حکومتی وولایتی تدابیر و احکام
گزشتہ یا دوسرے موارد میں جو پہلے ذکر ہو چکے ہیںیاپھرآئندہ ذکرہوں گے، مسلمانوںکے مسائل اس حدکونہیں پہنچے ہیںکہ یہ موارد ثانوی عنوان کی حیثیت حاصل کر لیں اور قاعدہٴ استثنا ء " الا ما اضطر ر تما الیہ " یا قاعدہ حرج (یعنی جس تکلیف کو حدیث کے تقاضے کے تحت ) امت کے دوش سے اٹھا لیا گیا ہے ، یا اور دوسرے ثانوی قواعد و احکام میں شامل ہو ئے ہوں بلکہ ایسے موارد میں پیغمبر اکرم (ص) حاکم اور مسلمانوں کے امور کے ولی و مدیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور انھوں نے مسلمانوں کی مصلحتوں کا اہتمام کرنے ان کی بھلائی اور رفاہ و آسائش فراہم کرنے یا ان افراد کی مشکلیں دور کرنے کے لئے جو اپنی بھلائی اور مصلحت کے سلسلہ میںنا سمجھی یا بے توجہی کی بنا پر بعض نقصانات اور دشواریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ، کچھ دستور فرماتے ہیں ․ ان دستورات کے اوامرپر عمل اور نواہی سے پرہیز کرنا واجب ہے اور ان کی مخالفت کرنے والا ملامت اور سزا کا مستحق ہے ․
اس قسم کے تدبیری یا دستوراتی اوامر و نواہی حضرت رسول خدا (ص) یا ان کے جانشینوں یعنی آئمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے ولی و حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر ہوئے ہیں (اس جہت سے نہیں کہ وہ پیغمبر اور امام ہیں ، اور مقرر و ثابت احکام کے مبلغ اور ان کی تعلیم و ہدایت دینے والے ہیں)اور اس کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں منجملہ حسب ذیل مثالیں :
۱۔گزشتہ روایات جن میںپیغمبر اسلام (ص) کا پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکنا ،اس گوشت کی دیگوں کا الٹوا دینا لوگوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لئے پکنے سے پہلے پھلوں کی فروخت سے منع کرنا "تلقی رکبان"روکنا ،شہری دلالوں کودیہاتیوں کا مال فروخت کرنے سے روکنا ،غلوں کے لئے معین بازار کے علاوہ دوسری جگہوں پر غلوں کی فروخت سے روک،نیز حضرت علی علیہ السلام کا بازار کے اندر بنائی گئی دکانوں اور دوسری تعمیروں کا ڈھا دینا اور پیغمبر اکرم (ص) کا بازار کے اندر لگائے گئے خیمہ کا جلوا دینا اور اس کا حکم کے راستہ سات ہاتھ چوڑا ہونا چاہئے یا ایسے ہی دوسرے دستورات ذکر ہوئے ہیں اور ہوں گے مثلا احتکار اور ذخیر ہ اندوزی وغیرہ جو رعایا کے لئے نقصان دہ اور حکام کے لئے ننگ و عار ہے ،سے روکنے کا حکم اس بحث کے واضح نمونہ ہیں ․
۲۔روایت میں کہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ،رنگریزوں ،سناروں کو لوگوںکے مال میں احتیاط پرتنے (اور ان کی حفاظت کرنے) کی غرض سے ان کے مال کا ضامن سمجھتے لیکن جلنے ،غرق ہونے ،نقصان ہونے یاکسی ناگہانی حادثہ کے تحت تلف ہوجانے کی صورت میں انھیں مال کا ضامن نہیں سمجھتے تھے․ (۱۹)
