اردو
Tuesday 20th of August 2024
0
نفر 0

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۲) / امام سجاد علیہ السلام کے تربیتی اسلوب (۲)

گزشتہ شمارے میں امام سجادعلیہ السلام کے تین طرح کے تربیتی اہداف ومقاصدکی طرف اشارہ کیا گیا ۔

 ١۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح اور پاکیزہ زندگی ''حیات طیبہ''کا حصول ۔

۲۔ توحید کو مرکزیت اور بنیاد قرار دینا ۔اور٣۔حق کی ہدایت ورہنمائی اور حق کی باطل سے جدائی۔

 اور یہ بھی بیان کیا گیا ان مذکورہ اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ کے بیان کردہ بصیرت اور آئیڈیالوجی عطا کرنا،عفووبخشش جیسے اسلوب لازم ہیں ، لہٰذا اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے امام سجادعلیہ السلام کے بیان کردہ نعمات کی یاد آوری اور تغافل و چشم پوشی جیسے دوسرے اسلوب کو اس شمارے میں قارئین کرام کی خدمت میں بیان کریں گے  تاکہ یہ انسان کو اپنے مقصد خلقت ''قرب الی اللہ ''کی رسائی تک موثر اور معاون ثابت ہوں ۔

١۔ نعمات کی یاد آوری کا طریقہ :

 تربیتی اسلوب میں سے ایک طریقہ نعمتوں کی یادآوری ہے جو تذکر دینے اور یاد دہانی کی بنیاد پر استوار ہے ۔ تذکر اور یاد دہانی کا قانون اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ کبھی کبھار انسان کو اس چیز کے بارے میں جس کا وہ علم رکھتا ہے یاددہانی کرائی جائے کیونکہ انسان اپنے ماضی کو غفلت شعاری کے عالم میں رکھ دیتا ہے ، اس روش اور طریقہ میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان کو جب اپنے آپ کا سامنا ہوجائے اور اپنے آپ کو دقیق دیکھ اور پرکھ لے تو اس وقت وہ نعمتیں جو خداوندعالم نے اسے عطا کی ہیں ان کی مٹھاس اور حلاوت کا مزہ چکھ سکے گا (۱)۔

قرآن کریم میں ایسے بہت سے نمونے اور مثالیں پائی جاتی ہیں کہ جن میں انفرادی زندگی میں نعمتوں کے تذکر اور یاددہانی کا ذکر کیا گیا ہے مثال کے طور پر خداوندعالم کا پیغمبر اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہ وسلّم کو خطاب ہورہا ہے کہ :''ألَم ےَجِدکَ ےَتِیماً فَأَوَیٰ۔وَوَجَدَکَ ضَالاً فَھَدَیٰ۔وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاغَنَیٰ۔فَاَمَّا الےَتِیمَ فَلا تَقھَر۔وَاَمَّا السَّائِلَ فَلا تَنھَر۔وَاَمَّا بِنِعمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث ''۔(۲) یعنی :کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا ۔ لہٰذا اب تم یتیم پر قہر نہ کرنا اور سائل کو جھڑک مت دینا اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو برابر بیان کرتے رہنا ۔

 اسی طرح اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں بھی گمراہی و ضلالت ،تفرقہ واختلاف اورخود بینی وغرور وغیرہ سے رہائی اور نجات دینے کی جیسی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے مثال کے طو پر پروردگار عالم کا ارشاد ہے کہ :''وَاعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّہِ جَمِیعاً وَلا تَفَرَقُّوا وَاذکُرُوا نِعمَةَ اللَََََّہِ عَلَیکُم اِذ کُنتُم اِعدَائً فَأَلَّفَ بَینَ قُلُوبِکُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِہ اِخوَاناً وَکُنتُم عَلَی شَفَا حُفرَةٍ مِّن النَّارِ فَأَقَذَکُم مِّنھَا کَذَالِکَ ےُبَےِّنُ اللَّہُ لَکُم آےَٰتِہ لَعَلَّکُم تَھتَدُون ''(۳)یعنی : اور اﷲ  کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اﷲ کی نعمتوں کو یا د کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے

تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اﷲ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتاہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جائو ۔

امام سجادعلیہ السلام کے کلام مبارک میںنعمات کی یاددہانی کا طریقہ  :

 امام سجاد علیہ السلام دعائے شکر میں خداوند سبحان کی نعمتوں کو ذکر فرمارہے ہیں :''وَالحَمدُ لِلَّہِ الِّذِی أَختَارَ لَنَا مُحَاسِنَ الخَلقِ وَأَجرَی عَلَینَا طَیِِّبَات الرِّزقِ''(۴) یعنی : حمدوثنا اس خدا سے مخصوص ہے جس نے خلقت اور پیدائش کے محاسن اور خوبصورتیاں ہمارے لئے چن لیں اور اسی طرح پاک و پاکیزہ رزق بھی ہمارے لئے اس عالم میں فراہم کئے  ۔

 امام سجادعلیہ السلام دوسری جگہ پر مندرجہ ذیل نعمتوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ خداوند عالم کی مدح سرائی اور حمدو ثنا بجالاتے ہیں :''وَالحَمدُ لِلَّہِ  علی ما عَرَّفنَا مِن نَفسِہ وَأَلھَمَنَا مِن شُکرِہ وَفَتَحَ لَنَا مَن أَبوَابِ العِلمِ بِرَبُوبِےَّتِہ وَدَلَّنَا علیہ من الِاخلاصِ لہ فی تَوحِیدِہ وَجَنِّبنَا مِن الِالحَادِ وَالشَّکِ فی أَمرِہ...،وَالحَمدُ لِلَّہِ الَّذِی دَلَّنَا علی التَّوبَةِ ''(۵) امام سجادعلیہ السلام کے مذکورہ کلام پاک میں ان نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔١۔خدائے سبحان کی معرفت و شناخت؛٢۔توحید میں اخلاص؛٣۔شرک اور الحاد (منکر خدا ہونا)سے دوری  ٤۔توبہ اور استغفار کی طرف ہدایت اور رہنمائی ۔

 امام سجادعلیہ السلام  دعائے ابو حمزہ ثمالی میں نعمات الہی کا ذکریوں فرماتے ہیں :''این عطایاک الفاضلة این مواھبک الھنیئة''(۶) یعنی : خداوندا تیری لا محدود بہترین اور عظیم نعمتیں کدھرا ور کہاں ہیں ؟!  ۔

 امام سجادعلیہ السلام  دوسرے جملہ میں انسانوں کے اعمال کو خدائے سبحان کی نعمتوں کے مقابلہ میںبہت معمولی اور ناچیز (نہ ہونے کے برابر)قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :''وما قدر اعمالنا فی جنب نعمک''(۷) یعنی : تیری رحمتوں اور نعمتوں کے سامنے ہمارے اعمال اور کاموں کی قیمت کچھ بھی نہیں ہے ۔

 ان نعمات کے تذکر اور یاددہانی کے طریقہ کا تربیتی اثر یہ ہے کہ استاد (مرّبی)ایک فرد یا اجتماع کی ماضی میں عطا کی گئی نعمتوں سے غفلت شعاری اور لاپرواہی کو  ذکر اور یاددہانی سے دور کرے اور شاگرد یا شاگردوں میں صحیح اور جائز عمل کرنے اور خطا ومعصیت سے دوری کرنے کے لئے ان میں ایک نیا جوش وجذبہ اور رغبت وچاہت پیدا کرے ۔

 اسی طرح سے استاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ شاگرد کی زندگی میں پیش آنے والی خوشیاں اور سختیاں اس کے دل ودماغ میں زندہ کرے تاکہ استاد کے لئے یہ ممکن ہوسکے کہ شاگرد کو قانع کرکے اس بات کی دعوت دے سکے کہ جو نعمتیں اس کے اختیار میں ہیں ان کو بہترین انداز میں صحیح نتیجہ تک پہنچائے تاکہ اس طرح اس کو ہدایت کے راستے پر گامزن کرسکے ۔

