سیرت اہلبیت (ع) در عطایا و ہدایا
688۔ رسول اکرم ! ہم غیر مستحق کو بھی دیدیا کرتے ہیں کہ کہیں کوئی مستحق محروم نہ رہ جائے۔( عدة الداعی ص 91)۔
689۔ محمد بن الحنفیہ ! میرے بابا جان رات کی تاریکی میں قنبر کے کاندھے پر آٹا اور کھجور لادکر ان گھروں تک پہنچایا کرتے تھے جنھیں وہ خود جانتے تھے اور کسی کو باخبر نہیں ہونے دیتے تھے ، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ یہ کام تو دن میں بھی ہوسکتاہے فرمایا ” مخفی صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو سرد کردیتا ہے۔( مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 69 / 552 ، ربیع الابرار 2 ص 148)۔
690۔ امام صادق (ع) ! امام حسن (ع) نے اپنے پروردگار کی راہ میں سارا مال تین مرتبہ برابر برابر تقسیم کیا تھا یہاں تک لباس، دینار کے ساتھ نعلین میں بھی غریبوں کو برابر کا حصہ دیا تھا۔( تہذیب 5 ص 11 / 29 ، استبصار 2 ص 141 / 461، حلیة الابرار 3 ص 56 / 5 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) (ع)142 / 236۔ ( 24 ، السنن الکبریٰ 4 ص 542 / 8645 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 14)۔
691۔ حسن بصری ! حضرت حسین (ع) بن علی (ع) ایک سی زاہد ، متقی صالح و ناصح اور بہترین اخلاق کے مالک تھے، ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے ایک باغ میں گئے جہاں آپ کا غلام ”صافی “ رہا کرتا تھا، باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ غلام بیٹھا ہوا روٹی کھارہاہے، آپ ایک خرمہ کے درخت کی آڑ میں ٹھہرگئے، دیکھا کہ غلام آدھی روٹی کھاتاہے اور آدھی کتے کو دیدیتاہے ، کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے کہا کہ شکر ہے خدائے رب العالمین کا پروردگار مجھے اور میرے مولی کو بخش دینا اور انھیں اسی طرح برکت عطا فرمانا جس طرح ان کے والدین کو عطا فرمائی تھی کہ تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔
آپ نے سامنے کر غلام کو آواز دی ، وہ گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور کانپنے لگا، کہنے لگا اے میرے اور جملہ مومنین کے سردار میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا اب مجھے معاف فرمادیجیئے؟
فرمایا تم مجھے معاف کردینا کہ میں تمھارے باغ میں بغیر اجازت کے داخل ہوگیا ، اس نے کہا سرکار ! یہ تو آپ بربنائے شفقت و کرم فرمارہے ہیں ورنہ میں خود ہی آپ کا غلام ہوں۔
فرمایا یہ بتاؤ کہ آدھی روٹی کتے کو کیوں ڈال رہے تھے ؟ عرض کی یہ میری طرف دیکھ رہا تھا تو مجھے حیا آئی کہ میں اکیلے کھالوں اور پھر یہ آپ کا کتاہے اور میں آپ کا غلام اور دونوں کا کام باغ کی حفاظت ہے لہذا دونوں نے برابر سے مل کر کھالیا۔
حضرت یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا اور دو ہزار درہم بھی عطا کئے، غلام نے کہا جب حضور نے آزاد کردیاہے تو کم از کم باغ میں رہنے کی اجازت تو دیجیئے؟ فرمایا مرد وہی ہے جس کے قول و فعل میں فرق نہ ہو، جب میں نے تجھ سے کہہ دیا کہ تیرے باغ میں بلااجازت داخل ہوا ہوں تو اب یہ باغ بھی تیرا ہے۔
صرف یہ میرے اصحاب میرے ساتھ پھل کھانے آئے ہیں تو انھیں اپنا مہمان بنالے اور ان کا اکرام کرتا کہ خدا روز قیامت تیرا اکرام کرے اور تیرے حسن اخلاق میں برکت عنایت کرے۔
