گذشتہ درس میں آسان عبارتوں کے ذریعہ دین میں تحقیق اور دین حق کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی گئی کہ یہ امر منفعت جوئی اور ضرر سے بچنے کے لئے ایک فطری عامل ہے جسے ہر انسان اپنے وجود میں پاسکتا ہے(١) یا علم حضوری اس کی تشخیص میں اشتباہ نہیں کرسکتا۔
اس درس میں اسی مطلب کو ایک دوسرے انداز میں ثابت کریں گے، جو دقیق مقدمات پرمشتمل ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی دین کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کرے، جہان بینی اور صحیح دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا جو بے نہایت منفعت کی طرف راہنمائی اور عظیم ضرر سے نجات دینے کا مدعی ہے ضروری ہے (تحقق معلول کے لئے علت ناقصہ ضرورت بالقیاس ہے) لیکن منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے، لہذا ایسے دین کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ضروری ہے۔
یہ استدلال جسے ''قیاس استثنائی'' کی شکل میں بیان کیا گیا ہے عقل کے احکامِ عملی اور ضرورت بالقیاس کی طرف ان کی باز گشت کے سلسلہ میں ایک خاص منطقی تحلیل ہے جو معلول (نتیجہ مطلوب) تک پہنچنے کے لئے ایک علت (فعل اختیاری) ہے، جیسا کہ اسے بیان کیا جاچکا ہے۔
اس درس میں یعنی مورد بحث دلیل کو اس شکل میں بیان کیاجاسکتا ہے، اگر کمال انسانی تک پہنچنا مطلوب فکری ہو تو اصول جہان بینی کی پہچان جو تکامل روح کے لئے شرط ہے ضروری ہوگا، لیکن کمال تک پہنچنا مطلوب فطری ہے، لہٰذا ان اصول کا جاننا ضروری ہے۔
آئیڈیالوجی کا معتقد نہ ہو وہ کمال انسانی کو حاصل نہیں سکتا، بلکہ اسے سرے سے ایک حقیقی انسان نہیں مانا جاسکتا یا دوسری تعبیرکے مطابق انسان بن کے جینے کے لئے جہان بینی اور صحیح آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔
یہ دلیل تین مقدمات پر مشتمل ہے۔
١۔انسان ایک کمال جو (کمال طلب) موجود ہے۔
٢۔ کمال انسانی حکم عقل کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اختیاری کردار کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے۔
٣۔ عقل کے احکام عملی ایک خاص نظری شناخت کے پرتو میں آشکار ہوتے ہیں کہ جن میں سے بہترین جہان بینی کے تین اصول ہیں، یعنی مبدا وجود کی شناخت (توحید) حیات کا انجام(معاد) حاصل کرنے کے لئے ضمانت شدہ راستہ (نبوت) یا ہستی کی پہچان انسان کے پہچان اور راہ کی پہچان ہے اب اس کے بعد ان تینوں مقدمات کی وضاحت کے ساتھ بحث کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔
انسان کمال طلب ہے
اگر انسان اپنے باطنی اور رو حی (معنوی) میلانات میں غور و فکر کرے تو اسے بخوبی معلوم ہوگا کہ یہ سارے تمایلات ایک مخصوص ہدف کی جانب گامزن ہیں، اصولاً کوئی بھی انسان اس بات کو پسند نہیں کرتا، کہ اس کے وجود میں کوئی نقص ہو اور اپنی پوری تاب و توانائی کے ساتھ اپنے ذاتی عیوب و نقائص کو دور کرنے میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنے مطلوب ہدف تک پہنچ سکے، اور جب تک وہ عیوب دور نہیں ہوتے انھیں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھتا ہے۔
یہ میلانات جب اپنی فطرت کے مطابق ہوتے ہیں تو یہی مادی و معنوی تکامل (کمال کی طرف جانے) کا ذریعہ بن جاتے ہیں، لیکن اگر اسباب و شرائط کی بنیاد پر یہی میلانات انحرافی مسیر پر گامزن ہوجائیں تو غرور و گھمنڈ، ریا کاری اور خودخواہی جیسی بری صفت انسان کے اندر پیدا جاتی ہے
