علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ہے؟
ایک مختصر
عرفانی لغت میں لفط حجاب اور پردہ کا کافی استفادہ کیا جاتا ہے- معلوم ھوتا ہے کہ اہل عرفان نے اس اصطلاح کو قرآن مجید اور احادیث سے لیا ہے- قرآن مجید، خدا وند متعال کے انبیاء{ع} سے رابطہ کو ہمیشہ لفظ " حجاب" سے بیان کرتا ہے-[1] چنانچہ کافروں کے قول سے بھی نقل کرتا ہے کہ وہ انبیاء {ع} کے مطالب کو نہ سمجھنے کی دلیل { اپنے دلوں میں} حجاب کے وجود کو بیان کرتے ہیں-[2] روایتوں میں بھی خدا اور مخلوقات کے درمیان حجاب کے عنوان سے مختلف چیزیں متعارف کرائی گئی ہیں، کہ ان میں سے ہم ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱-بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پروردگار اور اس کی مخلوق کے درمیان ستر ہزار{۷۰۰۰۰} حجاب ہیں-[3]
۲-بعض روایتوں میں گناہ اور معصیت کو خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان حجاب کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے-[4]
۳-بعض احادیث مخلوقات کی بنیادی خلقت کو حجاب جانتی ہیں-[5] ایسا لگتا ہے کہ اہپل عرفان نے، اس قسم کی روایتوں سے استفادہ کرکے، " عام حجاب" کی اصطلاح پیش کی ہے، مثال کے طور پر محی الدین عربی کے ایک کلام سے بظاہر ان کا مراد یہ معلوم ھوتا ہے کہ ہر ایک چیز کا وجود اس کا حق سے "حجاب" ہے اور اسے " عام حجاب" کا نام رکھا گیا ہے-[6] لیکن یہ مطلب کہ ہر ایک چیز کا وجود اس کا حق سے حجاب ہے، دوسرے عرفا کے کلام میں بھی نظم و نثر کی صورت میں پایا جاتا ہے:
حافظ شیرازی کہتے ہیں:
تو خود حجاب خودی حافظ از میان بر خیز
خوشا کسی کہ در این راہ بی حجاب رود
{ حافظ تم خود اپنا حجاب ھو درمیان سے اٹھنا، وہ خوش قسمت ہے، جو اس راہ میں بے حجاب چلتا ہے}
ابو سعید ابوالخیر بھی یوں کہتے ہیں:
دی شانہ زد آن ماہ خم گیسورا
برچہرہ نہاد زلف عنبر بورا
پوشید بدن حیلہ رخ نیکورا
تاہر کہ نہ محرم نشناسد اورا[7]
{ کل رات کو اس چاند نے اپنے زلف خم میں کنگھی کی، عنبر کی خوشبو سے مہکتے اپنے زلفوں کواپنے چہرہ پر سنورا، حیلہ و بہانہ نے نیک چہرے کو چھپا دیا تاکہ ہر نا محرم اسے نہ پہچان سکے}
بعض اہل معرقت اس مطلب کی وضاحت میں کہتے ہیں:" چونکہ حق کے مظاہر وشئوں خلق کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور حق نے اس صورت میں تجلی کیا ہے، پس ان صورتوں میں سے ہر ایک حق کے حجاب ہیں اور حق ظاہر نہیں ھوتا ہے مگر یہ کہ یہ صورتیں فانی ھو جائیں اور وہ پردے ہٹ جائیں- پس جو مخلوق کے نور ہیں اور ان کے ظہور ان کے اپنے حجاب ہیں، جب وہ حجاب سے باہر آتے ہیں، تو حق تک پہنچتے ہیں، اور یہی فنا فی اللہ کے معنی ہیں-[8]
لیکن " خاص حجاب" کے معنی کو " عام حجاب" سے مقابلہ کرنے کے طریقہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے، یعنی گناھوں کے مانند حجاب یا دوسرے ستر ہزار تک شمار کئے گئے حجابوں کو " عام حجاب" کے عنوان سے پیش کیا جاسکتا ہے-
[1] -«وَ ما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْیاً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُولاً فَیُوحِیَ بِإِذْنِهِ ما یَشاءُ إِنَّهُ عَلِیٌّ حَکیمٌ»، شوری، 51.
[2] - «وَ قالُوا قُلُوبُنا فی أَکِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونا إِلَیْهِ وَ فی آذانِنا وَقْرٌ وَ مِنْ بَیْنِنا وَ بَیْنِکَ حِجابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنا عامِلُون »، فصلت، 5.
[3] -«قَالَ بَعْضُ الزَّنَادِقَةِ لِأَبِی الْحَسَنِ ع لِمَ احْتَجَبَ اللَّهُ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ الْحِجَابَ عَنِ الْخَلْقِ لِکَثْرَةِ ذُنُوبِهِمْ فَأَمَّا هُوَ فَلَا تَخْفَى عَلَیْهِ خَافِیَةٌ فِی آنَاءِ اللَّیْلِ وَ النَّهَار»، قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، ج2، ص 10، دار الکتاب، قم، طبع سوم، 1404ق.
[4] -«أَنَّکَ لا تَحْتَجِبُ عَنْ خَلْقِکَ إِلَّا انْ تَحْجُبَهُمُ الْأَعْمالُ السَّیِّئَةُ دُونَکَ»، ابن طاووس، على بن موسى، الإقبال بالأعمال الحسنة فیما یعمل مرة فى السنة، ج 1، ص 158، دفتر تبلیغات اسلامى - قم، چاپ اول، 1376ش. قَالَ بَعْضُ الزَّنَادِقَةِ لِأَبِی الْحَسَنِ ع لِمَ احْتَجَبَ اللَّهُ فَقَالَ أَبُو الْحَسَنِ ع إِنَّ الْحِجَابَ عَنِ الْخَلْقِ لِکَثْرَةِ ذُنُوبِهِمْ فَأَمَّا هُوَ فَلَا تَخْفَى عَلَیْهِ خَافِیَةٌ فِی آنَاءِ اللَّیْلِ وَ النَّهَار. (ابن بابویه، محمد بن على، علل الشرائع، ج1، ص 119، کتاب فروشى داورى - قم، چاپ: اول، 1385ش / 1966م.)
[5] -«خَلْقُ اللَّهِ الْخَلْقَ حِجَابٌ بَیْنَه و بینهم»، ابن بابویه، محمد بن على، التوحید، ص 35، جامعه مدرسین، قم، طبع اول، 1398ق.
[6] -«إن ربک واسع المغفرة أی واسع الستر فما من شی ء إلا و هو مستور بوجوده و هو الستر العام فإنه لو لم یکن ستر لم یقل عن الله هو و لا قال أنت فإنه ما ثم إلا عین واحدة فأین المخاطب أو الغائب فلهذا قلنا فی الوجود إنه الستر العام ثم الستر الآخر بالملائم و عدم الملائم فهو واسِعُ الْمَغْفِرَةِ و هی حضرة إسبال الستور و قد تقدم الکلام علیها فی هذا الباب»، محى الدین ابن عربى، الفتوحات المکیة، ج 4، ص 257، دار صادر، بیروت.
[7] - حسن زاده آملى، حسن، ممد الهمم در شرح فصوص الحکم، ص، 54، وزارت ارشاد، تهران، طبع اول، 1378ش.
[8] - ممد الهمم در شرح فصوص الحکم، ص260.
source : www.islamquest.net