اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

صلح امام حسن عليہ السلام (2)

ھماري بحث امام حسن عليہ السلام كے بارے ميں چل رھي تھي گزشتہ نشستوں ميں ميں نے جنگ اور صلح پر اسلامي نقطہ نظر كو بيان كيا ھے اور ميں نے وضاحت كے ساتھ بيان كيا ھے كہ تاريخ اسلام سے جو بات ظاھر ھوتي ھے وہ ھے امام وقت جو بھي قدم اٹھاتا ھے وہ عدل وانصاف كے عين تقاضوں كے مطابق ھوتا ھے ۔ ھمارے ائمہ طاھرين (ع) نے اپنے ھر كام، ھر فعل اور ھر عمل ميں جو بھي كيا اللہ تعاليٰ اور اس كے رسول (ص) كي رضا كيلئے كيا ھے ۔ پيغمبر اسلام (ص) نے مختلف مقامات پر صلح كى، مختلف قراردادوں پر دستخط كيے، كبھي مشركين كے ساتھ، تو كبھي اھل كتاب كے ساتھ كبھي آپ كو جنگوں كا سامنا بھي كرنا پڑا۔ ميں نے اپني بات اور گفتگو كو آگے بڑھاتے ھوئے فقھي و عقلي دلائل بھي پيش كيے ھيں ۔ ميرا عرض كرنے كا مقصد يہ تھا كہ دين ايك كامل ترين مذھب اور نظريہ كا نام ھے ايسا نھيں ھے كہ اس كي ھم اپني مرضي كے مطابق تاويل كرتے رھيں۔ زندگي كے تمام شعبوں ميں اس كے حيات بخش اصول پھلے بھي موجود تھے اور آج بھي ھيں اور قيامت تك اس كي حقانيت مسلم طور پر موجود رھے گي۔ اگر صلح كي بات آتي ھے تو اس كي كچھ شرائط ھيں اسي طرح جنگ كے بارے ميں اس كے معين كردہ قوانين موجود ھيں۔ كبھي ايسا بھي ھوتا ھے كہ مزاكرات كي ميز پر بيٹھ كر دشمن كو بات منانا آسان ھوتا ھے اور اس ميں جنگ وجدال كي نوبت نھيں آتي اور كبھي جو بات دشمن جنگ كے ذريعہ مانتا ھے وہ صلح سے پوري نھيں ھوتي ۔ ميں نے گزشتہ محافل ميں وضاحت كے ساتھ گفتگو كي ھے اعتراض كرنے والوں كے اعتراضات كے جوابات بھي ديئے ھيں دراصل امام حسن عليہ السلام كے دور امامت ميں فضا اتني مكدر تھي كہ صلح كے بغير كوئي چارہ كار نہ تھا، گويا آپ صلح كرنے پر مجبور ھوگئے تھے۔ ليكن امام حسين عليہ السلام كے دور ميں زمين و آسمان كا فرق تھا۔ اب ميں اس موضوع پر گفتگو كرنا چاھتا ھوں اس كے بعد فيصلہ آپ كو خود ھي كرنا ھے كہ امام حسن عليہ السلام كو كيا كرنا چاھيے اور امام حسين عليہ السلام كو كيا؟اور ايك نے صلح اور دوسرے نے جنگ كو كيوں چنا؟آيئے چلتے ھيں تفصيل كي طرف:

امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كے ادوار ميں فرق كتنا تھا؟

سب سے پھلا فرق تو يہ ھے كہ امام حسن عليہ السلام اس وقت مسند خلافت پر تشريف فرما ھوئے تو اس وقت معاويہ مضبوط ترين پوزيش بنا چكا تھا۔ حضرت علي عليہ السلام نے زندگي ميں كس طرح كي صعوبتيں اور سختياں برداشت كيں پھر آپ كو كس بيدردي اور مظلوميت كے ساتھ شھيد كرديا گيا؟ اس عظيم اور مظلوم والد كي شھادت كے بعد امام حسن عليہ السلام مسند خلافت پر تشريف لائے، يہ حكومت اندروني سطح پر بہت ھي كمزور ھو چكي تھي۔ تاريخ ميں لكھا ھے كہ امام (ع) كي شھادت كے اٹھارہ روز بعد امام حسن عليہ السلام خليفہ وقت مقرر ھوئے ۔ ان اٹھارہ دنوں كے اندر اندر معاويہ نے خود كو اچھا خاصا مضبوط ومستحكم كر ليا۔ اس نے جگہ جگہ اپني فوجيں پھيلا ديں۔ پھر معاويہ عراق كو فتح كرنے كيلئے ايك كثير تعداد كي فوج اپنے ھمراہ لے كر عازم سفر ھوتا ھے، اور ادھر امام حسن عليہ السلام بے پناہ مشكلات سے دو چار تھے۔ ايك باغي اور سركش شخص آپ كے خلاف بغاوت كر چكا تھا۔ اب يھاں پر امام حسن عليہ السلام كا قتل ھو جانا مسند خلافت كيلئے بہت زيادہ نقصان دہ تھا۔ ابتدائي ابتدائي حالات تھے۔ اس كے بر عكس امام حسين عليہ السلام اس جگہ پر خاموش رھتے يا كسي خاص مصلحت كا انتظار كرتے تو دين محمدي (ص) نعوذ باللہ كب كا مٹ چكا ھوتا ادھر خاموشي عبادت، ادھر جھاد كرنا عبادت، ايك مقام پر سكوت جھاد تھا اور دوسرے مقام پر جھاد ھي جھاد تھا۔ امام حسن عليہ السلام نے ايسے ايسے حالات ميں ظلم وفساد كا مقابلہ كيا كہ اگر كوئي اور ھوتا تو كب كا حكومت وقت كو تسليم كر چكا ھوتا۔ امام حسن (ع) نے مصلحت كے تحت صلح كر لي تھى، ليكن معاويہ كي حاكميت، خلافت كو تسليم نھيں كيا تھا۔ آپ نے كئي سالوں تك معاويہ كي شاطرانہ سياست كا مقابلہ كيا يھاں تك كہ آپ كو دھوكہ و فريب كے ساتھ شھيد كر ديا گيا۔ آپ نے جرأت واستقامت كے ساتھ حالات كا انتھائي جرأتمندي اور پامردي كے ساتھ ڈٹ كر مقابلہ كيا۔ امام حسن (ع) كي حكومت عملي اتني بلند تھي كہ امام حسين عليہ السلام نے بھي اپنے بھائي كي مدبرانہ سياست كي تعريف كر كے اس سياست كو آئيڈيل سياست قرار ديا۔

اس لئے اعتراض كرنے والوں كو سمجھنا چاھيے كہ امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كے حالات ميں زمين و آسمان كا فرق تھا۔ آپ مسند خلافت پر خليفۃ المسلمين كے طور پر تشريف فرما تھے اگر ان كو وھيں پر قتل كيا جاتا تو يہ خليفۃ المسلمين كا مسند خلافت پر قتل تھا جو كہ بہت بڑا مسئلہ تھا، امام حسين عليہ السلام نے بھي مسند خلافت پر شھيد ھونے سے اجتناب كيا۔ ھم ديكھتے ھيں كہ امام حسين (ع) مكہ ميں بھي شھيد نھيں ھونا چاھتے تھے" كيونكہ اس سے مكہ كي بے حرمتي ھوتي۔ ليكن جب ھم ديكھتے ھيں كہ حضرت علي السلام اس وقت غير معمولي طور پر كوشش كرتے ھيں كہ عثمان اپنے دور كے مخالفين كے مطالبات پورے كرتے ھوئے ان كےساتھ صلح كريں۔ آپ ھر صورت ميں عثمان كي حفاظت و سلامتي كے خواھاں تھے، اور گاھے بہ گاھے ان كو مشورے بھي ديا كرتے تھے۔ نھج البلاغہ ميں ھے كہ آپ عثمان كا دفاع كرتے ھيں۔ آپ كا ايك فرمان ھے:

"وخشيت ان اكون اثما" 21

"كہ ميں نے عثمان كا اس قدر دفاع كيا كہ اب مجھے ڈرھے كہ كھيں گناھگار نہ ھو جاؤں۔"

سوچنے كي بات ھے آپ خليفہ صاحب كي حمايت كيوں كرتے تھے؟ اس كي سب سے بڑي وجہ مسند رسول كي حفاظت كرنا تھي۔ آپ كي شبانہ روزي كي كوشش كا مقصد عثمان كو تحفظ فراہم كرنا تھا، كيونكہ يہ مسلمان كيلئے باعث ننگ و عار تھي كہ خليفۃ المسلمين مسند خلافت پر قتل ھو اس سے مسند رسول (ص) كي بے حرمتي ھو گي۔