بہر حال کمال طلبی کی صفت ایک قوی فطرت ہے جو روح انسان میں پائی جاتی ہے ، جس کے واضح نمونہ اور آثار بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں لیکن ایک معمولی توجہ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان سب کا ریشہ وہی کمال جوئی ہے۔
انسان کا کمال، عقل کی پیروی میں ہے۔
نباتات کا رشد کرنا خارجی اسباب و شرائط کا نتیجہ اور ایک جبری امر ہے ،کوئی بھی درخت اپنے اختیار سے رشد نہیں کرتا، اور اپنی مرضی کے مطابق پھل نہیں دیتا، اس لئے کہ وہ ارادہ اور شعور کا حامل نہیں ہے۔
لیکن جانوروں کے رشد و نمو میں انتخاب کے آثار مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ارادہ و انتخاب اپنی طبیعی تقاضوں کے مطابق ایک محدود دائرے میں غرائز ہ حیوانی کے تحت ہر حیوان کی اپنی حسی قوت کے مطابق ایک محدود شعور کے پر تو میں ہے۔
لیکن انسان کی ذات نباتاتی و حیوانی خواصیات کے حامل ہونے کے علاوہ دورو حانی امتیازی پہلوؤں کا بھی مالک ہے، ایک طرف تو اس کے فطری میلانات اور خواہشات کے لئے کوئی حد مقررنہیں ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عقل کی کامل ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معلومات کو بے نہایت بنا سکتا ہے، ان دونوں خصوصیات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کے ارادوں کی وسعت طبیعت کے حدود سے بھی کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔
جس طرح نباتات کے کمالات ایک خاص نباتی طاقت کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور حیوانی کمالات انھیں حسی ادراکات کے نتیجہ پائے جانے والے ارادوں کی وجہ سے ہے اسی طرح انسانی کمالات کا سر چشمہ در واقع اس کا روحانی پہلو ہے جو عقل اور ارادوں کے ذریعہ حاصل ہوتےہیں، وہ عقل کہ جو مطلوب کے مراتب کو پہچان لے اور تزاحم(اھم اور مھمکو سمجھنے کے وقت ان میں سے بہترین کو ترجیح دے۔
لہٰذا رفتار و کردار کے انسانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عقل کی راہنمائی میں انسانی میلانات کے ذریعہ وجود میں آنے والے ارادوں کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ عمل جو صرف اور صرف حیوانی غرائز کے ذریعہ عمل میں آئے، وہ حیوانی ہے جس طرح کہ وہ حرکت جو مکینکی طاقت کے ذریعہ انسانی بدن میں پیدا ہوتی ہے وہ ایک فیزیکی(طبیعی حرکت ہے۔
عقل کے احکام عملی کو مبانی نظری کی ضرورت ہے
اختیاری عمل ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ مطلوب نتیجہ کو حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اس کی قدر و قیمت اس کے ہدف کے مطابق ہے جو روح کے تکامل(کمال کی طرف جانے) میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا جو عمل بھی کسی روحی کمال کے خاتمہ کا سبب ہے اس کی قدر و قیمت منفی ہوگی۔
لہذا اسی صورت میںعقل ، انسان کے اختیاری اعمال پر قضاوت کرسکتی ہے کہ جب انسانی کمالات اور ان کے مراتب سے پوری طرح آگاہ ہو، اور اچھی طرح سے جانتی و پہچانتی ہو کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اوراس کی زندگی کی شعاعوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟ اور وہ کمالات کے کتنے مدارج طے کرسکتا ہے؟ یا دوسری تعبیر کے مطابق اس کے وجود کے کتنے پہلو ہیں ؟اور اس کی خلقت کامقصد وہدف کیا ہے؟