٢۔تغافل اور چشم پوشی کا طریقہ :

تغافل اور چشم پوشی یعنی انسان کسی چیز کا علم رکھتا ہو اور اپنی علم سے بھی آگاہ ہو لیکن اپنے ارادہ اور اختیار سے عمداً اور جان بوجھ کر خود کو ناآشنا، جاہل اور غافل قرار دے اور اس چیز کے عالم نہ ہونے کا اعلان کرے۔ (۸) تغافل اور چشم پوشی ایک نیک اور پسندیدہ صفت ہے اور یہ ائمہ کرام علیہم السلام کے اخلاقی اور تربیتی اصول میں سے ایک قانون قرار دیا جاتا ہے اس کے علاوہ تربیت میں یہ عمل بہترین اور درخشاں آثارونتائج کی حامل ہے ۔ روایات و احادیث میں بھی تغافل اور چشم پوشی اور اس کے تربیتی فوائد اور اثرات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

 امام علی علیہ السلام  تغافل کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :''نصف العاقل باحتمال ونصفہ تغافل '' یعنی : انسان کی عقل کی نصف بناوٹ احتمال کی بنیاد پر استوار ہے اور باقی نصف ڈھانچہ تغافل اور چشم پوشی پر منحصر اور متوقف ہے۔(۹)  اسی طرح ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :''جو شخص بہت سارے امور میں چشم پوشی نہیں بھرتا (اس نے )اپنے آرام وسکون کو متزلزل کردیا ہے ۔ (۱۰)

 تغافل اور چشم پوشی حلم اور تحمّل کی ایک شاخ اور ٹہنی ہے لہٰذا حلم اور تحمّل کے بغیر اس کو حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس بارے میں امیر المومنین علی علیہ السلام  فرماتے ہیں :''لا حلم کالتغافل''(۱۱) یعنی : تغافل اور چشم پوشی کے جیسا کوئی بھی حلم اور بردباری نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ معمولی حیثیت رکھنے والے کاموں میں چشم پوشی کو چشم پوشی کرنے والے کے مقام ومنزلت کی بڑھائی اور فراخدلی کا سبب قرار دیتے ہیں او ر اس طریقہ کار کو انجام نہ دینے کے نقائص اور منفی اثرات کو بیان کرتے ہوئے مخاطب کو اس طریقہ اور عمل کی جانب متحرک اور ہدایت فرماتے ہیں کہ :'' واعظوا اقدارکم بالتغافل عن الدنّی من الامور...ولا تکونوا بحاثین عمّا غاب عنکم فیکثر غائبکم ...وتکرموا بالتّعامی عن الاستقصاء '' (۱۲) یعنی : اپنی قدر و منزلت چشم پوشی کے ذریعہ اس کے سامنے (جن سے تغافل بھرتا جائے)بڑھائیں ...اور ان امور سے جو پوشیدہ ہیں زیادہ تجسّس نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کے عیب نکالنے والے زیادہ ہوجائیں گے (تجسّس یعنی عیوب ونقائص کی تلاش ضرراور نقصان پہنچانے کے لئے کرنا لہٰذا ممنوع  ہے جبکہ تفحّص یعنی علمی اور غیر علمی نیک اور صحیح غرض کی خاطر تحقیق اور جستجو کرنا لہٰذا ممنوع نہیں ہے )...اور جزئی امور میں آنکھیں بند کرکے (چشم پوشی سے )حد سے زیادہ دقت اور تحقیق کرنے سے اپنی بڑھائی کو ثابت کریں  ۔

تغافل اور چشم پوشی کے انواع واقسام :

جہاں تغافل اور چشم پوشی مفید اور مؤثر ثابت ہوتی ہے وہیں بعض جگہوں پر یہی مضّر اور نقصاندہ واقع ہوسکتی ہے لہٰذا ہر جگہ اور ہمیشہ تغافل اور چشم پوشی کرنا مفید اور سودمند واقع نہیں ہوتی ، ائمہ اطہار علیہم السلام نے جس تغافل اور چشم پوشی کی تائید فرمائی ہے وہ ایک پسندیدہ ،مفید اور بہترین صفت اور خوبی کے عنوان سے بیان کی گئی ہے لہٰذا اس کو مزید واضح کرنے کے لئے یہاں پر مثبت ومنفی یا ممدوح و مذموم تغافل و چشم پوشی کی تقسیم  بیان کررہے ہیں ۔

الف:مثبت یا ممدوح تغافل و چشم پوشی :

 ائمہ اطہار علیہم السلام کی اخلاق و تربیت میں تغافل سے مراد یہی قسم ہے یعنی انسان کچھ ایسی چیزوں کا علم رکھتاہے کہ ان کو پوشیدہ ہی رکھنا بہتر ہوتاہے البتہ اس شرط کے ساتھ وہ شخص جانتا ہو اس پوشیدہ مسئلہ کے بیان کرنے سے مضّر اور نقصاندہ نتائج اور اثرات سامنے آئیں گے لہٰذا اپنی بے خبری اور ناآشنائی کا اظہار کرتاہے یا اپنے بڑھاپن اور فراخدلی سے اس کو نظر انداز کردیتاہے تاکہ وہ دوسروں کی عزت و آبرو کے محفوظ رہنے کا باعث بن جائے۔

 دوسروں کے عیوب اور غلطیوں کو پوشیدہ رکھنا نہایت ہی زیادہ مفید اور بہترین عمل ہے کیونکہ ہر شخص جو کسی عیب یا غلطی کا مرتکب ہوجاتاہے اس کی یہی کوشش رہتی ہے کہ دوسروں سے وہ اپنے عیب کو پنہاں اور پوشیدہ رکھے ، تربیتی دنیا میں یہ ثابت ہوا ہے کہ اگر شاگرد کے عیوب سے پردہ اٹھایا جائے تو اس کی اجتماعی عزت او ر مقام کو دھچکہ اور خدشہ لگتاہے ایسا کرنا خودبخود شاگرد کو ایک طرح سے خطا کے ارتکاب کی طرف رغبت دلانا ہے جو گمراہی کا سبب بن سکتاہے ااس لئے کہ جس شخص کے تئیں ہماری نظر مثبت(positive thinking) نہ ہو تو وہ شخص علنی طورپر برے اور ناپسند امور کو انجام دینے میں کوئی خوف ، قباحت اور برائی محسوس نہیں کرے گا۔(۱۳)

ب:منفی یا مذموم تغافل وچشم پوشی :

 البتہ ممکن ہے بعض مواقع پر چشم پوشی کرنے والے شخص میں حسن نیت اور مثبت نگاہ نہ پائی جاتی ہو بلکہ اس کے چشم پوشی اور تغافل کی علت اس کی اپنی نفسانی خواہش اور اس کے برے افکار بنے ہوں مثلا مندرجہ ذیل موارد میں یہ عنصر واضح طور پر پایا جاتا ہے ۔ :

١۔ حسد کرنے والے شخص کی چشم پوشی :

حسود (حسد کرنے والے شخص)اپنے محسود(اس کا دشمن جس سے حسد کرتا ہے )کے برے کاموںسے چشم پوشی کرتا ہے کیونکہ اس کا یہ ارادہ ہوتاہے کہ محسود غلط اور نادرست طریقہ کا ر کو انجام دیتارہے تاکہ خود بخود ایک دن لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوجائے اور اس کی آبرو عزت پائمال ہوجائے۔

٢۔منفعت طلب شخص کی چشم پوشی :

