اردو
Friday 5th of July 2024
0
نفر 0

عہدین(تورات و انجیل ) میں پیغمبراعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبرآمد

مالک کائنات نے جس طرح نبوت کا سارا حُسن و جمال وجود محمدی ۖ میں مرکوز فرمادیا ہے ۔ راقم  الحرف کی بھی یه کوشش رہی ہے کہ اس (مقالہ)کو ایسے حُسن کے پیکر میں ڈھال دیا جا ئے کہ وہ تمام تحریریں جو آنحضرت ۖ کی رسالت و نبوت کے خلاف لکھی گئی ہیں وہ اس کے مطالعہ کے بعد ان کی عظمت و کمال کے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور وہ افراد جو آپۖ کی عظمتوں کے قائل نہیں ہیں !وہ آپۖ کی دہلیز عظمت پر سر بسجود ہو جا ئیں۔

یہ  تحریرکہ جو آپ کے زیر نظر ہے ' ِپیمبرِی اعظم ۖ  'کےخلاف  دنیا کے پست ترین افراد کے جنہوں نے آنحضرت ۖ کی ہتک حرمت کی سعی ناسعید کی تھی ان کی  ردمیں لکھی گئی تھی.جو اب زیور طباعت  سے آراسته هو ئی  ہے.یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے محققین اور قلمکار حضرات بہت کم بحث کرتے ہیں لہذا دنیا میں مرسل اعظم  ۖ کی سیرت و سنت کے تشنہ افراد کی سیرابی کے لئے کچھ راقم الحروف  نےمرقوم کرنے کی کوشش کی ہے جسے آپ ملاحظه فرمائیں گے ۔

خدا وندعالم ہمیں زیادہ سے زیادہ دین اور بانیانِ دین کے پیغام کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔(آمین)

راقم نے ''عہدین ''کے حوالہ سے رسول خدا ۖ کی خبر آمد(مبعوث بہ رسالت) پر ایک اجمالی نظر ڈال کر ان افراد کو ''لفظِ عہدین ''سے آشنا کرنے کی کوشش کی ہے جو افراد اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں 

قابل غور بات یہ ہے کہ صدیاں گزرجانے کے باوجود آج بھی تحریف شدہ  آسمانی کتابوں(تورات و انجیل و.. )حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کی پیشنگوئیاں موجود ہیں جواسلام و مسلمین کی حقانیت بالخصوص حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفٰی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بلندی پر ایک واضح دلیل ہے ۔اس مقالہ میں ''عہدین '' کی وضاحت کے بعد مندرجہ ذیل عناوین کے تحت (''جیسے :

*…پیشنگوئی یا تصدیق رسالت! ؟

*…عہدین (تورات و انجیل )میں رسول خدا ۖ کی خبر آمد.

*…کیوں !عہدین میں تمام چیزوں کو بطور کنایہ اور استعارہ بیان کیا گیا ہے ؟

*…منتظران حضرت ختمی مرتبت ۖاور ان کاسر انجام!

*…انتظار اور اس کا صلہ.'') گفتگو کرتے ہو ئے اپنے اس مختصر سے مقالہ کو اختتام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔

امید ہے کہ خدا اور اس کے محبوب نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خصوصاً نائب وجانشین رسول ۖ حضرت امام عصر ارواحنالہ الفداء اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں گے ۔ (آمین)

الحمد للّٰہ رب العالمین

و الصلاة و السلام علی رسول اللّٰہ و آلہ الطاہرین

قال اللّٰہ الحکیم فی کتابہ المبین

''یا بنی اسرائیل ،انی رسول اللّٰہ الیکم مصدقاً لما بین یدی من التوراة و مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ۔اے بنی اسرائیل ! میں صرف تمہاری طرف رسول ۖ بنا کر بھیجا گیاہوں اور مجھ سے پہلے جو تورات نازل ہو ئی اس کی تصدیق کرنے والا ہو اور تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک عظیم الشّان رسول ۖ تشریف لائیں گے جن کا اسم گرامی ''احمد '' ہے۔

عہد ین کیا ہے ؟

تورات وانجیل کو ہی ''عہدین ''کہا جاتاہے جیساکہ ہم نے مقدمتاً یہ بیان کیا ہے کہ تورات و انجیل قدیم ترین دو سماوی کتابیں جو خداوندعالم نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام پر بالترتیب نازل فرمائیں ہیں اور تورات کے متبعین( پیرو) کو ''یہود ''اور انجیل کے ماننے والوں کو ''نصاری'' کہا جا تا ہے ۔

