اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

خمس کا نصف حصہ سادات سے مخصوص ہونا

جواب میں ہم عرض کرتے ہیں جو لو گ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں انھوں نے اس اسلامی حکم کی مکمل طور پر تحقیق نہیں کی ہے، کیونکہ اس اعتراض کا جواب خمس کے شرائط میں موجود ہے۔

وضاحت:

اولاً: خمس کا نصفحصہ جو سادات اور بنی ہاشم کو دیا جاتا ہے لیکن صرف غریب اور نیاز مند افراد کو دیا جاتا ہے اور وہ بھی سال بھر کا خرچ، اس سے زیادہ نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا خمس کا یہ نصف حصہ صرف انھیں لو گوں کو دیا جاسکتا ہے جو غریب، بیمار ، یتیم بچے ہوں، یا کسی بھی باعث اپنی زندگی کے خرچ سے لاچار ہوں۔

لہٰذا جو لوگ کام کرنے کی قدرت رکھتے ہوں (اس وقت یا آئندہ) اور اپنے خرچ بھر در آمد رکھتے ہوں ان کو خمس نہیں دیا جاسکتا۔

ثانیاً: محتاج اور غریب سادات کو زکوٰة لینے کا حق نہیں ہے، وہ زکوٰة کے بدلے صرف نصفخمس میں سے لے سکتے ہیں(1)

ثالثاً: اگر سہم سادات جو خمس کا نصفحصہ ہے اگر سادات کی ضرورت سے زیادہ ہوجائے تو اس کو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور دوسرے موارد میں خرچ کیا جائے گا، اور اگر سہم سادات ؛ سادات کے لئے کافی نہ ہو تو انھیں بیت المال یا زکوٰة سے دیا جائے گا۔

مذکورہ تین نکات پر توجہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مادی لحاظ سے سادات اور غیر سادات میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔

غیر سادات کے غریب افراد اپنے خرچ کے لئے زکوٰة لے سکتے ہیں لیکن خمس سے محروم ہیں، اسی طرح غریب سادات صرف خمس لے سکتے ہیں لیکن وہ زکوٰة سے محروم ہیں۔

در اصل یہاں پر دو صندوق ہیں "خمس کا صندوق"، "زکوٰة کا صندوق"، سادات یا غیر سادات ان دونوں میں سے صرف ایک سے لے سکتے ہیں اور وہ بھی برابر برابر یعنی اپنے سال بھر کا خرچ ۔ (غور کیجئے )

جن لوگوں نے ان شرائط پر غور نہیں کیا وہ اس طرح کا تصور کرتے ہیں کہ سادات کے لئے بیت المال سے زیادہ حصہ قرار دیا گیا ہے یا ان کے لئے خمس ایک اعزاز قرار دیاگیا ہے۔

صرف یہاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ہے کہ اگر ان دونوں میں نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فر ق نہیں ہے تو پھر اس فرق کا فائدہ کیا ہے؟

اس سوال کا جواب بھی اس بات پر غور و فکر کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ خمس اور زکوٰة میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ زکوٰة ایک ایسا ٹیکس ہے جو در اصل اسلامی معاشرہ کے عام اموال سے متعلق ہے لہٰذا اس کو معمولاً اسی سلسلہ میں خرچ بھی کیا جاتا ہے، لیکن خمس ایک ایسا ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت سے متعلق ہے یعنی اسلامی حکومت کے عہدہ داروں اور حکومتی ملازمین اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

اس بنا پر سادات کا عام اموال (زکوٰة) سے محروم ہونا؛ در حقیقت پیغمبر اکرم (ص) کے رشتہ داروں کو اس حصہ (مال) سے دور رکھنا ہے تاکہ مخالفوں کو بہانہ نہ مل جائے کہ پیغمبر نے اپنے رشتہ داروں کو عام اموال پر قابض بنا دیا ۔

دوسری طرف غریب سادات کی ضرورت بھی کہیں سے پوری ہونی چاہئے تھی، تو اسلامی قوانین نے اس سلسلہ میں یہ پیش کش کی کہ سادات؛ اسلامی حکومت کے بجٹ سے استفادہ کریں نہ عام بجٹ سے، در اصل خمس نہ صرف سادات کے لئے ایک امتیاز ہے بلکہ مصلحت کے تحت بد گمانی سے بچانے کے لئے قرار دیا گیا ہے (2)

(1) سادات کو زکوٰة نہیں دی جاسکتی ، یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے اور اس سلسلہ میں حدیث و فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے غیر سادات کے غریبوں کا خیال رکھا ہو لیکن غریب سادات کا خیال نہیں کیا ہے؟!

(2) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ۱ ۱۸

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی

 
user comment