محمد بن عبد اللہ حضرت اسماعیل (ع) نبی کے ۲۹ پشت اور حضرت آدم کے ۴۹ پشت یعنی حضرت آدم (ع)کے وفات کے ۹۷۰۰سال چار مہینے بعد،شیعہ علماء کے قول کے مطابق ۱۷ /ربیع الاول بروز جمعہ ،یعنی ۲۹/اگست ۵۷۱ء صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ،پدر بزرگوار جناب عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔
مادر گرامی جناب آمنہ قبیلہ بنی کلاب کی شریف زادی اور رئیش خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ،شجاعت اور بہادری میں یہ خاندان بہت ممتاز گزرا ہے اور عرب میں بہت مستند تھا۔
شعب ابو طالب مکہ میں آپ کی ولادت ہوئی آپ (ص) کے والد عبداللہ آپ (ص) کی ولادت سے دو مہینے پہلے ہی وفات پا چکے تھے دادا عبد المطلب موجود تھے وہ آپ کے کفیل ہوئے اور آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام آپ کی ہر طرح سے کفالت اور دیکھ بھال کرتے رہے ۔
آپ (ص) کا اسم مبارک : محمد ،احمد
آپ کی کنیت: ابو القاسم
آپ کے القاب: آپ (ص) کے القاب ایک ہزار سے زیادہ ہیں جو زیادہ مشہور ہیں ان کوہم یہاں بیان کر رہے ہیں ۔ منجملہ ان کے ، مصطفےٰ ،مجتبیٰ ،محمود ، شفیع ،شافع ، خاتم الانبیا، رسول اللہ ،حبیب اللہ ، اشرف المرسلین ، سید البشر ،محبوب حق،طاہر ،مختار ، سراج منیر ،امین ، صادق ، شمس الضحیٰ ، بدرالدجیٰ ، طۤہ،یٰس،مزمل ،مدثر ، سرور کائنات ، فخر موجودات ، سید عالم وغیرہ ......
آنحضرت (ص) کی ولادت
شہر مکہ تاریکیوں اور خاموشیوں میں ڈوبا ہوا تھا ،زندگی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے البتہ چاند اپنی عادت کے مطابق دھیر ے دھیرے پہاروں کی اوٹ سے گزرتا ہوا ذرا بلندی پر آگیا تھا اور اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی شعاعیں مکہ کے معمولی اور سادہ گھروں اور ریگستانی ذروں پر بکھیر رہا تھا۔
رفتہ رفتہ آدھی رات گزر گئی اور حجاز کے جلتے جھلستے ہوئے صحراؤں پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ذرا دیر کے لئے ریگستانوں کے سینوں میں لگی آگ ٹھنڈی ہوئی،ریا کاری سے دور ،خلوص کی اس بزم میں ستاروں کی موجودگی نے جن میں اور اضافہ کر دیا ۔
صبح ہو چکی ہے نسیم سحر ہولے ہولے چل رہی ہے مرغان خوش الحان سحر انگیز نغمے فضا میں منتشر کر رہے ہیں گویا کسی معشوق سے راز و نیاز کر رہے ہیں
افق مکہ پر سپیدہئ سحر ی نمودار ہونے والا ہے مگر سارے شہر پر ایک مبہم سا سکوت طاری ہے سب گہری نیند سورہے ہیں ،ہاں صرف'' آمنہ ' 'بیدار ہیں ناگہاں چند نا معلوم مگر نورانی عورتیں ان کے کمرے میں آئیں ۔ان کی خوشبو نے جناب آمنہ کو متحیر کر دیا یہ کون ہیں اور کس طرح یہاں آئی ہیں کیوں کہ دروازہ تو بند ہے۔ (۱)
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ان کا عزیز فرزند متولد ہوا۔ جس چیز کا مہینوں سے انتظار تھا ۱۷ /ربیع الاول (۲) ، یعنی ۲۹/اگست ۵۷۱ ع صبح صادق کے وقت اپنے بچے کی صورت دیکھ کر جناب آمنہ کی آنکھیں چمک اٹھیں اور دل باغ باغ ہو گیا۔