غلام نے عر ض کی جب آپ نے باغ مجھے ہبہ کردیا ہے تو میں نے اسے آپ کے شیعوں اور چاہنے والوں کے لئے وقف کردیا ہے۔
حسن بصری کہتے ہیں کہ مرد مومن کا کردار ایسا ہی ہونا چاہیئے اور اولاد رسول کے نقض قدم پر چلنا چاہیئے۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 153)۔
692۔ ابوحمزہ الثمالی ! میں نے امام زین العابدین (ع) کو اپنی کنیز سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے دروازہ سے جو سائل بھی گذرجائے اسے کھانا کھلادینا کہ آج جمعہ کا دن ہے، تو میں نے عرض کی کہ تمام سائل مستحق نہیں ہوتے ہیں ، فرمایا میں اس بات سے ڈرتاہوں کہ کسی مستحق کو دروازہ سے واپس کردوں اور وہ بلاء نازل ہوجائے جو حضرت یعقوب پر نازل ہوئی تھی۔( علل الشرائع 45/1)۔
493۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) قطع تعلق کرنے والوں سے صلہٴ رحم کرتے ہیں اور برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرتے ہیں اور اس میں حسن عاقبت سمجھتے ہیں ۔(کافی 2 ص 488 / 1 از احمد بن محمد بن ابی نصر عن الرضا (ع) )۔
694۔ امام صادق (ع) ! میرے والد کے پاس مال بہت کم تھا اور ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اور ہر جمعہ کو ایک دینار صدقہ میں دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے دن کا صدقہ اسی اعتبار سے فضیلت رکھتاہے جس طرح جمعہ کو باقی دنوں پر فضیلت حاصل ہے۔( ثواب الاعمال 20/1 روایت عبداللہ بن بکیر)۔
695۔ سلمیٰ کنیز امام محمد باقر (ع) ! جب حضرت کے پاس برادران مومنین آتے تھے تو بہترین کہائے بغیر اور بہترین لباس پہنے بغیر نہیں جاتے تھے، اور دراہم اوپر سے دیے جاتے تھے، میں نے حضرت سے گزارش کی کہ اس بخشش میں کچھ کمی کردیں تو فرمایا سلمیٰ ، دنیا کی نیکی صرف اس میں ہے کہ اس سے برادران ایمانی اور جان پہچان والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔( کشف الغمہ 2 ص 330، الفصول المہمہ ص 212)۔
696۔ حسن بن کثیر ! میں نے امام ابوجعفر محمد (ع) بن علی (ع) سے بعض ضروریات کے لئے شکایت کی تو فرمایا بدترین بھائی وہ ہے جو دولت مندی میں تمھارا خیال رکھے اور غربت میں قطع تعلق کرلے، اس کے بعد غلام کو اشارہ کیا اور وہ سات سو درہم کی تھیلی لے کر آیا، آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں انھیں دراہم کو استعمال کرو، اس کے بعد جب یہ خرچ ہوجائیں تو اطلاع کرنا ۔( ارشاد 2 ص166 ، روضة الواعظین ص 225 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 207)۔
697۔ ہشام بن سالم ! امام جعفر صادق (ع) رات کا ایک حصہ گذر جانے کے بعد ایک ظرف میں روٹی ، گوشت اور کچھ درہم اپنے کاندھے پر رکھ کر نکلتے تھے اور مدینہ کے تمام مساکین کے دروازہ پر جاکر تقسیم کردیا کرتے تھے اور کسی کو علم بھی نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب حضرت کا انتقال ہوگیا اور کوئی دروازہ پر نہ آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ شخص امام جعفر صادق (ع) تھے۔( کافی 4 ص 8 /1)۔
698۔ معلی بن خنیس ! امام جعفر صادق(ع) ایک رات میں بیت الشرف سے برآمدہوئے، بارش ہورہی تھی اور آپ بنئ ساعدہ کے چھتہ کی طرف جارہے تھے اتفاق سے راستہ میں کوئی چیز گر گئی ، آپ نے دعا کی خدایا، ہماری چیز کو ہم تک پلٹا دینا ، میں نے سلام کیا ، فرمایا معلیٰ ؟
میں نے عرض کی سرکار ! حاضر ہوں میری جان قربان، فرمایا ذرا ہاتھوں سے تلاش کرو اور جو کچھ مل جائے میرے حوالہ کردو۔
