اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

عورت کى حيثيت اور اس کا مقام

عورت کى حيثيت اور اس کا مقام

ومن آياتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا اليھاوجعل بينکم مودۃورحمۃ(روم21) اس کى نشانيوں ميں سے ايک يہ ہے کہ اس نے تمہاراجوڑاتمھيں ميں سے پيداکياہے تاکہ تمھيں اس سے سکون زندگى حاصل ہو اورپھرتمہارے درميان محبت اوررحمت کا جذبہ بھى قراردياہے ۔ آيت کريمہ ميں دو اہم باتوں کى طرف اشارہ کياگياہے: 1۔ عورت عالم انسانيت ہى کاايک حصہ ہے اوراسے مردکاجوڑابناگياہے ۔اس کى حيثيت مرد سے کمترنہيں ہے۔ 2۔ عورت کامقصدوجودمرد کى خدمت نہيں ہے ،مردکاسکون زندگى ہے اورمردوعورت کے درميان طرفينى محبت اوررحمت ضروى ہے يہ يکطرفہ معاملہ نہيں ہے۔ ولھن مثل الذى عليھن بالمعروف وللرجال عليھن درجۃ بقرہ ( 228) عورتوں کے ليے ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان کے ذمہ فرائض ہيں امردوں کوان کے اوپرايک درجہ اورحاصل ہے ۔ يہ درجہ حاکميت مطلقہ کانہيں ہے بلکہ ذمہ دارى کاہےم کہ مردوں کى ساخت ميں يہ صلاحيت رکھى گئى ہے کہ وہ عورتوں کى ذمہ دارى سنبھال سکيں اوراسى بناانھيں نان ونفقہ اوراخراجات کاذمہ داربناگياہے ۔ فاستجاب لھم ربھم انى لااضيع عمل عامل منکم من ذکراوانثى بعضکم من بعض (آل عمران 195) تواللہ نے ان کى دعاکوقبول کرليا کہ ہم کسى عمل کرنے والے کے عمل کوضائع نہيں کرنا چاہتے چاہے وہ مردہوياعورت ،تم ميں بعض بعض سے ہے يہاں پردونوں کے عمل کوبرابرکى حيثيت دى گئى ہے اورايک کودوسرے سے قراردياگياہے ۔ ولاتتمنوا مافضل اللہ بعضکم على بعض للرجال نصيب ممااکتسبوا وللنساء نصيب ممااکتسبن (نساء32) اورديکھو جوخدانے بعض کوبعض سے زيادہ دياہے اس کى تمنا نہ کرو مردوں کے ليے اس ميں سے حصہ ہے جوانھوں نے حاصل کرلياہے ۔ يہاں بھى دونوں کوايک طرح کى حيثيت دى گئي ہے اورہرايک کودوسرے کى فضيلت پرنظرلگانے سے روک دياگياہے ۔ وقل رب ارحمھماکماربيانى صغيرا (اسراء23) اوريہ کہوکہ پروردگاران دونوں (والدين )پراسى طرح رحمت نازل فرما جس طرح انھوں نے مجھے پالا ہے۔ اس آيت کريمہ ميں ماں باپ کوبرابرکى حيثيت دى گئى ہے اوردونوں کے ساتھ احسان بھى لازم قراردياگياہے اوردونوں کے حق ميں دعائے رحمت کى بھي تاکيد کى گئى ہے ۔ ياايھا الذين آمنوالايحل لکم ان ترثوا النساٴ کرھا ولاتعضلوھن لتذھبوا ببعض مآتيمتوھن الا ان ياتين بفاحشة مبينة وعاشروھن بالمعروف فان کرھتموھن فعسى ان تکرھواشيئاويجعل اللہ فيہ خيرا کثيرا (نساء19) ايمان والو ۔ تمھارے لئے نہيں جائز ہے کہ عورت کے ز بردستي وارث بن جاٴواور نہ يہ حق ہے کہ انھيں عقد سے روک دو کہ اس طرح جو تم نے ان کو ديا ہے اس کا ايک حصہ خود لے لو جب تک وہ کوئى کھلم کھلا بد کارى نہ کريں، اور ان کے ساتھ مناسب برتاٴوکرو کہ اگر انھيںنا پسند کرتے ہو تو شايد تم کسى چيز کو نا پسند کرو اور خدا اس کے اندر خير کثيرقرارديدے، واذا طلقتم النساٴ فبلغن اجلھن فامسکو ھن بمعروف اٴو سرحوھن بمعروف ولاتمسکوھن ضرارا لتعتقدو اومن يفعل ذالک فقد ظلم نفسہ (بقرہ 132) اور جب عورتوں کو طلاق دو اور ان کى مدت عدر قريب آجائے تو چا ہو تو انھيں نيکى کے ساتھ روک لو ورنہ نيکى کے ساتھ آزاد کردو ،اور خبر دار نقصان پہونچانے کى غرض سے مت روکنا کہ اس طرح ظلم کروگے، اور جو ايسا کريگا وہ اپنے ہى نفس کا ظالم ہوگا ۔ مذکورہ دونوں آيات ميںمکمل آزادى کا اعلان کيا گيا ہے جہاں آزادى کا مقصد شرف اور شرافت کا تحفظ ہے اور جان ومال دونوں کے اعتبار سے صاحب اختيار ہونا ہے اور پھر يہ بھى واضح کرديا گيا ہے کہ ان پر ظلم در حقيقت ان پر ظلم نہيں ہے بلکہ اپنے ہى نفس پر ظلم ہے کہ ان کے لئے فقط دنيا خراب ہوتى ہے اور انسان اس سے اپنى عاقبت خراب کر ليتا ہے جو خرابى دنيا سے کہيں زيادہ بدتر بربادى ہے ۔ الرجال قوامون على النساء بما فضل اللہ بعضھم على بعض وبما انفقوا من اموالھم ۔( نساء 34 ) مرد اور عورتوں کے نگراں ہيں اور اس لئے کہ انھوں نے اپنے اموال کو خرچ کيا ہے ۔ آيت کريمہ سے بالکل صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کا مقصد مرد کو حاکم مطلق بنا دينا نہيں ہى اور عورت سے اس کى آزادى حيات کا سلب کرلينا نھيںہے بلکہ اس نے مردکو بعض خصوصيات کى بناء پر کھر کا نگراں اور ذمہ دار بنا ديا ہے اور اسے عورت کے جان مال اور آبرو کا محافظ قراردےدياہے اس کے علاوہ اس مختصر حاکميت يا ذمہ دارى کو بھى مفت نہيں قرار ديا ہے بلکھ اس کے مقابلہ ميں اسے عورت کے تمام اخراجات ومصارف کا ذمہ دار بنا ديا ہے ۔ اور کھلى ہوئى بات ہے کہ جب دفتر کا افسر يا کار خانہ کا مالک صرف تنخواہ دينے کى بنا پر حاکميت کے بےشمار اختيارات حاصل کرليتا ہے اور اسے کوئى عالم انسانيت توہين نہيں قرار ديتا ہے اور دنيا کا ہر ملک اسى پاليسى پر عمل کرليتا ہے تو مرد زندگى کى تمامذمہ دارياں قبول کرنے کے بعد اگر عورت پر پابندى عائد کردے کہ اس کى اجازت کے بغير گھر سے باہر نہ جائے اور کےلئے ايسے وسائل سکون فراہم کردے کہ اسے باہر نہ جا نا پڑے اور دوسرے کى طرف ہوس آميز نگاہ سے نہ ديکھنا پڑے تو کونسى حيرت انگيز بات ہے يہ تو ايک طرح کا بالکل صاف اور سادہ انسانى معاملہ ہے جو ازدواج کى شکل ميں منظر عام پر آتا ہے کر مرد کمايا ہوا مال عورت کا ہوجاتا ہے اور عورت کى زندگى کاسرمايہ مرد کا ہوجاتا ہے مرد عورت کے ضروريات پوراکرنےکے لئے گھنٹوں محنت کرتا ہے اور باھر سے سرمايہ فراھم کرتا ہے اورعورت مرد کى تسکين کے ليے کوئى زحمت نہيں کرتى ہے بلکہ اس کاسرمايہٴ حيات اس کے وجود کے ساتھ ہے انصاف کيا جائے کہ اس قدرفطرى سرمايہ سے اس قدرمحنتى سرمايہ کاتبادلہ کياعورت کے حق ميں ظلم اورناانصافى کہا جاسکتاہے جب کہ مردکى تسکين ميں بھى عورت برابرکى حصہ دارہوتى ہے اوريہ جذبہ يک طرف نہيں ہوتاہے اورعورت کے مال صرف کرنے ميں مردکوکوئى حصہ نہيں ملتا ہے مردپريہ ذمہ دارى اس کے مردانہ خصوصيات اوراس کى فطرى صلاحيت کى بناپررکھى گئى ہے ورنہ يہ تبادلہ مردوں کے حق ميں ظلم ہوتاجاتااورانھيں يہ شکايت ہوتى کہ عورت نے ہميں کياسکون دياہے اوراس کے مقابلہ ميں ہم پرذمہ داريوں کاکس قدربوجھ لاد دياگياہے يہ خوداس بات کى واضح دليل ہے کہ يہ جنس اورمال کاسودانہيں ہے بلکہ صلاحيتوں کى بنياد پرتقسيم کارہے عورت جس قدرخدمت مردکے حق ميں کرسکتى ہے اس کاذمہ دارعورت کابنادياگياہے اورمرد جس قدرخدمت عورت کرسکتاہے اس کااسے ذمہ داربنادياگياہے اوريہ کوئى حاکميت ياجلاديت نہيں ہے کہ اسلام پرناانصافى کاالزام لگادياجائے اوراسے حقوق نسواں کاضائع کرنے وا لاقراردے دياجائے ۔ يہ ضرورہے کہ عالم اسلام ميں ايسے مرد بہرحال پائے جاتے ہيں جومزاجى طورپرظالم ،بے رحم اورجلاد ہيں اورانھيں جلادى کے ليے کوئى موقع نہيں ملتاہے تواس کى تسکين کاسامان گھرکے اندرفراہم کرتے ہيں اوراپنے ظلم کا نشانہ عورت کوبناتے ہيں کہ وہ صنف نازک ہونے کى بناپرمقابلہ کرنے کے قابل نہيں ہے اوراس پرظلم کرنے ميں ان خطرات کااندیشہ نہيں ہے جوکسى دوسرے مرد پرظلم کرنے ميں پیداہوتے ہيں اوراس کے بعداپنے ظلم کاجوازقرآن مجيد کے اس اعلان ميں تلاش کرتے ہيں اوران کاخيال يہ ہے کہ قوامیت نگرانى اور ذمہ دارى نہيں ہے بلکہ حاکمیت مطلقہ اورجلادیت ہے حالانکہ قرآن مجيدنے صاف صاف دو وجوہات کى طرف اشارہ کردياہے ايک مرد کى ذاتى خصوصیت ہے اورامتيازى کیفیت ہے اوراس کى طرف سے عورت کے اخراجات کي ذمہ دارى ہے اورکھلى ہوئى بات ہے کہ دونوں اسباب ميں نہ کسى طرح کى حاکمیت پائى جاتى ہے اورنہ جلادیت بلکہ شاید بات اس کے برعکس نظرآئے کہ مردميں فطرى امتيازتھا تواسے اس امتيازسے فائدہ اٹھانے کے بعد ايک ذمہ دارى کامرکزبنادياگيا اوراس طرح اس نے چارپےسے حاصل کےے توانھےں تنہاکھانے کے بجائے اس ميں عورت کا حصہ قراردياہے اوراب عورت وہ ما لکہ ہے جوگھرکے اندرچےن سے بےٹھى رہے اورمرد وہ خادم قوم ملت ہے جوصبح سے شام تلک اہل خانہ کے آذوقہ کى تلاش ميں حےران وسرگرداں رہے يہ درحقےقت عورت کى نسوانےت کى قےمت ہے جس کے مقابلہ ميں کسى دولت ،شہرت ،محنت اورحےثےت کى کوئي قدروقیمت نہيں ہے۔


source : www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیخ صدوق ؛ حدیث صداقت
ایک سنجیدہ مسئلہ
غير ملکي چينلوں کے برے اثرات سے بچيں
زبان کی حفاظت
گھر کى آمدنى اور خرچ
اچھا اخلاق
چالیس حدیثیں
انسان اور حیوان کے درمیان مشترکات
بداخلاقى كا انجام
قرآن میں روزہ کا حکم

 
user comment