاقات كى اجازت حاصل كريں_ حضرت على عليہ السلام جناب فاطمہ (ع) كے پاس گئے اور فرمايا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبكر نے ملاقات كى اجازت چاہى ہے آپ اجازت ديتى ہيں كہ وہ آپ كى خدمت ميں حاضر ہوجائيں، جناب زہرا (ع) حضرت على (ع) كے مشكلات سے آگاہ تھيں آپ نے جواب ديا، گھر آپ كا ہے اور ميں آپ كے اختيار ميں ہوں جس طرح آپ مصلحت ديكھيں عمل كريں يہ فرمايا اور اپنے اوپر چادران لى اور اپنے منھ كو ديوار كى طرف كرديا_

جناب ابوبكر اور عمر گھر ميں داخل ہوئے اور سلام كيا اور عرض كى اے پيغمبر(ص) كى دختر ہم اپنى غلطى كا اعتراف كرتے ہيں آپ سے خواہش كرتے ہيں كہ آپ ہم سے راضى ہوجائيں آپ نے فرمايا كہ ميں ايك بات تم سے پوچھتى ہوں اس كا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض كى فرمايئےآپ نے فرمايا تمہيں خدا كى قسم ديتى ہوں___ كہ آيا تم نے ميرے باپ سے يہ سنا تھا كہ آپ نے فرمايا كہفاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو اسے اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے انہوں نے عرض كيا ہاں ہم نے يہ بات آپ كے والدسے سنى ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارك ہاتھوں كو آسمان كى طرف اٹھايا اور كہا اے ميرے خدا گواہ رہ كہ ان دو آدميوں نے مجھے اذيت دى ہے ان كى شكايت تيرى ذات اور تيرے پيغمبر(ص) سے كرتى ہوں ميں_ ہرگز راضى نہ ہوں گى يہاں تك كہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذيتيں جو انہوں نے مجھے دى ہيں ان سے بيان كروں تا كہ آپ ہمارے درميان فيصلہ كريں جناب ابوبكر جناب زہرا (ع) كى يہ بات سننے كے بعد بہت غمگين اور مضطرب ہوئے ليكن جناب عمر نے كہا اے رسول (ص) كے خليفہ، ايك عورت كى گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو (1)_

يہاں پڑھنے والوں كے دلوں ميں يہ بات آسكتى ہے كہ وہ كہيں كہ گرچہ جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدك لے كر اچھا كام نہيں كيا تھا ليكن جب وہ پشيمانى اور ندامت كا اظہار كر رہے ہيں تو اب مناسب يہى تھا كہ ان كا عذر قبول كرليا جاتا ليكن اس نكتہ سے غافل نہيں رہتا چاہيئے كہ حضرت زہرا (ع) كے مبارزے كى اصلى علت اور وجہ خلافت تھى فدك كا زبردستى لے لينا اس كے ذيل ميں آتا تھا اور خلافت كا غصب كرنا ايسى چيز نہ تھى كہ جسے معاف كيا جاسكتا ہو اور اس سے چشم پوشى كى جاسكتى ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتى تھيں كہ حضرت ابوبكر يہ سب كچھ اس لئے كہہ رہے ہيں تا كہ اس اقدام سے عوام كو دھوكہ ميں ركھا جاسكے اور وہ اپنے كردار پر نادم اور پشيمان نہ تھے كيونكہ ندامت كا طريقہ عقلا كے لحاظ سے يہ تھا كہ وہ حكم ديتے كہ فدك كو فوراً جناب فاطمہ (ع) كے حوالے

1) بحار الانوار، ج 43 ص 198_

كردو اور اس كے بعد آپ آتے اور معاف كردينے كى خواہش كرتے اور كہتے كہ ہم اپنے اس اقدام پر پشيمان اور نادم ہوچكے ہيں تو اس بات كو صداقت پر محمول كيا جاسكتا تھا_

