جناب لوط عليہ السلام خدا كے عظيم پيغمبر تھے اور حضرت ابراہيم (ع) كے ہم عصر تھے اور جناب ابراہيم(ع) سے قريبى رشتہ دارى تھى (كہا جاتاہے كہ آپ جناب ابراہيم (ع) كے خا لہ زاد بھائي تھے )_
يہ بات مسلمہ ہے كہ ابراہيم(ع) عراق اور سرزمين بابل سے ہجرت كرنے كے بعد شامات كى طرف گئے، كہتے ہيں كہ لوط بھى ان كے ساتھ تھے ليكن كچھ مدت كے بعد (توحيد كى طرف دعوت دينے اور فتنہ وفساد سے مبارزہ كے لئے ) شہر'' سدوم'' كى طرف گئے _
'' سدوم '' قوم لوط كے ايك شہر اور آبادى كا نام تھا جو شامات( ملك اردن ميں )'' بحر الميت'' كے قريب واقع تھا جو آباد اور درختوں اور سبزہ زار سے بھرا تھا، ليكن اس بدكاروبے غيرت قوم پر عذاب الہى كے نازل ہونے كے بعد، ان كے شہر مسمار اور تہ وبالا ہوگئے ، چنانچہ انہيں '' مدائن مو تفكات''_ (تہ وبالاہونے والے شہر) كہتے ہيں _
بعض كا نظر يہ، يہ ہے كہ ان شہروں كے ويرانے زير آب آگئے ہيں، اور ان كا دعوى ہے كہ انہوں نے '' بحر الميت''كے ايك گوشہ ميں كچھ ستون اور دوسرے آثار جوان شہروں كے خرابوں پر دلالت كرتے ہيں ديكھے ہيں _
جب كہ بعض لوگوں كا نظريہ ہے كہ قوم لوط كے شہر زير اب نہيں ائے ،اور اب بھى ''بحر الميت''كے قريب ايك علاقہ ہے جو سياہ پتھروں كے نيچے ڈھكا ہوا ہے، احتمال ہے كہ قوم لوط كے شہروں كى جگہ يہيں ہو _
اور يہ بھى كہا ہے كہ ابراہيم(ع) كا مركز شہر'' حبرون'' ميں تھا ، جو شہر'' سدوم '' سے چنداں دور فاصلہ پر نہيں تھا، اور جس وقت زلزلہ يا صاعقہ كے زيراثران كے شہروں كو آگ لگى تو اس وقت ابراہيم حبرون كے قريب كھڑے ہوئے تھے، اور شہر سے جو دھنواں اٹھ رہا تھا اسے اپنى آنكھ سے ديكھ رہے تھے _
اس گفتگو كے مجموعہ سے ان شہروں كے قريباً حدودواضح ہوگئے، اگرچہ ان كے جزئيات كے ابھى تك پردہ ابہام ميں ہيں _
قوم لوط كا سب سے بڑا اخلاقى انحراف
قرآن كريم اس عظيم پيغمبر اور ان كى قوم كے واقعہ كو اس طرح شروع كرتا ہے كہ ''لوط كى قوم نے خدا كے بھيجے ہوئے رسولوںكى تكذيب كي_''
'' مرسلين ''رسولوں كو جمع كى صورت ميں بيان كرنے كى وجہ يا تويہ ہے كہ انبياء عليہم السلام كى دعوت ايك ہوتى ہے لہذا كسى بھى پيغمبر كى تكذيب سب كى تكذيب شمار كى جاتى ہے يا پھر اس لئے ہے كہ وہ گزشتہ كسى بھى پيغمبر پر ايمان نہيں ركھتے تھے_پھر فرمايا گيا ہے : ميں تمہارے لئے امين رسول ہوں _
اب جبكہ صورت حال يہ ہے تو پرہيزگارى اختيار كرو ، خدا سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ، كيونكہ ميں راہ سعادت كا رہبر ہوں _''
كيا اب تك تم نے مجھ سے كوئي خيانت ديكھى ہے ؟ اس كے بعد وحى الہى اور تمہارے رب كا پيغام پہنچانے ميں بھى يقينا امانت كو مدنظر ركھوں گا _
يہ نہ سمجھوكہ يہ دعوت الہى ميرے گزراوقات كا ايك ذريعہ ہے يا كسى مادى مقصد كو پيش نظر ركھ كر ايسا كام كر رہا ہوں، نہ، ميں تو ذرہ بھر بھى تم سے اجرت نہيں مانگتا، ميرا اجر تو صرف عالمين كے رب كے پاس ہے_''
پھر وہ ان كے ناشائستہ اعمال اورا ن كى كچھ اخلاقى بے راہروى كى باتوں كو بيان كرتے ہيں اور چونكہ ان كا بڑا انحراف اور ہم جنس بازى تھا لہذا اسى بات پر زيادہ زور دے كر كہتے ہيں : آيا تم سارى دنيا ميں صرف مردوں كے پاس ہى جاتے ہو ''_
يعنى باوجود يكہ خداوند عالم نے اس قدر جنس مخالف تمہارے لئے خلق فرمائي ہے جن سے صحيح طريقے سے شادى كركے پاك و پاكيزہ اور اطمينان بخش زندگى بسركرسكتے ہو ں
خدا كى اس پاك اور فطرى نعمت كو چھوڑكر تم نے خود كو اس طرح كے پست اور حيا سوزكام سے آلودہ كرليا ہے _
''اپنى ازواج كو ترك كرديتے ہو جنھيں خدانے تمہارے لئے خلق فرمايا ہے تم تو تجاوز كرنے والى قوم ہو _''
يقينا كسى روحانى يا جسمانى فطرى ضرورت نے تمہيں اس بے راہروى پر آماوہ نہيں كيا بلكہ يہ تمہارى سركشى ہے جس نے تمہارے دامن كو اس شرمناك فعل كى گندگى سے آلودہ كرديا ہے _
تمہارے كام كى مثال ايسے ہے جيسے كوئي شخص خوشبودار ميوے ،مقوى اور صحيح سالم غذائيں چھوڑكر زہر آلود اور مارڈالنے والى غذائوں كو استعمال كرے يہ فطرى خواہش نہيں بلكہ سركشى ہے
source : www.tebyan.net