ہر ایک کو اس ولادت کی خوشی تھی '' محمد '' سے جناب آمنہ کے گھر کے درودیوار روشن و منور ہو گئے لیکن اس وقت آمنہ جواں سال شوہر '' عبداللہ'' کی کمی شدت سے محسوس کر رہی تھیں جس وقت وہ شام سے مدینہ واپس آرہے تھے راستہ میں ان کا انتقال ہو گیا تھا انھیں وہیں دفن کر دیا گیا تھا اور آمنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تنہا ہو گئی تھیں۔ (۳)
ولادت کے وقت
جس وقت آپ کی ولادت ہوئی اس وقت زمین و آسمان میں ایسے عجائبات و معجزات خدا کی طرف سے ظاہر ہوئے خاص کر مشرق میں ، اس وقت کی تہذیب و تمدن کا مرکز تھا۔یہ حوادث خبر رسانی کا اس وقت اس سے سریع ذریعہ تھے جس سے یہ معلوم ہو گیا کہ دنیا میں کوئی عظیم واقعہ ہوا ہے ۔
یہ بچہ تمام فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ کرنے ولا اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھنے والا تھا ، انسانوں کو سعادت کی شاہراہ پر گامزن کرنے والا تھا ، لہٰذا ولادت کے پہلے ہی دن سے فرسودہ اور جاہلی نظام کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔
نوشیرواں کا وسیع و عریض محل ،جس کی ابدیت کا خواب دیکھا جا رہا تھا ، اسی رات اس میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگورے گر گئے ۱؎ ،آتش کدہئ فارس جو ایک ہزار سال سے مجوسی قوم نے جلا رکھا تھا خود بخود خاموش ہو گیا۔ (۴) وقت ولادت ایسی روشنی پھیلی کہ شام و کسریٰ کی عمارتیں دکھائی دینے لگیں ، جہاں کہیں بھی بت رکھے ہوئے تھے سب سر نگوں ہو گئے ۔
خیالی خدا ؤں کے پجاری جن کا تعصب انھیں کوئی اور فکر کرنے نہیں دیتا تھا وہ بھی ان واقعات کے بعد سوچنے پر مجبور ہو گئے اسی طرح '' ساوہ '' کے دریا نے خشک ہو کر بیداری کا پیغام دیا۔ (۵)
ماں کی شفقت سے محروم
ابھی آپ (ص) کی عمر کی چھ بہاریں گزری تھیں (۶)کہ آپ کی والدہ جناب آمنہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کرنے گئیں اور آپ (ص) کو اپنے ہمراہ لے گئیں ،مدینہ میں رشتہ داروں سے ملاقات کی اور شوہر کی قبر کی زیارت کرکے اپنے عہد کی تجدید کی اور پھر مکہ واپس آنے لگیں کہ راستہ میں '' ابوائ'' نامی جگہ پر آپ (آمنہ) کا انتقال ہوگیا (۷) و ہ عمر جس میں بچے کو ماں کی محبتوں اور باپ کی شفقت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں آپ (ص)کے سر سے دونوں سایہ اٹھ گئے۔
نبوت کے آثار
جس طرح پیغمبر اسلام (ص) کی ولادت اور اس کے بعد رو نما ہونے والے غیر معمولی وقعات آنحضرت کی شخصیت اور عظمت کی ترجمانی کر رہے تھے اسی طرح بچپن میں آپ (ص) کی باتیں اور آپ (ص) کا کردار آپ کو دوسرے بچوں سے ممتاز کر رہا تھا جناب عبد المطلب کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا ۔اسی لئے وہ آنحضرت (ص) کا غیر معمولی احترام کرتے تھے ۔ (۸)
آنحضرت (ص)کے چچا جناب ابو طالب کا بیان ہے کہ ہم نے کبھی محمد (ص)سے غلط بیانی اور کوئی نازیبابات نہیں دیکھی نہ کبھی ے جا ہنستے دیکھا اور نہ کبھی بے جا گفتگو کرتے دیکھا وہ اگثر بیشتر تنہا رہتے تھے ۔ (۹)
