ولایت فقیہ کا مطلب اگر انسان ٹھیک سے سمجھ جائے تو سارے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔
ولایت کہتے ہیں حکومت کو اور فقیہ کہتے ہیں اس شخص کو جو دین میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو اس کے ساتھ ساتھ عادل ہو، عاقل ہو اور دنیا کے مسائل سے آشنا ہو۔
پس ولایت فقیہ کا مطلب ہوا فقیہ اور مجتہد کی حکومت۔
مقدمے کے طور پر یہاں کچھ ایسی باتوں کی طرف اشارہ کرتیں ہیں جو مسلمات میں سے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ انسان کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے ایک بہترین قانون اور منظم نظام کی ضرورت ہے اگر کسی سماج میں کوئی نظام اور قانون حاکم نہ ہو تو وہ سماج ایک دن بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
دوسری بات یہ کہ یہ قانون اور دستورات کون معین کرے خود انسان یا اس کا بنانے والا؟ واضح ہے کہ انسان اپنی ناقص عقل کے ذریعے اپنے لیے مفید قانون نہیں بنا سکتا چونکہ وہ مکمل طور پر اپنے بارے میں نہیں جانتا اور شاید دنیا کو چلانے کے لیے اچھا سے اچھا قانون بنا بھی لے لیکن چونکہ اس کی زندگی اس دنیا میں محدود نہیں ہے بلکہ اگلی دنیا میں بھی جاری ہے اور یہ دنیا اس کے لیے مقدمہ ہے لہذا اس دنیا کے لیے ایسا قانون ہونا چاہیے جس کے سائے میں انسان آنے والی زندگی میں بھی بہتری لا سکے۔ تو ایسا قانون وہی بنا سکتا ہے جو انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ آشنا ہے وہ صرف اس کا بنانے والا ہی ہے وہی جانتا ہے کہ انسان کیسا موجود ہے اور اس کے بنانے کا مقصد کیا ہے اسے اس دنیا میں کس طرح سے زندگی گزارنا ہے تاکہ اس کی یہ دنیا بھی سنور جائے اور اگلی دنیا بھی۔
اس وجہ سے اللہ نے انسان کے لیے قانون بنانے اور اس پر چلانے کا اختیار اپنے علاوہ کسی کو نہیں دیا اگر کسی کو دیا ہے تو وہ صرف اپنے مخصوص بندوں کو دیا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں فرمایا'' لا حکم الا للہ ‘‘۔حکومت کا حق صرف اللہ کو ہے۔ لیکن اللہ چونکہ بنفس نفیس روئے زمین پر ظاہر ہو کر حکومت نہیں کر سکتا اس لیے کہ انسانوں پر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ کوئی انہیں کے جیسا جسم و بدن رکھنے والا موجود ہو جو ان کے درمیان نظام قائم کرے اور اللہ اگر مجسم ہو جائے تو وہ خدا نہیں رہے گا اگر دکھائی دے تو وہ خدا نہیں ہو گا اس کا ذاتی کمال یہ ہے کہ وہ نہ مجسم ہو سکتا ہے اور نہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے لہذا اس نے روئے زمین پر حکومت کے لیے اپنے نمائندے مقرر کئے لہذا اصلِ حکومت اور ولایت کا سلسلہ اللہ سے شروع ہوا جو اس نے اپنے نبیوں کے حوالے کیا۔ انبیاء کا سلسلہ جب تک رہا انہوں نے حکومت قائم کرنے کی کوشش کی بعض اس راہ میں کامیاب ہوئے بعض ناکام، اسی وجہ سے ہر نبی کی اپنے زمانے کے بادشاہ سے ٹکر رہی۔ انبیاء کا سلسلہ جب ختم ہوا تو ایسا نہیں کہ ولایت اور حکومت کا سلسلہ بھی منقطع ہو جائے چونکہ انسان ابھی موجود ہے اور جب تک انسان ہے اسے نظام اور قانون کی ضرورت ہے۔ اور یہ طے ہے کہ نظام چلانے اور قانون بنانے کا حق صرف اللہ کو ہے یا پھر اس کے نمائندوں کو یہ حق دیا گیا ہے لہذا ولایت اور حکومت کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا اس وجہ سے انبیاء نے اس سلسلے کو اپنے اوصیاء کی طرف منتقل کیا ائمہ طاہرین جب تک موجود تھے وہی الہی حکومت کے عہدہ دار تھے اب دنیا کے شرائط نے انہیں حکومت کرنے دیا یا نہیں کرنے دیا یا وہ اپنی سعی میں کامیاب ہوئے یا نہیں ہوئے وہ الگ مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے جب تک وہ زندہ یا ظاہری طور پر موجود تھے حکومت اور ولایت کا حق انہیں کو حاصل تھا عصر غیبت کے شروع ہوتے ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ اب یہ حق کس کی طرف منتقل ہونا چاہیے؟ کیا اس الہی نظام حکومت کا سلسلہ ختم ہونا جانا چاہیے یا آگے بڑھنا چاہیے؟ واضح ہے جب اللہ ہے اس کے بندے ہیں تو اس کی حکومت بھی ہونا چاہیے یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا۔ لہذا بارہویں امام نے اس سلسلے کو فقہا کی طرف منتقل کیا ؛ فی کتاب اکمال الدین و اتمام النعم عن محمد بن محمد بن عصام عن محمد بن یعقوب عن اسحاق بن یعقوب قال: سالت محمد بن عثمان العمری ان یوصل لی کتابا قد سالت فیہ عن مسائل اشکلت علی۔ فورد التوقیع بخط مولانا صاحب الزمان(علیہ السلام) اما ما سالت عنہ، ارشدک اللہ و ثبتک ( الی ان قال) و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیہا الی رواۃ حدیثنا۔ فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیہم۔( کتاب اکمال الدین اور اتمام النعیم میں محمد بن محمد بن عصام بن محمد بن یعقوب بن اسحاق بن یعقوب سے منقول ہے کہ اسحاق بن یعقوب نے حضرت ولی عصر(ع) کو ایک خط لکھ کر اپنی مشکلات کا اس میں ذکر کیا جسے محمد بن عثمان عمری حضرت کے نائب خاص نے، حضرت کو یہ خط پہنچایا۔ اس خط کا جواب خود حضرت نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا:'' جو حوادث تم کو پیش آئیں ان میں ان کی طرف رجوع کرو جو ہم سے روایت نقل کرتے ہیں( یعنی علماء و فقہا) کیونکہ وہ تم پر ہماری طرف سے حجت ہیں اور ہم ان پر اللہ کی طرف سے حجت ہیں۔)
یہ حدیث جو تمام اہل تشیع کی حدیثی کتابوں میں موجود ہے میں واضح طور پر امام نے سماج کو پیش آنے والے جدید مسائل میں فقہا کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بات طے ہے کہ حدیث میں ''حوادث واقعہ‘‘ سے مراد شرعی مسائل نہیں ہیں چونکہ پوچھنے والا یہ جانتا ہے کہ شرعی مسائل کس سے پوچھے جا سکتے ہیں اس لیے کہ ائمہ کے دور میں بھی شرعی مسائل کے لیے ائمہ، فقہا کی طرف لوگوں کو لوٹاتے تھے یہاں پر ڈھکے چھپے الفاظ میں جو ''حوادث واقعہ‘‘ کی تعبیر استعمال کی جا رہی ہے اس سے مراد سماج کو درپیش سیاسی اور ثقافتی مسائل ہیں جن کی عہدہ دار ایک حکومت ہوا کرتی ہے تو امام نے شیعہ سماج کو تمام سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی مسائل میں فقہا کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ در حقیقت اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امام نے اس عہدہ الہی کو جو ولایت الہیہ کا عہدہ ہے اپنے بعد فقہاء کے حوالے کیا اور یہ چیز سب پر عیاں ہے کہ اس دور میں اس طرح کی باتوں کو اسرار و رموز میں بیان کیا جاتا تھا تاکہ دشمن سمجھ نہ سکیں اگر امام واضح الفاظ میں فرما دیتے کہ آج کے بعد عہدہ ولایت کے حامل فقہا ہیں تو دشمن ہر شیعہ فقیہ کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دیتے لہذا مبہم تعبیرات استعمال کر کے اس عہدے کو فقہا تک منتقل کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہر فقیہ ولایت کا عہدہ رکھتا ہے؟ نہیں اس کے بھی شرائط ہیں جو امام حسن عسکری(ع) نے پہلے ہی بیان کر دئے تھے؛ «فاما من کان من الفقهاء: صائناً لنفسه، حافظاً لدینه، مخالفاً علی هواه، مطیع لامر مولاه، فللعوام این یقلدوه»(وسائل الشیعه، ج 27، ص 131)
(فقہا میں سے جو اپنے نفس کا محافظ ہو اپنے دین کا محافظ ہو، اپنی ہویٰ و ہوس کا مخالف ہو اپنے مولا کے امر کا مطیع ہو عوام پر واجب ہے کہ اس کی پیروی کریں)
لہذا ان شرائط نیز حالات حاضرہ سے آشنا جو وقت کی ضرورت ہے اور مینیجمنٹ کی صلاحیت رکھنے والے فقیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ انسانی سماج پر اللہ کے قانون کو نافذ کرے۔ اب ان شرائط پر اترنے والے اگر بہت سارے فقہا ہوں تو ظاہر ہے کہ سب ایک ساتھ ولی و سرپرست نہیں بن سکتے بلکہ انہیں اپنے درمیان میں سے کسی ایک کو ہی اس عہدہ کے لیے معین کرنا ہو گا جس میں اس کام کی سب سے زیادہ صلاحیت ہو تاکہ وہ اس نظام کی باگ ڈور کو سنبھال سکے۔ یہ طریقہ مکمل طور پر منطقی اور عقلی ہے۔
