''و عترتي اہل بيتي '' صحيح ہے يا ''و سنتي''؟
ابن عبدالبرنے اپني کتاب ''تمہيد''(1) ميں اس حديث کے متن کو درج ذيل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کيا ہے.
''عبدالرحمن بن يحييٰ '' عن ''احمد بن سعيد '' عن ''محمد بن ابراھيم الدبيل'' عن ''عل بن زيد الفرائض'' عن ''الحنين'' عن ''کثير بن عبداللہ بن عمرو بن عوف'' عن ''اءبيہ'' عن ''جدہ'' .
امام شافعي نے کثير بن عبداللہ کے بارے ميں کہا ہے کہ وہ جھوٹ کے ارکان ميں سے ايک رکن تھا- (2)
ابوداۆد کہتے ہيں کہ وہ بہت زيادہ جھوٹ بولنے والے افراد ميں سے تھا.(3)
ابن حبان اس کے بارے ميں کہتے ہيں کہ عبداللہ بن کثير نے حديث کي جو کتاب اپنے باپ اور دادا سے نقل کي ہے اس کي بنياد جعل حديث پر ہے اس کي کتاب سے کچھ نقل کرنا اور عبداللہ بن کثير سے روايت لينا قطعا حرام ہے صرف اس صورت ميں صحيح ہے کہ اس کي بات کو تعجب کے طور پر يا تنقيد کرنے کے لئے نقل کيا جائے. (4)
نسائي اور دارقطني کہتے ہيں : اس کي حديث متروک ہے امام احمد کہتے ہيں : کہ وہ معتبر راوي نہيں ہے اور اعتماد کے لائق نہيں ہے.
اسي طرح اس کے بارے ميں ابن معين کا بھي يہي نظريہ ہے تعجب انگيز بات تويہ ہے کہ ابن حجر نے ''التقريب'' کے ترجمہ ميں صالح بن موسيٰ کو فقط ضعيف کہنے پر اکتفاء کيا ہے اور صالح بن موسيٰ کو جھوٹا کہنے والوںکو شدت پسند قرار ديا ہے ،حالانکہ علمائے رجال نے اس کے بارے ميں جھوٹا اور حديثيں گھڑنے والا جيسے الفاظ استعمال کئے ہيں يہاں تک کہ ذھبي اس کے بارے ميں کہتے ہيں : اس کي باتيں باطل اور ضعيف ہيں.
حوالہ جات:
(1) التمہيد، جلد 24 ص 331
(2) تھذيب التھذيب جلد 8 ص 377 ( دارالفکر) اور تھذيب الکمال جلد 24 ص 138
(3) گزشتہ کتابوں سے ماءخوذ
(4) المجروحين، جلد 2 ص 221 ابن حبان
سيد رضا حسيني نسب
مترجم: عمران مہدي
مجمع جہاني اہل بيت (ع)
شعبہ تحرير و پيشکش تبيان
source : www.tebyan.net