جس وقت آنحضرت (ص) سات سال کے تھے اس وقت یہودیوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) حرام اور مشتبہ غذاؤں کو استعمال نہیں کرتا لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ان کا امتحان لیں ، چنانچہ ایک مرتبہ یہودیوں نے ایک مرغ چرا کر ابو طالب کے پاس بھیجا ،چوں کہ کسی کو علم نہ تھا اس لئے سب نے کھا یا لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے اس طرف ہاتھ تک نہیں بڑھایا ۔ جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا : کہ یہ حرام ہے اور خدا مجھے حرام سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ایک بار اپنے پڑوسی کا مرغ پکڑ لیا اور خیال یہ تھا کہ بعد میں اس کی قیمت ادا کردیں گے ۔پیغمبراکرم (ص) نے اس مرغ کی طرف بھی ہاتھ نہیں بڑھایا اور فرمایا: کہ یہ غذا مشتبہ ہے ۔ اس کے بعد یہودیوں نے کہا کہ یہ بچہ بڑی عظمتوں کا مالک ہے اس کی شان نرالی ہے ۔ (۱۰)
قریش کے سردار جناب عبد المطلب رسول خدا (ص) کے ساتھ ہر گز اس طرح سے پیش نہیں آتے تھے جس طرح دوسرے بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے بلکہ بہت عزت اور احترام کرتے تھے ۔
جس وقت خانہ کعبہ کے گرد جناب عبد المطلب کے لئے مخصوص نشست بنائی جاتی تھی اور ان کے فرزند اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے تو ایسا رعب طاری ہوتا تھا کہ کوئی اس جگہ تک جا نہیں سکتا تھا ،لیکن آنحضرت (ص) اس جاہ و جلال سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ،آنحضرت (ص) سیدھے وہاں جاتے تھے جہاں جناب عبد المطلب بیٹھے ہوتے تھے ،وہ لوگ جو آنحضرت کو وہاں جانے سے روکتے تھے عبد المطلب ان سے کہتے تھے کہ میرے فرزند کو روکو نہیں ،خدا کی قسم اس کی جدا گانہ شان ہے ، اس وقت آنحضرت (ص)جناب عبد المطلب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ (۱۱)
یاد ماضی
آنحضرت (ص) کا بچپن یتیمی کے کرب کے ساتھ دادا عبد المطلب اور چچا ابو طالب کی شفقت کی چھاؤں میں گزرا ۔یتیمی کا رنج ہر رنج سے جانگداز ہو تا ہے ،رنج کے یہ تجربے آنحضرت (ص)کی آئندہ زندگی کے لئے بڑے مفید ثابت ہوئے ۔
رفتہ رفتہ عمر میں اضافہ ہوتا رہا اور بچپن سے جوانی میں قدم رکھا ، جہاں صلاحیتیں اور جذبات پروان چڑھتے ہیں اگرچہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم ہو چکے تھے مگر جناب ابوطالب اپنا اخلاقی فریضہ اور اپنے والد کی وصیت کے مطابق آنحضرت (ص)کی برابر حفاظت کرتے رہے ۔ ابوطالب کے لئے حضرت تین طرح سے عزیز تھے ،فرزند تھے ۔مرحوم بھائی کی نشانی اور اپنے مرحوم پدر کی یادگار تھے ۔لہٰذا حضرت (ص) جناب ابوطالب کے گھر کے ایک فرد تھے ۔ جناب ابوطالب کے دوسرے بچوں کی طرح حضرت (ص) بھی ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے جناب ابوطالب آنحضرت (ص) کے لئے مہربان باپ ،وفادار چچا اور دل سوز مربی تھے ۔چچا اور بھتیجے میں اتنی محبت تھی گویا دو قالب ایک جان تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ابو طالب ہر جگہ آنحضرت (ص) کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ،اپنے ساتھ عرب کے مشہور بازاروں ''عکاظ '' ''محبنہ'' اور '' ذی المجاز'' لے جاتے تھے ۔یہاں تک کہ جس وقت جناب ابوطالب کا روان تجارت کے ساتھ شام جانے لگے تو حضرت کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور حضرت کو اپنے ہمراہ شام لے گئے ۔حضرت (ص) نے اونٹ کے اوپر ''یثرب'' اور ''شام'' کا دور دراز سفر کیا۔ (۱۲)