اسی وجہ سے صحیح آئیڈیالوجی کا حاصل کرنا، یعنی اختیار ی اعمال پر ایک پرُ ارزش نظام کا حاکم صحیح جہان بینی اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی راہ میں ایک قدم ہے ، لہٰذا جب تک وہ ان مسائل کو حل نہیں کرتا اس وقت تک کردار و اعمال کے سلسلہ میں کوئی قطعی قضاوت نہیں کر سکتا، جس طرح سے کہ جب تک ہدف معلوم نہیں ہوتا اس وقت تک اس ہدف تک جانے والے راستہ کی تعیین غیر ممکن ہے، لہذا یہ معارفِ نظری جو جہان بینی کے اساسی مسائل کو تشکیل دیتے ہیں حقیقت میں اسے عقل احکام عملی اور باارزش نظام کے مبنیٰ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
نتیجہ۔
ان مقدمات کی تشریح کے بعد اب ہم دین میں تحقیق کی ضرورت، صحیح آئیڈیا لوجی اور جہان بینی کو اس طرح ثابت کر یں گے۔
انسان اپنی فطرت کی وجہ سے اپنے انسانی کمال کی جستجو میں ہے اور اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے مطلوبہ کمال کو حاصل کرلے، لیکن قبل اس کے کہ وہ ان امور کو پہچانے جو اسے کمال تک پہنچاسکتے ہیںضروری ہے کہ وہ اپنے انتہائی کمال کو پہچانے، اور اس انتہائی کمال کا جاننا اپنے وجود کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے میں ہے اس کے بعد اپنے کمال کے مختلف مراتب میں مختلف اعمال کے درمیان موجود، رابطہ کے مثبت یامنفی ہونے کو تشخیص دے، تا کہ وہ اس طرح اپنے انسانی کمال کے صحیح راستہ کو پہچان سکے، لہٰذا جب تک وہ نظری شناخت (اصول جہان بینی) کو حاصل نہیں کرتا اس وقت تک صحیح عملی نظام (آئیڈیالوجی) کو قبول نہیں کرسکتا۔
لہذا دین حق کی معرفت حاصل کرنا جو صحیح جہان بینی اور آئیڈیالوژی کو شامل ہے ضروری ہے اور اس کے بغیر کمال انسانی تک پہنچنا غیر ممکن ہے جیسا کہ وہ رفتار جوایسے افکار و اقدار کا نتیجہ نہ ہو وہ انسانی نہیں ہو سکتی یا وہ لوگ جو انھیں جاننے کے باوجود انکار کرتے ہیں، تنہا اپنی حیوانی خواہشات اور جلد ختم ہو نے والی مادی نعمتوں پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی اھمیت اصل میں ایک حیوان سے زیادہ نہیں ہیں، جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے
''یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الاَنعَامُ''.(2)
وہ دنیا میں سکون حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ( بے فکری سے) کھاتے پیتے ہیں جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں ۔
چونکہ وہ لوگ اپنی انسانی صلاحیتوں کو تباہ کرتے ہیں لہٰذا درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے
''ذَرہُم یَأکُلُوا وَیَتَمَتَعُوا وَیُلہِہِمُ الاَمَلُ فَسَوفَ یَعلَمُونَ''.(3)
اے رسول ۖ انہیں انھیں کی حالت پر چھوڑ دیجئے تا کہ (خوب )عیش و نوش کر لیں اور ( زندگی کے ) مزے اڑالیں اور ان کی تمنا ئیں انہیں لہو و لعب میں مشغول رکھے عنقریب وہ جان لیں گے ۔
………………………………………………
(١)اس دلیل کی شکل کچھ اسطرح ہے اگر منفعت کا حصول اور ضرر سے پرہیز انسان کا فطری مطلوب ہے۔ ایسے
(2)سورۂ محمد۔ آیت/ ١٢ ۔ وہ حیوانوں کی طرح زندگی گذارتے ہیں اور کھاتے ہیں۔
(3)سورۂ حجر۔ آیت/ ٣. انھیں ،انھیں کے حال پر چھوڑدیں کہ کھائیں اور زندگی گذاریں اور ان کی دنیوی آرزوئیں انھیں مگن رکھیں کہ عنقریب انھیں معلوم ہوجائے گا.
source : http://www.shianet.in