۳۔جب پیغمبر اسلام مکہ میں وارد ہوئے تواپنے اصحاب وانصار کو حکم دیا --"رمل"کی حالت (یعنی چلنے اور دوڑنے کی حالت )میںکعبہ کا طواف کریں اور حکم دیا کہ اپنے بازوجامہ احرام سے باہر نکالیں تاکہ مشرکین دیکھ لیں کہ مسلمان کمزور نہیں ہوئے ہیں لیکن بعد کے حج میں پیغمبر اکرم نے خود ایسا نہیں کیا اور اس کا حکم نہیں دیا․ (۲۰)
۴:۔پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب کوبالو ںمیں خضاب کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی﷼ خضاب نہیں کرتے تھے آپ نے پیغمبر (ص) کے اس حکم کی وجہ یہ بتائی کہ خضاب لگانا جنگ میں دشمن کے مقابل ہیبت اور بیویوں کی محبت وغیرہ کا باعث ہوتا ہے ․(۲۱)
حضرت علی ﷼ سے پیغمبر اکرم (ص) کے اس قول (بڑھاپے کو تبدیل کرو اور یہودیوں جیسے نہ بنو) کے سلسہ میں سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا "آنحضرت(ص) نے یہ بات اس وقت فرمائی جب دین کی سر حد یں محدود تھیں لیکن اب جبکہ دائرہ پھیل گیا گیا ہے اور مسلمان مستقل و مضبوط ہوگئے ہیں اب مرد کو اختیار ہے جو چاہے کرے ․(۲۲)
۵:-۔"عن عبداللہ بن خالد الکنانی قال:استقبلنی ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ اسلام وقد علقت سمکةبیدی قال : اقذفہا ؛انّی لا کرہ للرّجل اسرّی :ان یحمل الشیٴ الذی بنفسہ، ثم قال انکم قوم اعداء وکم کثیر عداکم الخلق یا معشر الشیعة فتزیّنوا لھم ما قدرتم علیہ" (۲۳)
"عبد اللہ بن خالد کنانی سے روایت ہے کہ میں اپنے ہاتھ میں ایک مچھلی لئے ہوئے تھا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اسے پھینک دو، مجھے یہ پسند نہیں کہ ایک شریف شخص کوئی پست و نامرغوب چیز اٹھائے اس کے بعد فرمایا؛ تم لوگ ایسی قوم ہو کہ تمہارے دشمن بہت ہیں،لوگ تم سے اپنے دل میں کینہ رکھتے ہیں․ اے گروہ شیعہ جہاںتک ہوسکے ان کے مقابل خود کو آراستہ کرو"
وراٴی الامام الصادق علیہ السلام معاویہ بن وھب وھو یحمل بقلا فقال لہ: انہ یکرہ للرّجل السری ان یحمل الشیٴ الدنی فیجتراٴ علیہ․
امام صادق عیہ السلام نے معاویہ بن وہب کو دیکھا کہ کچھ سبزی اپنے ہمراہ لے جارہے ہیں آپ ﷼نے ان سے فرمایا:مجھے پسند نہیں کہ ایک شریف انسان کوئی پست اور ناپسند چیز اٹھائے تا کہ دوسروں کو اس کے مقابلہ میں جراٴت پیدا ہو․ (۲۴)
۶:۔حضرت رسول خدا (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: میں اس پر آمادہ ہوا کہ نماز جماعت کا اعلان کروں اور اسے قائم کرنے کاحکم دوں،اس کے بعد ہر اس شخص کے گھر کو آگ لگادوں جو مسجد میں نہ آئے․ (۲۵)
