اردو
Friday 17th of May 2024
0
نفر 0

عید سعید فطر

بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت امام علی کا ارشاد گرامی ہے: "عید فطر اس کے لئے ہے کہ جس کی نماز اور روزہ اللہ کی بارگاہ میں قبول اور منظور ہو، اور وہ دن جس دن مومن خدا کی نافرمانی نہ کرے وہ دن مومن کے لئے عید کا دن ہے۔" عید فطر نفس عمارہ پر کامیابی کے جشن منانے کا دن ہے اور پرہیزگاروں کی خوشی کا دن ہے۔ عیدالفطر خداوندعالم کی طرف سے روزہ داروں کے لئے ایک انعام ہے مسلمانوں کو چاہیئےکہ خوشی کے اس موقع پر اپنے تمام بھائیوں خاص طور پر فلسطینی، ،،بحرینی اور سعودی عوام کو فراموش نہ کریں ۔ عیدالفطر آپ سب کو سحر اردو عالمی نیٹ ورک کی طرف سے بہت بہت مبارک ہو۔ عید سعید فطر کی حقیقت اور ہماری ذمہ داریاں عید فطر مسلمانوں کی بڑی عیدوں میں سے ایک ہے جب روزہ دارمسلمان ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھ کر اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور خدا کے حکم کی خاطر بہت سے مباح کاموں سے پرہیز کرتے اور تیس دن تک حلال او مباح چیزوں کا کھانے پینے سے بھی حکم خدا کی خاطر پرہیز کرتے ہیں اور صرف اسی وقت کچھ کھاتے پیتے ہیں جب خدا نے کھانے پینے کی اجازت دی ہو جسکے پاداش میں پروردگار نے تیس دن پورے ہو جانے کے مسلمانوں کے لئے عید کا دن قرار دیا ہے چنانچہ ماہ شوال کا پہلا دن عید فطر کے نام سے جانا جاتا ہے شوال کے پہلے دن کو اس لئے عید فطر کہا گیا ہے کہ خود فطر و فطور کھانے پینے کے معنی میں ہے اور اسے کھانے پینے کو شروع کرنے کے معنی میں بھی بیان کیا گیا ہے علما نے عید فطر کے معنی یوں بیان کیے ہیں کہ : آج کے دن کھانے پینے سے امساک کے حکم کو اٹھا لیا گیا ہے اور مومنین کو افطار کی اجازت دی گئی ہے بلکہ اس دن کا روزہ حرام ہے اسی لیے اس دن کو عید فطر کہا جاتا ہے ۔ اس دن پوری دنیا کے مسلمان ماہ مبارک رمضان میں تیس دن تک خدا کے سفرہ رحمت پر حاضری کا شکرانہ ادا کرتے ہیں اور اجمتاعی جشن و سرور کی محفلیں سجا کر خدا کے حضور تشکر و امتنان کا ظہار کرتے ہیں کہ اس نے انہیں یہ موقع فراہم کیا کہ اپنے دسترخوان رحمت پر انہیں تیس دنوں تک مہمان بنایا چاند رات اور عید کے دن تمام مسلمان عبادتوں میں مشغول رہ کر مالک کی کرم نوازیوں کو یاد کرتے ہیں ۔ عام طور پر شب عید کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایتوں کے بموجب دعائے ختم قرآن ، ، ماہ مبارک رمضان کے وداع کی دعااور دعائے ابو حمزہ ثمالی پڑھی جاتی ہے اور ر شب عید کے مخصوص اعمال کی انجام دہی کے ساتھ شب بیداری میں رات بسر ہوتی ہے صبح سویرے لوگ ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں اوخود کو نماز عید کے لئے تیار کرتے ہیں اس دن غریبوں اور ناداروں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور ان کے لئے فطرہ نکالاجاتا ہے نماز عید سے قبل تربت امام حسین منھ میں رکھنااور آپکی زیارت پڑھنا مستحب ہے اور اس سلسلہ میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ عید فطر کے دن امام حسین کی ضرور زیارت کی جائے اور کچھ کھانے سے قبل امام حسین کی تربت کوچکھا جائے شاید یہ امر اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ آج اگر یہ روزہ اور اسلامی تعلیمات عید فطر جیسی عظیم یاد گاریں باقی ہیں تو یہ سرکار سید الشہدا کا صدقہ ہے عید کے معنی : کلمہ عید اصل میں عاد ( عود ) سے لیا گیا ہے اور اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں ''بازگشت '' غم و اندوہ و مرض سے نجات'' وہ دن جو اپنے ساتھ ہر سال نئی خوشیاں لے کر آتا ہے ( تاج العروس ، زبیدی ، جلد ٨ ص ٤٣٨۔