بیشک قرآن مجید علوم طبیعیات یا علم طب ،علم نفسیات اور علم ریاضی کی کتاب نہیں ہے۔
بلکہ قرآن مجید ہدایت اور انسان سازی کی کتاب ہے اور جو کچھ اس سلسلہ میں ضروری ہے وہ اس میں پایا جاتا ہے۔
ہمیں قرآن مجید سے توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ہمارے لئے مختلف علوم کا دائرة المعارف ہو۔بلکہ ہمیں قرآن مجید سے نور ایمان و ہدایت ،تقویٰ وپرہیز گاری، انسانیت واخلاق اور نظم وضبط کے قوانین کامطالبہ کر نا چاہئے اور قرآن مجید میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔
لیکن قرآن مجیدمذکورہ مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی علوم طبیعیات کے بعض مسائل اور خلقت کے اسرار اور کائنات کے عجائبات کی طرف بھی کچھ اشارے کرتا ہے۔ بالخصوص توحید کی بحث میں ”برہان نظم“کے تناسب سے خلقت کائنات کے بعض اسرار سے پردہ اٹھاکر ایسے مسائل کو واضح کرتا ہے کہ اس ماحول اور زمانہ کے دانشوروں کے لئے بھی نا معلوم تھے ۔
قرآن مجید کے اس قسم کے بیانات کے مجموعہ کو ہم ”قرآن مجید کے علمی معجزات“ کہتے ہیں ۔
یہاں پر اس قسم کے چند معجزات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
قرآن مجید اور قوت جاذبہ کا قانون
مشہور سائنسدان”نیوٹن“سے پہلے کسی نے قوت جاذبہ کے کلی قانون کا مکمل طور پر انکشاف نہیں کیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن ”نیوٹن“سیب کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک سیب درخت سے جدا ہو کرزمین پر گر گیا ۔اس چھوٹے اور معمولی واقعہ نے نیوٹن کے ذہن کو اس قدرسوچ میں مبتلا کر دیا کہ وہ برسوں تک اس سلسلہ میں غور وفکرکرتا رہا کہ یہ کون سی طاقت ہے جس نے سیب کو اپنی طرف کھینچ لیا؟ کیوں یہ سیب آسمان کی طرف نہیں گیا ؟بالآخر برسوں کی فکر کے بعد اس نے قانون جاذبہ کا انکشاف کیا کہ”دوجسم اپنے جسموں کی براہ راست نسبت سے اور ان کے در میان فاصلہ کی مجذور معکوس نسبت سے ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔“
اس قانون کے انکشا ف سے معلوم ہوا کہ نظام شمسی کہاں پر واقع ہے؟ یہ بڑے بڑے سیارے کیوں اپنے مدار میں سورج کے گرد گھومتے ہیں ؟کیوں یہ فرار کر کے مختلف اطراف کی طرف نہیں چلے جاتے؟ وہ ایک دوسرے پر کیوں نہیں گرتے؟یہ کونسی طاقت ہے جس نے ان سیاروں کو اس لامتناہی فضا میں ایک خاص اور دقیق مدار میں گردش کی حالت میں رکھاہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس سے انحراف نہیں کرتے ہیں؟!
جی ہاں!”نیوٹن“نے انکشاف کیا:ایک جسم کا دائرہ کی صورت میں گھومنا اس کے مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور قانون جاذبہ اسے مرکز کی طرف کھینچتا ہے۔اگر یہ دو قوتیں (دافعہ و جاذبہ)مکمل طور پر تعادل رکھتی ہوں،یعنی ”اجسام“اور ان کے در میان”فاصلے اتنی قوت ”جاذبہ“پیدا کریں کہ قوت”دافعہ“ کی دورانی حرکت کی سرعت اور مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنیںتو ”جاذبہ“و ”دافعہ“ کا یہ تعادل انھیںدائمی طور پر اپنے مدار میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔
لیکن قرآن مجید نے چودہ سوسال پہلے اس حقیقت کو سورئہ رعد کی دوسری آیت میں یوں بیان کیا ہے:
<اللّٰہ الّذی رفع السمٰوٰت بغیر عمدٍ ترونھا ثمّ استویٰ علی العرش وسخّر الشّمس والقمر کلّ یجری لاجلٍٍ مسمیً یدبّر الامر یفصّل الاٰیٰت لعلکم بلقآء ربّکم تو قنون>
”اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کردیا ہے ،جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ،اس کے بعد اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا اور آفتاب و ماہتاب کو مسخر بنایا کہ سب ایک معینہ مدت تک چلتے رہیں گے،وہی تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اپنی آیات کو مفصل طور سے بیان کر تا ہے کہ شاید تم لوگ پروردگار کی ملا قات کا یقین پیدا کر لو۔“
اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے:
الیس اللّٰہ یقول بغیر عمد ترونھا؟
قلت:بلی،قال:ثم عمد لکن لا ترونھا!
(امام نے فر مایا:)کیا خدا نہیں فر ماتا ہے کہ ہم نے نظر نہ آنے والے ستونوں (کے ذریعہ اسے بلند کیا)؟راوی کہتا ہے میں نے امام کے سوال کے جواب میں عرض کی :جی ہاں۔امام(ع) نے فر مایا:لہذا ستون موجود ہیں،لیکن تم انھیں نہیں دیکھ پاتے ہو۔“
کیا ”قوت جاذبہ“کے مفہوم سے عام لوگوں کو آگاہ کر نے کے لئے عربی زبان میں ”عمدٍ لا ترونھا “(غیر مرئی ستون)سے زیادہ واضح اور آسان تعبیر موجود ہے؟!