شب ميں تدفين

جناب زہراء (ع) اپنے ہدف اور مقصد ميں اس قدر استقامت ركھتى تھيں كہ اس كے لئے اپنى زندگى كى آخرى گھڑى ميں بھى مبارزہ كرتى گئيں بلكہ اپنے مبارزہ كا دامن قيامت تك پھيلا گئيں پڑھنے والوں كو تعجب ہوگا كہ كسى شخص كے لئے كيسے ممكن ہوگا كہ وہ اپنے مبارزہ اور مقابلے كو موت كے بعد بھى باقى ركھے، ليكن فاطمہ (ع) كہ جس نے وحى كے گھر ميں تربيت حاصل كى تھى ايك ايسا منصوبہ بتايا تا كہ ان كا مبارزہ اور مقابلہ موت كے وقت تك ختم نہ ہوجائے_ جناب زہراء (ع) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اپنے شوہر على (ع) كو بلايا اور وصيت كى اے على (ع) مجھے رات كو غسل ديتا اور رات كو كفن دينا اور مخفى طور پر دفن كرنا_ ميں راضى نہيں ہوں كہ جن لوگوں نے ميرا پہلو زخمى كيا ہے جس سے ميرا بچہ ساقط ہوا اور ميرے مال پر قبضہ كرليا ہے وہ ميرے جنازے كى تشيع كريں_ ميرى قبر كو بھى چھپاكر ركھنا_ حضرت على (ع) نے بھى جناب زہراء (ع) كى وصيت كے مطابق آپ كو رات ميں دفن كيا اور آپ كى قبر كو ہموار كرديا اور چاليس قبريں نئي بنائيں كہ كہيں آپ كى قبر پہچانى نہ جائے (1)_

حضرت زہراء (ع) نے اس منصوبے اور نقشے سے اپنے حريف پر آخرى وار

1) دلائل الامامہ_ مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 363_

كيا اور ايك زندہ اور مضبوط سند اپنى مظلوميت اور حكومت كى زبردستى كے لئے ہميشہ كے لئے باقى چھوڑ گئيں_

كيونكہ ہر مسلمان يہ چاہے گا كہ اسے علم ہو كہ پيغمبر اسلام(ص) كى عزيز بيٹى كى قبر كہاں ہے جب اسے معلوم ہوگا كہ اس كى قبر معلوم نہيں ہے تو پوچھے گا كيوں؟ جواب سنے گا خود جناب زہرا (ع) نے وصيت كى تھى كہ اس كى قبر مخفى ركھى جائے_ اس وقت اسے قبر كے مخفى ہونے كى علت معلوم ہوجائے گى اور سمجھ لے گا كہ آپ وقت كى خلافت سے ناراض تھيں اور آپ كا جنازہ اس محيط خفيہ آور ميں دفن ہوا اس وقت سوچے گا كہ ہوسكتا ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى دختر ان فضائل اوركمالات كے باوجود اپنے باپ كے خليفہ سے ناراض ہوں اور پھر اس كى خلافت بھى درست اور صحيح ہو؟ يہ چيز ممكن نہيں پس معلوم ہوتا ہے كہ اس كى خلافت پيغمبر(ص) اور ان كے خاندان كے نظريئے كے خلاف واقع ہوئي تھى جو كسى طرح بھى صحيح قرار نہيں دى جاسكتي_

نتيجہ

اگرچہ جناب ابوبكر جناب زہراء (ع) كے دلائل اور مبارزات كے سامنے ڈٹے رہے اور حاضر نہ ہوئے كہ فدك جناب فاطمہ (ع) كو واپس كرديں ليكن انہى حضرت زہراء (ع) نے انہيں مبارزات كے ذريعے عالم اسلام پر خلافت اور حكومت كى زيادتيوں اور اپنى حقانيت كو ثابت كرديا_ يہى فدك خلافت كے لئے ايك بم اور مثل استخوان كے ثابت ہوا جوان كے گلے ميں پھنس كررہ گيا بہت مدت تك وہ حكومت كا نقطہ ضعف اور ايك اہم پروپيگنڈا اس كے خلاف شمار ہوتا ر ہا كے حل سے عاجز تھے_ كبھى سادات كى موافقت