۷۔ "عمار "سے روایت ہے کہ انھوںنے کہا :امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے اور سلیمان بن خالد سے فرمایا : جب تک مدینہ میں ہو میری طرف سے "متعہ"ازدواج موقت تم پر حرام ہے کیونکہ تم لوگ میرے پاس بہت زیادہ آتے جاتے ہو؛مجھے خدشہ ہے کہ گرفتار ہوجاؤ اور لوگ یہ کہیں کہ یہ لوگ جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھیوںمیں سے ہیں ․ (۲۶)
نیز امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب و انصار سے فرمایا : "مکہ اور مدینہ میں متعہ میری وجہ سے چھوڑدواس لئے کہ تم لوگ میرے پاس بہت آیا جایا کرتے ہو اور مجھے اس بات سے اطمینان نہیں ہے کہ اگر گرفتار ہوجاؤ گے تو یہ کہا جائے کہ یہ لوگ جعفر صادق علیہ السلام کے دوستوں میں سے ہیں"۔
روایا ت میںکہ حضرت کے اس دستورکا سبب ایک واقعہ تھاجو"ابان بن تغلب "اور ایک عورت کے در میان پیش آیا کہ اس عورت نے انھیںفریب و نیرنگ سے ایک صندو ق میں بند کردیا اور چند حمالوں کو بلایا وہ یہ صندوق "باب الصفا "لے گئے اور وہاں انھیںڈرایا کہ ہم تم پر زنا کا الزام لگائیں گے چنانچہ ابان بن تغلب نے اپنی نجات کے لئے دس ہزار درہم دئیے․یہ خبر امام علیہ السلام تک پہنچی اور امام نے ان لو گو ں کو حکم دیا متعہ ترک کردیں (۲۷) ۔اس بارے میں دوسری روایات بھی ہیں جو اپنی جگہ ذکر ہوئی ہیں۔
۸:۔روایت ہے :
"و کان علی رضی اللہ عنہ باالکوفہ؛قد منع الناس من القعودعلیٰ ظہر الطریق ،فکلّموہ فی ذلک فقال ادعکم علیٰ شریطہ ،قالوا وماھی یاامیرالمومنین؟فقال :غضّ الابصار و ردّالسّلاموارشاد الضّلال قالو قد قبلنا فترکہم " (۲۸)
حضرت علی علیہ السلام نے لو گو ں کو سر راہ بیٹھنے سے منع کردیا تھا ․لو گوں نے حضرت علیہ السلام سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو آپ نے فرمایا :ایک شرط پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا لوگوں نے پوچھا یا امیرالمومنین وہ شرط کیا ہے ؟ فرمایا(نا محرم کی طرف سے)آنکھیں بند کرنا ، گزرنے والوں کے سلام کا جواب دینا اور بھٹک جانے والے کی راہ نمائی کرنا لوگو ں نے کہا ہمیں قبول ہے تو حضرت علیہ السلام نے لوگوں کو اجا زت دے دی ۔
۹۔یوںہی وہ روایت ہے جس میں عورتوں اور مردوں کی راہیں جدا کرنے کا ذکر ہے ․ (۲۹)
۱۰۔حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو سزادی جو کوفہ سے کئی فرسخ کے فاصلہ پر ایک دیہات سے میّت ڈھوکر کوفہ میں دفن کرنے لائے تھے ․ (۳۰)
۱۱۔طاؤوس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے عبد اللہ بن عمرو کے جسم پر دو معصفر(زرد رنگ کے) لباس دیکھے․اس سے فرمایا: کیا تیری ماں نے یہ لباس پہننے کو کہا ہے؟ عبد اللہ نے کہا :یا رسول اللہ (ص) ! انھیںدھوڈالوںگا رسول خدا (ص) نے فرمایا: انھیں جلاڈالو ․ (۳۱)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت (ص) نے فرمایا:"یہ لباس کفار کے لباس ہیں انھیں مت پہنو"۔
۱۲۔ایک شخص نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے عرض کیا :مجھے فلاںکام پر معین کردیجئے ․فرمایا: ہم اپنے کام پر کسی ایسے شخص کو جو اس کا مطالبہ کرتا ہے نہیں رکھتے" (۳۲)
۱۳۔نجاری نے آنحضرت (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:میرے لے ہر اس شخص کا نام لکھو جو اسلام کے لئے زبان کھولتا ہے پس کلیفہ بن یمانی نے ایک ہزار پانچ سو مردوں کے نا م لکھے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ : اور ہمارے نام چھ سو سے سات سو افراد کے درمیان تھے یہ دمامینی کے بقول یہ واقعہ حدیبیہ کے سال پیش آیا․ (۳۳)
آنحضرت (ص) کے زمانہ میں خود حضور (ص) کی عادت تھی کہ لشکر کا ایک دفتر ہوتا تھا اور اس میں جنگ میں جانے والوں کے نام لکھے جاتے تھے․ (۳۴)
۱۴۔حضرت علی علیہ السلام کے مدبرانہ اقدامات میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ بیت المال سے جس کے دودروازہ تھے آپ لوگوں کانام لکھے بغیر چیزیں دیاکرتے تھے یہاں تک کہ "مسور بن مخرمہ "نے آپ کوخبر دی کہ بعض افراددوبارہ بھی چیزیں لینے آتے ہیںتوآپنے حکم دیاکہ چیزیں لے لینے والوں کے نام لکھے جائیں۔اس کے بعد سے نام لکھے جانے لگے۔ (۳۵)
۱۵۔حضرت علی علیہ السلام نے حبیب بن مرہ کو"سواد"(دجلہ وفرات کے اطراف میں کھجور کے درختوں سے ڈھکاہواعلاقہ )پرماٴمورکیااورحکم دیا کہ سواد میں رہنے والے مسلمانوںکوکوفہ لے آوٴ۔ (۳۶)
۱۶۔اورپیش بندی کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ہم دیکھتے ہیں کہ خیبر میں آنحضرت (ص) کومسموم بھیڑہدیہ کئے جانے کے بعد پیغمبراسلام (ص) کی خدمت میں جوبھی تحفہ یاہدیہ آتاتھا پہلے خود اس کے مالک کو کھانے کاحکم دیتے تھے پھرنوش فرماتے تھے۔ (۳۷)
۱۷۔"حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پرپیغمبر اسلام (ص) کی روایت ،جس میں آپ نے زنا کارکی تکفیر کی ہے نقل کرتے ہوئے فرمایا:آنحضرت (ص) ہمیں حکم دیتے تھے کہ رخصت دینے والی حدیثوں (بعض امور کی چھوٹ دینے والی حدیثوں) کومبہم ہی رہنے دو۔زانی کی تکفیر کامطلب یہ ہے کہ اگر زانی اس حیث سے زنا کا اودام کرے کہ اسے جائز اور حلال جانتا ہو تو کافر ہے․․․․" (۳۸)
۱۸۔جن امور کا رسول خدا (ص) نے خود کو پابند بنالیا تھا ان میں سے ایک یہ عمل بھی تھا کہ حضر ت (ص) نے "ابن ابی" کو اس قاعدہ پر عمل کرتے ہوئے قتل نہیں کیا کہ "لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ص) اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو قتل کر رہے ہیں" (۳۹)کیونکہ صحابی کا قتل الہیٰ دعوت قبول کرنے والوں پر منفی اثرات ڈال سکتا تھا․
۱۹۔روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مسجد میں کمزور و ناتواں افراد کے لئے ایک الگ امام معین کیا یوں ہی مردوں کے لئے الگ اور عورتوں کے لئے الگ پیشنماز مقرر فرمایا۔(۴۰)
۲۰۔اور ایک دوسرے سلسلہ میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:تکبیر ة الاحرام کہنے کے علاوہ نماز میں دوسری تکبیروں کے موقع پر ہا تھ بلند کرنا چھوڑدو کیوںکہ لوگوں نے اس عمل کے ذریعہ تمھیں پہچان لیا ہے ۔"واللہ المستعان ولا حول ولا قوة الّا باللہ "(۴۱)
۲۱۔ابو مطر"کہتا ہے کہ میں مسجد سے باہر آیا ناگاہ ایک شخص نے مجھے پس پشت سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اپنی ازار (لنگی کی طرح ایک جامہ جو کمر پہ باندھا جاتا ہے پائجامہ) اوپر رکھو تا کہ تمھار ا لباس زیادہ دنوںتک چلے اور خود پاکیزہ رہو اور اگر مسلمان ہوتو اپنے بال چھو ٹے کرو ،مجھے خطاب کرنے والے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام تھے ․ یہ واقعہ اس حدیث کے ضمن میں نقل ہوا ہے جس میں حضرت علیہ السلام کے بازار میں گشت کرنے اور اسی دوران لوگوں کے لئے مختلف احکام صادر فرمانے کا ذکر ہے ۔ (۴۲)
۲۲۔روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) لسن کھانے والوں کو کو حکم دیتے ہیں "جس نے یہ خبیث گیاہ کھائی ہے وہ مسجد میںمجھ سے قریب نہ ہو یا اس سے ملتی جلتی تعبیر ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ پہلے آنحضرت (ص) نے لوگوں کو مسجد میں داخل ہونے سے قبل لسن کھانے سے منع فرمایا لیکن جب لوگ اس سے نہیں مانے تو آپ نے مذکورہ بالا کلام ارشاد فرمایا ۔ اورصادق آل محمد(ص) امام صادق علیہ السلام سے منقول روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ "یہ نہیں فرمایا کہ لسن حرام ہے " (۴۳)
۲۳۔یوں ہی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس شخص کا گھر منہدم کرادیتے ہیں جو معاویہ کے جرگہ سے ملحق ہوجاتا ہے (۴۴)۔جب کہ وہ بیت المال میں شامل کرسکتے تھے لیکن آپنے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ ایک تویہ اس عمل کی غلط توجیہ و تفسیر کی جائے گی دوسرے طاغوتوں اور ظالم حکام کو لوگوں کے اموال میں تصرف کا ایک ثبوت ہاتھ آجائے گا ․
۲۴۔حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک شخص جس کے عادات واطوار زنانہ تھے آپ ﷼نے اسے مسجد رسول اکرم (ص) سے باہر کر دیا․ (۴۵)