٤٣٩) ازہری کے بقول عربوں کے نزدیک عید اس زمانہ کو کہا جاتا ہے جس میں شادی یا غم و اندوہ پلٹ آتے ہیں ابن عربی نے عید کو خوشیوں سے مخصوص جانا ہے (تاج العروس ، زبیدی ،جلد ٨ ص ٤٣٩) قرآن میں کلمہ عید صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے قالَ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنا أَنْزِلْ عَلَیْنا مائِدَةً مِنَ السَّماء ِ تَکُونُ لَنا عیداً لِأَوَّلِنا وَ آخِرِنا وَ آیَةً مِنْکَ وَ ارْزُقْنا وَ أَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقین ترجمہ : عیسی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ( مائدہ ١١٤) اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے بیان کیا ہے کہ '' عید لغت میں بازگشت کے معنی میں ہے اسکا مادہ عود ہے لہذا وہ دن جس میں قوم کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں اور خوشیوں کی طرف اسکی بازگشت ہوتی ہے ایسے دن کو عید کہا جاتا ہے اسلامی عیدوں میں عید فطر کو اس لئے عید کہا گیا ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں اطاعت پروردگار کے ذریعہ. انسان کی روح اپنی پاک فطرت کی طرف پلٹ جاتی ہے ۔ الہی دسترخوان کا نزول بھی چونکہ کامیابی و فلاح کی طرف ایک بازگشت ہے اس لئے جناب عیسی نے اسے عید کا نام دیا ہے اگرچہ یہ دن ایک اجتماعی حیثیت کا حامل ہے اور اسلامی تہذیب کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے ہر وہ دن عید ہے جس دن اس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو امام علی علیہ السلام نے فرمایا : ''وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو یوم عید '' ہر وہ دن جب انسان خد کی معصیت نہ کرے عید ہے خود یہ حدیث بھی اس با ت کی طرف اشارہ ہے کہ عید کی حکمت یہی ہے کہ انسان اس لئے اس دن خوشی مناتا ہے کیونکہ وہ اپنی پاکیزہ فطرت کی طرف پلٹ جاتا ہے (تفسیر نمونہ جلد ٥ ١٣١) سوید بن غفلہ سے نقل ہوا ہے کہ : میں عید کے دن امیر المومین کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپکے پاس کچھ آٹے اور دودھ کی بنی ہوئی خشک روٹیاں رکھی ہیں میں نے عرض کی روز عید اور یہ کھانا ؟ آپ نے جواب دیا ''انما ھذا عید من غفر لہ '' یہ عید اس شخص کے لیے ہے جس کو بخش دیا گیا ہو ( مجلسی ، بحار الانوار ، جلد٤٠، ح ٧٣) اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ مبارک رمضان کے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو بخشوا کر اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ پھر کبھی گناہ کی طرف نہیں جاتا ، ماہ مبارک رمضان کی برکتوں کے سایہ میں اپنے نفس پر اتنا کنٹرول کر لیتا ہے کہ اس کا نفس گناہ کی طرف مائل نہیں ہوتا تو حقیقت میں عید بھی اسی کی ہے ،اب اگر کوئی ایسا شخص عید کے دن اپنے گھر پر دسترخوان سجاتا ہے لوگوں کو دعوت دیتا ہے سوئیاں اور پکوان گھر میں پکواتا ہے تو یہ اسے زیب دیتا ہے کیونکہ واقعی عید اسی کی ہے وہ اس قابل ہے کہ جب اس نے اپنے نفس پر کنڑول کر لیا