اردو
Thursday 10th of October 2024
0
نفر 0

خطبہ ٴ غدیر کا خلا صہ :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “

خطبہ ٴ غدیر کا سب سے نمایاں جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے ۔جب پیغمبر اکرم(ص) نے خطبہ کے حساس مو قع پر امیر المو منین علیہ السلام کے بازو پکڑ کر مجمع کے سامنے ان کا تعارف کرتے هوئے بیان فر مایا ھے ۔[1] 

اگر ھم اس جملہ کی اچھے طریقہ سے تحلیل کریں تو یہ معلوم هوگا کہ یہ جملہ کو تا ہ ضرور ھے لیکن پُر معنی ھے اور کئی اعتقادی پھلوؤں پر مبنی ھے کہ اگر کو ئی اس کوتسلیم نہ کرتا هو تو وہ اس جملہ کو بھی قبول نھیں کر سکتا ھے ھم اسی خطبہ میں مذکورہ مطالب کے ذریعہ ھم جملہ کی تشریح کر تے ھیں ۔ 

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ “کے کلمات کی تشریح جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ“پانچ کلموں سے بنا ھے : 

”مَنْ “یعنی ”ھر شخص “۔یہ کلمہ ان تمام مسلمانوں کو شامل ھے جو پیغمبر اکرم(ص) کو تسلیم کرتے ھیں۔ 

”کُنْتُ “،یعنی ” میں تھا “۔فعل ما ضی سے استفادہ کرتے هوئے اس کا مطلب یہ هوگا کہ یہ ”مَوْلَاہُ “یعنی ”مولا اور اس کا صاحب اختیار ۔۔۔“۔یہ جملہ کلمہ کا اصلی محور ھے اور آنحضرت(ص) خود اس خطبہ اور دوسرے مقامات پر اس جملہ کے معنی بیان فر ما ئے ھیں ۔”مولی“یعنی جس شخص کے ھاتھ میں لوگوں کا اختیار هو اور ان کی نسبت وہ ان لوگوں کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتا هو اور جو بھی حکم ان کو دیدے وہ اس حکم کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کریںاور اگراس حکم میں اس کی حقانیت یا شک یا اعتراض کے عنوان سے کو ئی کو تا ھی کرے تو یہ کفر کے برابر ھے اور آنحضرت (ص) کی نبوت کا انکار کرنا ھے ۔ 

”فَعَلِیٌّ “یعنی ”پس علی ۔۔۔۔علی بن ابی طالب (ع) کومنصب و مقام کےلئے معین کرنا جو بعد کے کلمہ میں ذکر هوا ھے یہ فتنہ ڈالنے والوں اور سازش و منصوبہ بنا نے والوں کے منھ پر زور دار طمانچہ مارناھے تا کہ وہ امام کی شخصیت کے متعلق شک و تردیدیا اس کے تعدد کے احتمال کو اپنے ذہن سے نکال دےں ۔ دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام کے تعارف سے دوسرے گیارہ امام جو ان کے بعد ان کے مقام منصب پر فا ئز هوں گے ان کو اس طرح معین کرنا ھے کہ جس سے تحریف اور شک کا راستہ بند هو جا ئے ۔ 

”مَوْلَاہُ “، یعنی ”اس کا مو لا اور صاحب اختیار ھے “۔وھی منصب جو اس جملہ کے تیسرے کلمہ میں پیغمبر اکرم(ص) کےلئے ذکر هوا بالکل وھی منصب علی بن ابی طالب (ع) اور آپ کے بعد آپ کی نسل سے آنے والے گیارہ اماموں کےلئے ھے اور خداوند عالم کی جانب سے عطا کیا گیا ھے وہ لوگوں کے صاحب اختیار ھیں جو کچھ وہ فر مائیں اسے بے چون و چرا قبول کرنا ضروری ھے،اور ان کے سلسلہ میں ھر طرح کا اعتراض اور شک و تردید کفر کے مساوی ھے ۔ 

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کا دقیق مطلب 

اس جملہ کے کلمات کو بیان کرنے کے بعد اس کا ترکیبی صورت کی وضاحت کے ساتھ ترجمہ کرتے ھیں : 

