اردو
Thursday 18th of July 2024
0
نفر 0

منصب امام

گذشتہ درس میں ہم نے وضاحت کر دی ہے کہ ختم نبوت کا سلسلہ ،امام معصوم علیہ السلام کو منصوب کئے بغیر حکمت الٰہی کے خلاف ہے، اور جہانی و جاودانی اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت  ۖ کے بعد اُس کے لئے شائستہ جانشین معین کئے جائیں، جو نبوت و رسالت کے علاوہ تمام مناصب الٰہی سے سرفراز ہو۔

اس مطلب کو قرآنی آیات اور سنی و شیعہ تفا سیر میںموجود ہ روایات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن میں سورۂ مائدہ کی تیسری آیت میں خدا فرماتا ہے:

(اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دَینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الاِسلَامَ دیناً)

میں نے آج تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے دین ِاسلام سے راضی ہوگیا۔

یہ آیت تمام مفسرین کے قول کے مطابق حجة الوداع کے بعد آنحضرت  ۖ کی رحلت کے چند ماہ پہلے نازل ہوئی، جس میں اسلام کاآسیب پذیری سے محفوظ رہ جانے کی وجہ سے کفار کی نااُ میدی  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ''آج میں نے تمہارے دین کو کامل اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا'' اور ان روایات کی روشنی میںجو اِس آیت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں یہ نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ اکمال و اتمام، کفار کی ناامیدی سے مر بوط اور آنحضرت ۖ کی طرف سے حکم خداوندی کے مطابق جانشین کے انتخاب کے ذریعہ متحقق ہوجاتا ہے، اس لئے کہ کفار اِس خیال خام میں تھے کہ آنحضرت  ۖ کی وفات کے بعد چونکہ آپ کا کوئی فرزند نہیں تھا، لہٰذا اسلام بے سرپرست اور سرگردان ہوجائے گا، لیکن جانشین کے انتخاب کے ذریعہ دین کامل ہوگیا اور کافروں کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا(١)

دین کے اکمال کی داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب رسول اکرم  ۖ حجة الوداع سے فارغ ہو کر مدینہ کی جانب لوٹے تو غدیر خم کے مقام پر تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور ایک مفصل خطبہ دینے کے بعد آ نحضرت  ۖنے مسلمانوںکو مخاطب کر کے سوال کیا(اَلَستُ اَولیٰ بِکُم مِن اَنفِسِکُم)(٢) کیا میں خدا کی جانب سے تمہارا ولی نہیں ہوں، سب نے مل کر، ہاں کہا ، یہ جواب سن کر آ نحضرت  ۖ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر فرمایا ''مَن کُنتُ مَولَاہُ فَعَلِیّ مَولَاہُ''. اور اس طرح آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمادیا، اور پھر حاضرین نے آپ کی بیعت کی نیز خلیفہ دوم نے بیعت کرنے کے ضمن میں حضرت علی  ـ کو ان القاظ میں تہنیت پیش کی(بَخٍ بَخٍ لَکَ یَا عَلیّ اَصبَحتَ مولای وَ مولیٰ کُل مُومِن وَ مُؤمِنَةٍ)(٣) اُس روز یہ آیت نازل ہوئی (اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دَینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُم الِاسلَامَ دِینا) آنحضرتۖ نے تکبیر کہی اور فرمایا:(  تَمامُ نبُوَّتِی وَ تَمامُ دِینِ اللّہِ ولایةُ علیٍّ بَعدِی)

……………………………

(١) اس آیت کے سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے  تفسیر المیزان میں مراجعہ کریں

(٢) یہاں سورۂ احزاب ۔آیت ٦ '' النبی اولی بالمومنین من انفسہم'' کی طرف اشارہ ہے

(٣) اس حدیث کی دلالت اور سند کے قطعی ہونے کو ثابت کرنے لئے عبقات الانوار اور الغدیر کی طرف رجوع کیا جائے.

اور ایک روایت میں آیاہے کہ جسے بعض اہل سنت کے بزرگ علماء نے نقل کیا ہے کہ ابو بکر اور عمر اپنی جگہ سے بلند ہوئے اور آنحضرت  ۖ سے سوال کیا، کہ کیا یہ ولایت صرف حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص ہے؟ تو آنحضرت  ۖ نے جواب میں فرمایا: ہاں یہ وصایت علی علیہ اسلام اور میرے اوصیاء سے تاروز قیامت مخصوص ہے، تو انھوں نے پھرسوال کیا کہ آپ  ۖکے اوصیاء کون لوگ ہیں تو آپ  ۖ نے فرمایا: ''

(عَلِی اَخِی وَ وَزِیرِی وَ وَارِثِی وَ وَصِی وَ خَلِیفَتِی فِی اُمَّتیِ وَ وَلیُّ کُلّ مومن مِن بَعدِی    ثُمَّ اِبنِی الحَسن ثُمَّ اِبنِی الحسین ثُمَّ تِسعَةُ مِن وُلدِ اِبنِی الحُسین واحداً بَعدَ واحدٍ القرآن مَعَہُم وَ ہُم مَعَ القُرآنِِ لَا یُفارِقُھُم وُ لَا یُفَارِقُہُم حَتَّی یَرِدوا عَلیَّ الحَوض)(١)

