سلام علیکم، کیا قرآن مجید کی آیات میں تاریخ اور تاریخ نویسی کی اہمیت کی طرف کوئی اشارہ کیا گیا ہے؟ جواب مثبت ھونے کی صورت میں سورہ یا سوروں کے نام اور آیات کا نمبر بھی لکھئے۔
ایک مختصر
تاریخ کے اہم حصوں کو نقل کرنا اور ان کے بارے میں آگاہی پیش کرنا قرآن مجید کے تربیتی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف مناسبتوں کے بارے میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ مواقع، جن کے بارے میں قرآن مجید میں کافی تاکید کی گئی ہےان میں پیغمبروں (ع) کی زندگی کے حالات ہیں، ان میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱۔«نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْباءِ الرُّسُل ،[1] " ہم قدیم رسولوں کے واقعات آپ سے بیان کر رہے ہیں۔"
۲۔ "وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْك" . وَ رُسُلاً قَدْ قَصَصْناهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْك، [2] " آپ سے پہلے ہم نے انبیاء ع بھیجے ہیں، ان میں سے بعض کے قصے آپ کے لئے بیان کئے ہیں اور بعض کے قصے بیان نہیں کئے ہیں۔"
۳۔ . وَ رُسُلاً قَدْ قَصَصْناهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْك، [3] " کچھ رسول ہیں جن کا تذکرہ ہم نے نہیں کیا ہے۔"
۴۔ لَقَدْ كانَ في قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ ما كانَ حَديثاً يُفْتَرى وَ لكِنْ تَصْديقَ الَّذي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصيلَ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.[4] " یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے گڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے کی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر شے کی تفصیل ہے اور یہ صاحبان ایمان قوم کے لئےھدایت اور رحمت بھی ہے۔"
[1] هود، 120.
[2] غافر،۸۷
[3] نساء، 164.
[4] یوسف، 111.
تفصیلی جوابات
تاریخ کے اہم حصوں کو نقل کرنا اور ان کے بارے میں آگاہی پیش کرنا قرآن مجید کے تربیتی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے کہ مختلف مواقع پر مختلف مناسبتوں کے بارے میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ مواقع، جن کے بارے میں قرآن مجید میں کافی تاکید کی گئی ہےان میں پیغمبروں (ع) کی زندگی کے حالات ہیں، کیونکہ پیغمبروں (ع) کی زندگی کے حالات بیان کرنے میں تربیتی پہلومضمر ہے، قرآن مجید کے قصے پیغمبروں (ع) کی زندگی کے حالات سے لئے گئےہیں۔
قرآن مجید کے قصے با مقصد ھوتے ہیں، نہ سر گرمی اور غافل کرنےکے وسیلے۔ کسی قصے کو نقل کرنے میں قابل توجہ نکات اور عبارتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے، کہ ان میں قدر و منزلت کا پہلو ھوتا ہے۔ بہترین قصہ وہ ہے جو آرام و آسائش کا سبب بنے۔ قرآن مجید کے تمام قصے حقائق پر مبنی ہیں اور ان میں ایک قسم کا قابل قبول برہان اور دلیل ھوتی ہے۔
قرآن مجید میں تاریخ اور اس کی اہمیت کے بارے میں کثرت سے آیات پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے بعض آیات کی طرف ہم ذیل مین اشارہ کرتے ہیں:
«نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْباءِ الرُّسُل ،[1]
۱۔«نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْباءِ الرُّسُل ،[2]
۲۔ "وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْك" [3]
۳۔ وَ رُسُلاً قَدْ قَصَصْناهُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْك، [4]
۴۔ قَدْ كانَ في قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ ما كانَ حَديثاً يُفْتَرى وَ لكِنْ تَصْديقَ الَّذي بَيْنَ يَدَيْهِ وَ تَفْصيلَ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ.[5]
اور اس کے علاوہ دوسری آیات میں بھی تاریخ اور اس کی اہمیت کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے۔
البتہ ماضی کے افراد اور اقوام، جو حقائق کی طرف منہ موڑ نے کی وجہ سے فنا و نابودی کی راہ پر گامزن ھوئے ہیں، کے آثار کا مشاھدہ کرنا ان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے کافی موثر ھوتا ہے، کیونکہ یہ آثار حقیقت کو محسوس اور لمس کے قابل بناتے ہیں۔
شائد اسی وجہ سے آیہ شریفہ:" قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ»[6] میں جملہ " انظروا" (دیکھو) سے استفادہ کیا گیا ہے ،نہ " تفکروا" (غور کرو) سے[7]
لہذا قرآن مجید کی کئی آیات میں زمین میں گردش و سیاحت کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
۱-" قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ"[8]، " آپ ان سے کہدیجئے کہ روئے زمین میں سیر کرو اور پھر دیکھو کہ مجرمین کا انجام کیسا ھوا ہے"۔
۲۔ -" قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ"[9] " آپ کہدیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرواور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے۔"
۳۔" أَ فَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها ..."[10] " کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ ان کے پاس ایسے دل ھوتے جو سمجھ سکتے"۔
یہ آیت کہتی ہے: یہ زمین میں معنوی سیر و سیاحت، انسان کے دل کو دانا اور انسان کی آنکھ کو بینا اور کان کو شنوا بنا دیتی ہے اور جمود و سستی سے نجات دلاتی ہے۔
[1] ۔ قرائتی، محسن، تفسیر نور، ج ۵ ص ۳۹۸ مرکز فرھنگی درسھایی از قرآن۔ تھران، طبع یازدھم، ۱۳۸۳ش۔
[2] هود، 120.
[3] غافر،۸۷
[4] نساء، 164.
[5] یوسف، 111.
[6] انعام، 11.
[7] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج ۵، ص ۱۶۳، دار الکتب الاسلامیۃ۔ تھران، طبع اول، ۱۳۷۴ش۔
[8] نمل ۶۹.
[9] عنكبوت، 20.
[10] حج، 46.
source : www.islamquest.net