حاصل كرنے كے لئے فدك ان كو دے ديا جاتا تھا اور كبھى ان سے خشمناك ہوتے تھے تو واپس لے ليا جاتا تھا_ جب معاويہ كے ہاتھ ميں اقتدار آيا تو اس نے فدك ك ايك تہائي مروان كو اور ايك تہائي عمر بن عثمان كو اور ايك تہائي اپنے بيٹے يزيد كو بخش ديا_ مروان كى خلافت كے زمانے ميں پورا فدك اس كے اختيار ميں تھا اور اس نے اسے اپنے بيٹے عبدالعزيز كو دے ديا عبدالعزيز نے اسے اپنے بيٹے عمر بن عبدالعزيز كو دے ديا اور جب عمر بن عبدالعزيز خلافت پر متمكن ہوا تو فدك كو جناب حسن بن حسن يا على بن الحسين كو واپس كرديا_

عمر بن عبدالعزيز كى خلافت كے دوران فدك جناب فاطمہ (ع) كى اولاد كے ہاتھ ميں رہا اور جب يزيد بن عاتكہ كو حاكم بناياگيا تو اس نے فدك جناب فاطمہ (ع) كى اولاد سے لے ليا اور پھر بنى مروان كے قبضے ميں دے ديا، يہ ان كے پاس رہا يہاں تك كہ خلافت ان كے ہاتھ سے نكل گئي_ جب صفّاح خلافت پر قابض ہوا تو اس نے فدك جناب عبداللہ بن حسن كو دے ديا اور جب ابوجعفر عباسى اولاد حسن پر غضبناك ہوا تو فدك ان سے واپس لے ليا اس كے بعد پھر مہدى عباسى نے فدك فاطمہ (ع) كى اولاد كو واپس كرديا، اس كے بعد موسى بن مہدى اور ہارون نے اسے واپس لے ليا اور اس كے پاس مامون كے حاكم بننے تك رہا اور اس نے پھر فاطمہ (ع) كى اولاد كو واپس كرديا_

ايك دن مامون قضاوت كى محفل ميں بيٹھا ہوا تھا كہ ايك خط اسے ديا گيا، جب اس نے اسے پڑھا تو رود يا اس كے بعد كہا كہ فاطمہ (ع) كا وكيل كون ہے اور كہاں ہے؟ ايك بوڑھا آدمى اٹھا اور اس كے نزديك گيا_ مامون نے فدك كے بارے ميں اس سے مباحثہ شروع كرديا وہ بوڑھا اس پر غالب آيا_ تو

مامون نے حكم ديا كہ فدك كو قبالہ كى صورت ميں لكھ كر اسے دے ديا جائے اس كے بعد يہ فاطمہ (ع) كى اولاد كے پاس متوكل كے زمانے تك رہا اس نے فدك كو عبداللہ بن عمر بازيار كو دے ديا_

فدك ميں خرما كے گيارہ درخت ايسے تھے كہ جنہيں خود رسول اللہ (ص) نے لگايا تھا فاطمہ (ع) كى اولاد ان د رختوں سے خرمالے كرحج كے موقع پر حاجيوں كو ہديہ ديتيں اور حاجى ان كے عوض ان كى اچھى خاصى مدد كرديتے اور ان كے پاس اس ذريعہ سے اچھا خاصہ مال اكٹھا ہوجاتا_ عبداللہ بن عمر بازيار نے بشر ان بن ابى اميہ ثقفى كو بھيجا اور ان درختوں كو كٹواديا(1)_

جناب فاطمہ (ع) كے مبارزات كا ہى نتيجہ تھا كہ جناب عمر باوجود اس سختى كے جو اس كے وجود ميں تھي، جناب فاطمہ (ع) كو صدقات مدينہ بلكہ جو بھى جناب فاطمہ (ع) كے ادّعا ميں داخل تھے انہيں واپس كرديئےھے(2)_

---------

1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 216_

2) كشف الغمہ، ج 2 ص 100

 

 


source : http://alseraat.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment