اردو
Wednesday 17th of July 2024
0
نفر 0

امامت ائمۂ اطہار علیھم السلام کی نگاہ میں

امامت کے کلی مسائل سے متعلق یہ ہماری آخری بحث هے اس کے بعد ہم اس سلسلہ میں جو بحثیں کریں گے وہ احادیث و روایات کی روشنی میں هوں گی۔ مثال کے طور پر وہ حدیثیں جو امیر المومنین (علیه السلام) کے سلسہ میں پیغمبر اکرم(ص) سے نقل هوئی هیں یا خود امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد کے ائمہ علیھم السلام کے لئے ذکر فرمائی هیں، یوں هی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ائمہ علیھم اسلام کے بارہ میں جو کچھ فرمایا هے نیز یہ کہ ہر امام نے اپنے بعد ک امام کے لئے کس طرح وضاحت فرمائی هے ہم ایک ایک کر کے ان سب کا جائزہ لیں گے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر روایات نقلی، تعیینی و تنصیصی پہلو رکھتی هیں۔

موجودہ بحث کچھ اس ڈھنگ کی هے کہ اس کا کچھ حصہ شاید ہم گزشتہ گفتگو میں بھی متفرق طور پر پیش کرچکے هیں لیکن چونکہ یہ مسئلہ امامت کی روح سے مربوط هے لہٰذا اب ہم ائمۂ معصومین علیھم السلام کے اقوال کی روشنی میں اس پر بحث کریں گے۔ اور کتاب "اصول کافی کی کتاب الحجۃ" کا ایک حصہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ ہم مکرّر عرض کر چکے هیں کہ امامت کے اس مفهوم ہم شیعہ یا کم از کم ائمہ علیھم السلام شیعہ کے اقوال میں پیش کیا گیا هے وہ امامت کے اس مفهوم سے بالکل الگ هے جو اہل سنت کے یہاں رائج هے۔ یہ مسئلہ حکومت سے بالکل الگ ایک چیز هے جس کا چرچا ہمارے زمانہ میں بہت هوتا هے۔ مثلاً، امامت بنیادی طور پر نبوت کے قدم بہ قدم یا اس کے بالکل دوش بدوش والا مسئلہ هے لیکن اس معنی میں نهیں کہ اس کا مرتبہ ہر نبوت سے کمتر درجہ کا هے۔ بلکہ اس سے مقصود یہ هے کہ نبوت سے مشابہ ایک ایسا منصب هے جو بڑے انبیاء کو بھی عطا هوا هے یعنی یہ ایک ایسا معنوی منصب هے کہ بڑے انبیاء نبوت کے ساتھ ساتھ امامت کے منصب پر بھی فائز رهے هیں۔ ائمہ معصومین علیھم السلام نے کلی طور پر اس مسئلہ کے تحت اپنی گفتگو میں انسان کو بنیاد قرار دیا هے۔ لہٰذا ہمیں پہلے انسان کے متعلق اپنے تصوّرات و خیالات پر تجدید نظر کرنا چاهیئے تاکہ یہ مسئلہ پورے طور سے واضح هوسکے۔

انسان؟

آپ جانتے هیں کہ اساسی طور پر انسان کے سلسلہ میں دو نظریے پائے جاتے هیں ایک یہ کہ انسان بھی تمام جانداروں کے مانند صد فی صد ایک خاکی یا مادی وجود هے۔ لیکن یہ ایسا مادی وجود هے جواپنے تغییرات کی راہ طے کرتے هوئے اس حد کمال کو پہنچ چکا هے جہاں تک زیادہ سے زیادہ مادہ میں اس کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ حیات، چاهے نباتات میں هو یا اس سے بلند حیوانات میں یا ان سب سے بڑھ کر انسان میں، یہ خود مادہ کے تدریجی ارتقا و کمال کی نشان دهی کرتی هے یعنی اس وجود کی بناوٹ اور ساخت میں مادّی عناصر کے علاوہ کوئی اور عنصر کا ر فرما نهیں هے۔ (یہاں عنصر کا لفظ اس لئے استعمال هوا کہ اس کی کوئی دوسری تعبیر ہمارے پاس نهیں هے)۔ جتنے حیرت انگیز آثار اس وجود میں پائے جاتے هیں ان کا سر چشمہ یهی مادّی تشکیل هے۔ اس نظریہ کے مطابق قہری طور پر پہلے انسان کو یا دنیا میں آنے والے ابتدائی انسانوں کو ناقص ترین انسان هونا چاهیئے اور جوں جوں یہ قافلۂ انسانیت آگے بڑھا هوگا انسان کامل تر هوتا گیا، خواہ ہم اولین انسان کو قدما کے تصور کے مطابق براہ راست خاک سے پیدا شدہ مانیں یا عہد حاضر کے بعض (سائنس داں) حضرات کے مفروضہ کے مطابق۔۔۔۔۔ جو مفروضہ هونے کی حیثیت سے قابل توجہ هے کہ انسان اپنے آپ سے پست تر اور ناقص تر وجود [1] کی تغییر یافتہ اور کامل شدہ مخلوق هے۔ جس کی اصل و بنیاد مٹی تک پہنچتی هے۔ ایسا نهیں هے کہ پہلا انسان براہ راست خاک سے خلق هوگیا هو۔

پہلا انسان قرآن کی نظرمیں

لیکن اسلامی و قرآنی بلکہ تمام مذاہب کے اعتقادات کے مطابق پہلا انسان وہ وجود هے جو اپنے بعد کے بہت سے انسانوں حتٰی کہ آج کے انسانوں سے بھی زیادہ کامل هے۔ یعنی پہلی بار جب اس انسان نے عرصۂ عالم میں قدم رکھا، اسی وقت سے وہ خلیفہ اللہ یا دوسرے الفاظ میں پیغمبر کے درجہ پر فائز نظر آیا۔ دین کی منطق میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کیوں پہلا انسان هی دنیا میں آیا تو ایک حجت خدا اور پیغمبر کی شکل میں آیا، جبکہ هونا تو یہ چاهیئے تھا کہ انسان دنیا میں آتے رہتے اور ارتقائی منازل طے کرتے رہتے اور جب عالی مراحل و مراتب سے ہمکنار هوتے تو ان میں سے کوئی ایک نبوت و پیغمبری کے منصب پر فائز هوجاتا، نہ یہ کہ پہلا هی انسان پیغمبر هو۔

قرآن کریم پہلے انسان کے لئے بہت عظیم اور بلنددرجہ کا قائل هے:

"وَاِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلائِکۃ انِّی جَاعِلٌ فِی الاَرۡضِ خَلِیفَۃٌ قَالُوا اتَجۡعَلُ فِیۡھا مَنۡ یُفۡسِدُ فِیۡھا ویَسۡفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قال اِنِّی اَعۡلَمُ مَالَا تَعۡلَمُون وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَاءَ کُلَّھا ثُمَّ عَرَضَھُمۡ عَلیٰ المَلَائِکَۃ فَقَالَ انۡبِئُونِی بِاَسۡمَاءِ ھٰؤلاء"[2]

جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا هوں تو انهوں نے کہا (خدا یا) کیا تو انهیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد و خونریزی برپا کریں اور ہم تو تیری تسبیح و تقدیس کرتے هیں ( خداوند عالم نے) فرمایا، بلا شبہ (اس انسان کے اسرار کے بارے میں) جو میں جانتا هوں تم نهیں جانتے اور اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام اسماء تعلیم دیئے پھر ان کے حقائق ملائکہ کے سامنے بھی پیش کئے اور فرمایا ہمیں ان کے نام بتاؤ"۔

