دشمن کے خلاف جنگ کي بہترين حکمت عملي
ميرے دوستو! ايسا انسان اسوہ عمل قرار ديئے جانے کا حقدار ہے۔ يہ تمام باتيں اور يہ (انفرادي ، ثقافتي اور سياسي ميدان اور اِن ميں آپ کي فعاليت) واقعہ کربلا سے قبل ہے۔ ان تينوں مراحل ميں امام حسين نے ايک لمحے کيلئے توقف نہيں فرمايا اور ہر آن و ہر لمحے اپنے ہدف کي جانب بڑھتے رہے۔ لہٰذا ہميں بھي کسي بھي لمحے کو ضايع نہيں کرنا چاہيے ممکن ہے وہي ايک لمحے کا توقف و آرام دشمن کے تسلط کا باعث بن جائے۔ دشمن ہماري کمزوريوں اور فصيل کے غير محفوظ حصوںکي تلاش ميں ہے تاکہ اندر نفوذ کرسکے اور وہ اِس بات کا منتظر ہے کہ ہم رُکيں اور وہ حملہ کرے۔ دشمن کے حملے کو روکنے اور اُسے غافل گير کرنے کا سب سے بہترين راستہ آپ کا حملہ ہے اور آپ کي اپنے مقصد کي طرف پيشقدمي اور پيشرفت دراصل دشمن پر کاري ضرب ہے۔
بعض افرا يہ خيال کرتے ہيں کہ دشمن پر حملے کا مطلب يہ ہے کہ انسان صرف توپ اور بندوق وغيرہ کو ہي دشمن کے خلاف استعمال کرے يا سياسي ميدان ميں فرياد بلند کرے، البتہ يہ تمام امور اپنے اپنے مقام پر صحيح اور لازمي ہيں ؛جي بالکل لازمي ہے کہ انسان سياسي ميدان ميں اپني آواز دوسروں تک پہنچائے۔ بعض افراد يہ خيال
نہ کريں کہ ہم ثقافت کي بات کرتے ہيں تو اِس کا مطلب دشمن کے خلاف فرياد بلند کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ثقافتي حملوں کو روک دے،نہيں؛ البتہ يہ کام اپني جگہ درست اور لازمي ہے ليکن راہ حل صرف يہ ايک عمل نہيں ہے۔
انسان کا اپنے ليے ، اپني اولاد، ماتحت افراد اور امت مسلمہ کيلئے تعمير نو کے حوالے سے کام کرنا دراصل عظيم ترين کاموں سے تعلق رکھتا ہے ۔ دشمن مسلسل کوششيں کررہا ہے تاکہ کسي طرح بھي ہو سکے ہم ميں نفوذ کرے؛ يہ تو نہيں ہوسکتا کہ دشمن ہميں ہمارے حال پر چھوڑ دے! ہمارا دشمن اپني تمام تر ظاہري خوبصورتي کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے اور پورے مغربي استکبار اور اپني منحرف شدہ جاہلانہ اور طاغوتي ثقافت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ يہ دشمن کئي صديوں قبل وجود ميں آچکا ہے اور اِس نے پوري دنيا کے اقتصادي، ثقافتي ، انساني اور سياسي وسائل پر اپنے ہاتھ پير جماليے ہيں۔ ليکن اب اِسے ايک اہم ترين مانع_سچے اور خالص اسلام _کا سامنا ہے۔ يہ اسلام کھوکھلا اور ظاہري و خشک اسلام نہيں ہے کہ جس نے دشمن کا راستہ روکا ہے؛ ہاں ايک ظاہري اور کھوکھلا اسلام بھي موجود ہے کہ جس کے پيروکاروں کا نام صرف مسلمان ہے۔ يہ عالم استکبار اِن نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پيالہ ہے ،يہ مل کر آپس ميں گپ لگاتے ہيں اور ظاہر سي بات ہے کہ انہيں ايسے مسلمانوں اور اسلام سے کوئي خطرہ نہيں ہے۔
