اردو
Tuesday 26th of November 2024
0
نفر 0

اخلاق کی قسمیں

اخلاق کی دو قسمیں ہیں ١: فضیلت (اچھا اخلاق) ٢: رذیلت ( برا اخلاق )جو زبان عربی میں اخلاق الحسنة اور اخلاق السیئةسے معروف ہیں (١)

اچھا اخلاق انسان کو منزل معراج تک پہونچا دیتاہے اور برا اخلاق انسان کو اتنا پست کر دیتا ہے کہ وہ معاشرہ میں خجالت کے پیش نظر سر نگوں ہوکر رہ جاتا ہے، اس کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جن لوگوں کے ساتھ برے اخلاق سے پیش آیا ہے ان کے سامنے سر اٹھاکر زندگی گذارے ،البتہ یہ بات صاحب درک و فہم سے متعلق ہے اور اس کا تعلق اس شخص سے ہے جس کے ضمیر میں زندگی کی ذرہ برابر بھی رمق باقی ہے ،جس کا ضمیر ہی مردہ ہو چکا ہو وہ کیا محسوس کرے گا ؟

دوسرے مرحلہ میں اخلاق کی پھر دو قسمیں ہیں [ ۱ ] اپنے نفس کے ساتھہ اخلاق [ ٢ ] دوسروں کے ساتھہ اخلاق۔

دوسروں کے ساتھہ اخلاق کی بہت زیادہ قسمیں ہو سکتی ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے چند اقسام کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ 

١۔خدا کے ساتھہ اخلاق

٢۔اہل خانہ کے ساتھہ اخلاق 

٣۔پڑوسیوں کے ساتھہ اخلاق ٤۔دوستوں کے ساتھہ اخلاق

٥۔دشمنوں کے ساتھہ اخلاق ٦۔اعزا ء و اقارب کے ساتھہ اخلاق

٧۔خادموں ،نوکروں اور غلاموں کے ساتھہ اخلاق ٨۔اجنبی کے ساتھہ اخلاق

اب یہ انسان کے اوپر منحصر ہے کہ کس کے ساتھ کس اخلاق سے پیش آتا ہے ،یہ اس کی عقل کا امتحان ہے کہ وہ اس کی کیسی رہنمائی کرتی ہے اس کو منزل کمال تک پہونچاتی ہے یا قعر مضلت میں ڈھکیل دیتی ہے ۔

……………………………………

(١)اخلاق شبر:ص٣١۔ آموزہ ھای بنیادین علم اخلاق:ج١،ص١٥

اگر انسان کا ذہن عاجز ہو جائے کہ کس کے ساتھ کس اخلاق سے پیش آیاجائے تو وہ پھر اپنے لئے نمونہ آئیڈیل [Ideal] تلاش کرے اور جس طرح وہ اخلاق سے پیش آتا ہے اسی طرح یہ بھی اخلاق سے پیش آئے ۔

یہ بھی انسان کے اوپر موقوف ہے کہ وہ اپنا آئیڈیل(Ideal)کس کو بنا تا ہے ؟اس معاشرہ میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، کسی انسان کے جذبات و احساسات پر ہمارا پہرہ نہیں ہے کہ جو ہم چاہیں گے وہ وہی کام انجام دے گا یا جسے ہم چاہیں گے وہ اپنا آئیڈیل(Ideal)بنائے گا بلکہ انسان خود مختار ہے ،جس کو چاہے اپنا آئیڈیل (Ideal) بنائے، یہی وجہ ہے... کہ بعض لوگ فلمی ستاروں(Holly wood & Bolly wood Stars)کو اپنا آئیڈیل(Ideal)بناتے ہیں ،بعض لوگ کرکیٹروں(Cricketers)کو اپنے لئے نمونہ انتخاب کر لیتے ہیں اور بعض لوگ فوٹ بالسٹ(Foot Ballist) کو اپنا آئیڈیل(Ideal)قرار دیتے ہیں خلاصہ یہ کہ جس کی نگاہوں کو جو بھا جاتا ہے وہ اسی کو اپنالیتا ہے لیکن.................انسان کے خود مختار ہو نے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو لاوارث اور بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے ،جس کو چاہے اپنا آئیڈیل (Ideal)بنائے بلکہ اسے عقل وضمیرجیسے رہبروں جیسی نعمت سے مالا مال کرکے بھیجا گیا ہے ، آئیڈیل(Ideal) کو انتخاب کر نے سے پہلے یہ سوچ لے کہ آیا عقل بھی اس آئیڈیل(Ideal)کو قبول کرتی ہے؟

