جب ایک معاشرہ دوقطبی صورت اختیار کرتا ہے اور سیاسی اور اجتماعی طاقت کا ایک دوسرے کے نزدیک آنا ناممکن بن جاتا ہے تو ایسے معاشرہ میں ایک سیاسی ۔اجتماعی تبدیلی کا رونما ہونا ناگزیر بن جاتا ہے ۔
جیسا کہ پہلی فصل میں بحث وتحقیق کی گئی کہ،ایران پر حاکم طاقت ایرانی معاشرے سے اس قدر دور ہو چکی تھی اور ایک الگ راستہ اختیار کرچکی تھی اورشاہ کی حکومت کے آخری دس سالوں میں اس طریقہ کار میں ایسی تیزی آگئی تھی کہ،کسی کے لئے اس سلسلہ میں شک وشبہہ باقی نہیں رہاتھا کہ موجودہ صورت میں ایرانی معاشرہ پر حاکم نظام اپنے اور معاشرہ کے درمیان پیداہوئے فاصلہ کو دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔نہ حکومت میں اپنی صلاحیت میں تبدیلی لانے کی توانائی تھی اور نہ عوام اس حکومت سے کوئی امید وابستہ کرنا ممکن سمجھتے تھے ۔
لہذا ایرانی معاشرہ میں ایک دھماکہ خیزحالت پیدا ہوئی تھی اور ممکن تھا کہ کسی بھی وقت کوئی حادثہ پیش آجائے اور موجودہ حالت کو درہم برہم کرکے معاشرہ کی عام حالت کو ابتربنادے ۔موجودہ زخموں پر مرہم رکھنے اورعوام اورحکومت کے درمیان فاصلہ کو دورکرنے کے لئے ہرکوشش بیکار تھی اور لوگوں کودھوکہ دیناممکن نہیں تھا ۔شاہ ایک جگہ پر اعتراف کرتا ہے کہ ایک پارٹی (رستاخیز )کاسسٹم کامیاب نہ ہو تو پھر شاہ کی حکومت کے باقی رہنے کی کوئی اُمید نہیں ہے ۔لیکن اس سوال کی زیادہ اہمیت ہے کہ،تمام دنیا میں روزمرہ رونما ہونے والی سیاسی ۔اجتماعی تبدیلیوں کے بجائے ،ایران میں کیوں انقلاب رونما ہوا؟
گزشتہ صدی کے دوران دنیا میں رونما ہو نے والے عظیم انقلابوں کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب ایسے حالات میں رونما ہوا ہے کہ فوجی اور سیاسی لحاظ سے داخلی اوربین الاقوامی حالات نہ صرف اس قسم کی تحریک کے موافق نہیں تھے ،بلکہ اس کو کچلنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کی گئیں ۔
موجودہ صدی کے جودو بڑے انقلاب، زارروس اورچین میں رونما ہوئے ،ان کے لئے سیاسی ،اجتماعی اوراقتصادی لحاظ سے حالات بالکل موافق تھے ۔اکتوبر ۱۹۱۷ ء میں رونما ہونے والا روسی انقلاب،ایک سیاسی طاقت سے جنگ کرنے یا،روس کی مطلق العنان حکومت کی فوج کو شکست دینے یا حکمران نظام کو نابود کرنے کے نتیجہ میں رونما نہیں ہوا بلکہ مذکورہ دونوں ادارے (حکام اورفوج)پہلی جنگ عظیم کے دوران کمزور ہو کر نابود ہو چکے تھے ۔انقلابیوں نے جو کام انجام دیا وہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے طاقت کے ایک خلا اورافراتفری کے ماحول میں حالات پر قابو پایا ۔
چین کی کو مین تانگ حکومت بھی دوسری عالمگیر جنگ کی وجہ سے اوراجنبیوں کے پے در پے حملوں سے مکمل طور پر کمزور ہو چکی تھی،یہاں تک کہ مرکزی حکومت کو پیکنگ اور اس کے اطراف کے علاوہ ملک کے حالات پر کنٹرول نہیں تھا ۔اس لئے ماوزے تنگ کی رہبری میں انقلابیوں کے لئے ملک پر کنٹرول حاصل کرنے میں کوئی خاص رکاوٹ موجودنہیں تھی ۔
جبکہ،جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے ۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے وقت دنیا کے حالات مذکورہ دوانقلابوں کے زمانوں کے برعکس اس قسم کی تبدیلی کے لئے بالکل ناموافق تھے ۔اس وقت بڑی طاقتیں آپسی ٹکراؤ سے اجتناب کر کے پر امن ماحول میں زندگی گزار نے کے دور سے گزر رہی تھیں اور ایک عالمی شہنشاہی نظام وجود میں آچکا تھا ۔مسلّط طاقتیں دنیاکی موجودہ حالت کے تحفظ پر متفق تھیں اور شاہ کی حکومت کے باقی رہنے میں دونوں بڑی طاقتوں کے مشترک منافع کے پیش نظروہ آخری دنوں تک حتی الامکان اس کی حمایت کرتی رہیں۔شاہ کی حکومت بھی جدید ترین اسلحہ سے لیس چار لاکھ افراد پر مشتمل ایک فوج پر بھروسہ کر رہی تھی ۔ایسے ہی حالات میں ایران کی امت مسلمہ نے شہنشاہی نظام کے خلاف ایک غیر مسلحانہ انقلاب برپا کر کے کامیابی حاصل کر لی ۱
۱۔اس سلسلہ میں مزید تحقیقات کے لئے مصنف کی کتاب’’اسلامی انقلاب کا فرانس اور روس کے انقلابوں سے موازنہ‘‘طبع دوم ۱۹۹۱ء ملاحظ ہو ۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب کو جاننے کے لئے دوبنیادی مسائل پر غور کرنا ضروری ہے :
اوّل:ایران کے لوگوں نے گزشتہ ایک صدی کے دوران ملک پر حاکم سیاسی نظام کے خلاف اصلاحاتی اور اعتدال پسند طریقہ پر مسلسل مقابلہ کیا ہے ۔اگر چہ اس سلسلہ میں کافی تجربہ حاصل کیالیکن عملی طورپر زبر دست ناکام ہوئے ۔مشروطیت کی تحریک ایرانی بادشاہوں کی طاقت کو کنٹرول اور محدود کرنے کے لئے وجود میں آئی تھی ۔تمباکو کی تحریک اور تیل کی صنعت کے قومیانے کے مسئلہ نے دخل وتصرف کو ختم کر دیا ۔آخر کار ۱۹اگست ۱۹۵۳ء کی امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کے نتیجہ میں خودخواہ شاہ کی ڈ کٹیٹرشپ مضبوط ہوگئی اور ایرانی معاشرہ کے حق خودارادیت پر اجنبی مسلط ہو گئے ۔یہ تھے لوگوں کی تحریک کے چند نمونے ۔مذکورہ تاریخی تجربوں نے ثابت کردیا کہ جب تک سیاسی سسٹم کی برائیوں کو جڑسے اکھاڑپھینک کر اس کی جگہ پر آئیڈیالوجی اور لوگوں کی پسندیدہ اقدار پر مبنی ایک نیا مثالی نظام قائم نہ کیا جائے توفرسودہ نظام کے باقیماندہ اثرات اقتضائے زمان کے مطابق پھر سے سراٹھاکر لوگوں کی تحریک کے ماحصل کو نابود کر دیتے ہیں ۔اس لئے کسی قسم کی اندرونی یا بیرونی سازش اور مصلحتوں سے لوگوں اورتحریک کے رہبروں کو متاثر ہوئے بغیر اسلامی حکومت برقرار کرنے کے اپنے عالی اورمقدس مقصد تک پہنچنے کے لئے پوری توانائی سے کوشش کرناچاہئے ۔
دوسرا: ایران کے اسلامی انقلاب میں انقلاب کے تین بنیادی ارکان (عوام ،رہبری اور آئیڈیالوجی)کامکمل اورمطلوب صورت میں یکجہتی کے ساتھ ایک ہی وقت میں میدان میں آنا۔
الف۔عوام
ایک اہم مسئلہ جس نے ایران کے اسلامی انقلاب کے اکثر تجزیہ نگاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور غیر ملکی ناظرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے، یہ حقیقت تھی کہ اس انقلاب میں تمام لوگوں نے کیسے اچانک پوری ہما ہنگی اور اتحاد کے ساتھ حصہ لے کر انقلاب برپا کیا اور ایک آوازمیں بنیادی تبدیلی،یعنی شاہ کی حکومت کے زوال اور اسلامی حکومت کی بر قرار ی کا مطالبہ کیا۔
اگر ہم دنیا کے تمام بڑے انقلابوں پر نظر ڈالیں ،توہم اس درجہ وسیع اور عالمگیر کسی حادثہ کامشاہدہ نہیں کر یں گے ۔فرانس کے عظیم انقلاب میں پہلے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں نے اور اس کے بعد شہر میں رہنے والے بورژواؤں نے انقلاب کر کے بوربونوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اسی لئے یہ انقلاب بورژوائی انقلاب کے نام سے مشہور ہوا ۔
بلشویکی انقلاب کے نام سے مشہورروسی انقلاب میں ،درحقیقت پطرد گراد کے کارخانوں کے ہڑ تالی مزدوروں نے شہر کی فوجی چھاونی کے سپاہیوں کے ایک گروہ کے ان سے ملحق ہو نے کی وجہ سے روس کی زار حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دیا ۔
چین میں بھی کاشتکاروں اورزمینداروں نے انقلاب کے سلسلہ میں گاؤں سے رہبری اورہدایت کی اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور اسی لئے چین کا انقلاب کاشتکاروں اورزمینداروں کے انقلاب کے نام سے مشہور ہے ۔
جبکہ ایران میں اپنے ذاتی مفادکے تحفظ کے لئے شاہ کی حکومت سے انتہائی وابستگی رکھنے والے معدود چندافراد کے علاوہ معاشرہ کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ،جیسے کاشتکار، مزدور اصناف،سرکاری ملازمین ،یونیورسٹی کے طلبہ ،اورشہروں اور گاؤں میں رہنے والے طالب علم ملک کے کونے کونے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور مختلف گروہوں کے مطالبات پر اتفاق وتفاہم کئے بغیر سب ایک ساتھ ہم آواز ہوکرایک ہی قسم کے نعرے بلند کرتے تھے ۔اس وحدت ویکجہتی کا ۱۹۷۸ء میں عید فطر،تاسوعا اور عاشورا کے مظاہروں کے دوران تہران میں عینی اورواضح مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔تہران کے لوگوں نے ۔(جس شہرنے شاہ کی سیاست کے نتیجہ میں اپنے مذہبی رخ کوکھو کر یور پی شہروں کی شکل اختیار کر لی تھی اور اسلامی شہروں کی نسبت یورپی شہروں سے کہیں زیادہ پیدا کر لی تھی) اچانک انقلاب برپا کیا اوراپنی آرز ؤں کو دوبارہ روحانیت اور مذہب میں پانے لگے۔یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو زیادہ مذہبی نہیں تھے ، تمام ملت کے ساتھ ہم صداہو کر’’اللہ اکبر‘‘کی فریاد بلند کر نے لگے اور اپنے مذہب کو اپنی دفن شدہ ہویت کے طور پر اعلان کرنے لگے ۔۱۹۷۸ء کی عید فطر کے دن تہران میں ایک ایسی تحریک رو نما ہو ئی جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور لوگوں نے ایک جوش وخروش کی حالت میں اپنی عرفانی ھویت کو دوبارہ پہچان کر معاشرہ پر حاکم نظم کو ایک سراب کے مانند دور پھینک دیا ۔
عاشورا کے مظاہروں میں ،بچوں ،ضعیفوں ،بوڑھوں اور گھروں سے باہر نہ نکلنے والی خواتین کے ایک گروہ کے علاوہ تہران کے تمام لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور’’مردہ بادشاہ‘‘کا نعرہ بلند کر رہے تھے ۔شاہ کی حکومت سے انتہائی قریب تعلقات رکھنے والے اور اس کی طرف سے منافع کمانے والے گنے چنے افراد کے علاوہ سب لوگ ،یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو طولانی مدت تک شاہ کے ساتھ تھے او ر کچھ دن پہلے تک مشروط سلطنت کی حمایت کر نے والے بھی ’’مردہ بادشاہ‘‘ کا نعرہ بلند کررہے تھے ۔
