اردو
Wednesday 8th of May 2024
0
نفر 0

مسجد اقصی اور گنبد صخرہ

 

احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصی اور مسجد نبوی شامل ہیںـ

بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی اور قبة الصخرہ واقع ہیںـ اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیںـ

اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1 میں لکھا ہے کہ ''یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس (بعض بیت المقدس) لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگاـ یہ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی جو Aelia سے لیا گیا، بکثرت استعمال کرتے ہیںـ انہیں اس کا قدیم نام Jerusalem بھی معلوم تھا جسے وہ اور یشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے ہیںـ'' کتاب مقدس (بائبل سوسائٹی) میں اسے یروشلم لکھا گیا ہےـ ''بیت المقدس'' سے مراد مبارک گھر'' یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے سے گناہوں سے پاک ہوا جانا ہےـ اقصی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہت دور کے ہیںـ ایک صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھاـ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہےـ بیت لحم اور الخلیل بیت المقدس کے جنوب جبکہ رام اللہ شمال میں واقع ہےـ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہےـ انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبة الصخرة واقع ہیںـ کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئیـ

سب سے پہلے حضرت ابراہیم اور ان کے بھتیجے لوط نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھیـ 620ئ  میں نبی کریم جبریل کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس بہنچنے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئےـ مسجد اقصی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیرا مقدس ترین مقام ہےـ

مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصی یا الحرم القدس الشریف کہتے ہیںـ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہےـ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیںـ

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیائ  کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئےـ

قرآن مجید کی سورہ الاسرائ  میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم نے اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہےـ (سورہ الاسرائ  آیت نمبر 6)حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:

''میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟

تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: مسجد اقصی، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہےـ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366، صحیح مسلم حدیث نمبر 520) حضرت یعقوب نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہواـ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئیـ اسی لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے تھےـ

اسلامی عہد میں مسجد اقصی کی تعمیر:

137ق م میں رومی شہنشہاہ ہیڈرین نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیاـ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیےـ جب نبی کریم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اس وقت یہاں کوئی ہیکل نہ تھا، چنانچہ قرآن میں مسجد کی جگہ ہی کو مسجد اقصی کہا گیاـ 2ھ /624 تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیاـ 17ھ یعنی 639ئ  میں عہد فاروقی میں بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیاـ

بیت المقدس کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح طے پانے اور مقدس شہر پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد حضرت عمرنے بیت المقدس سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھیـ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی (کیونکہ قرآن مجید کی سورہ? بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی ہی کہا گیا ہے)ـ

جب حضرت عمر نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں کا دورہ کیاـ عین اس جگہ پہنچنے کے بعد آپ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ ہمیں کس جگہ مسجد تعمیر کرنی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تعمیر ہونی چاہیےـ مگر خلیفہ دوم نے جواب دیا کہ تعمیر اس پہاڑ کے سامنے ہوگی کیونکہ مسلمان ہمیشہ مساجد کے سامنے نماز ادا کرتے ہیںـ تاریخ التباری میں ہے کہ جب حضرت عمر نے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ مسجد کہاں تعمیر ہونی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ پہاڑ کے پیچھے، حضرت عمر نے فرمایا میں مسجد کی تعمیر اس پہاڑ کے عین سامنے کروں گا جیسا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کی تمام مساجد کیلئے قبلہ بنا دیا تھاـ

جب خلیفہ دوم حضرت عمر کو یروشلم کی چابیاں دی گئیں تو اہل یروشلم نے خلیفہ کا استقبال نہایت جوش و خروش سے کیاـ شہر میں داخل ہونے کے بعد خلیفہ دوم نے شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کیلئے اہل علاقہ سے جگہ کی بابت دریافت کیا لوگوں نے آپ کی توجہ ایک گرجا گھر کی طرف دلائی لیکن حضرت عمر نے جو جواب دیا وہ قیامت تک اسلام کے ''فلسفہ برداشت'' کی روشن مثال ہےـ آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز گرجا میں نماز ادا نہیں کروں گاـ مبادا کہ بعد میں آنے والے مسلمان اسے ایک فرض عمل نہ سمجھ لیں اور ہر گرجا گھر کو مسجد میں بدل نہ دیںـ اس وجہ سے آپ نے وہاں نماز ادا نہ کیـ حضرت عمر نے اس جگہ چند دن قیام کیا اور مسلمانوں کیلئے بلند جگہ پر مسجد کی تعمیر کیـ