اور ایک دوسری روایت کے مطابق آپ علیہ السلام نے فرمایا:"ان لوگوں کو اپنے گھر وںسے باہر کرو کیوں کہ یہ کثیف ترین چیز ہیں " (۴۶)
۲۵۔ "سوادہ بن ربیع" سے روایت ہے کہ میں حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت میں آیا ․آپ کے حکم سے لوگ میرے لئے ایک اونٹ لائے پھر حضرت (ص) نے فرمایا: جب تم اپنے خاندان میں واپس پہنچو تو انھیں ناخن کاٹنے کا حکم دو اور ان سے کہو کہ دودھ دوہتے وقت جانوروں کے تھن کو انگلیوں سے دبا کر خون نہ نکالیں ․(۴۷)
۲۶۔ یہ اشارہ بھی کرتے چلیں کہ رسول خدا (ص) بنی ہاشم کو زکوٰةکی وصولیابی کے عہدہ پر کام کرنے سے منع فرماتے تھے اور اپنے خاندان میں کسی ایک سے آپ (ص) نے یہ کام نہیں لیا ۔
۲۷۔ان ہی میں وہ اداری دستورات اور تدبیری اقدامات بھی شامل ہیں جو مسلمانوں کے امور منظم کرنے اور ان کی خیر ومصلحت کے تحت عمل میں آئے مثلا مسلمانوں میں ہر دس افراد پر ایک عریف (سرپرست یا مکھیا کی تعیین (۴۸) فرمائی تاکہ اچھے برے کی تشخیص ہو سکے (۴۹)اور اسی طرح کے دیگر مقاصد (۵۰)آنحضرت (ص) نے ہجرت کے بعد مسلمانوں کو دس دس افراد کے گروہوں میں تقسیم فرمایا․ اور مقداد ان دس افراد کے انچارج تھے جس میں خود پیغمبر (ص) بھی شامل تھے․(۵۱)
ان تدبیری اقدامات میں شہر کے محافظ و نگہبان کا تقرر بھی ہے(۵۲) (اور روایات میں وارد ہوا ہے کہ "پولیس " اور "عریف " (نگراں) "نقیب " (مکھیا) اور "جابی" (ٹیکس وصول کرنے والے) کا نام رسول خدا (ص) کی زبانی نقل ہوا ہے (۵۳) ․نیز دفتر اور منشی کا تعین تاکہ درختوں کے محصول کا تخمینہ لکھا جا سکے ․مطالبات ،قراردادیں اور وہ تمام چیزیں جو لشکروں کے نظم و نسق سے متعلق ہوتی ہیں اور دیگر بہت سے اقدامات جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے (۵۴)․حکومت کی ذمہ داریوں سے ہے․
۱)۔ ملاحظہ فرمائیں :سنن نسائی، ج/۷ ص/۲۸۷۔ مسند احمد ج/۲ ص/۱۵،۲۱،۷۔ سنن ابی داود، ج/۳ ص/۲۸۱،اورص/۲۸۲۔ صحیح مسلم، ج/۵ ص/۸۔ صحیح بخاری، ج/۲ ص/۱۱۔ کنز العمال، ج/۴، ص/۱۰۲،از عبد الرزاق۔ الترتیب الاداریہ، ج/۱ ص/۲۸۵ و ج/۲،ص/۳۸۔ نظام الحکم فی الشریعہ والتاریخ: السلطة القضائیة، ص/۵۹۱․
۲)۔ تاریخ واسط ،ص/۱۰۱، مصنفہ اسلم بن سہل رزاز معروف بہ واسطی ۔طبع بیروت ۱۴۰۶ئھ
۲)۔ التراتیب الاداریہ ج/۲ ص/۱۳۴ ، از کتاب تحفة الناظر و غنیة الذاکر فی حفظ الشعائرتفسیر المناکر ،مصنفہ ابو عبد اللہ عقبانی تلمسانی ، الراعی و الراعیہ ،ص/۲۴۱
۳)۔ملاحظہ ہو سنن نسائی ج/۷ص/۲۸۴ ،سنن ابی داؤد ،ج/۳ ص/۲۴۵۔کنز العمال ،ج/۴ ص/۱۸۸ ، از احمد عبد الرزاق طیالسی ، دارمی ، نسائی ،ابن ماجہ ، ابن حیان ، مستدرک حاکم ، طبرانی ، سعید بن منصور نیز التراتب الاداریہ ، ج/۱ ص/۴۱۱و ۴۱۲، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۷۴۸۔ التراتب الاداریہ ،ج/۲ ص/۳۲تا ۳۵․