بنیادی طور پر لوگوں کی انقلابی تحریکیں ،اجتماعی ارادہ کو قطعی طورپر ظاہر کرتی ہیں اور یہ دنیا کے اقوام کی تاریخ میں کمیاب ہے ۔اجتماعی ارادہ ایک سیاسی افسانہ ہے ،کہ قانون دان اورفلاسفہ اس کی مدد سے اس کے نظم وترتیب اور تشکیلات کا جایزہ لینے اورتوجیہ کرنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا ارادہ ایک نظر یاتی پہلو ہے جسے ظاہری آنکھوں سے بہت کم دیکھا جاسکتا ہے بلکہ’’ میشل فوکو ‘‘کے بقول ’’خدا یا روح کے مانند شاید کبھی دیکھا نہ جاسکے گا‘‘لیکن تہران اورپورے ایران میں یہ ارادہ مشاہدہ کیا گیا اور ایک قطعی حقیقت ،واضح اور پائدار صورت میں باقی رہی ہے ۱
اس طرح سے ایران کی قومی تاریخ میں محکم مذہبی جذبات کی بنیاد پر اچانک ایک وحدت اوریکجہتی وجود میں آگئی۔یہ جذبات ایسے مسائل کے ضمن میں پیدا ہوئے ،کہ ملت برسوں سے ان کا دکھ برداشت کر رہی تھی ۔ جیسے غیروں کا نفوذ اور مسائل پرتسلّط ،قومی سرمایہ کے لوٹ کھسوٹ کے بارے میں نفرت کا احساس،بیرونی سیاست پر غیروں کا تسلّط،اورہر جگہ امریکہ اور برطانیہ کا واضح نفوذ قابل ذکر ہے ۔اس قسم کا اجتماعی ارادہ اور لوگوں کا ،مختلف سیاسی گروہوں سے اتحاد اور آپسی تال میل اور یہ کہ ہر گروہ نے اپنی رنگا رنگ خواہشات کے بارے میں سمجھو تا کرلیا تھا کہ کچھ موارد میں ان کی برا بری کریں یا تسلیم ہو جا ئیں۔
۱۔کلربریر ،پیر بلا نشہ ،ایران:انقلاب بہ خدا ،ترجمہ قاسم صنعوی،سحاب ص۲۵۵
ایران میں انقلابی تحریک کا مکتب تشیع کی اقدار اور تمناؤں پر مبنی ہونے کے باوجود اہل سنّت نے بھی اس تحریک کی حمایت کرکے انقلاب میں شرکت کی ۔
’’ میشل فوکو ‘‘ نے اس سلسلہ میں کردستان کے ایک سنّی سے بحث کرنے کے بعد لکھاہے :
’’جب میں نے تمام مذہبی اورقومی اختلافات کے باوجود اس انقلاب میں شر کت کر نے کے بارے میں اس سے پو چھا ،تو اس نے یوں جواب دیا :’’صحیح ہے ہم سنّی ہیں ،لیکن ہر چیز سے پہلے ہم مسلمان ہیں ۔‘‘اوریہ کہا:ہم کیسے کرد ہیں ؟ہرگز نہیں ۔ہم ہر چیز سے پہلے ایرانی ہیں اور ایران کے تمام مسائل میں شریک ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ شاہ چلاجائے،زندہ باد خمینی ،مردہ باد شاہ ۔کردستان میں بھی وہی نعرے بلند کئے جاتے تھے جوتہران یا مشہد میں لگائے جاتے تھے ۱
ایران میں انقلاب کی شدّت اور اس کی گہرائی کو معین کرنے والے عوامل میں ایک عامل لوگوں کا اجتماعی ارادہ تھا جوسیاسی طور پر وجود میں آیا تھا ،جس کے بارے میں کوئی شخص حتی دشمن اورشاہ بھی شک وشبہہ نہیں کرتا تھا اور دوسرا سیاسی، اجتماعی نظام اور معاشرہ میں حاکم ا قدار کی بنیادوں میں تبدیلی لانے کا مطالبہ تھا ۔
ایران میں برطانیہ کے سفیر’’انٹونی پارسنز ‘‘’’غرور وزوال‘‘نامی اپنی یادوں پر مشتمل کتاب میں لکھتا ہے کہ شاہ نے اپنی حکومت کے آخری مہینوں میں اس کے ساتھ پے درپے کی گئی متعددملا قاتوں کے دوران حد درجہ حزن وملال کے عالم میں پو چھا :ان لوگوں کے لئے میں نے اتنی خدمتیں انجام دی ہیں اس کے باوجود بھی یہ لوگ میرے مقابلہ میں کیوں کھڑے ہوئے ہیں ؟میں نے اس کے جواب میں کہا:میرے خیال میں اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔لوگوں کا بڑی تعداد میں شہروں پر حملہ کرنا ،ناراض مزدور جماعت کے گروہ تشکیل پانے کا سبب بنا تھا ۔ان میں سے بہت سے مزدورعمارتیں تعمیر کرنے میں مشغول تھے ۔وہ دن کو سرمایہ داروں کے گھربناتے تھے اوررات کواپنی جھونپڑیوں حتی پلاسٹک کی بنی جھونپڑیوں
۱۔کلر بریر ،پیر بلانشہ ،ایران:انقلاب بہ خدا ،ترجمہ:قاسم صنعوی ،سحاب ،ص۱۔۲۶۰
میں چلے جاتے تھے ۔۱
پارسنزنے اس موضوع سے چشم پوشی کی ہے کہ لوگوں کے انقلاب کا اصلی سبب یہ تھا کہ شاہ مذہب سے سرچشمہ حاصل کرنے والے معاشرے کی ا قدار کو نابود کرنے پر تلا ہوا تھا اور اسی وجہ سے ایران کی امت مسلمہ کے مذہبی جذبات مجروح ہونے کی وجہ سے ،دوسرے تمام سیاسی ،اجتماعی اور اقتصادی مشکلات برداشت کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے نعروں میں جس چیز کو بیان نہیں کرتے تھے ،وہ ان کے مادی اور اقتصادی مطالبات تھے ۔انہوں نے مذہب کے پرچم اور نعروں کے ساتھ مذہبی علما کی رہبری میں مسلمانوں کی عبادت گاہ مسجد سے قیام کیا او ر کامیاب ہو ئے ۔
جابر اور ظالم حکام اور اجنبیوں کے تسلط کے خلاف قدیم زمانہ سے مسجدوں کااہم رول رہا ہے۔ مسجدیں لوگوں کی دائمی عبادت گاہیں تھیں ،لوگ ان میں اپنے مذہبی فرائض انجام دینے کے لئے ہرروز جمع ہوتے تھے،اس لئے یہ مسجدیں صلاح ومشورہ،غور وفکر،معلومات حاصل کرنے،اعتکاف اجتماعی فیصلوں اور اجتماعی مجاہدتوں اورسرگرمیوں کے لئے مناسب جگہیں تھیں۔حقیقت میں مسجد،سیاست وعبادت کے درمیان ایک پیوند ہے اور اس کا سرچشمہ صدر اسلام بالخصوص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کی سنّت ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اسلام کے سپاہی مساجد سے میدان کا رزار کی طرف روانہ ہوتے تھے ۔انقلاب کے دوران بھی قدرتی طورپر اور اسی تاریخی سابقہ کے پیش نظر ایران کی مساجد نے اپنا رول ادا کیا اور حکومت کے خلاف مقابلہ کا مرکز بن گئیں ۔رضاشاہ کے زمانہ میں مسجد گوہرشاد پر حملہ اور لوگوں کو خاک وخون میں غلطان کر نا،روسیوں کا حرم امام رضا(ع)پر توپ چلانا اوراسی طرح کرمان کی جامع مسجد پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کرنا اور لوگوں کا خون بہانا ،مذکورہ تحریک میں مسجد کی اہمیت ،اس سے مقابلہ ومبارزہ کے مورچہ کے عنوان سے استفادہ کر نے کا واضح ثبوت ہے اور اسی طرح سیاسی طاقتوں کی اس مقدس مکان کی نسبت رکھنے والے عناد کا نمونہ ہے ۔لیکن ان سب چیزوں سے اہم انقلابی تحریک کی رہبری اور اسے
۱۔انٹونی پارسنز،’’غروروزوال‘‘ترجمہ پاشا شریفی،راہ نو ،ص۱۲۵
نظم وضبط بخشنے میں مذہبی علماکا رول ہے ،اس مسئلہ کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔شیعہ علماء بالخصوص ایران کے علما اہم اوصاف کے مالک ہیں ،اس لئے لوگوں کو انقلابی بنانے میں ان کا غیر معمولی اور موثر رول رہا ہے یہ اوصاف حسب ذیل ہیں :
۱۔علماء کا اجتماعی مقام:لگ بھگ سارے علماء معاشرہ کے فقیر اور محروم طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اکثر گاؤں کے باشندے ہو تے ہیں ۔یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے معاشرہ کے عام لوگوں کے دکھ دردکو محسوس کیا ہے اور ا یسے ہی حالات میں پر ورش پائی ہے ۱جب کہ بہت سی سیاسی ،اجتماعی تحریکوں میں تعلیم یافتہ اور روشن فکر طبقے قومی مبارزوں کی رہبری سنبھا لتے ہیں ،اپنی خاص ثقافت کے تحت عام لوگوں سے جد اہو کرایک ممتاز طبقہ کو تشکیل دیتے ہیں یہاں تک یہ طبقہ عام لو گوں سے معنوی رابطہ بھی توڑ دیتا ہے ۔
۲۔اقتصادی آزادی :اہل سنّت علماء حکومت کی طرف سے معین ہوتے ہیں اور ان کا ذریعۂمعاش سرکاری تنخواہ پر منحصر ہو تا ہے ،اس کے بر عکس شیعہ علماء اقتصادی لحاظ سے سیاسی نظام سے آزاد ہو تے ہیں اور ان کا ذریعۂ معاش عام مسلمانوں اور ان کے معتقدین کے توسط سے پورا ہوتا ہے۔ سیاسی نظام سے مالی آزادی اور لوگوں کے توسط سے ذریعہ معاش پورا ہو نا فطری طور پر شیعہ علماء کے لئے اس امر کا سبب بناہے کہ کسی فکر و پریشانی کے بغیر لوگوں کی مرضی کے مطابق اپنی سیاسی ،مذہبی سرگرمیوں کو جاری رکھیں ۔یہاں پر دونکتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے :
۱۔مائکل فیشر کے اعداد وشمار کے مطابق ،جو اس نے ۱۹۷۵ ء میں مدرسہ علمیہ گلپائیگانی کے بارے میں انجام دیا ہے،مدرسہ کے ۲۵۶طلاب میں سے ۱۲۸افراد( ۵۰فیصدی) گاؤں کے ،۵۶افراد (۲۲فیصدی)علماء کے خاندانوں سے اور۶۲افراد(۲۸فیصدی)شہر کے متوسط اور نچلے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ملاحظ ہو :
Michael fisher "Iran" From Religious Dispute to Revolution Harvard Univ; Press 1980
مصنف نے بھی ۱۹۸۵ء میں مؤسسہ’’درراہ حق ‘‘قم کے طلاب کے بارے میں ایک تحقیقات کے بعد حسب ذیل نتائج حاصل کئے ہیں:اس مؤسسہ کے ۲۰۰طلاب میں ۲۵فیصدی کسان خاندان سے ،۱۵فیصدی مویشی پالنے والوں سے ،۱۰فیصدی علماء کے گھرانوں سے اور۵۰فیصدی شہر کے متوسط طبقات سے تعلق رکھتے تھے۔
اول یہ کہ روحانیت نے غالباً کوشش کی ہے کہ عیش وعشرت سے پرہیز کر کے سادہ زندگی بسر کریں کہ یہ بذات خود ان کے مستغنی ،بے نیازی اور آزادی کا سبب بناہے ۔
دوسر ایہ کہ ان کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنا معاشرہ کے سرمایہ دار طبقہ سے وابستہ نہیں رہا ہے ،بلکہ اکثر معاشرہ کے غریب ،متوسط اور نچلے طبقہ کے لوگوں کے ذریعہ پورا ہو تا ہے ،جو سر سخت مذہبی عقائد کے پیش نظر خمس،زکواۃاور نذورات جیسی شرعی رقومات کو ادا کرنا اپنافریضہ جانتے ہیں اورعلماء کی محدود ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔
۳۔رابطہ بر قرار کرنا:شیعہ مکتب میں اجتہاد کا دروازہ اسی طرح کھلا ہوا ہے ،یہ نہ صرف شیعہ فقہ کی بالیدگی او رترقی کا سبب بناہے بلکہ اس نے اجتہاد اور تقلید کے مئلہ کو خاص اہمیت بخشی ہے ۔ہر مسلمان کو یاخود مجتہد اور فقہی مسائل سے آگاہ ہونا چاہئے یا مرجع تقلید کے نام سے توضیح المسائل کے حامل مشہور اورجامع الشرائط فقہا کی تقلید کرنی چاہئے ۔ فطری بات ہے کہ مختلف علاقوں میں رہنے والے سارے لوگوں کی مراجع تقلید تک رسا ئی نہ ہونے کے سبب،مراجع کے فتو وں اور نظریات کو لوگوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں علما رابطہ کاکام انجام دیتے ہیں اور اپنے لئے کوئی خاص مقام ومنزلت پیدا کئے بغیر مذہبی رہبروں اور لوگوں کے درمیا ن رابطہ کی اہم ذمہ داری نبھاتے ہیں ۔وہ مساجد میں منبر سے لو گوں کے لئے مراجع کے فتوے ٰاور نظریات بیان کرتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں لو گوں کے مسائل اور مشکلات کو مراجع اور مذہبی رہبروں تک پہنچاتے ہیں ۔
