اسلام نے خاندان کوخاص اہمیت دی ہے اور چونکہ معاشرہ سازی کے سلسلہ میں اسے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے لذا اسلام نے اس کی حفاظت کے لئے تمام افرد پر ایک دوسرے کے حقوق معین کئے ہیں اور چونکہ والدین کا نقش خاندان اور نسل کی نشو ونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے لذا قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں ان کی عظمت کوبیان کیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔
اس بحث میں ہم قرآن کریم، سنت نبویہ اورفرامین اہل بیت کی روشنی میں والدین کے حقوق کا جائزہ لیں گے۔
حقوق والدین قرآن میں
اللہ تعالی نے متعدد آیات کریمہ میں اپنی عبادت کے حکم کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم دیا ہے مندرجہ ذیل آیات ملاظہ فرمائیے :
وقضی ربکالاتعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا [1]۔
"تیرے پروردگار کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کےعلاوہ کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دوسری آیت میں ارشاد رب العزت ہے :
واذ اخذنا میثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا [2]۔
"اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا سوا اللہ کے کسی کی بندگی مت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو"۔
نیزفرمایاہے :قل تعالوااتل ماحرم ربکم علیک الاتشرکوابہ شیئا وبالوالدین احسانا [3]۔
"اور کہدو آو میں بیان کروں جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے اوپرحرام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو"۔
اوراس آیت میں اپنے شکرکو والدین کے شکرکے ہمراہ ذکر فرمایا ہے :اناشکرلی ولوالدیک الی المصیر [4]۔
"میرا اور اپنے والدین کا شکر بجالاؤ تمہاری بازگشت میری طرف ہے"۔
اسی طرح خدا تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو ایک بنیادی فیصلہ قرار دیا ہے، اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے بہت ساری آیات میں اولاد پر زور دیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ اس کے برعکس والدین کو بہت کم غیر معمولی حالات میں اولاد کو اہمیت دینےکا حکم دیاہے جیسے بھوک کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنے کا حکم۔
اور صرف اس پر زور دیتا ہے کہ اولاد زینت، تفریح کا سامان اور والدین کے لئے آزمائش ہے اور اولاد کا ذکر مال و متاع کے ہمراہ اور تفاخر کے مقام میں کیا ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :
واعلموا انما اموالکمو اولادکم فتنة وان اللہ عندہ اجرعظیم۔
"اور جان لو تمہارے اموال اور اولاد آزمائش ہیں، اور جب بیشک اللہ کے ہاں اجر عظیم ہے" [5]۔
نیز فرماتا ہے: ...وتفاخربینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد..."اور ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ خو اہش ہے...[6]۔
اور اس کا راز یہ ہے کہ اولاد کے ساتھ تعلق کی نسبت والدین کا اولاد کے ساتھ تعلق زیادہ شدید ہوتا ہے بالخصوص ماں جو ہمیشہ اپنی اولاد کو محبت کی رد امیں لپیٹے رکھتی ہے اور ان کی محبت میں قیمتی سے قیمتی اور نفیس سے نفیس چیز بھی قربان کر دیتی ہے اور اس کی پوری تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد سعادتمندانہ زندگی بسر کرے۔
لہذا والدین کو اس بارے میں کسی خاص تنبیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی نسل کی صحیح تربیت کرنے کے لئے فقط ان کے ضمیر کو جگا دینا کافی ہے۔
اور چونکہ اولاد کی محبت والدین کے ساتھ فطری طور پر کمزور ہوتی ہے لہذا قرآن کریم نے انہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ طرفین کی محبت میں توازن آجائے اور اسی وجہ سے دیکھیں تو والدین کے ساتھ حسن سلوک، حقیقی عبادت کا اجتماعی مظہر ہے اورعبادت اور اس کے اجتماعی مظاہر کے درمیان ہر قسم کی تفکیک و جدائی بالخصوص والدین کے ساتھ بدسلوکی اگرچہ "اف" کے ساتھ کیوں نہ ہو عبادت کو اسی طرح خراب کر دیتی ہے جیسے سرکے کا ایک قطرہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
ماں کاعظیم حق:
قرآن کریم نے ماں کے حق کو اس سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے اس کی وجہ یہ ہے ماں کی قربانیاں بھی زیادہ ہیں یہ ماں ہی ہے جو حمل، وضع حمل اور پھر دودھ پلانے جیسی تکالیف برداشت کرتی ہے اور حمل کے مرحلے میں عام طور پر نو ماہ تک بچہ ماں کے پیٹ میں رہتا ہے، اس کی غذ۱سے غذا حاصل کرتا ہے اور ماں کی راحت و صحت کی پروا کئے بغیر مطمئن رہتا ہے۔
پھر وضع حمل کا مرحلہ آتا ہے کہ جس کی سختی کا احساس صرف ماں ہی کو ہو سکتا ہے اور بعض اوقات تو اس مرحلے میں ماں کی زندگی بھی خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے، اس کے بعد دودھ پلانے، پرورش کرنے، زحمتیں اٹھانے اور راتوں کو جاگنے کا مرحلہ آتا ہے اس لئے اسلام ماںکے حقوق ادا کرنے پر بہت زیادہ زور دیتا ہے اور اس کی فضیلت کا اعتراف کرنے کے لئے اسے بہترین بدلہ دینے پر زور دیتا ہے اور ان قربانیوں کے پیش نظر قرآن کریم ماں کا خصوصیت سے تعارف کراتا ہے اور اس کے حقوق کے بارے میں خاص طور سے نصیحت کرنا ایک فطری سی بات ہے چنانچہ فرماتا ہے :
ووصینا الانسانبوالدیہ حملتہ امہ وھنا علی وھن فصالہ فی عامین...۔
"اور ہم نے وصیت کی انسان کو اس کے والدین کی طرف کہ جس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو برس تک شیردھی کافریضہ انجام دیا"[7[
اسی کے ساتھ قرآن کریم نے اولاد کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بالخصوص ماں کی زحمتوں اور تکلیفوں کو فراموش یا نظرانداز کرکے اپنی پوری توجہ بیوی، بچوں پر مرکوز نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] - سورہ اسرا/۱۷:۲۳۔
[2] - سورہ بقرہ ۲:۸۳۔
[3] - سورة الانعام ۶:۱۵۱۔
[4] - سورة لقمان ۳۱:۱۴۔
[5] - سورة انفال ۸:۲۸۔
[6] - سورہ حدید۵۷:۲۰۔
[7] - سورة لقمان ۳۱:۱۴۔
source : http://shiastudies.net