کربلا کا خورشيد ِلازوال اگرچہ محرم اور کربلا اور اُس کے عظيم نتائج کے بارے ميں بہت زيادہ قيمتي گفتگو کي گئي ہے ليکن زمانہ جتنا جتنا آگے بڑھتا رہتا ہے کربلا کا خورشيدِ منور کہ جسے خورشيد شہادت اور غريبانہ و مظلومانہ جہاد کے خورشيد سے تعبيرکيا جاسکتا ہے اور جسے حسين ابن علي اور اُن کے اصحاب باوفا نے روشني بخشي ہے ، پہلے سے زيادہ آشکار ہوتا جاتا ہے اور کربلا کي برکتيں اور فوائد پہلے سے زيادہ جلوہ افروز ہوتے رہتے ہيں۔ جس دن يہ واقعہ رونما ہوا اُس دن سے لے کر آج تک اِس واقعہ کے بنيادي اثرات بتدريج آشکار ہوتے جارہے ہيں۔ اُسي زمانے ميں کچھ لوگوں نے اِس بات کو محسوس کيا کہ اُن کے ذمے کچھ وظائف عائد ہوتے ہيں؛ قيام توّابين اور بني ہاشم و بني الحسن کے طولاني مقابلے کے واقعات سامنے آئے، يہاں تک کہ بنو اميہ کے خلاف چلائي جانے والي بنو عباس کي تحريک دوسري صدي ہجري کے وسط ميں چلائي گئي اور اِس تحريک نے عالم اسلام ميں خصوصاً مشرقي ايران و خراسان وغيرہ کي طرف اپنے مبلّغين بھيجے اور يوں اُنہوں نے بنو اميہ کي نسل پرست اور ظالم و مستکبر حکومت کے قلع قمع کيلئے زمين ہموار کي، بالآخر بنو عباس کي تحريک کاميابي سے ہمکنار ہوئي۔ بنو اميہ کے خلاف بنو عباس کي تحريک امام حسين کے نام اور اُن کي مظلوميت کے نام سے شروع کي گئي، آپ تاريخ کا مطالعہ کريں تو مشاہدہ کريں گے کہ جب بنو اميہ کے مبلغين عالم اسلام کے گوشہ و کنار ميں گئے تو اُنہوں نے حسين ابن علي کے خون ، اُن کي مظلوميت و شہادت، فرزند پيغمبر ۰ کے خون کے انتقام اور جگر گوشہ فاطمہ زہرا٭ کے سفاکانہ قتل کو بطور حربہ استعمال کيا تاکہ عوام ميں اپني تبليغ و پيغام کو موثر بناسکيں۔ يہي وجہ ہے کہ لوگوں نے اُن کي بات قبول کي۔ اِس کام کيلئے بنو عباس نے (نفسياتي جنگ لڑي اور) پانچ سو سال تک اپنے رسمي لباس اور پرچم کا رنگ سياہ قرار ديا، اُنہوں کالے رنگ کے لباس کو امام حسين کي عزاداري کا رسمي لباس قرار ديا؛ بنو عباس اُس وقت يہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ھَذَا حِدَادُ آلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ ،يہ آل محمد ۰کي عزاداري کا لباس ہے،بنو عباس نے اپني تحريک اِس طرح شروع کي اور ايک بڑي تبديلي کا باعث بنے۔ البتہ يہ لوگ خود منحرف ہوگئے اور بعد ميں خود ہي بنو اميہ کے کاموں کو آگے بڑھانے لگے ،يہ سب کربلا کے اثرات اور نتائج ہيںاور پوري تاريخ ميں ايسا ہي ہوتا رہا ہے۔ جو کچھ ہمارے زمانے ميں وقوع پذير ہوا وہ اِن سب سے زيادہ تھا، ہمارے زمانے ميں ظلم و کفر پورے عالم پر مسلّط ہے اور قانون کي خلاف ورزي، عدل و انصاف کي پائمالي اور ظلم و ستم ايک قانون کي شکل ميں بين الاقوامي سطح پر رائج ہے۔