ھر مسلمان جو پیغمبر اکرم(ص) کو اپنا صاحب اختیار قبول کرتا ھے اور ان کے فرامین اوراوامر و افعال میں اپنے کو کسی طرح کا شک و شبہ اور اعتراض کرنے کی اجازت نھیں دیتا ،اس کو علی بن ابی طالب (ع) کی نسبت بھی یھی عقیدہ رکھنا چا ہئے اور ان کی گفتگو ،افعال اور جو کچھ ان سے دیکھے اور سنے اس کو حق سمجھے اور چونکہ ان کے وجود کے سلسلہ میں کسی طرح کے کسی شک و اعتراض کی کوئی گنجائش نھیں ھے ،لہٰذا جو شخص کسی بھی طریقہ سے ان کی مخالفت کرے اوران کے مد مقابل هو جا ئے وہ باطل ھے اور کفر کے مسا وی ھے ۔ 

”علی علیہ السلام “کے اسم مبارک کو بیان کرنے میں ایک اھم بات 

حضرت علی بن ابی طالب (ع) کا اسم مبارک پیغمبر اکرم (ص)کے بعد امام بلا فصل کے عنوان سے امامت کی راہ میں پھلے شخص کے عنوان سے ذکر کیا گیا ھے تا کہ ان کی امامت ثابت هو جا نے کے بعد یہ رشتہ باقی رھے اوران کے بعدگیارہ اماموں میں سے ھرایک یکے بعد دیگرے اس منزل کو قیامت تک پہنچائے ۔ 

خطبہ میں مختلف مقامات پر امیر المو منین علیہ السلام کے اسم مبارک کو ذکر کرنے کے بعد فوراً بلا فاصلہ اماموں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ خداوند عالم نے اپنے نا ئب کے عنوان سے ان صاحب اختیارلوگوں کوقیامت تک کےلئے (تسلسل کے ساتھ )لوگوں کےلئے معین فرما دیا ھے اور لوگوں پر اس طرح حجت تمام کردی ھے کہ وہ سیدھے راستہ کو آسانی کے ساتھ اخذ کرلیں اور کسی کےلئے کو ئی عذر باقی نہ رھے ۔ 

کلمہ ٴ ”مولیٰ “کے بارے میں اھم بات 

ظاھر ھے لوگوں کا مطلق صاحب اختیار وھی شخص هو سکتا ھے جونہ صرف گنا ہ ھی نہ کرے اور شیطان اور هویٰ و هوس کو اپنے نفس پرمسلط نہ هونے دے بلکہ وہ اشتباہ و غلطی بھی نہ کرے تاکہ وہ لوگوں کی ھلاکت کا باعث نہ هو سکے ۔ 

خداوند عالم نے ان لوگوں کو صاحب اختیار قرار دیا ھے جو مطلق عصمت کے مالک ھیں اور وہ ھر طرح کی برائی و پلیدی سے پاک و پاکیزہ اور منزہ ھیں ۔اس کے علاوہ اس نے اُن کے علم کو اپنے لا محدود علم سے متصل فرمایا ھے تاکہ وہ لوگوں کی طرح طرح کی مشکلوں کے جواب دہ هو سکیں ۔ 

چودہ معصومین علیھم السلام کا لوگوں کے صاحب اختیار هونے کو مشخص و معین کرنا جن کا امر ھر مو جود پر نافذ ھے فقط خداوند عالم کی جا نب سے هو سکتاھے ، چونکہ وھی مخلوق کو وجود سے آراستہ کرنے والا ھے اس نے بہترین چیزوں کو خلق فر مایا ھے اور صرف وھی ھے جو کسی شخص کے ھاتھ میں لوگوں کے اختیار تام کو حوالہ کرنے کی ضمانت دے سکتا ھے ۔ یہ پیغمبر اکرم(ص) ھیں جنھوں نے خداوند عالم کی جا نب سے ائمہ معصومین علیھم السلام کی اس مقام کے سلسلہ میں پشت پنا ھی کے عنوان سے تعارف کرایا ھے ۔ 