ان روایات کی روشنی میں جو مطلب سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت  ۖحجة الوداع سے پہلے اس امر کے لئے مامور کردئے گئے تھے لیکن آپ کو اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں لوگ آپ کی جانشینی کو آپ کے شخصی و نجی نظر یہ پر حمل نہ کر یں، اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیں، اِسی وجہ سے آنحضرت  ۖ موقع کی تلاش میں تھے تا کہ اس امر کا اعلان کردیں، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہو ئی (یَااَیُّہَاالرَّ سُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ الیکَ مِن رَبِّک وَ اِن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہُ وَ اللَّہُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ).(٢)

اے رسول جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا جا چکا ہے اُسے پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا ،تو گویا تم نے میری رسالت کا کوئی کام نہیں کیا او تم ڈرو نہیں خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

…………………………………

(١)غاید المرام۔ باب ٥٨ حدیث ٤ جسے فرائد حموینی نے نقل کیا ہے.

(٢) سورۂ مائدہ۔ ٦٧ اور تفسیر المیزان کی طرف مراجعہ کیا جائے.

آیت میں اِس امر کو لوگوں تک پہنچانے کی تاکید اس حد تک ہے کہ اگر یہ حکم انجام نہیں پایا تو گویا تبلیغ رسالت کے انجام نہ دینے کے برابر ہے، آ نحضرت  ۖ کو خوشخبری دیتا ہے کہ اِس پیغام کے برُے نتائج سے محفوظ رکھے گا، یہ آیت جیسے ہی نازل ہوئی، آپ کو معلوم ہوگیا ،کہ اس پیغام کا لوگوں تک پہنچانے کا وقت آگیا ہے اور اِس سے زیادہ تاخیر جائز نہیں ہے، اسی وجہ سے غدیر خم میں حضرت علی    علیہ السلام کی جانشینی کا اعلان کردیا۔(١)

اگر چہ وہی دن اِس پیغام کو لوگوں تک پہنچانے اور لوگوں سے بیعت لینے سے مخصوص تھا، وگرنہ آنحضرت  ۖ نے ا پنے دوران حیات میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں حضرت علی  ـ   کی جانشینی کو ، لوگوں کے گوش گذار کرایا تھا بلکہ بعثت کے پہلے ہی سال جب آیہ، وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الَاقرِبِینَ'' .(٢) نازل ہوئی ،تو آپ  ۖ نے اس وقت فرمایا: جو شخص سب سے پہلے میری  دعوت کو قبول کرے گااور میری مدد کر ے گا، وہ میرے بعد میرا جانشین و خلیفہ ہو گا، اور فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے ، جس شخص نے سب سے پہلے اعلان نصرت کیا حضرت علی علیہ السلام تھے(٣) اسی طرح جب آیہ  ( یَا ایہا الذین آمنوا اطیعو اللہ و اطیعو الرسولَ و اُولی الامر منکم )(٤)نازل ہوئی، اور اس آیت نے اولو الامر کی اطاعت کو مطلق اور اُسے اطاعت رسول  ۖ کے برابر قرار دیا تو جابر بن عبد اللہ انصاری نے آپ  ۖ سے سوال کیا کہ یہ اولو الامر کون ہیں کہ جن کی اطاعت کاآپ  ۖ   کی اطاعت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے؟! تو آپ  ۖنے جواب میں فرمایا :

(ہم خلفائی یا جابر و ائمةُ المسلمینَ مِن بَعدِی، اَوَّلُہُم علیُّ ابن ابی طالب، ثُّمَ الحسن، ثُّمَ الحسین، ثُّمَ علی بن الحسین ثم محمد بن علی المعروف بالتوراة

………………………………

(١) اس موضوع کو اہل سنت نے سات صحا بیو ں سے نقل کیا ہے ، زید بن ارقم، ابو سعید خدری٠ ابن عباس ،    جابر بن عبد اللہ انصاری، براء بن عازب ، ابو ہریرہ، ابن مسعود، الغدیر ج١ ص ٣

(٢) سورۂ شعراء ٢١٤.   (٣) عبقات النوار ، الغدیر، المراجعات.