مذکورہ مواقع کے پیش نظر شیعہ علماء نے گزشتہ ایک صدی کے دوران سر گرمی کے ساتھ سیاسی، اجتماعی تحریکوں میں اہم رول ادا کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں ایران کے شیعہ علماء نے وقت کی حکمراں سیاسی طاقت سے ٹکر لی ہے ۔اور سیاسی طاقت اس جنگ میں ہار گئی ہے ۔علماء کی طاقت ،غیر مذہبی سیاسی طاقت سے قابل موازنہ نہیں ہے اور یہی امر سیاسی طاقتوں کے علماء کے خلاف کینہ وحسد کے بھڑ کنے کا سبب بناہے اور ان کے محتاج ہونے کے باوجود جب بھی ان کے لئے ممکن ہوسکا ان کے ساتھ ظلم کر نے اورانھیں نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔
گزشتہ صدی میں ایران کے قومی لیڈر ،جو اکثر لیبرل تھے ،اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ علماء اور روحانیوں کی حمایت کے بغیر عوام سے رابطہ قائم کرکے انھیں حرکت میں لانا ممکن نہیں ہے ۔لہذا انہوں نے علماء کے ساتھ ایک قسم کی مصلحتی مفا ہمت کی تاکہ شاید اس طرح علماء لو گوں کو قومی مقاصد کے لئے متحرک کریں ۔اس سلسلہ میں مشروطہ اور تیل کو قومیانے کی تحریکیں قابل ذکر ہیں ،جن میں علما ء نے لوگوں کی رہبری کی ذمہ داری سنبھالی تھی ،لیکن غیر علماء لیڈر ان تحریکوں کا صرف ناجائز فائدہ اٹھانے والے تھے ۔دوسری جانب سے علماء سیاسی حکومتوں کے لئے دوسرے تمام مخالفین کی نسبت زیادہ خطر ناک تھے ۔کیونکہ ان کے ہاں ساز وباز کرنے اور تسلیم ہونے کے کم امکان تھا اورنہ صرف سیاسی داؤ پیچ سے آگاہ نہیں تھے ،بلکہ بنیادی طورپرانہوں نے مکیا ولی سیاست کے مفہوم ومعنی میں تر بیت نہیں پا ئی تھی اور اگر وہ سیاسی میدان میں کود بھی پڑے تواس کا صرف یہ سبب تھا کہ ملت ومذہب کو خطرہ میں دیکھ رہے تھے ۔
رابرٹ گرھام‘‘ایرانیوں کے مبارزات میں علماء اور مساجد کے رول کے بارے میں یوں لکھتا ہے :
’’حقیقت یہ ہے کہ(ایران میں شیعہ)علماء،لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی قریبی رابطہ رکھتے تھے اس لئے وہ لوگوں کے جذبات سے زیادہ واقف تھے۔ مسجد عوام اوربازار کا اٹوٹ حصہ ہے اور بازار عام لوگوں کی زندگی کا مرکز ہے ۔جب علماء حکومت کی پالیسیوں سے مخالفت کرتے ہیں تو ان کے نظریات اس قدر جواز پیدا کرتے ہیں کہ سخت ترین استبدادی حالات میں بھی لوگ ان کو قبول کرتے ہیں۔دوسری جانب سے علماء اور مساجد کا عوام کے ساتھ رابطہ علماء کو لوگوں کے تمام طبقوں سے رابطہ قائم کرنے کی طاقت بخشتا ہے۱۔‘‘
ایران کے روحانی سسٹم میں کوئی باقاعدہ مدارج کا سلسلہ موجود نہیں ہے ،ان میں سیاسی پارٹیوں
1. Robert Graham, Iran: The Illation of Power "St. Martins Press, Newyork, 1980, P218
کے سسٹم میں پائے جانے والے ماتحت ومافوق جیسے خشک رابطے حکومت نہیں کرتے بلکہ صرف اجتہاد وتقلید کی بنیاد پر قلبی اور معنوی رابطہ ہوتا ہے جو معاشرہ کے لوگوں کو مکتب کی بنیاد پر علماء اور مذہبی رہبروں سے ملاتا ہے ۔اس طرح مذہبی رہبروں کے احکام اور نظریات کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے اورضروری ہما ہنگی کے تحت ان پر عمل ہوتا ہے۔مذہبی رہبربھی ہر چھوٹے اور جزئی مسئلہ میں دخل نہیں دیتے ہیں ،بلکہ ان کی فرمایشات میں اکثر ہدایت ورہنمائی اور شرعی اور الہی فرائض کو انجام دینے کی یاد دہانی کا پہلو ہوتا ہے ۔حقیقی مصادیق کو پہچان کر ان کی تطبیق کر کے مذ ہبی رہبروں کے نظریات کو عملی جامہ پہنا نا اجتماعی گروہوں اور افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔یہ طریقہ کار حکم اور تعمیل حکم کے خشک سلسلہ کو ختم کرتا ہے ۔اور اجتماعی گروہوں کے لئے سیاسی طاقتوں سے مقابلہ کر نے کے طریقہ کار میں ان کے نظریات اور اُپچ پر عمل پیرا ہونے میں ان کی تخلیق وشرکت کا سبب بنتا ہے ۔اس سسٹم میں اندھی تقلید اور جبر واکراہ کا وجود نہیں ہے ۔ممبر شپ کا طریقہ کار نہیں ہے ۔سر گرم گروہوں میں شامل ہو نے کے لئے خصوصی شرائط کا ہو نا ضروری نہیں ہے ۔ سیاسی ،اجتماعی تحریک میں شرکت کر نے کے لئے صرف مبارزہ کے مقاصد اور کلی ڈھانچہ کو قبول کر نا کافی ہو تا ہے اور علماء ہمیشہ تحریک کے رہبروں کے ساتھ رابطہ کے سلسلہ کا رول ادا کرتے ہیں ۔ان ہی علماء میں سے امام خمینی جیسے عظیم مذہبی ۔سیاسی رہبروجودمیں آتے ہیں ۔
قیادت:
ہم یہاں پر رہبرانقلاب کی سر گرمیوں کے نتائج پر بحث کرنا نہیں چاہتے ۔بلکہ ہم ان کی شخصیت، خصوصیات اور اوصاف کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔جو بھی شخص امام خمینیؒ کو نزدیک سے دیکھتا تھا ،وہ آسانی کے ساتھ سمجھتا تھا کہ یہ شخص ایک مثالی انسان ہے اس کی قدرت اورتوانائی بلاشک ایک مرجع تقلید سے زیادہ تھی اور وہ (ایک حقیقی مسلمان کی حیثیت سے)خودشناسی کے مفہوم کا مکمل نمونہ تھے ۔یہاں تک غیر ایرانی مسلمان بھی انھیں اسلام کے ایک مثالی انسان کا واضح نمونہ سمجھتے تھے ۔
ان خصوصیات اور اس کے باوجود کہ وہ چند منٹ میں لاکھوں ایرانیوں کو مظاہروں کے لئے سڑ کوں پر لا سکتے تھے ،لیکن ان کی زندگی ،دفتر اورگھر میں سادگی کے علاوہ کسی اور چیز کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتاتھا ۔وہ اپنی چھوٹی سی میز کے پیچھے زمین پر بیٹھتے تھے اور اس کے کام کرنے کے کمرہ کے تمام وسائل وہی ایک چھوٹی سی میز تھی ۔انقلاب سے پہلے بہت سے دوسرے خبر نگاروں کے مانند ترکیہ کا ایک غیرمذہبی خبرنگاراقلیتوں اورعورتوں کے حقوق کے بارے میں چند سوالات پوچھنے کے لئے امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور امام کی شخصیت سے اس قدر متأثر ہوا تھا ،کہ شرمندہ ہوکر سوال کرنے سے منصرف ہوگیا، اورامام سے چند نصیحتیں کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنی شخصی زندگی میں ان سے استفادہ کرے ۔امام نے اس سے نصیحت کی کہ دین اسلام کا مطالعہ کرکے پنچگانہ نمازیں بجا لا ئے ۱
جب ہم امام خمینی اور ان کی شخصیت کے بارے میں جایزہ لیتے ہیں ،تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایتی شیعہ علماء کے ایک مظہر ہیں اور یہ چیز نہ صرف ان کے سیاسی ۔اجتماعی مسائل میں تصور سے بالا مکمل،جامع اور وسیع نفوذ و قدرت کے سبب ہے ، بلکہ ان کے محض روایتی علمی جہت سے بھی ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ رہبرانقلاب اور مبارزات کی حیثیت سے ظاہر ہونے سے پہلے ،امام کی زندگی بالکل سادہ تھی ۔امام خمینی۱۹۰۲ء میں خمین میں ایک عالم گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد آیت اللہ شہید سید مصطفی موسوی ،علامہ جلیل القدر مرحوم سید احمد موسوی کے بیٹے تھے ۔امام کے جد امجد سید احمد موسوی نجف اشرف میں زندگی بسر کرتے تھے ،جو یوسف خان کمرہ ای کی دعوت پر اہل خمین کی ہدایت کے لئے خمین تشریف لائے اورامام خمینی کے والد گرامی خمین میں پیدا ہوئے ۔مرحوم آیت اللہ سید مصطفی نے آیت اللہ میرزائے شیرازی کے زمانہ میں نجف اشرف اور سامرا میں تعلیم حاصل کی اور اپنے زمانے کے علماء اور مجتہدین کے زمر ہ میں قرارپائے ۔ اور نجف سے واپسی پراہل خمین کی قیادت سبنھال لی لیکن ۱۳۲۰ ہجری قمری میں خمین اور اراک کے درمیان امام کے والد پر قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ شہید ہو گئے ۔اس وقت امام خمینی کی عمرچند مہینہ سے زیادہ نہیں تھی ۔امام کی والدہ بھی جوخود بھی ایک عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ،
1.Hamid Algar "The Islamic Revolution Iran" Ansariyan publication, Qum,1981,p;38
نے ان کی پھوپھی کے ہمراہ امام کی سر پرستی کی ذمہ داری سنبھالی ۔کچھ مدت کے بعد امام کی پھوپھی بھی اس دنیا سے چلی گئیں ۔اگر چہ ان پے درپے مصائب نے امام کی روح کو آزردہ کیا لیکن وہ مشکلات اور طوفانوں کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔
امام زیرک ،باہوش اورغیر معمولی ذہانت کے مالک تھے ۔بچپن ہی میں لکھنا پڑھنا سیکھا اور پندرہ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی کے پاس ،نحو اورمنطق پڑھی۔اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے اراک چلے گئے اور اس شہر کے حوزہ علمیہ میں ،جس کی سر پرستی آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کر رہے تھے ،ماہر اساتذہ سے ادبیات پڑھنے میں مشغول ہوئے ۔
۱۳۰۰ ھ ق میں جب حوزہ علمیہ، قم منتقل ہوا تو امام بھی قم چلے آئے اورسطوح عالی کی تعلیم مکمل کی ۔اس کے بعد مرحوم آیت اللہ حائری کی خد مت میں علمی مدارج اور اپنی فقہی واصولی بنیادیں مستحکم کر کے اجتہاد کے درجہ پر فائز ہوئے ۔
۱۳۱۵ہجری قمری میں جب آیت اللہ حائری نے رحلت کی تواس وقت امام ایک مضبوط،مستقل اورمستحکم علمی صلاحیت کے مالک تھے اور مجتہدین کے زمرہ میں قرار پائے تھے اور حوزہ علمیہ قم کے فاضل علماء میں شمار ہوتے تھے ۔امام خمینی فقاہت میں ممتاز درجہ حاصل کرنے کے علاوہ دوسرے علوم ،جیسے ،ھئت ،فلسفہ اور عرفان میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے،ا ن علوم میں انہوں نے آیت اللہ شیخ محمدعلی شاہ آبادی جیسے اساتذہ سے مہارت حاصل کی تھی ۱
تہذیب نفس اورخودسازی کے لحاظ سے امام خمینی ابتدائے جوانی سے ہی علم وعمل کو ایک ساتھ حاصل کرتے رہے اور علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عمل بالخصوص انسانی اور روحانی فضائل حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔اس لحاظ سے بھی انہوں نے علمی اور روحانی شخصیتوں اور قم کی مذہبی محفلوں اور عام لوگوں کے درمیان ایک خاص مقام حاصل کیا تھا اور اپنے
۱۔امام خمینیکی زندگی کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم کرنے کے لئے ،سید حمید روحانی کی کتاب ’’بررسی وتحلیلی ازنہضت امام خمینی ‘‘ج۱،تہران آفسٹ ۱۳۶۱ص۹تا۷۶مطالعہ فرمائیں ۔
آپ کو ایسی نا مناسب خصلتوں اور ان طریقہ کار سے دور رکھنے کی کوشش کی ،جن سے بعض علما ء دوچار تھے ۔
