جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خیالی ادراکات مجردات مثالی کے اقسام میں سے ہیں, جو حجم اور اشکال رکھتے ہیں لیکن وہ تقسیم ہونے کے قابل نہیں ہیں کیا اس لحاظ سے کہ خیالی ادراکات سہ گانہ حجم رکھتے ہیں یہ نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حجم بھی رکھتے ہیں؟ اور اگر وہ جسم رکھتے ہیں توکیا وہ مکان بھی رکھتے ہیں اور بنیادی طور پر اگر مکان حجم سے لیا جاتا ہے تو اس لحاظ سے خیالی ادراکات اور مادی اور جسمانی موجودات کے درمیان کیا فرق ہے؟
ایک مختصر
عالَم مثال میں موجود صورتیں اور صور خیالی کےلیے مادی مکان متصور نہیں ہے، اگر چہ وہ شکل اور حجم رکھتے ہیں، کیونکہ ھر جنس کے احکام اس جنس سے ہی مخصوص ہوتے ہیں ، اور جن احکام کوموجودات کی جانب نسبت دی جاسکتی ہے وہ ان موجودات کے متحقق ہونے کے طرف کے تابع ہوتے ہیں اگر ان کا ظرف تحقق ذھن ہو تو ان کے احکام ذھنی ہوتے ہیں اور اگر ان کا ظرف تحقق عالَم خارج ہو تو احکام خارجی اور مادی ہوتے ہیں ، اور اگر موجود ایک مثالی موجود ہو تو اس کے احکام مثالی ہیں جن میں سے ایک مکان ہے۔
تفصیلی جوابات
مکان جسم کے تابع ہے ، جہاں پر جسم مادی ہوگا اس کا مکان بھی مادی ہوگا اور جہاں جسم مادی نہیں ہوگا اس کا مکان بھی مادی نہیں ہے مثال کے طور پر عالم مثال[1] کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ صور مثالیہ مکان رکھتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ مکان نہیں رکھتے ہیں۔ اگر مکان سے مراد مادی مکان ہے تو عالم مثال کے صورمکان نہیں رکھتے ہیں اور مادی مکان کو مثالی صور کی جانب نسبت نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ مادہ سے خالی ہیں اور اگر مکان سے مراد غیر مادی مکان ہے تو صور مثالیہ مکان رکھتے ہیں اور ان کا مکان بھی ان کی مانند مثالی ہے ۔
افلاطوں اور فلسفہ کے قدماء اور بزرگوں ، نیز اھل ذوق اور شہود کے متالھین کا یہ نظریہ ہے کہ عالم مثال کے موجودات ایک ایسے وجود سے قائم ہیں کہ جو مکان یا جہت مادی نہیں رکھتے ہیں اور جو صور عالم مثال میں ہیں وہ مکان اور جہات سے پاک اوروہ ایک خاص قسم کا تجرد رکھتے ہیں نیز وہ شکل اور مقدار کے لحاظ سے ایک خاص قسم کا جسم بھی رکھتے ہیں [2]
لیکن ان کے مکان کی حقیقت اور ماھیت کے بارے میں مختلف آراء اور نظریات موجود ہیں جن میں تین سب سے اھم ہیں:
۱۔ بعض حضرات جیسے متکلمین مکان کے خارجی وجود کے منکر ہیں وہ اس مکان کو وھمی حجم جانتے ہیں۔ وہ اسے ایک توھماتی جوف جانتے ہیں جس کو جسم نے بھر دیا ہے۔
۲۔ بعض اس کے قائل ہیں کہ مکان وجود خارجی رکھتا ہے جو واقعی ہے۔ یہ حسی اشارہ کے قابل ہے جیسے کہ ہم کہتے ہیں یہاں بیٹھو ، وہاں بیٹھو، جس میں یہاں اور وہاں اشارے ہیں اورجو حسی اشارے کے قابل ہے وہ معدوم نہیں ہے۔ اس نظریہ کے قائلیں کی بھی دو قسمیں ہیں:
الف: مشائیوں کا نظریہ یہ ہے کہ مکان حاوی کی سطح باطن سے عبارت ہے اور جو ظاھری سطح سے متصل ہے وہ "محوی" ہے مثال کے طور پر ایک برتن یا ایک گلاس جس کے اندر پانی ہے اس برتن کی ایک ظاھری سطح ہے اور ایک باطنی سطح ہے برتن کی ظاھری سطح وہی اس کا باھرکا حصہ ہے۔ اس کی باطنی سطح برتن کے اندر والا حصہ ہے ، برتن کی باطنی سطح پانی کی ظاھری سطح سے متصل ہے ، پس برتن کی باطنی سطح "حاوی" اور پانی کی ظاھری سطح "محوی" ہے یہ شامل ہے اور وہ مشمول ۔ مشائین کے نظریہ کے مطابق پانی کا مکان بھی یہی باطنی سطح ہے اس نظریہ پر بہت سے اشکالات وارد ہیں۔
ب :اشراقی حکماء کا نظریہ جس کی جانب صدر المتالہین بھی مائل ہیں، یہ ہے، کہ مکان کی ماھیت یہ ہے کہ مکان حجم مجرد سے عبارت ہے اور اس کا تجرد مثالی موجودات کے مانند ہے لیکن وہ عالم مثال سے نہیں ہے کیونکہ عالم مثال کے موجودات کے ساتھ اس کا یہ فرق ہے کہ نہ وہ مادہ میں قرارپاتے ہیں اور نہ ہی مادہ ان میں قرار پاتا ہے ، لیکن یہ مجرد پہلو یعنی مکان مادہ میں قرار پاتا ہے اور مادہ بھی اس میں قرار پاتا ہے ، یعنی وہ حقیقت میں مادی پہلو سے متداخل ہوتا ہے ، اسی لئے اشراقی حکماء کہتے ہیں کہ متمکن پورے طورپر مکان میں قرار پاتا ہے ، کیونکہ ہماری فطرت کہتی ہے کہ یہ پوری شیء مکان میں ہے نہ کہ اس کا ایک طرف یا اس کی سطح، مثال کے طور پر ہم یہ نہیں کہتے کہ پانی کا ایک طرف برتن میں ہے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ پورا پانی برتن میں ہے ۔ جب یہ پورا پانی برتن میں ہے جو کہ پورا مکان رکھتا ہے، یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب مکان مجرد پہلو رکھتا ہو تا کہ وہ جسم کے مادی پہلو میں مداخلت کرے ، کیونکہ مجرد موجود کا مادی موجود میں مداخلت کرنا ممتنع نہیں ہے بلکہ دو مادی موجود کی آپس میں مداخلت ممتنع ہے۔[3]
صور علمیہ کے بارے میں ہہ کہا جاسکتا ہے کہ صور علمیہ مادہ سے مجرد اور قوہ اور استعداد سے خالی ہیں چونکہ صور علمیہ اس لحاظ سے کہ ہمارے لئے معلوم ہیں فعلیت رکھتے ہیں، وہ کسی اور چیز کا قوہ اپنے ساتھ نہیں رکھتے ہیں اور اس میں تغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر اس میں ہم تغیر کو فرض کریں، تو نئی صورت سابقہ صورت سے مباین اور اس کے علاوہ ہوگی اور حقیقت میں وہ ایک نیا تصور ہے، جیسے کہ ہم ایک سیب کو اپنے ذھن میں تصور کرتےہیں پھر اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، حقیقت میں یہاں سیب کے دو حصے ایک نیا تصور ہے نہ کہ پھلی صورت دوحصوں میں تقسیم ہوئی ہے پس صورت علمی میں کوئی تبدیلی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ جب کہ اگر صور علمی مادی ہو تو تغیر کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاھیئے اور ہم اس میں مادے کے خواص جیسے تقسیم ہونا ، زمان ، مکان کو اس کی طرف نسبت دے سکیں جو مادہ کے خواص میں سے ہیں اور علم اس حیثیت سے کہ علم ہے نصف ، ثلث وغیرہ میں تقسیم ہونے کے قابل نہیں ہے اور وہ زمان سے مقید بھی نہیں ہے کیونکہ اگر علم مادی ہوتا زمان کے بدلنے کے ساتھ ساتھ صور علمیہ بھی متغیر ہونی چاھیئں ، وہ مکان میں بھی نہیں ہیں کہ ذھن ان کے لئے کوئی مکان تصور کرے۔ [4]