 ایسے شخص کی دوسرے کے گناہوں او رغلطیوںسے چشم پوشی ان کے نفع اور مصلحت میں نہیں ہوتی ہے بلکہ اس تغافل میں اپنا شخصی فائدہ مد نظر رکھا ہوا ہوتاہے اور جب تک اپنا فائدہ حاصل ہورہا ہے چشم پوشی کرے گا لیکن جونہی فائدہ ختم ہوا اپنی چشم پوشی سے ہاتھ اٹھالے گا اور ان کے عیوب اور غلطیوں سے پردہ اٹھانا شروع کرے گا۔

٣۔مقام اور جاہ طلب شخص کی چشم پوشی :

 ایسا شخص اس وقت تک دوسروں کے برے اخلاق اور ان کی غلطیوں سے تغافل بھرتتا ہے اور ان کے کاموں کی برائی سے کسی بات کا اظہار نہیں کرتا ہے جب تک اس کی تنقید اور تنبیہ اس کے (تحت کام کرنے والے )افرادکی ناراضگی کا باعث نہ بن جائے کیونکہ مقا م طلب شخص کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماتحت افراد کی تنقید کرنے کی صورت میں وہ مقام اورپوسٹ تک پہنچنے میں اس کی حمایت نہیں کریں گے ۔(۱۴)

حضرت علی ابن الحسین علیھما السلام کے کلام مبارک میں تغافل اور چشم پوشی کا طریقہ :

 امام سجادعلیہ السلام کے کلام مبارک میں استاد کی شاگرد کے خطائوں سے چشم پوشی کرنے کا طریقہ دو صورتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف:خداوند سبحان کی بندوں کے گناہوں سے چشم پوشی :

 خداوند عالم کی ذات ایسی ہے جو سارے بندوں کا مربی او ر استاد ہے ان کے عیوب اور گناہوں کے چھپانے اور ان کو رسوا نہ کرنے میں اﷲ تعالی کی یہ کوشش رہتی ہے کہ بندوںکو اپنے نزدیک لائے ، قرآن کریم میں اس طریقہ اور روش کی تائید کی گئی ہے (۱۵) اس لئے کہ جب منافقین پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم کو طعنہ دینے اور تکلیف پہنچانے کی غرض سے آپ کو ''اذن''  کہہ کر پکارتے تھے  پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم کو ان کی باتیں سننے کے باوجو د بھی چشم پوشی کیا کرتے تھے کیونکہ آپ اس کے ذریعہ سے منافقین کی ہدایت کرنا چاہتے تھے توخداوند عالم آپ کو بعنوان ''اذن خیر''اور ''رسول رحمت''سے نوازا ۔ (۱۶)

 لہٰذا استا د کی طرف سے شاگرد کے دفاع اور اس کی توجیہ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ استاد کی ہوشیاری اور مہارت کو خدشہ اور ضرر پہنچتاہے بلکہ اصل میں یہ استاد کی بڑھائی اورفراخدلی کا باعث بنتاہے (۱۷) امام زین العابدین علیہ السلام  دعائے ابو حمزہ ثمالی میں خداوند عالم کو ایسے استاد اور مربی کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ جس نے اپنے بندے سے چشم پوشی کی ہے گویا بندہ کسی بھی گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے ، اس کی حمدوثنا اور شکر بجالاتے ہیں کہ :''والحمد للہ الذی یحلم عنّی حتّی کأنّی لاذنب لی'' ۔ (۱۸)

یہاں پر امام سجادعلیہ السلام دعا کی زبان میں سارے اساتید اور مربیوں کو تغافل اور چشم پوشی کے تربیتی طریقہ کو سکھا رہے ہیں اس لئے کہ جب خدائے سبحان اپنے بندوں کے کردار کی اصلاح اور ہدایت کے خاطر ان کی خطائوں اور گناہوںسے چشم پوشی کرتاہے تو سارے بندوں کو تربیت کے مقام پر

اس طریقہ کار کو اپنانا لازمی ہے تاکہ شاگرد کی بہترین اور مثبت تربیت ممکن ہوسکے ! ۔

ب:انسانوں کی آپس میں ایک دوسرے کے تئیں چشم پوشی کرنا :