مختصر یہ کہ جب پہلا انسان عالم وجود میں آیا تو اس ملائکہ کو بھی حیرت میں ڈال دیا کہ آخر اس میں کیا راز پنہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے انسان کے بارے میں "نفخت فیہ من روحی" (اپنی روح اس میں پھونکی) کی تعبیر استعمال کی گئی هے۔ اس سے ظاہر هوتا هے کہ اس پیکر کی ساخت اور اس کے ڈھانچہ میں مادی عناصر کے علاوہ ایک عُلوی عنصر بھی کارفرماهے جو (اپنی روح) کی تعبیر کے ذریعہ بیان کیا گیا هے۔ یعنی اللہ کی جانب سے ایک خصوصی شئے اس وجود کے پیکر میں داخل هوئی هے۔ اس کے علاوہ اس لئے بھی کہ اس کو خلیفہ اللہ سے تعبیر کیا گیا هے۔" اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیفۃ" میں زمین پر اپنا خلیفہ بنارہاهوں۔

بنابر ایں قرآن، انسان کو اس عظمت کے ساتھ پیش کرتا هے۔ کہ پہلا انسان جب عالم وجود میں قدم رکھتا هے تو حجت خدا و پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک ایسے وجود کے عنوان سے قدم رکھتا هے جو عالم غیب سے رابطہ رکھتا هو۔ ہمارے ائمہ علیھم السلام کے کلام کی اساس و بنیاد انسان کی اسی اصل و حقیقت پر هے یعنی پہلا انسان جو اس زمین پر آیا اسی صنف کا تھا اور آخری انسان بھی جو اس زمین پر هوگا اسی سلسلہ کی ایک کڑی هوگا اور عالم انسانیت کبھی بھی ایسے وجود سے خالی نهیں جس میں "اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفۃ " کی روح پائی جاتی هے۔ (بنیادی طور سے اس مسئلہ کا محور یهی هے) دیگر تمام انسان، ایسے انسانی وجود کی فرع کی حیثیت رکھتے هیں، اور اگر یہ انسان نہ هو تو بقیہ تمام انسان کسی بھی صورت سے باقی نهیں رهیں گے۔ ایسے ھی انسان کو حجت خدا سے تعبیر کرتے هیں:۔

اللّٰھُمَّ بَلَٰی لَا تخلوا لارض مِنۡ قَائمٍ للہِ بِحُجَّۃٍ" ہاں (مگر) زمین ایسی فرد سے خالی نهیں رہتی جو اللہ کی حجت هے یہ جملہ نہج البلاغہ [3] میں هے اور بہت سی کتابوں میں نقل هوا هے۔ میں نے یہ بات مرحوم آیۃ اللہ بروجردی سے سنی هے، لیکن یہ یاد نهیں کہ میں نے خود اسے دوسری جگہ بھی کهیں دیکھا هے یا نهیں، یعنی اس کی جستجو نهیں کی۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ جملہ حضرت کے ان جملوں میں سے هے جنهیں آپ نے بصرہ میں بیان فرمایا هے او شیعہ و سنی دونوں نے اسے تواتر کے ساتھ نقل کیا هے۔ یہ جملہ مشهور حدیث کمیل کا ایک حصہ هے۔کمیل کا بیان هے کہ ایک روز حضرت علی(علیہ السلام) نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے ہمراہ لے کر شہر کے باہر تشریف لائے۔ یہا ں تک کہ ہم لوگ"جبّان" نامی ایک جگہ پر پهونچے۔ جیسے هی ہم لوگ شہر سے خارج هوکر سناٹے اور تنہائی میں آئے: فَتَنَفَّسَ الصُّمَعَداء حضرت علیہ السلام نے گہری سانس لی، ایک آہ کھینچی اور فرمایا:۔

" یاکمیل! اِنَّ ھٰذہِ الۡقُلُوبَ اَوۡ عِیَۃٌ فَخَیرُھَا اَوۡ عَاھَا فَاحۡفَظۡ عَنِّی مَا اَقُولُ لَکَ"

" اے کمیل! اولاد آدم علیہ السلام کے دل ظرف کے مانند هیں اور بہترین ظرف وہ هے جو کسی چیز کو اپنے اندر محفوظ رکھے (یعنی اس میں سوراخ نہ هو) لہٰذا میں تم سے جو کچھ کہتا هوں اسے محفوظ کر لو"۔

پہلے آپ نے انسانوں کو تین گروهوں میں تقسیم فرمایا:۔

" النَّاسُ ثَلاثَۃٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِی وَ مُتَعَلِّمٌ فِیۡ سَبِیۡلِ نِجَاۃٍ وَ ھَمَجٌ رعاعٌ"۔

" انسان تین قسم کے هیں:ایک گروہ علمائے ربانی کا هے (البتہ حضرت علی (علیہ السلام) کی اصطلاح میں عالم ربّانی سے مراد ہر وہ عالم ربّانی نهیں هے جو ہم ہر ایک کو تکلّفاً کہہ دیا کرتے هیں، بلکہ اس سے مراد ایسا عالم هے جو واقعاً صد فی صد الہٰی هو اور خالص خدا کے لئے عمل کرتا هو اور شاید یہ تعبیر سوائے انبیاء و ائمہ علیھم السلام کے کسی اور پر صادق نهیں آتی) " وَمُتَعَلِّمٌ علی سبیل نجاۃٌ " (چونکہ اس عالم کو اس متعلم کے مقابل میں ذکر کیا هے لہٰذا اُس سے مقصود وہ عالم هے جو کسی بشر سے علم حاصل نهیں کرتا) یہ دوسرا گروہ اُن سے علم حاصل کرنے والوں اور شاگردوں کا هے۔ ان لوگوں کو هے جو ان علماء سے استفادہ کرتے هیں۔ تیسرے گروہ کے لوگ "ھمیج رعاع" هیں (اس کی تشریح یہ هے ) کہ:" لَمۡ یَسۡتَضِیۡئُوا بِنورِ الۡعِلۡمِ وَلَمۡ یَلۡجَأوۡا اِلَیٰ رُکۡنٍ وَثِیۡقٍ" جنهوں نے علم کے نور سے نہ کوئی روشنی حاصل کی هے اور نہ کسی محکم ستون کا سہارا حاصل کیا هے۔"