بحیر ا سے ملاقات
جب قریش کا دقافلہ ''بصری'' (۱۳) کے نزدیک پہنچا ،اس وقت گوشہ نشین زاہد بحیرا اپنے صومعہ میں تھا ،اس نے دیکھا کہ ایک قافلہ آرہا ہے اور قافلہ کے ساتھ ساتھ ابر کا ایک ٹکڑا بھی حرکت کر رہا ہے ۔
بحیرا اپنے صومعہ سے نیچے اتر کر ایک گوشہ میں کھڑا ہو گیا اور اپنے خادم سے کہنے لگا ک قافلہ والوں سے جا کر کہہ دو کہ وہ سب آج ہمارے مہمان ہیں ۔ حضرت (ص) کے علاوہ ہر شخص اس کے پاس چلا گیا ۔بحیرا نے دیکھا کہ ابر کا ٹکڑا وہیں رکا ہوا ہے ۔اس نے دریافت کیا کہ قافلہ کے تمام افراد یہاں آ گئے ہیں؟ سب نے کہا ہاں ! البتہ ایک نوجوان جو سن میں سب سے چھوٹا ہے وہ یہاں نہیں ہے ۔ بحیرا نے کہا جاؤ اس کو بھی بلا لاؤ جب حضرت چلے تو ابر بھی ان کے ساتھ چلا ۔بحیرا غور سے یہ منظر دیکھتا رہا ۔
جب کھانا وغیرہ کھا چکے تو بحیرا نے حضرت (ص) سے کہا میں آپ سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ میں آپ کو ''لات'' اور''عزیٰ '' کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ضرور جواب دیں گے۔
حضرت (ص):۔۔۔۔۔۔ جن دو ناموں می تم نے مجھے قسم دلائی ہے مجھے سب سے زیادہ انہی دو ناموں سے نفرت ہے۔
بحیرا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو اللہ (خدا) کی قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے سوالوں کا جواب دیجئے ۔
حضرت (ص):۔۔۔۔۔۔ اپنا سوال بیان کرو۔
مختصر سی گفتگو کے بعد بحیرا حضرت کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے دست و پا کا بوسہ لیا اور کہا :اگر میں اس تک زندہ رہا تو آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں گا آپ بشریت کے سردار ہیں۔
اس کے بعد اس نے قافلہ والوں سے پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ۔ قافلہ والوں نے ابو طالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا فرزند ہے بحیرا نے کہا: یہ ان کے والد نہیں ہیں ان کے والد ان کی ولادت سے پہلے انتقال کر چکے ہیں ۔
ابوطالب علیہ السلام نے کہا ہاں وہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔
بحیرا نے کہا : اس جوان کا مستقبل بہت ہی روشن وتابناک ہے ۔جو خصوصیات میں اس میں دیکھ رہا ہوں اگر یہودیوں کو معلوم ہو جائے تو اس کو قتل کر ڈا لیں ۔ اس جوان کے سلسلے میں یہودیوں سے بہت زیادہ ہوشیار رہئے ۔
ابوطالب علیہ السلام نے پوچھا : یہ بچہ کیا کار نامہ انجام دے گا؟ اور یہودی کیا کریں گے ۔
بحیرا نے کہا: یہ بچہ مستقبل میں پیغمبر ہوگا ۔اس پر وحی کا فرشتہ نازل ہوگا۔
ابوطالب علیہ السلام نے کہا: خدا یقینا اس بچہ کی حفاظت کرے گا ، (۱۴) (یہودیوں اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا)
