اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

تطہیر کا مطلب ، یعنی گناہ اور برائی سے منزہ اور پاک ہونا ۔

الرجس : اس کلمہ میں الف و لام یا تومعھود ذہنی کے لئے ہے ، یا جنس کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معھود ذہنی کے لئے نہیں ہے کیونکہ گذشتہ کلام میں ( یعنی آیہ تطھیر سے پہلے ) رجس کا ذکر نہیں ہے کہ جس کی طرف الف و لام کی باز گشت ہو لہذا ، الف و لام ،جنس کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ کلمہ رجس میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اگر رجس کا ایک مصداق بھی متحقق ہو جائے تو کلام خدا صادق نہیں رہتا کیونکہ خدا کا ارادہ ہر قسم کی پلیدی سے دور اور طہارت میں منحصر ہے ۔ 

اب کلمہ رجس کو قرآن کی رو سے پرکھتے ہیں ۔ 

ارشاد رب العزت ہے ، و من یرد ان یضلہ یجعل صدرہ ضیقا حرجا یصدفی السماء کذلک یجعل الرجس علی الذین لا یو منون ۔ (١) 

اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا بنا دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو ، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس قسم کی نا پاکی مسلط کر دیتا ہے ۔اور 

و اما الذین فی قلوبھم مرض فزادتھم رجس الی رجسھم وما تو اھم کافرون (٢) 

اور البتہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی نجاست پر اس نے مزید نجاست کا اضافہ کیا ہے اور مرتے دم تک کفر پر ڈٹے رہے ۔ 

پھر ارشاد رب العزت ہے : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم الا ان یکون میتة او دما مسفو حا او لحم خنزیر فانہ رجس ، 

کہہ دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو سور کا گوشت کیونکہ یہ نا پاک ہیں ۔

-------

(١) سورہ انعام ٦ ١٢٥ (٢) سورہ توبہ ٩ ١٢٥ (٣) سورہ انعام ٦ ١٤٥ 

آپ نے آیات کریمہ کو ملاحظہ فرمایا ، پہلی دو آیات میں رجس معنوی نجاست اور آخری آیت میں رجس کو مادی نجاست کے لئے استعمال کیا گیا ہے لہذا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل بیت ہر قسم کی نجاست سے پاک و منزہ ہیں ۔ 

اسی بنا پر علماء فرماتے ہیں رجس سے دوری سے مراد یقیناً عصمت ( اہل بیت علیہم السلام) ہیں ۔ 

اور آیہ تطہیر ( و یطھر کم تطھیرا جس کے مصدر کے ذریعہ تاکید بھی ہوئی کہ جس تطہیر سے مراد ، اصل پلیدی سے دوری کے بعد رجس کے تمام اثرات کا قلع قمع کرنا ہے ۔ )میں اس مقام عصمت پر فقط اہل بیت علیہم السلام ہی فائز ہیں ،

اس گفتگو سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آیت تطہیر میں فقط حضرت محمد مصطفی ۖ امام علی امام حسن اور امام حسین اور حضر ت فاطمہ زہرا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس میں اور کوئی بھی ان کے ساتھ شریک نہیں تھا ۔

اس سلسلے میں ستّر احادیث اہل سنت نے نقل کی ہیں اور یہ تعداد شیعہ روایات سے بھی زیادہ ہے ۔ 

اہل سنت نے ام سلمہ ، عائشہ ، ابی سعید خدری ، سعد ، واثلہ بن اسقع ، ابی حمراء ، ابن عباس ، ثوبان مولی النبی ، عبد اللہ بن جعفر ، علی علیہ السلام ، حسن بن علی علیہ السلام ، سے تقریبا ً چالیس طریق سے ان روایات کو نقل کیا ہے ۔ 

اور شیعہ نے حضرت امام علی علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام ، امام محمد باقر علیہ السلام ، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام علی رضا علیہ السلام ، ام سلمہ ، حضرت ابو ذر ، ابو لیلی ، ابو الاسود الدوئلی ، عمر وبن صیمون الاودی ، سعد بن ابی وقاص ، سے تقریبا ً تیس طریق سے روایات کو نقل کیا ہے (١) 