خالص اسلام کي نشاني
دشمن کي آنکھ کا کانٹا اور اُس کي راہ کي رکاوٹ دراصل وہ سچا اور خالص اسلام ہے کہ جسے قرآن روشناس کرتا ہے اور وہ ’’لَن يَجعَلَ اللّٰہُ لِلکَافِرِينَ عَلَي المُومنِينَ سَبِيلاً‘‘ ،’’اللہ نے اہل ايمان پر کافروں کي برتري و فضيلت کي کوئي راہ قرار نہيں دي ہے‘‘ اور ’’اَن ِالحُکمُ اِلَّا لِلّٰہِ ‘‘ ،’’حکم صرف خدا ہي کا ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ اگر آپ کسي دائرے کوتھوڑا سا کم کريں تو آپ دائرے کے مرکز سے نزديک ہوجائيں گے، يعني يہ واقعي اور خالص اسلام ’’اِنَّ اللّٰہَ اشتريٰ مِنَ المُومِنِيْنَ اَنفُسَہُم و اَموالَہُم باَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃُ ‘‘ ،’’اللہ نے مومنين ميں سے کچھ کي جانوں اور مالوں کو خريد ليا ہے اور اُن کيلئے جنت قرار دي ہے‘‘ ،کا اسلام ہے۔ يہ آپ لوگوںکا اسلام ہے کہ جن کے جسموں ميں ابھي تک دشمن کي گولياں موجود ہيں اورجو سرتاپا جہاد في سبيل اللہ اور راہ خدا ميں جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہيں، خواہ وہ جنگ ميں زخمي و معلول ہونے والے افراد ہوں يا شہدائ کے گھر والے ہوں يا پھر وہ لوگ جو درجہ شہادت پر فائز ہوئے يا الحمد للہ غازي بن کر ميدان جنگ سے لوٹے؛ دشمن کي راہ کي اصلي رکاوٹ يہ لوگ ہيں۔
دشمن سے ہر صورت ميں مقابلہ
ہمارا دشمن اِس رکاوٹ سے ہرگز غافل نہيں ہے اُس کي مسلسل کوشش ہے کہ اِ س رکاوٹ کو اپني راہ سے ہٹادے لہٰذا ہميں چاہيے کہ اپني بہترين حکمت عملي اور زيرکي سے دشمن کا مقابلہ کريں۔ مسلسل حرکت اور جدوجہد ہر صورت ميں لازمي ہے،خودسازي اور تعمير ذات کے ميدان ميں بھي کہ يہ تمام امور پر مقدم ہے، بالکل ميرے اور آپ کے سرور و آقا حسين کي مانند اورسياسي ميدان ميںبھي مسلسل حرکت کا جاري رہنا بہت ضروري ہے کہ جو امر بالمروف اور نہي عن المنکر اور سياسي ميدان ميں ہماري مسلسل جدّوجہد اور ثابت قدمي سے عبارت ہے۔ دنيائے استکبار کے مقابلے ميں جہاں لازم ہو وہاں اپنے سياسي موقف کو بيان کرنا اور اُس کي وضاحت کرنا چاہيے۔ اِسي طرح يہ مسلسل حرکت اور جدوجہد ثقافتي ميدان ميں بھي ضروري ہے يعني انسان سازي، خودسازي، فکري تعمير اور صحيح و سالم فکر و ثقافت کي ترويج؛ اُن تمام افراد کا وظيفہ ہے کہ جو امام حسين کو اپنے لئے اسوہ عمل قرار ديتے ہيں۔ بہت خوشي کي بات ہے کہ ہماري قوم امام حسين کي بہت دلدادہ اور عاشق ہے اور امام حسين ہمارے نزديک ايک عظيم المرتبت شخصيت کے مالک ہيں حتي غير مسلم افرادکے نزديک بھي ايسا ہي ہے۔