میرا یہ دعویٰ ہے کہ اگر انسان عقل کی موافقت میں آئیڈیل(Ideal)کا انتخاب کرے گا تو کبھی بھی دام فریبی میں گرفتارنہیںہو سکتا بلکہ اپنی کشتی حیات کو بخوبی کنارے لگا سکتا ہے۔

خدا وند عالم کی آواز آئی اے انسان تو اپنے لئے نمونہ اور آئیڈیل(Ideal) کی تلاش میں ہے تو پریشان کیوں ہو تا ہے گھبرا نے کی کیا بات ہے؟ہم تیرے خالق ہیں ،ہم بتائیں گے کہ تیرا آئیڈیل(Ideal)کیسا ہونا چاہیئے ؟

(لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة)(١)

بے شک (میرے حبیب )محمد مصطفیٰ ۖ میں تمھارے لئے نمونہ موجود ہے یعنی اگر تمھیں نمونہ چاہیئے تو میرے حبیب کو دیکھو، اس کی پیروی کرو، خود بخود راہ راست پر گامزن ہو جائوگے چونکہ میرا حبیب آئینۂ اخلاق ہے۔

رسول اسلام ۖانسان کے لئے ہر کام میں بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں، انسان جو کام کرنا چاہے حضرت ۖکو اپنا آئیڈیل بنائے،دیگر امور سے چشم پوشی کرتے ہوئے اخلاق نبوی پر نظر کرتے ہیں ۔

……………………………………

(١)سورہاحزاب ٢١

رسول اسلام ۖ سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے: ''انک لعلیٰ خلق عظیم''(١)

اے میرے حبیب تم اخلاق عظیم پر فائز ہو ،آخر خدا وند عالم نے رسول اسلام ۖ میں کونسی ایسی صفت دیکھی کہ خلق عظیم جیسی عظیم سند سے نوازا؟

چونکہ اخلاق کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو حضور ۖ کی ذات میں نہ پایا جائے آئیئے تاریخ پر نظر کرتے ہیں کہ حضور ۖ کا اخلاق کیسا تھا اور آپ ۖ کی سیرت کیا تھی؟

روایتیں گواہ ہیں کہ آپ ۖ پورے وقار و متانت کے ساتھ راستہ چلتے تھے ،آپ ۖ کی نظریں ہمیشہ جھکی رہتی تھیں ،ہمیشہ سلام میں سبقت کیا کرتے تھے ،ہمیشہ خدا کی مخلوقات میں غوروفکر کرتے رہتے تھے ،بغیر ضرورت کے کلام نہیں کرتے تھے ،کسی کو حقیر نہیں سمجھتے تھے ، کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے،اگر زیادہ خوشی کا اظہار فرماتے تھے تو صرف لبوں پر تبسم آتا تھا ،آواز بلند نہیں ہوتی تھی(٢)

اخلاق کے اس درجہ پر فائز تھے کہ ہمیشہ سر جھکاکر چلتے تھے کبھی بھی آپ کو سر اٹھاکر چلتے نہیں دیکھا گیا ۔

……………………………………

(١)سورہ قلم/٤

(٢)احسن المقال :ج١، ص٢٧


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3826&link_book=holy_prophet_and_ahlul_bayt_library/holy_prophet/akhlaq_wa_seerat_khatm
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آیت اللہ بہجت کی یادیں بیٹے اور شاگرد کے زبانی
اسلام میں عورت کا حق وراثت
فضائلِ صلوات
ديني غيرت کو فراموش مت کريں (حصّہ دوّم)
عظمت سادات
اخلاق کی قسمیں
اولیاء سے مددطلبی
قرآن ایک جاودان الہی معجزہ ہے
مغربی ممالک میں اسلام کا فروغ
رمضان المبارک طہارت، پاکیزگی اور توبہ و انابہ کا ...

 
user comment