اور ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے خود کو اس قابل بنا لیا کہ وہ اس بالکل اس دن کی طرح ہو جائے جس طرح اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا تو اسے یہ حق ہے کہ سب کو بلائے خوشیاں منائے اور عید منائے ، لیکن اگر کسی شخص نے ماہ مبارک رمضان کے دسترخوان پر بیٹھنے کے باجود اللہ کی نافرمانی کی ہو اور اس کے بعد وہ نئے کپڑے ، پہنے خوشیاں منائے لوگوں کو گھر پر دعوت دے اور عید منائے تو یہ اس کا اپنا عمل ہے حدیث امیر المومنین علیہ السلام کی روشنی میں اسے عید نہیں کہا جا سکتا ہے اس لئے کہ مولا کی نظر میں عید کا مطلب نئے کپڑے پہننا لوگوں سے ملنا اور سوئیاں و شیر خرما بنانا نہیں ہے بلکہ مولا کی نزدیک عید کا مطلب اپنے وجود گناہوں سے پاکیزہ بنانا ہے اب ہو سکتا ہے ایک وہ شخص جس کے پاس عید کے دن کھانے کے لئے کچھ نہ ہو نہ وہ کسی کی دعوت کر سکتا ہو نہ سوئیاں بنا سکتا ہو اور نہ لوگوں کو عیدی دے سکتا ہو لیکن اس کی عید ہو اس کے برخلاف ممکن ہے کوئی ایسا شخص ہو جو عید کے دن لاکھوں خرچ کر رہا ہو، ہزاروں مہمانوں کو بلا رہا ہو لوگوں کا اس کے یہاں عید ملن کے لئے تانتا بندھا ہو لیکن اس کی عید نہ ہو ۔ ایک اور مقام پر آپ عید کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ و کل یوم لایعصی اللہ فیہ فھو یوم عید '' آج صرف اسی کی عید ہے خدا نے جس کے روزوں کو قبول کر لیا ہے اور جس نے اپنی عبادتوں کا شکر کیا ہے ہر وہ دن جب خدا کی نافرمانی نہ کی جائے عید ہے عید فطر کے سلسلہ میں سیرو سلوک کی راہ کے عظیم مقتدی جناب میرزا جواد آقا ملکی تبریزی فرماتے ہیں : عید فطر وہ دن ہے جسے خدا وند متعال نے دیگر ایام کے درمیان منتخب کیا ہے اور اس دن کو اپنے بندوں کو انعام و اکرام سے نوازنے کا دن قرار دیا ہے خدا نے آج کے دن اپنے بندوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اسکے خوان کرم پر بیٹھیں اور آداب بندگی کو بجا لائیں اسی سے امید باندھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے معافی مانگیں اپنی حاجتوں کو اس سے بیان کریں اور اسی سے حاجت روائی کی امید رکھیں خدا نے بھی اپنے ان بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جو بھی اس سے طلب کریں گے خدا قبول کرے گا اور ان کے حق میں ایسی کرم نوازی کرے گا کہ جس کے بارے میں انہیں گمان تک نہ ہوگا ( المراقبات فی اعمال السنہ ، میرزا جواد آقا ملکی تبریزی، ص١٦٧) "پرور دگار! عید سعید فطر کو ہمارے لئے واقعی عید قرار دے ایسی عید جو ہمارے وجود کی بارگاہ الہی میں بازگشت کی نوید لے کر آئے وہ عید کے جس کے بعد ہم دوبارہ گناہوں کی طرف نہ پلٹیں پروردگار ! ہمیں عید سعید کی برکتوں کے سایہ میں اس قابل بنا کہ ہمارا آنے والا ہر دن عید قرار پائے ۔ (آمین یا رب العالمین )"
source : http://urdu.sahartv.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عورت کا مقام و مرتبہ
قرآن کریم میں ائمہ (ع) کے نام
حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان
واقعہ کربلا اور حضرت امام حسین (ع) کی زبان مبارک ...
کیا شیعوں کی کتابوں میں ذکر کی گئی یہ حدیث موثق ہے ...
عدت کا فلسفہ
تعریف معاد اور اس عقیدہ کے آثار و فوائد
21 رمضان کے اہم واقعات
قرآن مجید کی آیات میں محکم اور متشابہ سے کیا مراد ...

 
user comment