ظلمت و ظلم کے پورے جہان سے امام حسين کا مقابلہ
اب ہم واقعہ کربلا کي طرف رُخ کرتے ہيں ۔ واقعہ کربلا ايک جہت سے بہت اہم واقعہ ہے اورخود يہ مسئلہ اُن افراد کيلئے درس ہے کہ جو امام حسين کو اپنا آئيڈيل قرار ديتے ہيں۔
ميرے دوستو ! توجہ کيجئے کہ واقعہ کربلا آدھے دن يا اِس سے تھوڑي سي زيادہ مدت پر محيط ہے اور اُس ميں بہتر (٧٢) کے قريب افراد شہيد ہوئے ہيں ۔ دنيا ميں اور بھي سينکڑوں شہدائ ہيں ليکن واقعہ کربلا نے اپني مختصر مدت اور شہدائ کي ايک مختصر سي جماعت کے ساتھ اتني عظمت حاصل کي ہے اور حق بھي يہي ہے ؛ بلکہ يہ واقعہ اِ س سے بھي زيادہ عظيم ہے کيونکہ اِس واقعہ نے وجود بشر کي گہرائيوں ميں نفوذ کيا ہے اور يہ سب صرف اور صرف اِس واقعہ کي روح کي وجہ سے ہے۔ يہ واقعہ اپني کميّت و جسامت کے لحاظ سے بہت زيادہ پُر حجم نہيں ہے، دنيا ميں بہت سے چھوٹے بچے قتل کيے گئے ہيں جبکہ کربلا ميں صرف ايک شش ماہ کا بچہ قتل کيا گيا ہے، دشمنوں نے بہت سي جگہ قتل عام کا بازار گرم کيا ہے اور سينکڑوں بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے (جبکہ کربلا ميں صرف ايک ہي بچہ قتل ہوا ہے اور يہ دوسرے بچوں کے قتل کي تعداد کے مقابلے ميں ايک فيصد يا اس سے بھي کم ہے)؛ واقعہ کربلا اپني کميت کے لحاظ سے قابل توجہ نہيں بلکہ روح اور معني کے لحاظ سے اہميت کا حامل ہے۔
روح کربلا
واقعہ کربلا کي روح و حقيقت يہ ہے کہ امام حسين اِ س واقعہ ميں ايک لشکر يا انسانوں کي ايک گروہ کے مد مقابل نہيں تھے، ہرچند کہ وہ تعداد ميںامام حسين کے چند سو برابر تھے،بلکہ آپ انحراف و ظلمات کي ايک دنيا کے مد مقابل کھڑے تھے اور اِ س واقعہ کي يہي بات قابل اہميت ہے ۔ سالار شہيدان اُس وقت کج روي، ظلمت اور ظلم کي ايک پوري دنيا کے مقابلے ميں کھڑے تھے اور يہ پوري دنيا تمام مادي اسباب و سائل کي مالک تھي يعني مال و دولت، طاقت ، شعر، کتاب، جھوٹے راوي اور درباري ملا، سب ہي اُس کے ساتھ تھے اور جہان ظلم و ظلمت اور انحراف کي يہي چيزيں دوسروں کي وحشت کا سبب بني ہوئي تھيں۔ايک معمولي انسان يا اُس سے ذرا بڑھ کر ايک اور انسان کا بدن اُس دنيا ئے ظلمت و ظلم کي ظاہري حشمت ، شان وشوکت اور رعب و دبدبہ کو ديکھ کر لرز اٹھتا تھا ليکن يہ سرور شہيداں تھے کہ آپ کے قدم و قلب اُس جہان شر کے مقابلے ميں ہرگز نہيں لرزے ، آپ ميں کسي بھي قسم کا ضعف و کمزوري نہيں آئي اور نہ ہي آپ نے (اپني راہ کے حق اور مدمقابل گروہ کے باطل ہونے ميں) کسي قسم کا شک وترديد کيا، (جب آپ نے انحرافات اور ظلم و زيادتي کا مشاہدہ کيا تو) آپ فوراً ميدان ميں اتر آئے۔ اس واقعہ کي عظمت کاپہلو يہي ہے کہ اس ميں خالصتاً خدا ہي کيلئے قيام کيا گيا تھا۔