کردار کی بلندی
جس معاشرے میں حضرت زندگی بسر کر رہے تھے ،اخلاقی پستیاں اس معاشرے کی فضیلت شمار کی جاتی تھیں ۔جوان تو جوان حجاز کے بوڑھے بھی بدکاری میں سب سے آگے تھے یہاں تک کہ ہر گلی اور کوچہ میں بالا خانوں پر سیاہ پرچم مرکز فساد کی نشاندہی کرتے تھے اور لوگوں کو بدکرداری اور انحراف کی طرف بلاتے تھے ۔
ایسے گندے اور کثیف ماحول میں حضرت نے اپنی جوانی کے پچیس سال گزارے لیکن آپ کے دامن کردار پر ماحول کی کثافت کا ذرا بھی اثر نہ ہو ا بلکہ دوست و دشمن ہر ایک نے آپ (ص) کے کردار کی بلندی کا اعتراف کیا ہے۔
جس وقت جناب خدیجہ سے آپ کی شادی ہوئی اس وقت شعراء نے حضرت کی مدح میں جو اشعار کہے وہ حضرت کے کردار کے آئینہ دار ہیں ، شاعر جناب خدیجہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ : ''اے خدیجہ ! دنیا والوں میں تم کو بہت بڑا مرتبہ ملاہے تم سب کو فوقیت حاصل ہے ،تم کو محمد (ص)جیسا شوہر ملاہے ،دنیا کی تمام عورتوں نے آج تک ایسا کوئی بچہ پیدا نہیں کیا۔تمام اخلاقی اقدار ،بلندیاں،حیاوعفت سب اس میں جمع ہیں اور اسی طرح جمع رہیںگی'' (۱۵)
ایک دوسرا شاعر کہتاہے:
''اگر تمام مخلوقات کے ساتھ حضرت کا مقابلہ کیا جائے تو ان کو سب پر فوقیت حاصل رہے گی ۔یقیناً قریش ان کے اخلاق اور کردار کی بلند یوں سے خوب واقف ہیں'' (۱۶)
آنحضرت (ص)کی شادی
جوانی فطری تقاضوں کے ظہور کا وقت ہوتا ہے ۔ اس وقت خاہشات شر اٹھانے لگتی ہیں ۔جب لڑکا اور لڑکی کی عمر کے اس مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں گھر بسا نے کی تمنا جاگنے لگتی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کا احساس ہونے لگتا ہے تاکہ ان کو سکون دل حاصل ہو جائے۔
اسلام نے فطری تقاضے کی سیرابی اور فتنہ و فساد سے محفوظ رہنے کے لئے تاکید کی ہے کہ جوانوں کو جلدی شادی کرنا چاہئے اور یہ بہانہ نہ بنانا کہ بعد کے اخراجات کے وسائل ان کے پاس نہیں ہیں ۔ (۱۷)
ہاں اگر زندگی درہم برہم ،شادی کے ابتدا ئی اور بنیادی مسائل بھی فراہم نہیں ہیں تو اس صورت میں عفت اور پاک دامنی کے ساتھ حالات کا انتظار کرنا چاہئے۔ (۱۸)
حضرت نے اپنی زندگی کے ۲۵ سال اسی طرح کے سخت حالات میں گزارے ۔مالی حالت ایسی نہ تھی کہ حضرت شادی کر سکتے ۔اس لئے حضرت حالات کا انتظار کر رہے تھے ۔ (۱۹)
جناب خدیجہ کی پیش کش
جناب خدیجہ دولت مند اور شریف خاتون تھیں دوسرے افراد ان کے سرمائے سے تجارت کرتے تھے اور اپنی مزدوری لے کر نفع حضرت خدیجہ کو دے دیتے تھے
جس وقت حضرت کی امانت داری بلند کرداری کا سارے عرب میں شہرہ ہو گیا تو جناب خدیجہ نے سوچا کہ کیوں نہ حضرت کے ذریعہ تجارت کی جائے ،جناب خدیجہ نے یہ پیش کش حضرت (ص) کے درمیان رکھی کہ میں ایک غلام کے ساتھ سرمایہ آپ کو دوںگی تاکہ آپ اس سے تجارت کریں اور آپ کو دسروں سے زیادہ دوں گی ۔
حضرت جناب ابو طالب (ع) کی زندگی سے بخوبی واقف تھے کہ ان کے اخراجات کتنے زیادہ ہیں اور آمدنی کتنی محدود ہے ،زندگی کس تنگی میں گزر رہی ہے ۔لہٰذا آپ نے جناب خدیجہ کی پیش کش قبول کر لی۔ (۲۰)