اس عظيم مقصد كي تكميل كيلئے مولا علي عليہ السلام كو بے تحاشا قربانياں دينا پڑيں۔ دوسري طرف آپ عوامي رد عمل كو بھي نھيں روكنا چاھتے تھے، كيونكہ ھر شخص كو حق حاصل ھے كہ وہ حاكم وقت سے اپني بات كھے اور اس كے سامنے اپنے مطالبات دھرائے۔ آپ لوگوں كو بھي حكومت كے خلاف اجتماع كرنے سے روكنا نھيں چاھتے تھے، اور آپ كي يہ كوشش تھي كہ عثمان كا قتل نہ ھو، كيونكہ آپ مسند رسول كے تحفظ و احترام كو زندگي كا سب سے اولين مقصد سمجھتے تھے۔ بالآخر وھي ھوا كہ جس كا آپ كو ايك عرصہ سے خدشہ تھا كہ عثمان قتل كر ديئے گئے۔ چنانچہ اگر امام حسن عليہ السلام انھي حالات ميں معاويہ كے ساتھ مقابلہ كرتے تو ان كا حال بھي يھي ھوتا جيسا كہ تاريخ اسلام اس امر كي گواہ ھے كہ حضرت امام حسن عليہ السلام كو پتہ تھا كہ وہ شھيد ھو جائيں گے۔ آپ تو صرف مسند خلافت كے احترام كي خاطر خاموش تھے۔ ليكن امام حسين عليہ السلام كي شھادت علم جھاد بلند كرنے والے عظيم مجاھد كي شھادت تھي كہ جنھوں نے ايسے ظالم فاسق وفاجر شخص كي حكومت كے خلاف آواز بلند كي كہ جو خود كو خليفۃ المسلمين كہلواتا تھا۔ حالانكہ اس كا خلافت سے دور تك كا واسطہ نہ تھا، اس لئے تو ميں نے كہا ھے كہ امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كے حالات و واقعات ميں زمين و آسمان كا فرق تھا۔ ايك مقام پر چپ رھنا عبادت تھا اور دوسري جگہ پر ظلم وستم كے خلاف آواز بلند كرنا وقت كا اھم تقاضہ تھا ۔

دوسرا فرق يہ تھا كہ كوفہ كي سرزمين اپني بے وفائي كے باعث حق اور حق پرستوں كيلئے تنگ ھوچكي تھي۔ اگر معاويہ وھاں پر آجاتا تو بڑي آساني سے اس كو فتح كر ليتا، امام حسن عليہ السلام كے حاميوں كي اكثريت رخ موڑ چكي تھى، كوفہ منافقوں كا مركز بن چكا تھا۔ كوفہ ميں سب سے بڑا مسئلہ خوارج كا وجود ميں آنا تھا۔ لوگ جاھليت ميں اس قدر ڈوبے ھوئے تھے كہ حق كو پھچاننا مشكل ھو گيا تھا۔ حضرت علي عليہ السلام نے اس سوسائٹي كو نادانوں اور جاھلوں كي سوسائٹي سے تعبير فرمايا نھج البلاغہ ميں ھے كہ اس وقت كا معاشرہ تعليم وتربيت سے عاري تھا۔ لوگ اسلام كو جانتے تك نہ تھے۔ اسلامي تعليمات كو يكسر بھلا ديا گيا تھا۔ وہ لوگ مسلمان ھونے كا دعويٰ تو كرتے تھے ليكن دراصل وہ اسلام كي الف با سے بھي واقف نہ تھے۔

بہر حال كوفہ ميں عجيب ماحول پيدا ھو چكا تھا۔ معاويہ كوفہ ميں اپني بنياديں مستحكم كر چكا تھا اس نے پيسہ خرچ كر كے كوفيوں كو خريد ليا تھا۔ جگہ جگہ پر جاسوس پھيلے ھوئے تھے۔ حكومتي مشينري نے معاويہ كے حق ميں اور امام حسن عليہ السلام كے خلاف وسيع پيمانے پر پروپيگنڈا كر ركھا تھا۔ اگر اس وقت امام حسن (ع) انقلاب برپا كرتے تو لوگوں كا ايك انبوہ معاويہ كے خلاف كھڑا ھو جاتا ۔ شايد تيس چاليس آدميوں كا لشكر آمادۂ پيكار ھوتا۔ تاريخ ميں يھاں تك ملتا ھے كہ امام حسن عليہ السلام ايك لاكھ تك افراد كو جمع كرسكتے تھے۔ آپ معاويہ كے ڈيڑھ لاكھ فوجيوں كا مقابلہ كر سكتے تھے ليكن اس كا نتيجہ كيا ھوتا؟ جنگ صفين ميں حضرت علي عليہ السلام نے آٹھ مھينوں تك معاويہ سے مقابلہ كيا۔ اس وقت عراقي فوجيں خاص كر مضبوط تھيں۔ آٹھ مھينوں كي مسلسل جنگ ميں معاويہ مكمل طور پر جنگ ھار چكا تھا، چند غداروں نے مولا مشكل كشا كے خلاف سازش كر كے قرآن مجيد كو نيزوں پر بلند كركے ميدان جنگ ميں لے آئے۔

اگر امام حسن (ع) جنگ كرتے تو شام و عراق كي دو مسلمان فوجوں كے ما بين جنگ طول پكڑ جاتي اور ھزاروں قيمتي جانوں كا ضياع ھوتا، اس سے حاصل كيا ھوتا؟جھاں تك تاريخ بتاتي ھے وہ يہ ھے كہ معاويہ اپني تمام تر چالاكيوں كي وجہ سے كامياب ھو جاتا، اب آپ ھي اندازہ كريں كہ امام حسن عليہ السلام دو سالوں تك جنگ كرتے اور ھزاروں افراد قتل ھوتے اور نتيجہ مسند خلافت پر امام حسن عليہ السلام كي شھادت پر منتج ھوتا۔ امام حسن عليہ السلام كے پاس بھتر (۷۲) اشخاص موجود تھے۔ آپ نے ان كو بھي واپس بھيج ديا اور فرمايا تم سب يھاں سے چلے جاؤ۔ ميں جانوں اور دشمن كي فوج جانے اور اگر ميں اس حال ميں شھيد ھو جاؤں تو اس سے بھتر ميرے لئے كيا اعزاز ھو گا۔

چنانچہ يہ وجوھات تھيں كہ جن كي وجہ سے امام حسن عليہ السلام كو صلح كرنا پڑي۔ ايك يہ كہ آپ نہ چاھتے تھے كہ دشمن آپ كو مسند رسول پر قتل كركے اس عظيم مسند كي توھين كرے۔ دوسرا آپ يہ بھي پسند نہ كرتے تھے كہ مسلمانوں كا قتل عام ھو۔ آپ اس وقت معاويہ كي فوج كے ساتھ بھر پور مقابلہ كرنے كي صلاحيت ركھتے تھے، ليكن آپ نے امن و عامہ كي بحالي و برقراري اور مسند رسول كے تحفظ واحترام كي خاطر ھتھيار اٹھانے اور حملہ كرنے كے بجائے صلح و آشتي كو ترجيح دي۔ آپ نے اپنے قول و فعل كردار و گفتار كے ذريعہ ثابت كرديا كہ خاندان رسالت اسلامي و انساني اقتدار كي كس طرح پاسداري كرتا ھے۔

صلح حسن (ع) اور قيام حسيني (ع) كے محركات

حضرت امام حسن عليہ السلام اور حضرت امام حسين عليہ السلام كے حالات ميں بہت زيادہ فرق تھا۔ امام حسين عليہ السلام كے عظيم انقلاب اور بے نظير جھاد كے تين محركات ھمارے سامنے آتے ھيں ميں ان تينوں عوامل پر روشني ڈالنے كي كوشش كرتا ھوں، جبكہ امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام كے دور ميں صورت حال كچھ اور طرح كي تھي۔

حسيني (ع) انقلاب كا پہلا محرك يہ تھا ظالم حكومت نے امام حسين عليہ السلام سے بيعت كرنے كا مطالبہ كيا كہ:

"خذ الحسين بالبيعۃ اخذا شديدا ليس فيہ رخصۃ"

كہ امام حسين عليہ السلام كو بيعت كيلئے گرفتار كر لے اور مضبوطي كے ساتھ پكڑ لے يھاں تك كہ وہ بيعت كيے بغير كھيں نہ جاسكيں۔"

وقت كے فاسق وفاجر شخص نے وقت كے سب سے بڑے امام اور معصوم ھستي سے بيعت كا تقاضا كيا جو كہ ناممكن تھا۔ امام عالي مقام نے جو جواب ديا وہ يہ تھا ميں اور يزيد كي بيعت يہ ھرگز نھيں ھوسكتا۔ حق اور باطل كي پيروي يہ نا ممكن بات ھے۔ كہاں وہ بدترين شخص اور كھاں ميں پروردہ عصمت! بھلا رات اور دن بھي ايك جگہ پر جمع ھوسكتے ھيں۔ يہ بہت مشكل بات ھے۔ ليكن امام حسن عليہ السلام سے معاويہ نے صلح كي پيشكش تو كي تھي۔ بيعت كا تقاضا نہ كيا تھا يہ نھيں كہا تھا كہ آپ ميري خلافت كو تسليم كر ليں۔ يہ بات تاريخ كي كسي كتاب ميں نھيں ھے كہ معاويہ نے امام عليہ السلام سے بيعت كرنے كا كہا ھو، يا امام (ع) كے كسي صحابي يا كسي ماننے والے سے بيعت كا تقاضا كيا ھو ۔ دراصل ان كے درميان بيعت كي بات بھي نہ تھي۔ يھي وجہ ھے كہ مسئلہ بيعت نے امام حسين عليہ السلام كو قيام كرنے اور علم جھاد بلند كرنے پر مجبور كيا۔ اور يہ مجبوري امام حسن (ع) كو درپيش نہ تھي اگر اس طرح كا مسئلہ ھوتا تو امام حسن عليہ السلام اسي طرح كرتے جس طرح ان كے عزيز ترين بھائي امام حسين عليہ السلام نے كيا تھا۔