۴)۔ الجروحون ،ج/۱ص/۱۴۸
۵)۔من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ص۱۹۸،کافی ج/۵ص/۱۵۹و ۱۶۰․
۶)۔ مسند احمد ابن حنبل ،ج/۲ ص/۱۳۳
۷)۔تاریخ دمشق ، تحقیق محمودی حصہ شرح حال امام علی علیہ السلام ، ج/۳ ص/۱۹۴و۱۹۵،البدایة والنہایہ ج/۸ص/۴، مناقب خوارزمی ص/۷۰، ملحقات احقاق الحق ،ج/۸ص/۶۶۳، کنزلالعمال ،ج/۱۵ص/۱۶۳، حیات الصحابہ ج/۲ ص/۶۲۵، منتخب کنزالعمال (مطبوعہ در حاشیہ مسند احمد )،ج/۵ ص/۵۷
۸)۔ الفائق ،ج/۲ص/۶۲
۹)۔ وسائل ،ج/۱۳ص/۳، اور اسی موضوع کا حاشیہ فروع کافی ج/۱ص/۳۷۸،من لایحضرہ الفقیہ ج/۲ص/۷۰، علل الشرائع ص/۱۹۶،تہذیب ج/۲ص/۱۴۱، استبصار ج/۳ص/۸۷،نیز ملاحظہ فرمائیں :مستدرک الوسائل ج/۲ص/۴۸۲، دعائم السلام ج/۲ص/۲۵، بحار الانوار ج/۱۰۰ص/۱۲۶، بحار میں نقل ہے کہ :"․․․جب آنحضرت نے دیکھا کہ یہ لوگ اختلاف سے ہاتھ نہیں اٹھاتے تو آپ نے (پھل پکنے سے ) پہلے ان کی فروخت سے منع کر دیا ․
۱۰)۔وسائل ج/۱۳ص/۲،۳،۴۔فروع کافی ج/۱،ص/۳۷۸ تہذیب ج/۲ص/۱۴۱،استبصار ج/۳ص/۸۷و۸۸
۱۱)۔ الاصابة ج/۲ ص/۲۰۸و ۲۰۹ التراتیب الاداریہ ج/۲ص/۹۵
۱۲)۔من لایحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۳۲۱ ،دعائم الاسلام ج/۲ص/۱۶۸
۱۳)۔کافی ج/۶ ص/۲۴۶ علل الشرائع ص/۵۶۳
۱۴)۔من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ص/۳۳۵و ص/۵۶۳
۱۵)۔کافی ج/ ۶ ص۲۴۶
۱۶)۔مسند احمد بن حنبل ج/۴ص/۳۸۱
۱۷)۔ المصنف سید الرزاق ،ج/۱۰ ص/۲۰۵
۱۸)۔ معالم القربة ص/۱۶۳
۱۹)۔استبصار ،ج/۳ص/۱۳۱تھذیب ج/۷ص/۱۲۹و۲۲۰․کافی ج/۵ ص۲۴۲و۲۴۳․من لا یحضرہ الفقیہ ج/۳ ص/۲۵۶ ․ بحارالانوارج/۱۰۰ص/۱۶۸․وسائل الشیعہ ج/۱۳ ص/۲۷۲ تا۲۷۴․
۲۰)۔علل الشرائع ،ص/۴۱۲۔وسائل ج/۹،ص/۴۲۸و۴۲۹۔اور اس کا حاشیہ نقل از علل الشرائع و فقہ الرضا،ص/۷۵۔الترتیب الاداریة،ج/۱،ص/۳۷۷․
۲۱)۔ربیع الابرار،ج/۱،ص/۷۳۶۔بحار الانوار،ج/۷۳،ص/۱۰۲و۱۰۳․
۲۲)۔بحار الانوار،ج/۷۳،ص/۱۰۴۔نہج البلاغہ شرح عبدہ،ج/۲،ص/۱۵۴و۱۵۵․
۲۳)۔صفات الشیعہ،ص/۱۶۔بحار الانوار،ج/۷۳۔ص/۳۲۴ ،اور جلد/۷۱،ص/۱۴۸․
۲۴)۔بحار الانوار،ج/۷۱،ص/۱۴۷۔خصال،ج/۱،ص/۱۰․
۲۵)۔صحیح بخاری،ج/۱،ص/۷۸صحیح مسلم ج/۲ص/۱۲۳،التراتیب الاداریہ ج/۱ص/۸۹۔ص/۸۹کزشتہ دو ماٴخذوں سے نقل ،المصنف عبد الرزاق ج/۱ص/۵۱۸و۵۲۲،المعجم الصغیر ج/۱ص/۱۷۲ و ج/۲ص/۵۷ مجلہ نور علم ،سال دوم شمارہ ۹ص/۳۱نقل از اخبارالقضاة وکیع ج/۳ص/۱۲ و از ترتیب المسند شافعی ،ج/۱ص/۱۰، مسند زید ص/۲۹۹،المصنف ابن ابی شیبہ ج/۲ص/۱۵۵ و ص/۱۹۱ ،وسائل الشیعہ ج/۵ ص/۳۷۶ وص/۳۷۷، من لا یحضرہ الفقیہ ج/۱ص/۳۷۶ ، فتح الباری ج/۲ ص/۱۰۵ وص/۱۰۸