معرفت کربلا، تعليمات اسلامي کي اوج و بلندي اسلامي تعليمات اور اقدار کا بہترين خزانہ يہاں ہے اور اِن اقدار و تعليمات کي اُوج و بلندي ، معرفت کربلا ہے لہٰذا اِس کي قدر کرني چاہيے اور ہماري خواہش ہے کہ ہم اِن تعليمات کو دنيا کے سامنے پيش کريں۔ ميرے دوستو! اور اے حسين ابن علي پر ايمان رکھنے والو! يہ امام حسين ہي ہيں جو دنيا کو نجات دے سکتے ہيں، صرف شرط يہ ہے کہ ہم کربلا کے چہرے اور اُس کي تعليمات کو تحريف سے مسخ نہ کريں۔ آپ اِس بات کي ہرگز اجازت نہ ديں کہ تحريفي مفاہيم، خرافات اور بے منطق کام، لوگوں کے چشم و قلب کو سيد الشہدا کے چہرہ پُرنور سے دور کردیں؛ ہميں اِن تحريفات اور خرافات کا مقابلہ کرنا چا ہيے۔
ميري مراد صرف دو جملے ہيں؛ ايک يہ کہ خود واقعہ کربلا اور سيد الشہدا کي تحريک؛ منبر پر فضائل و مصائب بيان ہونے کي شکل ميں اُسي قديم وروايتي طور پر باقي رہے يعني شب عاشورااور صبح و روز عاشورا کے واقعات کو بيان کيا جائے۔ عام نوعيت کے حادثات و واقعات حتيٰ بڑے بڑے واقعات، زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ اپني تاثير کھو بيٹھے ہيں ليکن واقعہ کربلا اپني تمام تر جزئيات کے ساتھ اِسي منبر کي برکت سے آج تک باقي ہے، البتہ کربلا کے واقعات کو مستند طور پر بيان کرنا چاہيے۔ جيسا کہ مقاتل کي کتابوں مثلاً ابن طاوس کے مقتل ’’لہوف‘‘ اور شيخ مفيد کي کتاب’’ ارشاد‘‘ ميں بيان کيا گيا ہے، نہ کہ اپني طرف سے جعلي، من گھڑت اور عقل و منطق سے دور (اور اہل بيت کي شان و منزلت کو کم کرنے والي) باتوں کے ذريعہ سے۔ مجلس اور حديث و خطابت کو حقيقي معنيٰ ميں حديث ١ و خطابت ہونا چاہيے۔ خطابت، نوحہ خواني، سلام و مرثيہ خواني، ذکر مصائب اور ماتم زني کے وقت کربلا کے واقعات اور سيد الشہدا کے ہدف کو بيان کرنا چاہيے۔
امام حسين کے اہداف کا بيان وہ مطالب جو خود امام حسين کے کلمات ميں موجود ہيں کہ ’’ما خَرَجتُ اَشِرًا وَلَا بَطَراً وَلَا ظَالِماً وَلَا مُفسِدًا بَل اِنَّمَا خَرَجتُ لِطَلَبِ الاِصلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي ‘‘، يا يہ جو آپ ٴنے فرمايا کہ ’’اَيُّھا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ (صَلَّي اللّٰہ عَلَيہ وآلِہ) قَالَ: مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَافِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘۔ آپ کا يہ حديث نقل فرمانا خود ايک درس ہے يا يہ کہ آپٴ نےنے يہ فر ما يا کہ ’’فمن کان با ذلاً فينا مھجتہ و موطناًعليٰ لقا ئِ اللہ نفسہ فلير حل معنا‘‘،يہاں امام ٴ ملاقات خدا سے ملاقات کي گفتگو کررہے ہيں اور آپ کا ہدف،وہي خلقت ِ بشر کا ہدف ہے يعني ملاقات ِ