قيام حسيني (ع) كي دوسري وجہ! دعوت كوفہ تھى، وھاں كے لوگوں نے بيس سال تك معاويہ كے مظالم برداشت كيے اور وہ بہت تھك چكے تھے۔ ان كو امام عادل كي آمد كا بے چيني سے انتظار تھا۔ كوفہ كي فضا كا رنگ يكسر بدل چكا تھا۔ ايك بہت بڑے انقلاب كي پيشين گوئي كي جارھي تھي۔ كوفہ والوں نے امام حسين عليہ السلام كي طرف بيس ھزار خطوط ارسال كيے ان سب ميں ان لوگوں كا صرف ايك ھي مطالبہ تھا كہ مولا آپ سرزمين كوفہ پر قدم ركھ كر ھماري آنكھوں كو ٹھنڈا كيجئے ۔ اب ھم سے آپ كا مزيد انتظار نھيں كيا جاتا۔ ليكن امام حسين عليہ السلام جب تشريف لائے تو كوفہ والے بالكل انجان بن چكے تھے۔ تاريخ نقطہ نظر سے اگر امام عالي مقام اھاليان كوفہ كے خطوط كو اھميت نہ ديتے تو تاريخ ميں آپ پر اعتراض كيا جا سكتا تھا۔ دنيا والے كہہ سكتے تھے كہ كوفہ كي سرزمين انقلاب كيلئے بالكل تيار تھي ليكن امام حسين عليہ السلام تشريف نہ لائے۔ ليكن امام حسن عليہ السلام كو اس طرح كا مسئلہ در پيش نہ تھا ۔ اس وقت كا كوفہ اندروني طور پر ٹوٹ پھوٹ كا شكار تھا۔ لوگوں كي سوچيں بكھري اور اذھان پريشان تھے۔ ايسا كوفہ كہ جو اختلافات كا مركز بن چكا تھا ۔ وہ كوفہ كہ جس كي حضرت علي عليہ السلام نے آخر وقت ميں مذمت كي تھي۔ آپ نے خدا سے دعا كي تھي كہ بار الہا! مجھے ان لوگوں كے درميان سے اٹھا ليجئے اور ان پر ايسا حكمران مسلط فرما كہ جس كے يہ اھل ھيں۔ تاكہ ان كو ميري حكومت كي قدر معلوم ھوسكے۔

ميں جو عرض كرنے لگا ھوں وہ يہ ھے كہ كوفہ تيار ھے ۔ يہ امام حسين عليہ السلام سے اتمام حجت كے طور پر كہا گيا تھا، حالانكہ حقيقت ميں وہ كسي صورت ميں بھي انقلاب كيلئے سازگار نہ تھا۔ اب اگر امام عالي مقام لوگوں كے اس مطالبہ پر خاموش رھتے تو كھنے والے كہہ سكتے تھے كہ امام عليہ السلام نے مسلمانوں كي (نعوذباللہ) پروا نھيں كى، ليكن امام حسن عليہ السلام كا معاملہ اور تھا۔ آپ كے دور ميں كوفہ كے لوگوں نے اپني بے وفائي دكھادي تھي اور انھوں نے يہ بات واضح كر دي تھي كہ وہ امام (ع) كا ساتھ دينے كيلئے بالكل تيار نھيں ھيں۔ كوفہ كي فضا اس قدر بدلي ھوئي تھي اور كوفي اس قدر بے وفا تھے كہ امام حسن عليہ السلام كوفيوں سے ملنا جلنا قطعي طور پر پسند نہ كرتے تھے۔ آپ گھر سے آتے جاتے وقت بہت زيادہ محتاط ھوتے يھاں تك كہ آپ اپنے لباس كے اندر زرہ پھن كر آتے تھے تاكہ خدا نخواستہ اگر كوئي شر پسند حملہ كرے تو آپ اپنا تحفظ كرسكيں۔ دوسري طرف آپ كو خوارج اور معاويہ سے سخت جاني خطرہ تھا۔ ايك مرتبہ آپ نماز پڑھنے ميں مشغول تھے تو اچانك آپ پر كسي نے تير پھينكنے شروع كر دئے چونكہ آپ نے لباس كے نيچے زرہ پھن ركھي تھي اس لئے اس ظالم كا حملہ كار آمد نہ ھوا۔ اور آپ بچ گئے چونكہ كوفہ والوں نے امام حسين عليہ السلام كو كوفہ ميں آنے كي دعوت دي تھي اس لئے آپ كي شرعي ذمہ داري تھي كہ احسن طريقے سے ان كے خطوط كا جواب ديں۔ اور امام حسن عليہ السلام كے دور امامت ميں كوفہ كي سرزمين نفاق اگل رھي تھي چاروں طرف بغض و عناد كي چنگارياں نكل رھي تھيں حالات يہ تھے كہ بكھرتے چلے جارھے تھے اس لئے آپ نے خاموشي اختيار كي۔

امام حسين عليہ السلام كے قيام كا تيسرا محرك امر بالمعروف اور نھي عن المنكر كي اھم ذمہ داري نبھانا تھي۔ قطع نظر اس كے كہ حكومت وقت نے امام حسين عليہ السلام سے بيعت طلب كى، اور قطع اس كے كہ امام حسين عليہ السلام كو كوفہ ميں آنے اور ان كي ھدايت كرنے كي دعوت دي گئي تھي۔ اتمام حجت كے طور پر ان كو كوفيوں كے خطوط كا مثبت جواب دينا تھا دوسرے لفظوں ميں اگر امام حسين عليہ السلام سے وہ بيعت طلب نہ كرتے تب بھي آپ كو قيام كرنا تھا اگر كوفہ آنے كي دعوت نہ ديتے تب بھي آپ كو يزيدي حكومت كے خلاف قيام كرنا تھا۔ يہ تھا امر بالمعروف اور نھي عن المنكر۔ اگر چہ معاويہ نے بيس سال تك حكومت كي اور اس نے اسلامي تعليمات كے خلاف بے شمار اقدامات كيے وہ واقعتاً ايك ظالم حكمران تھا اس كي بدعنوانياں اور زيادتياں سب پر عياں تھيں اس نے احكام شريعت ميں كمي بيشي كي تھي بيت المال كو ذاتي مقاصد كيلئے استعمال كيا، محترم اور قابل قدر انسانوں كا خون بھي بہايا ۔ غرضيكہ وہ سياہ و سفيد كا مالك تھا۔ اس كے جو جي ميں آيا كيا ان تمام گناھوں كے باوجود اس نے ايك ايسا بڑا جرم اور گناہ كبيرہ سے بڑھ كر گناہ كيا وہ يہ كہ اس نے اپنے ظالم، بے دين، فاسق و فاجر شرابي بيٹے كو مسند خلافت پر بٹھا ديا۔ ھم پر شرعي فرض عائد ھوتا ھے كہ اس پر اعتراضات كريں، اس سے پوچھيں كہ اس نے ايسے نااھل شخص كو عظيم منصب پر كيوں بٹھايا؟ حالانكہ امام حسين عليہ السلام جيسي جليل القدر موجود شخصيت تھي۔ پيغمبر اكرم (ص) كا ارشاد گرامي ھے كہ:

"من راي سلطانا جائزا مستحلا لحرام اللہ ناكثا عھدہ، مخالفا لسنۃ رسول اللہ يعمل في عبادا للہ بالاثم والعدوان" فلم يغير عليہ بفعل ولاقول، كان حقا علي اللہ ان يدخلہ مدخلہ الا وان ھولاء قد لزموا اطاعۃ الشيطان" 22

"اگر كوئي شخص ايك ايسے ظالم حكمران كو ديكھے جو حلال خدا كو حرام كر دے اور اس سے كيے گئے وعدے كو توڑ دے سنت پيغمبر (ص) كے خلاف عمل كرے، لوگوں ميں گناہ كا مرتكب ھو تو لوگ اس كو قول و فعل كے ذريعہ منع نہ كريں تو خدا وندكريم اس كو ضرور ھي ايسا عذاب دے گا جس كا وہ حكمران مستحق ھوگا"۔