میں نے دیکھا کہ بہت سی روٹیاں بکھری پڑی ہیں، میں نے سب اٹھاکر حضرت کو دیدیں، مگر دیکھا کہ ٹوکری کابوجھ اتنا ہے کہ میں نہیں اٹھا سکتاہوں، میں نے عرض کیا لائیے میں اسے سر پر اٹھالوں، فرمایا نہیں، یہ میرا اپنا کام ہے ، بس تم میرے ساتھ رہو۔
میں ساتھ چلا ، جب بنئ ساعدہ کے چھتہ میں پہنچا تو دیکھا کہ فقراء کی ایک جماعت سورہی ہے ، آپ نے سب کے سرھانے روٹیاں رکھنا شروع کردیں اور جب کا م تمام ہوگیا تو میں نے سوال کیا : کیا یہ لوگ حق کو پہچانتے ہیں ، فرمایا اگر حق کو پہچانتے ہوتے تو اس سے زیادہ ہمدردی کرتا۔( کافی 4 ص 8 /3 ، ثواب الاعمال 173 / 2 مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 75)۔
699۔ ابوجعفر الخثعمی ! امام جعفر صادق (ع)نے ایک تھیلی میں پچاس دینار رکھ کر مجھے دیے کہ بنئ ہاشم میں فلاں شخص کو پہنچا دینا لیکن یہ نہ بتانا کہ کس نے دیے ہیں، میں لے کر گیا اور دیدیا تو اس شخص نے کہا کہ یہ کس نے بھیجے ہیں۔ خدا اسے جزائے خیر دے کہ برابر رقم بھیجتا رہتاہے اور میرا گذرا ہورہاہے۔ ورنہ جعفر کے پاس اس قدر پیسہ ہے اور مجھے کچھ نہیں دیتے ہیں ؟ (امالی الطوسی ص 677 / 1433، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 273)۔
700۔ الہیاج بن بسطام ! حضرت جعفر بن محمد (ع) اس قدر لوگوں کو کھلاتے تھے کہ گھروالوں کے لئے کچھ نہ بچتا تھا۔( حلیة الاولیاء 3 ص 194 ، تذکرة الخواص ص 342 ، سیر اعلام النبلاء 6 ص 262 ، کشف الغمہ 2 ص 369 ، مناقب ابن شہر آشوب4 ص 273 ، احقاق الحق 1 ص 510)۔
701۔ امام کاظم (ع) ! ہم سب علم اور شجاعت میں ایک جیسے ہیں اور عطایا میں بقدر امر الہی عطا کرتے ہیں ۔( کافی 1 ص 275 / 2 ، بصائر الدرجات ص 480 / 3 روایت علی بن جعفر )۔
702۔الیسع بن حمزہ ! ہم لوگ امام رضا (ع) کی محفل میں باتیں کررہے تھے اور بے شمار لوگ حلال و حرام کے مسائل دریافت کررہے تھے کہ ایک لمبا سا نو لاشخص وارد ہواور اس نے کہا السلام علیک یابن رسول اللہ ! میں آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد کا دوست ہوں، حج سے واپس آرہاہوں میرا سارا سرمایہ ختم ہوگیا ہے۔ اب گھر تک پہنچنے کا وسیلہ بھی نہیں ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے شہر تک پہنچا دیں۔ میں اس قدر رقم خیرا ت کردوں گا جتنی آپ مجھ پر صرف کریں گے اس لئے کہ میں مستحق صدقہ نہیں ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ، خدا تم پر رحم کرے۔
اس کے بعد آپ لوگوں سے باتیں کرنے لگے، یہاں تک تمام لوگ اپناکام ختم کرکے چلے گئے، صرف امام ، سلیمان ، جعفر بن خیثمہ اور میں باقی رہ گئے آپ نے فرمایا، اجازت ہے کہ میں گھر کے اندر جاؤں! سلیمان نے کہا کہ آپ خود صاحب اختیار ہیں۔
آپ اٹھ کر حجرہ میں تشریف لے گئے اور ایک ساعت کے بعد دروازہ سے ہاتھ نکال کر فرمایا وہ خراسانی کہا ں ہے، اس نے عر ض کی کہ میں حاضر ہوں ! فرمایا یہ دو سو دینار لے لے اور اپنے ضروریات میں صرف کر اور اسے برکت قرار دے اور اس کے مقابلہ میں صدقہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اب گھر سے باہر چلا جاتا کہ نہ میں تجھے دیکھوں اور نہ تو مجھے دیکھے۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے تو سلیمان نے کہا کہ حضور اس قدر کثیر رقم دینے کے بعد منھ چھپانے کی کیا وجہ ہے ! فرمایا کہ میں اس کے چہرہ پر سوال کی ذلت کا اثر نہیں دیکھ سکتاہوں، کیا تم لوگوں نے رسول اکرم کا یہ ارشاد نہیں سنا ہے کہ چھپاکر ایک نیکی کرنا ستر حج کے برابر ہے اور برائی کا اعلام کرنے والا سوا ہوتاہے لیکن اسے بھی چھپاکر کرنے والا مغفرت کا امکان رکھتاہے ( کیا تم نے بزرگوں کا یہ مقولہ نہیں سناہے کہ جب میں کسی ضرورت سے ان کے دروازہ پر جاتاہوں تو اس شان سے واپس آتاہوں کہ میری آبرو برقرار رہتی ہے۔