1 _ ولايت فقيہ كے الہى اور عوامى جواز والے نظريے كے مطابق غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى ولى فقيہ كى اطاعت واجب ہے _
2 _ امام خمينى فرماتے ہيں : ولى فقيہ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے_ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آرا كے ساتھ وابستہ ہے_
3 _ جب دوسرے ممالك ميں مسلمانوں كى سرپرستى كرنے ميں كوئي مشكل در پيش نہ ہو تو پھر امت مسلمہ پر ولايت كے سلسلہ ميں كوئي ركاوٹ نہيں رہتى _
4 _ امير المؤمنين (ع) امام اور امت كے رابطے كو مندرجہ ذيل موارد كے قالب ميں بيان فرماتے ہيں امت كے امام پر يہ حقوق ہيں خيرخواہي، حقوق كى ادائيگي، تعليم، آداب سكھانا اور امت پر امام كے حقوق ہيں بيعت پر قائم رہنا، خيرخواہى كا حق ادا كرنا اور مطيع رہنا_
تفصيلى جواب:
مذكورہ سوال كے جواب كے متعلق سب سے پہلے تو مسئلہ كے تمام مفروضات اور اس كے متعلقہ مسائل پر گفتگو كريں گے _ اور آخر ميں رابطہ كى اقسام كو مورد تحقيق قرار ديں گے_
مفروضات _ ايك اسلامى معاشرہ يا جغرافيايى حدود كے ساتھ متعين ايك اسلامى ملك جو ايك خاص سسٹم اور نظام بنام '' ولايت فقيہ'' كے تحت كام كرتاہو (1) دوسرے لفظوں ميں ايك ايسى سرزمين جس پر اسلامى حكومت كا مكمل تسلط ہو _ اور ايك خاص حيثيت كى حامل ہو كہ جسے ہم ام القرى كہتے ہيں (2) ام القرى كى اہم ترين اور اصلى خصوصيت يہ ہے كہ ايك تو اس سرزمين پر اسلامى حكومت قائم ہو اور دوسرا يہ كہ ام القرى كى رہبرى كا دائرہ كار تمام امت مسلمہ كى حد تك ہے _اگر چہ فى الحال سرزمين ام القرى كادائرہ كار محدود حد تك ہے (3) ان مفروضہ موارد كى طرف ديكھتے ہوئے ولى فقيہ كے ساتھ مسلمانوں كے روابط پر بحث كرتے ہيں_
رابطہ كى اقسام
1 _ سياسى فقہي2 _ امت اور امام
رابطہ كى اقسام سے پہلے اسلامى ممالك كى حدود، ولايت فقيہ كے معتبر ہونے كى ادلہ اور ولايت فقيہ كے معتبر ہونے ميں بيعت كے كردار جيسے مسائل كى تحقيق كرتے ہيں از نظر اسلام امت اور اسلامى معاشرہ كى وحدت كا اصلى عامل عقيدہ كى وحدت ہے _ ليكن اس كے باوجود يہ ياد رہے كہ ايك طرف تو طبيعى اور بين الاقوامى جغرافيايى حدود كى حامل سرزمين كلى طور پر فاقد اعتبار نہيں ہے _ چنانچہ ہم ديكھتے ہيں كہ دار الاسلام جو كہ مخصوص حدود كے ساتھ مشخص ہوتاہے اسلامى فقہ ميں اس كے خاص احكام موجود ہيں _
دوسرى طرف عقيدہ كا مختلف ہونا كلى طور پراختلاف كا يقينى عامل نہيں ہے _ كيونكہ ممكن ہے :اسلامى ممالك ميں موجود غير مسلم افرا دكو اسلامى حكومت كى حمايت حاصل ہو_ اورايك طرح سے اس كے شہرى ہوں (1) ولايت فقيہ كى مشروعيت والے نظريہ كى بناپر ممكن ہے اس كا سرچشمہ ولايت تشريعى الہى ہو يا عوامى ہو _ دوسرى صورت ميں در حقيقت '' بيعت'' ولايت فقيہ كو مشروعيت عطا كرنے ميں بنيادى كردار ادا كرتى ہے _ ولى فقيہ كے مسلمانوں كےساتھ سياسى فقہى تعلق كے بارے ميںآيت اللہ مصباح يزدى فرماتے ہيں :
اگر ہم ولايت فقيہ كى مشروعيت كے سلسلے ميں پہلے نظريہ كے قائل ہوں _ يعنى ولايت فقيہ كا سرچشمہ الہى ولايت تشريعى كو قرار ديں تو پھر اس كا فرمان ہر مسلمان كيلئے لازم الاجراء ہوگا _ پس غير اسلامى ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر بھى اس كى اطاعت واجب ہوگي_
اور اگر دوسرے نظريہ كے قائل ہوں يعنى ولايت فقيہ كى مشروعيت كا سرچشمہ عوام ہوں _ تو كہہ سكتے ہيں كہ امت كى اكثريت كا انتخاب يا اہل حل و عقد اور شورى كے ممبران كى اكثريت كا انتخاب دوسروں پر بھى حجت ہے_
اس نظريہ كى بنياد پر بھى غير مسلم ممالك ميں رہنے والے مسلمانوں پر ولى فقيہ كى اطاعت ضرورى ہے چاہے انہوں نے اس كى بيعت كى ہو يا نہ (2)