معاويہ كے دور حكومت ميں ايسا ھي تھا۔ امام حسن عليہ السلام اس كے كاموں پر راضي نہ تھے اور اس كو مظالم اور گناھوں سے باز رھنے كي تلقين بھي كرتے تھے۔

معاويہ حضرت علي عليہ السلام كے دور خلافت ميں يہ ڈھنڑورا پيٹتا رھا كہ ميں عثمان كے خون كا بدلہ لينا چاھتا ھوں ليكن اب وہ كھتا تھا كہ ميں قرآن و سنت اور سيرت خلفاء پر سوفي صد عمل كروں گا۔ اپنا جانشين بھي مقرر نھيں كرتا۔ ميري خلافت كے بعد يہ خلافت حضرت حسن بن علي عليہ السلام كو منتقل ھو جائے گي۔ گويا اس نے واشگاف الفاظ ميں اعتراف كيا خلافت امام حسن عليہ السلام كي ھے اور آپ ھي اس كے سزاوار ھيں۔ في الحال آپ يہ ذمہ داري مجھے سونپ ديں ميں ان شرائط كے تحت عمل كروں گا۔ اس نے ايك سفيد كاغذ امام عليہ السلام كي خدمت ميں روانہ كيا اور اس پر اپنے دستخط بھي كر ديئے اور كہا كہ امام حسن عليہ السلام جو بھي مناسب سمجھيں اپني شرائط لكھ ديں، ميں ان كو قبول كرتا ھوں۔ ميں صرف حاكم وقت كے طور پر كام كرنا چاھتا ھوں اور ميري كوشش ھوگي كہ اسلامي قوانين كے مطابق حكومت كروں۔ دراصل يہ ايك طرح كي معاويہ كي شاطرانہ چال تھي۔ اب اگر فرض كريں كہ ايسا ايك عظيم امام عليہ السلام كے ساتھ كيوں ھوا ھے كہ معاويہ نے سفيد كاغذ بھيج كر امام عليہ السلام سے دستخط لئے اور كچھ شرائط پيش كر كے يہ باور كرانا چاھتا تھا كہ آپ ايك كنارے پہ چلے جائيں۔ آپ كو خلافت كي ضرورت ھي نھيں ھے آپ كي جگہ پر ميں جو ھوں۔ رھي بات اسلامي قوانين كے نفاذ كي تو ميں كرلوں گا۔ اب اگر آپ ھماري شرائط قبول نھيں كريں گے تو ايك خوني جنگ شروع ھو جائے گي۔

لھذا آپ چھوڑيں سب باتوں كو اور ايك گوشہ ميں بيٹھ كر اللہ اللہ كريں۔ اگر امام حسن عليہ السلام اس مقام پر صبر وتحمل سے كام نہ ليتے تو ايك بہت بڑي جنگ چھڑ سكتي تھي يہ جنگ دو تين سالوں تك لڑي جاتي اور اس ميں ھزاروں افراد لقمہ اجل ھوتے جاني ومالي نقصان كےساتھ ساتھ امام حسن (ع) بھي شھيد ھوجاتے تو آج تاريخ اسلام امام حسن عليہ السلام پر اعتراض كر سكتي تھي كہ آپ نے جنگ كي بجائے امن كو ترجيح كيوں نھيں دى؟ امام عليہ السلام نے اس ميں صلح كو ترجيح دي۔ پيغمبر اسلام نے (ص) نے بھي كئي موقعوں پر صلح كي تھي انسان كو كھيں تو صلح كرني چاھيے۔ كيا ايسا نھيں ھے كہ معاويہ صرف حكومت چاھتا تھا نہ وہ آپ سے يہ خواھش كرتا تھا كہ آپ (ع) اس كو بطور خليفہ تسليم كريں اور وہ يہ نہ كھتا تھا كہ آپ اسے امير المومنين (ع) كا لقب دے كر پكاريں۔ وہ آپ سے بيعت كا مطالبہ كرتا ھے اگر آپ كھيں كہ آپ كي جان خطرے ميں ھے تو وہ آپ كے بابا علي عليہ السلام كے شيعوں كو امن وامان كے بارے ميں لكھ كر دينے كو تيار ھے صفين كي تمام ناراضگياں ختم كرتا ھوں۔ آپ كي مالي پريشاني دور كرتا ھوں، حسب ضرورت رقم بھي ديتا ھوں تاكہ آپ كسي قسم كي اقتصادي مشكلات كا شكار نہ ھوں۔ آپ اور آپ كے شيعہ آرام سے زندگي بسر كريں۔

اگر امام حسن عليہ السلام ان شرائط كے ساتھ صلح نہ كرتے تو آج بھي تاريخ ان پر يہ اعتراضات كرسكتي تھي جب آپ نے معاويہ كي شرائط كو مان ليا تو تاريخ آج اس كي مذمت كرتي ھوئي نظر آتي ھے ۔ كہ معاويہ ايك چالاك وعيار سياستدان تھا وہ ان شرائط كي آڑ ميں دنياوي فوائد حاصل كرنا چاھتا تھا۔ وہ حكومتى، سياسي مفادات كے تحفظ كے سوا اور كچھ نہ چاھتا تھا۔ يھي وجہ ھے كہ جب وہ مكمل طور پر مسند حكومت پر بر اجمان ھوگيا تو وہ نہ فقط ان طے كردہ شرائط كو بھول گيا بلكہ وہ امام عليہ السلام كو طرح طرح كي اذيتيں دينے لگا۔ تاريخ گواہ ھے كہ وہ كوفہ ميں آتا ھے تو لوگوں ميں تقرير كرتے ھوئے واشگاف الفاظ ميں اعلان كرتا ھے اے كوفہ والو! ميں نے پہلے آپ سے جنگ اس لئے نھيں كي كہ نماز پڑھيں، روزہ ركھيں، حج كريں اور زكوٰۃ ديں" ولكن لا تامركم عليكم"بلكہ اس لئے جنگ كي كہ آپ پر حكومت كروں۔ پھر جب اس نے محسوس كيا كہ يہ ميں نے كيا كہا تو پھر پينترا بدل ليا اور كہا اس قسم كے مسائل آپ خود حل كريں ميں ان مسائل كے بارے ميں كيا كيا كرتا پھروں۔ پہلے تو اس نے خود ھي يہ شرط لگا دي كہ ميرے مرنے كے بعد خلافت امام حسن عليہ السلام كو ملے گي اور ان كے بعد امام حسين عليہ السلام كو ليكن سات آٹھ سالوں كے بعد جب اس نے ديكھا كہ اس كي حكومت ختم ھونے والي ھے تو اس نے يزيد كي خلافت كا مسئلہ شروع كرديا چونكہ حضرت علي عليہ السلام كے ماننے والے اس كي قرار داد كو جانتے تھے اس لئے انھوں نے اس كے اس پروگرام كي مخالفت كي۔

تو اس نے مومنين كےساتھ وھي كيا جو كہ ايك ظالم حكمران اپني رعيت كے ساتھ كرتا ھے۔ واقعتاً معاويہ شروع ھي سے شاطر وعيار شخص تھا۔ فقھاء اسلام نے اس كو خلفاء كي فھرست سے اس لئے خارج كرديا كہ اس كے سياہ اعمالناموں كو ديكھ كر تاريخ اسلام شرما اٹھتي ھے۔ وہ ان حكمرانوں سے بھي پست سوچ ركھتا تھا جو عام دنيا كي خاطر صرف اور صرف حكومت كرنے آتے ھيں۔ اس طرح كے بادشاہ اپني حفاظت كرتے ھے اور اپني ھي حكومت كي بقاء چاھتے ھے ان درباروں ميں فقط خوشامديوں كو نوازا جاتا ھے۔ معاويہ كي تاريخ كو پڑھا جائے تو اس كو كسي طرح كوئي بھي مسلمانوں كا خليفہ كہنا پسند نھيں كرے گا۔ يھي وجہ ھے جب امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے حالات كا موازنہ كرتے ھيں تو ديكھتے ھيں كہ ان دونوں شھزادوں، آقا زادوں كے حالات كا آپ ميں بہت زيادہ فرق ھے۔ پھر حالات بدلے، زمانہ بدلا، منبر رسول (ص) پر وہ شخص بر اجمان ھوا جو اسلام تو اسلام انسانيت كا دشمن تھا۔ اس وقت امام حسين عليہ السلام نے جو موقف اختيار كيا قيامت تك آنے والے حق پرست اس جملے كو سلام عقيدت پيش كرتے ھوئے نظر آئيں گے۔ امام حسين عليہ السلام نے فرمايا:

"من راي سلطانا جائزا مستحلا لحرام اللہ كان حق علي اللہ ان يدخلہ مدخلہ"

كہ اگر كوئي ظالم شخص كي حكومت كو ديكھے كہ وہ ايسے ايسے كام كررھا ھو اور ان كو ديكھ كر وہ چپ رھے تو اللہ تعاليٰ كے نزديك وہ گناھگار ھے۔"