امام خمینی نے نظم وضبط کے لحاظ سے اپنی زندگی کو ایک خاص نظم کے تحت قرار دیاتھا کہ حقیقت میں مذہبی شخصیتوں میں ا س جیسا نمونہ کمیاب ہے۔ان کے آرام ،عبادت،مطالعہ ،تدریس اور چہل قدمی کا وقت ایک خاص صورت میں مرتب اور منظم تھا ،یہاں تک امام کے گھر کے افرا د ان کے پروگرام کے مطابق اپنے پروگرام مرتب اور منظم کرتے تھے ۔
ان کی قابل ذکر خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کی بے نظیر سیاسی رہبری کی وجہ سے ایک ممتاز استاد ،ایک فلاسفر اورعارف کی حیثیت سے ان کی شخصیت مدھم ہوگئی ۔ماڈرن مسلمانوں میں یہ طرز تفکر پایا جاتا ہے کہ ایک فلاسفر یاعارف کی ذہنیت معاشرہ کے حوادث سے دور ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کی سیاسی واجتماعی ذمہ داری سنبھالنے سے کنارہ کشی کرتے ہیں ۔یعنی صرف ذہنی مسائل ،مسلمانوں اور عالم اسلام میں موجود مسائل سے حقیقی اور عینی ربط نہیں رکھتے ہیں ۔لیکن امام خمینیؒ کی زندگی مذکورہ دو طرز عمل کے آپس میں روابط کے امکان کی ایک واضح دلیل اور اس حقیقت کی گویا ہے کہ ان کا پروگرام صرف ایک سیاسی اور سوق الجیشی حرکت پر مبنی نہیں تھا ،بلکہ بنیادی طور پر ایک الہٰی نظریہ پر مبنی تھا ۔اما م کے اخلاقی اور روحا نی اوصاف نے انھیں نمایاں اور واضح خصوصیات کے مالک ایک مثالی مسلمان کی حیثیت سے ایک عظیم انسان بنایا ۔امام کم نظیر انقلابی رہبروں میں سے ایک تھے ،وہ ہر قسم کے عیش وعشرت سے دور ، انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور بالکل معمولی کھانا کھاتے تھے ۔
حوزہ علمیہ قم میں انہوں نے سب سے پہلے فلسفہ وعرفان پر تدریس کرنا شروع کیا ۔ان کے درس میں طلاب کی بڑی تعداد شرکت کرتی تھی ۔انہوں نے متن اورمتون کے حاشیہ کی صورت میں بہت ساری کتابیں تالیف کی ہیں جن میں سے اکثر ان کے اپنے حکم سے شائع نہیں ہوئی ہیں ۔انہوں نے فقہ کے موضوع پر بھی کئی کتابیں تالیف کی ہیں ۔
۱۳۲۳ھ ق میں امام خمینی نے حکمی زادہ کی کتاب ’’اسرارہزار سالہ ‘‘کے جواب میں ’’کشف اسرار‘‘نامی ایک کتاب لکھی ۔امام نے اس کتاب میں رضاخان کی حکومت پر کھلم کھلا تنقید کی اور خاص کر اس کے بیرونی طاقتوں کے سامنے سر تسلیم ہو نے پر حملہ کیا ۔
امام کا حکومت کے ساتھ برتاؤ ،ناقابل سازش اورتند تھا ۔امام کا یہ رویہ نہ صرف پہلوی حکومت کی نظر میں ناقابل معاف تھا بلکہ حوزہ علمیہ قم کی بہت سی شخصیتوں کے لئے بھی ناپسند تھا۔کیونکہ حوزہ علمیہ قم پوری طاقت کے باوجود ابتداء میں اپنے وجود کے تحفظ کے لئے کو شش کرتاتھا۔آیت اللہ بروجردی کی مکمل مرجعیت کے زمانہ میں ،امام ان کے قریبی مشاوروں میں شمار ہوتے تھے ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھاکہ مرحوم آیت اللہ بروجردی کے مشاورین میں امام کے نظریات ضروری طور پر مؤثر ہوں ۔جب تک آیت اللہ بروجردی زندہ تھے ،امام براہ راست ایک سیاسی ۔مذہبی شخصیت کی حیثیت سے پہچانے نہیں گئے ۔یہاں تک آیت اللہ بروجردی کی رحلت اور اس کے چند ماہ بعد مرحوم آیت اللہ کاشانی کی وفات کے بعد شاہ نے اپنا رخ کچھ دوسرے انداز سے بدلا ۔وہ موجودہ خلا سے استفادہ کرکے کچھ ایسے اقدامات انجام دینا چاہتاتھا جوخلاف شر ع ومذہب تھے۔ان نازک اور حساس لمحوں میں امام خمینی میدان میں اُترآئے اور ریاستی وشہری انجمنوں کے قانون۱ کی کھلم کھلا مخالفت کے ضمن میں شاہ کی حکومت کے خلاف بلا خوف مبارزہ کا آغازکر دیا ۔جب پند ونصائح مؤثر ثابت نہ ہوئے توامام نے شاہ کی حکومت پر کھلم کھلا حملہ اور بلا واسطہ تنقید کر کے تقیہ کی سنت کو توڑ دیا اور تقیہ کے حرام ہو نے اوراظہار حق کے واجب ہونے کا اپنا تاریخی فتویٰ’’ولوبلغ مابلع‘‘صادر کیا۲ اس دن سے امام کا سیاسی قائدانہ چہرہ آشکار ہوا اور امام نے اپنے خاص برتاؤ ،یعنی دشمن سے فیصلہ کن صورت میں ناقابل سازش مقابلہ ،پر مبنی اپنے راستہ کو دوسروں سے جدا کیا اور بڑی تیزی کے ساتھ عام لوگوں کے افکار کو اپنی طرف مائل کر لیا ،جو اس قسم کی رہبری کے پیاسے تھے ۔
۱۔اس قانون کی بناء پر حکومت نے کچھ تبدیلیاں ایجادکی تھیں جو خلاف شرع تھیں ،من جملہ انجمنوں میں منتخب ہونے والوں کے لئے مسلمان ہو نا حذف کیاگیا تھا اورقرآ ن مجید کی قسم کے بجائے ہر آسمانی کتاب کی قسم کھانا معتبر جانا گیا تھا ۔
۲۔صحیفہ نور ج۱ ص۴۰
بعد والے حوادث نے ثابت کردیا کہ ایران کے سیاسی، اجتماعی میدان میں امام خمینیؒ کے رہبر کے عنوان سے ظاہر ہوتے ہی ایران اور شیعہ مبارز روحانیت کی تاریخ کا ایک نیا باب کھل گیا اگر ہم ایک صدی پیچھے چلے جائیں ،تو روحانیت مبارز کے ارتقائی سفر کو واضح طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں جو اپنے واحد مقصد کا تحفظ کئے ہوئے مختلف طریقہ کاروں کے ذریعہ سر انجام تک پہنچا ہے ۔ان سب کا مقصد شریعت اسلام کا نفاذ ،عدل الہی کی حکومت کا قیام ، غیروں اور سامراجی طاقتوں کا اثر و رسوخ ختم کرنا تھا ۔
سید جمال الدین اسد آبادی نے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلامی ممالک کے حکام کو عالم اسلام میں اتحاد ویکجہتی پیدا کرنے کے لئے نصیحت ،ہدایت اور تشویق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی اور کوشش کر رہے تھے کہ ایران کے بادشاہ ،سلاطین عثمانیہ اور مصری خدیوؤں کی نصیحت کر کے انھیں مغربی تمدن کی ویران کن ثقافتی یلغار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب وتمدن کو پھرسے مستحکم کر کے اس میں پناہ لینے پر مجبور کرے ۔
مشروطیّت کی ابتداء میں بادشاہوں سے دوری اختیار کرنے والے علماء دوحصوں میں تقسیم ہوئے :
ان کا ایک گروہ مرحوم بہبہانی اور طباطبائی جیسے علماء ،خودخواہ بادشاہوں کی طاقت کو محدود کرنے کی فکر میں تھے تاکہ جمہوری نظام کی ضمانت حاصل کرکے مجتہدین کو نظارت کا حق دیا جائے اور امید رکھتے تھے کہ اس طرح خلاف شرع قوانین کے نفاذ کو روکا جاسکے گا ۔لیکن سر انجام اس گروہ نے میدان کو مغرب نواز طاقتوں کے حوالہ کر کے خود کنارہ کشی اختیار کی ۔
دوسراگروہ ،مرحوم شیخ فضل اللہ نوری جیسے لوگ جو،غیر اسلامی تفکر کے رائج ہونے سے فکر مند تھے اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشش کرتے تھے ۔شیخ فضل اللہ نوری نے اس گروہ کے نمونہ کے طورپراس مقصد کے لئے سر انجام اپنی جان نچھاور کی ۔
مرحوم آیت اللہ کاشانی نے آزادی حاصل کرنے اور غیروں کا تسلّط ختم کر نے کے لئے اس امید میں قوم پرستوں کی ہمراہی اور حمایت کا راستہ اختیار کیا ، کہ بعد میں اپنی کوشش اور حمایت میں اسلامی قوانین پر مبنی حکو مت قائم کر نے میں کامیاب ہو جائے ۔لیکن وہ اس سے غافل تھے کہ قوم پرست انھیں اور فدائیان اسلام کو کبھی اس قسم کا موقع نہیں دیں گے اور حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے روحانیت سے صرف ایک سیڑھی کے ماننداستفادہ کریں گے ۔
امام خمینی، ؒ جنہوں نے روحانیت مبارز کے تجربہ سے بھری ایک تاریخ کا مشاہدہ کیا تھا ،نے رہبری کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دوسرے ،من جملہ لیبرل، رہبری اور لوگوں کے مبا رزات کے فوائد میں شریک ہو جائیں ۔امام خمینیؒ کے مبارزہ کا طریقہ کار بہت سادہ اور آج کل کی سیاست بازی کے پیچ وخم سے عاری تھا ۔انہوں نے شروع سے ہی اپنے مقصد کو ،کامیابی اور اپنے اورلوگوں کے مطالبات کو حاصل کرنے میں نہیں بلکہ اپنا شرعی فریضہ انجام دینے میں قرار دیا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم صرف اپنی تکلیف الہٰی انجام دیتے ہیں ،کامیاب ہو جائیں یا مارے جائیں دونوں صورتوں میں ہم فاتح ہیں ۔مبارزہ کا یہ طریقہ کار ان لو گوں کے لئے بہت نا پسند تھا ،جنھوں نے سالہا سال مکیا والی سیاسی طرزکی عادت ڈالی تھی اور اپنے اجتماعی مبارزوں اورسیاسی معاملات میں مغربی طرز کی سیاسی حکمت عملی کو پسند کرتے تھے ۔اس قسم کے طریقہ کار کو اپنانا نہ صرف حکومت اور ان کے مخالفین کو غصہ دلاتا تھا بلکہ خود امام کے حامیوں اورساتھیوں کے لئے بھی تعجب آور تھا ۔
اسی لئے امام نے منضبط ارکان پر مشتمل کوئی منظم پارٹی تشکیل نہیں دی اور اسی طرح پہلے سے کوئی منظم پروگرام نہیں رکھتے تھے ۔وہ صرف اپنی ذہانت اورپر کشش شخصیت سے استفادہ کر کے نعروں ،اسلام کے واضح معیاروں اور اپنے فیصلہ کن ارادہ کے سہارے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تک پہنچنے کے لئے ضروری حکمت عملی پر عمل کرتے تھے ۔
معاشرہ کے مختلف طبقوں اور عوا م سے رابطہ بر قرار کرنے کے سلسلہ میں امام ایک خاص ذہانت کے مالک تھے کہ اس قسم کی خصوصیت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔وہ ایک بہت سادہ اورسبھی کے لئے قابل فہم کلام سے ان پڑھ لوگوں تک کو پیچیدہ ترین سیاسی ۔اجتماعی مسائل سمجھاتے تھے اوراپنے بیان سے مومن اور معتقد انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اثر ڈالتے تھے ۔اس بات کو مدنظر رکھناچاہئے کہ اسلامی انقلاب میں امام خمینی کی رہبری اور مبارزہ کا طریقہ کار ،صدر اسلام سے شروع ہوئی ایک طولانی تاریخی سنت کا نتیجہ تھا ۔امام نے قرآن مجید،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی سنّت کی معرفت حاصل کر کے اور عالم اسلام، بالخصوص ایران کے سیاسی، اجتماعی تبدیلیوں کی تاریخی تحقیق اور اسی طرح زمان معاصر کے سیاسی ۔اجتماعی حالات کا مطالعہ کر کے اپنے مبارزہ کے طریقہ کار کو منتخب کیا تھا ۔سب سے پہلے اس راستہ میں موجود رکاوٹوں، من جملہ تقیہ،کو ہٹادیا ،پھر اپنا ابتدائی مقصد سلطنت کے غیرشرعی ہونے کا اعلان اور مرکز فساد کے خلاف مبارزہ اور بلا خوف حملہ قراردیا اور اس کے بعدآخری مقصد یعنی حکومت اسلامی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے ،تمام دباؤ اورسازش وصلح کی کوششوں کے باوجود کامیابی سے ہمکنار ہونے تک ثابت قدمی اور پائداری کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ۔ امام خمینی کی رہبری کے زمانہ کو چار مختلف مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا مرحلہ:یہ وہ زمانہ ہے جس میں امام خمینی ایک سیاسی، مذہبی رہبرکی حیثیت سے ابھرے اور لوگوں میں فوری طور پر مقبول ہوئے ۔یہ مرحلہ ،ریاستی اورشہری انجمنوں کے قانون کے خلاف امام کے اعلان سے شروع ہوا اور اس کا عروج عاشور کے دن امام کی تقریر،ان کی گرفتاری اور۱۵خرداد کا قیام تھا ۔یہ مرحلہ امام کی طرف سے ’’ کیپٹیلیشن‘‘قانون کی سخت مخالفت کے نتیجہ میں ان کو تر کیہ میں جلا وطن کئے جانے پر ختم ہو۱