’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ‘‘کا معني
کربلا ميں امام حسين کا کام بعثت ميں آپ کے جد مطہر حضرت ختمي مرتبت ۰ کے کاموں سے قابل تشبيہ و قابل موازنہ ہے، يہ ہے حقيقت۔ جس طرح پيغمبر اکرم ۰ نے تن ِ تنہا پوري ايک دنيا سے مقابلہ کيا تھا امام حسين بھي واقعہ کربلا ميں جہانِ با طل کے مدمقابل تھے؛ حضرت رسول اکرم ۰ بھي ہرگز نہيں گھبرائے ، راہ حق ميں ثابت قدم رہے اور منزل کي جانب پيشقدمي کرتے رہے، اسي طرح سيد الشہدا بھي نہيں گھبرائے، ثابت قدم رہے اور آپ ٴنے دشمن کے مقابل آکر آنکھوں ميں آنکھيں ڈال ديں۔ تحريک نبوي ۰ اور تحريک حسيني کا محور و مرکز ايک ہي ہے اور دونوں ايک ہي جہت کي طرف گامزن تھے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں’’حُسَين? مِنِّي وَاَنَا مِنَ الحُسَينِ ‘‘ کا معني سمجھ ميں آتا ہے ۔ يہ ہے امام حسين کے کام کي عظمت۔
ْٰقيام امام حسين کي عظمت!
امام حسين نے شب عاشور اپنے اصحاب و انصار سے فرمايا تھا کہ’’ آپ سب چلے جائيے اور يہاں کوئي نہ رہے ، ميں اپني بيعت تم سب پر سے اٹھاليتا ہوں اور ميرے اہل بيت کو بھي اپني ساتھ لے جاو، کيونکہ يہ ميرے خون کے پياسے ہيں‘‘۔ امام حسين کے يہ جملے کوئي مزاح نہيں تھے؛ فرض کيجئے کہ اگر اُن کے اصحاب قبول بھي کرليتے اور امام حسين يکتا و تنہا يا دس افراد کے ساتھ ميدان ميں رہ جاتے تو آپ کے خيال ميں کيا سيد الشہدا کے کام کي عظمت کم ہوجاتي ؟ ہرگز نہيں ! وہ اُس وقت بھي اسي عظمت و اہميت کے حامل ہوتے ۔ اگر اِن بہتر (٧٢) افراد کي جگہ بہتر ہزار افراد امام حسين کا ساتھ ديتے تو کيا اِن کے کام ا ور اُس تحريک کي عظمت کم ہوجاتي؟
امام حسين کي عظمت و شجاعت
امام حسين کے کام کي عظمت يہ تھي کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافت رسول ۰ کے مدعي اور انحراف کے
پورے ايک جہان کے دباو کو قبول نہيں کيا۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں معمولي نوعيت کے انسان اپنے مد مقابل طاقت کے ظاہري روپ اور ظلم کو ديکھ کر شک و ترديد کا شکار ہوجاتے ہيں۔ جيسا کہ بارہا عرض کيا ہے کہ عبداللہ ابن عباس جو ايک بزرگ شخصيت ہيں اور اسي طرح خاندان قريش کے افراد اِس تمام صورتحال پر ناراض تھے۔ عبداللہ ابن زبير۱، عبدا للہ ابن عمر۱، عبدالرحمان ابن ابي بکر۱، بڑے بڑے اصحاب کے فرزند اور خود بعض اصحاب کي بھي يہي حالت تھي۔ مدينے ميں صحابہ کرام کي اچھي خاصي تعداد موجود تھي اور سب باغيرت تھے، ايسا نہيں ہے کہ آپ يہ خيال کريں کہ اُن ميں غيرت نہيں تھي؛ يہ وہي اصحاب ہيں کہ جنہوں نے واقعہ کربلا کے بعد مدينہ ميں رونما ہونے والے واقعہ حرّہ ميں مسلم ابن عقبہ کے قتل عام کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور جنگ کي ۔ يہ خيال نہ کيجئے کہ يہ لوگ ڈر و خوف کا شکار ہوگئے، ہرگز نہيں بلکہ وہ بہترين شمشير زن و شجاع تھے۔