اس وقت امام حسن عليہ السلام نے اسلام كي عظيم تر مصلحتوں اور حكمتوں كے مطابق عمل كرتے ھوئے مكر وفريب كے مقابلے ميں امن وشرافت كي وہ داغ بيل ڈالي كہ انسانيت قيامت تك اس پر فخر كرتي رھے گي۔ دراصل امام حسن عليہ السلام كي صلح قيام حسيني (ع) كے لئے پيش خيمہ تھي۔ ضروري تھا كہ امام حسن عليہ السلام ايك عرصہ تك كے لئے خاموش ھو جائيں تاكہ اموي خاندان كي اصليت اور حقيقت لوگوں پر آشكار ھو جائے اور اس كے بعد ايسا عالمگير انقلاب آئے جو ھميشہ ھميشہ كے لئے تاريخ انساني كے ماتھے كا جھومر بن جائے۔ معاويہ نے جب قرارداد كے اصولوں كي كہلے عام خلاف ورزي كي تو امام حسن عليہ السلام كے كچھ شيعہ آپ كي خدمت ميں آئے اور عرض كي يا حضرت (ع) ! اب وہ قرارداد خودبخود ختم ھوگئي ھے كيونكہ معاويہ نے اس كو خود ھي منسوخ كرديا ھے اور اس كے اصولوں كو پامال كرديا ھے لہذا آپ اٹھيے، قيام فرمايئے، فرمايا يہ انقلاب معاويہ كے بعد ھي آئے گا يعني آپ لوگ صبر كريں۔ ايك مناسب وقت كا انتظار كريں، يھاں تك صورت حال واضح ھوجائے۔ وھي وقت وقت قيام ھوگا۔ اس سے معلوم ھوتا ھے كہ امام حسن عليہ السلام معاويہ كے بعد تك زندہ رہ جاتے تو آپ وھي كرتے جو كہ امام حسين عليہ السلام نے كيا تھا۔ آپ ھر صورت ميں علانيہ طور پر علم جھاد بلند كرتے ۔ متذكرہ بالا قيام حسيني كے تين محركات كا جائزہ لينے سے يہ حقيقت روز روشن كي طرح واضح ھوجاتي ھے كہ امام حسن عليہ السلام كا زمانہ امام حسين عليہ السلام كے دور سے يكسر مختلف تھا۔ ايك جگہ پر خاموشي مصلحت تھى، سكوت عبادت تھا اور دوسري جگہ پر كلمہ حق بلند كرنا، يزيديت كے خلاف آواز بلند كرنا عبادت تھي۔ ايك امام سے بيعت طلب نھيں كي گئي اور دوسرے سے كي گئي دراصل بيعت كرنا بذات خود بہت بڑا مسئلہ ھے۔

ميں پہلے بھي عرض كر چكا ھوں كہ اگر امام حسين عليہ السلام كوفہ والوں كي درخواست مسترد كرديتے تو دامن عصمت پر اعتراض ھو سكتا تھا۔ ليكن امام عالي مقام كے انقلاب آفرين كردار نے ايسا انقلاب برپا كيا كہ بيس سال كے بعد كوفہ پھر اور كوفہ تھا۔ اس كوفے والے بني اميہ سے سخت نفرت كرنے لگے، امام علي عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام سے اظھار عقيدت ھونے لگا، آج كے لوگ امام حسين عليہ السلام كي مظلوميت پر آنسو بہارھے تھے۔ درختوں نے پھل دينے شروع كيے ھيں۔ زمينيں سرسبز شاداب ھو چكي ھيں۔ مولا تشريف لے آيئے۔ يھاں كي فضا ساز گار ھے۔ اسي طرح كي دعوت اس بات كي مقتضي تھي كہ آپ كوفہ جائيں۔ جبكہ امام حسن عليہ السلام كے زمانے كا كوفہ كچھ اور طرح كا كوفہ تھا۔ امام حسن عليہ السلام كے خاموش اور پر حكمت انقلاب نے ايك نئي تاريخ مرتب كي اور ايك عالمگير انقلاب كي كاميابي كا راستہ ھموار كيا۔ تيسرا محرك حكومت كي بد عملي تھي امام حسن عليہ السلام كے دور ميں معاويہ اتنا كھل كر فسق و فجور نہ كرتا تھا كہ جتنا يزيد نے كيا ۔ امام حسن عليہ السلام نے ايك وقت كا انتظار كيا۔ اور اسي وقت كي ذمہ داري آپ كے پيارے بھائي نے اپنے ھاتھوں پر لي۔ اسلام كے مرجھائے ھوئے درخت اور كملائے ھوئے پھولوں ميں وہ جان ڈالي كہ وہ درخت قيامت تك كے اجڑے ھوئے انسانوں اور لٹے ھوئے قافلوں كو غيرت و حيرت كے ساتھ جينے كا حوصلہ ديتا رھے گا۔

قرار داد ميں كيا تھا؟

اب ميں آپ كے سامنے وہ قرار داد كي عبارت پيش كرتا ھوں جو كہ معاويہ نے امام حسن عليہ السلام كے ساتھ باندھي تھى:

1) معاويہ كي حكومت واگزار كي جارھي ھے اس شرط كے ساتھ كہ وہ قرآن و سنت اور سيرت خلفاء پر عمل كرے گا۔ ميں يھاں پر ايك ضروري بات كرنا چاھتا ھوں وہ يہ كہ حضرت امير المومنين عليہ السلام كا ايك اصول تھا كہ خلافت ميرے ھاتھ ميں ھو يا كسي اور كے ھاتھ ميں باوجوديكہ خلافت ميرا حق ھے ميں قيام نھيں كروں گا، يہ لوگوں كا كام ھے، ميں اس وقت قيام كروں گا جب خلافت غصب كي جارھي ھوگي نھج البلاغہ ميں ارشاد فرماتے ھيں:

"واللہ لا سلمن ما سلمت امور المسلمين ولم يكن فيھا جورالاعلي خاصۃ"

امام حسن عليہ السلام كي قرارداد بھي يھي تھي كہ جب تك فقط مجھ پر ظلم كيا جارھا ھو، اور ميرا حق غصب كيا گيا ھو تب تك ميں خاموش رھوں گا ليكن جب كوئي غاصب حكمران مسلمانوں كے شرعي امور ميں داخل اندازي كرنے لگ جائے تو پھر خاموشي اختيار نھيں كي جاسكتي۔"

2) معاويہ كے مرنے كے بعد حكومت كرنے كا حق امام حسن عليہ السلام كو ھوگا اور ان كے بعد امام حسين عليہ السلام مسند رسول (ص) كے وارث ھوں گے اس سے يہ ظاھر ھوتا ھے كہ يہ صلح عارضي مدت كے لئے تھي۔ امام حسن عليہ السلام نے يہ نھيں فرمايا كہ اب ھم جارھے ھيں تو جانے اور يہ خلافت جانے جب تك جي چاھے حكومت كرتا رھے پھر يہ صلح معاويہ كي زندگي تك تھي اس كے بعد وہ صلح خود بخود ختم ھوجائے گي اس لئے معاويہ كو حق نھيں پھنچتا كہ وہ سازشوں كے جال بچھاتا پھرے اور نہ ھي وہ كوئي دوسرا شخص بطور خليفہ معين كرسكتا ھے۔

3) معاويہ شام ميں حضرت علي عليہ السلام پر كھلے عام طعن و تشنيع كرتا تھا اس صلح نامہ ميں شرط عائد كي گئي كہ اس عمل بدكو روكا جائے۔

معاويہ نے نمازوں كے وقت جو علي عليہ السلام پر طعن و تشنيع كا سلسلہ شروع كر ركھا تھااس دن سے موقوف ھوگيا اب وہ علي عليہ السلام كو اچھے لفظوں كے ساتھ ياد كرتا تھا۔ اس قرار داد پر معاويہ نے دستخط كيے اور يہ سلسلہ رك گيا اس سے بيشتر وہ علي عليہ السلام كے خلاف جگہ جگہ پروپيگنڈا كرتا تھا اور كہا كرتا تھا كہ ھم ان كو برا بھلا (نعوذ باللہ) اس لئے كھتے ھيں كہ وہ اسلام سے خارج ھو چكے تھے۔ اب معاويہ پر اعتراض ھونے لگا كہ تو ايك شخص كو لعنت كا حقدار سمجھتا تھا اب تو اس كو اچھے لفظوں كے ساتھ ياد كر رھا ھے اس كا مقصد يہ ھے كہ جو كچھ كيا جارھا ھے وہ خواھشات نفساني كي پيروي كے سوا كچھ نھيں ھے اس كے بعد پھر كيا ھوا؟ اس نے قرارداد كے اصولوں كو توڑ ديا، انساني اقدار كو روند ڈالا اور پھر نوے (۹۰) سال تك يہ سلسلہ طول پكڑ گيا۔