(٤) سورہ نساء آیت ٥٩

بالباقر، سَتُدرِکُہُ یا جابر، فاذا لَقیتَہُ فاقرَأہُ منّی السلام،َ ثُّمَ الصادق جعفر بن محمد، ثّم موسیٰ بن جعفر، ثم علی بن موسیٰ، ثم محمد بن علی، ثم علی بن محمد، ثم الحسن بن علی، ثم سمیّی وَکنیّی حجة اﷲ فی ارضہ بقیتہ فی عباد ہ ابن الحسن بن علی)(١)

آنحضرت  ۖکی پیشینگوئی کے مطابق جابر بن عبد اللہ انصاری امام باقر علیہ السلام کے زمانہ تک با حیات رہے اور آنحصرت  ۖ کے سلام کو پہنچایا ،

ایک دوسری حدیث میں ابو بصیر سے، اس طرح منقول ہے کہ ابو بصیر نے آیت اولوا الامر کے سلسلہ میں امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا ،تو آپ نے جواب میں فرمایا: یہ آیت حضرت علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے، تو میں نے دوبارہ عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں حضرت علی علیہ السلام اور اُن کے اہلبیت علیہم السلام کے اسماء کیوں نہیں ذکر کئے؟ تو آپ( علیہ السلام )نے فرمایا: تم جا کر اُن لوگوں سے کہہ دو کہ جب نماز کے لئے آیت نازل ہوئی ، تو اس میں چار رکعت یا تین رکعت کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا یہ وضاحت آنحضرت  ۖ نے بیان فرمائی تھی، اسی طرح آپ علیہ السلام نے حج و زکات کے سلسلہ میں آیات کی تفصیل بیان فرمائی لہٰذا  آنحضرت  ۖ نے اُن آیتوں کی طرح اِس آیت کی بھی تفصیل بیان فرمائی جو اِس طرح ہے :(مَن کنت مولاہ فعلی مولاہ )(اوصیکم بکتاب اللہ و اہل یبیتی فانی سئلت اللہ عزو جلّ ان لا یُفَّرَقَ بینہماحتی یُورِدہما علیّ الحوض فاعطانیذلک)یعنی میں تمہیں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کے ساتھ ساتھ رہنے کی وصیت کرتا ہوں، میں نے خدا کی بارگاہ میں درخواست کی ہے کہ ان دونوں میں اس وقت تک جدائی نہ ڈالے کہ جب تک یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہنچ جائیں، اور خدا نے میری درخواست قبول کرلی ،اور اِسی طرح ایک دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :

………………………………………………

(١) غایة المرام ، ج ١٠  ،ص٢٦٧ اور اثیات الھداة ، ج ٣  ،ص ١٢٣ ، و،   ینادیع المودة، ص ٤٩٤

( لا تعلموہم فانہم اعلم منکم انہم لن یخرجوکم من باب ہدی ومن یدخلوکم فی باب ضلالة)(١)

یعنی انھیں تعلیم دینے کی کوشش نہ کرو کیوں کہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہیں، جو ہرگز تمہیں باب ہدایت سے خارج اور چاہ ضلالت میں داخل نہیں کرسکتے''.

اسی طرح بارہا اس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا یہاں تک کہ اپنی حیات کے آخری ایام میں بھی فرمایا:

(اِنِّی تَارِکُ فِیکُمُ الثَّقلینِ کتابَ اﷲ وَ اَہلِ بَیتِی اِنَّہُمَا لَن یَفتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیّ الحَوض)(٢)

اور فرمایا( الان ان مثل اہل بیتی فیکم مثل سفینة نوح من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا غرق)(٣)

اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کو بارہا مخاطب کر کے فرمایا:

(اَنتَ وَلیُّ کَلَ مَومنٍ بَعدِی)(٤)

ایسی سیکڑوں احادیث ہیں کہ جن کی طرف اشار کر نے کی یہاں پر گنجائش نہیں (٥)

…………………………

(١) غایة المرام (طبع قدیم) ج٢ ص٥٦٢.

(٢) یہ روایت بھی متواترات میں سے ہے، جسے ترمذی، نسائی، صاحب مستدرک نے مختلف طرق سے نقل کی ہے.

(٣) مستدرک حاکم۔ ج٣ ص١٥١.

(٤) مستدرک حاکم۔ ج٣ ص ١٣٤ ١١١. صواعق ابن حجر۔ ص ١٠٣. مسند ابن حنبل ۔ج١ ص ٣٣١ ج٤ ص ٤٣٨ و….

(٥) کمال الدین وتمام النعمة، بحار الانوار.

سوالات

١۔قرآن کی کون سی آیت حضرت علیہ السلام کی جانشینی پر دلالت کرتی ہے؟ اور اس کی دلالت کو بیان کریں؟

٢۔ خضرت علی علیہ السلام کے منصب امامت پر فائز ہونے کی تفصیلات بیان کریں؟

٣۔ کیوں آنحضرت  ۖحضرت علی علیہ السلام کی جانشینی کے پیغام کو پہنچانے میں تأخیر سے کام لیتے تھے؟ اور پھر کیسے اس امر کو انجام دینے کے لئے کمر ہمت باندھ لی؟

٤۔ کون سی روایتیں تمام ائمہ علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں؟

٥۔ ان تمام روایتوں کو بیان کریں کہ جو اہل بیت علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہیں؟


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں
قاتلان حسین(ع) کا مذہب
''عاشورا ''وجود میں آنے کے اسباب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
عزم راسخ اور سعی مستقل
نبی (ص) کی ذات محور اتحاد

 
user comment