بعض کے مطابق خدا وند عالم نے ان سے دوعہد لیےہیں۔ پہلا: تورات کی صور ت میں جسے عہد قدیم کہا جاتا ہے. اور دوسرا:عہد انجیل کی صورت میں جس کو عہد جد یدکہتے ہیں۔

یہ دونوں کلمات یونانی ہیں جسے معنی ''بشارت'' کے ہیں۔اور جیسا کہ مشہور ہے کہ یہ دونوں کتابیں ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوئیں ہیں۔تورات کو عہد قدیم کہاجاتا ہے جو پانچ رسالوں(اسفار خمسہ:سِفر تکوین ،سفرخروج ،سفر لاویان،سفر اعداد اور سفر تثنیہ )پر مشتمل ہے۔ان تمام مجموعہ کو عہد عتیق بھی کہتےہیں۔اوریہ (تورات)یہودیوں کے مجموعہ ٔ احکام کی بیان گر ہے۔

انجیل کے معنی بھی ''بشارت ''کے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ،ان کی تعلیمات اور ان کے معجزات پرمشتمل ہے۔وسے تو یہ ٢٧رسالوں پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے صرف چار مشہور ہیں:انجیل متی،انجیل مرقّس،انجیل لوقااورانجیل یوحنّا۔اس مجموعہ کو عہد جدید کہاجاتاہے۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ '' صاحبان عہدین ''کے بعد یہ تحریف سے نہ بچ سکیں !دور حاضر میں جوکتاب تورات وانجیل کے نام سے موجود ہے وہ یہودی و مسیحی احبار و رہبان کی ساختہ وپرداختہ ہے۔جسے مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے لکھی اور لکھوائی ہے۔

قرن سوم وچہارم میں بادشاہ روم نے ١٦٠انجیل کےنسخو ںمیں سے صرف ٢٧کو منتخب کیاجوعہد جدید کے نام سے مشہورہو ئی۔

چارمذکورہ انجیل  کےنسخو ں کے علاوہ ایک انجیل اور ہے جسے ''انجیل برناباس'' کہتے  ہیں جس میں صریحاً اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ اور رسول اکرمۖ کے صفات اور آپۖ کی بعثت وغیرہ کا بیان ہے ۔جسے یہودیوں اور مسیحیوں نے کتمان حق کے غرض سے ممنوع المطالعہ قرار دیا ہے ۔اور لوگ اسلام اور رسول اکرمۖکے حوالے سے جو باتیں عہدین و...سے بیان کرتے ہیں تو اکثرو بیشتراسے ہی اپنا محورقرار دیتے ہیں۔انجیل متی:فلسطین میں لکھی گئی جس کی زبان عبرانی ہے،انجیل مرقس:روم میں مرتب ہو ئی جس کی زبان رومی ہے،انجیل لوقا،یوحنااور برنابا:کی زبان یونانی ہے۔جو اسکندریہ اور آفس میں لکھی گئی ہے۔

خدا وندعالم نے حضرت ختمی مرتبت ۖکے خصوصی مقام و منصب ، القابات ، فضائل و کمالات ،آپ ۖ کی شریعت حمیدہ کے خصائص اورآپ ۖکی عالمگیر نبوت کے حوالے سے ان دونوں مقدس آسمانی کتابوں میں سردار الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف و خصائص بڑی تفصیل سے بیان کر دیئے تھے تا کہ آخری اور عالمگیر نبوت کی پہچان میں کسی کو کسی قسم کی بھی دقت و پریشانی نہ ہواور اور ہر کو ئی باآسانی اسے پہچان کر اتباع و پیروی کی سعادت سے بہرہ مند ہو سکے ۔

جیسا کہ اس حقیقت کو خدا وندعالم نے قرآن مجید میں مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے :''الذین یتّبعون الّرسول النبیّ الامی الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و الانجیل ....''جو بھی اس نبی امی اور رسول اعظم ۖ کی پیروی کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے یہاں تورات و انجیل میں موجودپاتے ہیں...

صا حب مجمع البیان سے مروی ہے کہ تورات کے سفر ِخامس میں اس طرح ارشاد ہے کہ ''ان کی برادری میں ان ہی میں سے ایک نبی بھیجوں گا۔ اور میں اپنا کلام اس کی زبا ن پر جاری کروں گا پس وہی کچھ کہے گا جو میں اس کووصیت کروں گا۔اسی طرح انجیل میں بھی ہے کہ جسمیں آپ ۖکو'' فارقلیط'' کے لفظ سے یاد کیاگیا ہے۔چنانچہ ایک مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کہنا ہے کہ ''میں جا رہاہوں اور تمہارے پاس'' فارقلیط'' آئے گااور وہ روحِ حق ہوگاجو اپنی مرضی سے بات نہ کرے گا۔اور وہ تمہارا نذیر ہوگا۔

''یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہداً و مبشراًو نذیراً و دعیاًالی اللہ باذنہ و سراجاًمنیراً۔'' ''محمد رسول اللہ و الذین معہ اشدّاء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعاً سجدا یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود ذالک مثلھم فی التوراة و مثلھم فی الانجیل ۔''

حضرت محمدۖ! اللہ کے رسول ہیں اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں بہت رحم دل ہیں تو دیکھئے گا انھیں کہ وہ کبھی حالت رکوع میں اور کبھی حالت سجدہ میں ہیں وہ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی تلاش و جستجو میں رہتے ہیں سجدوں کے نشانات ان کی پیشانیوں میں نمایاں ہیں تورات و انجیل میں ان کی یہ تمام نشانیاں اور مثالیں بیان کر دی گئی ہیں ۔

اور وہ '' فسا کتبھا للذین یتقون و یوتون الزّکاة و الذین ھم بآیتنا یومنون ....یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر و یحل لھم الطیّبات و یحرم علیھم الخبائث و یضع عنھم اصرھم و الاغلال التی کانت علیھم فالذین آمنوا بہ و عزّروہ و نصروہ و اتبعوا النور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون ۔

ہم یہ رحمت ان خوش نصیبوں کے لئے مقدر فرمادیں گے جو شان تقوی اپنا تے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ... اور یہ کہ وہ لوگوںکو ہر نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور ہر برے اعمال سے روکتے ہیں پاکیزہ اشیاء کے لئے ان کے لئے حلال ٹہراتے ہیں اور ناپاک چیزیں حرام قرار دیتے ہیں اور ان کے سروں سے بھاری بوجھ اتارتے ہیں اور دست و پا  کی زنجیر کو توڑتے ہیں ۔

اس لئے جو سعادت مند لوگ ان پر ایمان لا ئے اور ان کی عزت و مدد کی اور جو نورتاباں ان کے ساتھ اتار ا گیا ہے اس کی پیروی کی تو وہی لوگ فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو نے والے ہیں ۔

تبصرہ:

١)''فارقلیط''کلمہ ٔ یونانی ہے جس کا معنی کسی شخص کی تعریف اور حمد و ثنا بیان کرنے کے ہیں اور فرانسیسی زبان میں بھی اس لفظ کا معنی ''پاراکلت'' یعنی یونانی ''فارقلیط'' کاہی مفہوم ہے جو عربی میں لفظ محمد(ص) کا ہے ۔

٢) آیہ مذکورہ کہ جس میں قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ''''الذین یتّبعون الرّسول النبیّ'' الامی'' الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة و الانجیل ...''جو بھی اس نبی امی اور رسول اعظم ۖ کی پیروی کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے یہاں تورات و انجیل میں موجودپاتے ہیں..٦       جب انبیائے ماسبق نے اپنی اپنی امتوں کو ''رسول امی'' کی آمد و بعثت سے باخبر کیا اور آنحضرت ۖکی خصوصیت ،ان کے القاب اور صفات حمیدہ بیان کئے تو  آج کی طرح برسوں برس پہلے بھی یہود و نصاری لفظ ''امی ''سے سو استفادہ کرتے  ہو ئے آنحضرت ۖ پر اعتراض کرتے تھے کہ العیاذ باللہ مسلمانوں کے رسول لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ ''امی'' ہیں اور کسی راہب سے انہوں نے اسلام سیکھ لیا تھا ؟!