ليکن ميدان جنگ ميں قدم رکھنے کيلئے شجاعت بذاتِ خود ايک موضوع ہے جبکہ ايک پورے جہان سے مقابلے کيلئے شجاعت کا حامل ہونا ايک الگ مسئلہ ہے۔ امام حسين اِس دوسري شجاعت کے مالک تھے؛ يہي وجہ ہے کہ ہم نے بارہا تاکيد کي ہے کہ امام خميني۲ کي تحريک دراصل امام حسين کي تحريک کي مانند تھي اور اُن کي تحريک دراصل ہمارے زمانے ميں امام حسين کي تحريک کي ايک جھلک تھي اگر بعض لوگ يہ کہيں کہ امام حسين توصحرائے کربلا ميں تشنہ شہيد ہوئے جبکہ امام خميني۲ نے عزت و سربلندي کے ساتھ حکومت کي، زندگي بسر کي اور جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کي بے مثال تشييع جنازہ ہوئي! ليکن ہماري مراد يہ پہلو نہيں ہے؛ اِس واقعہ کربلا کي عظمت کا پہلو يہ ہے کہ امام حسين ايک ايسي طاقت و قدرت کے مد مقابل سيسہ پلائي ہوئي ديوار بن گئے کہ جو تمام مادي اسباب و وسائل کي مالک تھي۔ قبلاً آپ کي خدمت ميں عرض کيا ہے کہ امام حسين کے دشمن کے پاس مال و دولت تھي ، وہ قدرت و طاقت کا مالک تھا، اسلحہ سے ليس سپاہي اس کي فوج ميں شامل تھے اور ثقافتي و معاشرتي ميدانوں کو فتح کرنے والے مبلغ و مروج اورمخلص افراد کا لشکر بھي اُس کے ساتھ تھا۔ کربلا قيامت تک پوري دنيا پر محيط ہے ، کربلا صرف ميدان کربلا کے چند سو ميٹر رقبے پر پھيلي ہوئي جگہ کا نام نہيں ہے۔ آج کي دنيائے استکبار و ظلم اسلامي جمہوريہ کے سامنے کھڑي ہے۔
امام حسين کا ہدف، اسلامي نظام اور اسلامي معاشرے کي تعمير نو
آج ميں نے نيت کي ہے روز عاشورا کے حوالے سے امام حسين کي تحريک کے بارے ميں گفتگو کروں؛ امام حسين کي تحريک بہت ہي عجيب و غريب تحريک ہے۔ ہم سب کي زندگي سيد الشہدا کي يادو ذکر سے لبريز و معطر ہے اور ہم اِس پر خدا کے شاکر ہيں ۔ اِس عظيم شخصيت کي تحريک کے متعلق بہت زيادہ باتيں کي گئي ہيں ليکن اِس کے باوجود انسان اِس بارے ميں جتنا بھي غور وفکر کرتا ہے تو فکر و بحث اور تحقيق ومطالعہ کا ميدان اتنا ہي وسعت پيدا کرتا جاتا ہے۔ اِس بے مثل و نظير اورعظيم واقعہ کے متعلق بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے کہ جس کے بارے ميں غوروفکرکرنا اور اُسے ايک دوسرے کيلئے بيان کرنا چاہيے۔
چند ماہ کي تحريک اور سو سے زيادہ درس
