اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

تشہیری اور برقی دورمیں مسلمان اور اسلامی تہذیب

آج کے دور میں علم کی وسعتیں بے کنار ہیں اور اس کی جہتیں بھی تبدیل ہوچکی ہیں ۔علم کے اس بحرِبے کنارکا تصور اب بدل چکا ہے۔یہاں میں علم کے اُس سمندر کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو زمین میں نہیں خلاوٴں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔یہ سمندر آج کی دنیا کی ایسی ضرورت بن گیا ہے کہ اگر اس کی موجوں کے تلاطم سے کوئی تہذیب ،خطہ، ملک یاقوم آشنا نہ ہوئی تو اس گلوبل ولیج میں شاید اس کی حصہ داری نہ رہے۔جی ہاں! سٹیلائٹ کے نظام پر مبنی تیزی سے گامزن دنیا کی تمام تر معلومات اور تمام تر امکانات اسی سمندر کی گہرائیوں میں پنہاں ہیں ۔ اس سمندر سے موتی وہی چُن کر لائیں گے جو غوّاص اور شناور ہوں گے ہیں ۔عہد حاضر کی تمام ترقی اورتنزلی اسی سے منسوب ہے ۔

لیکن گھبرانے کی بھی کوئی بات نہیں کیونکہ اس مضطرب اور تلاطم خیز سمندر تک رسائی آپ کی Finger Tips(انگشت کی پوروں) سے ہوسکتی ہے۔ کمپیوٹر کے Key Board پر انگشت رکھ کر دنیا اور دنیا کے تمام علوم و فنون اور ممکنہ معلومات آپ گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہی سائبر اسپیس ہے اور یہی خلاوٴں میں علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمند ر ہے۔یعنی سائبراسپیس عہد حاضر کا وہ خزانہ ہے جہاں علوم و فنون اورمعلومات کا ذخیر ہ پنہاں ہے۔یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے ہم آہنگی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔انسانی زندگی ارتقاءکی منزلیں طئے کرتی ہوئی آج جس دور سے گزر رہی ہے اسے ہم (Cyber Age) کا نام دے سکتے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ترسیل و ابلاغ کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انسانی معاشرے نے اس سے قبل بھی بہت ساری تبدیلیاں دیکھیں ہے، لیکن یہ تبدیلی جس قدر جلد رونما ہوئی اسی سرعت کے ساتھ اس نے انسانی سماج کے ہر شعبے میں خود کو ایستادہ کرلیا۔ ترسیل کے اس نئے زاویے سے دنیا سچ مچ واقعی ایک گلوب نظر آنے لگی اور دنیا کے ایک کنارے بیٹھا شخص دنیا کے دوسرے کنارے پر رہنے والے انسان سے نہ صرف ہمکلام ہونے لگا بلکہ ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے اس کے جذباتی تغیرات کے نشان چہرے پر تلاش بھی کرنے لگا۔ ہزاروں میل کی دوری کلیدی تختے پر انگلیوں کی ذرا سی جنبش کے ذریعے طئے ہونے لگی۔ اس طرح ٹکنالوجی کی اس انقلابی دنیا کو سائبر اسپیس کا نام دیا گیا۔برقی تاروں اور مصنوعی سیاروں کے زریعے دور دراز کا سفر طئے کرتے ہوئے اپنی ایک الگ ڈیجیٹل دنیا تشکیل دی تو اسے ادبی سائبر اسپیس کے نام دیا گیا۔

عہد حاضر کو ہم تشہیری اور برقی یا ڈیجیٹل دور کہہ سکتے ہیں ۔

اس دور میں وہی قومیں ، نسلیں اور وہی تہذیب و تمدن زندہ رہیں گی جو وقت کے تقاضے اور مطالبے کو اپنائیں گی۔

موجودہ دور تشہیری برقی

(۱)تشہیری : آج اسی کو اہمیت، تفوق،مقبولیت حاصل ہے جو اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب ہے۔وگرنہ ہمیں جودستیاب ہیں اُن سے بھی بہت سی اچھی چیزیں موجود ہیں لیکن عدم تشہیر کے سبب اُن کو اِس صارفی دنیا میں اہمیت ، مقبولیت او ر تفوق حاصل نہیں ہے۔اس زمرے میں مختلف اداروں ، اور تنظیموں کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں کہ جو صرف دکھاوے کے لیے موجود ہیں مگر تشہیر کے سبب دنیا ان کو تسلیم کرتی ہے اور جو تشہیر سے دور ہیں انھیں وہ لائق اعتنا نہیں ہیں ۔

(۲)برقی یا ڈیجٹل

انٹرنیٹ ٹیلی ویژن ریڈیو دیگر ذرائع

دور حاضر میں اس ایجاد اور ترقی نے زندگی کے تمام شعبے کو اس طرح متا ثر کیا ہے کہ اس کے بغیر اب کوئی مشن ، کوئی تحریک ، کوئی ادارہ ، کوئی پراگرام کامیاب اور موثر ہو ہی نہیں سکتا ۔

اس تناظر میں جب ہم اسلامی مشن اور مسلمانوں کی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں ۔کیونکہ ہم نے ابھی تک نئی تکنالوجی کوقابل اعتنا نہیں سمجھا ہے اگر تھوڑی بہت چیزیں ان تشہیری اور ڈیجٹل تکنالوجی کے حوالے سے موجود ہیں تو ہمیں بہت زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو بھی موجود ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے۔