امام نے اپنے مبارزہ کے اس مرحلہ میں حسب ذیل چار بنیادی کام انجام دئے :
۱۔تقیہ کو حرام کرنا :برسوں سے مطلق العنان اورخودخواہ حکومتوں کے خلاف لوگوں کے مبارزہ اورمخالفت کے سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اورسازشی عناصر کا ہتھیار’’تقیہ‘‘تھا جسے امام نے
۱۔اس سلسلہ میں کتاب ’’مواضع نہضت آزادی در برابر انقلاب اسلامی ‘‘ص۱۲۴ملاحظ ہو ۔
راستہ سے ہٹادیا۔
۲۔امام نے تحریک اورمبارزہ کو مذہبی سرگرمیوں کے مرکز یعنی حوزہ علمیہ قم میں پہنچا کر ،دین کے سیاست سے جدا ہونے کی تھیوری پر ہمیشہ کے لئے خط بطلان کھینچ دیا ،کہ اس کی ترویج کے لئے بہت زیادہ تبلیغ اور کوشش کی جارہی تھی ۔یہاں تک امام نے ایسے افراد کو بھی سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کیا جو اس کام کو کراہت سمجھتے تھے اور اس طرح حوزہ علمیہ پر حاکم دیرینہ سنت کو توڑ دیا ۔
۳۔امام نے فساد کے اصلی مرکز یعنی سلطنت اور شاہ کے خلاف اپنے حملوں میں شدّت پیدا کر کے مبارزہ کے قدامت پسندانہ طریقہ کار کو خاتمہ بخشا۔اس سے پہلے حکومت کے مخالفین بالخصوص لیبرل،یہاں تک بعض مذہبی مبارزین بھی شاہ کے اطرافیوں پر حملہ کر کے شاہ اور سلطنت پر براہ راست حملہ کر نے سے پر ہیز کر نے کی کو شش کرتے تھے اور اس طرح شاہ کے اطرافیوں ،من جملہ وزیر اعظم اور حکومت کے ارکان کی تنقید کر کے خودشاہ اورسلطنت کو جرم وخطاسے مبّراکرنے کی کوشش کرتے تھے ۔
امام خمینی نے پہلوی سلطنت کی قانونی حیثیت پر کھلم کھلا اعتراض کرکے ہر قسم کی قدامت پسندی کو مٹا دیا اور سلطنت کے درباری اورخودشاہ کو تمام مفاسد کا اصلی مجرم قراردیا اوراسی کو اپنے مبارزہ کا مرکز قرار دے کر دوسروں کو بھی ایساہی کرنے کی جرأت اور ہمت بخش دی :
’’صرف خداجانتا ہے کہ ایران کی سلطنت نے اپنے پیدائش کے آغاز سے کیسے کیسے جرائم اور ظلم وستم انجام دئے ہیں ۔بادشاہوں کے مظالم نے ہماری پو ری تاریخ کو سیاہ کر دیا ہے۔کیا یہ بادشاہ نہیں تھے جو لوگوں کے قتل عام کا حکم دیتے تھے اور معمولی فکر کئے بغیرسر تن سے جدا کرنے کاکا حکم دے دیتے تھے ؟پیغمبراسلام (ص)کی نظر میں لفظ ملک الملوک خدا کے نزدیک حد درجہ نفرت انگیز لفظ ہے اسلام کے اصول سلطنت کے مخالف ہیں ۔ایران کے شاہنشاہی محلوں کو اڑادو۔ سلطنت ایک شرمناک اورپست ترین رجعت پرستی ہے ۱‘
۱۔بریر،کلرو بلانشہ ،’’ایران ،انقلاب بنام خدا‘‘ترجمہ قاسم صنعوی ،ص۱۳
۴۔ امام نے تمام بیرونی بڑی طاقتوں ،اُن میں سر فہرست امریکہ کے خلاف براہ راست حملہ کرکے اس سے پہلے ،بالخصوص مشروطہ تحریک اور تیل کو قومیانے کے دوران رائج ہر قسم کی سیاسی احتیاط اور لحاظ کو مسترد کر کے مبارزہ کابالکل نیا طریقہ اپنا لیا ۔مشروطہ تحریک کے دوران ،مشروطہ کے طالب،انگلستان کی سفارت میں دھر نا دے کر انگلستان کی حکومت کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا نتیجہ فراماسونریوں کی حاکمیت تھی جو ملت ایران کی تقدیر پر مسلط ہو ئی ۔تیل کو قومیانے کی تحریک کے دوران،ڈاکٹر مصدق کے بقول دوبڑی طاقتوں کے درمیان منافع پر اختلاف ہو جانے سے استفادہ کیا گیا۔ یعنی امریکی حکومت کی مدد سے تیل کو قومیایا گیا اورکچھ دن بعدامریکہ اور انگلستان کی حکومتوں نے ۱۹اگست ۱۹۵۳ ء کے سازش کی نتیجہ میں نہ صرف ایران کی تیل کی صنعت بلکہ پورے ایران پر ۲۵سال تک تسلط جمایا ۔
امام خمینیؒ گزشتہ تجربوں سے حاصل کی گئی صحیح اوردقیق پہچان کے پیش نظر اور اُن کے معروف قول:’’امریکہ انگلستان سے بدتر ہے،انگلستان امریکہ سے بدترہے اورسویت یونین ان دونوں سے بدتر ہے یہ سب ایک دوسرے سے ناپاک ترہیں ،لیکن آج ہماراسرو کاران خبیثوں میں سے امریکہ خبیث کے ساتھ ہے ۔‘‘کہ جس نے بیرونی سیاست سے وابستہ افراد کے ہر قسم کے اثر و نفوذکے راستہ کو مسدود کرکے رکھدیا تاکہ دوسرے لوگ تحریک میں شرکت کرکے لوگوں کے مبارزات کے پھل کواپنے لئے مخصوص نہ کرسکیں ۔
امام،ایک خاص مقام ومنزلت،یعنی مرجعیت کے مالک تھے جو ان کے بیانات اور نظریات کو مذہبی مشروعیت بخشتی تھی ۔انہوں نے،باوجود اس کے کہ شاہ کی حکومت مرحوم آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد مر جعیت کو ایران سے باہر منتقل کرنے کی کو شش میں تھی ،بڑ ی تیزی سے لوگوں کی عام مقبولیت حاصل کرکے یہ مقام حاصل کیا ۔امام نے یأس ونا اُمیدی کے عالم میں نئے ایران کے مذہبی ،سیاسی رہبر کے عنوان سے عہدہ سنبھالتے ہی مجاہدت کے پیاسے انسا نوں کے قلب وروح میں نورامید کی ایک کرن پیدا کردی ۔تمام لوگوں نے اپنی گمشدہ چیز پالی اور اپنی آرزؤں اورتمنّاؤں کو اپنے نئے رہبر کے بیانات اورتحریروں میں محسوس کر لیا ۔
دوسرا مرحلہ :امام کی رہبری کا یہ مرحلہ ایک طولانی مدت کا پندرہ سال پر مشتمل دور تھا۔ کیپٹیولیشن قانون ،جو ایران میں مقیم امریکیوں کے حق میں پاس کیا گیا تھا ،کے خلاف امام کی شعلہ بیان تقریر کے نتیجہ میں انھیں ترکیہ جلا وطن کیا گیا ۔مبارزہ کا یہ دوراسی نقطہ سے شروع ہوا اور ان کے نجف سے پیرس عزیمت کر نے پر اختتام کو پہنچا ۔اس مدت کے دوران ،اگرچہ امام کبھی کبھی اقتضائے زمان اور ایران میں رونما ہو نے والے حوادث اور اتفاقات کے پیش نظر،اپنے اعلانیہ،فتو وں اورتقریروں کے ذریعہ حکومت کی مخالفت کرتے رہے ،بلکہ لوگوں کے ساتھ اپنے معنوی رابطہ کو بر قرار رکھتے ہوئے اس مدت میں ان کی ہدایت اور راہنمائی کرتے رہے۔لیکن اس مدت کے دوران امام نے جواہم کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے انقلاب کانظریہ پیش کرنے کی حیثیت سے اپنے فقہی درس کے ضمن میں حکومت اسلامی یا ولایت فقیہ کے مباحث بھی شروع کئے ۔اس طرح ایک متبادل نظام کا نظریہ پیش کر کے اس وقت تک اسلامی حکومت کے بارے میں ابہام رکھنے والوں کے لئے واضح کردیا کہ وہ کس قسم کے معاشرہ اور حکومت کے لئے کوشش کررہے ہیں ۔
جیسا کہ پہلی فصل میں بیان ہوا ، کہ انقلاب کا رہبر حسب ذیل تین صورتوں میں ظاہر ہو تا ہے :انقلاب کا نظریہ پیش کرنے والا ،کمانڈر یا انقلاب کا سورما اورآخر کار معماریا انقلابی حکومت کا سربراہ ۔امام نے اس مرحلہ میں انقلاب کا نظریہ پیش کر نے والے کی حیثیت سے احسن طریقہ کو
اپنا کر اُس پر عمل کیا ۔اگرچہ انقلاب کا نظریہ مکتب اسلام کے مطا بق اس کے اصلی ماخذ اور منابع، یعنی قرآن مجید ،سنت اور احادیث کی بنیاد پر شک وشبہہ نہیں رکھتا تھا ،لیکن چونکہ اسلامی حکومت کے عینی اورحقیقی صورت میں قائم ہونے کو چودہ صدیاں گزر چکی تھیں ،اور خاص کر امام مھدی (عج)کی غیبت کے گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران رونما ہوئی عظیم تبدیلیوں کے پیش نظر ،لوگوں کے لئے واضح نہیں تھا ،کہ سلطنتی حکومت کے کھنڈرات پر تشکیل پانے والی اسلامی حکومت کیسی حکومت ہو گی اور مختلف مسائل بالخصوص عصر حاضر کے رونما ہونے والے حوادث سے کیسے مقابلہ کیا جائے اور معلوم نہیں تھا کہ رہبر کو منتخب کرنے کا طریقہ کار کیسا ہو گا اور کیا یہ حکومت بھی مغربی ڈیموکریسی اور دنیا کی رائج دوسری حکومتوں کے مانند ہو گی ؟ان حالات میں امام خمینی نے ولایت فقیہ کے اصول بیان کئے اوراسلامی حکومت کا اصلی ڈھانچہ معین کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔
تیسرا مرحلہ: امام کی رہبری کا یہ مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب جنوری ۱۹۷۷ء میں انقلاب کی پہلی چنگاری قم میں شعلہ ورہوئی اور تھوڑی ہی مدت میں آگ کے خطرناک شعلوں کی صورت اختیار کر کے حکومت کے وجود کواپنی لپیٹ میں لے کر ۲۵۰۰سالہ طولانی شہنشاہی نظام کو ہمیشہ کے لئے خاکستر بنادیا۔
اس مرحلہ میں امام نے مناسب فرصت کی تشخیص اور لوگوں کی بیداری اور حرکت کے پیش نظر تا خیراور پس وپیش کو ناجائز جانتے ہوئے انقلاب کی رہبری اور کمان کے پرچم کو ہاتھ میں لے لیا ۔ہر قسم کی سازش اور مصلحت اندیشی سے پر ہیزکیا ۔لوگوں کے اپنے مطالبات منوانے کے لئے جذبات اور ایثار وقربانی کے ساتھ مظاہروں میں شرکت کر کے حکومت کے مامورین سے ٹکر لینے کو امام نے صحیح معنوں میں درک کر کے اپنے غیر متزلزل اور راسخ عزم وارادہ کا اعلان کیا اور شاہ کی حکومت کی سرنگوں ہونے تک اسے جاری رکھا ۔
امام کے فرانس چلے جانے اور ان کے عاشقوں کی ان تک رسائی ممکن ہونے کی وجہ سے ’’نوفل لوشاتو‘‘(پیرس میں امام کی رہائش گاہ )رہبر انقلاب کے ایرانی مشتاقوں کے لئے زیارت گاہ بن گئی،بلکہ ایک مدت کے لئے یہ جگہ ایران کا دوسرا دار الخلافہ یا دوسرے الفاظ میں حقیقی دار الخلافہ بن گیا ۔یہاں پر اسلامی انقلاب بیان کے مرحلہ سے عمل میں تبدیل ہو ااورشاہ کی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ۔
امام نے اس مرحلہ میں رہبری اور آخر کار انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جس طریقہ کار کو اپنایا ،وہ حسب ذیل ہے:
۱۔ان تمام موقع پرست افراد کود اپنے نزدیک آنے سے روکا ،جو سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت قریب الوقوع کامیابی کا احساس کرتے ا ورامام کے نزدیک آنے کی کوشش کرتے تھے ۔امام نے اس سلسلہ میں فرمایا :’’میرا کوئی ترجمان نہیں ہے ۔ہم نے کسی سے معاہدہ اور سمجھوتا نہیں کیا ہے ۔جو بھی ہماری بات کرے وہ ہمارے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ ہے ۔‘‘اس طرح امام نے اپنی حیثیت اور انقلاب کے نتائج سے ہر قسم کا ناجائزفائدہ اٹھا نے کا سدباب کیا ۔
۲۔تحریک کے مقاصد کو تحقق بخشنے کی راہ میں مسائل کا سختی کے ساتھ مقا بلہ ،عدم سازش اور فیصلہ کن پالیسی اختیا رکرنا ۔امام کی اس پالیسی نے بہت سے لیبرل اور میانہ روا فراد کی امام کو اعتدال پسند سیاست کو اپنا نے پر مجبور کر نے کی کوششوں پر پانی پھیردیا ،جو مہدی بازرگان کے بقول قدم بہ قدم اور مورچہ بہ مورچہ سیاست کے قائل تھے ۔امام نے اپنی فیصلہ کن پالیسی کے تحت ان سب کو مسترد کردیا اور مسلسل اعلان کیا کہ شاہ کو جاناچاہئے اور اس کی جگہ پر لوگوں کی مرضی کے مطابق اسلامی جمہوریہ قائم ہونی چاہئے ۔
۳۔پیرس میں امام کے لئے دنیا کے ذرائع ابلاغ تک پہنچ آسان تھی ،امام نے اپنے پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے میں اس فرصت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔یہاں تک کہ بوڑھا پے کی کمزوری کے باوجود امام روزانہ کئی اخباری اور ٹی ۔وی کے انٹریو میں شرکت کرتے تھے اور اخباری نمائندوں کے گوناگوں سوالات کا جواب دیتے تھے ۔اس طرح امام انقلاب کے مقاصد کو عالمی سطح پر پھیلانے اورشاہ اور اس کے حامیوں کے خلاف مبارزہ کا بین الاقوامی سطح پر ایک اور باب کھولنے میں کا میاب ہوئے ۔
امام نے لوگوں کے جو ش و جذبہ اور ارادہ کی ایسی رہبری کی ،جس کے نتیجہ میں بہت کم مدت کے اندر اسلحہ اور تشدّد کا سہارا لئے بغیر انقلاب کے مقصد کو حاصل کر نے میں کامیاب ہوئے ۔لوگوں کی تحریک جس قدر تیزتر ہو تی جارہی تھی امام کی فطانت اور طاقت زیادہ سے زیادہ ظاہر ہو تی تھی اور اس کے عروج کا وقت وہ تھا جب شاہ ایرا ن سے چلا گیا اور امام فاتحانہ طور پر ملت کی آغوش میں تشریف لائے اور انقلا ب کے دل کی دھڑ کن بڑھنے لگی اور نبض تیزی سے حرکت میں آگئی ۔سنیچر ۱۰فروری (۲۱بہمن )کو امام نے حکومت وقت کی طرف سے جاری کئے گئے مارشل لا(کرفیو)کی خلاف ورزی کر نے کا حکم دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ کی حکومت کی عمر کے آخری لمحات اور انقلاب کی کامیابی کا لمحہ آپہنچا ۔
چوتھا مرحلہ:یہ مرحلہ امام کی رہبری کا حساس ترین اور مشکل ترین دور تھا یہ وہ دور تھا جس میں انقلاب کے رہبر کو معاشرے کے رہبر اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے طوفان کے بھنور میں پھنسی انقلاب کی کشتی کو امن وامان کے ساحل تک پہنچانا تھا ،جبکہ طاغوت کی سیاسی وفوجی طاقت کا زوال آچکا تھا اور شاہ کی حکومت کے چنگل میں پھنسے ،لاکھوں انسان آزاد ہوچکے تھے ،ہر قسم کی افراتفری پیداہونے اور حالات کی رہبری کے کنٹرول سے خارج ہونے کے امکانات موجود تھے ۔ان حالات میں انقلاب کے رہبر کو غیر معمولی طاقت سے ،عام لوگوں کے جذبات کو کنٹرول کرنے اورافراتفری کو روکنے کے ضمن میں ایک قابل اور قوی معمار کی حیثیت سے ،پہلے سے مرتب کئے گئے منصوبہ کے تحت اسلامی حکومت کی جدید عمارت کو ،سر نگوں ہوئی حکومت کے کھنڈرات پر تعمیر کرنا تھا ۔
اس مرحلہ میں ہر قسم کی غفلت اورلاپروائی تازہ حاصل ہوئی آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھانے،انقلاب کے اصلی محرک یعنی لوگوں کے جوش وجذبہ میں کمزوری اور سستی پیدا ہونے یا انقلاب کے نتائج کو اس کے معین شدہ اصلی راستہ سے منحرف ہو نے کا سبب بن سکتی تھی ۔
امام خمینی نے اس کے باوجود کہ شاہ کی حکومت کے خلاف مبارزہ کے سادہ اور واضح طریقہ کار پر عمل کیاتھا ،آج کل کے زمانہ کی ہر قسم کی سیاست بازی سے پرہیز کی اور اس کی وجہ سے بہت سے تجزیہ نگاروں کے لئے یہ وہم وگمان پیدا ہواتھا کہ،شاید امام شاہ کی حکومت کے خلاف مبارزہ اوراسے سرنگوں کرنے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اس کے بعدحکومت اور نظام کو کنٹرول کرنے سے عاجز ہوں گے اور اس سلسلہ میں اکثر کام ماہرین اورتجربہ کاروں کو سونپ دیں گے ۔لیکن اس دفعہ بھی امام نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور خاص طاقت سے بہت سے تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی اُمیدوں پر پانی پھیردیا اور اس طرح ایک طرف سے تحریک اورگزشتہ حکومت کے بچے کھچے حامیوں کا پیچھا کرکے شکست دینے اور نئے انقلاب دشمن عناصر کا صفایا کرنے میں لوگوں کے مبارزہ کی رہبری اوردوسری طرف سے سیاسی قیادت کو سبنھانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔انہوں نے ناقابل توصیف ہمت و حوصلہ کی بنیاد پر ،مواقع اور لوگوں کی آماد گی سے استفادہ کر کے،دنیا کے تمام انقلابوں کی نسبت بے نظیر سرعت کے ساتھ صرف ایک سال کے اندر کئی انتخابات ،من جملہ جمہوری اسلامی کا ریفرنڈم ،مجلس خبر گان کا انتخاب ،صدر جمہوریہ کا انتخاب ،پارلیمنٹ کا انتخاب اور ملک کے آئین پر ریفرنڈم کراکے اسلامی نظام کی بنیاوں کو استحکام بخشا اور اس طرح انقلاب کے بعد معاشرہ کی تعمیر اور اس کا نظم ونسق چلانے میں اپنی بے مثال صلاحیت وتوانائی کا مظاہرہ کیا ۔
امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی سے اپنی رحلت تک ،یعنی دس سال سے زیادہ مدت کے دوران اپنی رہبری سے نہ صرف ایران کے نئے اسلامی نظام کو مختلف سازشوں ،انحرافات ،خوفناک خطرات، جن میں سے ہر ایک ،ایک سیاسی نظام کو سرنگوں کرنے کے لئے کافی تھا، سے بچایا ،بلکہ بہت سے پیچیدہ نظریات اور فقہی مشکلات، جو نظام کو تعطل سے دوچارکر سکتے تھے، کو حل کر کے اپنے بعد انقلاب ونظام کو پائیداری اوردوام بخشنے کے اسباب فراہم کئے ۔ان مسائل کے بارے میں آنے والی فصلوں میں مفصل بحث کریں گے ۔
’’کارل مارکس‘‘کے عقیدہ کے مطابق ’’انسان اورسورما تاریخ کے پیداوار ہیں ‘‘یا ’’ٹامس کار لایل ‘‘کے بقول ’’انسان او رسورما تاریخ ساز ہیں ‘‘ایک الگ بحث ہے ۔شا ید اس کو یہاں پر بیان کرنا مناسب نہیں ہوگا ،لیکن اسلامی انقلاب کے تکوینی سفر ،بالخصو ص امام خمینی کی رہبری کی تحقیق کے دوران کہا جاسکتا ہے کہ امام خمینی خود اسلام کی تاریخ کے معمار تھے بلکہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے بھی معمار تھے ۔۱
۱۔حسنین ہیکل نے امام خمینی کو ایک ایسی شمع سے تشبیہ دی ہے جو جل رہی ہے اور بجھنے کے قریب ہے لیکن اس میں ہزار ایٹم بموں کی طاقت ہے ۔عربی اخباروں نے ان کے بارے میں یوں لکھا ہے:ان الخمینی حیرالشرق وعج الغرب واحرج العرب وشغل العالم؟بیشک خمینی نے مشرق کو حیرت میں ڈال دیا ،مغرب کو متزلزل کر کے رکھ دیا ،عرب دنیا کو عجزوبے بسی سے دوچار کیا اور تمام دنیا والوں کو اپنی طرف مشغول کردیا ہے۔
آئیڈیالوجی
جیسا کہ ہم نے پہلی فصل میں آئڈیا لوجی کی بحث کے تحت بیان کیا کہ رہبر کے اہم فرائض میں سے انقلابی نظریہ کو تدوین کر کے پیش کر نا ہے ۔انقلابی نظریہ کے اندر معاشرہ میں وسیع پیمانے پر مقبول ہو نے کے لئے موجودہ نظام اور اس میں پائی جانی والی ا قدار کو مسترد کر کے انقلابیوں کے سامنے ایک پسندیدہ مستقبل پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہئے ۔ایران میں موجودہ صدی کے اوائل سے تین مختلف نظریات موجود رہے ہیں جو معاشرہ کے مختلف گروہوں کو اپنی طرف دعوت دیتے ہیں ۔یہ تین نظریات ، نیشنلزم ،سوشلزم اور اسلام پر مشتمل تھیں ۔ان کے مبلغین اپنے پسند دیدہ معاشرہ کا خاکہ پیش کرکے اپنے لئے زیادہ سے زیادہ پیرو کا روں کوجذب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
مغربیوں کے افکار کے مطابق،نیشنلزم یاقوم پرستی اس معنی میں ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت، جو مخصوص جغرافیائی سرحدوں کے اندر ایک خاص تاریخ، زبان ،تمدن ،ثقافت،آداب ورسوم کے تحت زندگی بسر کرتی ہو ،اسے ایک اٹوٹ واحد کی بنیاد قرار دیاجائے اور جو کچھ اس واحد کے نفع اور مصلحت ،حیثیت و اعتبار کے حق میں ہو ،وہ اپنے اوردوست شمار ہو تے ہیں اور باقی سب اجنبی اوردشمن شمار ہو تے ہیں ۔
دوسرے الفاظ میں قومی احساس یا نیشنلزم،انسانوں کی ایک جماعت کے اندر ایک مشترک، شعور اورضمیر کے احساس کا وجود ہے جو ایک سیاسی واحد یاملت پر مشتمل ہو ۔اگر چہ اس نظریہ کا سرچشمہ مغربی لیبرل معاشرہ ہے ،لیکن مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اس سے استعماری اور اجنبیوں کے نفوذ کے خلاف مقابلہ کے حربہ کے طور پر استفادہ کیا جاتا ہے ۔
یہ آئیڈیا لوجی،کافی حد تک روشن فکر، تعلیم یافتہ اور متوسط طبقوں کے لو گوں کواپنی طرف جذب کر نے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ایران کی مشروطیت اورپیٹرول کی صنعت کوقومی ملکیت میں لینے کی تحریکوں پربھی اس نظریہ کا غلبہ تھا اور اپنے مطلوب معیار اور ا قدار کو پیش کرنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔لیکن یہ مکتب عوامی سطح پر کوئی پائدارمقام حاصل نہ کرسکا ۔کیونکہ نیشنلزم ایک طرف سے لوگوں کے مذہبی عقائد سے تضادرکھتاتھا اورمغربیوں کی نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کی تعریف ، اسلام میں کوئی جگہ نہیں رکھتی تھی اور دوسری طرف سے ایران کے معاشرہ کی خصوصیات نیشنلزم کے معیاروں سے مطا بقت نہیں رکھتی تھیں ،کیونکہ اکثرایرانی جو آجکل ایرانی اور فارسی زبان ہیں اور اپنے آپ کو ایرانی جانتے ہیں،حقیقت میں ،عرب،ترک یا مغل ہیں اسی طرح بہت سے عرب جو عربی ہو نے کا دم بھر تے ہیں ،حقیقت میں وہ ایرانی،ترک یا مغل نسل سے ہیں ۔اگر ہم ایرانی ہو نے کاایرانی نسل کے مطابق تعریف کریں اور آریا نسل والوں کو ایرانی قراردیں توایرانی قوم کے اکثر لوگوں کو غیر ایرانی جاننا چاہئے اور اپنے بہت سے افتخارات سے دست بردار ہو نا چاہئے ۔لیبرل ازم بھی اپنی غیر مذہبی ماہیت کی وجہ سے لوگوں میں کوئی پائدار مقام حاصل نہ کرسکا ۔اگر چہ ،انقلاب کے بعد یہ مکتب فکرطولانی مدت تک ایک رقیب کی حیثیت سے باقی رہا ۔