اِس واقعہ پر توجہ کيجئے؛ حضرت سيد الشہدا اُس دن سے لے کے جب آپ نے مدينے سے اپنا سفر شروع کيا اور مکے کي جانب قدم بڑھائے، کربلا ميں جام شہادت نوش کرنے تک اِن چند ماہ (٢٨ رجب تا ١٠ محرم) ميں شايد انسان سو سے زيادہ درس عبرت کو شمار کرسکتا ہے؛ ميں ہزاروں درس عبرت کہنا نہيں چاہتا اِس لئے کہ ہزاروں درس عبرت حاصل کيے جاسکتے ہيں کيونکہ ممکن ہے امام حسين کا ہر ہر اشارہ ايک درس ہو۔
يہ جو ہم نے بيان کيا ہے کہ سو سے زيادہ درس تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم امام عالي مقام ٴکے اِن تمام کاموں کا نہايت سنجيدگي اور توجہ سے مطالعہ کريں۔ اِسي طرح تحريک کربلا سے سو عنوان و سو باب اخذ کيے جاسکتے ہيں کہ جن ميں سے ہر ايک باب، ايک قوم، ايک پوري تاريخ، ايک ملک ، ذاتي تربيت، معاشرتي اصلاح اور قرب خدا کيلئے اپني جگہ ايک مکمل درس کي حيثيت رکھتاہے۔
اِن سب کي وجہ يہ ہے کہ حسين ابن علي کي شخصيت؛ ہماري جانيں اُن کے نام و ذکر پر فدا ہوں، دنيا کے تمام مقدس اور پاکيزہ افراد کے درميان خورشيد کي مانند روشن و درخشاں ہے، آپ ؛انبيائ، اوليائ ،آئمہ ، شہدائ اور صالحين کو ديکھئے اگر يہ ماہ و ستارے ہيں تو يہ بزرگوار شخصيت خورشيد کي مانند روشن و تابناک ہے؛ ليکن يہ سو درسِ عبرت ايک طرف اور امام حسين کا اصلي اور اہم ترين درس ايک طرف۔
اصلي درس : سيد الشہدا نے قيام کيوں کيا؟
ميں آج کوشش کروں گا کہ اِس واقعہ کے اصلي درس کو آپ کے سامنے بيان کروں۔ ا ِس واقعہ کے دوسرے پہلوجانبي حيثيت رکھتے ہيں جبکہ اِس اصلي درس کو مرکزيت حاصل ہے کہ امام حسين نے قيام کيوں فرما يا تھا؟
امام حسين ؛آپ ٴکي شخصيت مدينہ اور مکہ ميں قابل احترام ہے اور يمن ميں بھي آپ ٴکے شيعہ اور محبين موجود ہيں لہٰذا کسي بھي شہر تشريف لے جائيے؛ يزيد سے سروکار رکھنے کي آپ کو کوئي ضرورت نہيں ہے اور اس طرح يزيد بھي آپ کو تنگ نہيں کرے گا! آپ ٴکے چاہنے والے شيعوں کي اتني بڑي تعداد موجود ہے، جائيے اُن کے درميان عزت و احترام سے زندگي بسر کيجئے اور دل کھول کر اسلام کي تبليغ کيجئے ! آپ ٴنے يزيد کے خلاف قيام کيوں کيا؟ اِس واقعہ کي حقيقت کيا ہے؟
يہ ہے اِس تحريک کربلا کا اصلي اور بنيادي سوال اور يہي اِس واقعہ کا اصلي درس ہے۔ ہم يہ دعويٰ نہيں کرتے کہ کسي اور نے اِن مطالب کو بيان نہيں کيا ہے؛کيوں نہيں ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ اِس سلسلے ميں بہت محنت سے کام کيا گيا ہے اور اس بارے ميں نظريات کي تعداد بھي بہت زيادہ ہے۔ ليکن ہم جو مطالب آپ کي خدمت ميں عرض کررہے ہيں يہ ہماري نظر ميں اِس واقعہ کا ايک بالکل نيا پہلو ہے جو تازگي کا حامل اور اچھوتا پہلو ہے۔
source : http://www.alhassanain.com