اس کے بعد آپ نے اہل زمانہ کا گلہ کرنا شروع کیا۔ فرمایا میں بہت سے علوم اپنے سینہ میں رکھتا هوں۔ لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نهیں ملتا جس میں (انهیں حاصل کرنے کی) صلاحیت موجود هو۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کی گروہ بندی کرتے هوئے فرمایا، ایسے لوگ بھی هیں جو زیرک اور عقلمند هیں لیکن ایسے زیرک هیں کہ جو کچھ حاصل کرتے هیں اس سے اپنے لئے فائدہ حاصل کرنا چاہتے هیں یعنی دین کو اپنی دنیا کے لئے استعمال کرنا چاہتے هیں۔ لہٰذا میں ان سے پر هیز کرنے پر مجبور هوں۔ کچھ دوسرے افراد هیں جو اچھے اور نیک تو هیں لیکن احمق هیں۔ وہ کچھ حاصل هی نهیں کرتے یا اگر حاصل بھی کرتے هیں تو ایک دم اُلٹا اور غلط مطلب سمجھ بیٹھتے هیں۔ یہاں تک تو امام علیہ السلام کی گفتگو مایوسانہ رنگ لئے هوئے هے (کیونکہ اس سے اندازہ هوتا هے ) کہ کوئی اہل موجود نهیں هے۔ لیکن اس کے بعد فرماتے هیں :" اللّٰھُمَّ بَلَٰی...... " نهیں ایسا بھی نهیں هے کہ کوئی شخص موجود نہ هو۔ میں تو یہ جو کچھ کہہ رہا هوں لوگوں کی اکثریت کو کہہ رهو هوں (یہاں آقائے بروجردی فرماتے تھے کہ حضرت علیہ السلام نے یہ اشارہ بصرہ میں ایک خطبہ کے ذیل میں فرمایا تھا، ورنہ یہ کمیل کے ساتھ هونے والی گفتگو میں بھی موجود هے)۔

اَللّٰھُمَّ بَلٰی لَا تَخۡلُو الۡارضُ مِن قائم للہِ بِحُحَّۃٍ اِمَّا ظَاہِراً مَّشۡھُوۡراً وَاِمَّاخَائِفاً مغموراً لِئَلَّا تَبۡطِلُ حُجَجُ اللہِ وَ بَیِّناتہُ وَکَمۡ ذا وَاَیۡنَ؟ اُوۡلئکَ وَاللہ۔ الاَقَلُّونَ عَدَداً وَ الاَعۡظَمُوۡنَ عِنۡدَاللہِ قَدۡراً، یَحۡفَظُ اللہُ بِھِمۡ حُجَجَہ وَبَیِّنَاتَہ حَتَّیٰ یُوۡدِعُوۡھَا نُظَرَائَھُم وَیَزۡرَعُوۡھَا فِی قُلوبِ اَشۡبَاھِھِمۡ ھَجَمَ بِھِمۡ العِلۡمُ علٰی حَقِیۡقَۃِ البَصِیۡرَۃ وَبَا شَرُوا رُوۡحُ الیَقِیۡنِ وَاسۡتَلَانوا مَااسۡتَعۡوَرَہ الۡمُتۡرَفُوۡنَ وَاَنِسُوۡا بِمَا اسۡتَوۡحِشَ مِنۡہُ الجَاھِلُونَ وَ صَحِبُوا الدُّنۡیَا بِاَیۡدَانٍ اَرۡوَاحُھَا مُعَلّقَۃٌ بِالۡمحَلِّ الۡاَعۡلیٰ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں، زمین ہر گز حجّت خدا سے خالی نهیں هے۔ اب چاهے یہ حجت ظاہر هو اور لوگوں کے درمیان هو یا مستور اور پوشیدہ یعنی موجود تو هو، لیکن لوگ اسے دیکھ نہ پائیں، وہ نگاہ سے پوشیدہ هو۔ ان هی حجتوں کے ذریعہ خداوند عالم اپنی دلیلیں اور نشانیاں لوگوں کے درمیان محفوظ رکھتا هے۔ اور یہ لوگ بھی جو کچھ جانتے هیں اس کے بیج اپنے هی جیسے افراد کے دلوں میں بو دیتے هیں اور گزر جاتے هیں۔ ایسا نهیں هے کہ یہ امانتیں ان کے حوالہ نہ کریں اور چلے جائیں یعنی ایسا نهیں هے کہ میرے پاس جو کچھ هے اسے بیان کئے بغیر چلا جاؤں گا۔ اس کے بعد حضرت علیہ السلام ان افراد سے متعلق جو ایک ملکوتی مبدأ و مرکز سے استفادہ کرتے هیں۔ فرماتے هیں: ھَجَمَ بِھِمُ العِلۡمُ عَلَٰی حَقِیۡقَۃِ الۡبَصِیۡرَۃِ خود علم ان پر ہجوم کرتا هے اور ٹوٹ کر برستا هے۔ وہ علم کی طرف نهیں بڑھتے۔ (مطلب یہ هے کہ ان کا علم تفویضی هے) اور وہ علم جو ان پر ہجوم کرتا هے، انهیں حقیقی معنوں میں بصیرت عطا کرتا هے یعنی اس علم میں کوئی اشتباہ، نقص یا خطا نهیں پائی جاتی۔ " وَبَاشَرُوا رُوحَ الۡیَقِیۡنِ" وہ روح یقین کو متصل رکھتے هیں۔ مطلب یہ هے کہ وہ عالم دیگر سے بھی ایک طرح کا ارتباط و اتصال رکھتے هیں۔ " وَاسۡتَلَانُوا مَا اسۡتَعورَۃ الۡمُتۡرَفُوۡنَ" وہ چیزیں جنھیں مترف (یعنی اہل عیش و طرب) اپنے لئے بہت دشوار سمجھتے هیں ان کے لئے آسان هیں۔ مثلاً عیش و عشرت کے عادی افراد کا گھنٹہ بھر اپنے خدا سے لو لگانا اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرنا گویا سب سے زیادہ دشوار کام هے۔ لیکن ان کے لئے یہ کام آسان هی نهیں بلکہ ان کا پسندیدہ عمل هے۔"وَاُنِسُوۡا بِما اسۡتَوۡحَشَ مِنۡہ الۡجَاھِلُوۡن" جن چیزوں سے نادان اور جاہل افراد وحشت کرتے هیں یہ ان سے مانوس هیں۔

" وَصَحِبُوا الدُّنۡیَا بِاَبۡدَانٍ اَرۡوَاحُھَا مُعَلَّقۃ بِالۡمَحَلِّ الۡاَعۡلٰیٰ"

اپنے جسموں کے ساتھ لوگوں کے ہمراہ رہتے هیں جبکہ اسی وقت ان کی روحیں مقامِ اعلیٰ سے تعلق و اتصال رکھتی هیں۔ یعنی ان کا جسم لوگوں کے ساتھ هے لیکن ان کی روح یہاں نهیں هے، جو لوگ ان کے ہمراہ هیں انهیں اپنے هی جیسا انسان سمجھتے هیں اور ان میں اور اپنے آپ میں کوئی فرق نهیں سمجھتے، لیکن وہ یہ نهیں جانتے کہ اس ( انسانِ کامل ) کا باطن کسی اور عالم سے وابستہ هے۔

بہر حال امامت کا اصل فلسفہ یهی هے۔ یهی وجہ هے کہ کتاب" کافی" میں" باب الحجۃ" کے عنوان سے ایک مستقل باب موجود هے۔ اور اس میں ملتا هے کہ اگر دنیا میں صرف دو انسان باقی رهیں تو ان میں کا ایک اسی طرح کا انسان هوگا جس طرح دنیا کا پہلا انسان اسی منصب پر فائز تھا ہم اس فلسفہ کی روح کو لوگوں کے ذہنوں سے مزید قریب کرنے کے لئے اور اس حقیقت سے زیادہ آشنا کرنے کے لئے "اصول کافی" سے" کتاب الحجۃ" کی بعض روایتیں اور حدیثیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے هیں۔ اس مسئلہ سے متعلق تمام دوسرے مسائل مثلاً معاشرہ میں امام کا وجود ضروری هے تاکہ وہ لوگوں پر عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرے، یا دینی امور میں لوگوں کے درمیان پیدا هونے والے اختلافات کو حل کرسکے۔ یہ سب باتیں اس اصل مسئلہ میں طفیلی کی حیثیت رکھتی هیں۔ ایسا نهیں هے کہ امام کو لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے امام قرار دیا جائے اور بس، بلکہ یہ مسئلہ ان تمام باتوں سے کهیں بالاتر هے۔ یہ باتیں گویا امام کے" فوائد جاریہ" یعنی اس کے وجود کے نتیجہ میں مرتب هونے والے فوائد کی حیثیت رکھتی هیں۔ ہم ہر حدیث سے کچھ جملے منتخب کرکے آپ کی خدمت میں عرض کرتے هیں تاکہ فلسفۂ امامت کی حقیقت پورے طور سے واضح هوجائے۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ایک روایت