( کافی 4ص 23 / 3)۔
703۔ محمد بن عیسیٰ بن زیاد ! میں نے ابن عباد کے دربار میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک کتاب نقل کررہے ہیں ، میں نے دریافت کیا کہ یہ کونسی کتاب ہے؟
کہا یہ امام رضا (ع) کا مکتوب ہے ان کے فرزند کے نام ۔! میں نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مجھے بھل مل جائے، ان لوگوں نے دیدیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہے ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ فرزند ! خدا تمہیں طول عمر عنایت کرے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، میں تمھارے قربان ! میں نے اپنی زندگی میں اپنا سارا مال تمھارے حوالہ کردیاہے کہ شائد خدا تم پر یہ کرم کرنے کے تم قرابتداروں کے ساتھ صلہٴ رحم کرو اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت جعفر (ع) کے غلاموں کے کام آؤ؟ پروردگار کا ارشاد ہے ، کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے گا کہ وہ دگنا چوگنا کردے ۔( بقرہ 245)۔
جس کے پاس وسعت ہے اس پر فرض ہے کہ اس میں سے انفاق کرے اور جو تنگی کا شکار ہے اسے بھی چاہیئے کہ جس قدر ہے اس میں سے انفاق کرے۔( سورہ طلاق ص 7)۔
خدا نے تمہیں وسعت دی ہے… فرزند تم پر تمھارا باپ قربان … (تفسیر عیاشی 1 ص 131 / 436)۔
704۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزطنی، میں نے امام رضا (ع) کا وہ مکتوب پڑھاہے جو امام جواد (ع) کے نام تھا اور جس کا مضمون یہ تھا” ابوجعفر ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تمھارے موالی تمھیں چھوٹے دروازہ سے باہر لے جاتے ہیں تا کہ لوگ تم سے استفادہ نہ کرسکیں، یہ ان کے بخل کا نتیجہ ہے ، خبردار ، تمھیں میرے حق کا واسطہ جو تمھارے ذمہ ہے کہ آئندہ تمھارا داخلہ اور خارجہ بڑے دروازہ سے ہونا چاہیئے اور جب سواری باہر نکلے تو تمھارے ساتھ سونے چاندی کے سکہ ہونے چاہئیں ورکوئی بھی آدمی سوال کرے تو اسے محروم نہ کرنا ، اور اگر رشتہ داروں میں کوئی مرد سوال کرے تو پچاس دینار سے کم نہ دینا، زیادہ کا تمھیں اختیار ہے اور اگر کوئی خاتون سوال کرے تو 25 دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ تمھارے اختیار میں ہے، میرا مقصد یہ ہے کہ خدا تمھیں بلندی عنایت فرمائے، دیکھو راہ خدا میں خرچ کرو اور خدا کی طرف سے کسی افلاس کا خوف نہ پیدا ہونے پائے(کافی 4 ص 43 / 5، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 8 / 20 ، شکوة الانوار ص 233)۔
705۔ عبداللہ علی بن عیسیٰ ۔ امام جواد (ع) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اپنی مروت کے برابر عنایت فرمائیے، فرمایا یہ میرے امکان سے باہر ہے، اس نے کہا پھر میری اوقات کے برابر عنایت فرمائیے؟ فرمایا یہ ممکن ہے اور یہ کہہ کر غلام کو آواز دی کہ اسے سو دینا ر دیدو۔( کشف الغمہ 3 ص 158)۔