 امام سجادعلیہ السلام کی نظر میں تغافل اور چشم پوشی تربیت میں ضروری ہونے کے علاوہ اجتماعی زندگی میں بھی لازمی ہے ، سکون واطمینان بخش اور لڑائی جھگڑے سے خالی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے اہم اصول میں ایک قانون ایک دوسرے کی چشم پوشی کرنا ہے اور یہ طریقہ کارانسانی سماج کے دنیوی امور میں بہتر اور منظم بنانے میں بھی ایک وسیلہ کے طور پر شامل کیا جاتا ہے جیسے کہ امام سجادعلیہ السلام اپنے فرزندوں کی وصیت میں چشم پوشی اور تغافل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :''واعلم یا بنیَّ انّ صلاح الدنیا بحَذافِیرِھا فی کلمتین اصلاح شأن المعاش مِلؤ مِکیَال ثلثاہ فطنة وثلثہ تغافل لانَّ الانسانَ لا یتغافل الاّ عن شئیٍ قد عرفہ فَفَطِنَ لہ''یعنی : میرے فرزند بے شک دنیا کے سارے امور کی بہتری دو کلموں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے ، زندگی کے معاش کی اصلاح (بہتری)اور فراہمی ۔ ایسے بھرے ہوئے میزان کی طرح ہے کہ جس کا دو سوم ہوشیاری اور ذہانت اور اس کا ایک سوم چشم پوشی اور تغافل ہے ،کیونکہ انسان چشم پوشی نہیں کرتاہے مگر ایسی چیز سے جس کی وہ پہچان اور اطلاع رکھتا ہو۔    

مقالہ کے تیسرے شمارے میںا سی بحث کو جاری رکھتے ہوئے امام سجادعلیہ السلام کی حیات طیبہ سے محبت و الفت ، نرمی و مہربانی اور انذار و تبشیر یا خوف ورجاء وغیرہ جیسے دوسرے  تربیتی طریقہ کاروں کوقارئین کرام کی خدمت میں بیان کریں گے  ۔    

 (ماخذ :  مجلہ نامہ جامہ  ، شمارہ ٢٥و ٢٦)

'' حوالہ جات  ''

١۔خسرو باقری،نگاہی دربارہ بہ تربیت اسلامی ،ص١٤٨۔

٢۔قرآن کریم ،سورہ مبارکہ ضحی،٦ الی ١١۔

٣۔قرآن کریم ،سورہ مبار کہ آل عمران،١٠٣۔

٤۔صحیفہ سجادیہ،دعائ/١ ۔     

٥۔صحیفہ سجادیہ،دعائ/١۔

٦۔دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔       

 ٧۔دعائے ابو حمزہ ثمالی ۔

٨۔محمد تقی فلسفی ،اخلاق از نظر ھمزیستی وارزش ھای انسانی،ص٤٠٣۔

٩۔محمد محمدی ری شھری،میزان الحکمة،ج٩،ص ٤٣٧٤۔

١٠۔عبد الواحدآمدی،غررالحکم،ج٢،ص٧١٧،ش١٤٨٦۔

١١۔عبد الواحدآمدی،غررالحکم،ج٢،ص٣٤٥۔

١٢۔محمد باقر مجلسی (قدس سرہ)بحار الانوار،ج٧٥،ص٦٤۔

١٣۔آےة اللہ مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن،ج٢،ص٣٥١۔

١٤۔محمد تقی فلسفی ،اخلاق از نظر ھمزیستی وارزش ھای انسانی،ص٢٠٦۔

١٥۔سورہ مبارکہ توبہ آیہ کریمہ ٦١۔

١٦۔خسرو باقری،نگاہی دربارہ بہ تربیت اسلامی ،ص١٣٧۔

١٧۔خسرو باقری،نگاہی دربارہ بہ تربیت اسلامی ،ص١٣٧۔،١٨۔دعائے ابو حمزہ ثمالی،ص٣٣٤۔


source : http://basharatkmr.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5
اقوال حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

 
user comment