یہ روایت انبیاء و مرسلین سے متعلق هے۔ ایک زندیق (مادہ پرست) نے امام صادق(علیہ السلام) سے سوال کیا کہ:"مِنۡ اَیۡنَ اَثۡبَتَّ الۡاَنبِیَاء وَالرُّسُلَ؟" آپ انبیاء علیھم السلام و رسل کو کس دلیل سے ثابت کرتے هیں؟ امام نے جواب میں مسئلۂ توحید کو بنیاد قرار دیتے هوئے فرمایا:

" اِنّا اَثۡبَتۡنا اَنّ لَنَا خَالِقاً صَانِعاً متَعَالیاًً عَنّا وَعَنۡ جَمِیۡع مَا خَلَقَ وکانَ ذٰلکَ الصَّانِع حَکِیماً متَعَالیاً لَم یَجُز اَن یشاھِدَہ خَلۡقُہ وَلَا یلا مِسُوہُ فیباشرھم وَیُبَاشِروۡہ وَ یُحَاجَھُمۡ وَیُحَاجَّوۡہُ ثَبَتَ اَنّ لَہ سُفَراء فی خَلۡقِہِ یُعَبِّرُوۡنَ عَنۡہُ اِلیٰ خَلۡقِہ وَعِبَادِہ وَیَدُلُّونَھُمۡ علیٰ مَصَالِحِھِمۡ وَمَنَافِعِھِم وَمَا بِہ بَقَائُھُمۡ وَفی تَرۡکِہ فَنَائُھُمۡ فَثَبَتَ الۡآمِروۡنَ وَالنَّاھُوۡن عَنِ الحَکِیمِ العَلِیۡم فِی خَلۡقِہ"......

مختصر یہ هےکہ انبیاء و رسل کے ثابت کرنے کی بنیاد، اپنی تمام الٰهی شان و صفات کے ساتھ خود اللہ کے اثبات پر موقوف هے جب ہم نے یہ جان لیا کہ ہمارا کوئی خالق و صانع هے جو حکیم هے اور ہم سے اعلیٰ و ارفع هے یعنی ہم اپنے حواس و ادراک کے ذریعہ اس سے براہ راست ارتباط پیدا نهیں کرسکتے۔ نہ اس کا مشاہدہ کرسکتے هیں اور نہ اسے چھو سکتے هیں اور نہ ھی اس سے دو بدو سوال و جواب کرسکتے هیں جبکہ ہم اس کے محتاج هیں کہ وہ ہماری راہنمائی کرے۔ کیونکہ فقط وهی حقیقی حکیم و دانا هے اور ہمارے واقعی مصالح و مفادات سے آگاہ هے۔ لہٰذا ایسے وجود کا هونا ضروری هے جو بیک وقت دو پہلؤوں کا حامل هو: ایک طرف وہ خدا سے ارتباط رکھتا هو یعنی اس پر وحی نازل هوتی هو اور دوسری طرف ہم اس سے رابطہ قائم کرسکتے هوں۔ اور ایسے افراد کا هونا لازم و واجب هے۔

اس کے بعد امام علیہ السلام ان افراد کے بارہ میں فرماتے هیں:" حکماء مؤدبین بالحکمۃ" خود ان لوگوں کو حکیم دانا هونا چاهیئے۔ وہ حکمت کی بنیاد پر مؤدب و مہذب کئے گئے هوں۔" مبعوثین بھا" اور حکمت هی پر مبعوث کئے گئے هوں یعنی ان کی دعوت اور ان کا پیغام حکمت پر مبنی هو۔ "غَیۡرُ مشارکین لِلناسِ عَلَیٰ مشارکتھِِم لَھُمۡ فی الۡخَلقِ۔" اگر چہ وہ خلقت کے اعتبار سے انسانوں میں شریک هوں لیکن بعض جہات میں لوگوں سے الگ اور جدا هوں۔ ایک انفرادی پہلو اور امتیازی روح ان میں پائی جاتی هو۔"مُؤَیَّدِیۡنَ مِنۡ عِنۡدَالحَکیمِ الۡعَلیم بِالۡحِکمَۃ" خدا ئے حکیم و علیم کی جانب سے حکمت کی بنیاد پر ان کی تائید کی گئی هو۔"ثمَّ ثَبَتَ ذٰلِکَ فِی کُلِّ دھرٍ وَمَکَانٍ" ایسے واسطوں اور ذریعوں کا وجود ہر زمانہ اور ھر عہد میں لازمی و ضروری هے۔ "لِکَیۡلَا تخلُوالۡاَرۡض مِن حُجَّۃٍ یَکُوۡنُ مَعَہ عَلَم یَدُلُّ علیٰ صِدۡقِ مَقَالَتِہ وَ جواز عَدَالَتِہ" تاکہ زمین کسی وقت بھی ایسی حجت سے خالی نہ رهے جس کے پاس اس کی صداقت گفتار اور اس کی عدالت و رفتار کے ثبوت میں کوئی علم ( دلیل یا معجزہ ) موجود هو۔

زید بن علی علیہ السلام اور مسئلہ امامت

زید ابن علی ابن الحسین علیہ السلام امام محمد باقر(ع ) کے بھائی هیں اور صالح و محترم شخص هیں۔ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی هے۔ اس سلسلہ میں اختلاف هے کہ جناب زید واقعاً خود اپنے لئے خلافت کے مدعی تھے یا صرف امر بالمعروف اور نهی عن المنکر کے فرائض انجام دے رهے تھے اور خود خلافت کے دعویدار نهیں تھے بلکہ آپ امام محمد باقر (علیہ السلام) کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ بہر حال مسلم هے کہ ہمارے ائمہ(علیہم السلام) نے آپ کی تعریف و توصیف کی هے اور آپ کو شهید کہا هے۔ اور یهی ان کی عظمت کے لئے کافی هےکہ: "مَضیٰ وَاللہِ شھِیداً " وہ شهید هوکر دنیا سے اٹھے لیکن بحث اس بات پر هے کہ آپ خود اس مسئلہ (امامت) میں شبہ کا شکار تھے یا نهیں؟ جو روایت اس وقت میں آپ کی خدمت میں پیش کررہا هوں اس سے یہ ظاہر هوتا هے کہ آپ خود اس سلسلہ میں شبہ میں مبتلا تھے۔ اب یہ بات کہ ایسا شخص اس مسئلہ میں شبہ کا شکار کیسے هوسکتا هے۔ یہ ایک دوسری بحث هے۔