اب اگر سر زمین ایران میں جامع الشرائط فقہا کے ایک گروہ نے مل کر کسی ایک کو ولی فقیہ کے عنوان سے منتخب کیا ہے تو وہ تمام شیعہ سماج کا ولی و سرپرست ہو گا اور اسے سب پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو گا اس لیے کہ اہل تشیع کے درمیان ہمیشہ سے ایک ہی فرد کی سرپرستی رہی ہے، دو اماموں کی موجودگی میں ایک سرپرستی کرتا تھا اور دوسرا خاموشی رہتا تھا جس کی مثال امام حسن و حسین (ع) میں موجود ہے دونوں بیک وقت امام ہیں لیکن جب تک امام حسن کا دور امامت ہے امام حسین (ع) کوئی فیصلہ نہیں لیتے۔ ائمہ کے بعد بھی یہ سلسلہ قائم رہا ہر دور میں صرف ایک ہی جہان تشیع کا مرجع ہوتا رہا ہے حالانکہ دسیوں مجتہد جامع الشرائط موجود ہوتے رہے ہیں۔ امام خمینی(رہ) نے شیعہ حکومت قائم کرنے کے بعد ولایت فقیہ کے نظریے کو جو پہلے سے شیعہ منابع میں موجود تھا اور عصر ائمہ سے چلا آ رہا تھا کو عوام کے سامنے پیش کیا جبکہ گزشتہ علماء بھی اس عہدہ الہی کے حامل تھے صرف انہیں اسے عملی جامہ پہنانے اور نظام قائم کرنے کا موقع نہیں ملا جیسے خود عصر ائمہ میں صرف امیر المومنین نے حکومت قائم کی باقی ائمہ کو موقع نہیں ملا اسی طرح امام خمینی نے جب الہی نظام کا قیام عمل میں لایا تو اس اصطلاح کو بھی شیعہ سماج کے اندر رائج کر دیا اگر چہ شیعہ علماء پہلے سے اس نظریے سے آشنا اور اس کے قائل تھے لہذا چونکہ شیعہ سماج ہمیشہ سے ایک ہی پرچم تلے پروان چڑھتا آیا ہے اور اس کا طرہ امتیاز بھی اسی میں ہے کہ اس کے یہاں بارہ امام ہونے کے باوجود اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسروں کے یہاں چار امام سامنے آئے اور چاروں کے آگے چار فرقے بن گئے! بلکہ تشیع کی بقا کا راز بھی یہی ہے کہ ان پر اتنے مظالم ہونے کے باوجود بھی وہ آج دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ تشیع ایک ہی نظام کے تابع ہیں اور وہ ہے ولی فقیہ کے توسط سے قائم الہی نظام لہذا ایک نظام کو ماننے والے ایک ہی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں کیوں نہ زندگی بسر کر رہے ہوں۔
رہا دوسرا سوال کہ حدیثوں میں تو یہ ولایت ائمہ طاہرین سے مخصوص ہے پھر علماء اس کے عہدہ دار کیسے ہو گئے اس سوال کا جواب بھی گزشتہ گفتگو سے واضح ہو جاتا ہے۔
ایک تو یہ کہ جو ولایت ائمہ طاہرین سے مخصوص ہے وہ ولایت تکوینی ہے ولایت کی دو قسمیں ہیں ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی، ولایت تکوینی کی مختصر تعریف یہ ہے کہ کائنات میں تصرف کرنا اللہ کی تخلیق میں تصرف کرنا اور ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ شریعت بنانا اور اسے نافذ کرنا۔ ولایت تکوینی یعنی کائنات میں کسی قسم کا تصرف اللہ، اس کے رسول اور ائمہ طاہرین سے مخصوص ہے کسی اور کو حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن ولایت تشریعی یعنی شریعت بنانے کا حق صرف اللہ، اس کے رسول اور ائمہ کو ہے لیکن اللہ کی شریعت کا نافذ کرنے کا حق علماء کو بھی دیا گیا ہے چونکہ وہ عصر غیبت میں اللہ کی شریعت میں اجتہاد کرتے ہیں اللہ کے احکامات کا استنباط کرتے ہیں اور انہیں سماج میں نافذ کرتے ہیں اور صرف اجتہاد کریں اور نافذ نہ کریں تو شریعت بے معنی ہو جائے گی شریعت ایک تھیوری ہو جائے گی اس کا عملی زندگی سے کوئی ربط نہیں رہے گا لہذا اجتہاد اور استنباط کے ساتھ ساتھ فقہا کی ذمہ داری ہے کہ وہ شریعت الہی کو سماج میں نافذ کریں یہ نافذ کرنا اسی وقت ممکن ہے جب اس کا اختیار انہیں دیا جائے اختیار دینے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں یہ عہدہ دیا جائے لہذا ائمہ طاہرین نے ولایت تشریعی کا یہ عہدہ انہیں دیا کہ وہ شریعت کو خود سمجھیں پھر اسے سماج میں نافذ کریں۔ ولایت فقیہ اسی کو کہتے ہیں اب اس کا دائرہ محدود نہیں ہے ولی فقیہ کو ماننے والے چاہے کسی ملک میں رہ رہے ہوں اس کا حکم ان پر بھی نافذ ہے۔
اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لیے اس لینک پر رجوع کریں؛ http://abna.co/data.asp?lang=6&Id=483960
بقلم: الف۔ ع۔ جعفری
source : www.abna.ir