4) كوفہ كے بيت المال ميں پانچ ملين درھم موجود تھے لھٰذا قرارداد كے مطابق اس كو سال ميں دو ملين درھم امام حسن عليہ السلام كو بھيجنے چاھيں تھے يہ بات باقاعدہ قرارداد ميں درج تھي تاكہ امام عليہ السلام اپني اور اپنے ماننے والوں كي ضرورت پوري كرسكيں۔ ھدايا اور عطيات كے سلسلے ميں بني ھاشم كو بني اميہ پر اھميت دي جائے اور ايك ملين درھم امير المومنين عليہ السلام سے تعلق ركھنے والے شھداء كے وارثان ميں تقسيم كيا جائے۔ وہ شھدا جو جنگ جمل وصفين ميں درجئہ شھادت پر فائز ھوئے تھے۔ شيراز كے آس پاس جتنا بھي علاقہ تھا وہ بني ھاشم كے ساتھ خاص كر ديا گيا اور اس كي تمام آمدني ان كو دي جائے گي۔

5) لوگوں كے لئے امن وحفاظت كو يقيني بنايا جائے۔ شام، عراق، يمن، حجاز، اور ديگر شھروں كے لوگوں كي حفاظت كي جائے كالے گورے كي تفريق نھيں ھوني چاھيے۔ اور معاويہ كو چاھيے كہ جنگ صفين كي تمام باتيں بھلادے۔ وہ لوگ جو صفين ميں معاويہ كے خلاف لڑے تھے۔ معاويہ ان كي حفاظت وسلامتي كيلئے ضروري اقدامات كرے۔ عراقي عوام بھي پراني سب باتيں بھلاديں۔ حضرت علي عليہ السلام كے اصحاب جھاں كھيں بھي آباد ھيں ان كا خاص خيال ركھا جائے، اور شيعيان علي عليہ السلام كو كسي قسم كي تكليف نہ پھنچائي جائے۔ علي عليہ السلام كے چاھنے والے اپنے مال، جان، ناموس اور اولاد كے سلسلے ميں بے خوف رھيں۔ ان كي ھر لحاظ سے حفاظت كي جائے۔ حقدار كو حق ديا جائے اور اصحاب علي (ع) كے پاس جو كچھ ھے ان سے نہ ليا جائے۔ اور امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام اور خاندان رسالت كے كسي فرد كو تكليف نہ پھنچے ۔ ان كا احترام كيا جائے آرٹيكل نمبر ۵ اور ۳ ميں حضرت علي (ع) كے خلاف كھلے عام مخالفت كرنے كے بارے ميں تھا۔ اگر چہ معاويہ نے پہلي شرط ميں بھي مان ليا تھا كہ وہ قرآن و سنت اور سيرت خلفاء كے مطابق عمل كرے گا ليكن پھر كيا وجہ تھي كہ وہ اس مسئلہ كو عليحدہ شرط كے طور پر لكھ رھا تھا؟اس سے اس كا مقصد يہ تھا كہ دنيا والوں پر ثابت كردے كہ مولا علي عليہ السلام كے خلاف ناسزا الفاظ كھنا جائز ھے؟ يہ بھي ايك طرح كي سازش تھي۔ يہ تھي قرارداد كي مجموعي عبارت ! معاويہ نے اپنے نمائندہ خصوصي عبداللہ بن عامر كو خالي كاغذ پر اپنے دستخط كر كے امام حسن عليہ السلام كے پاس بھيجا آپ جو بھي شرائط لكھيں گے ميں ان كو قبول كروں گا اس كے بعد معاويہ نے خدا اور پيغمبر كي قسميں كھائيں كہ وہ ايسا كرے گا اور ايسا نہ كرے گا اور اس نے زباني طور پر اس طرح كي باتيں كيں اور پھر اس كاغذ پر دستخط كر ديئے۔ يہ بات بہر صورت تسليم كرنا پڑے گي كہ امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے زمانوں اور حالات ميں بہت زيادہ فرق تھا۔

اگر امام حسين عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام كي جگہ پر ھوتے تو آپ بھي وھي كرتے جو كہ آپ كے بڑے بھائي جناب امام حسن عليہ السلام نے كيا تھا اسي طرح امام حسن عليہ السلام معاويہ كے بعد تك زندہ رھتے تو آپ امام حسين عليہ السلام كي مانند قيام كرتے ان دونوں شھزادوں كا طرز زندگي اور حكمت عملي ايك جيسي تھي كيونكہ وہ ايك شجر كے دو ثمر تھے۔

 

سوال اور جواب

 

سوال: اگر حضرت امير المومنين علي عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام كي جگہ پر ھوتے تو كيا آپ صلح كرتے يا نہ؟ حضرت علي عليہ السلام كا ارشاد گرامي ھے كہ ميں معاويہ كي حكومت كو ايك دن كيلئے برداشت نہ كروں گا ليكن امام حسن عليہ السلام نے حكومت معاويہ كو كيوں تسليم كيا؟

جواب: آپ كے اس سوال كا جواب صاف ظاھر ھے كہ اگر حضرت علي عليہ السلام اپنے صاجزادے، امام حسن عليہ السلام كي جگہ پر ھوتے تو بالكل ويسا كرتے جس طرح امام حسن عليہ السلام نے كيا تھا۔ اگر حضرت علي عليہ السلام كو ومسند خلافت پر قتل كيے جانے كا خدشہ ھوتا يا ويسے حالات پيدا ھوتے جو كہ امام حسن عليہ السلام كو پيش آئے تھے تو آپ بھي انھي شرائط كے تحت صلح كر كے گوشہ نشيني اختيار كر ليتے ليكن حضرت علي عليہ السلام كا دور بہت مختلف دور تھا ۔ مولا علي عليہ السلام كو طرح طرح كي الجھنو اور مشكلات ميں الجھايا گيا۔ فتنوں، شرانگيزيوں، سازشوں، شورشوں اور يورشوں نے مولا علي عليہ السلام كو يوں الجھائے ركھا كہ اگر آپ كي جگہ پر پتھر ہوتا تو وہ بھي ريزہ ريزہ ھو جاتا، اگر لوھا ھوتا تو وہ بھي موم ھوجاتا۔ يہ صرف اور صرف علي عليہ السلام كا دل تھا كہ مصيبتوں كے طوفانوں اور پہاڑوں كا شجاعانہ مقابلہ كرتے رھے۔ جنگ صفين ميں آپ فتح حاصل كر چكے تھے۔ اگر خوارج نيزوں پر قرآن بلند كر كے نہ آتے تو علي عليہ السلام بڑي آساني سے جنگ جيت چكے ھوتے۔ باقي آپ كا يہ كھنا كہ مولا علي عليہ السلام مشكل كشاء، شير خدا ايك دن بھي معاويہ كي حكومت كو قبول كرنے پر تيار نھيں تھے، ليكن امام حسن عليہ السلام نے حكومت كو تسليم كر ليا تھا؟

آپ نے ان دونوں مسئلوں كو خلط ملط كرديا، حالانكہ يہ دونوں مسئلے الگ الگ ھيں۔ ان كے درميان ويسے ھي فرق ھے جيسا كہ امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے احوال ميں فرق تھا۔جس طرح حضرت علي عليہ السلام نھيں چاھتے تھے كہ معاويہ آپ كا نائب بن كر مسند خلافت پر بيٹھے يا آپ (ع) اس كو حاكم وقت مقرر كريں، اسي طرح امام حسن عليہ السلام نے بھي اس كو اپنا نائب اور جانشين نھيں بنايا تھا۔ صلح كا مقصد يہ ھے كہ آپ ايك كنارے پر چلے گئے تھے۔ آپ نے اس كي حكومت كو قطعي طور پر تسليم نھيں كيا تھا۔ اس قرارداد ميں آپ كو ايك لفظ بھي ايسا نھيں ملے گا كہ جس ميں آپ نے معاويہ كو بطور خليفہ تسليم كيا ھو۔ امام حسن عليہ السلام نے فرمايا كہ ھم ايك كونے ميں جارھے ھيں اور تو جانے اور تيرا كام جانے۔آپ (ع) نے يہ نھيں فرمايا كہ تو جو كچھ كام انجام دے گا وہ ٹھيك ھے۔ پس حالات كا فرق ھوا تو طريقہ كار بھي بدل گيا۔ جس طرح مولا علي عليہ السلام نے حكومت كو مسترد كرديا تھا اسي طرح امام حسن عليہ السلام نے بھي اس كي حقانيت و خلافت كو قبول نھيں كيا تھا۔ موقع محل كو ديكھ كر جس طرح تلوار اٹھانا عبادت ھے اسي طرح امت اسلاميہ ك بھتري كيلئے خاموش ھو جانا بھي عبادت ھے۔

سوال:كيا حضرت علي عليہ السلام نے اپنے بيٹے امام حسن عليہ السلام كو يہ وصيت كي تھي كہ آپ اس كے ساتھ كيسا رويہ اختيار كريں؟