ایک اور حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں:
”ھذا النجّوم التی فی السماء مدائن مثل المدائن التی فی الارض مر بوطة کل مدینة الی عمود من نور“
”آسمان پر موجودہ یہ ستارے ،زمین پر موجود شہروں کے مانند شہر ہیں۔ ہر شہر دوسرے شہر کے ساتھ (ہر ستارہ دوسرے ستارے کے ساتھ)نور کے ستون کے ذریعہ جڑا ہوا ہے“!
آج کے سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آسمان پر موجود ستاروں میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے ستارے ہیں جن میں زندہ اور عقل وشعور رکھنے والی مخلوقات ساکن ہیںاگر چہ ان کی تفصیلات اور جزئیات ابھی تک انسان کی دسترس میں نہیں ہیں۔
زمین کے اپنے اور سورج کے گرد گھومنے کا انکشاف
مشہور ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اس بات کا انکشاف کیا کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ،وہ تقریباًچار سو سال پہلے اٹلی میں رہنے والا ،”گلیلیو“نام کا ایک ماہر فلکیات تھا ۔سوسال اس انکشاف سے پہلے دنیا کے دانشور اور ماہرفلکیات،ایک مصری دانشمند ”بطلیموس“کے نظریہ ہیئت پر عمل پیرا تھے کہ وہ کہتا تھا:زمین کائنا ت کا مرکز ہے اور تمام دوسرے سیارے (کرّات)اس کے گرد گھومتے ہیں۔“
البتہ ”گلیلیو“کو اس علمی انکشافات کے جرم میں کلیسا کے حامیوں کی طرف سے حکم کفر دیا گیا۔اس نے اپنے اس نظریہ کے بارے میں بظاہر تو بہ اور اظہار ندا مت کر کے موت سے نجات پائی ۔لیکن آخر کار اس کے بعد والے دانشوروں اور سائنسدانوں نے اس کے نظریہ پر تحقیق جاری رکھی اور آج یہ مسئلہ نہ صرف ایک مسلم علمی حقیقت کے عنوان سے قبول کیا جا چکا ہے ،بلکہ قابل حس تجربوں سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ۔فضائی پر وازوں کے بعد یہ مسئلہ عینی مشاہدات کے مرحلہ سے بھی گزر چکا ہے۔
مختصر یہ کہ زمین کی مرکزیت کا مسئلہ غلط ثابت ہوا اور معلوم ہو گیا کہ یہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہے کہ ہم زمین کو ساکن اور تمام ستاروں اور سیاروں کو زمین کے گرد گھومتے محسوس کر رہے ہیں ۔حالانکہ ہم خود حرکت میں ہیں اور ستاروں اور سیاروں کو حرکت میں فرض کرتے ہیں ۔
بہر حال ”بطلیموس“کا نظریہ تقریباً پندرہ سو سال تک علماء اور دانشوروں کے ذہنوں پر چھایا رہا،حتی قرآن مجید کے ظہور کے وقت بھی کوئی اس نظریہ کی مخالفت کر نے کی جراٴت نہیںکرتاتھا۔
لیکن جب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ سورئہ نمل کی آیت نمبر ۸۸ میں زمین کی گردش پر واضح صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے:
<وتری الجبال تحسبھا جامدة وھی تمرّمرّ السّٰحاب صنع اللّہ الّذی اٴتقن کلّ شیءٍ انّہ خبیر بما تفعلون> (سورہ نمل/۸۸)
”اور تم پہاروں کو دیکھو گے توسمجھو گے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر جامد ہیں حالانکہ یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے ۔یہ اس خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو محکم بنایا ہے اور وہ تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔“
مذکورہ آیت واضح الفاظ میں پہاڑوں کی حرکت کا ذکر کرتی ہے جبکہ ہم سب انھیں ساکن تصور کرتے ہیں ۔اور ان کی حر کت کی بادلوں کی حر کت سے تشبیہ دینا اس کی سرعت ،نرمی اور سکوت اور بغیر شور وغل کے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ”زمین کی حرکت“کو پہاڑوں کی حر کت سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی عظمت کو آشکار کیا جارہاہے ،کیونکہ یہ مسلم ہے کہ پہاڑ اپنے اطراف کی زمینوں کی حرکت کے بغیر کوئی حرکت نہیں رکھتے بلکہ دراصل ان کی حرکت زمین کی حر کت ہے (اپنے گرد گھومنا یا سورج کے گرد گھومنا یا دونوں حرکتیں )۔
ذرا غور کیجئے : ا یک ایسے زمانے میں جب دنیا کی تمام علمی محافل اور دانشور زمین کے ساکن وثابت ہو نے اور سورج اور تمام سیاروں اور ستاروں کے حرکت میں ہونے کے نظریہ کو باضابط طور پر قبول کر چکے تھے،یہ اعلان کر نا کہ زمین حرکت میں ہے،کیا یہ ایک عظیم علمی معجزہ شمار نہیں کیا جائے گا؟!
اور یہ اعلان بھی ایک ایسے شخص کے توسط سے کہ جس نے نہ صرف کسی سے کوئی سبق نہیں پڑھا تھا بلکہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہا تھا جو علم و تہذیب سے دور شمار ہو تا تھا ،کیا یہ انکشاف اس آسمانی کتاب کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔؟
source : http://makarem.ir/