امام محمد باقر (علیه السلام) کے ایک صحابی ابوجعفر احول بیان کرتے هیں: جس وقت زید بن علی مخفی تھے انهوں نے میرے پاس پیغام بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ اگر ہم میں سے کوئی جہاد کے لئے قیام کرے تو کیا تم ہماری مدد کے لئے آمادہ هو؟ میں نے جواب دیا اگر آپ کے پدر بزرگوار اور بھائی (حضرت امام زین العابدین(علیہ السلام) اور امام محمد باقر (علیہ السلام) اجازت دیں تو میں حاضر هوں ورنہ نهیں۔ زید نے فرمایا، میں خود قیام کا ارادہ رکھتا هوں۔ بھائی سے کوئی مطلب نهیں هے۔ کیا اب بھی تم ہماری حمایت پر آمادہ هو؟ میں نے عرض کیا نهیں۔ آپ نے پوچھا کیوں؟ کیا تم ہمارے سلسلہ میں اپنی جان سے دریغ کرتے هو؟ میں نے عرض کیا:اِنَّمَا ھِیَ نَفۡس وَاحِدۃ فَاِن کانَ اللہ فی الارض حجَّۃ فَا لۡمُتَخَلِّفُ عَنکَ ناجٍ وَالخارجُ مَعَکَ ھَالِکٌ وَاِن لَا تکُنۡ للہِ حُجَّۃٌ فِی الاَرۡض فَا لۡمُتَخَلِّفُ عَنکَ وَالخَارجُ مَعَکَ سَوَاءٌ" میں ایک هی جان رکھتا هوں اور آپ بھی حجت خدا هونے کا دعویٰ نهیں کرتے۔ اگر زمین پر آپ کے علاوہ کوئی حجت خدا هے تو جو شخص آپ کے ساتھ قیام کرے اس نے خود کو ضائع کیا بلکہ ہلاک هوا اور جس نے آپ سے انکار کیا اس نے نجات پائی لیکن اگر زمین پر کوئی حجت خدا نہ هو تو میں چاهے آپ کے ساتھ قیام کروں یا نہ کروں دونوں باتیں برابر هیں۔

ابو جعفر احول جانتے تھے کہ زید کا مقصد کیا هے۔ لہٰذا وہ اس حدیث کے ذریعہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس وقت روئے زمین پر ایک "حجت" موجود هے۔ اور وہ آپ کے بھائی امام محمد باقر (علیہ السلام) هیں۔ آپ نهیں هیں۔ یہاں روایت میں حضرت زید کی گفتگو کا خلاصہ یہ کہ ھے، تمهیں یہ بات کیسے معلوم هوئی جبکہ امام کا فرزند هوتے هوئے اس نکتہ سے واقف نهیں هوں اور میرے پدر بزرگوار نے بھی مجھے نهیں بتایا؟ کیا میرے بابا مجھے چاہتے نهیں تھے؟ خدا کی قسم میرے بابا مجھے اس قدر چاہتے تھے کہ مجھے بچپن میں دستر خوان پر اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اگر نوالہ گرم هوتا تھا تو پہلے اسے ٹھنڈا کرتے تھے اس کے بعد کھلاتے تھے تا کہ میرا دہن نہ جلنے پائے وہ باپ جو مجھ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اسے ایک لقمہ کے ذریعہ میرا دہن جلنا گوارہ نہ تھا۔ کیا اس نے اتنی اہم بات جسے تم سمجھے هو، مجھے بتانے سے مضائقہ کیا تاکہ میں جہنم کی آگ سے محفوظ رهوں؟ (ابوجعفر احول نے) جواب دیا۔ انهوں نے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لئے هی نهیں بتایا۔ چونکہ وہ آپ کو بہت چاہتے تھے اس لئے آپ کو نهیں بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر میں کہہ دوں گا تو آپ انکار کریں گے اور جہنمی هوجائیں گے چونکہ وہ آپ کی طبیعت کی تیزی سے واقف تھے لہٰذا آپ سے بتانا نهیں چاہا۔ اور یهی بہتر سمجھا کہ آپ لاعلمی کی حالت پر باقی رهیں تاکہ کم از کم آپ میں عناد نہ پیدا هونے پائے لیکن یہ بات مجھ سے فرمادی تاکہ اسے قبول کرکے نجات حاصل کرلوں یا انکار کر کے جہنمی بن جاؤں...۔ اور میں نے بھی اسے قبول کرلیا۔

اس کے بعد میں نے زید سے دریافت کیا:"اَنۡتُم اَفۡضَل اَمِ الۡاَنۡبیاء" آپ افضل هیں یا انبیاء؟ فرمایا انبیاء۔"قلتُ یَقولُ یعقوبُ لِیُوسُفَ یابُنَیَّ لَاتَقۡصُصُ رُؤیاکَ عَلیٰ اِخۡوَتِکَ فَیَکِیۡدُو لَکَ کیۡداً" میں نے عرض کیا یعقوب علیہ السلام جو پیغمبر هیں اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام سے جو خود بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانشین هیں، کہتے هیں کہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا۔ آیا یعقوب علیہ السلام کا یہ حکم یوسف علیہ السلام کے بھائیوں سے دشمنی کی بنا پر تھا یا ان کی اور یوسف علیہ السلام کی دوستی کی بنیاد پر تھا چونکہ وہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طبیعت سے واقف تھے کہ اگر وہ سمجھ گئے کہ یوسف علیہ السلم اس مقام و منزلت پر فائز هونے والے هیں تو ابھی سے ان کی دشمنی پر کمر بستہ هوجائیں گے"۔آپ کے ساتھ آپ کے پدر بزرگوار اور بھائی کا قصہ بالکل یعقوب علیہ السلام و یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں جیسا هے۔

گفتگو کے اس مرحلہ پر آکر زید بالکل خاموش هوگئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔ تھوڑی دیر کے بعد انهوں نے فرمایا:"اَمَا واللہِ لَاِنۡ قُلۡتَ ذٰلِکَ" اب جبکہ تم مجھ سے یہ بات کہہ رهے هو تو میں بھی تمهیں یہ بتادوں کہ:لَقَدۡ حَدّثَنی صَاحِبُکَ بِالۡمدیۡنَۃِ"تماہرے آقا (یہاں مراد امام هیں تمہارے امام یعنی میرے بھائی امام محمد باقر (علیہ السلام) نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:"انی اُقتل واُصلَب بِالکناسَۃِ" کہ تمهیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔"وَانَّ عِنۡدَہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) هے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر هے۔

یہاں زید، ابوجعفر کے سامنے ایک دوسرا ورق الٹتے هیں کیونکہ یک بیک بات ایک دم بدل جاتی هے اور وہ دوسرے نظریہ کی تائید کرتے نظر آتے هیں۔ معلوم هوا کہ اس سے قبل جو باتیں آپ ابوجعفر سے فرمارهے تھے گویا اس سے اپنے آپ کو پنہاں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ ابوجعفر مسئلہ امامت کے سلسلہ میں اس قدر راسخ الاعتقاد هیں تو خود سے فرمایا کہ کہ ان کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نهیں هوں۔ وہ کهیں شبہ کا شکار نہ هوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا هوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا هوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار هے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہا هوں۔ یہاں تک کہ (ابو جعفر) کہتے هیں کہ اس گفتگو کے بعد ایک سال میں مکہ مکرمہ گیا اور وہاں میں نے یہ پورا واقعہ حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے بیان کیا۔ حضرت نے بھی میرے نظریات کی تائید کی۔