جواب:مجھے ياد نھيں آرھا كہ امام عليہ السلام نے اس قسم كي كوئي وصيت كي ھو ليكن جھاں تك تاريخ ميں ملتا ھے وہ يہ ھے كہ حضرت امير المومنين علي عليہ السلام آخر دم تك معاويہ سے جنگ كرنے كے خواھاں تھے۔ آپ اپني زندگي كے آخري لمحات تك اس چپقلش سے دو چار تھے۔ امام علي عليہ السلام كو جو چيز سب سے زيادہ پريشان كرتي تھي وہ معاويہ كي منافقانہ ڈپلوميسي تھي۔ حضرت اس كو سخت نا پسند كرتے تھے۔ آپ كي خواھش تھي كہ جب تك معاويہ ھلاك نھيں ھوجاتا اس سے جنگ جاري ركھني چاھيے۔آپ كي شھادت سے معاويہ سے جنگ كا سلسلہ ٹوٹ گيا اگر آپ كو شھيد نہ كيا جاتا تو ايك اور جنگ پيش آسكتي تھي۔

حضرت علي عليہ السلام كا نھج البلاغہ ميں ايك مشھور خطبہ ھے اس ميں آپ لوگوں كو جھاد كي طرف دعوت ديتے ھيں۔ اس كے بعد جنگ صفين ميں شھيد ھونے والے اپنے باوفا صحابہ كو ياد كرتے ھيں۔ فرمايا:

"اين اخواني الذين ركبوا الطريق ومضوا علي الحق اين عمار واين ابن التيھان واين ذو الشھادتين"23

"كھاں گئے ھيں ميرے بھائى، ميرے ساتھى، وہ سيدھے راستے پر سوار ھوئے يقيناًوہ حق پر تھے عمار ياسر اور ميرے دوست كھاں ھيں؟"

اس كے بعد آپ نے گريہ كيا۔ آپ كا يہ خطاب نماز جمعہ ميں تھا۔ آپ نے لوگوں كو آگے بڑھنے اور جھاد كرنے كي ترغيب دلائي۔ مورخين نے لكھا ھے كہ ابھي دوسرا جمعہ نہ آيا تھا كہ آپ كو ضربت لگي اور شھيد ھوگئے۔ امام حسن عليہ السلام نے بھي شروع ميں معاويہ سے جنگ كرنے كا پروگرام بنايا تھا ليكن جب اپنے اصحاب كي بے پرواھي اور اندروني اختلافات كو ملاحظہ فرمايا تو آپ نے جنگ كا ارادہ ترك كرديا۔ دوسرے لفظوں ميں جب آپ نے يہ ديكھا كہ جنگ كرنے سے جگ ھنسائي ھوگي آپ نے بھتر سمجھا كہ اس حالت ميں خاموش رھنے ھي ميں عافيت ھے۔

امام حسين عليہ السلام كي سب سے بڑي خصوصيت يہ ھے كہ آپ نے ايماني لحاظ سے ايك طاقتور جماعت تيار كي جو كہ بڑي اور سخت سے سخت مشكل كا مقابلہ كرنے كي طاقت ركھتے تھے۔ يہ كسي تاريخ نے نھيں لكھا كہ آپ كي جماعت كا كوئي ايك فرد بھي دشمن كي فوج ميں شامل ھوا ھو بلكہ آخري دم تك استقامت كے يہ پہاڑ اپني اپني جگھوں اور اپنے ارادوں پر ڈٹے رھے۔ ان كے بچوں تك نے بھي خواھش نھيں كي وہ فوج يزيد ميں سے ھوتے؟ليكن امام عليہ السلام كي پاكيزہ كردار كي كشش تھي كہ دشمن كي فوج سے منحرف ھو كر بہت سے افراد لشكر امام ميں شامل ھوئے۔ امام عالي مقام كے اصحاب ميں سے كسي نے كسي مقام پر ايمان كي كمزوري اور بزدلي نھيں دكھائي۔ ضحاك بن عبداللہ مشرقي امام عليہ السلام كي خدمت ميں حاضر ھوا كہ مولا (ع) ميں ايك شرط پر آپ كے لشكر ميں شامل ھونا چاھتا ھوں كہ ميں جب تك آپ كے لشكر ميں رھوں گا كہ ميں اور ميرا وجود آپ كيلئے مفيد ھے۔ ليكن جب ديكھوں گا كہ ميرا آپ كو كسي قسم كا فائدہ نھيں پھنچ رھا تو ميں آپ سے جدا ھو كر چلا جاؤں گا۔ امام عليہ السلام نے فرمايا ٹھيك ھے آپ ھمارے پاس آجايئے چنانچہ يہ شخص لشكر امام ميں شامل ھوگيا۔

عاشورہ كے آخري لمحات تك يہ شخص وھيں رھا اس كے بعد كھنے لگا مولا (ع) اب ميں جانا چاھتا ھوں كيونكہ ميں ديكھ رھا ھوں كہ ميرا آپ كو كسي قسم كا فائدہ نھيں ھے آپ نے فرمايا ٹھيك ھے اگر تم جانا چاھتے ھو تو جاؤ اس كے پاس بہت اعليٰ قسم كا گھوڑا تھا يہ اس پر سوار ھوا اور اس كو ايڑي لگائي اور لشكر يزيد كو چيرتا ھوا باہر نكل گيا۔ چند يزيديوں نے صحاك كا تعاقب كيا وہ اس كو گرفتار كرنا چاھتے تھے ليكن ان سپاھيوں ميں اس كا ايك واقف كار نكل آيا اس نے كہا اسے جانے ديجيئے كہ يہ جنگ نھيں كرنا چاھتا۔ انھوں نے اسے جانے ديا اس كے علاوہ كسي ايك شخص نے بھي لشكر امام ميں سے اپنے ايمان كي كمزوري نھيں ديكھائي۔ ليكن امام حسن عليہ السلام كے اصحاب اگر بزدلي اور كمزوري نہ دكھاتے تو آپ كسي طرح بھي صلح نہ كرتے ايك تو آپ شھيد ھوجاتے دوسرے رسوائي ھوتي اس لئے آپ نے مصالحت كي۔

يہ وہ فرق ھے كہ جو ايك كے قيام اور دوسرے كي مصالحت پر منتج ھوا۔ جس طرح حضرت علي عليہ السلام معاويہ سے جنگ كے خواباں تھے كي طرح امام حسن عليہ السلام بھي ان سے لڑنا چاھتے تھے ليكن جب كوفہ والوں كي بے وفائي اور بے پرواھي ديكھي تو آپ نے جنگ كا ارادہ بدل ليا يھاں تك كہ امام عليہ السلام كے لشكر ميں بھي كمي واقع ھوگئى، تو آپ نے شھر سے باھر آكر فوجيوں سے فرمايا آپ نخيلہ مقام پر جائيں اور آپ نے خطبہ ديا اور لوگوں كو جھاد كي طرف دعوت دي تو سبھي خاموش رھے، اس مجمع ميں صرف عدي بن حاتم اپني جگہ سے اٹھا اور لوگوں كي ملامت كي اور كہا كہ ميں خود جاتا ھوں چنانچہ وہ چل پڑا ايك ھزار آدمي بھي اس كے ساتھ چل پڑے اس كے بعد امام حسن عليہ السلام نخيلہ مقام پر تشريف لے گئے اور دس دنوں تك وھيں پر قيام فرمايا۔ صرف چار ھزار آدمي جمع ھوئے حضرت دوسري مرتبہ پھر تشريف لائے اور لوگوں كو دوبارہ جھاد كي طرف راغب كيا اس مرتبہ لوگوں كي جمعيت كچھ زيادہ اكٹھي ھوئي ليكن اس كے باوجود انھوں نے ايمان كي كمزوري اور بزدلي كا مظاھر كيا۔ رات ھوئي معاويہ كي طرف سے كچھ لوگ آئے ان كے سرداروں كو پيسے دئيے چنانچہ اسي رات كو وہ لوگ بھاگ كر چلے گئے، ٹولياں ٹولياں بنا كر جارھے تھے۔ اس افسوسناك صورت حال كو ديكھ كر حضرت نے مناسب سمجھا كہ ذلت كے بجائے عزت كے ساتھ خاموشي اختيار كي جائے۔

سوال: آپ نے يہ فرمايا كہ اگر امام حسن عليہ السلام صلح نہ كرتے تو تاريخ ان پر اعتراض كرسكتي تھي۔ ميرے خيال كے مطابق امام عليہ السلام اگر صلحنامہ پر دستخط نہ كرتے تو ان كي ذات پر كوئي فرق نھيں پڑتا تھا، كيونكہ پوري دنيا جانتي ھے كہ معاويہ ايك چالاك وعيار شخص تھا۔ اس نے امام حسن عليہ السلام كي طرف ايك سفيد كاغذ بھجوا كر ايك چال كھيلي تھي۔ معاويہ كو تو لوگ حضرت امير عليہ السلام كے زمانہ سے جانتے تھے كہ يہ شخص صرف اور صرف اقتدار كا بھوكا ھے اور كرسي كے حصول كيلئے اس طرح كے حربے استعمال كرتا رھتا ھے؟

