آج کل کی ترقی یافتہ دنیا میں۔ ہر طرف سے بے شمار منظر اور نظاروں، آوازاور بو کا حملہ ہمارے حواس پر جاری رہتا ہے۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے احساس پر پوری طرح قابو رکھیں جس پر ہرطرف سے ہر طرح کے بہکانے کے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے یہ تجرباتی اور یہ حملے ہم پر باہر سے اور ورحانی طور پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔
ایک عطر کی خوشبوجدّہ امجدہ کی پرانی یاد دلا سکتی ہے۔ تو ایک طرف آتش بازی اور پٹاخوں کی آواز دماغی خیاہات کوبکھیر دیتی ہے اور کسی لڑائی یا جنگ کی تصویر کشی کردیتی ہے۔ جبکہ ایک خوب صورت لباس سے عاری عورت غیر ضروری گندے خیالات و جذبات کو ابھار سکتی ہے۔
جب ہمارے حواس فحاشی، عیاشی، جرائم عامیانہ اورغیر اخلاقی مناظر کو دیکھتے ہیں تو اگرچہ ہم خود ان چیزوں میں عملی طور پر حصہ نہیں لے رہے ہوتے ہیں لیکن ایک حد تک اپنی معصومیت کے درجہ کو کم تو کر ہی دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن کی ایسی غیر معصومانہ حرکت کو یاد کرتے ہیں یا یاد آجاتی ہے تو یہی یاد جو کبھی معصومیت کے جذبے کو ٹھیس پہونچاتی تھی اس خاص موقع پر اب معمولی اور روز مرّہ کی چیزیں بن جاتی ہیں۔
اسلامی قوانین میں یہ نہ صرف والدین کی ذمہّ داری ہے کہ وہ معصوم بچوں کو ان غیر اخلاقی حرکات اور مناظر سے بچائیں۔ بلکہ جو بالغ و عاقل ہوچکے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو اس سے دور رکھیں اور اگر وقت پر اپنے آپ کو اس ماحول سے نہ بچا سکے تو آخیر میں ہم ایک روحانی مریض بن کر رہ جائیں گے۔
لہٰذا یہ صاف اور ظاہر ہوگیا کہ فلسفہٴ حجاب وقار، عزت نفس اور پاکیزگئ کردار کو قائم رکھتا ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبہ پر اثر انداز ہے نہ صرف لباس پر۔ ہمیں اپنی نظروں پر قابو رکھنا چاہیئے اور اپنے مخالف صنف پر بری نظر کبھی نہ ڈالنا چاہئیے اور ہمارا لباس ایسا ہونا چاہئیے کہ اس سے وقار اور احترام ظاہر ہو۔
source : www.tebyan.net