حضرت امام صادق (علیہ السلام) سے دو اور حدیثیں

امام علیہ السلام ایک دوسری حدیث میں فرماتے هیں: "اِنَّ الاَرۡضَ لَاتَخۡلُوا لَّا وَفِیھَا اِمَامٌ " زمین کبھی بھی امام سے خالی نهیں رہتی۔ نیز حضرت علیہ السلام سے ایک اور حدیث نقل هے: "لَوۡ بقیٰ اثنان لکانَ اَحَدُھُمَا الحُجَّۃ علیٰ صَاحِبہِ" اگر روئے زمین پر دو شخص بھی باقی رهیں تو ان میں کا ایک اپنے ساتھی پر خدا کی حجّت هوگا۔

حضرت امام رضا(علیہ السلام) سے ایک روایت

اس سلسلہ میں ہمارے یہاں بہت سی حدیثیں موجود هیں۔ایک مفصل روایت جو امام رضا (علیہ السلام) سے مروی هے ملاحظہ فرمائیں۔ عبد العزیز بن مسلم کا بیان هے کہ:"کنَّا معَ الرّضَا عَلَیہِ السَّلامِ بمَرو فَاجۡتَمَعۡنا فِی الۡجَامِع یَومِ الجمعَۃ فی بدءِ مَقۡدَمِنا" ہم مرو میں امام رضا علیہ السلام کے ہمراہ تھے (یہ اس سفر کی بات هے جب امام علیہ السلام ولی عہدی کے سلسلہ میں خراسان لے جائے جارهے تھے) جمعہ کے دن ہم مرو کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے اور امام جماعت موجود نهیں تھا لوگ جمع هوکر مسئلہ امامت گفتگو کررهے تھے۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر امام کی خدمت میں حاضر هوا اور ان سے ساری باتیں بیان کردیں۔ امام نے تمسخر آمیز تبسم فرمایا کہ آخر یہ لوگ کیا سوچتے هیں:! یہ لوگ در اصل موضوع (امامت) کو هی نهیں سمجھتے اس کے بعد امام نے فرمایا:"جَھلِ القَوم وَخُدِعُوا عَن اٰرائِھِمۡ" یہ لوگ جاہل هیں اور انهوں نے اپنے افکار و عقائد میں دھوکہ کھایا هے خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر(ص) کو اس وقت تک نهیں اٹھایا جب تک دین کامل نهیں هوا۔ اس نے قرآن نازل فرمایا جس میں حلال، حرام، حدود و احکام اور وہ تمام باتیں جن کی دین کے سلسلہ میں انسان کو ضرورت هے سب بیان کردی اور اعلان کردیا: "مَافَرَّطۡنَا فی الۡکِتَابِ مِنۡ شیٔ" ہم نے اس کتاب (قرآن مجید) میں کسی بھی چیز کو نهیں چھوڑا هے یعنی سب کچھ بیان کردیا هے (اس سے مراد حلال و حرام سے متعلق قرآن کے احکام اور انسانوں کے تمام فرائض هیں) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں پیغمبر اسلام(ص) نے حجۃُ الوداع کے موقع پر اس آیت کی تلاوت بھی فرمائی:"الیَومَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دینکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیکُمۡ نِعۡمَتِی وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡناً"یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامل کردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور تمہارے لئے اسلام سے راضی هوگیا۔ اس کے بعد حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا"وَاَمۡرُ الۡاِمَامَۃِ مِن تَمامِ الدّینِ" اور مسئلہ امامت دین کوتمام اور کامل کرنے والے مسائل میں سے ایک هے"وَلَمۡ یَمۡضِ حَتیٰ بَیَّنَ لِاُمَّتِہِ مَعَالِم دِیۡنِھُمۡ" پیغمبر اسلام(ص) اس وقت تک تشریف نهیں لے گئے جب تک انهوں نے اپنی امت کے درمیان ہدایت کی نشانیوں کو بیان نہ کردیا اور ان کے لئے دین کی راہ روشن نہ کردی۔"وَاَقَامَ لَھُمۡ عَلِیّاً عَلَماً" اور ان کے لئے علی (علیه السلام) کو راہنما مقرر فرمادیا۔

مختصر یہ کہ قرآن پوری صراحت کے ساتھ فرماتا هے کہ ہم نے کسی بھی امر کو فراموش نهیں کیا۔ اب یہ کہ کیا اس نے تمام جزئیات...... بھی بیان کردیئے؟ یا نهیں: بلکہ فقط کلیات اور اصول بیان کئے هیں اور ان چیزون کا ذکر کیا هے جن کی لوگوں کو ضرورت تھی۔ ان هی کلیات و اصول میں سے ایک مسئلہ یہ بھی هے کہ قرآن نے(پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کے لئے) ایک ایسے انسان کا تعارف کروا دیا جو قرآن کی تفسیر اس کے معانی کی وضاحت نیز اس کے کلیات کی تشریح سے واقف هے۔ اس کا یہ علم اجتہاد کی بنیاد پر نهیں هے۔ جس میں کچھ باتیں صحیح هوں اور کچھ غلط (بلکہ وہ علم الٰهی کے ذریعہ ان چیزوں سے آگاہ هے) اور حقیقتت اسلام اس کے پا س محفوط هے۔ پس قرآن یہ جو کہتا هے کہ ہم نے تمام چیزیں بیان کردیں اس کا مطلب یہ هے کہ اب کوئی چیز باقی نهیں رہ گئی۔ ہم نے کلیات کے ساتھ ساتھ جزئیات بھی بیان کردیئے هیں اور انهیں ایک "دانا" کے پاس محفوظ کردیا ھے۔ اور ہمیشہ اسلام سے آگاہ ایک شخص لوگوں کے درمیان موجود رہتا هے۔ "مَنۡ زَعَمَ اَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَم یُکۡمِلۡ دِیۡنَہ فَقَد رَدَّ کِتَابَ اللہِ" اگر کوئی شخص یہ کهے کہ خدا وند عالم نے اپنا دین کامل نهیں کیا تو اس نے قرآن کے خلاف بات کهی هے اور جو بھی قرآن کو رد کرے کافر هے۔"وَھَلۡ یَعرفون قدر الامامۃ ومحلّھا من الامۃ فیجوز فیھا اختیارھم" جو لوگ کہتے هیں کہ امامت انتخابی هے کیا وہ جانتے بھی هیں کہ امام کے کیا معنی هیں؟ ان لوگوں نے سمجھ لیا هے کہ امام کا انتخاب کسی سپہ سالار لشکر کے انتخاب کے مانند هے، جب کہ امام وہ هے کہ (جس کی تعیین پر) قرآن فرماتا هے کہ میں نے دین کامل کردیا۔ ساتھ هی ہم یہ بھی جانتے هیں کہ اسلام کے جزئیات قرآن میں نهیں هیں۔ حقیقت اسلام اس (امام) کے پاس هے۔ کیا لوگ سمجھتے هیں کہ ایسا شخص کون هے کہ خود اسے منتخب کرلیں؟ یہ تو ایسا هی هوا جیسے کہا جائے کہ پیغمبر(ص) کا انتخاب ہم خود ھی کرتے هیں!