شام کا سفر
جس وقت قریش کا قافلہ تجارت کے لئے شام جانے لگا حضرت نے بھی اپنے سفر کی تیاری کی اور قافلہ میں شامل ہو گئے ،جناب خدیجہ نے سرمایہ حضرت (ص)کے حوالے کرتے ہوئے اپنے غلام ''میسرہ '' سے کہا کہ تم ان کے ساتھ جاؤ اور ان کی خدمت کرو ۔
اس تاریخی سفر کی جزئیات گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کیا جا سکتا بس اتنا جاننا ضروری ہے کہ سفر بے پناہ برکتیں اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا ،تجارت میں کافی فائدہ ہوا تھا حضرت کی شخصیت اور نمایاں ہو گئی تھی ۔ عیسائی راہب نے حضرت سے ملاقات کی تھی اور آپ کی رسالت کی پیش گوئی کی تھی ۔ (۲۱) اور یہی سفر شادی کا ذریعہ بھی قرار پایا تھا۔
جب یہ قافلہ اپنا سفر طے کرکے مکہ واپس ہو ا تو میسرہ نے سفر کی تمام جزئیات تفصیل سے جناب خدیجہ کو سنا دیں ۔ (۲۲) یہ باتیں سن کر اور ایک عیسائی راہب کی پیشین گوئی سن کر کہ حضرت کی شادی قریش کی ایک بہت ہی با عزت اور محترم خاتون سے ہوگی ،خدیجہ نے اپنے دل میں ایک خاص لگاؤ محسوس کیا اور حضرت (ص)کی شکل میں اپنا در مقصود نظر آیا۔ (۲۳)
اس سے پہلے ان کے چچا '' ورقہ بن نوفل'' بھی پیغمبر وں کے بارے مین کافی باتیں بتا چکے تھے اور بیان کر چکے تھے کہ حضرت (ص) نبوت کے بلند مرتبہ پر فائز ہوں گے اور خدیجہ سے ان کی شادی ہوگی (۲۴) ان باتوں نے اس قلبی لگاؤ میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی ۔
یہ بات کس طرح حضرت تک پہنچائی جائے ۔کیوں کہ خدیجہ کوئی معمولی عورت نہ تھیں قریش کی سب سے زیادہ محترم خاتون تھیں۔
شادی کی پیش کش
خدیجہ نے اپنی سہیلی ''نفیسہ '' (جو خدیجہ کے راز ہائے دل سے واقف تھی) کے سامنے یہ بات رکھی تاکہ وہ حضرت سے گفتگو کرے ۔نفیسہ حضرت (ص) کے پاس گئیں اور حضرت سے کہا کہ آ پ شادی کیوں نہیں کرتے ؟
حضرت (ص) نے جواب دیا : میرے حالات شادی کی اجازت نہیں دےتے ۔
نفیسہ نے کہا : اور اگر وہ وسائل فراہم ہو جائیں اور مسائل حل و جائیں ،ایک شریف خاندان کی دولت مند عورت اس بات پر تیار ہو جائے کیا اس وقت آپ شادی کریں گے ؟
حضرت (ص) نے دریافت کیا ۔وہ عورت کون ہے؟
نفیسہ نے کہا : خدیجہ ۔
اس پر آنحضرت (ص) نے کہا کہ اس نے تو قریش کے بڑے بڑے ثروت مندوں کے پیغامات رد کر دئے ہیں وہ میرے ساتھ شادی کرے گی ۔
نفیسہ نے کہا: ہاں یہ ہو سکتا ہے اور میں اس رشتہ کو طے کروں گی ۔ (۲۵)
جس وقت حضرت کو اس بات کا اطمینان ہو گیا کہ خدیجہ شادی کرنے کے لئے راضی ہیں حضرت نے ساری باتیں اپنے چچا سے بیان کر دیں ،وہ لوگ یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے رشتہ طے ہوا اور خاص اہتمام سے شادی ہو گئی۔(۲۶)
حضرت نے شادی کے خاص بہترین ایام یعنی اپنی زندگی کے ۲۵ سال جناب خدیجہ کے ساتھ گزارے ،خدیجہ حضرت کی صرف شریک حیات نہ تھیں بلکہ حضرت کی بہت بڑی مددگار بھی تھیں (۲۷)عورتوں میں آپ حضرت پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور اپنا سارا مال و متاع دین مقدس اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے دے دیا ۔ (۲۸)