شداد بن عبد اللہ ابی عمار نے واثلہ بن الاسقع سے روایت کی کہ میں حضرت زھرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور حضرت علی علیہ السلام کے متعلق پوچھا ، آپ نے فرمایا کہ وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں ہیں تشریف لے گئے ہیں ۔ حتی کہ پیغمبر ۖ حضرت علی اور حسنین علیہم السلام کے ہمراہ تشریف لائے ، حضرتۖ نے حسنین علیہما السلام کو اپنے مبارک ہاتھوں پر لیا ہوا تھا ، جب تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت فاطمہ ۖ کو اپنے 

------

المیزان طبا طبائی ج١٦ ص ٣١٠ ، ٣١١ ، معمولی فرق کے ساتھ۔ 

زانوئو ں پر بٹھایا ، پھر ان پانچ ذوات مقدسہ نے ایک چادر اوڑھی پھر اس آیت کریمہ :

(انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا) 

کی تلاوت فرمائی ۔ اور فرمایا اللھم ھولاء اھل بیتی ، اے خدا یہی میرے اہل بیت ہیں (١) 

اور پیغمبر ۖ نے اس انداز سے اس لئے بٹھایا تاکہ دیکھنے والوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی پنجتن پاک ہیں ۔ 

عبد اللہ الجیار بن عباس شبامی نے عمار دھنی سے ، اس نے عمرة بنت افعی سے اس نے ام سلمہ ۖ سے روایت کی ہے ۔ کہ آیت تطھیر میرے گھر میں نازل ہوئی اور گھر میں سات ہستیاں موجود تھیں ، جبرئیل ، میکائیل ، اور پنجتن پاک ، اور میں گھر کے دروازے پر کھڑی تھی اور رسول پاک ۖ سے سوال کیا ، کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں ، تو پیغمبر ۖ نے فرمایا٫٫ انتِ علی الخیر، ، تو بھلائی پر ہے ، تو پیغمبر کی ازواج مطہرات میں شامل ہے لیکن یہ نہیں فرمایا کہ تو اہل بیت میں شامل ہے (٢) 

گویا پیغمبر ۖ یہ چاہتے تھے کہ زبانی اور عملی طور پر لوگوں کے لئے واضح ہو جائے کہ اہل بیت فقط یہی ذوات مقدسہ ہیں ۔ اور ام سلمہ والی روایت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازواج اس مقدس عنوان میں داخل نہیں ہیں ۔ 

حقیقت کو قبول کرنے کے لئے اس کے بعد کیا عذر باقی ہے ، ہاں مگر دشمنی اور عناد کا کوئی علاج نہیں ۔ 

آیت کے نزول کے بعد پیغمبر ۖ اس حقیقت کو لوگوں کے اذھان میں مزید پختہ کرنے کے لئے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے دروازے پر یشریف لاتے اور بلند آواز سے پڑھتے : السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

اہل البیت انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا ۔ 

(١) مسند احمد بن حنبل ج٤ ص ١٠٧ و ١٣٥ کتاب فضائل ، فضائل امیر علیہ السلام ، ط ۔ ١ اور تاریخ دمشق ، ابن عساکر ج ١٣ ص ٧٦ فی ترجمة الامام الحسین علیہ السلام (٢) شواہد التنزیل الحسکانی ج٢ ٨١ ط ١ ۔ اس آیت کی تفسیر میں متعدد اسانید کے ساتھ 

اور یہ عمل چھ سات یا نو مہنے ہر روز پانچ مرتبہ انجام دیتے اور یہ عمل ہر روز کا وطیرہ تھا (١) اس کی تفصیل اور تصدیق کے لئے طبری ، ابن کثیر اور سیوطی کی تفاسیر کو ملاحظہ کیا جائے ۔ 

ابن حجر کہتا ہے اکثر مفسرین قائل ہیں کہ یہ آیت حضرت علی فاطمہ ۖ ، اور حسنین علیھما السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( ٢) 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ
چہل احادیث
تاریخ آغازِ طِب

 
user comment