جواب: يہ درست ھے كہ معاويہ بہت ھي چالاك انسان تھا ليكن ديكھنا يہ ھے كہ امام عليہ السلام نے اسلامي شرائط كو قبول كيا ھے يا غير اسلامي كو؟ ظاھر ھے اسلامي شرائط ھي امام عليہ السلام نے قبول فرمائي تھيں۔ دوسري بات يہ صلح نامہ ذاتي مقصد اور شخصي مفاد كيلئے نھيں تھا بلكہ اس ميں تمام مسلمانوں كے فوائد مضمر تھے۔ تيسري بات امام حسن عليہ السلام كے ساتھيوں نے آپ كے ساتھ ھر گز وفانہ كي۔ پھر اس وقت حكومتي مشينري شب وروز پروپيگنڈا كر رھي تھي كہ معاويہ تو امام عليہ السلام كي ھر بات مانتا ھے ليكن امام عليہ السلام نھيں مانتے ظاھر ھے اس وقت كا مورخ يھي لكھتا كہ نعوذ باللہ امام حسن عليہ السلام صلح جو انسان نھيں ھيں حالانكہ امن وسلامتي كا قيام ائمہ طاھرين عليھم السلام كي اولين ترجيحات ميں شامل ھے۔ آپ نے يہ كہا كہ وھاں كے عوام حضرت امير عليہ السلام كے زمانہ سے معاويہ كو پوري طرح سے جانتے اور پھچانتے تھے۔ كہ وہ اپني ايك بات پر قائم نھيں رھتا كھتا كچھ ھے اور كرتا كچھ اور ھے دراصل معاملہ كچھ يوں تھا كہ لوگ معاويہ كو اچھا انسان تو نھيں سمجھتے تھے ليكن ان كے نزديك وہ حكمران اچھا تھا۔ اس لئے بھي كوفہ والے قدر ے خاموش ھوگئے ۔ عوامي ردعمل يہ تھا كہ اگر وہ اچھا انسان نھيں ھے تو كيا اچھا حكمران تو ھے وہ كہا كرتے تھے كہ معاويہ نے خطہ شام كو كس طرح سنوارا ھے، اور وھاں كے لوگ كس طرح خوشحال ھيں؟ لوگوں نے معاويہ كو اس طرح پھچان ركھا تھا پھر اس كو حكمران ھونے كے باعث پورے ملك پر مكمل قدرت حاصل تھي۔ كہا جاتا ھے كہ جس كي لاٹھي اس كي بھينس ۔ اس لئے سبھي خاموش تھے۔ اب ان حالات ميں حق وصداقت، سچائي و راستبازي كے پيكر امام حسن عليہ السلام تن تنھا كيا كرتے؟

اس وقت لوگوں ميں يہ بات عام تھي كہ معاويہ وقت كا بہت بڑا سياستدان ھے۔ مورخين نے معاويہ كي اس مقام پر مذمت كرتے ھوئے لكھا ھے كہ اگر وہ كوفہ ميں بھي حلم وبردباري اور اچھے كردار كا عملي مظاھرہ كرتا تو وہ اسلامي و ديني نقطہ نظر سے بھي كامياب ھوتا۔ معاويہ كے بارے ميں مشھور تھا كہ وہ بردبارسياستدان ھے۔ لوگ اس كو جاكر سر عام گالياں ديتے اور برا بھلا كھتے تھے ليكن وہ ان كي تمام باتيں سني ان سني كر ديتا تھا، اور ھنستے مسكراتے ھوئے ان كو انعام واكرام سے نوازتا تھا۔ اس كے اس رويے كي وجہ سے لوگوں كي سوچ بدل جاتي اور اس كي اس بات پر لوگ بہت زيادہ خوش ھوگئے تھے كہ معاويہ دنيا دار حكمران ھے۔ امام حسن عليہ السلام اس لئے خاموش ھوگئے تھے كہ وہ لوگوں كے اذھان پيسوں سے خريد ليا كرتا تھا۔ لوگوں كو اس سےغرض نہ تھي كہ وہ نيك ھو، اچھا ھو، ديندار ھو۔ بلكہ وہ چاھتے تھے كہ جو حكومتي امور كو بآ احسن چلا سكے۔

معاويہ كے بارے ميں مشھور تھا كہ وہ ايك جاہ طلب اقتدار كا بھوكا انسان تھا (جس طرح آج كے دور ميں قومي وصوبائي اسمبليوں كو خريدا جاتا ھے اس وقت بھي معاويہ اعتراض كرنے والے كو پيسے دے كر خاموش كرا ديتا تھا بلكہ اس كے بڑے بڑے مخالف مالي و مادي لالچ كي وجہ سے اس كے ساتھي بن گئے) اب آپ ھي فرمايئے كہ امام حسن عليہ السلام صلح نامہ پر دستخط كر كے گوشہ تنھائي ميں نہ بيٹھيں تو كيا كريں۔ واقعتاً حالات نے امام عليہ السلام كو بے بس اور مجبور كرديا تھا۔

سوال: كيا امام حسين عليہ السلام نے اس صلحنامہ پر دستخط كيے تھے؟ كيا آپ نے اپنے بھائي جان امام حسن عليہ السلام پر اعتراض نھيں كيا تھا يا روكا نھيں تھا كہ وہ بيعت نہ كريں؟

جواب: ميں نے كھيں نھيں پڑھا كہ مولا امام حسين عليہ السلام نے بھي اس پر دستخط كيے ھوں دراصل آپ كي اجازت اور آپ كے دستخطوں كي ضرورت ھي نہ تھي كيونكہ اس وقت كے امام اور ديني سر براہ امام حسن مجتبيٰ عليہ السلام تھے۔ جب ايك سربراہ موجود ھوتا ھے تو دوسرے كے احكامات اور آراء كي كوئي ضرورت نھيں ھوتي۔ امام حسين عليہ السلام كا فيصلہ بھي وھي تھا جو امام حسن عليہ السلام كا تھا۔ صلح كے بعد ايك گروہ امام حسين عليہ السلام كے پاس آيا اور عرض كي مولا (ع) ھم اس صلح كو قبول نھيں كرتے۔ ھم آپ كي بيعت كرتے ھيں اور آپ قيام فرمايئے؟ امام عليہ السلام نے فرمايا ميرے پيارے بھائي جناب حسن عليہ السلام نے جو كچھ كيا ھے صحيح كيا ھے ميں تو ان كے فرامين پر عمل كرنے كا پابند ھوں۔

تاريخ ميں لكھا ھے كہ امام حسين عليہ السلام اور امام حسن عليہ السلام كي سوچ ايك تھي۔ امام حسن كي ذات گرامي امام حسين عليہ السلام كيلئے ايك معتبر حوالہ اور حرف آخر كے طور پر حيثيت ركھتي تھي۔ مورخين نے لكھا ھے كہ معاويہ كے مذاكرات اور صلحنامہ كے وقت امام حسين عليہ السلام نے مشورہ دينے كي بھي كوشش نھيں كي كيونكہ امام حسين عليہ السلام بخوبي جانتے تھے كہ اس وقت كے محمد، (ص) على، (ع) حسن عليہ السلام ھي ھيں۔ جو كھيں گے سچ كھيں گے اور جو كريں گے ٹھيك كريں گے۔ كيونكہ وہ وقت كے امام اور وقت كے سب سے بڑے دانائے راز ھيں اور امام كبھي خطاء نھيں كرسكتا كيونكہ اس كي سوچ الہٰي ھوتي ھے۔ امام عليہ السلام كو اللہ تعاليٰ كي طرف سے رھنمائي ھوتي ھے۔ غلطي كا شائبہ تك نہ ھوتا۔ (ميرے نزديك امام حسن عليہ السلام كے مدبرانہ اقدام پر حضرت رسول خدا (ص) اور علي مرتضيٰ عليہ السلام نے انھيں داد تحسين دي ھوگي اور جناب فاطمۃ الزھراء (ع) نے دعائيں دي ھونگي۔ امام حسين (ع) نے آگے بڑھ كر اپنے جليل القدر بھائي كو گلے لگايا ھوگا۔ جناب جبرائيل امين (ع) نے اس منظر كو ديكھ كر ملائكہ كو نويد مسرت دي ھوگي كہ آج كا محمد (ص)، آج كا علي (ع) كس احسن طريقہ سے دين الہٰي كي تبليغ كے فرائض انجام دے رھا ھے؟ ھم بھي گواھي ديتے ھيں كہ مولا (ع) آپ نے ان كربناك لمحوں ميں جس حسن تدبر كا مظاھرہ كيا ھے اس پر آپ كو پوري انسانيت خراج تحسين پيش كرتي ھے۔)

21.نھج البلاغہ، خطبہ ۲۴۰.

22.تاريخ طبرى، ج۷، ص۳۰۰.

23.نھج البلاغہ، خطبہ۱۸۲. 

ماخوذ از: سيرت آل محمد (عليهم السلام) 


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حیات طیبہ یا پاکیزہ زندگی (۱) / امام سجاد علیہ ...
حضرت امام علی علیہ السلام
ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(

 
user comment