١حديث سے مراد نئي با ت؛يعني مراد يہ ہے کہ حديث اور خطابت ميں تعليمات وقرآن واہل بيت کے نئے علمي مطالب، گوشوں ،زاويوں اور نئے پہلووں کو سامعين کے سامنے بيان کرنا چاہيے،جو اُن کي ديني معلومات ميں اضا فے کے ساتھ ساتھ اُ ن کے ايمان ويقين کي پختگي کا سبب بنے۔(مترجم)
خدا۔’’ يٰاَيُّھَا الاِنسَانُ اِنَّکَ کَادِح? اِلٰي رَبِّکَ کَدحًا فَمُلَا قِيہِ‘‘،’’اے انسان!تجھے اپنے پرودگار کي
طرف سختيوں کے ساتھ سفر کرنا ہے اُس کے بعد تو اُس سے ملاقات کرے گا‘‘، اِن تمام زحمتوں اور سختيوں کا ہدف خدا سے ملاقات (فَمُلَاقِيہِ)ہے۔ جو بھي ملاقات خدا کيلئے تيار ہے اور اُس نے لقائ اللہ کيلئے اپنے نفس کو آمادہ کرليا ہے،’’فَليَرحَل مَعَنَا ‘‘ ، ’’تو اُسے چاہيے کہ وہ ہمارے ساتھ چلے ‘‘؛اُسے حسين ابن علي کے ساتھ قدم بقدم ہوناچاہيے اور ايسا شخص گھر ميں نہيں بيٹھ سکتا۔ اِن حالات ميں دنيا اور اُس کي لذتوں سے لطف اندوز نہيں ہوا جاسکتا اور نہ ہي راہ حسين ابن علي سے غافل ہوا جاسکتا ہے لہٰذاہميں ہر صورت ميںامام حسين کے ساتھ ہمراہ ہونا پڑے گا۔ امام عالي مقام ٴ کے ساتھ ساتھ يہ قدم اٹھانااور اُن کے ہمراہ ہونا دراصل ہمارے اپنے اندرکي دنيايعني نفس اور تہذيب نفس سے شروع ہوتا ہے اور اِس کا دائرہ معاشرے اور دنيا تک پھيل جاتا ہے لہٰذا اِن تمام باتوں کو بيان کرنا چاہيے۔ يہ سب سيد الشہدا کے اہداف اور حسيني تحريک کا خلاصہ ہے۔
فداکاري اور بصيرت ، دفاع دين کے لازمي اصول
کربلا اپنے دامن ميں بہت سے پيغاموں اور درسوں کو سميٹے ہوئے ہے۔ کربلا کا درس يہ ہے کہ دين کي حفاظت کيلئے فداکاري سے کام لينا چاہيے اور راہ قرآن ميں کسي چيز کي قرباني سے دريغ نہيں کرنا چاہيے۔ کربلا ہميں درس ديتي ہے کہ حق و باطل کے ميدانِ نبرد ميں سب کے سب، چھوٹے بڑے ، مردو زن، پير وجوان، باشرف و حقير، امام اور رعايا سب ايک ہي صف ميں ميں کھڑے ہوجائيں اور يہ جان ليں کہ دشمن اپني تمام ترظاہري طاقت و اسلحے کے باوجود اندر سے بہت کمزور ہے۔ جيسا کہ بنو اميہ کے محاذ نے اسيرانِ کربلا کے قافلےکے ہاتھوں کوفہ، شام اور مدينے ميں نقصان اٹھايا اور سفياني محاذ کي مانند شکست و نابودي اُس کا مقدر بني۔
کربلا ہميں درس ديتي ہے کہ دفاعِ دين کے ميدان ميں انسان کيلئے سب سے زيادہ اہم اور ضروري چيز ’’لازمي بصيرت‘‘ ہے۔ بے بصيرت افراد دھوکہ و فريب کا شکار ہوکرباطل طاقتوں کا حصہ بن جاتے ہيں اور اُنہيں خودبھي اِس بات کا شعور نہيں ہوتا؛ جيسا کہ ابن زياد کے ساتھ بہت سے ايسے افراد تھے کہ جو فاسق و فاجر نہيں تھے ليکن وہ بصيرت سے خالي تھے۔يہ سب کربلا کے درس ہيں؛ البتہ يہي تمام درس کافي ہيں کہ ايک قوم کو ذلت کي پستيوں سے نکال کر عزت کي بلنديوںتک پہنچاديں۔ اِن درسوں ميں اتني قدرت ہے کہ يہ کفر و استکبار کو شکست سے دوچار کرسکتے ہيںکيونکہ يہ سب تعمير زندگي کے درس ہيں
source : http://www.alhassanain.com