۲۶)۔ کافی ج/۵ص/۴۱۷،وسائل ج/۱۴ص/۴۵۰،مستدرک الوسائل ج/۲ص/۵۸۸و۵۸۹
۲۷)۔مستدرک الوسائل ج/۲ص/۵۸۸ملاحظہ فرمائیں․
۲۸)۔البیان والتبیین ج/۲ص/۲۱و۱۰۶
۲۹)۔المعرفة والتاریخ،ج/۱،ص/۳۴۴․
۳۰)۔دعائم الاسلام ،ج/۱،ص/۲۳۸۔بحار الانوار،ج/۷۹،ص/۶۷نقل ا ز دعائم الاسلام․
۳۱)۔طبقات بن سعد،طبع صاد،ج/۴،ص۲۶۵․
۳۲)۔معالم القربة،ص/۳۰۱۔اور اس کے حاشیہ نیز تفسیر الاصول،ج/۲،ص/۳۶سے نقل اور اضافہ شدہ ہے کہ: اصحاب صحاح میں سے پانچ افراد نے اسے نقل کیا ہے․
۳۳)۔ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری ج/۲ ص/۱۱۶صحیح مسلم ج/۱ ص/۹۱، مسند احمد ج/۵ص/۳۸۴، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص/۱۳۳۷ الترتیب الاداریہ ج/۲ ص/۲۵۱ و۲۵۲، ج/۱ ص/۲۲۰و۲۲۳، المصنف ابن ابی شیبہ ج۱۵ص/۶۹
۳۴)۔ صحیح بخاری ج/۲ص/۱۱۷، الترتیب الاداریہ،ج/۱ص/۲۲۰و۲۲۱،فتح الباری․
۳۵)۔شرح حال امام علی علیہ السلام از کتاب"تاریخ دمشق"تحقیق محمودی ،ج/۳،ص/۱۸۳
۳۶)۔"تاریخ دمشق" تحقیق محمودی ج/۳،ص/۱۸۳․
۳۷)۔کشف الاستار عن مسند البزار ج/۳،ص/۱۴۱۔مجمع الزوائد،ج/۸،ص/۲۹۶․
۳۸)۔المعجم الصغیر،ج/۲،ص/۵۰․
۳۹)۔الجامع الصحیح ترمذی،ج/۵،ص/۴۱۸،مسند احمدج/۳،ص۳۵۵و۳۹۳۔حیاة الصحابة،ج/۱،ص/۴۸۴ و۴۸۶ فتح الباری،ج/۸،ص/۴۹۸۔تفسیر القرآن العظیم، ج/۴،ص/۳۷۰و۳۷۲ نقل از صحیحین ،صحیح بخاری، ج/۲، ص/۱۳۱،۱۳۲ ۔صحیح مسلم،ج/۸، ص/۱۹۔المصنف عبد الزارقی،ج/۹،ص/۴۶۹۔السیرة الحلبیة،ج/۲، ص/۲۵۶ کنز العمال ج/۱۱ ،ص/۲۹۵ البدایہ والنھایة،ج/۷،ص/۲۹۷و۲۹۸․
۴۰)۔المصنف ج/۴،ص/۲۵۸۔
۴۱)۔کافی ج/۸ص/۷۔بحارالانوارج/۷۵ ص/۲۱۵
۴۲)۔مناقب خوارزمی،ص/۷۰۔شرح حال امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ازتاریخ دمشق تحقیق محنودی ج/۳ص/۱۹۴
۴۳)۔المعجم الصغیر ج/۲ص/۲۲و۵۶و۱۵۰۔کشف الاستار عن مسند البزارج ج/۱ص/۲۰۷۔مجمع الزوئد ج/۲ص/۱۷و۱۸نقل از احمد'طبرانی "در"کبیر‘و"الصغیر "و'الاوسط "نیز ازابی یعلی اورالبزار ۔علل الشرایع ص/۵۱۹۔
۴۴)۔ اس روایت کے ماٴخذ بہت ہیں نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہو : انساب الا شراف ،تحقیق محمودی ،ج/۲ ص/۴۱۷ وص/۴۲۰وص/۴۶۵ ․
۴۵۔۴۶)۔ وسائل الشیعہ ،ج/۱۲ ص/۲۱۱
۴۷)۔ کشف الاستار عن مند البزار ج/۲،ص/۲۷۳ ۔ مجمع الزوائد ،ج/۵ ،ص/۲۵۹
۴۸)۔تذکرة الفقہا ج/۱ص/۴۳۷ ․النظم السلامیةنشاتہا وتطوردما ص/ ۴۹۲․نقل از طبری ج/ ۴ص/۸۷و۸۸․المبسوط ج/۲ص/۷۵ ․منتہی المطلب ج/۲ص/۹۵۸۔
۴۹)۔بصائر الدرجات ص/۴۹۶
۵۰)۔التراتیب الاداریہ ج/۱ص/۲۳۵
۵۱)۔المعجم الصغیر ج/ص/۱۶۴
۵۲)۔التراتیب الاداریہ ،ج/۱ ص۲۹۲و۲۹۴
۵۳)۔ المعجم الصغیر ،ج/۱ص/۲۰۴
۵۴)۔التراتیب الاداریہ،ج/۱ ص۲۲۸و۲۷
source : mahimission..com