صرف سوشلزم ،انقلابی آئیڈیا لوجی کے طور پر تھا ،جس نے روس کے انقلاب اکتوبر کے بعد انتہا پسندانقلابی جوانوں کو اپنی طرف جذب کیا تھا ۔اس آئیڈیا لوجی نے روس کی ایران کے ساتھ ہمسائیگی کے سبب کافی اثر ڈالا اور اشتراکیوں نے اپنے پروپیگنڈہ کے طریقوں اور منظم ومستحکم مخفی وعلنی تنظیم سازی کے ذریعہ ایران کے معاشرہ میں موجود نظام کو بدل کر سوشلسٹ نظام کو بر قرار کرنے کے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔اس حرکت کی کوششیں تودہ پارٹی کی تشکیل اور اس کے نسبتاًطولانی تاریخ سے واضح ہو تی ہیں ۔
یہ حرکت ،کافی سر گرمیوں اور کوششوں کے باوجود درج ذیل وجوہات کی بناء پر ایران میں نیشنلزم کی نسبت بھی زیادہ ناکام رہی :
۱۔اس تحریک کی الحادی ماہیت اور مادی بنیاد ایرانی معاشرہ کی طبیعت اور ایرانیوں کے راسخ مذ ہبی عقائد سے واقعی اختلاف رکھتی تھی اس لئے عام مقبولیت حاصل نہیں کرسکی ۔
۲۔اشتراکیوں کی ماسکو سے براہ راست وابستگی ،ایران اور روس کے گزشتہ تلخ تاریخی روابط کے پیش نظر ،اس بات کا سبب بنی کہ یہ لوگ نہ صرف غیر جانبدار اورآزاد نہ تھے بلکہ انھیں سوویت
یو نین کی بین الاقوامی سیاست کے کٹھ پتلی کے طور پر پہچانا جاتا تھا ۔
لیکن اسلام ایک الہیٰ مکتب کے عنوان سے معاشرہ کے مختلف طبقوں میں وسیع پیمانے پر لوگوں کے قلب وروح کی گہرائیوں میں تاریخی اثر ڈال چکا تھا ۔ایران کے شہر ودیہات کے امیر وغریب ،مزدور،کاشتکار ،ملازموں ،طالب علموں اور روشن فکروں کے مختلف طبقوں کے لوگوں کی کم ازکم نجی زندگی کے حالات اور ان کے رسم ورواج پر مذہب حاکم تھا ۔جس معاشرہ کی ۹۸ فیصدی آبادی روایتی طور پر مسلمان ہو اور ان میں اکثر قرآن مجید کے احکام پر عقیدہ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہوں ،وہ اسلامی نظریہ کو سیاسی، اجتماعی تبدیلی لانے والے نظریہ اورانقلاب کے عنوان سے قبول کرنے کی زیادہ آماگی رکھتے ہیں۔
جو خصوصیتں اسلام کی آئیڈیا لوجی کو دوسری تمام سیاسی مکاتب سے جدا کر تی اور اسے خاص مظہر اور امتیاز بخشتی ہیں ،وہ اسلام کے تصورکائنات میں پوشیدہ ہیں،جن کاخلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔حقیقت اور وجود،مادہ اورطبیعت کے مساوی نہیں ہے ۔(مادہ غیرمادی مطلق حقیقت کی ایک شعاع ہے )
۲۔مادی دنیا ایک ایسا وجود ہے جس کا سرچشمہ وجود اور حقیقت مطلق ہے ،اس کا سر چشمہ ، مدبر عالم اور حکیم و قادر ہے جو تمام طبیعی روابط وعوامل پر حاکم ہے اورتمام کائنات ،طبیعی عوامل حرکت،مادہ میں تاثیر وتاثر ،سب خدائے متعال کے فعل اور اس کے ارادہ کے مظہر ہیں ۔
۳۔الہی تصورکائنات میں کائنات خدا کی ولایت اور سرپرستی میں ہے اورمادّی مخلوقات خدائے متعال کی ولایت اور تدبیر کے تحت عیب سے کمال کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور سبھی خداکی طرف پلٹنے والے ہیں ۔
۴۔اس تصور کائنات میں انسان صرف مادی پہلو نہیں رکھتا ہے بلکہ معنوی پہلو بھی رکھتا ہے اور مطلق کمال یعنی خالق کائنات کی طرف حرکت میں ہے اور اس کا کمال لقااللہ ہے ۔
۵۔انسان ایک لافانی اور جاودانی مخلوق ہے اور موت سے فانی اورنابود نہیں ہو تا ہے ۔اس کے سامنے دوسری دنیا ہے ،جس میں وہ اس دنیا کی زندگی کے اعمال کے آثارونتائج پائے گا ۔
۶۔انسان ایک آزاد،ذمہ داراور بااختیار مخلوق ہے ۔وہ اپنی ارتقائی حرکت کو آخر تک پہنچاتا ہے، چونکہ آزاد ہے ،اس لئے اپنی حر کت کو کبھی اللہ کی طرف اور کبھی شیطان کی طرف اختیار کرتا ہے ۔
۷۔اس دنیا کی زندگی ،ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں انسان کمال حاصل کرتا ہے اور اپنے عمل سے لافانی وجاودانی زندگی حاصل کرتا ہے ۱
اس آئیڈیالوجی کا ایک انقلابی آئیڈیا لوجی کے عنوان سے استفادہ کرنے میں پائے جانے والے بنیادی اعتراضات کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل مسائل کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے :
۱۔برسوں سے مغربی سامراج کے پرو پیگنڈہ اور مسیحی دنیا میں پیش آنے والے حالات کے نتیجہ میں ،عالم اسلام میں بھی یہ تصور کیا جاتا تھا کہ مذہب زمانہ کے پیچیدہ سیاسی ۔اجتماعی مشکلات کو حل کر نے کی توانائی نہیں رکھتا ہے ۔اس پروپیگنڈہ نے مختلف طبقات یہاں تک کہ بعض روحانیوں اور مذہبی علماء کو بھی متاثر کیا تھا ۔
۲۔اسلام کے پیش کردہ معا شرہ کے پسند دیدہ کمال کا محقق ہو نا چودہ صدی قبل سے تعلق رکھتا تھا اور بہت سے لوگوں کے لئے یہ قابل تصورنہیں تھا کہ اسلام کے احکام کو آج کے صنعتی تر قی یافتہ معاشرہ میں،یعنی ایٹمی دور میں عملی جامہ پہنانا ممکن ہو گا اور اسلام کے پاس عصر حاضر کے پیچیدہ مسائل کا جواب ہو گا ۔
۳۔اسلامی اصولوں میں سے بعض اصول ،جیسے شیعو ں میں تقیہ اورانتظارفرج اوراہل سنت میں ولی امر کی اطاعت کے اصول کے پیش نظر بہت سے لوگوں یہاں تک بعض معتقد مسلمانوں میں بھی یہ تصور مفقود ہو چکا تھا کہ معاشرہ پر حاکم ا قدار کو بدلنے میں ایک انقلابی آئیڈیا لوجی کے عنوان سے اسلام سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔
۱۔’’ولایت فقیہ وحاکمیت ملت‘‘تالیف:طاہری خرم آبادی،ص۱۸۔۱۹
مذکورہ رکاوٹوں کے پیش نظر،سید جمال الدین اسد آبادی ،آیت اللہ نائینی،آیت اللہ نوری آیت اللہ مدرس ،آیت اللہ کا شانی اور نواب صفوی کی رہبری میں اسلام کے فدائی جیسی شخصیتوں کی جدو جہد اورانتھک کو ششوں کے باوجود، کہ بہت سے قومی مقاصدکو حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کر چکے تھے ۔وہ اسلام کو عوام الناس بالخصوص انقلابی جوانوں کے عقائد میں انقلاب کی آئیڈیا لوجی کے عنوان سے جان ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔
یہاں تک کہ۱۹۶۲ءمیں رہبر انقلاب حضرت امام خمینیؒ نے مذکورہ مشکلات کے بارے میں صحیح آگاہی کے ساتھ ،رکاوٹوں کو دورکرنے کے لئے قدم اٹھایا اور لوگوں کے ذہنوں میں موجود توہمات سے مقابلہ کرنے اور اسلام کے نظریہ کو معاشرہ میں نئے طریقہ سے انقلاب کی مطلوب ترین آئیڈیا لوجی کے عنوان سے پیش کر نے میں کامیاب ہوئے ۔
امام خمینی نے سب سے پہلے شیعوں کی مرجع تقلید کے حیثیت سے تقیہ کو حرام اور اظہار حق کو واجب قرار دیا (ولو بلغ مابلغ ۱ اور اس طرح ،انقلاب کے راستہ میں موجود ایک بڑی رکاوٹ اور
عا فیت طلبوں کے بہا نہ کو ہٹادیا ۔
امام نے اسی طرح ایک عظیم مرجع تقلید اور حوزہ علمیہ قم کے اصلی محور کی حیثیت سے مبارزہ کے پر چم کو ہاتھ میں لے کر سیاسی نظام پر حملہ کر کے دین کے سیاست سے جدا ہو نے کے موضوع کو عملی طور پر باطل اور غلط ثابت کیا ،اور اس کے ضمن میں ،نجف اشرف میں اپنی جلا وطنی کے دوران پائی جانے والی فرصت سے استفادہ کر تے ہوئے ، اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کا نظریہ پیش کر کے،عصر حاضرمیں ایک قابل عمل انقلابی آئیڈیا لوجی کی حیثیت سے اسلام کے نظریہ میں ایک بنیادی تبدیلی ایجاد کی ۔انقلاب کی آئیڈیا لوجی پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے موجودہ حاکمیت کا انکار کرکے
اسے مسترد کر نا چاہئے اورنظام پر مسلط ا قدار پر اعتراض کرنا چاہئے ،اوریہ وہی کام تھا جو رہبر انقلاب نے انقلاب کا نظریہ پیش کرنے والے کی حیثیت سے انجام دیا ۔برسوں سے مسلسل یہ تبلیغ کی گئی تھی کہ
۱۔صحیفہ نور،ج ۱،ص ۴۰
سلطان خداکا سایہ ہے اور سلطان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔یا یہ کہ سلطنت ایک الہی تحفہ ہے لیکن امام نے ان سب اقدار کی مخالفت کرتے ہؤے فرمایا :
’’ولایت عہدی اور اس کے مانندمسائل سے متعلق آئین کی یہ شق اور اس کا ضمیمہ کہاں اسلام سے مربوط ہے ؟یہ سب اسلام کے خلاف اور حکومت کے طریقہ کار اوراحکام اسلام سے تناقص رکھتے ہیں ۔سلطنت اور ولی عہدی وہی چیز ہے ،جسے اسلام نے مسترد کر کے صدر اسلام میں ہی ایران ، مشرقی روم،مصر اور یمن میں اس کا خاتمہ کیا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بادشاہ روم (ھراکلیوس)اورشاہنشاہ ایران کو لکھے گئے اپنے خطوط میں ان کو دعوت دی تھی کہ شاہنشاہی اورسلطنتی طرز حکومت سے پرہیز کریں اوراجازت دیدیں کہ لوگ خدأے یکتااورلاشریک کی عبادت کریں ،جو حقیقی سلطان ہے سلطنت اور ولی عہدی وہی منحوس اور باطل طرز حکومت ہے کہ جس کے خلاف حضرت سید الشہد ا سلام اللہ علیہ نے قیام کیا اور شہید ہوئے ۱
اس طرح رہبر انقلاب نے پہلی بار،برسوں تک تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کوتلقین کی گئی اورآئین۲کا جزو بنائی گئی ا قدار کو باطل قرار دے کر مخالف اقداراعلان کیا ۔
رہبر انقلاب کا دوسرا فریضہ یہ ہے کہ وہ معاشرہ کا نہ صرف پسندیدہ خاکہ پیش کرے بلکہ اس تک پہنچنے کا عملی طریقہ کار بھی دکھائے ۔اسلام کے عقیدتمندوں ،جو قریب بہ اتفاق معاشرہ کو تشکیل دیتے تھے ،کے لئے یہ بات قابل قبول تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین (شیعوں کی نظر میں خاص کرحضرت علی علیہ السلام )کے زمانہ میں قائم ہوئی اسلامی حکومت
کمال کی حکومت اورآئندہ حکومت کے لئے نمونہ ہو سکتی ہے ۔لیکن اہم بات یہ تھی کہ چودہ صدیوں
۱۔امام خمینی ،’’ولایت فقیہ‘‘ص۱۰۔۱۱
۲۔ایران کا سابق آئین ،شق۳۵ ضمیمہ
کے بعد اور عصر حاضرکے معاشرہ کی پیچیدگیوں کے پیش نظر اس قسم کی حکومت کو کیسے اور کن اشخاص کے ذریعہ تشکیل دیاجائے ۔