اسلام اور میڈیا :

اسلام ایسا مذہب ہے جو ہر زمانے کے لیے Update ہے ۔

 پھر میڈیا کے حوالے سے کیا ہے یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

 میڈیا سےمراد پیغام رسانی ہے ۔

 اسلام میں پیغام رسانی کے جو ذارئع موجود ہیں وہ اپنے آپ میں مثالی ہیں ۔

 لیکن ہم ان کی اہمیت نہیں سمجھتے یا اسے بھی روایت کا ایک حصہ جانتے ہیں ۔

 اسلام نے اپنی دعوت و تبلیغ کے لیے جن عوامی میڈیا کا سہار الیا ۔

اسلامی میڈیا کے ابتدائی روپ

اصحاب صفہ جمعہ کا خطبہ جلسہ و جلوس دینی اجتماع دعوت وتبلیغ

 اسلام لانے کے بعد ہی ہم پر یہ واجب ہو جا تا ہے کہ حق کا پیغام دوسروں تک پہنچائیں 

 اسلام کی رو سے کتمان حق معصیت کا سبب ہے۔

 لیکن ہم نے پیغام رسانی کو چند روایتوں جیسے تقریری محفلوں وغیرہ میں محدود کر دیا ہے ۔

 آج کے پس منظر میں اسلام کی روحِ پیغام رسانی کو نہیں سمجھا ۔

 آج کی ضرورت اور حالات کے پیش نظر بھی میڈیا کی جانب توجہ نہیں کی۔

نئے ذرائع ابلاغ ( (Means of communicationکو حق کی ترسیل اور دعوت کے لیے استعمال کرنے کی سمت میں کوئی مثبت کوشش نہیں کی۔

 ہندستان کی سطح پر دیکھیں تو اولیائے کرام اور علمائے عظا م نے ہی تحریری اور تقریری میڈٰیا کی ابتدا کی ۔

 بزرگوں کے رسالے ان کے ملفوظات ، ان کے درس یا تذکیر کی محفلیں میڈیا کی ہی ابتدائی شکلیں ہیں ۔

 صوفیائے کرام نےجس اندازسے ہندستان میں دین کو پھیلایا اسی مصلحت اور کوشش کی ضروت ہے۔

 خواجہ غریب نواز کا گِروا رنگ کا لباس

 اور مخدوم بہاری کا عقتمندوں سے اجنبیت دور کرنے کا یہ انداز

‘‘جو کچھ فالنے کے پنڈ پران میں ہوئے ، راہ کا باٹ کا ، کُوّے کا ، پوکھر کا ، اندھیاری کا ، اجیالی کا ، چوٹ کا پھیٹ کا ، کیے کا ، کرائے کا ، بھیجے کا ، بھیجائے کا ،لانگھے کا ، اُلکہین کا ، دیو ، دانَو ، بھوت پریت، راکس بھوکس،ڈائن ڈکن، سب دور ہوئے بحق لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ’’

 اس کے بعد اخبارات ، رسائل ، جرائد بھی دینی اداروں اور علما کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔

 لیکن آزادی کے بعد سے ہم نے تقریباً اس کی جانب توجہ ہی نہیں دی ۔ ورنہ آج ہمارے پاس سب سے طاقتور میڈیا ہوتا۔

میڈیا کی کارستانیاں:

 اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنا۔

 یہودی طرز پر غلط کی اتنی تشہیر کرنا کہ صداقت پر دبیز پردہ پڑ جائے ۔

 مسلمانوں کو دہشت گرد اور ملک مخالف بتانا۔

 اسلامی تہذیب کی روایات و اقدار کو مسخ کر کے پیش کرنا۔

موجودہ ہندستانی میڈیا اور اس کے منصوبے:

 میڈیا آج کے معاشرے کی تیسری آنکھ ہے۔

 صداقت وہی ہے جو میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔

 ایسے میں ہم پر جھوٹا الزام عائد کرنے والے سچ کیسے بول سکتے ہیں ۔

 لیکن ہم انھیں پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں ۔

اکیسویں صدی کی یہ پہلی دہائی ہے لیکن اس برق رفتار دنیا میں سرعت سے بدلتی تہذیبی اقدار کو دیکھ کر اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اقتصاد اور طاقت و قوت کے دوش پر سوار مختلف اقوام اور ممالک کے لوگ اگر اپنی تہذیبی شناخت اورلسانی اقدار کو مضبوطی سے تھامے نہ رہیں تو عالمی نشیب وفراز کے ہلکے جھٹکے بھی انھیں گہری کھائی میں پہنچا دیں گے۔ کیونکہ صارفیت Consumerism) کے اس دور میں تمام اقوام و ملل اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ایک دوسرے سے سبقت اور بر تری حاصل کرنے کی فکر میں کسی غیر اخلاقی، غیر آئینی اور غیر انسانی اقدام سے بھی بعض نہیں آتے ۔جس کی مثالیں فلسطین ،عراق ، افغانستان ، پاکستان اور اب ایران کی تازہ ترین صورت حال ہے۔


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں
نیک گفتار
اسلامی بیداری 1
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اسباب
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مردوں کے حقوق
یوم قدس کی تاثیر

 
user comment