آج یہ مسجد ''مسجد عمر'' کے نام سے بھی جانی جاتی ہےـ جب یروشلم فتح ہوا تو سیدنا عمر نے ان سے کہا کہ مجھے مسجد دائود اور محراب دائود دکھائو کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں ہےـ انہیں اس مقدس جگہ کے دروازے پر لے جایا گیا جس کا ذکر قرآن پاک میں ہےـ وہاں عرصہ دراز سے صفائی نہ ہونے کے باعث گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے داخلی دروازے کا راستہ بند ہو چکا تھاـ حضرت عمر فاروق نے دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ''میں قسم کھاتا ہوں اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہی وہ مسجد دائود ہے جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا تھاـ''

اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے اپنے بدن کے کپڑوں سے اس جگہ کی صفائی شروع کردیـ یہ دیکھ کر وہاں پر موجود مسلمان بھی آپ کی پیروی کرنے لگےـ اس کے بعد آپ مسجد میں داخل ہوئےـ وہاں پر نماز ادا کی اور تلاوت قرآن کیـ اس طرح سے وہ عمارت ایک مسجد کے روپ میں آج بھی موجود ہےـ

اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کرلیـ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبة الصخرہ بنایا گیاـ 1099ئ  (492ھ) میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ستر ہزار مسلمان شہید کردیئےـ 1087ئ  (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرالیاـ خلیفہ عبد الملک نے مسجد اقصی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک ( 705ئ  تا 715ئ ) نے مسجد اقصی کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین کی اور ابو جعفر منصور نے اس کی مرمت کرائیـ

صلیبیوں نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیا تو مسجد اقصی میں بہت ردوبدل کیا گیاـ انہوں نے مسجد میں رہنے کے کئی کمرے بنالیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیںـ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ئ  میں شہر بیت المقدس فتح کر کے مسجد اقصی کو دوبارہ تعمیر کیاـ مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبة الصخر ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہےـ وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبة الصخر نہیں لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنائ  پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہےـ

زمانہ? قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ''مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہےـ''

قبة الصخرہ:

اموی خلیفہ عبد الملک (685ئ  تا 705ئ ) نے قبة الصخرہ کی تعمیر مکمل کی اور مامون الرشید اور معتصم کے زمانے میں اس کی تجدید ہوئیـ مشہور مسلمان جغرافیہ نگار مقدسی یروشلم میں 375ئ  میں پیدا ہوا تھا، وہ قبة الصخرہ کے بارے میں لکھتا ہے ''یہ ایک ہشت پہلو عمارت ہےـ اس کے چار دروازے ہیں جن تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچا جاتا ہےـ

اندرونی حصہ تین ہم مرکز والانوں میں منقسم ہے جن کے ستون سنگ مرمر کے ہیںـ اس کے وسط میں صخرہ ہے اور اس کے نیچے غار ہے جس میں ستر آدمی سما سکتے ہیںـ صخرہ کے گرد ستونوں کا حلقہ اسے باقی حصوں سے جدا کرتا ہے، اس کے اوپر ایک دریچے دار ڈھولنا ایک خوبصورت گنبد کو اٹھائے ہوئے ہےـ گنبد کی چھت تک بندی 100 باع (سواسو گز) ہےـ گنبد لکڑی کے تین چوکھٹوں کا بنا ہوا ہےـ نیچے والے پر سنہری تانبا چڑھا ہوا ہے، دوسرا لوہے کی سلاخوں کا ہے اور تیسرا لکڑی کا، جس پر دھات کے پترے چڑھے ہوئے ہیںـ

ہیکل سلیمانی کی تباہی:

ہیکل سلیمانی اوربیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا تھاـ بیت المقدس کے اس دوربربادی میں حضرت عزیز کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر کبھی پھر آباد ہوگا؟ لیکن سو سال بعد بیت المقدس پھر آباد اور پررونق شہر بن چکا تھاـ بخت نصر کے بعد 539ق م میں شہنشاہ فارس کوروش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دیـ یہودی حکمران ہیرو داعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمان پھر تعمیر کرلیے تھےـ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئیـ رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ئ  میں یروشلم شہر اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کردیےـ

بیت المقدس پر یہود کا قبضہ:

پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ئ  کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دیـ نومبر 1947ئ  میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948ئ  کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئیـ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئےـ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جوان 1967ئ ) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیاـ یہودیوں کے بقول 70ئ  کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھےـ اسی لیے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہےـ 

 


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قانوني طور پر بيعت لينا
دعا ،اسلامی تعلیمات کا بیش بہا خزانہ
عزاداری کربلا کے بعد
''شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال
(اے پدر بزرگوار تم پر سلام هو)
ہندی طبیب کے ساتھ امام جعفرصادق(ع) کی گفتگو
ازدواج يا شادي: ناموسِ فطرت اور قانونِ شريعت
نجف اشرف عالم اسلام کا ثقافتی دارالحکومت
علّامہ شہید عارف حسین حسینی کی برسی
یوسف قرآن (حصہ اول)

 
user comment