پروردگار مھر بان نے نظامِ خلقت میں صرف اسی پر اکتفا نھیں کی ھے بلکہ اس نے صاحبان اختیار ان لوگوں کو قرار دیا ھے جونور سے خلق هو ئے ھیں اور ان کو انسانی قالب میں ڈھال دیا ھے معصومین علیھم السلام وہ افراد ھیں جو عالَم کی تخلیق سے پھلے خلق هو ئے ھیں اور پوری دنیا ان کے وجود کی برکت سے خلق هو ئی ھے ۔ 

خداوند عالم نے لوگوں کو نورانی موجودات کے سپردکردیا ھے تاکہ لوگ اس طریقہ سے اس (خدا) کی عبادت کریں اور ان سے ھدایت حاصل کریں ،لہٰذا اور کسی بھی طریقہ سے اخذ کی جانے والی ھدایت خداوند عالم کی بارگاہ میں قابل قبول نھیں ھے ۔امیر المو منین علیہ السلام واقعہ ٴ غدیر کو بیان کرتے وقت فر ما تے ھیں: 

”۔۔۔وَکَانَتْ عَلیٰ وِلَایَتِیْ وِلَایَة اللّٰہِ،وَعَلیٰ عَدَاوَتِیْ عَدَوَةُ اللّٰہِ،۔۔۔فَکَانَتْ وِلَایَتِیْ کَمَالُ الدِّیْنِ وَرَضِیَ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ“[2] 

”خدا وند عالم کی ولایت میری ولایت کے ذریعہ پہچا نی جا تی ھے اور خداوند عالم سے عداوت بھی میری عداوت کے ذریعہ پہچا نی جا تی ھے ۔۔۔لہٰذا میری ولایت کمال دین اور خداوند عالم کی رضایت کا باعث ھے “ 

اسی طرح حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اس سلسلہ میں فر ماتے ھیں :جب خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعد اپنے اولیاء کو منصوب فرماکر تم لوگوں پر احسان کیا تو پیغمبر اکرم(ص) سے فرمایا : 

اور اس نے اپنے اولیا ء کے لئے تم پر حقوق واجب کئے اور تم کو حکم دیا کہ اگر تم نے ان کے حقوق کو ادا کیا تو جو کچھ تمھارے پاس ازواج ،اموال اور کھانے پینے کی چیزیں ھیں وہ تمھارے لئے حلال ھیں اور اس میں تمھارے لئے خیر و بر کت ھے تا کہ یہ معلوم هوجا ئے کہ کون شخص خداوند عالم کی اطاعت کرتا ھے ۔[3] 

بہترین مو لیٰ کا انتخاب 

مسلمان بلکہ تمام انسان خداوند عالم کا کتنا شکر ادا کریں کہ اس نے اپنی بیکراں رحمت کے دروازے اس طرح لوگوں کےلئے کھولے ،اور چودہ معصومین علیھم السلام کے انوار مقدسہ کو اس عالَم نورانی سے انسانی شکل میں قرار دیا اور ان کا اپنے نمائندوں کے عنوان سے تعا رف کرایا ،اس بڑی نعمت کے ذریعہ اس نے عالم بشریت پر ایک عظیم احسان کیا ھے ۔ 

ھم خداوند عالم کے شکر گزار ھیں کہ اس نے ھم کو یہ اجازت نھیں دی کہ ھم اپنا صاحب اختیار خود معین کریں کہ ہزاروں غلطیوں سے دو چا ر هو جا ئیں ،اور اس نے اپنے انتخاب کے ذریعہ بھی معمو لی انسانوں کو ھمارا مو لا معین نھیں فر مایا ،بلکہ ان ھستیوں کو ھمارا مو لا معین فرمایا جو تمام عالم انسانیت میں سب سے بلند و بالا مقام پر فا ئز ھیں ۔جیسا کہ خود آنحضرت (ص) نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا ھے :تمھارا پیغمبر سب سے بہترین پیغمبر ،اور تمھارا وصی سب سے بہترین جا نشین ،اور ان کی اولاد سب سے بہترین جا نشین ھیں “ 

جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“سے نتیجہ اخذ کرنا

اس مقام پر خطبہ کی دو اھم جہت جو جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“سے نتیجہ اخذ کرنے کے مترادف ھیں کی طرف اشارہ کرتے ھیں : 

الف :صراط مستقیم جس پر قرآن و حدیث استوار ھیں صرف ائمہ معصو مین علیھم السلام کا راستہ ھے 

اس سلسلہ میں خطبہ میں دو جامع جملے بیان هو ئے ھیں : 

۱۔میں خداوند عالم کا وہ سیدھا راستہ هوں جس کی تم کوپیروی کا حکم دیا گیا ھے اور میرے بعد علی (ع) ان کے بعد ان کے صلب سے میرے فرزند جو ھدایت کرنے والے امام ھیں ۔ 

۲۔” سوره حمد ائمہ علیھم السلام کی شان میں نازل هوا ھے “یعنی مسلمان جو ھر دن کم سے کم دس مرتبہ ”اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ “کہتے ھیں وہ حقیقت میں خدا وند عالم سے یہ چا ہتے ھیں کہ وہ ان کی ائمہ معصومین علیھم السلام کے راستہ کی طرف ھدایت کرے اور جو لوگ اس راہ کی طرف ھدایت پاتے ھیں وہ ”اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ “ھیں اور جو لوگ اس راہ سے منحرف هو جاتے ھیں وہ ”مَغْضُوْبٌ عَلَیْھِمْ“اور ”ضَا لِّیْنَ“ھیں ۔ 

ب:خداوند عالم کا دین اورخداوند عالم کی سب سے بڑی نعمت ،کہ جس نعمت کے آنے سے نعمتیں کا مل هو ئیں ،ائمہ علیھم السلام کی ولایت اوروہ ان کا لوگوں کا صاحب اختیار هونا تھا،اور وہ اسی وقت دین اسلام ایک کامل دین کے عنوان سے خدوند عالم کی بارگا ہ میں قبولیت کے درجہ پر فائز هوا اس سلسلہ میں خطبہ ٴ غدیر میں دو جملہ ارشاد فر ما ئے : 

۱۔پروردگار جب میں نے لوگوں کےلئے علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت بیان کی تو تو نے یہ آیت: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔“نازل فر ما ئی آج میں نے دین اسلام کو کا مل کردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ھے “اور یہ آیت :نازل فرما ئی ”اور جو اسلام کے علاوہ کو ئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جا ئے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ اٹھانے والوں میں هوگا “۔ 

۲۔ایھا الناس !خداوند عالم نے اس (علی (ع) ) کی امامت کے ذریعہ اپنے دین کو کا مل کردیا ھے لہٰذا جو شخص ان کی اور ان کے بعد ان کی نسل سے ان کے جا نشین امام جن کا سلسلہ قیامت تک رھے گا کی اقتدا نہ کرے اور ان کو اپنا امام قرار نہ دے تو اس کے اعمال بیکار ھیں اور اس کا ٹھکانا جہنم ھے “ 

[1] اس سلسلہ میں دوسرے حصہ کے دوسرے باب میں رجوع کیجئے ۔ 

منصب پیغمبر اسلام (ص) کےلئے ان کی عام نبوت کی بنیاد اوراختتام نبوت ھے اور یہ ان لوگوں سے خطاب ھے جو اب تک آنحضرت (ص)کے اس منصب کو قبول کرتے ھیں ۔ 

[2] بحا رالانوار جلد ۵۰ صفحہ ۳۲۱۔ 

[3] بحا ر الانوار جلد ۲۳صفحہ ۹۹ حدیث ۳۔


source : http://makarem.ir/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
امامت کے سلسلہ میں دو نظریئے
نمازکی اہمیت اوراہل بہشت کے درجات میں فرق
وحی کی حقیقت اور اہمیت (علم و آگاہی اور اس کی ...
فلسفہ نماز شب
ولادت امام جواد علیہ السلام
ماہ ربیع الاوّل کے اعمال
عزاداری وسیلہ ہے ہدف نہیں
شیر خوار کربلا حضرت علی اصغر کی شہادت
رمضان المبارک ہمیں ایثار و قربانی سے مشکلات کا ...

 
user comment