جناب خدیجہ سے حضرت کی کئی اولادیں ہوئیں ،قاسم اور طاہر دو فرزند اور ایک بیٹی جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام ،دونوں بیٹے بچپنے میں ہی انتقال کر گئے ۔ (۲۹) جناب خدیجہ کی محبت، فدکاری ،کی حضرت ہمیشہ قدر کرتے رہے ۔زندگی میں بھی ان کے قدر داں رہے اور ان کے انتقال کے بعد بھی برابر یاد کرتے رہے اور جب بھی یاد کرتے تھے غمگین ہو جاتے تھے ۔ (۳۰) کبھی کبھی ان کی یاد میں میں آنسوبھی نکل آتے تھے ۔جناب خدیجہ کی حیات کا چراغ اگر چہ ۶۵برس کی عمر میں گل ہوا (۳۱) لیکن حضرت کا گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدیجہ کے نور سے محروم ہو گیا۔
..............
۱۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۳۲۵
۲۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۰
۳۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۷
۴ و ۵۔ بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۲۵۸ و ۲۶۳
۶۔بحار الانوار ،ج/۱۵ص/۴۰۲ و ۴۰۵
۷۔سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
۸ و ۹ ۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۳۸۲ و ۰۲ ۴ و ۳۶۶ و ۳۳۶
۱۰۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۳۶۶ و ۳۳۶
۱۱۔ بحار الانوار ،ج/۱۵۔ص/ ۱۴۲۔سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱ص/۱۶۸
۱۲۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۰
۱۳۔ بصریٰ شام کا ایک چھوٹا سا شہر
۱۴۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۱۔اعلام الوریٰ ،ص/۲۶۔بحار الانوار ،ج/۱۵،ص/۱۹۳و۲۰۴
۱۵۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۷۴
۱۶۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۷۵
۱۷ و ۱۸۔ قرآن کی آیت سے استفادہ کیا ہے ( نور/۳۱و۳۲)
۱۹۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۳،تاریخ یعقوبی ج/۲،ص/۱۵۔ اعیان الشیعہ ج/۲ص/۸ ۔سیرت ،ج/۱ص/۱۵۲
۲۰۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۲۲
۲۱۔ سیرۃ ابن ہشام ،ج/۱،ص/۱۸۸طبع ۱۳۷۵ھ۔یہ راہب بحیرا کے علاوہ ہے جس نے بچپن میں پیشین گوئی کی تھی۔
۲۲۔ کامل ابن اثیر ج/۲ص/۳۹مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ
۲۳۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
۲۴۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۲۰و۲۱
۲۵۔ سیرۃ حلبیہ ،ج/۱ص/۱۵۲۔اعیان الشیعہ ج/۲ص/۸
۲۶۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/ ۵۶۔۷۳
۲۷۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۷۔۱۰۔۱۱۔ اعلام الوریٰ ص/۱۴۶
۲۸۔ بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۱۰۔۷۱۔اعیان الشیعہ ،ج/۲ص/۸
۲۹۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۳۔اعیان الشیعہ ،ج/۲ص/۸
۳۰۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۸ ۔۱۳
۳۱۔بحار الانوار ،ج/۱۶۔ص/۸ ۔۱۳
source : http://www.alhassanain.com