"اِنَّ الۡامَامۃ اَجَلُّ قَدراً وَاَعۡظَمُ شاۡناً وَاَعۡلَیٰ مَکَاناً وَاَمۡنَعُ جانباً وَاَبۡعَدُ غوراً مِن اَنۡ یَبۡلُغَھا النَّاسُ بعقولِھِمۡ اَوۡ یَنَالوۡھَا بآرائِھمۡ۔" امامت انسان کی فکری حدود سے اس سے کهیں بالاتر هے کہ اسے انتخابی قرار دیا جائے اسی مسئلہ کو انتخابی کہا جانا چاہئے جسے لوگ واقعی طور پرتشخیص دے سکیں، جن مسائل میں انسان خود تشخیص کی صلاحیت رکھتا هے وہاں دین کبھی براہ راست مداخلت نهیں کرتا۔ اور بنیادی طور پر ایسے مسائل میں دین کی براہ راست مداخلت بالکل غلط هے، کیونکہ ایسی صورت میں سوال اٹھے گا کہ پھر انسان کی فکر وعقل آخر کہاں کام آئے گی؟ جہاں تک انسانی فکر و عقل کا دائرہ هے انسان خود انتخاب کریں لیکن جو بات عقل و بشر کی حد سے خارج اور بالاتر هے۔ اس میں انتخاب کی گنجائش هی نهیں هے۔ (امامت) قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت بلند، شان کے اعتبار سے بہت عظیم، مرتبہ کے اعتبار سے بہت عالی هے، اس کی دیواریں ناقابل عبور هیں اور وہ عقل و فکر کی حد سے باہر هے۔

"انسان اپنی عقل کے ذریعہ امام کو درک نهیں کرسکتے اور نہ اس تک اپنی آراء کے ذریعہ رسائی حاصل کرسکتے هیں اور نہ اپنے اختیار سے اس کا انتخاب کرسکتے هیں"اِنَّ الامامَۃ خصَّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ بھا ابراهِیۡمَ الۡخَلِیۡل بَعۡد النّبوّۃ وَالخُلّۃ" اگر امامت کے حقیقی معنٰی سمجھنا چاہتے هو تو یہ جان لو کہ (امامت) ان تمام مسائل سے الگ هے جن کا آج لوگ اظہار کرتے هیں کہ پیغمبر(ص) کا ایک خلیفہ و جانشین منتخب کریں، لیکن یہ جانشین پیغمبر(ص) صرف لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرے۔ امامت تو اصل میں وہ منصب هے کہ ابراهیم علیہ السلام جیسا پیغمبر(ص) نبوت کے بعد اس تک رسائی حاصل کرتا هے اور اس منصب پر فائز هونے کے بعد مسرت کا اظہار کرتے هوئے خدا کی بارگاہ میں عرض کرتا هے" وَمِن ذُرِّیَّتی" خداوندا میری ذریت میں سے کچھ افراد کو بھی یہ منصب عطا فرما۔ ابراهیم علیہ السلام جانتے هیں کہ یہ عظیم منصب ان کی تمام ذریت کو حاصل نهیں هوسکتا۔ جواب دیا جاتا هے"لَا یَنَالُ عَھۡدِی الظّالمِیۡنَ" یہ وہ منصب هے جو ظالم کو نهیں مل سکتا۔ ہم عرض کرچکے هیں کہ یہاں سوال اٹھتا هے کہ اس سے مراد کیا هے؟ کیا ظالم ہر حال میں ظالم هے چاهے ماضی میں وہ ظالم رہا هو یا پہلے نیک اور صالح رہا هو کیونکہ کہ یہ محال هے کہ ابراهیم علیہ السلام کهیں، خدا یا (یہ منصب) میری ذریت میں سے ظالموں کو عطا فرما۔ پس بھر حال ان کی نظر میں آپ کی نیک اور صالح اولاد هی رهی هے۔چنانچہ خداوند عالم کی طرف سے جواب ملا کہ یہ منصب آپ کی ذریت میں سے ان کو عطا هوگا جن کا ظلم سے سابقہ نہ رہا هو۔

"فَاَبطلت ھٰذہِ الۡآیَۃِ اِمَامَۃِ کُلّ ظَالِمٍ اِلَٰی یومِ القیَامۃ و صارت فِی الصَّفۡوَۃِ" یہ منصب ان منتخب افراد میں هے یعنی ذریت حضرت ابراهیم علیہ السلام میں اہل صفوۃ (منتخب اور بہترین افراد کو عطا هوا هے۔ (صفوۃ یعنی مکھن کے مانند ایک ایسی چیز جسے مٹھا مھ کر اوپر سے نکال لیتے هیں اور وهی"زبدہ" کہلاتا هے)۔"ثمَّ اکرمَہ اللہُ تعَالیٰ باَنۡ جَعَلَھَا فِی ذُرِّیَّتِہِ اَھۡلَ الصِّفۡوَۃِ وَالطَّھَارَۃِ۔" (اس کے بعد خداوند عالم نے امامت کو بزرگ و مکرّم بنایا اور وہ اس عنوان سے کہ اسے) صفوۃ اور اہل طہارت یعنی ذریت ابراهیم میں صاحبان عصمت کا حصہ قرار دیا۔ اس کے بعد امام (علیه السلام) قرآن کی آیات سے استدلال فرماتے هیں:

وَوَھَبۡنَا لَہ اِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ نَافِلَۃً وَّکُلًّا جَعَلنَا صَالِحِیۡنَ وَجَعَلۡنَاھُمۡ اَئِمۃً یَّھۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَاۡ وَ اَوۡحَیۡنَا اِلَیۡھِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرات[4] اور ہم نے ابراهیم علیہ السلام کو اسحٰق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام جیسے فرزند عطا کئے اور ہم نے ان سب کو نیکو کار و صالح (نبی) قرار دیا۔ اور ان کو لوگوں کا ہادی و پیشوا قرار دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے تھے، اور ہم نے ان کی طرف نیک اعمال بجالانے کی وحی کی۔

قرآن مجید میں اس نکتہ پر کافی زور دیا گیا هے کہ ذریت حضرت ابراهیم علیہ السلام کو منصب امامت سے نوازا گیا هے۔

اس کے بعد امام (علیه السلام) فرماتے هیں: فَمِنۡ اَینَ یختار ھٰؤلاء الجُھّال" آخر وہ مقام و منصب جو حضرت ابراهیم علیہ السلام کو نبوت کے بعد عطا هوا، یہ نادان اسے آخر کس طرح انتخاب کرنا چاہتے هیں؟ کیا بنیادی طور پر یہ منصب انتخاب کے ذریعہ حاصل بھی کیا جاسکتا هے؟! "اِنَّ الاَمَامَۃَ ھِیَ منزلۃ الانبیاءُ وارث الاوصیاء" امامت در اصل مقام انبیاء اور میراث اوصیاء هے۔ یعنی یہ ایک وراثتی امر و منصب هے لیکن قانونی میراث کے عنوان سے بلکہ اس اعتبار سے کہ اس کی استعداد و صلاحیت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل هوئی هے۔ "انَّ الاَمَامَۃَ خِلافۃُ اللہِ" امامت خلافت الٰهی هے جو سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو عطا هوئی" وَخلافَۃُ الرَّسُوۡلِ" اور خلافت پیغمبر هے۔ اس کے بعد امام فرماتے هیں:"اِنَّ الۡاِمَامَۃِ زِمَامُ الدّیۡنِ..." امامت زمام دین، نظام مسلمین، صلاح و فلاح دنیا، عزت مسلمین، اسلام کی اصل و اساس اور اس کا بنیادی تنا هے۔"بالامامِ تمام الصَّلوٰۃ والزَّکوٰۃ وَالصِّیَامِ وَالۡحَج وَالجھَادِ...تاآخر۔یعنی امام هی کے ذریعہ نماز، زکوٰۃ، روزہ حج، جہاد اور دیگر اسلامی احکام و اوامر کامل هوتے هیں۔