پس صور علمیہ مجرد ہیں اورمادہ نہیں رکھتی ہیں اور اس بنیاد پر فلاسفہ ادراک کو حضور مجرد لمجرد )ایک مجرد کا دوسرے مجرد میں حاضر ہونا( کے طورپر تعریف کرتے ہیں، پس صور علمیہ کے لیے مادی مکان قابل تصور نہیں ہے بلکہ ذھن کو صور متخیلہ کے لیے مکان قرار دیا جاسکتا ہے۔
اشیاء کے احکام، تحقق اشیاء کے ظرف کے تابع ہے اگر کسی شی کا ظرف تحقق عالم خارج ہے تو اس کے احکام خارجی ہوں گے۔ اگر کسی کا ظرف تحقق ذھن ہے تو اس کے احکام بھی ذھنی ہیں لہذا جو بھی حکم ذھنی موجود پر لاگوہوتا ہے اور اس کی جانب نسبت دیا جاتا ہے وہ ذھنی ہے، مثال کے طورپر اگر ایک پانی سے بھرے برتن کو تصور کریں تو جو بھی اس کی جانب نسبت دی جائے وہ ذھنی اور خیالی ہے اور اگر اس کے لیے کوئی مکان فرض کیا جائے تو وہ بھی ذھنی اور خیالی ہوگا۔ پس اگر ادراکات خیالی حجم سہ گانہ لمبائی ، چوڑائی اور گہرائی رکھتا ہو تو یہ حجم بھی خیالی ہوگا۔ جیسے کہ ہم کسی جسم کو لمبائی، چوڑائی اور خاص گہرائی کے ساتھ تصور کریں گے۔ مثال کے طور دماوند کے پہاڑ کو تصور کریں تو اس کے لیے ہم مادی مکان تصور نہیں کرسکتے ہیں اور ذھن کو اس کا مکان نہیں جان سکتے کیونکہ اگر ہم نے اس کے لیے مکان کو نظر میں رکھا تو وہ بھی غیر مادی اور خیالی ہوگا یہ خود ایک دلیل ہے کہ صور خیالی مجرد ہیں پس ہم مکان کی جو بھی تعریف کریں چاہے اس کو سطح باطن حاوی جو محوی کے سطح باطن سے متصل ہےکہ جس کے مشائین قائل تھے۔ یا اسے حجم مجرد کہیں جیساکہ اشراقیون نے تعریف کی ۔ ہمیں سمجھنا چاھیئے کہ صور متخلیہ اور صور مثالیہ کا مادی مکان نہیں ہے البتہ اس کیلئے مثالی مکان کے قائل ہوسکتے ہیں۔
آخر میں اس نکتہ کی یاد آوری ضروری ہے کہ گزشتہ مطالب عالم مثال میں مادہ کے موجود نہ ہونے کے بارے میں مادہ کی اس تعریف کے مطابق ہے جو مورد قبول واقع ہوئی ہے اورعلماء کے درمیان رائج ہے لیکن اگر نوری اجسام کو لطیف اور نوری مادہ جانیں تو اس سے مراد مادہ کے بارے میں ایک دوسری تعریف کو قبول کرنا ہے جو عالم مثال کو بھی شامل ہوجائے۔
اس سلسلے میں مزید مطالعے کے لیےہماری اسی سائت کے سوال: ۱۰۵۴۵ کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
[1] عالَم آدھا مجرد ہے جو عالم عقل " فرشتوں کا عالم یا جبروت" اور علم مادہ کہ جو نہ جواھر عقلانی کے مانند ہیں کہ جو کلی طور پر جسمانی حدود و صفات کے فاقد ہیں اور نہ ہی جسمانی جواھر کے مانند ہے جو پورے جسمانی صفات اور حدود رکھتا ہے ، بلکہ صور مثالیہ کا کوئی بھی مادہ نہیں ہے بلکہ مادہ کے اعراض جیسے رنگ ، شکل اور مقدار رکھتے ہیں۔ ) مصباح یزدی ، آموزش فلسفہ، ج ۲ ص ۱۷۸ ، طبع دوم، شرکت چاپ و نشر بین الملل سازمان تبلیغات اسلامی، پاییز ۱۳۷۹۔
[2] جوادی آملی، رحیق مختوم ، پہلی جلد کا چوتھاحصہ ، جلد ۱/ ص ۲۰۹ ، نشر اسراء ۱۳۷۵۔ ھ۔
[3] شیرازی ، سید رضی ، درسھای شرح منظومہ حکیم سبزواری، ج ۲، ص ۱۵۶۳ ۱۵۶۷ طبع اول ، موسسہ انتشارات حکمت، تھران، زمستان ، ۱۳۸۳۔
[4] طباطبایی ، سید محمد حسین، ، نھایۃ الحکمۃ، ص ۳۹۴ ، موسسہ نشر اسلامی قم ۱۴۲۲۔ ق۔
source : www.islamquest.net