مارگیولس (Margolith ) ڈرپیر(Draper)اور ولیم میور (William Muir)نے اپنی کتاب  ''The Life of Muhammad ''میں آشکارا اس بات کو لکھتا ہے اور یہ تمام لوگ اس بات پر معتقد ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت ۖ نے بحیرا  راہب سے اسلام کے رموز و اسرار سیکھے تھے! اور یہ اعتراض آج بھی یہود و نصاری و...اور مسلمانوں کے بعض فرقوں میںاب بھی پایاجا تا ہے !تو یاد رہے یہ بات   بے بنیاد اور عقل سلیم کے سراسر خلاف ہے ۔

قارئین کرام جیسا کہ یہ جانتے ہیں کہ صحف سماوی میں لفظ ''امی''کی تکرار سے مراد یہ نہیں ہے کہ آنے والا رسول ایسا ہے جو لکھنے پڑھنے سے عاجز ہے ! نہیں بلکہ اس لفظ سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت ۖ ''ام القریٰ ''میں مبعوث بہ رسالت ہو ں گے ۔

''ام القریٰ ''خطّۂ عرب کا مرکز اور ساری دنیا کے لئے دینی مرکز تھا جو آج مکہ ٔ مکرمہ کے نام سے موسوم ہے ۔قرآن مجید میں ہے کہ ''لتنذ ر ام القری و من حولھا۔''تا کہ (آپ)مکہ مکرمہ کے رہنے والوں کو اور جو لوگ اس کے ارد گرد رہتے ہیں ،بد عملی سے ڈرائیں  ۔

لغت میں ہر اس چیز کو ''ام '' کہا جاتا ہے جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح و تربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبدا ء بنے ۔جس طرح ام الاضیاف (مہمان نواز )ام المساکین (مسکین نواز )ام الایتام (یتیم پرور) و یا لوح محفوظ کو ام الکتاب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام علوم کا سرچشمہ و منبع ہے اسی طرح حضرت ختمی مرتبتۖ کو ''امی ''کہا گیا ہے کیونکہ یہ باعث تخلیق کائنات بھی ہیں اور فطری اصول حیات کے ضامن بھی ۔یہ نہ ہو تے تو کائنات کی تخلیق نہ ہو تی''لو لاک لما خلقت الافلاک ۔''یہ نہ ہو تے تو دنیا میں تعلیم و تعلم و...کا باب ہی نہ کھلتا۔ ''ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ۔''

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''آنحضرت ۖکو امی اس لئے کہا جا تا ہے کہ آپ ۖ ''ام القریٰ '' یعنی مکہ مکرمہ میں پیدا ہو ئے، اور اس بات کو اہل کتاب خوب سمجھتے تھے لیکن صرف نسلی تعصب تھا جس کی بنیاد پر وہ لجاجت پر اتر آئے تھے ورنہ تمام کتب سماوی میں حضرت کی خبر آمداور آپۖ کے اوصاف کا صاف صاف بیان تھا کہ آپ ۖ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہو گی پھر آپ مدینہ کی طرف ہجرت کریں گے ۔

تفسیر صافی میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

رسو ل خدا ۖ ٧٢یا ٧٣ زبانوں میں لکھ پڑھ سکتے تھے اور یہ عدد صرف کثرت بیان کے لئے ہے ورنہ آپ ۖ عالمی رسول تھے اس لئے وہ عالمی تمام زبانوں پر حاوی تھے ۔

کیوں خدا وند عالم نے آپ کو قرآن مجید و دیگر صحف سماوی میں  لفظ ''امی ''سے یاد کیا ہے ؟

''امی''یہ آنحضرتۖ کی ایک خاص صفت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپۖ نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذانہ تهه نہیں کیے نہ ہی کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل کی ۔لیکن اس کے باوجود آپۖ نے جو قرآن پیش کیا اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا کے تمام فصحا و ادبا نے گھٹنے ٹیک دیئے! اور آپۖ نے جو تعلیمات پیش کیں ان کی صداقت و حقانیت کی معترف ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ۖ(بقول دشمنان اسلام )''امی'' نہیں ہیں بلکہ خدا ئے علیم کے سچے رسول ، عالم و دانا تھے ۔ ورنہ ایک امی نہ ایسا قرآن پیش کر سکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کر سکتا ہے جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے ناگزیر ہیں ، جنھیں اپنا ئے بغیر دنیا حقیقی امن و سکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسین علیہ السلام کی زیارت
عہدین(تورات و انجیل ) میں پیغمبراعظم صلی اللہ ...
باغ فدک کے تعجبات
موزنبیق میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری/ ...
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی فضیلت
کربلا ایک درسگاہ کہ جو زمان و مکان کی قید میں نہیں
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی شخصیت کی ...
فاطمہ زہرا(س) پر پڑنے والی مصیبتیں
دو محرم سے لے کر نو محرم الحرام تک کے مختصر واقعات

 
user comment