اسى كے متعلق جب امام خمينى سے فتوى پوچھا گيا كہ كونسى صورت ميں جامع الشرائط ولى فقيہ اسلامى معاشرہ پر ولايت ركھتاہے تو آپ نے فرمايا :
بسمہ تعالى _ تمام صورتوں ميں ولايت ركھتاہے _ ليكن مسلمانوں كے امور كى سرپرستى اور حكومت كى تشكيل مسلمانوں كى اكثريت آراء كےساتھ مربوط ہے كہ جس كا ذكر اسلامى جمہوريہ ايران كے قانون
اساسى ميں موجودہے _ اور جسے صدر اسلام ميں بيعت كے ساتھ تعبير كيا جاتا تھا _ روح اللہ الموسوى الخميني(1)
اس بارے ميں آيت اللہ جوادى آملى فرماتے ہيں :
يہاں دو باتيں ہيں جو ايك دوسرے سے جدا ہونى چاہيں ايك شرعى جہت كے ساتھ مربوط ہے اور دوسرى بين الاقوامى قانون كے ساتھ _شرعى لحاظ سے كوئي مانع نہيں ہے نہ فقيہ كيلئے كہ وہ سب كاوالى ہواور نہ ہى تمام دنيا كے مسلمانوں كيلئے كہ اس كى ولايت كو تسليم كرليں _ بلكہ ايسى ولايت كا مقتضى موجودہے جس طرح مرجع كى تقليد اور قضاوت كا نافذ ہونا ہے _كيونكہ اگر ايك مرجع تقليد (مجتہد) ايك خاص ملك ميں زندگى بسر كرتاہو اور اسى ملك كا رہنے والا ہو تو اس كا فتوى دنيا ميں رہنے والے اس كے تمام مقلدين كيلئے نافذ العمل ہے _ اسى طرح جامع الشرائط فقيہ اگر كوئي فيصلہ صادر كرتاہے تو تمام مسلمانوں پر اس پر عمل كرنا واجب ہے اور اس كى مخالفت كرنا حرام ہے_
اور دوسرا مطلب يعنى بين الاقوامى قانون كے لحاظ سے جب تك كوئي رسمى تعہد او ر قانونى عہد و پيمان اس ولايت كے نافذ ہونے ميں ركاوٹ نہ بنے اور نہ ولايت فقيہ كيلئے كوئي مانع ہو اور نہ ہى دنيا كے دوسرے ممالك كے رہنے والے مسلمانوں كى سرپرستى كيلئے كوئي ركاوٹ ہو تو پھر تقليد اور فيصلے كى طرح يہ ولايت بھى واجب العمل ہوگى _ ليكن اگر كوئي قانونى اور بين الاقوامى عہد اس ولايت كے نفوذ ميں مانع بن جائے اور مخالفين عملى طور پر اس كيلئے ركاوٹ بن جائيں تو پھر فقيہ اور عوام دونوں مجبور ہيں (2)
اب ہم رابطہ كى دوسرى قسم يعنى امت اور امام كے رابطہ پر بحث كرتے ہيں _ اور اس كيلئے يہاں ہم نہج البلاغہ سے امير المؤمنين (ع) كے كلام كا ايك ٹكڑا ذكر كرتے ہيں _امير المؤمنين قاسطين (اہل صفين) كے
خلاف جنگ پر ابھارتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہيں :
اے لوگو ميرا تم پر ايك حق ہے او رتمہارا بھى مجھ پر ايك حق ہے _ مجھ پر واجب ہے كہ تمہارى خير خواہى سے دريغ نہ كروں_ بيت المال ميں سے جو تمہارا حق ہے اسے ادا كروں _ تمہيں تعليم دوں تا كہ جاہل نہ رہو_ اور تمہيں آداب سكھاؤں تا كہ اہل علم بنو_
اور ميرا تم پر يہ حق ہے كہ ميرى بيعت پر قائم رہو_ پوشيدہ اور علانيہ طور پر ميرى خير خواہى كا حق ادا كرو _ جب تمہيں بلاؤں تو آجاؤ اور جب حكم دوں تو اس پر عمل كرو (1)
........................
1) آيت اللہ مصباح يزدى '' اختيارات ولى فقيہ در خارج از مرزہا'' مجلہ '' حكومت اسلامي'' سال اول ش 1 ص 81_
2) محمد جواد لاريجانى '' مقولاتى در استراتى ملى '' تہران مركز ترجمہ و نشر كتاب 1367 ص 25_
3) محمد جواد لاريجانى '' حكومت اسلامى و مرزہاى سياسي'' مجلہ '' حكومت اسلامى '' سال اول ش 2 زمستان 75 ص 46 ، 45_
1) سابقہ مصدرآيت اللہ مصباح يزدى ص 84_
2) آيت اللہ مصباح يزدى _ اختيارات ولى فيہ در خارج از مرزہا حكومت اسلامى سال اول ش 1 ص 88، 89_
1) مصطفى كواكبيان '' مبانى مشروعيت در نظام ولايت فقيہ '' تہران عروج چاپ اول 1378 ص 258 ، 257_
2) عبداللہ جوادى آملى '' ولايت فقيہ'' ولايت فقاہت و عدالت'' اسراء ، چاپ اول 1378 ، ص478، 479_
1) نہج البلاغہ خطبہ 34_
source : http://ahl-ul-bayt.org