نتیجہ

مذکورہ بالا تمام باتوں سے ایک اساسی و بنیادی منطق ہمارے ہاتھ آتی هے۔ ہاں اگر بالفرض کوئی اسے بھی قبول نہ کرے تو اور بات هے۔ یہ منطق ان سطحی و معمولی مسائل سے بالکل الگ کہ اکثر متکلمین کی طرح ہم یہ کهیں کہ پیغمبر اسلام(ص) کے بعد ابوبکر خلیفہ هوئے اور علی (علیه السلام) چوتھے خلیفہ هوئے۔ آیا علی علیہ السلام کو پہلا خلیفہ هونا چاهیئے یا مثلاً چوتھا؟ آیا ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نهیں؟ اس کے بعد ہم شرائط امامت کو مسلمانوں کی حاکمیت کے عنوان سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کریں۔ البتہ یہ بھی ایک بنیادی و اساسی مطلب هے۔ اور شرائط حاکمیت کے اعتبار سے بھی شیعوں نے اعتراضات کئے هیں اور بجا اعتراضات کئے هیں۔ لیکن اصولی طور پر مسئلہ امامت کو اس انداز سے بیان کرنا هی صحیح نهیں هے کہ ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نهیں۔ اصل میں خود اہل سنت بھی ان کے لئے اس منصب کا اقرار نهیں کرتے۔

اس سلسلہ میں اہل سنت کے عقیدہ کا خلاصہ یہ هے کہ آدم علیہ السلام و ابراهیم علیہ السلام سے لے کر حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک خدا وند عالم نے ان افراد سے متعلق انسان کے جتنے ماوراء الطبیعی پہلؤوں کا ذکر کیا هے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام هوگئے۔ پیغمبر اکرم(ص) کے بعد اب تمام انسان معمولی اور ایک جیسے هیں۔ اب صرف علماء ھیں جو پڑھنے لکھنے کے بعد عالم هوئے هیں اور ان سے کبھی غلطی هوتی هے کبھی نهیں هوتی۔ یا حکام هیں جن میں سے بعض عادل هیں اور بعض فاسق۔ اب یہ مسئلہ امامت ان هی کے درمیان دائر هوتا هے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ باب جو ہمارے یہاں حجت الٰهیہ کے نام سے پایا جاتا هے، یعنی وہ افراد جو عالم ماوراء الطبیعہ یا عالم بالا سے ارتباط رکھتے هیں، (ان کے یہاں نهیں پایا جاتا، ان کا عقیدہ هےکہ) پیغمبر اکرم(ص) کے بعد وہ بساط هی لپیٹ دی گئی هے۔

شیعہ جواب دیتے هیں کہ (پیغمبر اکرم(ص) کے بعد) رسالت کا مسئلہ ختم هوگیا۔ اب کوئی دوسرا انسان کوئی نیا دین و آئین لے کر نهیں آئے گا۔ دین ایک سے زیادہ نهیں هے اور وہ هے اسلام، پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم هوگیا۔ لیکن حجت اور انسان کامل کا مسئلہ اور اس کی ضرورت انسانوں کے درمیان ہرگز تمام نهیں هوئی هے، کیونکہ روئے زمین پر پہلا انسان اس طرح کا تھا اور آخری انسان بھی ان هی صفات کا نمونہ هونا چاهیئے۔ ایل سنت میں صرف صوفیا کا طبقہ ایسا هے جو ایک دوسرے نام سے سھی، اس مطلب کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے هیں کہ صوفیائے اہل سنت اگرچہ صوفی هیں لیکن جیسا کہ ان کے بعض بیانات سے ظاہر هوتا هے انهوں نے مسئلہ امامت کو اسی عنوان سے قبول کیا هے۔ جیسے شیعہ مانتے هیں۔

محی الدین عربی، اندلس کا رہنے والا هے۔ اور اندلس وہ جگہ هے جہاں کے رہنے والے نہ صرف سنی تھے بلکہ شیعوں سے عناد بھی رکھتے تھے اور ان میں ناصبیت کی بو پائی جاتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ اندلس کو امویوں نے فتح کیا اور بعد میں برسہا برس وہاں ان کی حکومت رهی۔ اور چونکہ یہ لوگ بھی اہل بیت علیھم السلام کے دشمن تھے لہٰذا علمائے اہل سنت میں زیادہ تر ناصبی علماء اندلسی هیں شاید اندلس میں شیعہ هوں بھی نهیں اور اگر هوں گے بھی تو بہت کم اور نہ هو نے کے برابر هوں گے۔

بہر حال یہ محی الدین اندلسی هے، لیکن اپنے عرفانی ذوق کی بنا پر وہ اس بات کا معتقد هے کہ زمین کبھی کسی ولی یا حجت سے خالی نهیں رہ سکتی۔ یہاں وہ شیعی نظریہ کو قبول کرتے هوئے ائمہ علیہم السلام کے ناموں کا ذکر کرتا هے، یہاں تک کہ حضرت حجت علیہ السلام کا نام بھی لیتا هے اور دعویٰ کرتا هے کہ میں نے سن چھ سو کچھ ہجری میں حضرت محمد علیہ السلام بن حسن عسکری علیہ السلام سے فلاں مقام پر ملاقات کی ہے۔ البتہ بعض باتیں اس نے ایسی کهی هیں جو اس کی ایک دم ضد هیں اور وہ بنیادی طور پر ایک متعصب سنی هے لیکن اس کے باوجود چونکہ اس کا ذوق عرفانی تقاضہ کرتا هے کہ صوفیوں کے مطابق زمین کبھی کسی "ولی" (اور ہمارے ائمہ(علیہم السلام کے مطابق حجت) سے خالی نهیں رہ سکتی،اس مسئلہ کو نہ صرف تسلیم کرتا هے بلکہ مشاہدہ و ملاقات کا دعویٰ کرتے هوئے یہ بھی کہتا هے کہ میں حضرت محمد بن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ چکا هوں، اور اس وقت جبکہ ان کی عمر تین سو کچھ برسوں سے زیادہ هوچکی هے اور وہ مخفی هیں، میں ان کی زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔

-----

[1] ڈارون کا مشہور نظریہ۔ انسان پہلے بندر تھا ......( مترجم)

[2] سورہ بقرہ۔ آیات ۳۰۔ ۳۱۔

[3] نہج البلاغہ، فیض الاسلام، حکمت نمبر ۱۲۹۔ مطابق نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین مرحوم، حکمت ۱۴۷

[4] سورۂ انبیاء، آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳

 

 

 


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حسینیت اور یزیدیت کی شناخت
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
حضرت ولی عصرؑ کی ولادت باسعادت
امام محمد باقر عليہ السلام کا عہد
قاتلین حسین (ع) کی حقیقت
کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے دایہ نہ ...
عصمت حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا
امام جعفرصادق (ع): ہمارے شیعہ نماز کے اوقات کے ...
حضرت امام علی علیہ السلام کی شان میں چالیس احادیث
دربار یزید میں امام سجاد(ع) کا تاریخی خطبہ

 
user comment