دوسری طرف سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عقیدہ کے پیش نظر کہ،دنیا میں ظلم وفساد پُر ہوناچاہئے تاکہ مہدی موعود(عج)ظہور کر کے دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں او راسلامی حکومت تشکیل دیں ،غیبت کے زمانہ میں اس قسم کی حکومت تشکیل پانے کو مطلقاًناممکن جانتے تھے اور اس قسم کی حکومت کے لئے کوشش کو خلاف شرع جانتے تھے ۔
ایسے حالات میں رہبر انقلاب نے ولایت فقیہ کے فلسفہ کو پیش کرکے ،ایک سادہ اور آسان لیکن استدلالی زبان میں قرآن واحادیث سے ثابت کیا کہ احکام الہی معطل نہیں ہو سکتے ہیں اور ہر حالت میں یہاں تک غیبت کبریٰ کے زمانہ میں بھی احکام الہٰی کو جاری کرنے سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی ہے اور یہ ذمہ داری فقہا اور علماء بالخصوص افقہ فقہا کے کا ندھوں پر ہے ۔امام اس سلسلہ میں طلاب سے خطاب کرتے ہؤے فرماتے ہیں :
’’تم لوگ اس صورت میں اسلام کے خلفاء ہو کہ لوگوں کو اسلام سکھا دوگے اور یہ نہ کہو گے کہ چھوڑ دوتاکہ امام زمان (عج )تشریف لائیں ۔کیا تم نماز کو امام زمانہ( عج) کے آنے تک ترک کرتے ہو تاکہ ان کے آنے کے بعد پڑھ لوگے؟اسلام کا تحفظ نمازسے بھی زیادہ واجب ہے۔ خمین کے حاکم کی منطق کو نہ اپنایئے جو یہ کہتاتھا کہ:گناہوں کو پھیلانا چاہئے تاکہ امام (عج) زمان آجائیں ۔اگر گناہ رائج نہ ہوجائیں توحضرت( عج) ظہور نہیں کریں گے‘‘ ۱
اسلامی معاشرہ کو چلانے کے أے حاکم کے لئے دوبنیادی شرطیں ضروری ہیں :
اول یہ کہ احکام الہٰی کے بارے میں جامع اور مکمل آگاہی رکھتا ہو اوردوسری شرط یہ کہ مذکورہ احکام کو جاری کرنے میں عدالت سے کام لے ۔دوسرے الفاظ میں عادل فقیہ رسول خدا صلی
۱۔امام خمینیؒ ،ولایت فقیہ ،ص۷۵
اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے جانشین کی حیثیت سے اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اسلامی احکام کو جاری کرنے کا ذمہ دار ہے اور ولی امر کے عنوان سے اس کی اطاعت،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے مانند واجب ہے ۔اسلامی نظام میں حاکم و ولی امر کے بارے میں لوگوں کی رائے کا دخل صرف ولایت فقیہ کی اصل کو فی الفور وجود بخشنا اور اسے مرحلۂ اجرا میں لانا ہے۔ اس معنی میں کہ ولایت امر ایک ایسا مقام ہے جو اسے خداکی طرف سے عطا کیاگیا ہے اور اس کے ثبوت کے لئے لوگوں کی رائے شرط نہیں ہے ،اگر چہ لوگ اس کو رہبری اور زعامت کی حیثیت سے قبول نہ کریں ،لیکن ولایت کو حقیقت اور فعلیّت بخشنے کے لئے لوگوں کی رائے اور عام قبولیت ضروری ہے ۔
دوسری جانب سے ممکن ہے ایک سے زیادہ افراد میں ولایت کے اوصاف اورشرائط موجودہوں ،یعنی معاشرہ میں کئی عادل وصاحب بصیرت اورآگاہ فقیہ موجود ہوں توان میں سے بہرصورت ایک شخص کو قیادت ورہبری کی ذمہ داری سنبھالنی چاہئے ۔واضح ہے کہ ولایت ورہبری کی ذمہ داری کے لئے کئی افراد میں سے کسی ایک کو چننے کا عملی راستہ اکثریت کی رائے ہے کہ امامت وولایت کی ذمہ داری سبنھالنے کے لئے ایک شخص کے منتخب ہو نے کے بعد قہری طور پردوسروں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے ۱
اس اصل کے پیش نظر رہبر انقلاب نے تین اہم مسائل کو انقلاب کے نصب العین کے طور پر معین کر کے پیش کیا :
۱۔طاغوتی (شہنشاہی )حکومت کی سرنگونی۔
۲۔ اسلامی حکومت تشکیل دینے کی کوشش ۔
۳۔ اصل ولایت فقیہ کو عملی کر نے سے ایسی حکومت کی ضمانت ۔
امام خمینی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں :
۱۔امام خمینی،ولایت فقیہ ،ص۷۵
’’ان اجتماعی وسیاسی حالات کے پیش نظر ایک مومن ومتقی انسان کے سامنے دوراستے ہیں۔وہ ناچار ہے کہ ایسے اعمال انجام نہ دے اورطاغوتی احکام اور قوانین کی اطاعت نہ کرے بلکہ ان کی مخالفت کرے اور ان کامقابلہ کرے تاکہ ان فاسد حالات کو بدل ڈالے ۔ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ اس فاسد سسٹم کو نابود کردیں۔اور حاکم طبقہ کے خائن، فاسد اورظالم گروہوں کو سرنگوں کریں ۔یہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے تمام ممالک کے ہر مسلمان کو انجام دینا چاہئے اور اسلام کے سیاسی انقلاب کو کامیاب بنادیں ۔‘۱
اور ہمیں اپنے اسلامی وطن کو سامراجی طاقتوں اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں سے نجات دلانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اسلامی حکومت تشکیل دیں۲
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
’’آج ہم کیسے خاموش اوربیکار تماشائی بنیں کہ چند خائن اورحرام خوار اوراجنبیوں کے ایجنٹ ،اجنبیوں کی مدد اور تلوا ر کی نوک پر لاکھوں مسلمانوں کی محنت سے حاصل کی گئی دولت کو لوٹ لیں اورکم ازکم نعمتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہ دیں ۔علمائے اسلام اورتمام مسلمانوں پرفرض ہے کہ اس ظالمانہ صورتحال کو ختم کردیں اوراس راہ میں ،جو کہ لاکھوں مسلمانوں کی سعادت کی راہ ہے ،ظالم حکومتوں کو سرنگوں کرکے اسلامی حکومت تشکیل دیں ۔۳
اس کے بعد رہبر انقلاب موازنہ پر مبنی ایک تحقیق میں حکومت اسلامی کی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں :
’’اسلامی حکومت ،موجودہ مختلف اقسام کی حکومتوں میں سے کسی ایک کے مانند نہیں ہے۔ مثال کے طور پر استبدادی حکومت نہیں ہے کہ حکومت کا سربراہ مطلق العنان اورخودخواہ ہو اور لوگوں کے مال وجان سے کھیل کر اپنی مرضی سے اس پر تصرف کرے ،جسے چاہے
۱۔طاہری خرم آبادی’ پیشین،ص ۸۶
۲۔امام خمینی،ولایت فقیہ ،ص۳۵
۳۔امام خمینی،ولایت فقیہ ،ص۳۶
اسے قتل کر ڈالے اورجسے چاہے اسے انعام دیدے ،جسے چاہے اسے جاگیر بخش دے اور ملّت کی ملک ومال کو مختلف لوگوں میں تقسیم کر ے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومینین علیہ السلام اور دیگر تمام خلفاء بھی اس قسم کے اختیارات نہیں رکھتے تھے۔اسلامی حکومت نہ استبدادی ہے اورنہ مطلق العنان ،بلکہ مشروط ہے ،البتہ نہ عام اور آج کے متعارف معنی میں مشروط ،کہ قوانین کو لوگوں کی اکثریت رائے پاس کرے۔ مشروط اس لحاظ سے ہے کہ حکومت چلانے والے نفاذ اور ادارہ کرنے میں شرائط کے ایک مجموعہ کے مقید ہوں جو قرآن مجید اور رسول اکرم ؐ کی سنت میں معین ہوئے ہیں ۔ان شرائط کا مجموعہ وہی اسلام کے احکام اور قوانین ہیں کہ ان کی رعایت کی جانی چاہئے اور انھیں جاری کیا جانا چاہئے اس جہت سے اسلامی حکومت لوگوں پر قانون الہٰی کی حکومت ہے ۔اس قسم کی حکومت میں حاکمیت صرف خدا سے مربوط ہے۔‘‘۱
امام ،مبارزہ کے طریقہ کار اور عدل اسلامی کی حکومت تک پہنچنے کے راز کو لوگوں کی اجتماعی اور انقلابی حرکت میں مضمر جانتے ہیں اور اس کام کے لئے سب سے پہلا فریضہ جو علماء کے لئے قائل ہیں ،وہ لوگوں کو آگاہ کرناہے ۔وہ شروع میں ،پر امن مبارزہ کے ضمن میں اجتماعی اعتراض کی سفارش کرتے تھے اور مسلحانہ جدو جہد کی نفی نہ کرنے کے ضمن میں مبارزہ کے آغاز کے لئے اس کی سفارش اور تجویز نہیں کرتے تھے :
’’اگر ظالموں کی کسی خلاف ورزی یا ظلم کے مرتکب ہو جا نے کے خلاف اجتماعی اعتراض کیا جائے ،اگر تمام اسلامی ممالک سے کئی ہزارٹیلیگرام انھیں بھیج دی جائیں کہ اس برے کام کوانجام نہ دیں تو یقیناً وہ ہاتھ کھینچ لیں گے ۔جب یہ لوگ اسلام اور لوگوں کی مصلحت کے خلاف کوئی کام انجام دیں یا کوئی تقریر کریں ،تو اگر ملک کے تمام علاقوں ،قصبوں اور گاؤں سے ان پر اعتراض کیا جائے ،تو وہ فوری طور پر پیچھے ہٹیں گے ،میں ان کو جانتاہوں ۔میں
۱۔امام خمینی،’’ولایت فقیہ ‘‘ص۳۸
پہچا نتا کہ یہ کیسے ہیں ۔ یہ بہت ڈرپوک ہیں اور بہت جلدی پسپا ہو جانے والے ہیں ۔ لیکن جب دیکھتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ نااہل ہیں تو جست وخیز کرتے ہیں ‘‘۱
اس راستہ میں ہماری سب سے پہلی سر گرمی تبلیغات پر مشتمل ہے ۔ہمیں تبلیغات کے ذریعہ آگے بڑھنا چاہئے، ہمیشہ پہلے سے ہی فوج اور طاقت نہیں تھی بلکہ تبلیغات کی راہ سے آگے بڑھتے تھے۔سرکشی زوروزبردستی کی مذمت کرتے تھے ۔ملت کو آگاہ کرتے تھے اور لوگوں کو سمجھاتے تھے کہ سرکشی غلط ہے تبلیغ کا دامن رفتہ رفتہ وسیع ہوتا جاتا تھا اورمعاشرہ کے تمام گروہ آگاہ ہو جاتے تھے۔لوگ بیدار اور سرگرم ہوتے تھے اور نتیجہ پاتے تھے ۲
تبلیغات اور تعلیم وتربیت ہماری دواہم سرگرمیاں ہیں ۔یہ فقہا کی ذمہ داری ہے کہ عقائد،احکام اوراسلام کی تعلیمات کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو تعلیم دیں ۳
اس کے بعد امام سیاسی نظام کوکمزور کرکے اسے سرنگون کرنے کے لئے اپنے مبارزہ کی حکمت عملی کا پروگرام عینی صورت میں معین کرتے ہیں:
۱۔ہمیں ،حکومت کے اداروں سے اپنے روابط منقطع کر کے ان کے ساتھ تعاون نہیں کر نا چاہئے۔
۲۔ہمیں ،ہر ایسے کام کو انجام دینے سے پر ہیز کرنا چاہئے ،جو ان کی مدد کا سبب بنے ۔
۳۔ہمیں عدلیہ،مالی،اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی ادارے تشکیل دینے چاہئے ۴
اسی لئے سیاسی، اجتماعی تبدیلیوں کے سلسلہ میں ،انقلاب کے بنیادی تین ارکان نے اپنی
پو ری ممکنہ طاقت سے،ھماھنگی اور انسجام کا کامیاب استفادہ کیا ۔اس طرح ایران کی مسلم امت نے غیر معمولی ذہانت کے مالک اپنے مرجع تقلید کی رہبری میں ،اسلام کے عالمی اور حیات بخش پرچم تلے
۱۔امام خمینی ،ولایت فقیہ ،ص۱۴۱
۲۔امام خمینی ،ولایت فقیہ ،ص۱۵۱
۳۔امام خمینی ،ولایت فقیہ ،ص۱۵۲
۴۔امام خمینی ،ولایت فاقیہ، ص۱۷۹
میدان مبارزہ میں سر گرم اور وسیع پیمانے پر شر کت کرکے اسلامی انقلاب کی حیرت انگیز کامیابی کے اسباب فراہم کئے ۔
یہ سوال کہ اسلامی انقلاب کی تحریک اور اس کے دوران رونما ہو نے والے حوادث میں کن عوا مل نے سرعت پیدا کی ،ایک الگ بحث ہے ،اس کے بارے میں آنے والی فصل میں وضاحت کی جائے گی ۔
source : http://www.ahlulbaytportal.com